معارج اور سجل یونیورسٹی سے باہر نکل آئیں موحد ابھی بھی اندر ہی تھا۔
ایک تو یہ موحد بھی ناں یونیورسٹی کے پورے وقت دوستوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگر پھر بھی چھٹی کے وقت اسکا گھر جانے کو دل نہیں کرتا۔ہاں اور نہیں تو کیا۔
سجل نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
تب ہی اس کی نظر فٹ پاتھ پر بیٹھے با با جی پر پڑی۔
اس نے دیکھا تھا کہ اکثر ان کے پاس کئیں لوگ موجود ہوتے تھے۔
یونیورسٹی کی کچھ لڑکیاں اور لڑکے بھی چھٹی کے بعد اکثر ان کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔
معارج یہ ان با با جی کے پاس ہر وقت لوگ کیوں جمع رہتے ہیں۔
سجل نے معارج سے پوچھا تو معارج نے اسے بتایا کہ اصل میں یہ جو با با جی ہیں ناں یہ خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔
اس لئے دور دور سے لوگ ان سے اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے آتے ہیں۔
اچھا یعنی اس کا مطلب ہے کہ مجھے بھی اپنے خواب کی تعبیر ان سے جاننے کو مل سکتی ہے۔چلو آؤ چلیں ان کے پاس۔
سجل اسے اپنے ساتھ آنے کا کہتی ہوئی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے با با جی کے پاس آگئی۔
بابا جی میں نے سنا ہے کہ آپ خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں مجھے بھی میرے خواب کی تعبیر جاننی ہے۔
“خواب بتاؤ بچے”
بابا جی مجھے کچھ دنوں سے یہ خواب مسلسل آرہا ہے کہ میں ایک کھنڈر نما سے گھر میں موجود ہوں جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں ہیں۔
مجھے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور پھر میرے ارد گرد آگ لگا دی جاتی ہے۔
میں چیختی چلاتی ہوں مگر کوئی نہیں سنتا۔جبکہ ارد گرد قہقے گھونج رہے ہوتے ہیں۔
آگ آہستہ آہستہ میرے قریب آتی ہے۔جب وہ بلکل میرے پاس آ جاتی ہے تو کوئی جلدی سے مجھے اس درخت کی گرفت سے آزاد کرا کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
اور تب ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں دیکھ نہیں پاتی کہ وہ کون ہے۔
با با جی نے اسکا خواب سننے کے بعد آنکھیں بند کیں اور “ہوں” کہتے ہوئے سر ہلایا۔
سجل نے دیکھا کہ جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔
کچھ دیر بعد با با جی نے آنکھیں کھولیں اور بولے۔
“خطرہ”۔۔۔۔۔
یہ خطرہ ٹلے گا نہیں اسکا سامنا تجھے کرنا ہی پڑے گا ہاں مگر اس خطرے سے تجھے نقصان نہیں پہنچے گا۔
وہ آگ تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی جب تک وہ تیرے ساتھ ہے۔
کون با با جی۔
وہی جو تیرے لئے بنا ہے وہی جو تجھے ہر مشکل سے نکالے گا۔
ہر خطرے کو تیرے سامنے آنے سے پہلے اسکا سامنا کرنا پڑے گا۔
اور اسکا سامنا کرنے کے بعد کوئی خطرہ تیری طرف کا رخ ہی نہیں کر سکے گا۔
ایسا کون ہے جو میرے لئے خود کو خطرے میں ڈالے گا۔
سجل جان نا پائی کے آخر ایسا کون ہو سکتا ہے اس لئے دوبارہ پوچھنے لگی۔
وہی جس کا کام ہی خطروں سے کھیلنا ہے وہ ان کا سامنا کرتا آیا ہے اور آگے بھی کرتا آئے گا۔
اور تجھے جلد ہی یہ معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ کون ہے مگر ہے تیرے آس پاس ہی۔
بابا جی اتنا کہہ کر چپ ہو گئے۔
او بی بی سائیڈ پر ہو بھی جاؤ ہمیں بھی کچھ پوچھنا ہے با با جی سے۔سجل کے پیچھے کھڑی عورت نے اسے سائیڈ پر ہونے کا کہا تو وہ سائیڈ پر ہونے کی بجاۓ وہاں سے واپس ہی آگئی۔
موحد گاڑی کے پاس کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔کہاں چلی گئیں تھیں تم دونوں کچھ معلوم بھی ہے کب سے یہاں کھڑا انتظار کر رہا ہوں۔
موحد انہیں دیکھتے ہی شروع ہوگیا۔
اچھا بس اب زیادہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں دو منٹ ہوئے نہیں تمہیں انتظار کرتے اور بول ایسے رہے ہو جیسے دو گھنٹے ہو گئے ہوں۔
اور ہم جو روز اتنی اتنی دیر تک کھڑے ہو کر تمہارا انتظار کرتے ہیں وہ کس کھاتے میں جاتا ہے ہم نے تو کبھی کچھ نہیں کہا بتاؤ ذرا۔
سجل کی بات پر موحد بغیر کوئی جواب دیے گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
اسکا مطلب یہ کہ وہ جلد از جلد گھر جانا چاہتا تھا۔سجل اور معارج بھی ایک منٹ کی دیر کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
۔******************************
اسلام و علیکم زارون بھائی کیسے ہیں آپ۔
سجل نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں سلام کیا۔
وعلیکم اسلام میں بلکل ٹھیک ہوں تم یہ بتاؤ کے آج چاند کہاں سے نکل آیا۔
ارے زارون بھائی آپکو اتنا بھی نہیں پتا ظاہر ہے جہاں سے روز نکلتا ہے آج بھی وہی سے نکلا ہوگا بلکہ ابھی تو آرام فرما رہا ہوگا رات میں نکلے گا۔
سجل نے نا سمجھی سے جواب دیا۔
اوفو میرا مطلب ہے کہ آج اتنے دنوں بعد تمہیں اپنی صورت دکھانے کا خیال کیسے آیا۔
مجھے معلوم ہوا کہ ابیہا آپی آئی ہوئی ہیں تو میں چلی آئی کہاں ہیں وہ۔
سجل اس کے پاس ہی صوفے اور بیٹھ گئی۔
وہ شاید نہا رہی ہے۔تم یہ بتاؤ کہ صرف ابیہا سے ہی ملنے آئی ہو کسی اور سے نہیں۔زارون نے کہا۔
مگر سجل رہی بیوقوف فوراً بولی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے سب سے ملنے آئی ہوں اور مل کے ہی جاؤں گی۔
تو پھر ملو ناں زارون نے دھیرے سے کہا۔مگر سجل اسکی ہلکی سی آواز سن نا پائی اور بولی۔
جی زارون بھائی کیا کہا آپ نے۔
کچھ نہیں تم یہ بتاؤ کہ یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا۔
زارون نے زخم کے بہانے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پوچھنے لگا۔
جل گیا تھا کپڑے پریس کر رہی تھی تو استری لگ گئی۔
تمہارا دھیان کہاں ہوتا ہے سجل دوائی لگائی اس پر یا نہیں۔
زارون اب اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے سہلانے لگا۔
“نہیں لگائی”
ارے زارون بھائی کدھر گم ہیں آپ کب سے آپکو فون کالز کر رہا ہوں مگر آپکی طرف سے کوئی رسپونس ہی نہیں۔
موحد لاؤنج میں آتے ہوئے بولا۔زارون کا سجل کا ہاتھ پکڑنا اسے پیار بھری نظروں سے دیکھنا اور پھر اسکا ہاتھ سہلانا موحد کو بلکل اچھا نا لگا۔
اس لئے آتے ہی اونچی آواز میں بولا۔
یار موبائل تو کمرے میں پڑا ہوگا مگر تم بتاؤ خیریت تھی جو کالز پر کالز کر رہے تھے۔
زارون نے اسے دیکھتے ہی سجل کا ہاتھ چھوڑ دیا
“ایک تو جب بھی سجل میرے پاس ہوتی ہے کوئی ناں کوئی آجاتا ہے”
اس نے دل میں سوچا۔اور پھر موحد سے پوچھنے لگا۔کمال ہے بھول گئے آپ کل خود ہی تو کہا تھا کہ فلم دیکھنے چلیں گے میں تو ٹکٹز بھی لے آیا ہوں۔موحد نے اسے یاد دلایا۔
ہاں میں تو واقعی میں بھول گیا تھا چلو چلتے ہیں کچھ دیر تک۔
سجل انہیں باتوں میں لگا دیکھ کر اٹھی اور سامنے کھڑی ثانیہ سے بولی۔ابیہا آپی تو نہا رہی ہیں میں چلتی ہوں پھر کبھی آؤں گی۔
پھر کبھی کبھی ہی آؤ تو اچھا ہے سجل۔ثانیہ زارون کا سجل کی طرف جھکاؤ دیکھ چکی تھی اس لئے بولی۔
سجل کا حیران ہونے کے ساتھ ساتھ منہ بھی بن گیا یقیناً اسے برا لگا تھا۔
ارے بہو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں تمہیں اس گھر میں بیاہ کر آئے اور تم میری بچی کو اس کے اپنے ہی گھر میں آنے سے روکنے لگی۔
کچن سے نکلتی ہوئی پھپھو زرمین اس کی بات سن چکی تھیں۔
ارے نہیں پھپھو آپی تو اس لئے کہہ رہی ہیں کہ دو مہینے ہی تو رہ گئے ہیں میرے پیپرز میں انکی تیاری کروں میں۔
سجل کو ثانیہ کی بات بری تو لگی تھی مگر پھر بھی اس نے ثانیہ کی سائیڈ لی۔
پھپھو کی خواہش تھی کہ وہ سجل کو اپنی بہو بنا کر لائیں مگر زارون کی خواہش کے آگے وہ اپنی خواہش دبا گئیں۔
ثانیہ مزاج کی کیسی تھی یہ پورے خاندان کو معلوم تھا اس لئے تو سوائے زارون کے باقی خاندان میں سے کسی نے بھی اسکا رشتہ نا مانگا۔
سجل تم کب آئی۔ابیہا کمرے سے نکلی تو سجل کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔
بس ابھی ابھی آئی ہوں آپ سے ملنے۔
اچھا پھر ایسا کرو میرے کمرے میں آجاؤ مجھے بھی تم سے ڈھیروں باتیں کرنی ہیں۔
ابیہا اسے کمرے میں آنے کا کہتی ہوئی خود بھی کمرے میں واپس چلی گئی۔
سجل ابیہا کو بابا جی کی اس کے خواب کے مطلق بتائی گئی تعبیر بتانے آئی تھی اس لئے ثانیہ کی گھوڑیوں کو نظر انداز کرتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
۔****************************
سجل آپی ویسے ثانی آپی کتنی سنگ دل ہیں ناں اپنی خوشی کے سامنے کسی اور کی خوشی تو جیسے دیکھتی ہی نہیں۔
کیوں اب کیا ہوا۔
سجل نے انعم سے پوچھا۔
اس دن میں گئی تھی پھپھو کی طرف تو ابیہا آپی سے پوچھ رہی تھیں کہ سفیان نے تمہیں منہ دکھائی میں کیا دیا۔
انہوں نے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی دکھائی وہ انگوٹھی بہت پیاری تھی سچ مجھے تو بہت پسند آئی۔
مگر ثانی آپی نے اسے دیکھ کر پہلے ایسا منہ بنایا جیسے کڑوا کریلا نگل لیا ہو اور پھر اپنی الماری میں سے گولڈ کا سیٹ نکال کر انہیں دکھایا۔
یہ دیکھو زارون نے مجھے پورے کا پورا سیٹ دیا ہے اور تم ہو کہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی پر ہی خوش ہوئے جا رہی ہو جو کہ صرف دس ہزار سے زیادہ کی نہیں لگ رہی۔
اس انگوٹھی کی قیمت چاہے زیادہ ہو یا کم میرے لئے یہ میٹر نہیں کرتا سفیان نے مجھے بہت پیار سے دی ہے اس لئے میرے لئے یہ تمام خزانوں سے بڑھ کر ہے۔
ابیہا آپی بلکل ٹھیک کہہ رہی تھیں مگر ثانی آپی سمجھتی تب ناں۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو انعم کل میں بھی گئی تو مجھے کہنے لگیں کہ تم کبھی کبھی ہی آؤ تو اچھا ہے۔
لو بتاؤ میری پھپھو کا گھر ہے میرا جب دل چاہے گا جاؤں گی سچ بتاؤں تو مجھے انکا یہ کہنا بہت برا لگا تھا۔
سجل آپی آپ بھی تو ہر غلط بات میں انکی سائیڈ لینے لگ جاتی ہیں تب ہی تو وہ آپکو کچھ سمجھتیں نہیں اور بہت کچھ سنا دیتی ہیں۔
پتا نہیں سجل آپی وہ ہم جیسی کیوں نہیں ہیں۔
انعم چھوڑو ناں ان باتوں کو ساری رات اور سارا دن پڑھ پڑھ کر میں تو تنگ آگئی ہوں۔
چلو آج موحد سے کہہ کر آئسکریم کھانے چلتے ہیں۔
انعم جو کتابوں سے سر نہیں اٹھاتی تھی آج اسکا بھی دل کر رہا تھا اس لئے سجل سے بولی۔ہاں چلیں۔اور پھر دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
۔***********************
سجل ایک بات کہوں برا مت ماننا۔
موحد نے کہا۔ہاں بولو۔سجل تم زارون بھائی سے اتنا فری مت ہوا کرو اور نا ہی انکے قریب جایا کرو۔لیکن کیوں؟
سجل نے پوچھا۔تم بڑی ہوگئی ہو بچی نہیں ہو جو تمہیں ہر بات سمجھانی پڑے۔
میرے خیال سے اتنی عقل تو ہے ہی تم میں کہ یہ جان سکو کہ میں کیوں منع کر رہا ہوں۔
سجل کچھ نا بولی اور چپ چاپ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
موحد بھائی اب آپ بھی جلدی سے آجائیں۔
انعم اسے گاڑی میں بیٹھے آوازیں دینے لگی۔
موحد جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
۔***************************
یہ تم نے آج کس طرح کی بات کہی سجل کو کہ وہ یہاں کبھی کبھی ہی آئے تو اچھا ہے۔
ثانیہ شیشے کے سامنے بیٹھی نائٹ کریم لگا رہی تھی جب زارون نے اس سے کہا۔
کون سا کچھ غلط کہا ہے میں نے ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔
تمہیں کس نے یہ حق دیا کہ تم اسے میرے گھر آنے سے روکو۔یہ اسکی پھپھو کا گھر ہے اسکا جب دل چاہے گا وہ آئے گی تمہیں اس کے آنے سے کوئی مسلہ نہیں ہونا چاہیے اوکے۔
اگر یہ اسکی پھپھو کا گھر ہے تو پھر اپنی پھپھو سے ہی ملے اپنی لاڈلی ابیہا کے پاس ہی جائے تمہارے پاس چپک کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔
“یعنی اب سے ہوا میرا کھیل شروع”۔
زارون نے دل میں سوچا۔
اور بولا میرا اس وقت تم سے بحث کرنے جا کوئی موڈ نہیں ہے۔
زارون نے لائٹ بند کی اور سونے کے لئے لائٹ گیا۔
۔**************************
آج یونیورسٹی کا ٹائم ایک بجے کا تھا موحد اور معارج یونیورسٹی نہیں گئے تھے۔
معارج کی طبیت ٹھیک نہیں تھی اور موحد کے دوست کی شادی تھی۔
اس لئے وہ سجل کو یونیورسٹی چھوڑ کر شادی پر چلا گیا۔
سارا وقت سجل کا بور گزرا۔
چھٹی کے بعد سجل گیٹ سے باہر نکلی تو موحد نہیں آیا تھا۔
پانچ بج رہے تھے۔
اس نے موحد کو کال کی مگر اس نے رسیو نا کی کافی بار ملانے کے بعد بھی جب اسنے کال رسیو نا کی تو سجل یہی سوچتی ہوئی کہ لگتا ہے ابھی تک شادی میں ہی ہے خود ہی جانا پڑے گا موبائل بیگ میں رکھتی بس اسٹینڈ کی طرف چلنے لگی۔
وہ بس اسٹینڈ پر پہنچی یہاں پر اس کے علاوہ دو تین لوگ اور موجود تھے مگر شائد وہ کافی دیر سے بس کا انتظار کر رہے تھے اس لئے اب وہاں سے آگے بڑھ گئے اور رکشہ روکنے لگے۔
سجل وہاں پڑے بینچ پر بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد اس کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی۔
اس میں سے دو لڑکے نکلے ان کے چہرے رومال سے ڈھکے ہوئے تھے۔
وہ اس کی طرف بڑھے۔
سجل کے ان کو دیکھ کر ہاتھ پیر پھولنے لگے۔
وہ آج تک پھپھو کے گھر جانے کے علاوہ کہیں اکیلی نہیں نکلی تھی۔
سجل بھاگنے لگی مگر انہوں نے اس کا رستہ روک لیا اور اسے پکڑ لیا۔
ارد گرد لوگ موجود نا تھے جو اس کے “بچاؤ” کی آواز سنتے۔
وہ ہاتھ پاؤں مارتی انہیں خود سے دور کرنے لگی اس کا بیگ وہی گر گیا۔
انہوں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور ایک منٹ کی بھی دیر کیے بغیر گاڑی بھگا لے گئے۔
۔*************************
انعم سجل گھر آگئی کیا موحد نے انعم کو کال کر کے پوچھا۔
نہیں موحد بھائی انہیں تو آپ نے لینے جانا تھا ناں۔
ہاں جانا تو میں نے ہی تھا مگر میں لیٹ ہوگیا ہوں تو سوچا کال کے کے پوچھ لوں کہیں وہ گھر چلی ہی نا گئی ہو اسکو کال بھی نہیں مل رہی۔
نہیں ابھی تک تو نہیں آئیں آپ لے آئیں۔
چلو ٹھیک ہے میں جاتا ہوں خدا حافظ۔
موحد نے فون رکھ دیا۔
۔*************************
کون ہو تم لوگ اور کیوں لائے ہو مجھے یہاں پر کھولو مجھے گھر جانا ہے۔
یہ وہی جگہ تھی جو سجل خواب میں دیکھتی آئی تھی۔
وہ ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔
تجھ جیسی حسین لڑکی کو چھوڑ دیں پاگل سمجھا ہوا ہے کیا۔ہمیں تجھ جیسی حسین لڑکیوں کی ہی تو تلاش رہتی ہے۔
کیا چاہتے ہو تم لوگ آخر مجھے یہاں لائے کیوں ہو۔سجل رو پڑی۔
تجھ جیسی حسین لڑکی اگر طوائف بنے گی تو کتنا پیسہ ملے گا ہمیں اور ہماری سرکار کو اسکا تجھے اندازہ بھی نہیں۔
میرا تو دل چاہ رہا ہے راجو کہ اس لڑکی کو ابھی کے ابھی سرکار بی بی کے سامنے پیش کر دوں کتنی خوش ہونگی ناں وہ ہم سے۔
ہاں اور نہیں تو کیا بابو اس سے پہلے جتنی بھی لڑکیاں لے کر گئے ہیں ہمیشہ بی بی سرکار نے ناک چڑھا کا ناپسندیدگی ہی ظاہر کی ہے۔
مگر اب تو مجھے بھی یقین ہے کہ وہ بہت خوش ہونے والی ہیں ہم سے اور بہت پیسہ بھی ملنے والا ہے اب تو ہمیں۔
راجو کی تو پیسوں کو سوچ کر لی رال ٹپکنے گی۔میں کہیں نہیں جاؤں گی تم لوگوں کے ساتھ میں اپنی زندگی ختم کر لوں گی مگر طوائف نام کا دھبہ بھی خود پر لگنے نہیں دوں گی۔
سجل کی تو طوائف نام سن کر ہی روح کانپ اٹھی۔
ہاہا راجو یہ اپنے طریقے سے واقف نہیں ہے۔چل جلا آگ اس کے چاروں طرف۔
تجھے تو معلوم ہی ہے اس جیسی کئیں لڑکیاں جنہوں نے کچھ ایسے ہی بول بولے تھے مگر ابھی آگ لگانے کی دیر نہیں ہوتی تھی کہ بول اٹھتی تھیں۔
“میں جاؤں گی میں جاؤں گی پر خدا کے واسطے یہ آگ بھجا دو”۔
بابو نے ان لڑکیوں کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔جبکہ راجو اس کی بات پر ہنستا ہوا چاروں طرف پیٹرول چھڑکنے لگا۔
سجل کو بابا جی کی بات یاد آگئی۔
وہ آگ تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی جب تک وہ تیرے ساتھ ہے۔
پتا نہیں اب بابا جی واقعی میں سچ کہہ رہے تھے اگر واقعی میں وہ سچ کہہ رہے تھے تو وہ جہاں کہیں بھی ہے جلدی سے آجائے اور مجھے بچا لے۔
یہ تو منہ ہی منہ میں کیا بڑبڑا رہی ہے بتا مانتی ہے یا نہیں وہاں جا کر اپنی زبان تو نہیں کھولے گی تو لوگوں کے سامنے۔
ہاں بتاؤں گی اور سب کو بتاؤں گی کہ تم لوگ مجھے زبردستی لے کر آئے ہو۔سجل چلائی۔
وہ لوگ ایسا اس لئے کر رہے تھے کے سجل سیدھی طرح مان جائے کیوں کہ بی بی سرکار کا حکم تھا کہ کوئی بھی لڑکی یہاں آ کر گھر جانے کی بات نا کرے اسے پہلے سے ہی سمجھا کر لایا جائے تا کہ وہ ہر وقت بھاگنے کے چکروں میں نا لگی رہیں ورنہ تم لوگوں کو ایک آنا بھی نہیں ملے گا۔
راجو لگتا ہے یہ نہیں مانے گی چل آگ لگا دے۔راجو نے ماچس جلائی تو سجل بولی۔
لگا دو آگ یہ آگ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی کیوں کہ وہ مجھے بچانے آئے گا۔
کون بچانے آئے گا تجھے تیرا کوئی محبوب عاشق۔
بڑے ڈائلاگ آتے ہیں تجھے۔
وہ مجھے بچانے آئے گا۔
بابو نے اس کی نقل اتاری اور پھر وہ دونوں ہنسنے لگے۔
راجو نے ماچس کی تیلی پیٹرول پر پھینکی تو درخت کے چاروں طرف آگ کا دائرہ بن گیا۔
۔********************************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...