نصیر حسین خاں خیال اچھے خطیب بھی تھے۔ اپنی پرکشش شخصیت، گفتگو کے انداز اور لباس کے انتخاب میں خاص اہتمام کی وجہ سے وہ مجلسوں کی رونق بھی ہوتے تھے۔ ان کے سلسلے میں دستیاب معلومات کے مطابق ان کے موضوعات، تقریر کا لب و لہجہ، پرکشش با رعب آواز اور خود ان کی شخصیت بھی سامعین کو مسحور کیے رکھتی تھی۔
خیال کا سب سے مشہور خطبہ 24 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ میں منعقد آل انڈیا اردو کانفرنس کے اجلاس کا ہے۔ اس اجلاس اور اس میں پیش کیے گئے خیال کے خطبہ کی مکمل کیفیت علامہ جمیل مظہری کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’1915ء کے دسمبر میں کانگریس و مسلم لیگ کے سالانہ جلسے بمبئی میں ایک ساتھ منعقد ہوئے۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جبکہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ اپنے ملکی و قومی مطالبات و خواہشات کا ایک مقام پر اس طرح اظہار کیا ہے۔ اس نادر موقع پر نظر کر کے ہندو مسلم سمجھوتے کی غرض سے وہاں چند مقتدر اصحاب کی ایک کمیٹی بنائی گئی کہ وہ ان دونوں قوموں کے درمیان ایک قطعی و دائمی فیصلہ کرا دے۔ اس کمیٹی کے ہمارے مخدوم و محترم ادیب الملک نواب خیال بھی ایک رکن تھے۔ مگر جناب ممدوح اس وقت بمبئی میں تشریف نہیں رکھتے تھے۔ اس کمیٹی اور اپنے انتخاب کی انھیں بعد کو خبر ہوئی۔
1916ء کے جون میں اس کمیٹی کی پہلی نشست کلکتہ میں قرار پائی۔ اجلاس کا ایجنڈہ نواب صاحب موصوف کو ملا تو انھیں حیرت ہوئی کہ اس کے پروگرام اور کام میں زبان کا مسئلہ شامل نہیں ہے۔ انھوں نے فوراً کمیٹی کے سکریٹری سرندرو (سر سرندرو ناتھ بنرجی) بابو کو اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جب تک زبان کا تصفیہ نہ ہو جائے کہ اس ملک میں آئندہ کون سی ایسی زبان دائر و سائر ہو جو ان دونوں کے لئے قابلِ قبول ہو کر سرکاری طور پر بھی وہ رائج اور تسلیم کی جا سکے، ان کے درمیان کوئی حقیقی اور پائدار فیصلہ نہیں ہو سکتا!
سر سرندرو نے ہمارے ممدوح کی اس رائے کو غائر اور وقعت کی نظر سے دیکھا۔ مگر پروگرام اور کمیٹی کے ایجنڈا میں اس وقت کسی تبدیلی کو وہ اپنے اختیار سے باہر سمجھے کیونکہ اس کی ترتیب بہت قبل بمبئی میں کانگریس و مسلم لیگ کے مشورہ سے ہو چکی اور اب اس میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش نہ تھی۔ اس مسئلہ (زبان) کے متعلق سرندرو بابو اور نواب صاحب سے مراسلات جاری رہے۔ اور جبکہ یہ واضح ہو گیا کہ زبان کا مسئلہ اس کمیٹی کے پروگرام میں داخل نہیں کیا جا سکتا تو ممدوح اس کمیٹی سے مستعفی ہو گئے۔
یہ مراسلات (درمیان سر سرندرو اور نواب صاحب) بنگالی اخبار اور ملک کے دیگر جریدوں میں اسی وقت شائع ہو گئے۔ اور جب سے زبان کے مسئلہ پر غور و فکر ہونے لگی۔ اسی سال (1916) کے اگست میں ایک آل انڈیا اردو کانفرنس کے قیام کی تجویز ہوئی اور ملک کے ہندو مسلم اکابرین نے اس کانفرنس کا پہلا اجلاس لکھنؤ میں منعقد کرنا اس خیال سے قرار دیا کہ وہاں اس سال بھی کانگریس اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ایک ساتھ انعقاد پانے والے تھے۔
اس تجویز کی تکمیل کے بعد ملک نے ہمارے ممدوح نواب صاحب پر فرمائش کی کہ وہ اس اہم و تاریخی جلسہ کی صدارت فرمائیں۔ یہ گزارش قبول ہوئی۔ ’آل انڈیا اردو کانفرنس‘ کا یہ پہلا جلسہ 24 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ کے قیصر باغ کی مشہور و معروف بارہ دری میں منعقد ہوا۔ تقریباً آٹھ ہزار کا مجمع تھا۔ ہندو اکابر بارہ دری کی شہ نشین پر جلوہ گر تھے۔ گاندھی جی، سرندرو ناتھ، موتی لال نہرو، مسٹر تلک اور پنڈت مدن موہن مالوی جی کے سے ممتاز حضرات کے ساتھ مسلمانوں کے رہبروں میں مرحوم مہاراجا محمود آباد، مسٹر محمد علی جناح اور سر جسٹس وزیر حسن کے سے مشخص اصحاب بھی نمایاں نظر آتے تھے۔‘ (مغل اور اردو، 10-11)
دو روزہ اجلاس میں کئی برگزیدہ شخصیات نے خطبات پیش کیے تھے لیکن ان سب میں خیال کی تقریر ہی عرصہ تک موضوع گفتگو بنی رہی اور اس کے حصے جا بجا شائع ہوتے رہے۔
کلکتے میں بنگال کی تعلیمی ایسو سی ایشن کی جانب سے مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال، کلکتہ میں منعقد آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس بتاریخ ۷ستمبر 1917ء میں بھی انھوں نے صدارتی خطبہ پیش کیا تھا۔ اس اجلاس کا انعقاد سر سید احمد خاں کے تعلیمی مشن کے فروغ کے لئے کیا گیا تھا۔ اس خطبے میں خیال نے انگریزی تعلیم کے نقائص کے معاشرتی پہلوؤں کو پیش کرتے ہوئے ایسی تعلیم کی حمایت کی تھی جو ترقی پسندی کے ساتھ ہی دینی حمیت کے قائم رکھنے میں بھی معاون ہو۔ انھوں نے اس کمیٹی کے قیام کی خبروں کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی عرض کیا کہ اس میں مسلمانان کلکتہ کی نمائندگی (کم از کم دو وکلا)ہونی چاہیے۔ اس کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تعلیم کی غرض و غایت اور مسلمانوں کی حکمت عملیاں کیسی ہونی چاہییں۔ اس کی زبان پر وقار بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’آپ حضرات میں سے اکثر صاحبوں نے فرانس کے مشہور فلسفی اور علوم مشرقیہ کے ایک زبردست عالم موسیو لیبان کا نام سنا ہو گا۔ جس زمانہ میں وہ اپنی نادر کتاب ’تمدن اسلام‘ لکھ رہے تھے کسی طالب علم تاریخ ترقی و تنزلِ اقوام نے استعجاباً ان سے سوال کیا کہ عرب جو اسمعیلؑ کے بعد کبھی متمدن میں دکھائی دیے، اور آپس کے افتراق و نفاق میں مشہور رہے، اور جو صدیوں سے وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے اور سیکڑوں برس تک عالم میں حقیر و ذلیل سمجھے گئے وہ دفعتاً، یعنی صرف پچیس سال میں اس درجہ با وقعت و متمدن کیوں کر ہو گئے کہ دنیا پر قابو کر کے سب کے استاد بن بیٹھے اور آج ہم حیرت سے ان کے کارنامے پڑھتے ہیں۔ اور اب پھر بھی وہی عرب ہیں اور انہیں اگلوں کی یہ یادگاریں اور نسلیں ہیں، لیکن زمانہ کے چکر اور گردش کے بعد پھر وہ اپنے اصلی رنگ میں آ گئے اور تیرہ سو برس قبل جیسے وہ تھے آج بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگے۔ اس فلسفی نے گردن اٹھا کر کہا، ہاں۔ طالب علم نے عرض کیا، اس کی وجہ؟ جواب ملا، تعلیم اور صحیح تعلیم، اور غلط تعلیم اور جہالت۔ ہماری اتنی لمبی چوڑی کہانی واقعی ان ہی دو بولوں پر ختم ہے۔ صحیح، یعنی قانون فطرت کے مطابق جب تک ہماری تعلیم ہوتی رہی ہم کامیاب رہے اور جب سے غلط، یعنی قانون فطرت کے خلاف ہم کو سبق دیا گیا، جاہل بنے اور ناکامیاب رہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اور صحیح و غلط تعلیم کے سمجھنے اور اس کے متعلق آپ کے فیصلہ کا وقت اب جلد آنے والا ہے۔‘ (خیال 1917، 3-4)
خیال نے اسی سال کلکتہ یونیورسٹی کی سڈلر کمیٹی کے سامنے اپنا بیان دیا تھا۔ کلکتہ میں ہی جشن فردوسی کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں خیال نے بھی تقریر کی تھی۔ یہی تقریر مضامین کی شکل میں رسالہ ’خیابان‘ میں شائع ہوئی، اور خیال کی رحلت کے بعد ’داستان عجم‘ یا تبصرہ بر شاہنامہ کے نام سے کتابی صورت میں منظر عام پر آئی۔ انجم مانپوری کو لکھے خیال کے ایک خط سے واقفیت ہوتی ہے کہ جشن فردوسی کا یہ جلسہ نومبر 1933ء میں کلکتہ میوزیم میں منعقد ہوا تھا۔ خیال انجم مانپوری کو لکھتے ہیں کہ’ گذشتہ نومبر میں شاہنامۂ فردوسی پر ہمارا تبصرہ کلکتہ کے میوزیم میں پڑھا گیا تھا۔ ’ہند جدید‘ نے شاہنامہ کا ہفتہ منایا اور اس مضمون کو ۸ دنوں تک مسلسل شائع کیا۔ ‘بہزاد فاطمی نے سید شہاب الدین دسنوی کے حوالے سے اس خطبہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
کلکتہ میں مرزا غالب اور قتیل کے معرکے کا قصہ آپ نے سنا ہو گا۔ ایک دوسرے معرکے کا حال مجھ سے سنیے۔ عظیم آباد کے ایک ادب شہیر، نواب نصیر حسین خیال نے فردوسی پر ایک عالمانہ مقالہ تیار کیا۔ لیکن اس کے پڑھنے کی شرط یہ رکھی کہ اس نشست کی صدارت یا تو کلکتہ میں پارسیوں کے دستور (غالباً جیون جی مودی) کریں یا پھر مشہور ڈراما نویس آغا حشر کاشمیری۔ نشست اعلان کے مطابق ہوئی۔ ہال کا نام یاد نہیں۔ لیکن شاید نیو مارکیٹ کے پاس کوئی جگہ تھی۔ آغا صاحب صدر ہوئے۔ سامعین کی تعداد سو ڈیڑھ سو ہو گی۔ نواب صاحب اپنے پورے بانکپن کے ساتھ کمخواب کی شیروانی اور اسی کپڑے کی اونچی دیوار کی ٹوپی پہنے مقفی و مسجع نثر میں فردوسی کی شاعری پر دو دن شام کے وقت تبصرہ فرماتے رہے۔ مقالہ ختم ہوا تو صدارتی تقریر کی باری آئی۔ آغا صاحب آدھ گھنٹے تک بولتے رہے۔ فردوسی کے بیسیوں اشعار زبانی سنا کر اور گاہے گاہے اسٹیج کی اداکاری سے بھی کام لیتے ہوئے انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ چاہے فردوسی کتنا ہی بلند پایہ شاعر رہا ہو، وہ پہلا شخص تھا جس نے مسلمانوں کے دو فرقوں کے درمیان اپنی شاعری سے منافرت پھیلائی۔ مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ نواب نصیر حسین خیال مسکراتے رہے اور اپنی نوکیلی مونچھوں سے شغل فرماتے رہے۔‘ (یہ فسانہ زلف دراز کا، 36)
بہزاد فاطمی نے مقام کا نام نہیں لکھا ہے۔ خیال نے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ یہ اجلاس انڈین میوزیم میں منعقد کیا گیا تھا۔ سید شہاب الدین دسنوی کی خود نوشت ’دیدہ و شنیدہ‘ میں یہ واقعہ یوں پیش کیا گیا ہے۔
’میرے دل میں اس جلسے کی یاد بھی محفوظ ہے جس میں ’داستان اردو‘ والے نواب نصیر حسین خیال نے فردوسی پر اپنا بلیغ مقالہ پڑھا تھا۔ ان کی خواہش کے مطابق جلسے کی صدارت آغا حشر کاشمیری نے کی۔ نواب صاحب اپنے پورے بانکپن کے ساتھ جلسے میں تشریف لائے۔ جامہ وار کی شیروانی، اسی کپڑے کی اونچی در والی کشتی نما ٹوپی، سلیم شاہی جوتے۔ مسجع اور مقفی عبارت کا مقالہ دو نشستوں میں سامعین بڑے شوق سے سنتے رہے۔ جب تک آغا حشر تقریر کرتے رہے لوگ حیرت سے سنا کیے۔ نواب نصیر حسین بیٹھے مسکراتے ہوئے اپنی نوکیلی مونچھوں کو بل دیتے رہے۔‘ (1993، 28)
جشن فردوسی کے انعقاد میں کلکتہ میں موجود خیال کے احباب کے ساتھ ہی علامہ جمیل مظہری کا بھی اہم کردار تھا۔ اس سلسلے میں علامہ کی پیش کردہ تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:
’نواب خیال نے ایک مقالہ فردوسی کی ڈرامائی رزمیہ نگاری پر لکھا اور تجویز ہوئی کہ ایک بڑے جلسہ میں وہ اسے پڑھ کر سنائیں۔ چنانچہ جلسہ ہوا۔ بڑی دھوم دھام سے ہوا۔ نواب صاحب نے اپنے رسوخ سے کلکتہ میوزیم کا ایک بڑا ہال ایک شام کے لئے مخصوص کرا لیا۔ صدارت کے لئے نواب صاحب نے آغا صاحب کو موزوں ترین سمجھا۔ حالانکہ میں نے دبی زبان سے اس کی مخالفت کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ آغا صاحب فردوسی کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے بدترین دشمن ہیں۔ وہ مجھ سے بار بار یہ کہہ چکے تھے کہ فردوسی شاعر نہیں، بھانڈ تھا۔ جو لوگ انیس کو فردوسیِ ہند کہتے ہیں وہ انیس کی توہین کرتے ہیں۔ بہر حال، خیال صاحب کے پیہم اصرار سے مجبور ہو کر مجھے آغا صاحب کو صدارت کے لئے راضی کرنا پڑا۔ کاش مصنف آب حیات کا مصور قلم ہوتا تو میں اس جلسے کی بولتی ہوئی روداد بیان کرتا۔ مختصر یہ ہے کہ جلسے میں نواب صاحب نے اپنا مقالہ پڑھا۔ سامعین نے ان کی تعریف میں بار بار تالیاں بجائیں اور آغا صاحب کرسیِ صدارت پہ بیٹھے پیچ و تاب کھاتے رہے۔ صدارتی تقریر کے لئے اٹھے تو طوفان کی طرح اٹھے۔ آندھی کی طرح چنگھاڑے اور بادل کی طرح گرجتے اور برستے گئے۔ خطابت کے ساتھ ایکٹنگ کے کرشمے بھی دکھائے۔ فردوسی کو جی کھول کر کوسا۔ محمود غزنوی کی شرافت اور فردوسی کی رذالت کی نئی کہانی سنائی۔ پارسیوں کی دھجیاں اڑائیں، حالانکہ پارسی عمائدین صف اول میں بیٹھے تھے۔ اور سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ نواب صاحب کے مقالے کا ادبی حیثیت سے تعارف بھی نہ کیا جو بحیثیت صدر ان کا فرض منصبی تھا۔ ان کا غضبناک چہرہ اور نواب صاحب کی متحمل منفعل صورت دو صورتیں تھیں جن کی عکاسی کی قدرت نہ میری زبان میں ہے، نہ میرے قلم میں۔ بہرحال جلسہ بڑی ناگواری کے ساتھ ختم ہوا۔ نواب زادہ عبد العلی اور مولانا وحشت جو بانیان جلسہ میں تھے، منہ لٹکائے ہوئے میوزیم ہال سے باہر نکلے۔ آغا حشر رزاق ملیح آبادی کے کاندھے پر ہاتھ دھرے کچھ مسکراتے اور کچھ شرماتے ہوئے چلے جا رہے تھے، اور میں ان بزرگوں کے پیچھے ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح خراماں خراماں چل رہا تھا۔‘ (منثورات جمیل مظہری 1991، 391)
جشن فردوسی کے تیسرے دن کلکتہ کے روزنامہ ’ہند‘ میں خیال کا ایک مراسلہ شائع ہوا جس میں شرکائے جلسہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آغا حشر کاشمیری کے خطاب کو تماشا کہا گیا تھا۔ کلکتہ کے ادبی اور سیاسی طور پہ سرگرم ماحول میں خیال نے ایک مدبر کی حیثیت سے بہت ہی جلد اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ منظر علی اشہر فرماتے ہیں کہ بنگال میں مسلمانوں کے درمیان تعلیمی تحریک کو بالیدگی عطا کرنے میں خیال کا اہم کردار رہا ہے۔ اس معاملے میں نواب بہادر ڈھاکہ اور نواب بہادر سید نواب علی چودھری ان کے شرکائے کار تھے۔ کلکتے کی متذکرہ کانفرنس میں خیال کا خطبہ بنگال میں مسائل تعلیم پر وقت کی اہم ترین ضرورت تھی۔ (منظر الکرام 1345ھ، 117)
بدر الدین احمد اطلاع دیتے ہیں (احمد 2003) کہ جب نصیر حسین خیال انگلستان گئے اور ان کے آنے کی خبر کیمبرج یونیورسٹی کے اراکین کو ملی، کچھ ارکان مجلس وفد لے کر ان کے پاس آئے اور کیمبرج یونیورسٹی کی مجلس میں تقریر کرنے کی ان سے استدعا کی۔ نصیر حسین خیال نے وہاں بھی جو خطبہ دیا وہ اردو زبان سے ہی تعلق رکھتا ہے اور تاریخی حیثیت کا حامل بھی ہے۔ خطبہ وہاں کے پرچہ ’نوائے کیمبرج‘ میں بڑی آب و تاب سے چھپا اور اردو نواز حلقوں میں ہر جگہ مقبول ہو۱۔ اس کا عنوان ’کیمبرج میں دوست‘ ہے۔ اس واقعہ کا تذکرہ کم و بیش سبھی حضرات نے کیا ہے۔ قاضی عبد الودود نے اس پرچہ اور خیال کی تقریر کی تفصیلیں قلمبند کی ہیں۔
خیال نے حمید عظیم آبادی کو لکھنؤ سے لکھے ایک خط میں یہ اطلاع دی تھی کہ 28 جون 1931ء کو فرنگی محل میں مولانا عبد الباری کے دولت خانہ پر اردو شعر و شاعری کے موضوع پہ وہ اپنا خطبہ پیش کریں گے۔
’فرنگی محل کے علاوہ یہاں کے اکابرین شعرا بھی موجود ہوں گے، اور سمجھتا ہوں کہ ایسا مجمع کسی اور موقع پر بمشکل دکھائی دے گا۔ کیا کہوں، دل آپ کو بہت ڈھونڈتا ہے۔ اس جلسہ میں آپ ہوتے تو دیکھتے کہ میں کیا کہتا، اور لکھنؤ میں اپنی زبان بولتا ہوں یا اس شہر کی۔ اور یہاں سے استفادہ حاصل کرتا ہوں کہ یہاں والوں کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔ خدا کوئی ایسی صورت نکال دیتا کہ آپ اور چندو میاں اس وقت یہاں آ جاتے کہ جلسے میں تنہا دکھائی نہ دیتا۔‘ (مقالات و مکتوبات نصیر حسین خیال، 263)
مجتبیٰ حسین کے نام ایک خط میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ خیال نے اس خطبہ کا اصل متن مضمون کی صورت میں انھیں ارسال کیا تھا اور یہ تاکید بھی کی تھی کہ وہ اصل مسودہ ہے، نقل نہیں، اس لئے اسے حفاظت سے رکھیں۔ ظاہر ہے کہ اسے خیال نے کہیں اشاعت کی غرض سے نہیں بھیجا۔
کلکتہ میں احباب کی محفلوں میں بھی خیال اپنی برجستہ بیانی کے کے لئے مشہور تھے۔ گفتگو کے دوران عموماً میر انیس کے مرثیوں سے ہی اشعار پیش کیا کرتے تھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...