دھوپ کی تمازت اور غبار آلود فضا سے مضمحل اور بوجھل دن، شام کی اداس اجڑی ہوئی چوکھٹ پر رکا ہی تھا کہ وہ خواب دیکھنے والے شہر میں وارد ہوئے۔ موسمِ خزاں کسی عفریت کی طرح ہر شے پر مسلط تھا۔ وہ اپنے روایتی اور مخصوص زرد رنگ کے منحوس پیرہن میں ملبوس تھا اور بین کرتے ہوئے ہر خاک بہ سر منظر پر فاتحانہ نگاہ ڈالتے ہوئے گہری آسودگی اور سفاکی سے مسکرا رہا تھا۔ بے آب و گیاہ زمین پر درختوں کے زخم خوردہ سلسلے تھے جن کی بے لباس شاخیں لشکرِ غنیم کے ہاتھوں لٹتی ہوئی دوشیزاؤں کی طرح اپنی برہنگی کو چھپانے کی سعی لاحاصل میں مصروف تھیں اور حسرت زدہ نظروں سے قریب آتی ہوئی تیرگی کی منتظر تھیں کہ اس افتادِ وقت میں اس کا سیاہ لبادہ ہی ان کا آخری پناہ گاہ تھا۔ زمین پر بکھرے ہوئے خشک پتے ہوا کے دستِ جبر و استبداد میں لرزہ براندام تھے اور ان کے لبوں پر گریہ وزاری تھی۔ شہر کا پورا ماحول اس طرح سہما ہوا اور ساکت و جامد تھا جیسے ابھی ابھی ہر وجود کو روندتا ہوا کوئی طوفان ادھر سے گذرا ہو۔ ان خواب دیکھنے والوں کی آمد سے شہر کی خاموش فضا میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوا۔ خوب دیکھنے والوں کا قافلہ پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ ایک ضعیف العمر لیکن صحت مند باریش بزرگ جس کے چہرے کی بے شمار لکیروں سے واضح تھا کہ اس نے زمانے کے سرد و گرم خوب جھیلے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں تجربوں اور مشاہدوں کی گہری چمک تھی۔ دو بے حد خوبرو اور سنجیدہ نوجوان تھے جن کی روشن اور خوابیدہ آنکھوں میں زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ محو رقص تھی۔ ان کے ساتھ دو نرم و نازک خد و خال والے معصوم صورت بچے تھے۔ ہرچند کہ انہوں نے طویل مسافت طے کر کے شہر کے حدود میں قدم رکھا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے چہروں سے کسی تکان کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ وہ اس طرح تر و تازہ تھے جیسے موسمِ بہار میں گل شگفتہ متبسم ہوں۔
انہوں نے شہر کے قلب میں واقع ویران باغ کے درمیان بنے چبوترے کو اپنا مسکن بنایا اور چادریں بچھا کر دراز ہو گئے۔ شہر میں رات بھر ان لوگوں کے بارے میں قیاس آرائیاں ہوتی رہیں اور لوگ ان کے تعلق سے اپنے اپنے طور پر رائے قائم کرتے رہے۔ صبح ہوتے ہی بہت سارے لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ انہوں نے بے حد تعجب اور تجسس سے ان نوواردانِ شہر کو دیکھا جو ان کی موجودگی سے بے نیاز رات میں دیکھے گئے اپنے خوابوں کے تذکروں میں محو تھے۔ باریش بزرگ اپنی ٹھہری ہوئی پر اعتماد آواز میں گویا تھا۔
’’میں نے دیکھا کہ مغرب کی سمت سے کالے گھنے بادل اٹھ رہے ہیں جو مکمل دنوں کی حاملہ عورت کی طرح بھاری قدموں سے شہر کی طرف رواں ہیں۔ ان کے قدموں کی آہٹیں سن کر درختوں کی زرد و نیم جاں شاخیں یکایک جاگ پڑی ہیں اور ان کے استقبال کے لیے برگ نوزائیدہ سے سج گئی ہیں۔ زمین پر بکھرے ہوئے خشک پتے ان بادلوں کو تکتے ہوئے اس خیال سے آسودہ ہیں کہ انہیں نہیں تو نہ سہی، ان کی آئندہ نسلوں کو تو ایک خوشگوار اور با وقار حیات نصیب ہو گی۔‘‘
ضعیف العمر شخص کے خاموش ہونے پر دونوں خوبرو نوجوان پر جوش انداز میں مخاطب ہوئے۔
’’ہم لوگوں نے خواب میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بارشیں رحمتِ خداوندی کے پیکر میں زمین پر اتر رہی ہیں۔ اس کے حیات افروز لمس سے ہر سو سر
سبز منظر نمو پا رہا ہے۔ درختوں کی شاخیں برگ و بار سے لد گئی ہیں۔ زمین مدتوں کی تشنگی فراموش کر کے کامل سیرابی میں رقص کناں ہے اور موسم کی اس دلآویزی پر ہر بشر غنچۂ تازہ کی طرح خنداں ہے۔‘‘
دونوں معصوم بچوں نے خوابوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ لوگوں کی صداقت کی قسم۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری حد نگاہ تک زمین پر سبزہ زار پھیلا ہوا ہے اور اس پر قوس قزح کی رنگت والی تتلیاں محو پرواز ہیں۔ شاخوں پر خوشنما اور خوش الحان پرندے نغمہ سرا ہیں۔ پکے رسیلے پھلوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے ان پر وجد سی طاری ہے۔ بہت سارے پکے ہوئے پھل عطیۂ غیب کی شکل میں سبز و نرم گھاس پر ٹپک پڑے ہیں جنہیں ہم بڑی رغبت سے کھا رہے ہیں۔‘‘
دونوں بچوں نے اس طرح اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری جیسے وہ اب تک ان پھلوں کے ذائقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شہر کے افراد گہرے استعجاب سے ان کی عجیب اور ناقابل یقین باتیں سن رہے تھے۔ آخر ایک بوڑھے شخص سے رہا نہ گیا۔ وہ آگے بڑھا اور قدرے تیز آواز میں ان سے مخاطب ہوا۔
’’تم لوگ کیسی تحیر آمیز اور مضحکہ خیز باتیں سنا رہے ہو؟ ہم لوگ تو عرصہ دراز سے خشک موسم کا عذاب جھیل رہے ہیں اور تم لوگ ہو کہ سر سبز منظر کی آمد کی بشارت دے رہے ہو۔‘‘
ان لوگوں نے چونک کر خوابیدہ نگاہوں سے بوڑھے شخص کی طرف دیکھا۔ باریش بزرگ نے گہری طمانیت کے ساتھ مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہم لوگ رات میں دیکھے گئے خوابوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ان خوابوں سے تم لوگوں کو کیا پریشانی لاحق ہو گئی؟‘‘
’’لیکن یہ خواب کیا ہیں؟‘‘
ایک نوجوان نے رشک آمیز تاسف سے پوچھا تو بزرگ کے ہونٹوں پر پر اسرار سی مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’خواب تو زندگی کے اساس ہیں۔ تبدیلیِ حالات میں خواب ہی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ ناسازگار صورت حال میں ان کی رفاقت زندگی کو قدرے آسان بنا دیتی ہے۔‘‘
’’سنا ہے کہ تم لوگوں کو قانون و انصاف کے رکھوالوں نے اپنے شہر سے نکال باہر کیا ہے۔ کیا تم لوگ خطرناک مجرم ہو؟‘‘
ایک نحیف اور مضمحل شخص کے استفسار پر باریش بزرگ نے اس کی بے نور آنکھوں میں جھانکا اور پھر گویا ہوا۔
’’ہرشہر ہر ملک میں با اثر اور برسر اقتدار افراد عام لوگوں کی آنکھوں سے تمام خواب چھین کر اپنے زیر تسلط کر لیتے ہیں اور ان پر سخت پہرے بٹھا دیتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اپنے خواب حاصل کرنے کے لیے مزاحمت کرے تو قانون و انصاف کی نگاہ میں وہ مجرم ہی قرار پاتا ہے۔ ہم لوگوں نے بھی مزاحمت کی اور اپنے خواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انجام کار ہمیں شہر بدر ہونا ہی تھا۔‘‘
’’تو کیا ہم لوگوں کے خواب بھی ہم سے چھین لیے گئے ہیں؟‘‘
کسی فرد نے گہری افسردگی اور حسرت سے پوچھا۔
’’اس کا اندازہ تو تمہیں خود ہی بخوبی ہو گا۔ کیا تمہاری آنکھیں بند ہونے پر خواب نہیں دیکھتیں؟‘‘
’’بند آنکھیں؟‘‘ انہوں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔
’’لیکن ہماری آنکھیں تو سوتے وقت بھی کھلی رہتی ہیں۔‘‘
اچانک دور سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی تیز آوازیں ابھرنے لگیں اور تمام لوگ خوفزدہ نگاہوں سے آوازوں کی سمت دیکھنے لگے۔ کچھ ہی توقف کے بعد اس شہر کے قانون و انصاف کے رکھوالے ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ انہوں نے خشمگیں نگاہوں سے وہاں موجود لوگوں کو گھورا اور پھر ان کی نگاہیں ان پانچوں نوواردانِ شہر پر مرکوز ہو گئیں۔
’’کیا تم ہی لوگ خواب دیکھنے والے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
باریش بزرگ نے جواب دیا تو ان میں سب سے قد آور گھڑسوار آگے بڑھا اور بے حد کرخت لہجے میں بولا۔
’’تم لوگ یہاں کے شہری تو نہیں لگتے۔ کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہاں خواب دیکھنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ خلاف ورزی کرنے والا سخت سزاؤں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔‘‘
’’ہمیں اندازہ تھا کہ اس کرۂ ارض پر ہر جگہ یکساں صورت حال ہے اور ایک ہی طرح کا قانون نافذ ہے۔ لیکن خواب دیکھنا ہمارا پیدائشی حق ہے۔ ہم لوگوں کو اس حق سے کوئی محروم نہیں کر سکتا۔‘‘
باریش بزرگ قدرے طیش میں بولا تو قد آور اسپ سوار نے اپنے شانے پر لٹکتی بندوق پر اپنے دایں ہاتھ کی گرفت مضبوط کی اور اچانک اس کا کندہ باریش بزرگ کی پیشانی پر دے مارا۔ بزرگ تیورا کر زمین پر گر پڑا۔ اس نے اپنے گھوڑے کا رخ موڑا اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’ان پانچوں کو گرفتار کر کے عقوبت خانے کی طرف لے چلو۔‘‘
اس کے ساتھی گھوڑوں سے اترے اور سرعت سے ان کی مشکیں کسنے لگے اور پھر انہیں گھوڑوں کے پیچھے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ شہر کے تمام لوگ کچھ خوفزدہ اور بے حد ناپسندیدہ نگاہوں سے ان کے جارحانہ حیوانی عمل کو دیکھتے رہے۔ وہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے گرد و غبار میں گم ہوتے گئے اور ساتھ ہی ان پانچوں کی دلدوز چیخیں بھی معدوم ہوتی گئیں۔ فضا میں پسری ہوئی موسم خزاں کی اداسی اور بے رنگی کچھ اور واضح ہوتی گئیں۔ انہوں نے ان کے سرسبز خوابوں کو یاد کیا اور گہرے تاسف میں ہاتھوں کو ملتے ہوئے بوجھل اور پژمردہ قدموں سے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
لیکن اسی رات شہر میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ رات کے پچھلے پہر ایک بچے نے سرسبز منظروں کا خواب دیکھا اور صبح ہوتے ہی لوگوں کا ایک جم غفیر اس بچے کا خواب سننے کے لیے امڈ پڑا۔۔۔۔۔۔
٭٭٭