صبح سے اس نے اپنا موبائل نہیں دیکھا تھا تو معلوم نا ہو سکا کہ اس کا خواب مکمل ہوا یا نہیں ۔ لیکن جیسے ہی وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اندر آئ اور “خواب” والی پینٹنگ پر جب نگاہ پڑی تو جلدی سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھانے کیلیے دوڑی اور اس کے قریب پہنچ کر لرکھڑا کر گر گئ ۔ تکلیف تو ہوئ لیکن وہ قابو پاگئ اور موبائل آن کر کے میسجز پڑھنے لگی ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴
دروازہ کھول کر ضمان صاحب اندر آے تو دیکھا کہ حریم بیڈ کے پاس قالین پر بیٹھی رو رہی ہے تو گھبرا کر اس کی جانب گئے اور حریم کو اٹھا کر بیڈ پر بٹھا کر ساتھ لگا لیا ۔ جس سے حریم کے رونے میں شدت آگئ تو وہ مزید گھبرا گئے اور بولے ” حریم بیٹا حورعین اور فرقان تو مزاق کر رہے تھے ۔ دیکھنا میں ابھی جا کر ان کی خبر لیتا ہوں ۔ میری پھول جیسی بیٹی کو رلا دیا ۔” ضمان صاحب کو لگا کہ حریم فرقان اور حورعین کی باتوں کو دل پر لے گئ ہے ۔ ” نہیں ابو جان ان کو کچھ مت کہیئے گا ۔”اور ساتھ میں وہ ہنس دی ۔ ” نہیں نہیں میں ان کو ضرور ڈانٹوں گا ۔” اس کو بڑے پیار سے خود سے الگ کر کے آنسو صاف کیے تو وہ بولی ۔ “ابو جان میں واقعی ان کی وجہ سے نہیں رو رہی ۔ ” “پھر کیوں رو رہی ہیں آپ ۔ ” انہوں نے فکرمندی سے پوچھا ۔”پاوں میں کوئ پروبلم ہے کیا ؟” ” نہیں ابو جان بلکہ اب تو ساری پروبلمز ختم ہو گئ ہیں ۔ ابو جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جان میرا خواب ۔ ۔ ۔ ۔ میرا خواب پورا ہو گیا ۔” اور وہ ایک مرطبہ پھر سے ان کے ساتھ لگ کر رو دی ۔ “اس کا مطلب کہ میریبیٹی کے سٹوڈنٹ کا آرمی میں ایڈمیشن ہو گیا ہے ۔” ” ابو جان ایک سٹوڈنٹ نہیں سات ۔” اب اس نے اپنے آنسو صاف کیے ۔ انسان کے آنسو ہی اس کے احساسات کی زبان بن جاتے ہیں ۔ چاہے موقع خوشی کا ہو یا غم کا ۔ “چلیں اب آپ اٹھیں اور الله کا شکریہ ادا کریں۔ اور چونکہ اب آپ حورعین کی بات پر ناراض نہیں ہیں تو میں اس معاملے میں آپ کی ہاں سمجھ سکتا ہوں ۔” انہوں نے اتنا سنجیدہ ہو کر کہا کہ حریم نہ ہی ناراضگی کا اظہار کر سکی اور نہ ہی منع کر پائ ۔ ” جیسے آپ چاہیں ابو جان ۔” اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلی گئ ۔ آج اس کی دعا تشکر بھری اور طویل ہونے والی تھی ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴✴
حسن کتنی دیر سے ریسٹورنٹ میں حریم کا انتظار کر رہا تھا اس کے ساتھ حورعین بھی بیٹھی تھی۔ “آجائیں گی ْپی ۔اور نہیں آپ کو کھا جائیں گی جو اتنا ڈر رہے ہیں کپتان ۔” حورعین کا جسن کی حالت کو دیکھ ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا جبکہ حسن نے اس کو مصنوعی گھوری سے نوازا ۔اتنےمیں دروازے سے حریم داخل ہوتی دکھائ دی ۔ “آپی آگئیں۔” حورعین بولی کیونکہ حسن اس کی پشت والی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس زاویے پرکہ حریم کو بھی وہ نظر نہیں آیا ۔ حریم کو لگا کہ حورعین اکیلی بیٹھی ہے تو اس کے قریب آکر کہا ” حورعین آپ نے کہا تھا کہ کسی دوست سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور وہ کہتے کہتے رک گئ جب اس نے حسن کو وہاں بیٹھا دیکھا ۔” آئیں نہ آپی۔”حورعین نے مسکرا کر حریم کو اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا ۔ آج اس نے ڈارک گرین کلر کا گٹنوں تک آتا بڑے گھیرے والا فراک اور ساتھ میں چوڑی پاجامہ پہنا تھا ۔ سر پر سکارف اسی طرح تھا جیسا ان کی پہلی ملاقات میں تھا ۔ اور ایک چیز کی خوشگوار کمی تھی وہ تھی حریم کی سٹیکس۔آج بھی وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی لیکن پہلے سے کافی بہتر تھی۔ حورعین کے ساتھ بیٹھتے ہوے بولی ” حورعین مجھے لگا آپ کی کوئ سکول فیلو ( لڑکی)سے ملنا ہو گا مجھے۔” “جی اور آپ کو یہ بھی لگا ہو گا کہ آپ کو اس کو کنونس کرنا ہو گا کہ وہ فائنل میں میری ہیلپ کرے۔”حورعین نے خفگی سے کہا ۔”بالکل مجھے یہ ہی لگا تھا ۔” اور اس دوران وہ دونوں سراسر حسن کو فراموش کر رہی تھیں ۔ ” دراصل آپی آپ کو صحیح لگا میں یہاں اپنی فرینڈ کی ہلپ ہی لینے آئ ہوں ۔” “اوہ ہ۔ ۔ ۔ ۔ امپریسو ۔” حریم نے ناک سے مکھی اڑائ ۔ “وہ دیکھیں اینٹرینس کے پاس جو ٹیبل ہے وہاں میری دوست بیٹھی ہے جو کہ مجھے ہی ویو کر رہی ہے سو آئ ایم گوینگ ۔ انجواے یور لنچ ۔” یہ کہہ کر حریم کو کچھ کہنے کا موقی دیے بغیر حورعین اپنی دوست کی جانب چل دی ۔ حسن نے بھی اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ویٹر کو بلوا لیا ۔وہ حریم کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا جبکہ وہ اسی کو دیکھ رہی تھی ۔ ” جی دو سوفٹ ڈرنکس اور دو چائینیز رائس کر لیں ۔ حریم آپ بھی چائینیز کے ساتھ ٹھیک ہیں نہ ۔” حریم کو اب اس کے ایکسپریشنز پر ہنسی آرہی تھی کیونکہ اتنا تو اس کو پتا چل ہی گیا تھا کہ یہاں پر اسے حسن سے ہی ملنے بلوایا گیا ہے ۔ ” یس آئوڈلایک تو ۔” جب ویٹر آڈر نوٹ کر کہ چلا گیا تو ان کے ٹیبل پر خاموشی چھا گئ ۔ ” حسن آپ کہہ دیں جو آپ نے کہنا ہے ۔” حریم نے سنجیدہ ہو کر کہا تو وہ بولا ” آپ غصے میں کیا کرتی ہیں ؟ ” حسن نے پوچھا ۔ حریم کےلیے یہ سوال غیر معمولی تھا تو فقط جی کہہ پائ ۔ ” غصہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ہے کہ آپ غصے میں کیا کرتی ہیں ؟” اب حریم نے حسن کی نظروں کا تعاقب کیا تو بولی ۔” جب کوئ شخص کوئ ایسی بات کرے جو مجھے نہیں پسند توپہلے تو میں اس پر چلاتی ہوں اور پھر اگر آس پاس کوئ کانچ ہو تو وہ انسان اپنا سر بچاے ۔” حریم نے اسے ڈرانے کی بھرپور کوشش کی تو وہ بولا “بھئی رہنے دیں میں کچھ نہیں کہہ رہا۔” اور جس طرح حسن نے یہ کہا حریم ہنس دی جسے دیکھ کر وہ بھی ہنس دیا ۔ ” جی ” “جی تو ۔ ۔ ” دونوں اکٹھے بولے اور پھر ہنس دیے ۔ “حریم میں مما کو آپ کے گھر بھجوانا چاہتا ہوں ۔ آئ وانا میری یو ۔” حسن نے اپنے دل کی بات کہ دی ۔ حریم پہلے تو پانچ چھ لمحے خاموش رہی پھر بولی ۔”میں مکمل نہیں ہوں ، میرے ساتھ آپ کی لائف نارمل نہیں ہو گی ۔” حریم چند لمحے رکی پھر بولی “آپ یقین کریں حسن جب میں ٹین ایجر تھی تو باقائدہ دعا کیا کرتی تھی کہ میری شادی فوجی سے ہو ” ساتھ میں وہ زخمی سا ہنس د ی۔ “لیکن جس طرح اب میں فوج میں جا نہیں سکتی ۔ کیسے ایک جوان سے شادی کر لوں ؟” حسن جو بغور اس کو سن رہا تھا بولا ” کیا صرف یہ ہی وجہ ہے ؟”
” آپ کو لگتا ہے یہ وجہ چھوٹی ہے ؟”
” میں نے جو پوچھا وہ بتائیں۔ کیا صرف یہ ہی ایک وجہ ہے ؟”
“ہاں !”
“تو پھر سنیں ۔ میری نظر میں یہ کوئ جواز نہیں ہے ۔ جہاں تک رہی بات مکمل ہونے کی تو وہ اللہ کی ذات کے علاوہ کسی کی نہیں ہے ۔ اس کمپلیکشن سے نکل آئیں آپ ۔ ” حریم نے سر جھکا لیا ۔ “Stop thinking of yourself as disabled ” حریم نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا ۔ ” because you are differentially abled ” اب کی بار حسن نے مسکرا کر جواب دیا تو حریم کی آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی جسے اس نے بڑی مشکل سے قابو میں کیا ۔
“حریم مجھے آپ کی شخصیت نے انسپائر کیا ہے نا کہ آپ کی ظاہری حالت نے ۔” اتنے میں ان کا کھانا سرو کر دیا گیا ۔ “آپ اچھے انسان ہیں کیپٹین حسن ۔” حریم نے تعریف کی تو بولا ۔ “جی اور میں جہان سکندر کی طرح باتیں بھی کرتا ہوں ۔” شوخی سے مسکرا کر بولا ۔ تو دونوں ہنس دیے ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴✴✴✴
پانچ سال بعد
میجر حسن نے گھر میں قدم رکھے تو سامنے ہی تین سالہ حنان اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلتا ہوا نظر آیا ۔ ساتھ ہی حورعین بھی تھی جو کہ اپنے بھانجے کے ساتھ مستیاں کرنے میں مصروف تھی ۔ حنان کی بظر جب اپنے بابا جان پر پڑی تو دوڑتا ہوا اس سے لپٹ گیا ۔ حورعین نے بھی دیکھا تو سلام کیا ۔ ” السلام و علیکم بھائ ۔ آپ نے بتایا ہی نہیں ۔ ”
“بتا دیا ہوتا تو اپنی بہن کا کھلا ہوا منہ کیسے دیکھ پاتا۔” حورعین نے جلد ہی منہ بند کیا اور مصنوعی ناراضگی سے بولی ” اور حریم آپی کو دیکھو انہوں نے بھی نہیں بتایا کہ آپ آرہے ہیں ۔”
” وہ اس لیے کیونکہ اس کو خود بھی نہیں پتا کہ میں آرہا ہوں ۔ دراصل سائٹ پر ہماریاچھی کارگردگی کو دیکھتے ہوے سر نے کچھ دنوں کیلیے لیو دی ہے ۔” حسن نے جواز دیا ۔
“مطلب کہ حریم آپی کا بھی کھلا ہوا منہ دیکھنے کو ملے گا ۔” حورعین ہنستی ہوئ دوڑ کر اندر چلی گئ تاکہ حسن کیلیے پانی لاسکے اور حسن حنان کو اٹھا کر اندر ڈاکٹر مریم سے ملنے چلا گیا ۔
✴✴✴✴✴✴✴
“جی تو کلاس جو ٹیسٹ میں نے دیا ہے میرے خیال سے آپ کو اس کیلیے کافی وقت درکار ہے اور آج سے ٹھیک تین دن بعد آپ کا ٹیسٹ ہو گا ۔ ” حریم نے اپنی چیزیں میز پر سے سمیٹیں اور پھر بولی ۔”Any question class”
” میم مجھے ایک سوال پوچھنا ہے ” عدینہ نے ہاتھ کھڑا کر کے اجازت چاہی ۔ ” جی ”
” Mam how does it feel ,I mean being an amputee ؟”
اس کے اس سوال پر کئ طلبہ نے مڑ مڑ کر اس کو دیکھا کیونکہ ان کیلیے یہ موضوع غیر متوقع تھا ۔ کچھ کو تو معلوم بھی نا تھا کہ حریم کے ساتھ حادثہ ہو چکا ہے ۔ حریم نے پہلے چند لمحے سوچا پھر بولی تو نہایت ٹھرے ہوے لہجے میں ۔” I feel normal ” ساتھ مسکرا دی جس سے عدینہ کو تھوڑا اعتماد ملا ۔ ” میں صبح نارمل لوگوں کی طرح اٹھتی ہوں ۔ نارمل بیوی , بہن , بیٹی اور ماں ہوں ۔ اور میرا بیٹا بھی مجھے نارمل بچوں کی طرح تنگ کرتا ہے (کلاس ہنس دی ) جہاں تک رہی بات Amputee کی تو میرے لیے بس تھورا سا چینج ہے وہ ایسے کہ صبح آپ لوگ ایک جرابوں کا جوڑا پہنتے ہو مجھے زیادہ پہننے پڑتے ہیں ۔” سب پھر سے ہنس دیے ۔ ” One more thing being an amputee is not a disease neither disability ” وہ لمحے بھر کو رکی پھر بولی ” It is a condition ” اور مسکرا دی ۔ سب مسکرا دیے ۔ “I am not disabled i am differently abled ۔” اتنا کہہ کر حریم باہر آبے لگی تو سب طلبہ پیچھے سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں بجانے لگے ۔ حریم نے مسکرا کر ان کو بیٹھنے کا کہا اتنے میں بیل ہو گئ اور سب باہر آگئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوے حریم نے موبائل آن کیا تو حورعین کا میسج آیا ہوا تھا ۔
” گھر میں آپ کےلیے سرپرائز ہے ۔ ”
“اور وہ کیا ہے ؟”
” سرپرائز بتایا نہیں جاتا ” ساتھ ہی ریپلاے آگیا ۔ حریم مسکرا دی ۔
“ہاں اگر آپ کو جلدی ہے جاننے کی تو جلدی سے گھر آجائیں ۔ ” پھر سے حورعین کا میسج آیا ۔
” میں آرہی ہوں ۔”
“گریٹ ”
جب گاڑی گھر کے لان میں رکی تو حریم کو حورعین دور سے ہی لان میں ٹہلتی ہوئ نظر آئ ۔ اس کے پاس جا کر سلام کیا تو بولی “آپی آئ ایم سو سوری آپی ” حورعین نے اداکاری شروع کر دی ۔
“ہوا کیا ہے ؟” آب حریم پریشان ہونے لگی ۔
“میں نے بہت کوشش کی کہ آپ کے سرپرائز کو ویسے ہی دکھاوں جیسا آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ اپنی پہلی والی حالت میں نہیں ہے ۔” حورعین نے سر جھکا کر کہا ۔ ” حورعین اب تم مجھے تنگ کر رہی ہو ۔ سچ سچ بتاو کچھ ہوا ہے کیا ؟” ” آپ خود اپنے کمرے میں دیکھ لیں۔”
حورعہن نے مزید سر جھکا لیا ۔ حریم لمبے لمبے قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا تو حسن بیڈ پر سو رہا تھا ۔ اتنے میں میسج ٹون بجی تو کھول کر دیکھا ۔ “میں نے تو کہا تھا کہ پہلی والی حالت میں نہیں ہیں ۔ جب آے تو یونیفارم میں تھے ۔” ساتھ میں ایک ہنستا ہوا ایموجی تھا ۔ حریم نے بھی خفگی والا ایموجی بھیجا تو میسج آیا ۔
“کیسا لگا سرپرائز ”
“ہمیشہ کی طرح خوبصورت ” حریم مسکرا دی ۔ “اچھا آپی میں گھر جا رہی ہوں چچی جان کی کال آئ تھی ۔ آپ اپنے خوبصورت سرپرایئز کے ساتھ ٹائم سپینڈ کریں ۔ حریم ہنس دی اور بولی ” پوری ڈرامہ ہے یہ ”
“کس سے کہا ؟” حسن اٹھ گیا ۔
“ارے آپ اٹھ گئے ۔ سوری ۔” حریم معزرت کر کے اس کے پاس آکر بیٹھ گئ ۔
” جی جب آپ مجھے ڈرامہ کہہ رہی تھیں تو اٹھنا تو تھا ہی نہ ۔”
“میں آپ کو تونہیں کہہ رہی تھی ۔ وہ تو حورعین سے میسج پر کہا تھا ۔”
“اچھا چلو کر لیا یقین ۔” جیسے کوئ احسان کیا ہو ۔
” کیسے ہیں ؟ ” فکرمندی سے پوچھا ۔
“بالکل فٹ ہوں ۔ اوہ۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا ۔ ” یہ کہہ کر وہ بیڈ سے اٹھا اور اپنے بیگ کی طرف گیا ۔ ” کیا ؟ ”
“مراد ۔ ”
“کون مراد ؟”
“آپ کا سٹوڈنٹ مراد ۔ مجھ سے ملا تھا ۔ جب پتا چلا کہ آپ کی مجھ سے شادی ہو گئ ہے تو یہ خط دیا کہ آپ کو دےدوں ۔”
“کیا ہے اس میں ؟” حریم نے ناسمجھی سے اس خط کو دیکھا ۔
” فکر نہیں کرو لو لیٹر نہیں ہے ” اب وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بالوں میں برش پھیررہا تھا ۔ ” مطلب کہ میجر صاحب آلریڈی پڑھ چکے ہیں ۔”
“بالکل۔” کوئ ندامت کا احساس ہی نہیں ۔
اب وہ آکر دوبارہ بیڈ پر بیٹھا اور ساتھ میں لیپٹاپ آن کر لیا ۔ “آپ نیچے نہیں آرہے ؟ ”
” بس یہ ایک ضروری ای میل کر لوں ۔”
“ٹھیک ۔ میں کھانا لگواتی ہوں ۔ یہ کہہ کر خط لے کر حریم باہر آگئ ۔
“میم ! السلام وعلیکم میجر حسن میرے سینئر ہیں ۔ ان سے معلوم ہوا کہ اب آپ سٹیکس استیعمال نہیں کرتیں ۔ بہت خوشی ہوئ یہ جان کر ۔ میم آپ کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کیونکہ آپ کی وجہ سے میں اس راہ پر ہوں جو مجھے سیدھا جنت میں لے جاے گی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھینک یو ۔
میم آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ ایک جوان کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کیلیے نکلتا ہے ۔ اور آپ نے اینٹ اٹھا دینے کی مثال سے سمجھایا تھا ۔ میں نے وہ مثال اپنی زندگی میں لاگو کی ۔ اور جو خوشی مجھے ہوئ میں نے اس کو دل میں محسوس کیا۔ پھر میرے دل میں اس سے زیادہ کرنے کی چاہ ابھری تو آرمی جوائن کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ میم ہم دہشتگردوں سے مقابلہ کر رہے تھے ۔ میرے سب سے اچھے دوست کو سینے میں چار گولیاں لگیں ۔ وہ میرے ہاتھوں میں تھا جب اس کی روح نے اس کے جسم کو چھوڑا ۔ جب اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کی گئیں ۔ اور اس دوران اس کے چہرے پر سکون اور کچھ پالینے کی خوشی نے میرے تمام سوالوں کے جواب دیدیے ۔ مجھے پتا چل گیا کہ کیوں ایک سپاہی کی نظروں میں یہ عارضی زندگی کوئ معنی نہیں رکھتی ۔ مجھے پتا چل گیا ہے کہ کیوں وہ اس دنیا کی چاہ نہیں کرتا کیونکہ اس جان کے بدلے میں جو زندگی اسے دی جاے گی اس کی تمنا تو انبیاؑ نے بھی کی ہے نا ۔ ایک بار پھر سے شکریہ میم ۔ میری زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت سنوارنے کیلیے ۔”
جب خط ختم ہوا تو حریم کا چہرہ آنسووں سے تر تھا ۔ وہ کچن سے باہر آئ تو اس کی نظر سامنے کھیلتے حنان پر پڑی جو کہ اپنے بابا جان کی ہیٹ پہنے خود کو شیشے میں دیکھ رہا تھا ۔ حریم چلتے ہوے اس کی پاس چلی آئ اس کے گالوں پر بوسے دیے ۔ تو وہ بولا ۔ ” مما جان میں بھی بابا جان کی طرح والا یونیفارم پہنوں گا ۔ مجھے بھی بنوا کر دیں پلیز ۔ حریم نے اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ اب اس کا خواب پورا کرنے والا اس کا اپنا خون تھا ۔
✴✴✴✴✴✴
خود کو اس طرح قبول کریں جیسے آپ ہیں ۔ کیونکہ آپ جیسا اس دنیا میں کوئ اور نہیں ہے ۔ اور ایک اور بات خواب دیکھیں اور ان کو پورا نہیں کر پاے تو کسی اور کے ذریعے پورا کروایں (مسلط مت کروائیں ) بس اپنے خوابوں کو مرنے مت دیں ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴
#ختم_شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...