“آسٹریلیا جانا ہو گا؟” سبکتگین کو چائے پینا دشوار لگنے لگا تھا۔ اس نے حیرت سے پہلے حسین صاحب کو پھر نجیب کو دیکھا، جو خود بھی انگشت بدنداں تھا۔
“بات دراصل یہ ہے بیٹا۔!” وہ چائے کی پیالی واپس رکھتے، اس سے بات کرنے کے لیے تھوڑا آگے کو ہوئے۔
“بیٹا۔!” نجیب کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں، اس نے بمشکل اپنی گڑبڑاہٹ کو چائے کا گھونٹ بھر کر قابو کیا تھا۔
“تم تو گئے کام سے سبکتگین رضا۔۔۔”اس کے دماغ نے خطرے کی گھنٹیاں بجائی تھیں۔
“میں آج ہی جا کر فوزیہ خالہ سے کہتا ہوں۔ کہ جلدی ہی کوئی انتظام کریں۔” جتنی دیر حسین، سبکتگین سے بات کرتے رہے، نجیب اپنے دماغ میں الگ ہی کھچڑی پکاتا رہا۔
“نجیب! تم بھی کوئی مشورہ دو۔ ایسے موقع پر دوستوں کی رائے بہت کام آتی ہے۔” حسین صاحب کی آواز اسے حال میں واپس لائی تھی۔
“مجھے لگتا ہے نجیب صاحب نے بات کوئی غور سے سنی بھی نہیں۔” عبیرہ نے چپس کا ٹکڑا منھ میں رکھتے، مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
“مشورہ تو میں اسے دوں گا ہی سر! لیکن پہلی رائے تو یہ اپنے گھر والوں سے لے گا۔” عبیرہ کی بات تو سچ تھی لیکن اظہار کرکے وہ محفل کے آداب کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ محفل میں غائب دماغ رہا تھا۔ حسین صاحب نے سر ہلا کر اس کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ کہ بےشک اولین رائے تو گھر والوں کی ہی ہونی چاہیے تھی۔
“ٹھیک ہے سر! مجھے اجازت دیجئے۔ جیسے ہی میں نے کوئی فیصلہ کیا میں آپ کو بتا دوں گا۔”دونوں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
“فیصلہ کرنے میں بہت دیر مت کیجیے گا سبکتگین صاحب! کمزور قوت فیصلہ اکثر انسان کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کرتی ہے۔” عبیرہ نے عام سے لہجے میں بہت گہری بات کہی تھی۔
“میں جانتا ہوں مس حسین! لیکن میرے پیش نظر صرف میری اپنی ذات نہیں، میرے گھر والے بھی ہیں۔”
“آپ کی بات درست سہی! لیکن زندگی ہمیشہ ایسے مواقع فراہم نہیں کرتی۔ اپنے خواب کی تعبیر پانے کے کے لیے، اگر زندگی آپ کو ایک موقع دے رہی ہے تو مجھے امید ہے آپ کے گھر والے بھی آپ کا ساتھ دیں گے۔” وہ انھیں رخصت کرنے مرکزی دروازے تک آئی تھی۔
“اور ایک آخری بات۔!” وہ دروازے سے باہر قدم رکھ چکا تھا جب اس نے قدم روک کر عبیرہ کی بات سنی۔
“فیصلہ کرنے میں بہت دیر نہ ہو! ہمارے پاس پاکستان سے آسٹریلیا جانے میں دو مہینے ہیں۔” نجیب نے بائیک سٹارٹ کی تھی۔ سبکتگین محض سر ہلاتا اس سے رخصت ہوا تھا۔ عبیرہ کی پر سوچ نگاہوں نے، نظروں سے اوجھل ہو جانے تک ان کا پیچھا کیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“السلام علیکم! کیسے ہیں بھائی؟” شازیہ نماز ادا کر رہی تھیں جب ان کا فون بجنے لگا تھا۔ اقدس فون کی بجتی بیل سن کر ہی کمرے میں آئی تھی۔ فون غزنوی کا تھا۔
“سمارٹ فونز کے دور میں، آئی ایم او اور وٹس ایپ جیسی کالز ایپ کے ہوتے ہوئے بھی آپ نے آج اتنے دنوں بعد فون کیا۔” فون پکڑے وہ صوفے پہ بیٹھی تھی۔
“باتیں تو بہت آتی ہیں تمھیں، سمارٹ فون اور یہی سب ایپس یقیناً تمھارے پاس بھی ہیں، تو کیا تمھیں منع ہے کہ بھائی کو یاد کر سکو؟” وہ بھی اس کا بھائی تھا کیوں ادھار رکھتا بھلا۔؟
“یہ امی کا فون ہے بھائی! اور میں ان کی جانب سے شکوہ کر رہی ہوں۔” اس نے شرارت سے کہہ کر بات بنائی تھی۔
” بس باتیں مت بناؤ! امی شکوہ نہیں کرتیں، میں جانتا ہوں انھیں۔ تم یہ بتاؤ ان کا فون تمھارے پاس کیا کر رہا ہے؟ اپنا فون اریبہ سے لڑائی کے دوران توڑ تو نہیں دیا؟” شازیہ اب بھی اسے ان دونوں کے لڑائی جھگڑوں کا بتاتی رہتی تھیں۔
“نہیں نہیں، بالکل ٹھیک ہے میرا فون۔ اللہ نہ کرے کہ اسے کچھ ہو۔ میں جھگڑے میں بھی اپنے فون کو سنبھال کر رکھتی ہوں۔ ویسے امی نماز پڑھ رہی ہیں، اس لیے فون میں نے اٹھایا۔” چہرے پر آئی بالوں کی لٹ کو انگلی پہ لپیٹتے وہ بھائی سے لمبی بات کیے گئی، شازیہ نے سلام پھیرا اسے مصروف دیکھ کر دوبارہ نیت باندھ لی، دو نفل ہی رہ گئے تھے۔ وہ پڑھ کر ہی بات کرنی تھی اب۔
“پڑھائی کیسی جا رہی ہے تمھاری؟”
“ٹھیک ہی جا رہی ہے بھائی! بس تھک جاتی ہوں کبھی، انگریزی پڑھ پڑھ کر۔۔۔!” اسے کچھ یاد آیا۔
“بھائی۔!” جوش سے کہتے وہ سیدھی ہو کر بیٹھی اور بولی:
“مجھے کینیڈا بلوا لیں نا!” غزنوی کے لیے اس کا مطالبہ حیران کن تھا۔
“کینیڈا بلوا لوں! کیوں؟” وہ اگرچہ امی سے آج اسی سلسلے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن اقدس کا خود یہ کہنا، بھی عجیب تھا۔ پہلے تو اس نے کبھی ایسی فرمائش نہیں کی تھی۔
“بھئی مجھے فرفر انگریزی سیکھنی ہے، تو اسی بہانے وہاں رہ کر سیکھ لوں گی نا۔” اس کی بچکانہ باتیں۔۔۔
“کتنے عرصے کے لیے بلاؤں؟” غزنوی نے پوچھا
“کیا ہمیشہ کے لیے؟” اس کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔
“ہمیشہ کے لیے۔۔” وہ سوچ میں پڑ گئی۔
“ہمیشہ کے لیے کیسے آ سکتی ہوں میں بھائی؟”
“کیوں نہیں آ سکتی؟”
“میں امی، ابو، اریبہ، اور تایا ابا، خالہ، سبکتگین اور شاہنواز کے بغیر کیسے رہوں گی؟” اس نے ایک ایک فرد کا نام گنوایا تھا۔
“یہ سب ہمارا خاندان ہیں بھائی! ان سب سے میری زندگی میں رونق ہے اور میں ان سب کے بغیر نہیں رہ سکتی۔” سلام پھیرتی شازیہ کو اس کی باتوں نے ایک عجیب سا سکون بخشا تھا۔
“ہاں ایک دو مہینے کے لیے بلوا سکتے ہیں تو ضرور بلائیں۔ میں آ جاؤں گی۔” آخر میں بچوں کی طرح خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تھا۔
“اچھا یہ امی نماز پڑھ چکی ہیں، ان سے بات کر لیں۔” فون شازیہ کو تھما کر وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔ حال احوال، خیریت و عافیت دریافت کرنے کے بعد، غزنوی آج کی خاص بات کی طرف آیا تھا اور تھوڑی سی پس و پیش کے بعد ان سے ردابہ اور سفیر کے والد کی کہی ساری بات کہہ دی تھی۔ شازیہ ردابہ کو جانتی تھیں اور یہ بھی کہنا غلط نہیں تھا کہ غزنوی کی اسے لے کر پسندیدگی اور رجحان سے بھی واقف تھیں۔ لیکن آج کی بات ان کے لیے قطعی غیر متوقع تھی۔
“یہ تم کیا کہہ رہے ہو غزنوی؟” وہ اس کی بات سن کر عجلت میں جائے نماز اکٹھی کیے بغیر ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
“یہ سچ ہے کہ مجھے اور تمھارے ابو کو تمھارے اور ردابہ کے رشتے پہ کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اقدس اور اس لڑکے سفیر کا رشتہ۔۔۔ نہیں بیٹا کبھی نہیں۔”انھوں نے بلا سوچے سمجھے انکار کیا تھا۔
“امی ایک بار سوچیے تو سہی! سفیر کی یہاں ٹریڈنگ کمپنی ہے، اپنا گھر، کاروبار ہے۔ اقدس کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے۔” اس نے انھیں قائل کرنا چاہا۔
“روپے پیسے کی ریل پیل اور آسائشات کا ڈھیر، روشن مستقبل کا ضامن نہیں ہوتا غزنوی!” شازیہ نے رسان سے سمجھایا۔
“ٹھیک ہے امی میں غلط ہو سکتا ہوں، لیکن سفیر اچھا لڑکا ہے۔” غزنوی نے پیسے والی کی گئی اپنی بات کو غلطی تسلیم کیا تھا۔
“مجھے کسی اچھے لڑکے سے سروکار نہیں ہے غزنوی! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے اور تمھارے ابو نے باہمی مشورے سے اقدس کے بچپن ہی سے سبکتگین کے ساتھ اسے سوچ رکھا ہے۔” شازیہ نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا تھا۔
“اور سبکتگین کے علاوہ کوئی کتنا امیر کبیر یا اچھا ہے، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”
“آج کل بچپن میں طے کیے گئے رشتے کون مانتا ہے امی؟” وہ ان کی ضد سے زچ ہوا تھا۔
“یہی بات تم ردابہ کے ابو کو سمجھاؤ کہ آج کل وٹے سٹے کی شادی کیسے مستقبل محفوظ کر سکتی ہے؟” اب کی بار وہ خاموش ہوا تھا۔
“دیکھو غزنوی! تم نے کینیڈا جانے کا فیصلہ کیا، ہم نے تمھیں نہیں روکا جانے دیا۔ تم نے ردابہ کو پسند کیا، اس سے شادی کا فیصلہ کیا تب بھی ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس سے ملے بغیر تمھاری پسند کو دل و جان سے قبول کیا۔” وہ سانس لینے کو ذرا ٹھہریں۔ اور کچھ توقف کے بعد پھر سے بات شروع کی:
“لیکن اب اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمھاری پسند کا ساتھ دیتے ہوئے میں اپنی بیٹی کا رشتہ ایک ایسے لڑکے سے طے کر دوں۔ جس سے نہ ہم کبھی ملے نہ دیکھا، تو ایسا نہیں ہو گا۔” انھیں کھانے کے لیے بلانے آتی اریبہ، بیٹی کا ذکر سن کر باہر ہی کھڑی رہ گئی۔
“لیکن امی مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟ ردابہ کے ابو نے شرط رکھی ہے کہ شادی تبھی ہو گی جب سفیر کا رشتہ میری بہن سے ہو گا۔” وہ بھی اپنی جگہ پریشان تھا۔
“زندگی بھر کے ساتھ کا فیصلہ شرائط پہ طے نہیں کیا جاتا بیٹا۔! باہمی افہام و تفہیم سے یہ کام کیا جاتا ہے، ورنہ صرف ایک شخص کی رائے پہ کیے گئے فیصلے زیادہ دیرپا نتائج نہیں لاتے۔” وہ بیٹے کی کیفیت سمجھ سکتی تھیں۔
“میں جانتی ہوں کہ تم ردابہ کو پسند کرتے ہو، لیکن اپنی پسندیدہ چیز کے حصول کے لیے اپنی بہن کی قربانی کیا معنی رکھتی ہے؟” ان کی یہ بات اسے بری طرح چبھی تھی۔
“میں کوئی قربانی نہیں مانگ رہا امی! لیکن آپ ایک بار اقدس سے بات تو کیجیے۔”
“کیا بات کروں میں اقدس سے؟ کہ اس کا بھائی اپنی شادی کروانے کے لیے اس کی قربانی چاہ رہا ہے۔” وہ اسے کسی قسم کی امید نہیں دلانا چاہتی تھیں۔ جبکہ باہر کھڑی اریبہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ یہ اچانک کیا ہو گیا تھا؟
“کل کو ردابہ تو تم پہ یقین کر لے گی کہ تم نے اس کی خاطر اپنی بہن کو مجبور کر لیا۔ لیکن کیا اقدس اپنے بھائی پہ اعتبار کر پائے گی؟ جس نے اپنی خوشیوں کے لیے بہن کو قربان کیا؟” غزنوی کو ماں سے اس قدر مخالفت کی توقع نہیں تھی۔
“آپ یہ سب اپنی بہن اور بھانجے کی وجہ سے کہہ رہی ہیں نا امی!” اس نے جلے دل سے پوچھا تھا۔ لیکن انھیں اس کا یہ انداز پسند نہیں آیا تھا۔
“میری بہن تمھاری خالہ بھی ہیں غزنوی! اور میری بہن سمیت میرے بھانجے سے بھی تمھارے دہرے رشتے بنتے ہیں۔ نئے تعلق استوار کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تم پرانے رشتوں کی پاسداری اور ان کا ادب احترام ہی بھول جاؤ۔” وہ ماں تھیں اسے ڈانٹنے اور سمجھانے کا پورا حق رکھتی تھیں۔
“اور میری ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لو، کہ اقدس کے بارے میں تو سوچنا ہی مت، اور وہ لڑکی ردابہ اگر آج اس بےجا شرط پہ، تمھارے لیے اپنے باپ سے لڑ نہیں سکتی تو کل وہ کسی مقام پہ کیا ساتھ دے گی تمھارا؟” غزنوی بےچارا سوچ کر ہی رہ گیا کہ وہ تو خود اس شرط کے خلاف تھا۔ لیکن اب سمجھاتا تو کسے سمجھاتا؟
“اگر میں نے یا تمھارے ابو نے، اور تمھاری خالہ فوزیہ نے بھی اقدس کو سبکتگین کے لیے نہ سوچا ہوتا تو مجھے اس وٹے سٹے کی شادی پہ کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن اب یہ نہیں ہو سکتا۔ تم ردابہ کو سمجھاؤ، اگر وہ اپنے باپ کو منا لیتی ہے تو بہت اچھے، ورنہ تم ٹھنڈے دماغ سے سوچنا کہ کیا وہ تمھارے لیے درست انتخاب ہے؟” اسے ایک نئی سوچ کا زاویہ دے کر انھوں نے فون کیا اور اریبہ کو آواز لگائی:
“یہ دیوار کے اس طرف کھڑے ہو کر کن سوئیاں لینے کی کیا ضرورت تھی تمھیں؟” انھیں کافی دیر سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ وہاں کھڑی ہے۔
“بہت بری حرکت لگتی ہے مجھے یہ، دروازوں یا دیواروں کے پیچھے کھڑے ہو کر، چھپ کر باتیں سننا۔ اخلاقی لحاظ سے بھی برا ہے۔” انھوں نے اس کے خوب لتے لیے تھے۔ وہ شرمسار سی، سر جھکائے کھڑی تھی۔
“تم دونوں سے کوئی بات چھپی نہیں ہوتی، نہ میں نے کبھی کوئی بات چھپائی ہے۔ پھر بھی یہ سب۔! اتنا شوق تھا سننے کا تو کمرے میں ہی آ جاتی۔” کچھ غزنوی کی باتیں اور کچھ اس کی حرکت نے ان کا دماغ مزید گھما دیا تھا۔
“غلطی ہو گئی امی، معافی چاہتی ہوں۔ آیندہ ایسا نہیں کروں گی۔” وہ روہانسی ہو گئی، تھی بھی ایسی، ذرا سی ڈانٹ یا غصے سے ڈر جاتی تھی۔
“اچھا، چلو کوئی بات نہیں۔ میں نے بھی زیادہ ہی ڈانٹ دیا۔” کھڑے ہو، مسکرا کر اسے کندھے سے لگا کر پیار کرتے، کچھ دیر پہلے کی ڈانٹ کا اثر زائل کیا۔
“ابو کب سے کھانے پہ انتظار ر رہے ہیں امی!” اسے یاد آیا۔
“ہاں ہاں چلو! یہ غزنوی نے تو دماغ ہی ہلا کر رکھ دیا۔” وہ اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکلی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“امی! کیا کروں میں؟ کیا کہتی ہیں آپ؟” رات کے کھانے کی تیاری کے دوران ہی سبکتگین نے فوزیہ کو عبیرہ سے ہونے والی ساری بات بتا دی تھی۔
“میں کیا کہوں بیٹا؟ میں تو ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں، بس تمھارے ابا۔۔ وہ مان جائیں۔” روٹی بیلتے انھوں نے کہا،
“ابا جی کا ہی تو۔۔۔!” ماچس کی بجھی تیلی سے ہتھیلی پر لکیریں کھینچتے وہ یاسیت سے بات ادھوری چھوڑ گیا تھا۔ لیکن کچھ دیر بعد بولا۔
“ایک بار اگر میں سر حسین کی پیشکش قبول کر لیتا ہوں تو اس بیکنگ کے شعبے میں، میری ترقی کے کافی امکانات ہیں امی! میں اپنے سارے خواب پورے کر سکتا ہوں۔” اب کی بار وہ کافی پرجوش تھا۔
“اللہ تمھارے ہر خواب کو تعبیر دے بیٹا۔” اس کے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ کر فوزیہ نے دل سے دعا دی تھی۔ مائیں تو یوں بھی اولاد کے حق میں دل سے ہی دعا کرتی ہیں۔ ان کا تو وجود ہی سراپا رحمت و دعا ہوتا ہے۔
“میں آج کھانے کے بعد ابا جی سے بات کروں گا۔ آپ میرا ساتھ دیں گی نا اماں!؟” آٹے سے سنے ہاتھ رومال سے صاف کرتے، اس کے کندھے پہ محبت سے دباؤ ڈالا اور گہری مسکراہٹ سے اسے اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔
“مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ابا جی۔!” کھانے کے بعد جب چاروں ہال کمرے میں تھے، تب سبکتگین نے بات شروع کی، فوزیہ وہیں تھیں، جبکہ کچھ دور موبائل پہ گیم کھیلتا، بےنیاز سا بیٹھا شاہنواز بھی بظاہر لاپروا، لیکن ادھر ہی متوجہ تھا۔ موقع پڑنے پر اسے بھی بھائی کے لیے وکالت کرنی تھی۔ اگرچہ اصل بات کا علم اسے بھی نہیں تھا کہ کیا بات تھی؟
“ہوں۔۔کہو!” تنکے سے دانتوں کا خلال کرتے، مصروف سے انداز میں کہا تھا۔
“نجیب کے باس نے مجھے ایک پیشکش کی ہے۔” اس نے مبہم سے بات سے گفتگو کا آغاز کیا تھا۔
“کیسی پیشکش؟” محض آنکھ کے اشارے سے پوچھا گیا تھا۔
“وہ آسٹریلیا کے نیشنیلٹی ہولڈر ہیں ابا! ان کی ایک بیٹی ہے جسے۔۔۔” وہ ایک دم سیدھے ہو بیٹھے تھے۔ اس کی پوری بات سنے بغیر بولے:
“ان صاحب نے اپنی بیٹی کے حوالے سے تمھیں کیا پیشکش کر دی ہے؟ تم کل جا کر صاف صاف انھیں منع کر دو۔ کہ ہم خاندان سے باہر رشتے نہیں کرتے۔” ان کی اس جلد بازی پہ جہاں سبکتگین حق دق ہوا وہیں فوزیہ نے بھی ماتھا پیٹا۔
“کمال کرتے ہیں آپ بھی! پہلے اس کی پوری بات تو سن لیجیے۔”
“کمال میں کرتا ہوں یا تم ماں بیٹا کرتے ہو؟ یہ کسی لڑکی کے باپ کی کوئی پیشکش بتا رہا ہے اور تمھارے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگ رہی۔” ہاتھ میں خلال کی غرض سے پکڑا تنکا، کوفت بھرے انداز میں پرے پھینکا۔
“ارے تو وہ کام کے سلسلے میں کوئی پیشکش ہے، شادی کی نہیں۔” فوزیہ نے جملے کا آخری حصہ کافی چبا کر ادا کیا تھا۔
“مرد کو اب اتنا بھی جلد باز نہیں ہونا چاہیے کہ پوری بات سننے سے پہلے ہی اچھل پڑے۔” شاہنواز نے بمشکل ہنسی دبائی جبکہ سبکتگین باپ کی خود پہ جمی نظریں محسوس کرکے کھل کر مسکرا بھی نہ سکا تھا۔
“اچھا بس بس۔۔! مجھے مت سکھاؤ کہ مرد کو کیسا ہونا چاہیے۔؟” ہاتھ کے اشارے سے بیوی کو چپ رہنے کا کہا تھا۔
“ویسے بھی یہ میرے تیس اکتیس سال کے ساتھ کا انعام ہے جو تم اتنی عقل مند ہو گئی ہو۔ ورنہ تم عورتوں سے کسی عقل کی بات کی کیا توقع رکھی جائے۔؟”
“اچھا۔۔!؟” فوزیہ کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ گویا ان میں تو عقل نام کی کوئی شے نہیں تھی جو تھا، بس ان کے ساتھ کا مرہون منت تھا۔
“ہاں کہو تم! کیا کہنا چاہتے ہو؟” بیوی کو نظرانداز کرتے وہ پوری طرح سبکتگین کی طرف متوجہ ہوئے۔
“ابا۔! آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں سال میں دو بار، وہاں کے ایک بہت بڑے سیون سٹار ہوٹل کے زیر انتظام بیکنگ کا مقابلہ ہوتا ہے، شیف سڈنی کے نام سے۔ نجیب کے باس نے مجھے پیشکش کی ہے کہ میں ان کی بیٹی کے ساتھ اس مقابلے میں حصہ لوں۔” بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی تھی۔ شاہنواز تو خوشی کے مارے اچھل ہی پڑا تھا کہ بھائی کو ترقی کرنے اور اپنے خواب پورے کرنے کے لیے اتنا بڑا موقع مل رہا تھا۔
“کوئی ضرورت نہیں ہے ایسے کسی بھی مقابلے میں حصہ لینے یا کسی قسم کی لغویات کا حصہ بننے کی۔ منع کر دو۔!” انھوں نے اس کا جوش اور خوشی، یکسر نظر انداز کرتے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ اور ان تینوں کو ہکا بکا چھوڑ کر وہاں سے چل دیے تھے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...