جیک نے وضو کیا اور اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گیا کافی عرصہ بعد اسے سکون محسوس ہوا وہ مطمئن ہوکر سوگیا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہم تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس کر کے آۓ ہیں اب مزید کوئی تاخیر نہیں ہوگی “آ فندی صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنے خوبرو نوجوان بیٹے کو فخر سے دیکھتے ہوئے کہا
جب کہ چائے پیتے ہوئے ذا يان کو جھٹکا لگا ” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں!!!! بابا آپ جانتے ہیں کہ میں مصروف ہوں اور آپ میری شادی کی ڈیٹ فکس کر کے آ گئے ہیں “
“بیٹا آرمی کے فیلڈ ایسی ہے کہ تم کبھی فارغ نہیں ہو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ساری عمر کنوارے ہی رہو گے اب فائنل فیصلہ ہوگیا ہے “
”اوکے بابا“ زا یان تابعداری سے کہا
یاہو !!! ایشال خوشی سے چلاتے ہوئے بولی بھائی کی شادی میں مزہ آئگا ا شکر بھائی آپ مان گئے میں اب بھی اپنے فرینڈز کو بلاتی ہوں ابھی سے شادی شادی کی تیاریاں شروع“۔ ۔۔،۔۔۔
“بس کر دو چھوٹی کر لینا سب“ زا یان نے اس کی چلتی ہوئی زبان کو بریک لگائی
“کیا بھائی آپ بھی نہ !!!! میں چھوٹی نہیں ہوں “
ایشال نے منہ بناتے ہوئے کہا
“پگلی ہو تم بھی تم ہمیشہ میرے لئے چھوٹی ہی رہو گی““
زا يان نے اس کے سر پر پیار سے چپت لگاتے ہوئے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت ہی سنسان سی جگہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف خوفناک سی خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور دور تک کسی بھی ذی روح کا نام و نشان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بھیانک ماحول میں وہ اکیلا کھڑا سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہاں وہ کیسے اور کیوں آیا
اس بات سے بے خبر کے ایک ہیولا اس کی طرف بڑھ رہا تھا
اس کی چھٹی حس نے اسے بیدار کیا اور پیچھے دیکھتے ہی اس کے منہ سے ایک دل دہلا دینے والی چیخ نکلی
اس سے پہلے کہ وہ ہیولا مزید اس کے قریب آتا اپنی تمام تر ہمت کویکجا کر کے وہ بھاگ کھڑا ہوا و ہ پیچھے دیکھے بغیر مسلسل آگے بڑھ رہا تھا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور اس کا اختتام کہاں ہوگا ؟؟؟؟
زمین پر پڑے ایک پتھر کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگی اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا ۔۔۔۔
اب اس کے اور ہیولے کے درمیان فاصلہ نہایت کم رہ گیا تھا جیسے جیسے ہیولا قریب آتا جا رہا تھا اس کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی موت کو سامنے دیکھ کر اس نے اپنی آنکھوں سے بند کر لیں اور ا چانک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یار آ پی ایسے کیا منہ بنا کر بیٹھی ہوئی ہو ابھی تو رخصتی میں دن باقی ہیں اور ویسے بھی آپ ماموں کے گھر جا رہی ہیں“ زا ئرہ نے روہانسے لہجے میں زارا سے کہا جو ادا س بیٹھی ہوئی تھی
” میں جانتی ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!؟
“کیا جانتی ہو“؟ ؟ زارا نے پوچھا
“یہی کہ آپ بہت خوش ہی۔۔۔۔۔۔ں دل ہی دل میں مسکرا رہی ہوگی کہ زین بھائی سے ملیں گے اور سب کے سامنے اداس رہی ہو…..“
“جب تمہاری شادی ہوگی تب تمہیں پتا چلے گا کہ تم خوش ہوتی ہوں یا اداس“ زارا نے نے اسی کے لہجے میں کہا
“وہ بعد تو بعد کی بات ہے ابھی آپ کی شادی ہے چلے باہر چلتے ہیں !!!!
اور یہ کہتے ہوئے زائرہ ا سے روم سے باہر لے کر آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا چانک ایک تیز روشنی اس کی آنکھوں سے ٹکرائی جس کی وجہ سے اس کی بند آنکھیں بھی چند ھیا گئں
آہستہ آہستہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور سامنے کا منظر بدل چکا تھا یہ ایک پُر نور روشنی تھی جس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تھا اور وہ ہیو لا بھی غائب ہو چکا تھا اس پر نور روشنی میں سے ایک شعا ع نکلی اور اس زمین پر پڑے ہوئے آدمی سے ٹکرائ اور اس کے ساتھ ہی ایک آواز سنائی دی
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9)
پسینے میں شرابور جیک کی آنکھ کھلی اس کی دل کی دھڑکن ابھی بھی بہت تیز تھی اور دماغ خوف کے زیر اثر۔۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں ہے
جیک اٹھا اور اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا خواب تھا اس کا مطلب کیا ہوگا وہ پوری رات بے چین تھا ۔۔۔۔اس خواب کے بعد سے جیک کو نیند بالکل بھی نہیں آ رہی تھی وہ بار بار اس خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ سنسان جگہ خوف ناک سی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہیولا ۔۔۔۔۔۔
یہ سب کیا تھا ؟؟؟؟؟
جیک نے کسی سے بھی بات نہیں کی اور بابا کے پاس جانے کا سوچنے لگا کیونکہ وہ واحد انسان تھے جن کے پاس اس کے ہر مسئلے کا حل موجود تھا اور اس کی باتیں جیک کو پرسکون کر دیتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا یشال اپنے دوستوں کو بلا کر خوب ہلا گلا کر رہی تھی اتنے سالوں بعد ان کے گھر کوئی فنکشن تھا اور اس کے بھائی کی شادی کی وہ سب بہت خوش تھے ان سب کے باوجود زا ایان اپنے مشن کے بارے میں سوچ رہا تھا اس کے خیال سے کے مشن مکمل ہونے کے بعد اس کی شادی ہونی چاہیے تھی
وہ اکیلا اپنے روم میں بیٹھا ہوا تھا ایشال اور اس کی دوستیں اس کے ارد گرد بیٹھ گئی اور اسے تنگ کرنے لگی
بھائی آپ یہاں کب سے بیٹھے ہوئے ہیں آپ نہیں آرہے تھے تو ہم آپ کے پاس آگئے ایشا ل نے شرارت سے کہا اور سب ہنس پڑیں
زا يان نے بھی سوچا کہ میرے گھر والے اور سب خوش ہیں تو مجھے بھی خوش ہونا چاہیے ۔۔۔۔وہ بھی ان سب کے ساتھ شریک ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیک بابا کے پاس آ گیا ۔۔۔۔اسنے بابا کو اپنا خواب سنایا ۔۔۔۔۔
بابا کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ ئ اور انہوں نے مسکرا تے ہوۓ کہا
انسان نیند کی حالت میں ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بیداری اورجاگنے کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ عرف عام میں اس کو خواب کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خلاصة التفاسیر میں ہے کہ خواب میں روح جسم سے نکل کر عالم علوی اور عالم سفلی میں سیرکرتی ہے جو جاگنے میں نہیں دیکھ سکتی وہ دیکھتی ہے۔ اسے حِسِّ روحانی کہنا چاہیے، حس جسمانی صرف حاضر پر حاوی ہوسکتی ہے اور حِس روحانی حاضر وغائب دونوں کا ادراک و احساس کرتی ہے، اس لئے خواب میں ایسے احوال وکیفیات مشاہدہ میںآ تی ہیں جن سے خود خواب دیکھنے والے کو بڑی حیرت ہوتی ہے، کبھی مسرت انگیز اورکبھی خوفناک تصویریں ذہن میں ابھرتی ہیں اور بیداری کے ساتھ ہی یہ تمام کہانی یکلخت مٹ جاتی ہے۔ قرآن کے متعدد مقامات میں مختلف نوعیتوں سے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اوراحادیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیاء کرام کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان الوہیت اور برکات نبوت سے ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اس سے مراد علم نبوت ہے یعنی رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جزو حصہ ہے۔ (صحیح بخاری ومسلم) غور کیاجائے تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور بہتر خواب کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی ہے اوراسے نبوت کا پرتو قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: پہلی قسم نفس کا خیال ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اوراس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکّل ہوکر نظر آتی ہیں، مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ ور روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن وخیال ان ہی باتوں کی فکر اور ادھیڑ بن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ ور روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، غرض کہ عالمِ بیداری میں جس شخص کے ذہن وخیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے، وہی اس کو خواب میں نظر آتی ہے۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔
دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان چوں کہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ جس طرح عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا۔ چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اورڈرانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے، کبھی اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی جاتی نظر آتی ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ جو موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہوجاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے۔ پہلی قسم کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اَعُوْذُبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضبِہ وَعَذَابِہ وَمِنْ شَرِّ عِبَادِہ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیاطِیْنَ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ․ (ابوداؤد وترمذی) ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وساوس و اثرات سے اوراس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔
خواب کی تیسری قسم وہ ہے جس کو منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اوراس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو مشکل کرکے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)
اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور خوشخبری ہوتی ہے کہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اورامید آوری کا باعث اور شکر خداوندی میں اضافہ کا موجب بنے اور برا خواب شیطانی اثرات کا عکاس ہوتاہے یعنی برے خواب سے انسان فطری طور پر پریشان اور غمگین ہوتا ہے جس سے شیطان بڑا خوش ہوتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کردے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سورہا تھا۔(مشکوٰة:۳۹۴)
دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے انشاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایساخواب کسی دشمن یا دوست کے سامنے بیان نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر جب خراب تعبیر دے گاتواس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ دل ودماغ میں مختلف قسم کے اندیشے، وسوسے اور مختلف اوہام وخیالات پیدا ہوں گے جن سے وہ شخص پریشان ہوگا اور خواہ مخواہ اس کا سکون و چین متاثر ہوگا، اسی کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ سننے والے شخص نے جس خراب تعبیر کی نشاندہی کی ہے وہ واقع ہوجائے۔ اس لیے کہ خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ویسا ہی وقوع پذیر ہوجاتا ہے، چنانچہ ابورزین عقیلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہی علی رجل طائر مالم یحدث بہا فاذا حدث بہا وقعت (مشکوٰة: ۳۹۶) ”خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتاہے اورجب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے“ ․․․ علی رجل طائر یعنی پرندہ کے پاؤں پر ہونا دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جو اہل عرب کسی ایسے معاملہ اور کسی ایسی چیز کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کو قرار وثبات نہ ہو، مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طورپر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا بلکہ اڑتا اورحرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پرہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنیٰ سی حرکت سے گرپڑتی ہے۔ اسی طرح یہ معاملہ اور یہ چیز بھی کسی ایک جگہ پر قائم و ثابت نہیں رہتی لہٰذا فرمایاگیا ہے کہ خواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیاجاتا اور اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس وقت تک اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ وہ واقع ہوتا ہے لیکن جب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے اور جوں ہی اس کی تعبیر دی جاتی ہے وہ اسی تعبیر کے مطابق واقع ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی کے سامنے اس طرح کے خواب کا تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اچھے خواب میں اگرچہ ناخوشگوار باتوں کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تاہم اسے بھی کسی جاہل، دشمن اورنااہل کے پاس بیان نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس کے غلط تعبیر بتانے کے سبب خواب کا رخ بدل سکتا ہے، البتہ اہل علم، تعبیر خواب کے ماہر اور دانا دوستوں سے بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جیک حیرت سے بابا کی باتیں سن رہا تھا اسے یقین نہی آرہا تھا کے بابا اتنی معلومات رکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...