“کیسی ہیں آپ حریم ؟ ” ڈاکٹر مریم بہت گرم جوشی سے ملیں ۔ “میں ٹھیک ہوں ڈاکٹر ۔ عم آپ کو کپٹین حسن کو بھیجنے کی زحمت نہیں تھی کرنی چاہئے تھی ۔ مجھے کال کر دیتیں میں خود آجاتی ۔ ” حریم نے قدرے جھجھک سے کہا ۔ ” نہیں حریم زحمت والی بات نہیں تھی دراصل اچانک ہی یہاں پر تیاری مکمل ہو گئی اور حسن میرے پاس ہی تھا آجکل فارغ ہے نا وہ اس لئے میں نے اسے بھجوا کر آپ کو بلوا لیا ” ۔ حریم اس کے جواب میں صرف سر جھکا گئ ۔ “چلیں پھر شروع کرتے ہیں ۔ ” ڈاکٹر مریم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔ ” جی ” اور حریم اپنی سٹیک کو سنبھال کر ان کے پیچھے چل دی ۔
*******
” چچی جان ۔ ۔ ۔ ۔ چچی جان کہاں ہیں آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچی جان ! ” حورعین پورے گھر میں ان کو ڈھونڈ رہی تھی اور پھر وہ ان کو باہر لان میں ملیں ۔ ” چچی جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ”
” کیا بات ہے حورعین ؟ ”
” چچی جان گڈ نیوز ہے ؟ ”
” اچھا مطلب ہماری حورعین اس بار پھر فرسٹ آئ ہیں ۔ ”
“ارے نہیں نہیں اس بار اس سے بھی اچھی خبر ہے ” حورعین نے جوش میں آکر کہا ۔
” اور وہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” روما نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تاکہ حورعین اسے پورا کرے ۔
” چچی جان حریم آپی آج ڈاکٹر کے پاس گئ ہیں ۔ آج ان کی ٹانگ کے ماڈل کی کاسٹنگ ہو گی ۔ ” حورعین کی اپنی بہن کیلیے محبت انگ انگ سے بیان ہو رہی تھی ۔
” اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔ مطلب میں آج کھانے پر اچھا سا انتظام کرتی ہوں ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور ابھی تمہارے چچا جان اور ابو جان کو بھی بتانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور حریم کہاں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ارے ہاں وہ تو ڈاکٹر کے پاس ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے ٹایم پوچھ لینا کب فارغ ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ایک تو بتایا بھی نہیں اس لڑکی نے ۔ ” روما جو فرط جزبات میں آکر کھڑی ہو گئں تھی ان کو حورعین نے شانوں سے پکڑا اور گلے لگا لیا اور رونا شروع کر دیا ۔ اور اسے دیکھ کر روما تو ششدر سی ہو گئیں پھر اپنی آنکھ میں آنے والے آنسووں کو صاف کیا اور کہا ” حورعین ادھر دیکھو میری طرف ۔ ” بہت محبت سے اسے الگ کیا اس کے آنسو صاف کیے اور کہا ” یہ آنسو اب حریم کے سامنے نہیں آیئں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھیک حریم کے سامنے خود کو بہت مضبوط شو کرنا ہے اور میں جانتی ہوں آپ بہت سٹرانگ ہو ۔ ۔ ۔۔ اب جلدی سے اندر جاکے تو لسٹ نبا دو کہ آج کیا کیا بناوں میں اپنی دونوں بیٹیوں کے لیے ۔ ” حورعین نے اپنے آنسو صاف کیے اور سر کو اثبات میں ہلاتی اندر چلی گئ ۔
روما پیچھے سے دل ہی دل میں ان دونوں بہنوں کی ہمت کو داد دیتی رہیں ۔ دو سال قبل جب حریم کا ایکسیڈنٹ ہوا تو اس نے صاف منع کر دیا کہ ڈاکٹر کے پاس وہ اکیلی جایا کرے گی ۔ اس نے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیا ہوا تھا ۔ اور چپ سی ہو گئ تھی ۔ حورعین اس کے سامنے تو کبھی نہیں روئ بس جب زیادہ دل بھر جاتا تو روما آفندی کے سامنے دل ہلکا کر لیتی ۔
*********
ڈاکٹر مریم حریم کو لئے ایک علیحدہ کمرے کی جانب چل دیں ۔ اس کمرے میں ایک طرف بڑی سی میز تھی جس پر جو سامان تھا کم از کم حریم اس سے ناواقف تھی ۔ پھر ساتھ ہی ایک بڑے سے جار میں سفید رنگ کا مایا تھا جو پوچھنے پر پلاسٹر آف پیرس معلوم ہوا ۔ کمرے کے بلکل وسط میں ایک چیر تھی اور اس کے بالکل سامنے ایک سٹول ۔ ڈاکٹر مریم نے حریم سے بیٹھنے کو کہا تو اسے اتنا تو اس کی چھٹی حس نے بتا ہی دیا کہ چیر اس کیلیے ہے اور سٹول ڈاکٹر کے لیے ۔ لہذا چپ چاپ وہاں بیٹھ گئ ۔
“حریم اب آپ کو نہایت تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ اور اگر کبھی ایسا لگے کہ میں نےآپ کی ٹانگ پر پریشر آپ کی برداشت سے زیادہ ڈال دیا ہے تو بتا دیجئے گا ۔ ”
” جی ضرور ! ” اور حریم کے چہرے سے واضح خوشی کے آثار جھلک رہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ اگر وہ اس وقت ڈاکٹر کے سامنے نہ ہوتی تو شاید خوشی سے بھنگڑے ڈال رہی ہوتی ۔
“آپ خوش ہیں ؟ ”
“بہت زیادہ ۔ میں خوش سے زیادہ excited ہوں ۔ ” حریم کی خوشی نہ صرف ہونٹوں سے بلکہ آنکھوں سے بھی عیاں تھی ۔
ڈاکٹر مریم نے حریم کی ٹانگ کو ایک منی ٹیبل پر رکھا اور اس کے سامنے آکر بیٹھ گئں ۔ سب سے پہلے انہوں نے حریم کی گھٹنوں تک عریاں ٹانگ پر ایک Ointetment لگایا پھر ایک liner چڑھا دیا ۔
حریم نے کتنی ہی بار ان سے ان کے خواب کے بارے میں پوچھنا چاہا لیکن کچھ سوچ کر ہونٹوں کو دانتوں میں دبا گئ ۔ ڈاکٹر مریم نے اسے نوٹ کیا تو کہا ۔ ” حریم آپ جو پوچھنا رہی ہیں پوچھ لیں ۔ ”
” حسن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئ مین کیپٹین حسن کہہ رہے تھے کہ آرمی ڈاکٹر بننا آپ کا خواب تھا ” حریم نے آسانی سے پوچھ لیا ۔
” اوہ ۔ ۔ ۔ اچھا تو حسن نے ایسا بتایا آپ کو ”
” یہ غلط ہے کیا ؟ ”
” نہیں غلط تو نہیں ہے ” ( میں حسن سے ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی کہ وہ آپ سے اس موضوع پر بات کرے گا ) یہ وہ صرف سوچ کر رہ گئں ۔ ” میرا خواب تھا آرمی جوائن کرنے کا ۔ ۔ ۔ ۔ ایز این آرتھوپیڈک سرجن اور اس سفر کے دوران خواب اور محبت دونوں ہی مل گیے ۔ ” ڈاکٹر مریم نے خوش ہو کر بتایا ۔
” آپ کا بھی کوئ خواب ہے کیا حریم ؟ ”
” جی ۔ میرا خواب آرمی ہے ” حریم نے خوش ہو کر بتایا ۔ لیکن ڈاکٹر مریم کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں ہو گئے ۔ اب انہوں نے ایک پلاسٹک سے حریم کی ٹانگ کو کور کیا ۔
حریم نے ان کے چہرے کو دیکھا تو سمجھ گئ کہ وہ اس لیے اداس ہیں کیونکہ وہ بھی یہ سوچ رہی ہوں گی کہ حریم اب اپنا خواب پورا نہیں کر سکتی ۔
“ڈاکٹر مریم یہ بات سچ ہے کہ میں بضاط خود آرمی جواین نہیں کر سکتی لیکن میرا خواب آرمی ہے ۔ آرمی جواین کرنا نہیں ۔ ” ڈاکٹر مریم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تو حریم نے ان کی آسانی کیلیے بتانا شروع کیا ۔ اب ڈاکٹر اس کی ٹانگ پر Nylon کی شیٹ لگا رہی تھیں ۔
” ڈاکٹر مریم جب میں نے میں انٹر میں اپنے کالج میں سب سے زیادہ نمبر لیے تو شاید مغرور ہو گئ تھی ۔ مجھے لگا میں بہت آسانی سے اینٹری ٹیسٹ کلیر کر جاوں گی ۔ لیکن اللہ کے علاوہ تو تکبر کسی کو سوٹ نہیں کرتا نا ۔ ۔ ۔ ۔ ” ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ” بس پھر اللّه نے کہا کے اے میری بندی تیرے رب کے علاوہ تکبر کسی کیلیے نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” حریم کے چہرے پر بتاتے ہوے نہایت خوبصورت مسکراہٹ تھی ۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ اس سب کے باوجود جو اس پر گزر چکا ہے دکھی ہے ۔ ” ڈاکٹر مریم آپ اپنے نام کی وجہ سے میرے دل کے بہت قریب ہیں ۔ کیونکہ میری سب سے پسندیدہ ٹیچڑ کا نام بھی مریم ہے ۔میں جب بھی زندگی سے مایوس ہوی انہوں نے سنبھال لیا ۔ میں جب فرسٹ ٹایم انٹری ٹیسٹ کلیر نہیں کر پائ تو انہوں نے کہا ” حریم خواب کو وسیع ہونا چاہیے ۔ اگر آپ ایز ڈاکٹر نہیں تو ایز آفیسر اپلائ کریں ” تو پھر میں نے راہ بدلی اور منزل کی جستجو میں لگ گئ ۔ ”
اب انہوں نے nylon کی شیٹ کو اینڈ سے موڑا اور دوبارہ سے اسے ٹانگ کے اوپر چڑھا دیا ۔ اس سے حریم کی ٹانگ تقریبا اپنی پہلے جتنی جسامت میں آگئی تھی ۔ جو کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے تھوڑی پتلی لگتی تھی ۔” میں نے bs میں داخلہ لے لیا کیونکہ لڑکیاں bs کے بعد ہی آرمی کے لئے اپپلا ے کر سکتی ہیں ۔ اور پھر میرا دل کیا کے ایک مرتبہ پھر سے آرمی ڈاکٹر کیلے ٹیسٹ دوں ۔ لیکن ڈاکٹر! جو قسمت میں نہیں ہوتا نا وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی نہیں ملتا ۔ انٹری ٹیسٹ والے دن میری امی جان ہمیں چھوڑ کر چلیں گئی۔ ” ساری بات بتاتے ہوے پہلی مرتبہ حریم کی آواز کانپی ۔
” آئ ایم سو سوری حریم ۔ آئ رئیلی ایم ۔ ” ڈاکٹر مریم نے نہایت آرام سے اس کی صحیح والی ٹانگ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اٹھ کھڑی ہویں ۔ اب جب وہ واپس آئیں تو ان کے پاس کچھ الاسٹک شیٹس اور پلاسٹر آف پیرس تھا ۔
” اس دن موسم بہت اچھا تھا ڈاکٹر ۔ ۔ ۔ ” حریم نے خیالوں میں کھوے ہوے کہا ۔ ڈاکٹر مریم نے شیٹس کو پلاسٹر آف پیرس میں ڈپ کیا اور Nylon پر رکھ دیا ۔ ” مجھے اچھی طرح یاد ہے کیونکہ اس دن ہماری یونیورسٹی میں تقریری مقابلا تھا ۔ میں فرسٹ آئ تھی ۔ ” حریم نے سوچتے ہوے ذہن پر زور ڈالا اور کہا ” موضوع تھا ” مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے ” اور مجھے خود بھی پرسنلی اپنی وہ تقریر بہت پسند آئ تھی ۔ وہ تقریر میری دو ہفتوں کی محنت تھی ۔ جب محنت کا پھل ملتا ہے تو خوشی ہوتی ہے نا ڈاکٹر ۔ ”
ڈاکٹر مریم نے مسکرا کر اس کی ہاں میں ہاں ملائ ۔ اور ایک اور شیٹ کو ڈپ کر کے حریم کی ٹانگ پر رکھ دیا ۔ ” میں جب ٹرافی اور سرٹیفیکیٹ لے کر گیٹ تک پہنچی تو معلوم ہوا کہ آج غفور چچا نہیں آسکیں گے ۔ لیکن میں اتنا خوش تھی اور موسم بھی بہت اچھا تھا تو سوچا تھوڑا سا ہی راستہ ہے خود چلی جاوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” حریم رک گئ اور ڈاکٹر مریم کا ہاتھ اس کی ٹانگ پر رک گیا ۔ ” وہ ایک آرمی کی گاڑھی تھی ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جسے تاحد نگاہ دیکھنا میں اپنا فرض سمجھتی تھی ( ساتھ میں حریم مسکرا دی ) میں اس بات کو بھلا کر کہ میں مین روڈ پر ہوں رک کر اس گاڑھی کو دیکھنے لگ گئ ۔ اور اسی وقت با لکل پاس سے ایک بائیک گزری جس سے ٹکرانے کی وجہ سے میں روڈ پر گر گئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک پل کو لگا دنیا ختم ہو گئ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ لیکن نہیں ابھی دنیا ختم نہیں ہوی تھی ۔ اسی وقت ایک ٹرک گزرا پاس سے اور پھر لگا اب دنیا ختم ہونے والی ہے ۔ وہ ٹرک میرے پاوں پر سے گزرا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ڈاکٹر مریم نے مزید ایک شیٹ ڈپ کر کے لگائ ۔
” میری آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھی ۔نہیں معلوم تھا کہ کس تماشائ نے ایمبولنس کو بلوایا ۔ نہیں جانتی تھی کہ ڈاکٹرز نے کیا کہا ۔ بس اتنا یاد تھا کہ ٹرک کا ٹائر میرے پاوں پر سے گزرا تھا ۔ اور اس خیال سے متعلقہ میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔ ابو جان ۔ حورعین ۔ چچی جان سب وہیں تھے ۔ کوئ کچھ بول بتا ہی نہیں رہا تھا اس لیے کیونکہ بتانے کو کچھ تھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ڈاکٹر مریم نے اب ٹانگ کے نیچے والے حصے پر شیٹس لگانا شروع کر دیا ۔
” ابو جان آگے آے اور کہا ” بیٹا آپ کو سٹرانگ ہو کر سننا ہے جو میں بتانے جا رہا ہوں ” میں نے بات کاٹی اور کہا ” ابو جان آپ بتا دیں جو بھی بات ہے ۔ اور پھر ان کے ہونٹ ہل رہے تھے میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کیا کہا ۔ کیا کیا دلاسے دیے ۔ حورعین آئ اور مجھ سے لپٹ کر رو دی ۔ چچی جان اس کو تو باہر لے گئیں لیکن میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس دن بس یہ پتا چل گیا کہ میں اب اپنا خواب پورا نہیں کر سکتی ۔ میں آرمی جوائن نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ میں بیسٹ نہیں تھی ۔ کیونکہ میں ایک Amputee تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
ڈاکٹر مریم اب اس کی ٹانگ پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھیں ۔
” میں روئ نہیں تھی جس طرح میرا دل چاہا ۔ میں بس چپ ہو گئ تھی یا شاید ناراض تھی اللہ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا مانگنا بھی چھوڑ چکی تھی ” ڈاکٹر مریم نے افسوس کی نگاہ سے اس کی جانب دیکھا ۔
” میں چپ ہو گئ تھی ۔ نہ رونا نہ ہنسنا ۔ کچھ محسوس بھی نہیں ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر گھر ایک دن میم مریم ملنے آئیں ۔ وہ واحد ٹیچڑ تھیں میری جن سے ملنے کو میں نے انکار کر دیا ۔ کیونکہ صرف وہ ہی میرے جنون کہ مطعلق جانتی تھیں ۔ لیکن انہوں نے ابو جان سے اجازت لی اور کمرے میں آگئیں ۔ میں بیڈ پر لیٹی ہوئ تھی ۔
” حورعین میں نے کہا نا کہ مجھے میم سے نہیں ملنا ۔ پلیز فورس مت کرو ۔ میں اتنی بہادر نہیں ہوں کہ ان کا سامنا کر سکوں ۔ ” حریم نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں ۔
” ارے میں تو جس حریم کو جانتی ہوں وہ تو بہت زیادہ بہادر ہے ۔ ” میم مریم نے داخل ہوتے ہوئے کہا ۔ حریم نے آنکھیں کھولیں تو آنسو امڈ آے ۔
” میم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میم ۔ ۔ ۔ میں ” وہ اٹھ کر بیٹھی لیکن اس سے کچھ بولا نہیں جا رہا تھا ۔ میم مریم آگے آئیں اور اسے گلے سے لگا لیا ۔ اور حریم ان سے لگ کر رو دی ۔ اور آج ان سارے آنسوں کو راہ مل گئ جو کافی دنوں سے بند تھے ۔ ” میم میں میرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا خواب پورا نہیں کر سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آرمی میں نہیں جا سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئ ایم ناٹدی بیسٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” میم مریم نے بھی اسے نہیں روکا ۔ ” میم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے ایسا کیوں کیا ۔ میرا ۔ ۔ ۔ ۔ میرا صرف ایک خواب تھا ۔ ۔ ۔ صرف ایک ۔ ۔ ۔ ۔ میم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور پھر جب وہ رو چکی ۔ اور چپ ہو گئ تو میم نے اس کو آہستہ سے اپنے سامنے کیا آنسو پونچھے اور کہا ۔
” حریم آپ کو زیادہ دکھ کس بات کا ہے میری جان ۔ ۔ ۔ اس بات کا نا کہ اب آپ آرمی کے لیے اپلاے نہیں کر سکتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور یہ کوئ سوال نہیں تھا ۔ حریم نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ” ہممم ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر میں یہ کہوں کہ اللہ نے آپ کو اس سے بھی بڑا چانس دیا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ” میم مریم نے حریم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جیسے ان کو اپنے کہے پر رتی برابر بھی شک نہ ہو ۔
حریم تو جیسے سکتے میں آگئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” کیا ایسا ہو سکتا ہے میم ؟ ” ( بے یقینی ہی بے یقینی ) ” بالکل ایسا ہو سکتا ہے ۔ حریم اللّه نے ہمیں مایوس ہونے سے منع کیا ہے ۔ اگر وہ ایک دروازہ بند کر ے تو کئی کھول بھی تو دیتا ہے ” میم مریم نے اسے سمجھانا شرو ع کیا ۔
” حریم ہر انسان کے پاس دو طریقے ہوتے ہیں اپنا خواب پورا کرنے کے ۔ یا تو اسے خود پورا کرے یا پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ تھوڑی دیر رکیں اور حریم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ” یا پھر اس خواب کو ان لوگوں میں جزبے کے ساتھ منتقل کر دے جو اس کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اہم یہ نہیں کہ وہ خواب آپ نے پورا کیا ہو ۔ اہم یہ ہے کہ وہ خواب پورا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے خوابوں کو مرنے نہیں دینا چاہیے حریم ۔ ” جب وہ اپنی بات پوری کر چکیں تو حریم کے کندھے کو سہلاتے ہوے کہا ” حریم میں ہمیشہ سے آپ کی سپیکنگ پاور کی تعریف کرتی آئ ہوں ۔ آپ بہت اچھا کنونس کر سکتی ہیں ۔ آپ اگر آرمی میں جا نہیں سکیں تو نوجوان نسل کے دل میں اس محبت کو پیدا تو کر سکتی ہیں نہ ۔ آپ کا خواب کبھی مر ہی نہیں سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ اس ملک کے لیے جان دینے والے کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتے ”
۔
۔
۔
” اور ڈاکٹر وہ دن ہے اور آج کا دن میں مسلسل اپنے خواب پر کام کر رہی ہوں ” اب کہ حریم نے قدرے اعتماد اور خوش ہو کر کہا ۔ اور دوسری جانب ڈاکٹر مریم کو لگا کہ اس وقت وہ دنیا کی سب سے با اعتماد اور خدا پر کامل یقین رکھنے والی لڑکی سے مل رہیں ہیں ۔ اب انہوں نے سوکھے ہوے ماڈل کو آرام سے نکالا ۔ حریم کی ٹانگ کو ہر چیز سے آزاد کیا ۔ اور جب وہ واپس جانے کے لیے اٹھی تو اس کے قریب آکر کہا ” حریم میں اپنے پیشے میں بہت سے لوگوں سے ملی ہوں جو زندگی کی امید کھو بیٹھتے ہیں ۔ ۔ اور چند ایک بہادر بھی ہوتے ہیں لیکن میں آج تک آپ جتنے حوصلے والی لڑکی سے نہیں ملی ۔ حریم نے مسکرا کر ان کو دیکھا اور وہ دل میں حریم کو دعاوں سے نواز گئیں ۔
” حریم ۔ ۔ ۔۔ ۔ آپی ۔ ۔ ۔ حریم آپی ۔ ۔ ۔ ۔ ام م م م م م روم نمبر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ او ہاں وہ رہا روم چچی جان ۔ ” حورعین نے بلآخر کمرہ ڈھونڈ ہی لیا ۔ اور اس کمرے کے باہر حسن کو انتظار کرتے دیکھ کر اسے لگا کے شاید وہ پھر سے غلط کمرے میں آگئی ہے ۔ اتنے میں حریم بھی اسی کمرے سے باہر آگئی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ حسن آگے جاکر اس سے کچھ کہتا ۔ روما اس کے پاس چلی گئیں اور حسن نے مناسب نہیں سمجھا تو بس اسے ایک نظر دیکھ کر پلٹ گیا لیکن حورعین کی آنکھوں نے یہ منظر خوب نوٹ کیا ۔
” آپی ۔ ۔ آپی ” اور حریم سے لپٹ گئ ۔
“آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آج سوکٹ بنے گا ۔ میں ساتھ آتی آپ کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور غفور چچا بھی تو نہیں تھے آپ کے ساتھ ۔ کیسے آئیں آپ ؟ ” حورعین تو بس گاڑی میں بیٹھتے ہی شروع ہو گئ ۔
” اللّه اللّه ۔ ۔ ۔ حورعین سانس تو لینے دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ویسے بھی مجھے خود آج ہی پتا چلا ہے کہ سوکٹ آج بنے گا ۔ ” حریم نے مسکراتے ہوے جواب دیا ۔
“تو پھر آپ ہسپتال کیسے گئیں ؟ ” لیکن حورعین کے سوالوں کی لسٹ ابھی ختم نہیں ہوئ تھی ۔ پہلے حریم نے سوچا کہ کیا بتا دینا ٹھیک ہو گا پھر یہ سوچ کر کہ چھپانے والی تو کوئ بات نہیں ہے بولی ۔ ” ڈاکٹر مریم نے گاڑی بھجوا کے بلوا لیا تھا ۔
“اوہ ہ ہ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ ان کے ڈرائیور کے ساتھ آئیں ہیں ؟ ” حورعین نے لفظ ڈرائیور پر زور دیا ۔ حریم سوچبے لگی کہ کیا حسن کو ڈرائیور کہنا اس کی پرسنیلٹی کی توہین نہیں ہو گا ۔ ” بتائیں نا آپی ۔ ۔۔ ۔؟ ” حورعین نے ضد کی ۔ تو آگے بیٹھی روما نے اسے ٹوک دیا ۔
” حورعین اب چھوڑ بھی دو اس بات کو ۔ اور حریم آپ بتاو کہ کتنے دنوں تک پروستھیٹک فوٹ تیار ہو کر آے گا ؟ ” روما نے حریم کو مخاطب کر کے پوچھا ۔
” ایک ہفتے تک چچی جان ۔ ”
” ایک ہفتہ یعنی کہ 21 کو ۔ ” حورعین چہکی ۔ حریم نے مسکرا کر سر ہلا دیا ۔ “آپی آپ کو پتا ہے آج کھانا چچی جان کی طرف ہے ۔ بیف سٹیکس بنیں گے ۔ ” حریم نے شکوہ کرتی نظروں سے روما کو دیکھا تو بولیں “میری بڑی بیٹی کی خوشی میں دعوت ہے حریم بیٹا آپ بھی انوائٹد ہو ۔ ”
” تھینکس بٹ نو تھینکس چچی جان ۔ آپ نا بھی بلاتیں تو میں حریم آپی کو لے آتی ۔ ” اور حورعین کے جواب پر سبھی ہنس دیں ۔
✴✴✴✴✴✴✴
گھر آکر ان کو معلوم ہوا کہ ضمان صاحب اور فرقان صاحب بھی آے ہوے ہیں ۔ پھر تو جیسے خوشیاں دوبالا ہو گئیں ۔ سب نے نہایت اچھے ماحول میں کھانا کھایا ۔ کھانے پر جب معلوم ہوا کہ حریم ایک ہفتے کے بعد بالکل پہلے کی طرح چل سکے گی تو ضمان صاحب نے ڈھیر ساری رقم صدقے کیلیےدی ۔ حریم چاے کی شوقین نہیں تھی سو جلد ہی اپنے کمرے میں آگئ ۔ دروازہ بند کر کے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی اور اپنی ڈایری کھول لی ۔
“اللّه میں بہت عرصے بعد لکھ رہی ہوں ۔ لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج میں حقیقتا بہت خوش ہوں ۔ ایک ہفتے بعد مجھے لگا کہ میری زندگی کا مقصد پورا ہونے جا رہا ہے ۔ آپ میری مدد کرئے گا ۔ اس بار میرا خواب پورا ہونے پر کن کہہ دیں ۔” پھر حریم نے ڈائری بند کی اور اٹھ کر کیلنڈر کے سامنے آگئ ۔ وہاں پر اس دن سے ایک ہفتے بعد کی تاریخ پر بڑا سا گول دائرہ تھا ۔ حریم اسے دیکھنے لگی کہ دروازہ کھلا اور حورعین اندر آئ ۔ ” کیا دیکھ رہی ہیں آپ آپی ؟”
” دیکھو حورعین 21 کو آرمی میڈیکل کالج کی لسٹ لگنی ہے ۔ میرے دس سٹوڈنٹس نے اپلائ کیا ہے ۔ اب دیکھو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” حریم خاموش ہوئ ےو حورعین اس کے پاس آگئ اور بولی “آپی ان سب کا آپ ایڈمشن پکا سمجھیں ۔ آخر تیاری جو اتنی قابل استانی نے کروائ ہے ۔ ” اور وہ دونوں ہنس دیں ۔
✳✳✳✳✳✳✳✳
پھر ایک ہفتہ ہوا کے دوش پر سوار ہو کر گزر گیا ۔ آج ضمان صاحب نے حریم کے ساتھ آنا چاہا تو وہ منع نہیں کر پائ ۔ حورعین بھی ساتھ ہی تھی ۔ جب وہ لوگ لابی میں انتظار کر رہے تھے تو ڈاکٹر مریم کے کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر سے وہ اور کیپٹین حسن باہر آے۔ ڈاکٹر مریم نے حریم کو گلے لگایا اور کہا “آپ تیار ہیں ؟ ” “جی ۔” حریم مسکرا دی ۔
” ڈاکٹر ! کیا ہم بھی آپ کے ساتھ اندر آسکتے ہیں ؟” حورعین نے اجازت لینا چاہی ۔ ڈاکٹر مریم نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا تو حریم نے تعارف کروایا ۔ ” یہ میری چھوٹی بہن ہیں ۔ حورعین۔”
“آی ایم سو سوری حورعین لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ کو سرپرایز زیادہ اچھا لگے گا ۔ وہ ایکچویلی میں اس پروسس کے دوران سٹاف کو بھی منع کر دیتی ہوں ۔ کانسنٹریشن نہیں رہ پاتی نا ۔ ” ڈاکٹر مریم نے معزرت کر لی ۔
” کوئ بات نہیں آئ انڈرسٹینڈ ۔ ” حورعین نے مسکراہٹ سجاے کہا ۔ اور ڈاکٹر اس کا کندھا تھپتھپا کر حریم کو لیے چلی گئیں ۔ ضمان صاحب ریسپشن پر بلز کلیر کروانے چلے گئے اور حسن ویٹنگ چیئرز پر انتظار کر رہا تھا جسے حورعین نے دیکھ کیا ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴
اندر ڈاکٹر مریم کے کمرے میں انہوں نے حریم کو ایک کرسی پر بیٹھنے کا کہا اور خود اس کا نیا بنا ہوا ساکٹ اور پروستھیٹک فوٹ لے آئیں
نقلی پاوں تو بالکل ہی حریم کے پاوں جیسا تھا ۔ لیکن سوکٹ اس طرح کا تھا کہ وہ آدھی ٹانگ تک حریم کی ٹانگ کی طرح تھا پھر آگے سے اس کو میٹل روڈز کے ذریعے نقلی پاوں سے جوڑا گیا تھا ۔ اور جب ان دونوں کو پہنا جاے تو پائنچہ روڈ کو چھپا لے گا جو کہ دیکھنے والے کو بالکل نارمل ٹانگ کا تاثر دیتا ۔
اب ڈاکٹر مریم نے حریم کو وہ ساکٹ پہنایا اور اس کو ٹانگ کے ساتھ ملحق کیا ۔ پھر آگے نقلی پاوں لگایا اور حریم کو کھڑا ہونے کا کہا ۔ حریم نے گہری سانس لی اور کھڑے ہو کر اپنے پاوں کو محوس کرنا چاہا ۔ اس کو ایک لمحے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ اتنے عرصے بعد بغیر سہارے کے کھڑی ہے ۔ ڈاکٹر مریم نے اس کا ہاتھ تھا ما اور ایک دو قدم چلنے کا کہا ۔ لیکن حریم کو لگا کہ ساکٹ والا پاوں نارمل والے سے تھوڑا اونچا ہے ۔ ڈاکٹر نے اس کو دوبارہ بٹھایا اور روڈ کی لمبائ تھوڑی کم کی ۔ اب کی بار حریم کو چلنے میں کافی آسانی ہوئ ۔ اب ڈاکٹر مریم حریم کو چلنے کی پریکٹس کروا رہی تھیں ۔
✴✴✴✴✴✴✴✴✴
“وہ میری بہن ہیں۔” حورعین نے حسن کے پیچھے سے آتے ہوے اس کی چوری پکڑی جو کہ کافی دیر سےاس دروازے کو دیکھ رہا تھا جہاں اندر حریم تھی ۔( اور مسکرا بھی تو رہا تھا ) اس پر گھبرا گیا لیکن جلد ہی خود پر قابو پاتے ہوے بولا ۔
“ایکسکیوز می! ” حورعین بڑے آرام سے ایک کرسی کھینچ کر اس کے ساتھ بیٹھ گئ ۔
“ایکسکیوزڈ ۔ جی تو میں کہہ رہی تھی کہ حریم آپی میری بہن ہیں جن کو آپ کافی دیر سے دیکھ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں نہیں دیکھ نہیں گھور رہے ہیں ۔ ” حسن نے گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوے اس کی طرف حیرت سے دیکھا ۔ ” میں تو ایسے ہی دیکھ رہا تھا۔” وضاحت دی ۔
” جی وہ تو میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کیسے دیکھ رہے ہیں ۔ ” حورعین نے سنجیدہ ہونے کی ناکام کوشش کی ۔ حسن اس کے تاثرات کو پرکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ حورعین کی اداکاری جواب دے گئ تو بولی ۔ ” ارے آپ پریشان کیوں ہو رہے ۔ ۔۔ ۔ میں تو آپ کا بھلا چاہ رہی تھی ۔ ” حورعین نے آگے ہوتے ہوے راضداری سے کہا ۔ اب حسن بھی قدرے سنبھل چکا تھا ۔ تو مسکرا کر بولا ۔ “اچھا ! اور وہ کیسے ؟ ”
“سیدھی سی بات ہے آپ آپی کو پسند کرتے ہیں ۔ اور ان سے کہتے ہوے ڈر لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” (حسن کے تاثرات دیکھتے ہوے جملہ بدلا
” ٹھیک ہے ٹھیک ہے ڈر نہیں لگتا شرم آتی ہے ” مسکراہٹ دباے وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی کہ حسن زور سے ہنس دیا اور بولا ” نہیں نہیں شرم نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈر والا آپشن زیادہ بہتر ہے ۔” جس پر حورعین بھی ہنس دی ۔ ” میں آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں ۔ مانتی ہوں کہ آپی کو منانا آسان نا ہو گا پر میں کوشش پوری کروں گی ۔ سو فرینڈز ۔ ۔ ۔ ؟” حسن نے آنکھ دبائ اور اثبات میں سر ہلا دیا ۔
” جی تو پہلے اپنا تعارف کروایں ۔ ”
“آئ ایم کیپٹین حسن ۔ عمر 26 ہے ۔ ڈاکٹر مریم از ماے مدر ۔ ” حسن نے مختصر سا تعارف کروایا ۔ “اہ ٹھیک ٹھیک ۔ حریم آپی بہت تعریف کرتی ہیں ڈاکٹر مریم کی ۔ ”
” کیا کہتی ہیں آپ کی حریم آپی ؟ ” حسن نے دلچسپی دکھائی ۔
” کہتی ہیں کے انہوں نے ایک بار پھر سے مجھے مکمل کر دیا ۔ ” حور عین نے حریم کے الفاظ دہراے ۔
“اچھا چھوڑیں یہ سب ۔ یہ بتائیں کہ اگر میں نے آپ کا کام کر دیا تو مجھے کیا ملے گا ۔ ” حورعین بغیر کسی فائدے کہ تو یہ کام کرنے والی تھی نہیں ۔ ” کیا چاہئے آپ کو ؟ ” حسن نے پوچھا تو بولی ” حسن بھائ مجھے آپی کی خوشیوں کی گارنٹی چاہیے۔ وہ ایکسڈنٹ کے بعد سے بہت بدل گئ ہیں ۔ وہ بہت زیادہ ہنستی بھی نہیں ہیں ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ پرامس کریں کہ اگر میں نے آپ کی مدد کی تو آپ مجھے پہلے جیسی آپی لا کر دیں گے ۔ ” حورعین کی آنکھوں میں آنسو آگے ۔ حسن آگے کو ہوا اور اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیر کر کہا۔ “حورعین اگر تو آپ ہمیں ملانے میں کامیاب ہو گئں تو یہ میرا وعدہ ہے کہ میری طرف سے حریم کو کوئ بھی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ” حورعین مسکرا دی ۔ “یہ تو بتائیں کہ آپ میری مدد کیسے کریں گی ؟ ” حسن نے مسکرا کر پوچھا ۔ ” وہ تو ابھی میں سوچوں گی ۔” اتنے میں ڈاکٹر مریم کے روم کا دروازہ کھلا اور وہ مسکراتی ہوئ باہر آئیں ۔ ان کے پیچھے ہی حریم تھی جو کہ مسکراتے ہوے چھوٹے چھوٹے سٹیپس لے کر آرہی تھی ۔ ابھی اس نے ڈاکٹر مریم کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔ حورعین لپک کر حریم کے پاس گئ اور اس کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اب وہ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہی تھی ۔ ضمان صاحب بھی ان کے قریب چلے آے۔ انہوں نے آکر حریم کے سر پر بوسہ دیا ۔ اب ان کی مکمل بیٹی پھر سے مکمل ہو گئ تھی ۔ وہ خوش تھے ۔ حسن بھی دور کھڑا مسکرا رہا تھا ۔ اور حورعین اب حریم کے کان میں سرگوشیاں کر رہی تھی ۔
✴✴✴✴✴✴✴
حریم نے ابھی گھر کے لان میں قدم رکھے ہی تھے کہ زور سے ٹھا کی آواز آئ اور حریم کے اوپر ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے رنگین کاغذ جن میں گلیٹر اور پھولوں کی پتیاں بھی شامل تھیں وہ گر گئے ۔ حریم نے حیرت سے ارد گرد دیکھا تو وہاں سبھی موجود تھے ۔ حیدر اور طوبہ کے ہاتھوں میں بڑے بڑے غبارے تھے۔ فرقان اور روما کے ہاتھوں میں گلدستے تھے ۔ اور حورعین بھی جلدی سے ان سب میں شامل ہو گئ ۔ سب نے اس رات بھر پور مزہ کیا ۔ بار بی قیو کا انتظام کیا گیا تھا جو کہ فرقان صاحب کی جانب سے تھا ۔ انہوں نے کہا ہوا تھا کے وہ کسی کی مدد نہیں لیں گے۔ ” حریم آپی اب آپ بھی ہمارے ساتھ بھاگ سکیں گی نا ؟ ” طوبہ نے معصوما نا سوال کیا تو سبھی ہنس دیے ۔ ” جی بالکل ابھی بھاگ کے دکھاوں ؟”
” پر ابھی آپ بھاگ کر جائیں گی کہاں ؟”
“اب تو آپی نے بھاگ کر کسی فوجی جوان کے گھر جانا ہے ۔ ” اس سے پہلے کہ حریم جواب دیتی حورعین بول پڑی ۔ جس پر حریم اس پر غصہ ہوتے بولی ” شرم کرو حورعین ۔ بچے ایسی باتیں نہیں کرتے ۔” ” ارے میں کیوں شرم کروں کون سا میری شادی کی بات ہو رہی ہے ؟” حورعین پر کون سا اثر ہونا تھا ۔ “چچی جان آپ ہی سمجھائیں اس کو ” حریم نے اب مدد کیلیے روما کی جانب دیکھا ۔ ” حورعین بچے کیوں تنگ کر رہی ہو بہن کو ۔” حریم پھر سے آرام سے بیٹھ گئ جبکہ روما آفندی کی بات ابھی پوری نہیں ہوی تھی وہ بولیں “ہو سکتا ہے کہ لڑکا آرمی کا جوان نا ہو بلکہ کوئ بزنس مین ہو ۔” اور وہ دونوں ہنس دیں جبکہ حریم کی حالت غیر ہو رہی تھی ۔ “جی کون ہے یہ آرمی کا جوان جس کی بات ہو رہی ہے ؟”۔ اسی وقت فرقان اور ضمان صاحب چاے لے آے اور ان کی آدھی ٹوٹی باتیں سن لیں ۔
“ابوجان ہم حریم آپی کیلیے لڑکا ڈھونڈ رہے ہیں اور چچی جان کہہ رہی ہیں کہ بزنس مین جبکہ میں بالکل اس حق میں نہیں ہوں ۔ مجھے تو اپنے بھائ آرمی کے جوان چاہیئیں ۔” “مطلب کہ میں اردگرد دیکھنا شروع کر دوں ۔” فرقان نے بھی موضوع میں اپنا حصہ ڈالا ۔ “چچا جان آپ بھی ۔” حریم اب کہ بس رونے ہی والی تھی ۔ ” چلو چلو سب چاے لو ۔ ” ضمان صاحب نے گویا موضوع بدلنا چاہا ۔ حریم چونکہ چاے نہیں پیتی تھی لہذا اٹھ کر اندر اپنے کمرے میں چلی آئ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...