مبشر سعید نئے لکھنے والے عمدہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔چند برس پیشتر جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے فرانس میں مقیم تھے تو انہوں نے ’’جدیدادب‘‘کے حوالے سے رابطہ کیا تھا۔ ان کی شاعری دیکھی تو اچھی لگی۔میں نے ’’جدید ادب‘‘(جرمنی) کے شمارہ نمبر ۱۴ میں ان کی ایک ساتھ چھ غزلیں شائع کی تھیں۔ان میں ان کی وہ غزل بھی شامل تھی جس کا یہ شعر ان کی شعری پہچان بن چکا ہے۔
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا تو ابھی رقص کروں ،ہوکے دکھاؤں تجھ کو؟
یہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے۔اب پاکستان سے مبشر سعید کا پہلا شعری مجموعہ ملا ہے تو اسے دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔اس مجموعہ میں جو کلام شامل ہے اسے دیکھ کر پہلا تاثر یہ بنا کہ چند سال پیشتر کی غزلوں کے مقابلہ میں مبشر سعید کی غزلوں میں کافی پختگی آچکی ہے ۔اس میں بعض پہلے والی غزلیں بھی نظر ثانی کے بعد شامل کی گئی ہیںاور ہلکے سے ردو بدل نے شعرکو زیادہ پرتاثیر بنا دیا ہے۔مثلاََ مذکورہ بالا غزل کا مطلع پہلے یوں تھا۔
حالتِ حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو تو پلٹ آئے تو آنکھوں پہ بٹھاؤں تجھ کو
(یہ غالباََ حالتِ زار کی جگہ حالتِ حال چھپ گیا ہے)اسے اب یوں کر لیا گیا ہے۔
شام کی زرد اداسی میں بٹھاؤں تجھ کو زندگی! آ کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو
اس غزل کے دو اشعار کو ڈراپ کردیا گیاہے۔تین اشعار پہلی اشاعت کے مطابق ہیں۔اسی غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں،اور مقطع کے دونوں مصرعوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔مطلع کی طرح مقطع بھی یہاں درج کردیتا ہوں تاکہ نظر ثانی کا معیار واضح ہو سکے۔غزل کا مقطع پہلے یوں شائع ہوا۔
اس نے اک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیدؔ میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو
نظر ثانی کے بعد یہ مقطع اب شعری مجموعہ میں یوں شامل ہے۔
اس نے اک بار محبت میں کہا مجھ سے سعید عین ممکن ہے کہ میں یاد نہ آؤں تجھ کو
جدید ادب میں مبشر سعیدکی چھپنے والی دوسری غزلوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ایک غزل پر نظر ثانی کی مثالوں پر اکتفا کررہا ہوں۔ یہ مثالیں ایک تو اس وجہ سے دی ہیں کہ ان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محض پانچ چھ برسوں میں مبشر سعید کا شعری شعورمزید کتنا بہتر ہوگیا ہے۔ دوسرے ، یہ اندازہ کیا جا سکے کہ مبشر سعید کو ان کی ادبی زندگی کے اوائل میں’’ جدیدادب‘‘ جرمنی میں خاص اہمیت دی جاتی رہی ہے۔
’’خواب گاہ میں ریت‘‘کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ مبشر سعید بہت عمدہ اور اچھی غزلیں کہتے ہیں۔اس مجموعہ کی غزلیں پڑھتے ہوئے دلی خوشی محسوس ہوتی رہی ہے۔چند اشعار بغیر کسی انتخاب کے پیش کردیتا ہوں۔
عالمِ وجد سے اظہار میں آتا ہوا میں یعنی،خود خواب ہوا،خواب سناتا ہوا میں
دشت ! چھانے گا تری خاک محبت سے سعیدؔ عشق! دیکھے گا تجھے سارے کا سارا کرکے
ہے ہمیں راس یہ گم نام جزیرے کی فضا گر کمانا ہے تمہیں نام، کماؤ، جاؤ
اتنی توقیر جو میری ہے زمانے میں سعیدؔ رنگ ہے مجھ پہ یہ مرشد کا چڑھایا ہوا رنگ
یہ کیسا عشق ہے جو آنکھ تک نہیں آتا یہ کیسی آگ ہے جو روشنی سے عاری ہے
یہ مِرا دل ہے عزا خانۂ وحشت،جس میں لوگ آتے ہیں فقط رنج منانے کے لیے
دشتِ ہجراں سے محبت کو نبھاتے ہوئے ہم خاک ہوتے ہیں میاں! خاک اُڑاتے ہوئے ہم
’’خواب گاہ میںریت‘‘مبشر سعید کی ادبی پیش رفت کا اعلامیہ ہے۔میں ان کے اس مجموعہ کا دلی مسرت کے ساتھ خیرمقدم کرتا ہوں مبشر سعید کی پے در پے ادبی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۶۔مئی۲۰۱۷ء