رائم نے گرینی کی خاطر زندہ رہنا اور خوش ہونا تو سیکھ لیا تھا لیکن کبھی کبھی دل کا سکوت اتنا بڑھ جاتا کہ وہ گهبرا کر باہر نکل آتی آج بھی وہ اپنے مخصوص سنگی بینچ پر گهٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی اسے اپنے اردگرد مخصوص کلون کی خوشبو کا حساس ہوا لیکن وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔ ۔اگر یہ خواب ہے تو خواب ہی رہنا چاہیے، ،،،،،
جانتی ہو رائم! کبھی کبھی ہمارے ساتھ اتنا عجیب، اتنا غیر متوقع ہو جاتا ہے کہ ہم حیران ہونے کے قابل بھی نہیں رہتے، ،-رائم نے ایک جهٹکے سے سر اوپر اٹھایا تھا- یہ کوئی خواب، کوئی الوژن نہیں تھا- وہ سامنے پهولوں پر سنہری تتلی کو دیکهتے ہوئے کہہ رہا تھا وہ آج بھی اس کے اتنے ہی قریب بیٹھا تھا کہ اگر وہ چاہتی تو ہاتھ بڑھا کر چهو لیتی لیکن اس نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ ۔۔یہ جو ہمارا اللہ ہے نایہ ہمیں ہماری خوشیوں کو ہم سے زیادہ جانتا ہے بس ہمیں ہی سمجھنے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے رائم کی نگاہیں اس کے ایک ایک نقش کو بے یقینی سے چهو رہی تهیں۔ ۔جب مجھے پتا چلا کہ میرے پیرنٹس نے مجھ سے پوچھے، مجھے بتائے بغیر میری شادی طے کر دی ہے تو میں غم وغصہ سے پاگل پن ہوگیا ساری زندگی میری ایک ایک خواہش کا خیال رکھنے والوں نے میری مرضی کے بغیر میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کر ڈالا میں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ میں ان کی پسند کردہ لڑکی سے شادی کر کے بے ایمانی مرتکب نہیں ہونا چاہتا کیونکہ میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں اور اسی کے ساتھ مکمل ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن میں انہیں یہ سب نہیں کہہ پایا اس وقت میرے زہن میں یہ سوچ آئی کہ میرے بے مثال والدین نے کس بل بوتے پر اتنا بڑا فیصلہ اکیلے اکیلے کر لیا انہیں مجھ پر بهروسہ تها اعتماد تها مان تها اور میں ان کا مان توڑ نہیں پایا ساری زندگی میری چهو ٹی بڑی ہر خواہش کا احترام کرنے والوں نے پہلی بار اپنا حق استعمال کیا تها میں کیسے ان سے یہ حق چهین کران کی پہلی خواہش ردکرکے اپنے خوابوں کا محل تعمیر کر لیتا میری ساری مزاحمت کہیں اندرہی دم توڑگئی تهی بنا ایک لفظ کہے میں نے ان کے حکم پر سر جهکا دیا میں اپنے اجڑے دل کو نظرانداز کر کے اپنے والدین کے ارمانوں کا گلستان مہکانے ان کے ساتھ پاکستان چلا گیا۔ ۔شادی کے ہنگامے عروج پر تهے کہ وہ سب ہو گیا جس کا میں نے سوچا بهی نہیں تها میں سیڑھیاں اتر کر کوریڈور سے گزر رہا تھا کہ زہرہ کے کمرے سے آتی آوازوں نے میرے قدم روک دیے میری چچازاد زہرہ جس کے ساتھ ٹهیک ایک دن بعد میری شادی ہونے والی تهی ہمارے تایازاد عامر سے محبت کرتی تهی اور اب وہ دونوں اپنی محبت پر کف افسوس مل رہے تھے تایاابا کے رعب اور خاندانی روایت نے انہیں زبان کهولنے کی اجازت نہیں دی تهی لیکن، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں ایک ساتھ اتنی زندگیاں برباد ہوت نہیں دیکه سکتا تھا میں نے ممی کو اعتماد میں لے کر ساری بات بتادی اور ممی نے اتنی سمجھداری سے سارا معاملہ ہینڈل کیا کہ میں خودبهی حیران رہ گیا پاپا اور چاچا زہرہ کے والد کے سمجھانے پر تایا ابا نے عامر اور زہرہ کی شادی کردی۔ ۔رائم کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گراتها واپسی کا سفر ہمیشہ تهکا دینے والا ہوتا ہے میرے پاؤں مضمحل تهے کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ جن سنہری آنکھوں میں میں بے یقینی کا ایک عالم چهوڑ آیا ہوں وہاں میرے لیے اب کچھ بچابهی ہوگا یا نہیں۔ ۔۔
رائم نے اس پل اپنی بهیگی پلکیں اٹها کر اس کی سمت دیکها تها۔ ۔رائم اس نے رائم کو کندھوں سے پکڑ کر اپنی جانب موڑاتها اس کی مضطرب نگاہوں میں واضع سوال موجود تھا۔ ۔
تمہیں کیا لگتا ہے ایزد جب وہ بولی تواس کے لہجہ میں بلا کا ٹهہراو تها۔ ۔۔محبت مرد کی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے اور عورت کی پوری زندگی تم نے اس وقت جوفیصلہ کیا وہ بہترین تها لیکن جس دن مجھے لگا تم میری زندگی میں نہیں رہے تو میں نے اپنی محبت کا چیپٹر ہمیشہ کے لیے بند کردیا اسے اب کبھی نہیں کهلنا تها کیونکہ میں نے اپنے دل کی جس اونچی مسند پر تمہیں بٹھایا تها وہاں پر میں تمہارے علاوہ کسی اور کا سایہ تک برداشت نہیں کر سکتی تھی ایزد کے چہرے پر ڈهیر وں سکون پهیلا تها۔ ۔
ہوں تو دی وائلڑ کی بہادر حسینہ نے اپنی دل کی سلطنت پہلے ہی میرے نام کردی ہے اور میں بے چارہ خوامخوو اتنا پریشان ہو رہا تھا۔ ۔۔میں نے سوچا مایہ ناز فوٹوگرافر نے مجھے اپنی مدد کرنے کی جو سعادت بخشی تھی اس کا کچھ صلہ اسے ملنا چاہیے ہےنا رائم شرارت سے کہتی اس کا ہاتھ کهینچ کر اٹه کهڑی ہوئی۔ ۔رائم گرینی کے ساتھ رہتے ہیں ہوئے تمہیں پهولوں کی زبان تو سمجھ میں آگئی ہوگی زرا مجھے بتاتی چلنا کہ یہ پهول کس کس مقصد کے لیے ہوتے ہیں۔ ۔
روش کے دائیں اور بائیں جانب مختلف قسم اور رنگ کے خوش نما پهول کهل رہے تھے ایزد ایک ایک پهول توڑ تا جارہا تھا اور رائم اسے بتاتی جارہی تھی یہ محبت کے لیے یہ انتظار کے لیے اعتماد کے لیے دوستی کے لیے یہ والا شکریہ کہنے کے لیے وفا کے لیے معذرت کے لیے۔ ۔اور یہ پورا گلدستہ ایزد نے رک کر سارے پهولوں کی ٹہنیاں ملا کر خوب صورت گلدستے کی صورت میں رائم کی جانب بڑها یا۔ ۔
زندگی بهر کے ساتھ کے لیے رائم نے ایزد کے ہاتھ سے گلدستہ لے کر سارے پهول ایزد کے اوپر ہوا میں اچھال دیے پارک میں موجود لوگ حیرت زدہ نظروں سے اظہار محبت کے انوکھے منظر کو دیکھ رہے تھے اور ایزاد کا ہاتھ تها مے پهولوں بهری روش پر چلتی رائم نے سوچا واقع ہمارا اللہ ہمیں ہماری خوشیوں کو ہم سے زیادہ جانتا ہے بس ہمیں ہی سمجھنے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے
*****
ختم شده
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...