ریحان میاں رکشے پہ بیٹھے گھر کی طرف اڑے جا رہے تھے۔ خوشی سے ان کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا، آج تو ان کے لیے کئی خوشیاں ایک ساتھ جمع ہو گئی تھیں۔ ایک تو انہوں نے نو ماہی امتحان میں خوب محنت کر کے اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی تھی اور ایک خوب صورت سا میڈل ان کے گلے میں جھول رہا تھا اور اس کو دیکھ دیکھ کران کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ دوسری خوشی یہ تھی کہ آج ہفتہ تھا اور کل اتوار کو ان کے ابو انہیں پارک لے جانے کا وعدہ کر چکے تھے۔ تیسری خوشی یہ تھی کہ کل ان کی سال گرہ بھی تھی اور اس موقع پر ابو نے انہیں ان کا پسندیدہ کھلونا بھی لادینا تھا، لہٰذا خوشی تو بنتی تھی۔ انہی خوشیوں کے بادلوں کے ساتھ اڑتے ہوئے ریحان میاں گھر پہنچے۔ دروازہ عبور کرتے ہی ریحان میاں نے با آواز بلند کہا: ’’السلام علیکم‘‘
’’وعلیکم السلام‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور ریحان میاں سے بیگ لے لیا۔ پھر وہ بولیں:
’’ریحان میاں! کپڑے بدل لو اور اپنے تیور بھی بدل لینا کیوں کہ آج کھانے میں۔۔ ۔‘‘
’’سبزی بنی ہوئی ہے، ہے نا؟‘‘ امی جان کا جملہ ریحان میاں نے پورا کیا اور امی جان دھیرے سے مسکرا دیں۔
’’پھر وہی سبزی۔ اف!! میں کیا کروں آخر؟؟‘‘ ریحان میاں کا احتجاج شروع ہو چکا تھا۔
’’کرنا کیا ہے بیٹا، منہ ہاتھ دھو کر آؤ اور کھانا کھاؤ۔ تم نے کارٹونز میں نہیں دیکھا تھا کہ سبزیوں میں کتنے وٹامنز ہوتے ہیں۔؟؟‘‘ امی جان نے اسے پیار سے سمجھایا۔
’’نہیں چاہئیں مجھے وٹامنز، میں جا رہا ہوں اپنے کمرے میں۔‘‘ ریحان میاں نے منہ بناتے ہوئے کہا اور پھر وہ غصے کے عالم میں پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں جا گھسے، لیکن ان کے اندر کا ’’ریحان‘‘ اپنے شعور اور لاشعور میں محفوظ معلومات اور اسباق کی مدد سے ایک منصوبہ بنا رہا تھا۔ ریحان میاں ان کار گزاریوں سے بے خبر اپنے بستر پر لیٹ چکے تھے۔
٭…٭…٭
’’ہیلو!! ریحان!! اٹھو!! بس کرو بھئی، اتنا غصہ اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ یہ آواز ریحان میاں کے کانوں میں پڑی تو وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ سامنے ابا جان مسکراتے چہرے کے ساتھ کھڑے تھے اور انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے چھپائے ہوئے تھے۔ ’’بوجھو تو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں؟؟‘‘ ابا جان نے متجسس انداز میں کہا۔
’’ہائیں!! کیا کوئی گفٹ ہے؟ پلیز دکھائیں؟‘‘ ریحان میاں بے تابی سے اٹھتے ہوئے بولے۔
’’ہاہاہا!!! بالکل یہ رہا تمہارا گفٹ!!‘‘ ابا جان نے ایک بڑا سا پیکٹ لہرایا۔ ریحان میاں نے لپک کر پیکٹ تھام لیا اور جلدی جلدی پیکٹ کھولنے لگے، اگلے ہی لمحے ان کا پسندیدہ کھلونا ان کے سامنے تھا۔ ایک خوبصورت کھلونا کار!!
’’شکریہ پیارے ابو!!‘‘ انھوں نے آگے بڑھ کر ابا جان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
’’خوش رہو، اچھا جلدی سے باہر لان میں آ جاؤ، سب انتظار کر رہے ہیں، تمہارے لیے اسپیشل کھانا بنایا گیا ہے۔‘‘ ابا جان نے کہا اور انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لان میں پہنچ گئے۔ ایک بڑی سی میز پر کھانے پینے کے لوازمات سجے ہوئے تھے۔ لان میں چاروں طرف پھول اور پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔ سبھی گھر والوں نے ریحان میاں کو خوش آمدید کہا اور انھوں نے بھی کرسی سنبھال لی۔ اچانک ہی سبھی چونک پڑے۔ بہت سارے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے بہت سارے لوگ چل رہے ہوں۔
’’ہائیں یہ کیا!!!‘‘ ریحان میاں نے حیرت سے آواز کی سمت دیکھا اور پھر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ سامنے ہی مین گیٹ تھا۔ اور مین گیٹ سے چند قدم پیچھے ہی وہ مخلوق پیدل مارچ کرتے ہوئے جا رہی تھی۔ ریحان میاں نے بے یقینی کے عالم میں اپنی آنکھیں مسلیں اور پھر غور سے دیکھا، لیکن یہ ان کی نظر کا دھوکا نہیں تھا۔ وہ مخلوق وہی تھی جو انہوں نے دیکھی تھی۔ وہ مختلف سبزیاں تھیں۔ آلو، ٹماٹر، بینگن، کدو، مولی گاجر اور دیگر سبزیاں۔ حیرت تو یہ تھی کہ ان سب کے باقاعدہ ہاتھ پاؤں تھے اور وہ پیدل چلتی ہوئی مین گیٹ کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ ریحان میاں اور ان کے گھر والے بھاگتے ہوئے ادھر گئے اور پھر ریحان میاں نے پوچھا:
’’ارے تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا؟؟‘‘ بینگن کی ناراضی سے بھرپور آواز سنائی دی۔
’’واہ یہ تو بولتی بھی ہیں‘‘ ریحان میاں حیرت میں ڈوبے لہجے میں بڑبڑائے۔ مگر ان کی آواز سبزیوں نے سن لی۔ تبھی ایک سبزی بولی:
’’ہاں، ہم بولتے ہیں مگر صرف اپنے دوستوں سے اور تم ہمارے دوست نہیں، ہم تم سے بات نہیں کر سکتے۔ البتہ ہمارا ترجمان آلو میاں تمہیں سب کچھ بتا دے گا۔‘‘ سبزی کی بات سن کر ریحان میاں دنگ رہ گئے۔ اتنے میں آلو میاں نے کھنکار کر اپنا گلہ صاف کیا اور کہا:
’’بات یہ ہے کہ جب ریحان میاں اور ان کی طرح کے دیگر بچوں نے ہمارے ساتھ دوستی ختم کر دی ہے تو ہم اب مزید ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے جانے کے فیصلے کی وجہ سے ہمارے تمام رشتہ دار بھی یہاں سے جا رہے ہیں۔ اب آپ کو یہ درخت، پھول، مزیدار پھل اور پودے بھی نظر نہیں آئیں گے کیوں کہ یہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہجرت کر رہے ہیں۔ آپ جیسے بچے جب ہمارے ساتھ دوستی اور تعلق نہیں رکھ سکتے تو ہم بھی یہاں نہیں رہ سکتے۔ چلو بھئی چلتے ہیں ہم اللہ حافظ!!‘‘ آلو میاں کی پریس کانفرنس کے ختم ہوتے ہی ہلچل سی مچ گئی اور پھر ریحان میاں نے حیرت انگیز منظر دیکھا۔ ان سبزیوں کے پیچھے لان کے پودے، پھول، پھل دار درخت سبھی اپنی جگہ چھوڑ کر جانے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ویرانی چھا گئی۔ چاروں طرف دھول اڑنے لگی۔ اب پودوں، درختوں اور سبزیوں کا یہ جم غفیر گیٹ کراس کر چکا تھا۔ ریحان میاں نے گھر کی بد ہیئتی کو دیکھا اور خوف سے جھرجھری لے کر رہ گئے۔ اسی اثناء میں ان کی نظر اپنے گھر والوں پہ پڑی۔ ان کے چہرے زرد اور سیاہ پڑ گئے تھے۔
’’ہائیں، یہ آپ کو کیا ہوا؟‘‘ وہ زور سے چلا اٹھے۔
’’بیٹا، یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا، تمہارے ساتھ بھی ہو چکا ہے۔‘‘
امی جان نے آگے بڑھ کر ایک آئینہ ان کے سامنے کر دیا، اور وہ اپنا چہرہ دیکھتا ہی خوف سے چلا اٹھا:
’’نہیںں ںں!!!!‘‘ انھوں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ بھی بالکل زرد ہو گیا تھا۔
’’یہ کیوں ہوا؟ یہ کیسے ہو گیا؟‘‘ انھوں نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ چہرے پر رکھ دیئے۔
’’بیٹا، سبزیاں ہم سے ناراض ہو گئی ہیں اور ہم سے سارے وٹامنز چھین لیے گئے ہیں، یہ تو کچھ بھی نہیں ابھی آگے دیکھنا کہ اب مختلف اقسام کی بیماریاں بھی ہم پر حملہ آور ہو جائیں گی، ہماری یہ حالت وٹامنز نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔‘‘ ابا جان نے کہا تو ریحان میاں کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا اور دوسرے ہی لمحے انہوں نے دوڑ لگا دی۔ گیٹ سے نکلتے ہی اس نے سبزیوں کے جم غفیر کو دیکھ لیا۔ وہ ان سے زیادہ دور نہیں تھے۔ وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے سبزیوں کے سامنے آ گئے اور چیخ چیخ کر بولنے لگے:
’’رکو، خدا کے لیے رک جاؤ۔ میں تم سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ واپس آ جاؤ۔ میں دوبارہ تمہیں ناراض نہیں کروں گا۔ مجھے ایک موقع دو۔ واپس آ جاؤ‘‘ ریحان روہانسا ہو گیا تھا۔
’’بچے یہ اتنا آسان نہیں۔ تمہیں وعدہ کرنا ہو گا۔‘‘ کدو میاں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں، میں پکا وعدہ کرتا ہوں پکا وعدہ!! ریحان نے خلوص بھرے لہجے میں کہا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
سبزیاں چند لمحے تک خاموش رہیں پھر بھنڈی صاحبہ بولیں:
’’ٹھیک ہے پیشکش قبول کی جاتی ہے کیوں کہ بچے ہمیشہ وعدے کے سچے ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی تمام سبزیوں نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ ریحان کے ہاتھ پر رکھ دیئے اور وہ خوب صورت انداز میں مسکرا دیں۔ ان کے پیچھے کھڑے پودے بھی کھلکھلا دیئے۔ اس لمحے ریحان نے بہت خوش گوار سی راحت محسوس کی اور اس نے دیکھا کہ سارا منظر سرسبز ہو گیا ہے۔ ایک فرحت بخش ٹھنڈک اس کے وجود میں سرایت کر گئی۔
’’ریحان، ریحان، ریحان!!‘‘ اسے ایک ہلکی سی آواز سنائی دی اور پھر یہ آواز تیز ہوتی گئی، اگلے ہی لمحے ان کی آنکھ کھل گئی۔ ’’اُف یہ خواب تھا؟‘‘ وہ بڑبڑائے۔
انھوں نے دیکھا امی جان ان کے سامنے تھیں، ’’چلو، کھانا کھا لو میں نے آپ کے لیے انڈا فرائی کر دیا ہے۔‘‘ امی جان نے کہا۔
’’مگر امی، میں سبزی ہی کھاؤں گا۔‘‘ ریحان نے کہا تو امی جان نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتیں، ریحان میاں گویا ہوئے:
’’سبزیاں، پھل اور پودے ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ شکر ہے میں یہ بات جلد سمجھ گیا، اب میں یہ دوستی اور وعدہ کبھی نہیں توڑوں گا کبھی نہیں‘‘ ریحان میاں بولتے جا رہے تھے اور امی جان انھیں پیار سے تکے جا رہی تھیں۔
٭٭٭