اس تیز دھار آلے نے جب سمارا کی چمڑی کو کاٹا تو وہ چیخنے لگی۔
عون نے ایک ہاتھ سے اس کا گلا دبا رکھا تھا۔
جس سے وہ ہل نہیں پا رہی تھی۔
اس نے عون کو دھکا دینا چاہا پر اس کی طاقت کے آگے وہ کچھ نہیں کر پائی۔
عون اس کی چیخوں سے لا پرواہ اپنی حرکت کو جاری رکھے تھا۔
سمارا کی گردن سے خون بہ کر اس کے ڈیسک پہ گر رہا تھا۔
عون اسے ایک دم چھوڑ کے پیچھے ہٹ گیا۔
اس کے بعد وہ وہاں رکی نہیں تھی۔
۔۔۔
وہ شیشے کے سامنے کھڑی خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کی شرٹ خون اور آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔
زخم اتنا گھرا نہیں تھا کہ جانی نقصان کرے۔
لیکن نشان ضرور رہ جاتا۔
۔۔۔
دو دن بعد۔۔۔
مسز عون اگر آپ کو یہاں سے کچھ لینا ہےتو لے لیں۔
اب سے ہم یہاں نہیں رہیں گے۔
کیا مطلب ہے اس کا ڈیےگو۔
ہم کہاں رہیں گے۔
اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
سینور کو لگتا ہے یہ جگہ آپ کے لیے مناسب نہیں۔
آپ کو جو چاہئیے ہے رہ لے لیں۔
ہاں کچھ بکھرے خواب سمیٹنے ہیں۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔
۔۔
وہ ایک عالیشان گھر کے باہر کھڑے تھے۔
یہ کونسی جگہ ہے۔
یہ سینور کے والد کا گھر تھا۔ انہیں وراثت میں ملا ہے۔
وہ جگہ ضرورت سے زیادہ بڑی تھی۔
گھر کے پچھلی جانب ایک سویمنگ پول بھی تھا۔
لیکن یہ جگہ شہر سے دور تھی۔
قریبی گھر بھی کی کلومیٹر دور تھا۔
وجہ صاف تھی وہ اسے اکیلا کرن چاہتا تھا۔
آج شام تک عون کی اٹلی سے واپسی متوقع تھی۔
جانے اب اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔
۔۔۔
مارتھا اپنی نئی جاب سے گھر آ گئی تھی۔
لیکن ہال میں پہنچ کر ایک دم ٹھٹکی۔
مسٹر عون آپ میرے گھر میں۔
ہاں مارتھا سوچا تم سے مل لوں۔
وہ صوفے پہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے۔ مارتھا کی بیٹی کی تصویر ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا۔
یہ تمہاری بیٹی ہے نا تمہاری طرح دکھتی ہے۔
مسٹر عون اگر آپ کو کوئی بات کرنا تھی تو مجھے کال کر دیتے۔
اس کی ایسے وہاں موجودگی مارتھا کے لیے بری خبر تھی۔
ہاں ضرور کرتا پر معاملہ کچھ ایسا تھا۔
تمہیں میری بیوی سے دور رہنا چاہئیے تھا۔
آپ ان کے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہے۔
مارتھا ایک مضبوط عورت تھی۔ اس لئے عون کے ایسے حربوں سے ڈرنے والی نہیں تھی۔
یہ سوچنے کی ضرورت تمہیں نہیں۔
وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
یہ محبت نہیں مسٹر عون۔
مارتھا کے جواب میں اس کے لبوں میں حرکت ہوئی تھی۔
وہ مسکرا رہا تھا۔ پہلی بار۔
_____
اگر کوئی اسے اب مسکراتے دیکھ لیتا تو یقینأ اس کا دیوانہ ہو جاتا۔
لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے کی کہانی کچھ اور ہی تھی۔
میں جانتا ہوں۔
This is not Love۔ It is Obsession۔
۔۔۔
عون پہلے سےکافی پرسکون تھا۔
سمارا کو بھی کافی وقت دے رہا تھا۔
جب وہ اس پہ ظلم کرتا تھا تو اس کے بارے میں ایک فیصلہ کرنا آسان تھا۔
لیکن وہ ایسا نہیں تھا۔ ایک بار غصہ نکال لینے کے بعد دوبارہ اس واقعہ کو نہیں دہراتا تھا۔
آج صبح وہ خود سمارا کے لئے ناشتہ بنا رہا تھا۔
اس کی ایسی حرکات سمارا کو پریشان کرتی تھیں۔
اس کے کئی روپ تھے۔ ایک فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
اس کی سزا کی طرح محبت میں بھی شدت تھی۔
۔۔۔
سمارا کی گردن پہ اب آنسو کا ویسا ہی نشان تھا جیسا عون کی کلائی پہ تھا۔
وہ ہال میں کوئی نیوز چینل لگا کر بیٹھی تھی۔
مگر وہ عون کے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا میں ناانصافی کر رہی ہوں۔ کیا میں مطلبی ہوں۔
ایسے سوالات اس کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
شاید عون صحیح ہیں وہ کتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے اگر سزا دے بھی لی تو کیا ہوا۔
ارے میں یہ کیا سوچ رہی ہوں۔ انہوں نے جو کیا وہ ظلم تھا۔
تنہائی ایسی ہی ہوتی ہے انسان کو خود کے خلاف کر دیتی ہے۔
خود کو سوچ کے حصار سے نکال کر وہ نیوز کی طرف متوجہ ہوئی۔
اس وقت جو خبر آ رہی تھی اس سے سمارا کے روگٹھے کھڑے ہو گئے۔
وہ منہ پہ ہاتھ رک کے خود کو قابو کرنے لگی۔
مارتھا کی لاش اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی۔
وہ اکیلی رہتی تھی اور جب کئی بار بیٹی کے ساتھ رابطہ نہ ہوا تو اس کی بیٹی نے پولیس کو خبر کی۔
چاقو کے پے در پے وار کئے گئے تھے۔
پولیس کو شک تھا کہ یہ کسی سیریل کلر کا کام ہے۔
لیکن وہ چیز جس سے سمارا بےجان ہو کہ فرش پہ گری تھی۔
وہ مارتھا کے گلے پہ ویسا ہی نشان تھا جیسا عون نے اس کی گردن پہ بنایا تھا۔
اسے لگا کہ اس نے جو کھایا ہے وہ باہر آ جائے گا۔
وہ باتھروم کی طرف بھاگی اور معدہ خالی کرنے کے بعد بیٹھی روتی رہی۔
مارتھا کا بےجان وجود بار بار اس کے سامنے آ رہا تھا۔
اس کی بیٹی کا روتا ہوا چہرہ۔
یہ آپ نے کیا کیا عون کیوں۔
نہیں یہ میری غلط فہمی ہے عون ایسا نہیں کر سکتے۔
وہ روتی خود کو تسلی دینے لگی۔
پر سچ اس کے سامنے تھا اور وہ زیادہ دیر اس سے نہیں بھاگ سکتی تھی۔
عون عون مجھے بھی مار دیں گے۔ مجھے یہاں سےنکلنا ہو گا۔
_______
لیکن میں یہاں سے کیسے نکلوں گی۔
وہ مجھے دوبارہ پکڑ لیں گے۔ میں کیا کروں۔
اس کے پاس کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔
پھر اسے مارتھا کا دیا ہوا موبائل یاد آیا۔
اس نے وہ باتھروم میں ہی چھپا رکھا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کسے کال کرے۔
آخر اس نے لوفین کو کال کی۔
۔۔۔
سمارا کیسی ہو تم۔ کہاں ہو ۔ تم جانتی ہو میکس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
لوفین لوفین۔۔۔
اس سے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
لوفین مجھے بچا لو۔
مجھے یہاں سے نکال لو پلیز۔ عون مجھے مار دیں گے۔
سمارا گہرا سانس لو اور پھر بتاؤ مجھے۔
سمارا نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
تمہیں پولیس کو بتانا چاہئیے۔
نہیں نہیں پولیس نہیں۔ مجھے بس یہاں سے نکلنا ہے میری مدد کرو۔
آخر کئی بار کی منت کے بعد لوفین مدد کے لیے تیار تھی۔
اس نے سمارا کو اگلے دن اسی وقت کال کرنے کا کہا۔
۔۔۔
عون سکون سے بیٹھا ڈنر کر رہا تھا۔
اور سمارا اسے مسلسل بالوں کی اوٹ سے دیکھ رہی تھی۔
کیا بات ہے Mon Amour
کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں۔
ٹھیک ہے مجھے کچھ کام ہے میں آفس جا رہا ہوں۔
آخر وہ اتنا پرسکون کیسے ہے۔ میں پاگل ہو جاؤں گی۔
۔۔۔
اگلے دن میکس نے اس سے بات کی۔
تم جانتی ہو تم جو کہ رہی ہو وہ سنگین ہے۔
میں میں جانتی ہوں پر مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔
ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن اس کے بعد تمہیں ہرکسی سے رابطہ ختم کرنا ہو گا۔
تمہارے ماں باپ سے بھی۔
پر پر ان سے کیوں۔
اگر تم نے ان سے رابطہ رکھا تو ان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
لوفین تمہارے لئے نئی شناخت کا انتطام کر رہی ہے۔
فیصلہ مشکل تھا پر اس نے حامی بھر لی۔
باقی منصوبہ کو بھی سوچ سمجھ کے تشکیل دیا گیا۔
سمارا کے لئے سب سے بڑا کام مطلوبہ دن کو یہاں سے نکلنا تھا۔
ڈیےگو ہر وقت گھر کے باہر پہرہ دیتا تھا۔
اور بیرونی دروازے کی چابیاں اس کے اور عون کے پاس تھیں۔
اگر وہ باہر چلی بھی جاتی تو بھی وہ پیدل یہ کام نہیں کر سکتی تھی
اس کے لیے اسے گاڑی کی ضرورت تھی۔
عون کے پاس کافی گاڑیاں تھیں پر ان کی چابیاں عون کے آفس میں ہوتی تھیں۔
جو کہ لاک ہوتا تھا۔ اس کےعلاوہ اسے پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔
اگر وہ کسی بھی مرحلے میں پکڑی گئی تو عون اسے نہیں چھوڑے گا۔
پر ایسا کرنا اب مجبوری بن گیا تھا۔
۔۔۔
آنے والے دنوں میں جتنا ہو سکے اس نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
________
کل اسے یہاں سے جانا تھا۔ میکس اور لوفین نے سب انتظام کر لیا تھا۔
اسے یہاں سے نکل کر اسٹیشن تک پہنچنا تھا۔
پر اس سے پہلے سمارا کو آفس کی چابیاں حاصل کرنی تھیں۔
جوکہ صرف عون کے پاس ہوتی تھیں۔
عون گہری نیند میں تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے رہ چیک کر رہی تھی کہ عون کب گہری نیند میں ہوتا ہے۔
عون کا موبائل اور چابیاں سائیڈ ٹیبل پر تھیں۔
سمارا دبے پاؤں چلتی ان تک پہنچی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
وہ آہستہ آہستہ سے آفس کے دروازے تک پہنچی۔
اپنے دل کی دھڑکن وہ صاف سن سکتی تھی۔
اسے لگ رہا تھا کہ جیسے عون بھی سن لے گا۔
آفس کا دروازہ کھول کر اس نے لاک سسٹم میں ببل گم پھنسا دی۔ تاکہ وہ دوبارہ لاک نہ ہو۔
اسی طرح سے دبے پاؤں چلتی کمرے میں گئی اور چابیاں واپس رکھ کے لیٹ گئی۔
وہ ساری رات کل کا پلین ذہن میں دہراتی رہی۔ نیند اس سے کوسوں دور تھی۔
تم ٹھیک تو ہو Mon Amour
جج جی۔ کیوں کیا ہوا۔
تم کچھ بےچین لگ رہی ہو۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
وہ اس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کے دیکھنے لگا۔
ہمم بخار تو نہیں ہے۔
تم کچھ چھپا رہی ہو۔
کہیں عون کو پتا تو نہیں لگ گیا۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔
میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نا ہوں۔ سمارا نے مسکرا کر کہا۔
عون نے جھک کر اس کا بوسہ لیا اور چلا گیا۔
۔۔۔
دوپہر ہونے کو تھی مطلب منصوبہ پہ عمل کرنے کا وقت آ چکا تھا۔
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ ڈیےگو سرونٹ کواٹر کے باہر دکھائی دے رہا تھا۔
دروازہ چیک کیا تو وہ لاک تھا۔
وہ عون کے آفس میں گئی۔ اور سب سے کم قیمت گاڑی کی چابیاں اٹھائیں۔
اس کے بعد عون کے لاکر کی طرف گئی۔
وہ اس کا کوڈ جانتی تھی اس لیے آسانی سے لاکر کھول لیا۔
اندر کافی کیش اور قیمتی جیولری موجود تھی۔
اس نے بیگ میں کافی زیادہ کیش بھرا۔ اور پھر اسے لاک کر کے اپنے کمرے میں گئی۔
وہاں سے ایک سادی پینٹ اور عون کی ٹی شرٹ بیگ میں رکھی۔ اور مین گیٹ کے پاس رکھے گلدان کے پیچھے اسے چھپا دیا۔
اس نے کچن میں جا کر چولہا جلایا اور اس پہ کاغذ رکھ کے جلانے لگی۔
جب ان سے دھواں پیدا ہونے لگا تو گھر میں لگا فائر الارم بجنے لگا۔ اور آگ روکنے کے لیے پانی برسانے لگا۔
سمارا دروازے کے پاس جا کر ڈےگو کو بلانے کے لیے چلانے لگی۔
ادھر ڈیےگو پہلے ہی الارم سن کر بھاگا آ رہا تھا۔
وہ سمارا کو سرونٹ کوارٹر میں جانے کا کہنے لگا۔
سمارا یہی تو چاہتی تھی۔ ڈیےگو اندر چلا گیا اور سمارا پارکنگ ایریا کی طرف بھاگی۔
ڈیےگو کو سب سمجھنے میں کچھ وقت لگتا اور وہ وقت سمارا کے لیے اہم تھا۔
سمارا نے کار سٹارٹ کی اور وہاں سے نکل گئی۔
ڈیےگو جو کہ سارے گھر میں آگ کے آثار ڈھونڈ رہا تھا گاڑی کی آواز پہ باہر بھاگا۔
سینورا رکیں سینورا۔
ڈیےگو دوسری گاڑی کی طرف بھاگا اور اس کے پیچھے نکل پڑا۔
۔۔۔
کیا یہ آپ کو پسند آئی۔
اچھی ہے پر اسے نازک چیزیں پسند ہیں اتنی بڑی نہیں۔
عون پچھلے آدھے گھنٹے سے سمارا کو گفٹ کرنے کے لیے رنگ پسند کر رہا تھا۔
وہ کچھ ایسا چاہتا تھا جو سمارا کی پرسنیلٹی کے مترادف ہو۔
ڈیےگو کیا بات ہے اس نے کال ریسیو کر کے پوچھا۔
سینورا پھر سے چلی گئیں۔
دو آنسو ان آنکھوں سے بہ کر فرش پہ گرے تھے۔
۔۔۔
ڈیےگو اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ کافی دیر تک وہ اسے پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتی رہی اور آخر کار ایک موڑ پہ اسے ڈوچ کرنے میں کامیاب رہی۔
گاڑی میں فکس فون ایک دم بجا۔ اوروہ اچھل پڑی۔
یہ ضرور عون ہو گا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ گاڑی کی لوکیشن چیک کرکے جلد ہی اس کے پیچھے آئیں گے اس لیے قریب ہی سینیما کے سامنے گاڑی روک کر خود اندر چلی گئی۔
وہ وہاں باتھروم میں گئی اور بیگ میں رکھے کپڑے نکال کے پہننے لگی۔
ڈیےگو گاڑی کی لوکیشن سے سینما کے باہر پہنچ چکا تھا اب اسے سمارا کو ڈھونڈنا تھا۔
کہ ایک دم سینیما سے ان گنت لوگ باہر نکلنے لگے ۔ جس سے اور مشکل ہونے لگی۔
سمارا نے یہ موقع غنیمت جانا اور اسی رش میں شامل ہو کر چلنے لگی۔
کچھ آگے جا کر اس نے ٹیکسی بک کروائی اور اسٹیشن جانے کا کہا۔
جب اس نے دیکھا کہ اس کا پیچھا نہیں ہو رہا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
اسٹیشن پہنچ کر اس نے لوفین کو کال کی اور ان کا انتظار کرنے لگی۔
۔۔۔
سمارا میں بہت ڈر گئی تھی کہ تم یہ کر پاؤ گی کہ نہیں۔
ڈر تو میں بھی گئی تھی پر آخر پہنچ ہی گئی۔
یہ لو سمارا یہ تمہارا نیا لائسنس اور شناخت ہے ۔
پر بہتر ہے کہ تم پولیس سے دور رہو ورنہ یہ تمہارے لیے مسئلہ بن جائے گا۔
تمہارا بہت بہت شکریہ میں تم لوگوں کا احسان کبھی نہیں اتار پاؤں گی۔
ارے دوست بھی کہتی ہو اور شکریہ بھی میکس نے اسے چھیڑنے ہوئے کہا۔
مجھے ڈر ہے کہ عون تم لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
گھبراؤ نہیں ہم یہ شہر چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
_______
تم لوگ کہاں کہا جاؤ گے۔
ہم نے ٹیکسز جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اور تم جہاں بھی جاؤ وہاں پہنچ کو کال ضرور کرنا۔
ضرور۔
سمارا ان سے مل کے ٹکٹ کاؤنٹر پر گئی۔ اس نے نیویارک کی ٹکٹ کریڈٹ کارڈ سے لی۔
اور ٹرانسلوینیا کے لیے کیش سے۔
مقصد عون کو بھٹکانا تھا۔
۔۔۔
جب وہ گھر پہنچا توڈیےگو نے اسے سب بتا دیا۔
اس کا پہلا اندازہ یہی تھا کہ کسی نے سمارا کی مدد کی ہے۔
آپ کو ایسا کیوں لگا سینور۔
کیوں کہ اس میں اتنی عقل نہیں کہ وہ یہ سب خود کر سکے۔
اس نے لاکر چیک کیا تو وہاں سے بڑی رقم غائب تھی۔
لاسٹ ٹائم عون کا کریڈٹ کارڈ ٹکٹ خریدنے کے لیے کیا گیا۔
اسٹیشن پہنچتے ہی اس نے وہاں کی ویڈیو فوٹیج نکلوائی۔
اسے یقین تھا کہ جب رہ کیش سے ٹکٹ لے سکتی تھی تو کارڈ کا استعمال محض اسے بھٹکانے کے لئے کیا گیا۔
اس کا اصل مقصد اسے ڈھونڈنا تھا جس نے اس کی مدد کی تھی۔
۔۔۔
ویڈیو میں پہلے وہ اکیلی تھی پھر میکس اور لوفین بھی دکھنے لگے۔
میکس مکینکجی یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔
ڈیےگو مجھے یہ شخص چاہئیے۔
جی سینور۔
۔۔۔
سمارا نے ٹرانسلوینیا پہنچ کر پہلے کرائے پہ ایک جگہ لی۔ اور پھر شہر سے کچھ دورواقع ایک چھوٹا سا گھر خریدا۔
اس کی سب سے بڑی خریداری یہی تھی۔
اس کے بعد ایک استعمال شدہ گاڑی خریدی۔
اس کا گھر چھوٹا تھا پر اسےپسند تھا۔ اس کے قریب ہی جنگل شروع ہو جاتا تھا۔
یہاں وہ آزاد تھی لیکن ہر وقت عون کا خوف ساتھ رہتا تھا۔
یہاں پہ اسے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔
اب وہ مقامی کالج کی کینٹین میں جاب سٹارٹ کر رہی تھی۔
آج اس کا پہلا دن تھا اور وہ کافی گھبرا رہی تھی۔
اس نے پہلے کبھی جاب نہیں کی تھی۔
لیکن آخر سرونگ جاب میں کتنی مشکل ہو سکتی ہے۔
اس نے یہاں آ کر جوگنگ سٹارٹ کر دی تھی۔
وہ جنگل میں داخل اور باہر ہونے والے راستوں سے واقف ہو چکی تھی۔
لاشعوری طور پہ وہ جانتی تھی کہ اگر کبھی عون اس تک پہنچا تو اسے صرف رفتار ہی بچا سکتی تھی۔
جوگنگ کے دوران اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔
اسی نے سمارا کی جاب ڈھونڈنے میں مدد کی۔
۔۔۔
ایک مہینہ ایک مہینہ ہو چکا تھا اسے سمارا کے بغیر۔
وہ اسے ڈھونڈ نہیں پایا۔ اور نا ہی میکس کو ۔
وہ پاگل ہونے لگا تھا۔ اپنا غصہ آفس میں سب پہ نکالنے لگا۔
اب رہ کرسٹوفر کے ساتھ اٹلی میں تھا۔
اس کے ہوٹل کا انوگریشن تھا۔
اسے ہر چیز بری لگ رہی تھی۔
________
اگر اسے سمارا مل جاتی تو وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی جان لیتا۔
۔۔۔
کرسٹوفر میں یہ کلبنگ نہیں کرتا۔ تمہیں جانا ہے تو جاؤ۔
کم آن مین۔ آخر تم کیوں نہیں اپنا موڈ ٹھیک کرتے۔
تم چلو تمہیں اچھا لگے گا۔
مجھے ایسی جگہیں نہیں پسند۔
تم جاؤ گے تو پسند بھی آ جائے گی۔
آخر وہ اس کا منہ بند کرنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔
وہ وی آئی پی ایریا میں بیٹھا اپنی سوچوں میں گم تھا۔
کرسٹوفر کسی لڑکی کے ساتھ کب کا جا چکا تھا۔
میوزک اس پہ تھرکتے لوگ کچھ بھی اسے متوجہ نہ کر پایا۔
اسے پتا بھی نہ لگا کب ایک لڑکی اس کے ساتھ آ کر بیٹھی اور اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
وہ جو اپنے خیالوں میں گم تھا جب اس کی طرف دیکھا تو اسے بس کالے بال اور نیلی آنکھیں دکھیں۔
اس کے لبوں سے بے اختیار سمارا نکلا۔
نہیں میں تو آنا ہوں ویسے تم جیسے ہینڈسم کے لیے میں سمارا بننے کے لیے تیار ہوں۔
لڑکی نے ذومعنی طریقے سے کہا۔
وہ ایک دم سمارا کے حصار سے باہر نکلا۔
اس لڑکی کے بال کالے اور آنکھیں نیلی ضرور تھیں لیکن وہ اس کی سمارا نہیں تھی۔
ناگواری سے عون نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
لیکن وہ لڑکی تو جیسے کوئی فیصلہ کر کے بیٹھی تھی۔
تم اکیلے ہو اور میں بھی اکیلی ہوں۔ ہمیں اس اکیلے پن کو ختم کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہئیے۔
عون کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر بھی وہ بولی جا رہی تھی۔
آخر عون نے اس کے سراپے پہ ایک نظر دوڑائی۔ کسرتی اور چھوٹے لباس میں وہ بےشک ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
صاف پتا چل رہا تھا وہ نشے میں ہے۔
عون کچھ سوچ کر استہزائیہ مسکرایا۔
تم ٹھیک کہتی ہو میں باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
یہ کہ کر عون وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
کچھ دیر بعد وہ لڑکی بھی اس کی گاڑی میں تھی اور وہ ایک سنسان سڑک پہ تھے۔
ہم یہاں کیا کر رہے ہیں۔
ابھی پتا لگ جائے گا۔
۔۔۔
عون کل رات تم کہاں غائب ہو گئے تھے۔
وہ اب واپسی کے لئے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
میں تھک گیا تھا واپس روم میں چلا گیا۔
دوسری طرف ہر جگہ نیوز پہ ایک لڑکی کے بےدردی سے قتل کی خبر آ رہی تھی۔
_______
وہ تیار تھا اس نے اپناایک چھوٹا سا بیگ تیار کر لیا تھا۔
اسے اس کے باپ کا دوست ملا تھا۔ ڈیےگو نے کہا تھا وہ اسے یہاں سے لے جائے گا۔
اسے بے صبری سے کل کا انتظار تھا۔
اس کی ماں اسے شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔
لیکن آج اس کی ہر پریشانی کا آخری دن تھا۔
اسے کھانا کھاتے ہی نیند آنے لگی تھی۔ تو وہ اپنے کمرے میں جا کر سو گیا۔
جب اسے جاگ آئی تو وہ ایک اندھیری جگہ پہ تھا۔
یہ اس کا کمرہ تو نہیں تھا۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی تو خود کو کرسی پہ بندھا ہوا پایا۔
میں کہاں ہو نکالو مجھے یہاں سے۔
وہ خود کو آزاد کرنے کے لئے جھٹپٹانے لگا۔
کسی کے قدموں کی آواز سے اس نے اپنی کوشش بند کر دی۔
کون ہے وہاں ؟
موم میں یہاں بندھا ہوا کیوں ہوں مجھے جانے دیں
تم نے مجھے دھوکا دیا ہے عون تم مجھ سے دور نہیں جا سکتے۔
اس کی ماں نے عون کا بیگ زمین پر پھینکتے ہوئے کہا۔
موم ایسا نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہیں ہیں۔
پندرہ سالہ عون نے ہمت سے کہا۔
تم فریحہ کو دھوکا دے کر نہیں بچ سکتے نہ تمہارا باپ بچا نہ تم بچو گے۔
فریحہ نے دوسرے ہاتھ میں پکڑا پلائر (plier)
اس کے چہرے کے سامنے کیا۔
اس نے وہ تب سے پہلی بار دیکھا۔
عون پہ خوف طاری ہونے لگا۔
موم پلیز نہیں کریں پلیز۔ وہ رونے لگا۔
فریحہ اس کے سامنے بیٹھ کر پلائر سے اس کے انگوٹھے کا ناخن کھینچنے لگی۔
موووووم موم پلیز درد کی شدت سے وہ کپکپا رہا تھا۔
اس کا وجود پسینے سے بھرگیا تھا۔
فریحہ نے اس کا ناخن اکھیڑ ڈالا ۔
اور پھر اس کی انگلی کی طرف بڑھنے لگی۔
اس کا پاؤں خون سے بھر گیا تھا۔
بنا کسی ترس کے اس نے دوسرا ناخن بھی اکھیڑ دیا۔
عون تکلیف نہ سہہ پایا اور بےہوش ہو گیا۔
یہ عالم وحشت کئی گھنٹوں چلتا رہا۔ پر عون کے لئے جیسے ساری زندگی ہو۔
ہر بار جب اس کی ماں نیا ناخن اکھیڑتی تو وہ اس کے ساتھ اس کے خواب اور انسانیت بھی کھینچ لیتی۔
خود کو مکمل طور پہ پاگل پن سے بچانے کے لیے وہ گنتی گننا شروع کر دیتا۔
وہ کئی بار بےہوش ہوتا پر جب بھی ہوش میں آتا اس ماں وہاں تیار کھڑی ہوتی۔
وہ تکلیف کسی بھی انسان کو جانور بنا دیتی اور عون تو ایک بچہ تھا۔
وہ بار بار اپنی ماں سے موت کی بھیک مانگتا پر اس پہ کوئی رحم نہیں کیا گیا۔
اس کا چہرہ پسینے اور آنسو سے تر تھا۔
منہ سے تھوک بہہ رہی تھی۔
پاؤں خون سے بھرے تھے۔
________
وہ تڑپ رہا تھا اور اس کی ماں آرام سے سو رہی تھی۔
اسےدیکھ کر کوئی بھی اسے مرا ہوا خیال کرتا۔
اس تاریکی میں اس نے کتنی بار موت کی دعا مانگی تھی۔
سینور سینور۔۔۔
کوئی اسے پکار رہا تھا لیکن ہو موت کی وادی میں بھٹک رہا تھا اسے واپس جانے کی کوئی چاہ نہیں تھی۔
ڈیےگو نے اس کے ٹھنڈے پڑتے وجود کو آزاد کرایا اور کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
لیکن جب وہ ناکام رہا تو اس کے بےجان وجود کو اپنے کندھے پر ڈالا اور وہاں سے نکل پڑا۔
اس کے ہر قدم پر عون کا بہتا خون اس کی تکالیف کا ثبوت تھا۔
اسے کتنے ہی سال لگے تھے خود کو دوسروں جیسا بنانے میں۔
کتنے ہی سال کہ وہ رات کو چلا کر اٹھتے ہوئے دوسروں کی نیند خراب نہ کر دے۔
۔۔۔
جاب پہ سب اس کے ساتھ بہت اچھے تھے۔
تقریبا ہر وقت ہی وہاں طالبعلم رہتے تھے۔
ان کو دیکھ کراسے بھی دوبارہ پڑھائی کا شوق پیدا ہونے لگا۔
تو اس نے ایک سیلون میں ریسیپشنسٹ کی جاب بھی کر لی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کر سکے اور پھر اپنی پڑھائی کا شوق پورا کر سکے۔
۔۔۔
وہ اس وقت جینٹ (janet) کے ساتھ آئس کریم کیفے میں تھی۔
مجھے تو چاکلیٹ فلیور پسند ہے تمہیں سمارا؟
(ہممم۔ Mon Amour
سٹرابری فلیور کا کوئی مقابلہ نہیں )
عون کی آواز ایک دم اس کے اندر گونجی تھی۔
کوئی بھی۔
وہ اس بات سے کبھی انکار نہیں کر سکتی تھی کہ وہ عون کو بہت یاد کرتی تھی۔
وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔
کیا تم نےکل کی نیوز دیکھی۔
نہیں کیوں ایسا کیا خاص ہے۔
سات مہینے کے درمیان یہ چوتھا مرڈر کیس ہے۔
سمارا آئس کریم کھاتے ہوئے ایک دم رک گئیں۔
مرڈر؟
ہاں وہ سب لڑکیاں تھیں۔ ابھی تک قاتل کی کوئی خبر نہیں۔
ہر لڑکی کالےبال اور نیلی آنکھوں والی تھی۔ میں تو کہتی ہوں تم بھی بچ کے رہو جب تک یہ کلر نہ پکڑا جائے۔
کیا کہ رہی ہو تم۔ ایسا کیوں کہا۔
ارے اس کی تو آج کل ہر جگہ چرچا ہے۔
وہ لڑکیاں بری طرح سے قتل کی گئیں۔
اوران سب کی گردن پہ ایک جیسا نشان تھا تم نیٹ پہ چیک کر لو۔
کیسا نشان۔
آنسو کا ۔ اسی لئے پولیس کو لگتا ہے کلر ایک ہی ہے۔
سمارا کا ہاتھ بے اختیار ہی اپنی گردن کی طرف بڑھا جو کہ کپڑوں سے ڈھک رکھی تھی۔
وہ وہاں سے اٹھی اور باہر بھاگی۔
ارے کہاں جا رہی ہو میں تو مزاق کر رہی تھی تم تو ڈر ہی گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...