(Last Updated On: )
خواب کی کون سی تعبیر گڑھی جا رہی ہے
خانۂ ہجر میں تنہائی بڑھی جا رہی ہے
چشم حیراں میں کوئی منظر نمناک نہیں
صفحۂ دل تری رُوداد پڑھی جا رہی ہے
بچ نہ پائے گا کوئی خشک کنارہ شاید
اور منھ زور ندی ہے کہ چڑھی جا رہی ہے
کیسے گل بوٹے مرے زخم پہ ٹانکے گئے ہیں
اب مسیحائی بھی نشتر سے کڑھی جا رہی ہے
ہائے دلشادؔ کتابیں تو کوئی پڑھتا نہیں
جلد پر صرف نئی جلد چڑھی جا رہی ہے