“آپ نے اپنے بابا کی بات کیوں نہیں سنی تھی۔۔۔” عشال ریان سے پوچھ رہی تھی اس سے زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہاجاتا تھا-
“کیونکہ سننے کیلئے کچھ بچا نہیں تھا۔۔۔” ریان کی آنکھیں سرخ ہورہیں تھیں عشال کو پہلی دفعہ اس سے ﮈر لگ رہا تھا کیونکہ جب بھی وہ اس سے ملی تھی اسکی آنکھیں چمکتی تھیں پر آج اسکی آنکھوں سے اسے خوف آرہا تھا-
“ہم کہاں جائیں گے؟” عشال جان بوجھ کر سوالات کر رہی تھی تاکہ وہ کسی بات پہ ہنس لے اور اس کا خوف دور ہوجائے
“جہاں سے آئے تھے۔۔۔!! ریان نے مختصر جواب دیا تھا- اسکے بعد عشال خاموش ہوگئی تھی اور قرآن کی دل میں تلاوت کرنے لگی تھی- تھوڑی دیر بعد وہ خوابوں کی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔۔۔اور ریان کے جگانے پر ﮈر کے اٹھ گئی تھی-
“گھر آگیا کیا؟ وہ اس سے پوچھ رہی تھی اور اسنے نفی میں سر ہلایا-
“نہیں ہوٹل آیا ہے۔۔فریش ہو کر کھا لیتے ہیں پھر ایک گھنٹہ لگے گا-”
وہ اسکے کہنے پہ گاڑی سے نکل گئی تھی باہر نکلتے ہی وہ کانپنے لگی تھی-
“سردی لگ رہی ہے؟ ریان اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا تھا-
“ہاں۔۔۔عشال نے اثبات میں سر ہلایا تھا تو ریان نے اپنی جیکٹ اتار کے اسے پہنا دی تھی”
“اب ٹھیک ہے؟؟ ریان اسکے گالوں پر پیار کرتے ہوئے بولا تھا-
“آپ کو سردی نہیں لگ رہی؟” عشال معصومیت سے پوچھ رہی تھی-
“ہاہاہا۔۔۔کیا کرسکتا ہوں- اب پیاری سی لڑکی کو تو سردی نہیں لگنے دے سکتا نا۔۔۔۔” ریان ہنستے ہوئے کہ رہا تھا اور عشال بھی ہنس دی تھی۔۔۔!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“وہ دیکھو ﮈی ایس پی ریان شاہ۔۔۔”چار لڑکیاں جو ابھی ہوٹل میں داخل ہوئیں تھیں اسکو دیکھ کر فوراً اسکے پاس چلی آئیں تھیں-
“ہیلو ﮈی ایس پی ریان شاہ۔۔۔کیسے ہیں آپ-” ایک لڑکی نے پہل کی تھی
“الحمدللہ ٹھیک ہوں۔۔۔سوری میں نے آپ لوگوں کو پہچانا نہیں؟؟ ریان حیران تھا کہ یہ لڑکیاں کون ہیں-
“ہمیں چھوڑیں۔۔۔یہ کون ہے پیاری سی لڑکی-”
وہ لڑکیاں اب وہیں بیٹھ کر عشال کا پوچھ رہی تھیں-
“میں اپنے پرسنلز ایرے غیرے سے شیئر نہیں کرتا۔۔آپ یہاں سے جاسکتی ہیں۔۔!! ریان کو انکی باتوں پہ اب غصہ آنے لگا تھا-
“اوہ ہو۔۔ریان تو یہاں کیسے؟؟حسن اچانک سے وہاں برآمد ہوا تھا-
“ہاں حویلی سے آرہا ہوں۔۔۔تم یہاں کیسے؟” ریان حسن سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھ رہا تھا-
“افف یار۔۔۔یہ چاروں۔۔بلکہ پانچوں۔۔۔تیری بھابھی بھی۔۔۔۔۔انکو کھانا کھانا تھا یہاں کا۔۔اسی لیے یہاں لایا۔۔سستا بھی ملتا نا۔۔۔حسن اسکو آنکھ مارتے ہوئے بولا تھا۔۔
ریان کو اب سمجھ آئی تھی کہ یہ چاروں اسکی سالیاں تھیں-
“کیسی ہو منی۔۔۔” حسن عشال کی طرف اب متوجہ ہوا تھا-
“ٹھیک ہوں اور آپ سے بہت ناراض ہوں۔۔۔” عشال معصومیت بولی تو سب کو ہنسی آگئی-
مسز حسن اسکو اچھی طرح جانتی تھیں کیونکہ حسن اسکی باتیں بتاتا تھا-
“کیوں ناراض ہے منی۔۔۔اب تو چاکلیٹس دینے والا دولہا بھی مل گیا ہے-”
حسن ریان کو دیکھتے ہوئے بولا تھا اور اسکی سالیاں ایک ساتھ چیخی تھیں۔۔۔حسن اور ریان کا ایک ساتھ قہقہ بلند ہوا تھا-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔اتنی سی بچی کا دولہا کیسے آسکتا ہے؟؟ حسن کو ہنسی کنٹرول کرنا مشکل لگ رہا تھا-
“یہ رہا دولہا۔۔سامنے بیٹھا ہے اور تم لوگ مجھ سے پوچھ رہی کہ کیسے آسکتا ہے۔۔”حسن ریان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا- اور اسکی سالیاں حیران رہ گئیں تھیں
“منی یہ تمہارا دولہا ہے؟ ایک لڑکی اب عشال سے کنفرم کر رہی تھی
“ہاں!! یہ میرے دولہا ہیں- کیونکہ یہ سب سے زیادہ اچھے اور پیارے ہیں۔۔۔مجھے چاکلیٹس بھی دیتے ہیں- عشال چہک چہک کر ان چاروں کو بتا رہی تھی اور وہ چاروں منہ کھولے اسے سن رہیں تھیں-
“اتنا بڑا دولہا کیسے سنبھالو گی؟ ان چاروں کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا-
“یہ نہیں دولہا منی کو سنبھالے گا۔۔۔تم چاروں تو بچی کو کچا چبا جانے کے موﮈ میں لگ رہیں۔۔حسن کی واپس کھی کھی شروع ہوچکی تھی-
ان سب نے ایک ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھایا تھا- حسن اور ریان اپنی باتوں میں مصروف تھے اور حسن کی بیوی ، سالیاں عشال کو شوہر کی ﺫمہ داریوں کا خیال رکھنے کے طریقے بتا رہیں تھیں-
“عشو چلیں؟ ریان عشال سے پوچھ رہا تھا-
ہاں۔!! وہ دونوں ہوٹل سے باہر نکل آئے تھے-
اتنی چپ کیوں بیٹھی ہے آج عشو؟ ریان ﮈرائیونگ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا-
“کیا بولوں؟ عشال اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی-
“چاکلیٹ کھاؤ گی؟ ہاں کٹ کیٹ کھانی ہے” عشال فوراً بولی تھی چاکلیٹ کیلئے وہ منع کردے ایسا ناممکن تھا-
“مجھے بھی کھلا دو- ریان نے اسکو کھاتے دیکھا تو بولا-
“آپ تو گاڑی چلا رہے ہیں کیسے کھائیں گے؟ عشال کی بات پر اسکو ہنسی آگئی-
“تم کھلادو۔۔! نہیں آپ میری انگلی کاٹ لیں گے۔۔۔” ریان کا قہقہ بلند ہوا تھا۔۔۔کتنی معصومیت تھی اسکے ہر انداز میں۔۔۔ریان کو اس پہ بہت پیار آرہا تھا-
“یہ لیں کھائیں۔۔۔پر میری انگلی نہیں کاٹنی۔۔میں روؤں گی!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“عشو کل صبح تیار رہنا۔۔۔میں تمہیں ٹیچر کے پاس لے کر جاؤوں گا-وہ پڑھائیں گی تمہیں-” ریان اسکے پاس آکر بیٹھتے ہوئے بولا-
“نہیں میں کسی سے نہیں پڑھوں گی۔۔۔ٹیچر بہت مارتی ہیں۔۔!! عشال کے آنسو ٹپکنا شروع ہوگئے تھے-
“نہیں مارتیں عشو۔۔آپ پہلے بھی پڑھ رہی تھی نا ٹیچر سے۔۔۔پھر اب کیا مسئلہ ہوگیا ہے-” ریان غصہ دکھاتے ہوئے بولا تاکہ وہ مان جائے-
“نہیں انہوں نے مجھے مارا تھا۔۔۔۔اور میں بہت روؤئی تھی۔۔داجی نے منع کردیا تھا کہ میں نہیں پڑھوں گی کسی بھی ٹیچر سے-!!
عشال کی باتوں پر اسنے اپنا سر پکڑلیا تھا کہ اب کیا کرے-
“اچھا تو بتاؤ کیا تم ساری زندگی ایسے ہی گزارو گی پڑھے بغیر۔۔۔۔میرے بعد کیا کرو گی۔۔۔یہ دنیا اتنی اچھی نہیں ہے عشو۔۔۔بات سمجھو تمہارا پڑھنا لکھنا بہت ضروری ہے۔۔۔ہر کوئی میرے جیسا نہیں مل جائے گا تمہیں–” ریان اسے سمجھا رہا تھا پر اسکو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی تھی-
“میں آپ سے پڑھ لوں گی۔۔۔مجھے ٹیچر سے نہیں پڑھنا وہ مارتی ہیں-”
“میں بھی ماروں گا اگر تم یاد نہیں کرو گی یا میری بات نہیں مانوگی۔۔۔سوچ لو!! ریان اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہی اب اسکو پڑھائے گا-
“ہاں میں آپ سے پڑھ لوں گی-”
“ٹھیک ہے اب سوجاؤ۔۔صبح کتابیں لینے چلیں گے۔۔۔” ریان لائٹ آف کرکے کمرے سے نکل گیا تھا-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“یہ دیکھیں کتنا پیارا بیگ ہے۔۔میں یہی لوں گی-“ریان اسکے ساتھ بازار آیاتھا-
“اسکا کیا کروگی تم۔۔سکول تو نہیں جانا-”
“میں آپکے پاس پڑھنے آؤں گی تو اسی میں کتابیں ﮈال کے لاؤں گی” عشال معصومیت سے بولی تو اسے ہنسی آگئی-
“کونسا تم سات سمندر پار سے آؤگی جو بیگ لے کر آنا پڑے- ریان ابھی بھی مسکرا رہا تھا-
“تو کیا ہوا۔۔بس میں نے لینا ہے یہی-عشال ضد پہ اتر آئی تھی تو ریان کو اسے دلانا پڑا پھر اسنے کسی چیز کی ضد نہیں کی تھی۔۔۔ریان خود ہی اسکے جوتے،کپڑے،چوڑیاں ہر چیز خود لیتا رہا تھا اور وہ چپ چاپ اسکو دیکھ رہی تھی جیسے وہ اسکی نہیں کسی اور کی چیزیں لے رہا ہو-
گھر آکر ریان نے ہی کھانا تیار کیا تھا- کیونکہ وہ کبھی بھی ملازموں کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتا تھا-
“عشو کافی پیوگی؟ریان چولہا جلاتے ہوئے بولا-
“کوفی کیا ہوتی؟ عشال جو کتابیں دیکھ رہی تھی اسکی بات پہ اسے دیکھتے ہوئے بولی- اور ریان اسکی بات پہ ہنس دیا-
“کوفی نہیں کافی ہوتا ہے اب اسکا اردو میں کوئی مطلب نہیں کیونکہ اردو میں بھی اسے کافی ہی کہتے ہیں- ریان ہنستے ہوئے اسے بتارہا تھا اور کافی بھی بنارہا تھا-
مجھے نہیں آتا یہ بولنا اور میکو بس چائے پینی ہے-
“اوکے میں چائے بنا دیتا ہوں تمہارے لیے-” ریان اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا-
“میں پہلے کیا پڑھوں گی؟ انگلش، کیونکہ اسکے کافی الفاظ ہم روزمرہ زندگی میں بولتے ہیں اسی لیے تم کو میں آج انگلش ہی پڑھاؤں گا روز ہر ایک کتاب کا ایک سبق پڑھاؤں گا اور اگلے دن ٹیسٹ لوں گا- رات گیارہ بجے سے ایک بجے تک پڑھنا پڑے گا۔۔۔جتنی نیند کرنی ہو دن میں سوتی رہنا کیونکہ میرا فارغ وقت مشکل سے یہی بچتا ہے۔۔!” ریان اسکو سمجھا رہا تھا اور وہ سمجھ گئی تھی کہ اب دوپہر کو ہی آرام کرنا ہے۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“یہ کیا کہ رہے ہیں آپ بابا؟ آغاجان کہاں ہیں؟” نواز شاہ کی بات سن کے اسے شاک لگا تھا-
“ریان آجاؤ میرے بچے۔۔۔تمہارے آغاجان بہت یاد کر رہے ہیں”
“میں عشال کے بغیر اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گا بابا۔۔۔اگر تو آغاجان کو عشال اپنی بڑی بہو کی صورت میں قبول ہے تو میں آجاؤں گا۔۔۔” ریان بے رخی سے بولا تھا کیونکہ عشال کو اب چھوڑ دینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا-
“وہ مان گئے ہیں میرے بچے۔۔اسے لے آؤ۔۔۔ہم تم لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں-” نواز شاہ بہت دکھی تھے۔۔
“شاہ حویلی کا تختہ الٹ چکا تھا۔۔۔جس دن ریان شاہ حویلی چھوڑ کر چلا گیا تھا اسی دن عریبہ شاہ کا نروس بریک ﮈاؤن ہونے کی وجہ سے موت ہوگئی تھی اور عظمی شاہ اپنی جوان بیٹی کو کفن میں لپٹا دیکھے پاگل ہوگئیں تھیں۔۔۔کسی سے بھی وہ نہیں سنبھلی تھیں- اظہر صاحب انھیں، عافیہ اور زین کو اپنے ساتھ سعودیہ لے گئے تھے- آغاجان کو ریان کی ہر ایک بات سچ ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔۔۔اور اب دو سال گزر چکے تھے ریان کو حویلی سے گئے ہوئے اسنے آج تک کسی کا حال نہیں پوچھا تھا۔۔۔آغاجان نیچے والے پورشن میں اکیلے رہتے تھے-
اور اوپر مبین شاہ رہتے تھے ، نواز شاہ بھی ایک سال پہلے حویلی چھوڑ کر جاچکے تھے اور بھائی کے بتانے پر اب واپس آگئے تھے۔۔۔!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ریان نواز شاہ سے بات کرنے کے بعد فوراً گھر پہنچا تھا-
“عشال کہاں ہے؟ ریان گل لالہ سے پوچھ رہا تھا-
“صاحب وہ اپنے روم میں سو رہی ہیں۔۔۔! “گل لالہ اسے بتا کے گل خان کو بلانے چلی گئی تھی-
“عشو۔۔اٹھو۔۔عشال۔۔۔اٹھو!! ریان اسے جنجھوڑ کر اٹھا رہا تھا-
“جج۔۔جی کیا ہوا؟ عشال ہڑ بڑا کر اٹھ گئی-
“اٹھو اور تیار ہو۔۔ہمیں حویلی جانا ہے-” ریان اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے بیڈ سے اتارتے ہوئے بولا-
“کھانا تو کھالیں- میں نے اتنی محنت سے بنایا ہے۔۔” عشال کو غصہ آگیا کہ اسکی چار گھنٹے کی محنت ضائع جائی گی-
“میں گل لالہ سے کہ کر پیک کروا لیتا ہوں تم تیار ہو کر فوراًباہر آؤ۔۔۔” وہ اسے آرﮈر دیتا ہوا جا چکا تھا۔۔۔
عشال ان دو سالوں میں کافی سمجھدار ہوچکی تھی۔۔اب کھانا بھی خود بناتی تھی اور ریان کے ہر کام اب اسکی ﺫمہ داری تھی۔۔۔انگلش کے بھی وہ کافی الفاظ سیکھ چکی تھی۔۔۔!!
“بی بی جی صاحب آپکا انتظار کر رہے ہیں۔۔” گل لالہ اسے بلانے آئی تھی اور وہ بال کھول کر ویسے ہی اسکے ساتھ باہر آگئی تھی-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“تم ایسے جاؤ گی؟ ریان اسے بال بنائے بغیر آتے دیکھ کر بولا-
“ہاں مجھ سے نہیں بنتے اتنے بڑے بال۔۔!! عشال کی شکل رونے والی ہوگئی تھی-
“افف لڑکی ساری زندگی ایسے ہی میں تمہارے بال بناتا رہوں گا۔۔۔”
ریان اسکے بال بناتے ہوئے بولا۔۔۔۔اسے عشال کے بال بہت پسند تھے تبھی اسکو کٹوانے نہیں دیتا تھا-
“میں نے آپ سے کتنی بار بولا تھا کہ کٹوانے ہیں پر آپ مانتے نہیں ہیں-” عشال خفگی دکھاتے ہوئی بولی-
“اتنے اچھے بالوں کا ستیاناس کرنے کا شوق ہے تمہیں بس۔۔۔۔میں قبر میں لیٹاہوں گا اور تم آکر کہ رہی ہوگی میرے بال بنا دیں۔۔!! ریان اسی کی طرح ایکٹنگ کرکے بول رہا تھا اسکی بات پر عشال زور سے ہنس دی تھی-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“آغاجان!! ریان انکے پاس بیٹھتے ہوئے انکو پکارا تھا ساتھ عشال کھڑی تھی- وہ دونوں آدھ گھنٹے پہلے ہی حویلی پہنچے تھے-
“ری۔۔ریان۔۔آغاجان سے بولا نہیں جارہا تھا۔۔ان کو فالج کا اٹیک ہوا تھا-
“آغاجان آپ آرام کریں میں آپکے پاس ہی بیٹھا ہوں۔۔” ریان انکا تکیہ درست کرتے ہوئے بولا تھا-
“میرا پتر آیا ہے۔۔۔۔۔اب تو میں ٹھیک ہوجاؤ گا۔۔۔مجھے اپنے پتر کی شادی۔۔۔۔بھی تو کرنی ہے-”
آغاجان عشال کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تھے۔۔آج انکو وہ بچی بڑی لڑکی لگ رہی تھی اور اسکے اس بدلاؤ کے پیچھے ریان کا ہاتھ تھا۔۔!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
“سرپرائز” سب لاؤنج میں بیٹھے باتیں کرہے تھے- جب زین کی آواز آئی تو سب نے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔عظمی،اظہر صاحب، عافیہ اور زین کھڑے تھے-
“لالہ ہمیں کل ہی پتا لگ گیا تھا آپ واپس آگئے ہیں۔۔اسیلیے ہم بھی واپس چلے آئے ہیں-” اب کی بار عافیہ بولی تھی۔۔
آغاجان کی آنکھیں خوشی سے جھلک اٹھیں تھیں-
“بابا کیسے ہیں آپ؟” عظمی اور اظہر صاحب انکے پاس آکر بیٹھتے ہوئے بولے-
“میرے بچے میرے پاس ہیں۔۔۔۔میں خوش ہوں-” آغاجان آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے بولے-
“ریان لالہ کی شادی کر رہے ہیں آغاجان۔۔۔!! مہک عشال کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی تھی
“واؤ مزا آئیگا۔۔آغاجان اس احمد کو بھی آر پار لگائیں تاکہ میری بھی باری آئے۔۔” زین سے خاموشی ہضم ہوتی ہی نہیں تھی-
“نا نا تو بھی کرلے تینوں بھنگڑے ﮈالیں گے ساتھ۔۔۔کیوں ریان بھائی صیح کہ رہا ہوں نا؟۔۔۔۔!! احمد اب ریان سے پوچھ رہا تھا-
“ہاں کیوں نا آغاجان انکو بھی ﺫرا شراتوں سے فرصت ملے۔۔ہر وقت چپکلے بنے رہتے ہیں۔۔” ریان شرارت سے بولا۔۔عشال اسے دیکھتی ہی رہ گئی-
“آہم۔۔۔آہم تھوڑیں دن تو پردہ کریں بھابی صاحبہ۔۔” زین احمد کو آنکھ مارتے ہوئے بولا-
“ہاں چلو مہک،عافیہ لے کر جاؤ بھابھی کو کمرے میں۔۔آج سے انکا پردہ ہے بھائی سے!! عشال شرماتے ہوئے مہک کے ساتھ بھاگ گئی تھی-
“ظالموں ﺫرا میرا خیال نہیں اپنے وقت دیکھنا۔۔۔تم دونوں کو چھوڑنا نہیں میں نے۔۔!!! زین اور احمد کے قہقہے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے باقی سب بھی ہنس دیے تھے-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...