برفیلا موسم برف سے ڈھکے پہاڑ، سبزازار خاصا سفید ہو گیا تھا برف کی وجہ سے، گرآلود آسمان، ہڈیوں کو کھوکھلا کر دینے والی ظالم سردی پر، پر نین سکندر کو کون سمجھاۓ جو اس موسم میں بجاۓ بستر میں آرام فرمانے کہ، پہاڑوں کی سیر کو نکل کھڑی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی سے چھٹی ہونے کی وجہ سے آج اُسنے پہاڑوں کا دورا کرنے سوچا اور پھر پلان بنا کر تیار ہو کر نکل پڑی، لنڈا کہ ساتھ ساتھ کلاس کی دو تین لڑکیاں اُنکہ ہمرا تھیں۔پہاڑوں پہ برف پڑنے کی وجہ سے راستہ دشوار گزار ہو گیا تھا جس وجہ سے اُس راستے کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ سب لڑکیاں نا اُمید واپس لوٹ آئی تھیں لیکن گھر جانے کی بجاۓ لنڈا کہ مشورے پہ عمل کررے ہوۓ وہ افل ٹاور یکھنے چلی آئی تھیں۔
افل ٹاور انقلابِ فرانس کی سو سالہ تقریبات کہ موقع پر ہونے والی نمائش میں دروازے کہ تور پر بنایا گیا تھا۔ افل ٹاور لوہے کہ انتہائی خوبصورت مینار کا نام ہے اور یہ فرانس کہ شہر پیرس میں دریاۓ سین کہ کنارے پہ واقع ہے۔پیرس کا سب سے انچا ٹاور جسے بنانے کہ خیال نے وہاں کہ رہنے والوں کو پریشانی میں ڈال دیا تھا کہ اتنا تناور مینار کیسے بنیں گا۔ اور یہ سب سے زیادہ پہچانی جانے والی جگلہ ہے جہاں ملکوں ملک سے سیاہ تفرع کرنے آتے ہیں، اس کی بلندی ایک ہزار ترینسٹھ فٹ ہے اور یہ 1889 میں وجود میں آیا تھا اور اس میں سولہ سو ساٹھ سیڑھیاں ہیں، لفٹ کا استعمال بھی رکھا گا ہے۔
نین یہاں آ کر بہت خوش ہوئی تھی یقیناً وہ لنڈا کہ فیصلے سے بہت متاثر ہوئی تھی۔
باقی دونوں لڑکیاں تو آتے ساتھ نجانے کہاں گم ہو گئی تھیں پھر لنڈا بھی نین کو بیٹھا کر کچھ کھانے کو لینے چلی گی۔ نین بیٹھی بیٹھی بور ہونے لگی تو خود ہی اُٹھ کر یہاں وہاں دیکھنے لگی، وہ افل کی انچائی غور سے دیکھتے ہو اپنے خیال میں آگے بھڑ رہی تھی جبھی اسکا سر کسی کہ چھوڑے شانے سے ٹکرایا تھا پل بھر کہ لیے تو نین کہ سامنے سے پوری زمین گھوم گئی
“اندھی ہو کیا اتنا تو مجھے پتہ ہے کہ تم گونگی ہو پر گونگی کہ ساتھ ساتھ اندھی بھی ہو یہ نہیں پتہ تھا”۔ مقابل کہ تیکھے الفاظ سن کر وہ کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی تھی اور پھر سر اُٹھا کر شہریار کہ مضبوط سراپہ کو دیکھا جو خفگی سے نین کو گھور رہا تھا۔ نین نے اُسے دیکھا اور پھر اسکی نظر نیچے گئی جہاں شاید وہ برگر لیے آ رہا تھا اور نین سے ٹکرا کر اُسکا برگر زمین بوس ہو گیا تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ تیکھا بول رہا تھا اور کچھ تیکھے برگز کہ زائقے کا بھی قصور تھا۔ “آئی ایم سوری میرا دھیان کہیں اور تھا” کہہ کر وہ مڑنے لگی جب شیری نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکے سے کینچا تھا اور بولا “تمہارا یہ ایٹییٹوٹ یہاں میرے سامنے ہر گز نہیں چلے گا نین سکندر تم ابھی تک۔ مجھے سمجھ نہیں پائی یاں سمجھنا نہیں چاہتی اُسکا نازک ہاتھ مڑوڑتے ہوۓ جارہانہ انداز میں بولا تھا ۔ “ہاتھ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے”۔درد کہ مارے نین کی آنکھوں میں ہانی اُتر آیا کاجل زدا آنکھیں پانی سے لبالب بھر گئیں تھیں، شیری نے اُسکی گہری چمک والی سُرمئی آنکھوں کو غور سے دیکھا تھا، شاید ہی پانی سے بھری اتنی خوبصورت آنکھیں اُسنے پہلے کبھی دیکھی ہوں، نجانے کیسا درد سمٹ آیا تھا اُن آنکھوں میں کہ شہریار زیادہ دیر اُسکی آنکھوں میں دیکھ نا پایا اور فوراً اُسکا ہاتھ جھٹک کر بولا “میری بات سنو نین سکندر اپنی ننظریں
اور اپنا آپ بچا کر رکھو میرے سے،اور یہ جو تم مجھے نخرے دیکھاتی ہو نا ؟آج تک کوئی اس ایٹییٹوٹ میرے سے بات نہیں کر سکا تو لہذا میری نظروں سے اس نظریں بچا کر رکھو” ۔کہتے ساتھ وہ آگے بھڑ گیا۔نین نے اپنی کلائی سہلاتے ہوۓ شیری کی چھوڑی پشت کو ناپسندیدگی سے دیکھا اور پھر اپنی نازک کلائی کو جہاں اسکی انگلیوں کہ نشان واضع تھے۔دُم چھلا، ایڈیٹ کہیں کا پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے، جیسے کہیں کا شہزاہ ہو کہ ہر کوئی شہزادہ سلیم سے ڈرتے پھریں۔نین خود سے بڑبڑاتے ہوۓ آگے بھڑ گئی۔
※※
نین! تمہارے نام کا مطلب کیا ہے” ویسے” ؟؟
گرم گرم کافی کا سپ لیتے ہوۓ لِنڈا نے عام انداز میں پوچھا تھا۔ جواب میں نین نے بھی مُسکُرا کر اُسے دیکھا اور بولی، “نین کا مطلب ہے آئز آنکھیں۔اُسنے لِنڈا کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوۓ پیار سے کہا تھا۔کریسمس گُزر چُکی تھی اور نیو ائر میں کچھ ہی دن باقی تھے،اس لیے وہ دونوں کیفے ٹیریا میں آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ سردی حد سے سواح تھی اتنے موٹے کپڑے پہنے کے باوجود بھی نجانے یہ سردی کا کیسا جوش تھا جو ہڈیوں کو کھوکھلا کر رہا تھا۔ کیفے سےاُٹھتی اِشتہاانگیز خشبو اُن کے نتھو میں گھس کر بھوک کا ایک نیا احساس جگا رہے تھی۔تبھی۔، لِنڈا کی برداشت حد سے باہر ہو گئی اُسے مزید اس خوشبو سے دور نہیں رہا گیا سو وہ خود ہی اُٹھی اور اپنے اور نین کے لیے کیفے سے برگرز اور فریچ فرائزز لے آئی ۔ ابھی وہ ٹھیک سے برگر انجوائے بھی نا کر پائی تھیں جب کہیں سے ہیری ہانمپتا ہوا چلا آیا اور بولا، “لِنڈا تہیں اے۔جے نے بُلوایا ہے”۔
مجھے ؟ پر کیوں لِنڈا تعاجُب سے آنکھیں سکیوڑتے ہوۓ بولی۔
آئی ڈونٹ نو، جاؤ اور جا کہ پوچھ لو
کہہ کر وہ پلٹ گیا،لِنڈا نے ہیری کو جاتا دیکھا اور پھر نین کو ویٹ کرنے کا کہہ کر چلی گئی۔
کافی دیر ویٹ کرنے کے بعد لِنڈا تو نہیں آئی، البتہ پیٹر ضرور آیا تھا، نین نے اُسے ناپسندیدگی سے دیکھا تھا اور دوبارہ برگر کھانے لگی۔
سُنو وہ تمہاری دوست لِنڈا واش روم میں پھسل کر گر گئی ہے،اُس نے اچانک بمب پھوڑا تھا۔
کیا۔۔۔۔۔ کب کہاں اور تم مجھے ابھی بتا رہے ہو،وہ برگر کھانا بھول چکی تھی برگر کا زائقہ بد مزا سا لگنے لگا تھا،اُس لِنڈا کی تکلیف کا احساس شدت سے ہو رہا تھا وہ اپنا بیگ اُٹھاتے ہوۓ اندر کو لپکی اور یہ اُسکی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے جا رہی تھی
نین بنا دیکھے بڑی سرعت سے دروازہ پار کر گئ تھی۔ وہ ٹھٹھک کر تب رُکی جب اُس نے اپنے پیچھے کھڑاک سے دروازہ بند ہونے کی آواز سُنی اُس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہت بڑی غلطی کر چُکی ہے، بلا ارادہ اُس نے مُڑ کر دروازے کی اور دیکھا جہاں ابھی تھوڑی دیر پہلے بنا سوچے سمجھے اندر داخل ہوئی تھی۔ واش رومز خالی تھے وہ واپس پلٹی اور دروازے کا ہینڈل آہستہ سے نیچے کی طرف گُھمایا لیکن دروازہ بے سُدھ رہا دروازہ باہر سے لاکڈ تھا۔ اُس نے آوازیں لگانا شروع کر دیں
کوئی ہے؟ دروازہ باہر سے لاک ہو گیا ہے کوئی میری مدد کرو پلیز ۔۔ ہیلو اینی ون از ہیئر۔ کھولو پلیز کوئی میری مدد کرو پلیز۔ ۔۔۔۔ اُسکی آواز سننے والا کوئی نا تھا، واش رومز کا بلاک یونیورسٹی کے بیک سائڈ پہ بنیا گیا تھا وہ جگہ ویران سی تھی جہاں اسٹوڈنٹس کی بھیڑ بہت کم ہوتی تھی ایسے میں کِسے خبر تھی کے نین سکندر واش روم میں قید ہو گئی ہے یاں کر دی گئی ہے
آدھا گھنٹہ دروازہ پیٹنے کہ بعد بھی جب کوئی نا آیا تو اُس نے بےبسی سے ہینڈل چھوڑ دیا اور اپنے قدم پیچھے کو دھکیلنے لگی یہاں تک کہ اُس کی قمر دیوار سے جا لگی وہ دیوار سے لگی نیچے کو بیٹھتی چلی گئی اور گھوٹنوں میں سر دے کر بے آوزا آنسو بہانے لگی آج اُسے ماما پاپا اور وجی کی یاد شدت سے آئی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ کمزور یا بُزدل تھی ۔وہ تو ایک بہادر باپ کی با ہمت اور بہادُر بیٹی تھی۔ باپ کی دی گئی آسائشوں کو چھوڑ کر یہاں دیارے غیر میں وہ بہادری کا ثبوت دینے ہی تو آئی تھی۔ اُسے ڈر اس بات کا نہیں تھا کہ وہ واش روم میں لاک ہو گئی ہے اُسے ڈر اس با ت کا تھا جو اگر کسی نے نوٹس نا کیا کہ نین کہیں نہیں ہے تو؟
جو اگر اُسے کوئی ڈونڈھ نا پایا تو؟
جو اگر اُسے رات بھر یہں رہنا پڑآ تو؟
جو اگر وہ تنہائی سے پُراس وخشت زدہ جگہ پہ ہی سردی کی زیاتی کی وجہ سے مر گئ تو؟
یہ تمام وسوسے اُس رونے پہ مجبور کر رہے تھے اور یہ پیرس میں بہاۓ کئے اُس کے پہلے آنسو تھے جو زمین پہ گر کر وہیں جزب ہو رہے تھے۔ اُسنے سر اُٹھا کر کلائی میں پہنی گھڑی کو دیکھا تھا۔ جس کی چھوٹی سوئی ایک پہ جبکہ بڑئی سوئی باراں پہ تھی اُسے یاد آیا کہ گیارہ بجے وہ اور لِنڈا کیفے میں گے تھے ۔جس کا مطلے ہے وہ پچھلے دو گھنٹے سے واش روم میں بند تھی اور کوئی اُسے ڈونڈھتا ہوا وہاں تک نہیں آیا تھا یہ سوچ کر اُس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔
وہ ایک بار پھر سے اُٹھی تھی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی خلق کہ بل وہ چیخ رہی تھی کوئی ہے میری مدد کرو پلیز کوئی تو سُن لو لِنڈا تم ہی آ جاؤ پلیز میری مدد کرو اُس کی آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر ارتعاش پیدا کرتیں اور پھر دم توڑ جاتیں وہ پھر سے پلٹ گئی اور دیوار کے ساتھ بنے بینچ یہ ٹک گئی ۔
وہ ہاتھوں میں سر دیۓ بیٹھی تھی جب اُسے کسی کے قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سُنائی دی نین نے فورا۔ سر اُٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا، قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی ،نین دم سادھے بیٹھی تھی اُس کا دھیان مسلسل باہر سے اُٹھنے والی آواز پہ تھا۔ نین دوڑ کر دروازےتک آئی
کوئی ہے، پلیز دروازہ کھول دو میں یہاں قید ہو گئی ہوں تمہیں اللہ کا واسطہ تم جو بھی ہو دروازہ کھولو
اور شاید اُس کی پکار سن لی گی تھی
دروازہ کسی نے ہڑبڑی میں کھولا تھا۔ نین کا سر درد سےپھٹا جا رہا تھا کچھ بھوک کا بھی اثر تھا، صُبح سے اُس نے کچھ نہیں کھا یا تھا برگر وہ جلد بازی میں وہیں ٹیبل پہ ہی چھوڑ آئی تھی، ااسےپہلے کے دروازہ کھولنے والے کو وہ دیکھتی شدید چکر نے اُسے اتنا موقع ہی نا دیا اور وہ لڑکھڑا کر گرنے والی تھی جب کسی کہ مضبوط بازوؤں نے اُسے اپنے خصار میں لیتے ہوۓ گرنے سے بچایا تھا…۔۔ بچانے والا اور کوئی نہیں بلکے شہریار تھا، نین اُس کی باہوں میں مومی گُڑیا کی طرح جھول رہی تھی، یہ سیچوایشن خود شیری کے لیے بھی نئی تھی ۔اُس نے نین کو اُٹھانے کی بھر پور کوشش کی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا،
پر سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ وہ اس وقت یہاں کیا کر رہا تھا؟ کیا نین کو اس خال کو پہنچانے میں اُس کا ہاتھ تھا۔؟
اُس نے نین کے چہرے پر سے بال ہٹاتے ہوۓ بغور اُس کے سبیح چہرے کو دیکھا تھا، بنا کسی داگ دھبے کے اُس کی جلد کسی معصوم بچے جیسی دلکش اور نرم و ملائم تھی، اُسے اپنی اُنگلیاں اُسکے نرم و نازُک گالوں میں گھڑتی ہوئی محسوس ہوئیں تو اُسنے آہستہ سے ہاتھ پیچھے کر لیا،نظریں ایسی تھیں کہ ہٹاۓ نہیں ہٹتیں تھیں، بلاشبہ وہ بہت خوبصورت تھی، اُسے اپنی چوری کا احساس ہوا تو فوراً نظریں جُھکا گیا اُسکے حسین چہرے کی وہ زیادہ دیر تاب نا لا سکا۔ نا چاہتے ہوۓ بھی اُسے نین کو اپنی بازؤں میں اُٹھا لے جانا پڑا،یہ عمل جزبات سے عاری بہت فطری عمل تھا، لیکن پھر نجانے کیوں دل کو کچھ ہوا تھا، دھڑکنوں نے شور سا بھرپا کیا تھا،وہ اس شور کو ختم کرنے کی جتنی سعی کرتا وہ اُتنی ہی تاب کہ ساتھ مزید بڑھتی جاتیں۔
سورج کی بے جا رنگین اور خوبصورت کرنیں آسمان سے پھوٹ کر زمین پے اُتر آئی تھیں، بڑے دنوں بعد سورج نکلا تھا،اپنی آبوتاب کے ساتھ سب کو اپنی روشنی سے مسرور کرتا کتنا شاندار لگتا تھا
اُسنے نقاہت سے آنکھیں کھولی تھیں، اور خود کو ہاسپیٹل کے کسی کمرے میں پایا تھا اُسنے چاروں اطراف میں نظریں دوڑائی تھیں جبھی سامنے سوفے پہ بے سُدھ پڑی لِنڈا پہ پڑی تھی اُس کے ہاتھ
میں کوئی کتاب تھی جسے سینے سے لگاۓ بیٹھی تھی شاید مطالعہ کرتی کرتی وہیں سو گئی تھی،
وہ خاموشی سے چھت کو گُھورنے لگی شاید پورا ایک دن پوری ایک رات بیت چُکی تھی۔اُسے وہ پل بےبسی سے یاد آۓ جب وہ چیخ رہی تھی رو رہی تھی اور اور کوئی اُس کی مدد کو نہیں آیا تھا،واش روم کا وہ سرد منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا تھا،گُھٹی گُھٹی سی سسکی ہوا میں کہیں گُم ہو رہی تھی، آنسو اُسکے سفید اور گُلابی گال بھیگو رہے تھے،اُس کی زندگی کا سب سے بُرا دن تھا،لیکن اس زندگی کا انتخاب بھی تو اُسنے خود ہی کیا تھا۔
اتنی سردی کے بعد بھی اُسے شدید پیاس لگی تھی ۔ ایک نظر سامنے پڑی لِنڈا پہ ڈالی اور پھر ساتھ پڑے پانی کے جگ کو دیکھ کر خود ہی اُٹھ کر گلاس پکڑنے لگی تھی کہ ہاتھ لگنے سے ساتھ پڑا پھولوں کا خوبصورت گُلدستہ نیچے گِرا اور اُس کے ساتھ پڑی شیشے کی بوتل چھناکے سے نیچے گری اور ریزہ ریزہ ہو گئی، چھناکے کی آواز سے لِنڈا ہڑبڑا کر اُٹھی اور فوراً نین کی طرف آئی۔
نین تم ٹھیک ہو؟ کیا چاہیے”؟”
پانی۔ نین نے بس اتنا ہی کہا تھا۔
پانی چاہیے تھا تو مُجھے کہتی میں یہاں” تمہارے لیے ہی تو بیٹھی ہوں”۔
گلاس میں پانی ڈالتے ہوۓ اُسنے نین کو ڈبٹا تھا۔
تم سو رہی تھی اس لیے تمہاری نیند” خراب ہو جانے کے خیال سے اُٹھانا مناسب نہیں سمجھا”۔
اچھا چھوڑو میری نیند کو۔۔ تم بتاؤں” اب کیسا فیل کر رہی ہو”؟ اُس نے سرعت سے پوچھا تھا۔
میں ٹھیک ہوں، پر میں یہاں کیسے”، کون لایا مجھے یہاں،میں تو وہاں واش روم میں بند ہو گئی تھی”۔۔۔ نین کی آنکھوں کے آگے ایک بار پھر سے وہی منظر چھانے لگا۔آنکھوں کہ گوشے پھر سے گُلابی پڑنے لگے تھے
ریلیکس نین،تمہیں شہریار لے کے آیا” تھا یہاں ہاسپٹل ُ اُسی نے تمہیں واش روم ایریا سے نکالا تھا، تم بے ہوش ہو گئی تھی اس لیے وہ تمہیں سیدہ یہاں لے آیا۔
پر تم وہاں کیسے گئی تمہیں میں ویٹ کرنے کا کہہ کر گئی تھی۔جب میں واپس آئی تو تم وہاں نہیں تھی تمہارا بیگ بی نہیں تھا مجھے لگا تم گھر چلی گئی ہو، اور پھر ہیری سے پتہ چلا کہ تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے تم گھر چلی گئی۔مجھے زرا بھی اندازہ ہوتا کہ تم یونی میں ہی ہو تو میں کبھی نہیں جاتی، آئی ایم ریلی سوری نین”، لِنڈا بے حد شرمندہ تھی۔” پر تم وہاں لاک کیسے ہوئی”؟ بتونی لِنڈا سوال پہ سوال کیے جا رہی تھی۔
اُس اُس گھٹیا انسان کی ہمت بھی” کیسے ہوئی مجھے چھونے کی”۔۔۔ نین جو اب تک چُپ بیٹی تھی یہ بات اُسے سخت ناگوار گُزری تھی کے شہریار اُسے اُٹھا کر یہاں تک لایا تھا۔اگر وہ اپنے حواسوں میں ہوتی اور مدد کرنے والا آخری انسان شہریار ہوتا تو وہ مرنا پسند کرتی لیکن کبھی اُسکی مدد نا لیتی۔ کتنے گندے انسان ہو تم شہریار پہلی دُکھ دیتے ہو اور پھر مرخم بھی لگانے آجاتے ہو،اس بار نین نے دل میں سوچا تھا۔
کون کس کی بات کر رہی ہو نین”؟” لِنڈا نے ناسمجھی سے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
شہریار کی بات کر رہی ہوں ۔”، تمہارے جانے کے بعد پیٹر آیا تھا میرے پاس اُس نے کہا کہ تم واش روم میں گر گئی ہو،میں سُنتے ہی وہاں سے بھاگی تھی، واش روم میں داخل ہوئی ہی تھی کہ ایک دم سے باہر سے کسی نے دروازہ لاک کر دیا میں نے دروازہ بہت کھٹکھٹایا روئی چیخی لیکن ان میں سے کسی کو میرے پہ رحم نہیں آیا، یہ سب ان لوگوں نے مل کر کیا ہے۔ُ لیکن بس بہت ہو گیا،اب اور نہیں، میں اب تک چُپ تھی کہ اگر میرے چُپ رہنے سے بنا جواز کی یہ جنگ ختم ہو سکتی ہے تو اچھی بات ہے،لیکن نہیں اب نہیں اب میں اُنہیں دکھاؤں گئی کہ نین سکندر ہے کیا چیز”۔
لِنڈا بس نین کی شکل دیکھ کر ہی رہ گئی۔اسکا مطلب مجھے تم سے جان بوج کر دور کیا گیا تھا تاکے تمہارے ساتھ یہ سب کر سکیں۔اور اُس کمینے ہیری نے مُجھ سے جھوٹ کہا تھا”۔، اوووہ مائی گارڈ ،لِنڈا پریشانی سے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ بولی تھی۔ نین نے ایک خاموش نگاہ لِنڈا پہ ڈال کر واپس آنکھیں موند لیں
***========***
آج بھی سورج بادلوں میں چھپا اٹکیلیاں کرتا اپنا آپ منوانے کی بھر پور کوش کر رہا تھا۔بادل کی ٹکریاں سارے آسمان پی چھائی ہوئی تھیں۔نیوائر کے موقع پر اُسے دو دن ہسپتال میں ہی گزارنے پڑے جب تک ڈاکٹر کو پوری طرح تسلی نہیں ہوئی تب تک نین کے لاکھ ضد کرنے پہ بھی اُسے ڈسچارج نا ملا،پوری طرح تسلی ہو جانے کے بعد اُسے ڈسچارج ملا تھا۔ نیو ائر اسٹارٹ ہو چکا تھا۔
باہر کا موسم خاصہ سرد تھا۔ ُ
ڈسچارج کے بعد آج وہ یونی آئی تھی، اور آتے ساتھ وہ مین ہیڈ کے پاس گئی تھی جن لوگوں نے اُسے رلایا تھا۔،،جن کی وجہ سے اُسنے نیو ائر کی ساری خوشیاں ہاسپٹل کے بیڈ پہ لیٹے لیٹے بےزاری سے گُزاری تھیں۔ بھلا وہ اُن سب کو بنا سزا دئے ایسے کیسے آزاد گُھمنے دے سکتی تھی۔اس لیے پہلی ہی فرصت میں وہ آفیس آئی تھی اور آتے ساتھ اپنا مُدعا ظاہر کیا تھا
اور ابھی آفس میں سب موجود تھے سواۓ شہریار کے،کیوں کے ان چاروں کے بیانات اور یونی کے باقی ماندہ اسٹوڈنٹس کے بیان اور خود اے۔جے کے بیان کے مطابق شہریار پچھلے چند روز سے یونی نہیں آیا تھا۔، باۓ چانس وہ اُسی دن یونی آیا جس دن نین کے ساتھ یہ سب ہوا،اور اُسی وقت اُسے عینی سے پیٹر کے نئے کارنامے کا پتہ چلا تھا،جبھی وہ نین کی مدد کرنے کے اردے سے ہی وہاں گیا تھا۔،
ایم ڈی جان۔۔۔ جو کہ وائس پرنسیپل کا اودھا سنبھالے ہوۓ تھے، پیٹر،ہیری،شرلےاور عینی کو سخت سُست سُنا رہے تھے،اور وہ چاروں بنا کسی شرمندگی کہ سر جُھکاۓ کھڑے تھے۔
حرکت تو تم لوگوں نے ایسی کی ہے ، دل کرتا کھڑے کھڑے نکال دوں تم سب کو اس یونی سے، مزاق کی بھی کوئی خد ہوتی ہے،کبھی سوچا ہے تمہارے اس قسم کے مزاق سے اُسے کچھ ہو بھی سکتا تھا۔اے۔جے گلے کے بل چیخ کر اپنا غُصہ نکال رہی تھیں۔
لسن گائز یہ لاسٹ چانس دیا جا رہا ہے تم سب کو آئندہ ایسی کوئی حرکت کی تو پھر تم سب کا فیصلہ یونیورسٹی کی اتھارٹی مل کر کرے گی۔
میم میں ایک شرط پہ ان سب کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں اگر یہ سب مجھے سوری بول کر اس بات کو یہیں ختم کر دیں تو، نین خُشک ہونٹوں پہ زُبان پھیرتے ہوۓ بولی تھی۔
واۓناٹ سوری تو ان سب کو ویسے بھی کرنا ہی چاہیے، چلو سب سوری بولو نین کو۔
اے۔جے کی بات پہ اُن سب نے چہرہ اُٹھا کر اے۔جے کو دیکھا تھا۔
کیا؟کیا دیکھ رہے ہو ؟ سوری بولو نین کو،وہ فرینچ زُبان کا استعمال کر رہی تھیں
وی آر سوری نین، اُن چاروں نے ایک ساتھ بولا تھا اور پھر غصے سے نین سکندر کو دیکھا تھا، جس کی آنکھوں میں اطمینان تھا۔ سکون تھا۔اُسنے اُنکو مات دی تھی وہ خوش تھی بہت خوش اور اب وہ بھی یہ جنگ لڑنے کو تیار تھی، یہاں آکر اُس نے اتنا تو سیکھ ہی لیا تھا کہ یہاں جیت لڑ کر مقابلہ جیتنے والے کی ہی ہوتی ہے،چُپ رہنے والے ہار جاتے ہیں اور اُسے ہارنا نہیں تھا، وہ پرائے دیش میں فتح کا جھنڈا لہرانے آئی تھی،اور وہ جھنڈا لہراۓ بنا ٹلنے والی نہیں تھی۔
رُکو نین،! سب کے جانے کے بعد اے۔جے نے نین کو روکا تھا۔
تم ایک بہت بہادُر لڑکی ہو،اور بہت عقل مند بھی۔ جس طرح آج تم نے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی ایسا سمجھداری والا کام نہیں کرتا
آئ ایم پراؤڈ آف یو،تمہیں دیکھتی ہوں تو پاکستان کی یاد اور شِدت سے آتی ہے،آج بھی اے ۔جے کی آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔
میم آر یو اوکے؟ نین فوراً آگے بھڑی تھی
یس آئ ایم فائن۔یہ درد تو ایسا ہے جو وقت کے ساتھ بھی ختم نہیں ہو گا، یہ درد بھرے راستے میں نے خود ہی تو چُنے ہیں اپنے لیےوہ بےبسی اور درد کی ملی جُلی کیفیت میں مبتلا اُداسی سے گویا ہوئیں۔
میم آپ پاکستان میں کہاں سے ہیں؟
اسلام آباد سے، تُرنت جواب آیا تھا۔
میم آپ اتنی اُداس کیوں رہتی ہیں، جب بھی پاکستان کا نام آتا ہے آپکی آنکھوں میں آنسو کیوں آ جاتے ہیں،اُسنے سرعت سے پوچھا تھا۔
باز اوقعات وقت بُرا ہوتا ہے اور انسان اُس بُرے وقت کی زد میں آ جاتا ہے،میں بھی بُرے وقت کی ماری ہوئی ہوں۔،میرا اُٹھایا ہوا ایک غلط قدم جس نے میری زندگی کی بنیاد کو ہلا دیا، ایسی خطا سرزرد ہوئی ہے میرے سے کے میرے اپنے میرے پیارے مُجھ سے دور ہو گئے۔
بات کرتے کرتے اے جے نے نین کی طرف سے منہ پھیر لیا شاید وہ اپنے آنسو چُھپانا چاہتی تھیں ۔اور نین نے اُنہیں رونے دیا تھا،درد سے بھرے آنسو جتنے بہہ جائیں اُتنا اچھا ہوتا ہے
نین خاموشی سے واپس پلٹ گئی۔اور اے۔جے بنا آواز کے آنسو بہاتی رہیں ۔
※※※※※※※※
خوابوں کا جہاں گُلِستانِ پیرس کی ہواؤں میں کوئی جادو تھا، سحر تاری کر دینے والا خیرت انگیز خوبصورتی رکھنے والا مُلک پیرس جہاں کی رونقیں اور بارشیں مسخور کر دینے والا جادو خود میں سماۓ رکھتی ہیں۔
بارش بے زور برس رہی تھی آسمان سے ٹپ ٹپ کرتی بوندیں جب خشک مٹی پہ گر کر اُسے گیلا کرتیں تو مٹی کی مہک سارے کہیں پھیل جاتی۔۔۔۔ بادلوں کی بے جا گرج اور بجلی کی چنگاڑتی تیز آوازیں ایک پل کیلے انسانی روح کو خوفزدہ کرنے کیلیے کافی ہوتی ہیں،،،، بادلوں کی زوردار آوازوں سے وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا، کمرا تاریک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، اُسنے ہاتھ بڑھا کر لیمپ روش کیا تو ایک پل میں کمرا چکاچوند روشنیوں سے جگمگا اُٹھا، وہ بستر چھوڑ کر کھڑکی کے پاس آیا اور ہلکا سا پردہ اُٹھا کر باہر کا منظر دیکھا تھا، بارش ہنیوز برس رہی تھی، لان کا منظر نکھرا نکھرا سا تھا،سبز گھاس نے اُسکی آنکھوں کو خوشگوار احساس بخشا تھا، پردے برابر کر کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو باہم رگڑتے واپس بستر میں لیٹ گیا۔
اُسنے آنکھیں موندی تو کھلکھلاتا ہستا چہرہ اُسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا اُسنے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ، آنکھوں میں چھپنے والا منظر اب غائب تھا۔
نین کا گرنا اور اس کا لپک کر اُسے گرنے سے بچانا اور پھر تادیر اُسے اپنے بازوؤں میں لیئے دیکھتے رہنا،اور تب سے اب تک جستجو اور بےبسی کی لڑائی لڑنا،یہ احساس ایک دم نیا تھا،وہ اُسکی سوچوں کو جتنا دل و دماغ سے جھٹکتا،وہ اُتنی ہی اُس پہ حاوی ہوتی چلی جا رہی تھی،وہ اوس کی مانند اُس پہ برستی اور پیگھل کر اُسی میں جزب ہوتی جارہی تھی۔
اُسکی گُلابی رنگت اُسکا صبیح چہرہ نظروں سے ہٹ کے ہی نہیں دے رہا تھا۔
اُسکے وجود کی طلسماتی کشش اور مہک ابھی تک اُسکے وجود کا حصہ بنی ہوئی تھی،اُسکا تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔، اُسے اپنے وجود کی اپنی پرچھائی کی آواز سنائی دی،تُجھے محبت ہو گئی ہے پیارے۔۔۔
محبت؟؟؟ ؟ اُس نے نا سمجھی سے اپنی پرچھائی کو دیکھتے ہوۓ زیرِ لب کہا تھا۔
ہاں محبت ۔۔۔۔۔۔۔ محبت دنیا کا سب سے منفرد جزبہ ہے اور یہ تو اُن کو ملتا ہے جنہیں خُدا خود نوازتا ہے، تُجھے بھی نوازا ہے تیرے رب نے ، تُجھے نین سکندر سے محبت ہو گئی ہے اُسکا نفس اُسے اُلجھا رہا تھا۔
نہیں،نہیںُ،نہیں ایسا نہیں ہو سکتا مُجھے محبت نہیں ہو سکتی مُجھے محبت سے نفرت ہے۔وہ اپنے نفس سے لڑ رہا تھا۔
محبت سے کب کبھی کوئی بھاگ سکا ہے آج تک ، محبت سے نفرت؟ ہاہاہا محبت سے کون نفرت کرتا ہے،محبت اور نفرت کا کوئی جوڑ نہیں ، محبت تو نفرت کرنے والوں کہ دلوں میں بھی ہوتی ہے اُسکا عکس اُسکے روبرو کھڑا ہس رہا تھا اور شہریار ہاتھوں میں بالوں کو پھنساۓ بے بس سا لگتا تھا۔
محبت کی دستک بڑی زور آور ہوتی ہے، نجانے یہ چھپکے سے کیسے اُسکے دل کہ نہا کونوں میں اُتری تھی۔ محبت کے رنگ اُسکے چار سو پھیلے تھے،اُسکی سوچوں کا محور فقط وہی تھی ،اُسکی تمام سوچیں اُسی سے شروع ہو کر اُسی پہ ختم ہو رہی تھیں۔ اُسنے ساری سوچوں کو جھٹک کر دوبارہ آنکھیں موند لیں
***============***
سُرمئی رنگ کی کرنیں روشنِ جہاں کر رہی تھیں۔، رات بھر کی بےزور بارش کے بعد قدرت کو پیرس میں رہنے والے مکینوں پہ رحم آگیا،سورج کی بے جا کرنیں اُفق سے آبشار کی طرح گرتی خوشنوما تازگی کا احساس اُجاگر کر رہی تھیں۔
تہواروں کے دن جا چکے تھے، پڑھائی زوروشور سے چل رہی تھی،نین ساری پرانی باتوں کو بھُلا کر سنجیدگی سے پڑھائی کر رہی تھی، ماما پاپا وجی سب سے روز بات ہو جاتی تھی،ماما ہمیشہ کی طرح روز نئی سے نئی نصیحتوں کا پلندا لیے خاضر ہو جاتیں،اور وہ ہس ہس کے ماما میں سب دھیان رکھوں گی کہہ کر اُنہیں تسلی دیتی۔
جب سے وہ یہاں آئی تھی ماما کے ہاتھ کا بنا لزیز کھانا آسے بہت یاد آتا تھا۔،پہلے سمسٹر کے پیپرز ہونے والے تھے،نین سکندر جب دیکھو کتابی کیڑا بنی پڑھائی میں محو رہتی۔ابھی بھی وہ لِنڈا کے ساتھ گارڈن ایریا میں آ کر بیٹھی تھی،جب ما سواۓ شہریار باقی چاروں بندر اُسکے سامنے موجود تھے،اور مزے کی بات یہ تھی آج اُن چاروں کی زُبانیں بند تھیں، چاروں اپنی زُبانوں پہ فُقعل لگائے کھڑے تھے، جب لِنڈا نے انہیں مخاطب کیا۔
تم سب یہاں کیا کر رہے ہو؟”، اب کیا چاہیے کیا اب کوئی نیا تماشہ کرنے آۓ ہو مُجھے اُس دن زرا بھی اندازا ہوتا کہ تم لوگ ایسا کرنے والے ہو تو میں نین کو کبھی اکیلے چھوڑ کر نہیں جاتی”۔ شستہ فرینچ زُبان کا استعمال کرتے ہوۓ وہ اُن سب کو ڈبت رہی تھی۔
نین! سوری ہم شرمندہ ہیں ہمیں” ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، کیا تم ہمیں معاف نہیں کر سکتی”۔؟؟؟
اس بار ہیری نے شروعات کی تھی اور پھر پیچھے پیچھے باقی سب بھی شرمندگی ظاہر کرتے دیکھائی دیئے تھے۔ایک دم سے ان سب کی کایا کیسے پلٹ گئ ۔نین کی سمجھ سے بالا تر تھا۔
اور “تم سب سے کس نے کہا کہ میں تم سب سے ناراض ہوں”؟ کتابوں کو گلے سے لگاے عام انداز میں بولی تھی۔ “میں نے تو اُسی دن معاف کر دیا تھا جس دن تم سب نے سوری بول کہ بات کو ختم کیا تھا، میں نے بھی اُسی دن اس با ت کو بھلا دیا تھا”۔
تھینکس نین تم بہت اچھی ہو”
اس” بار پیٹر نے کہا تھا، “اور کیا ہم دوستی کر سکتے ہیں”؟ کہتے ہوۓ جواب طلب نظروں سے نین کو دیکھا تھا
ا”نہیں میں نے تم سب کو معاف
کر دیا ہے ، لیکن دوستی نہیں کر سکتی کیونکہ میرے دوست بہت کم اور بہت خاص ہوتے ہیں” ۔۔۔ اُس نے بڑے اعتماد سے اُن سب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ کہا تھا، جبھی اُن سب نے زیادہ فورس نہیں کیا اور دوبارہ تھینکس بول کر واپس پلٹ گئے۔
پیرس جتنا خوبصورت تھا، یہاں کے لوگ اُتنے ہی بے مروت اور اُلٹی کھوپڑی کے تھے یہ بات نین کو از بر ہو گئی تھی
*****======*****
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...