شہزاد احمد(لاہور)
حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کے سالانہ اجلاس ۲۰۰۷ء میں دیا گیا
خواتین و حضرات!
میں آپ کا ،حلقہء اربابِ ذوق اسلام آباد کا بے حد ممنون ہوں۔آپ نے ذرہ نوازی کی۔ حلقے نے دعوت دے کر اور آپ نے تشریف لا کر۔آج میرا ارادہ حلقہ سے اپنا تعلق بیان کرنے کا نہیں، حالانکہ میں اس کا سیکریٹری جنرل بھی رہ چکا ہوں ، لاہور شاخ کا سیکریڑی بھی ۔راولپنڈی حلقے سے بھی میرا تعلق خاص رہا ہے۔
آج میں آپ کے سامنے کچھ سوال پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ یہ سوال مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں، شاید آپ بھی اسی طرح محسوس کرتے ہوں۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ ادب کو تخصیص کار نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا کا ہر سوال ادب کا سوال ہے کیونکہ ادب کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی اور ادب نے علوم کے تمام مسائل کو اپنا دائرہ کار بنایاہے۔شاعری کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بری طرح ماضی پرستی کا شکار ہے۔ عہد کوئی بھی ہو سمجھا یہ جاتا ہے کہ گزرا ہوا زمانہ بہت بہتر تھا اور وہ عہد جس میں ہم زندہ ہیں، تاریخ کا بد ترین زمانہ ہے۔ یہ تاثرات تو شیکپیئر کے ہاں بھی ملتے ہیں اور اس زمانے کے شاعروں میں بھی جس کو عہد زریں کے نام سے ہم یاد کرتے ہیں۔
شاعری، خواب اور جوک (Joke)کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے ۔ میں نے جان بوجھ کر جوک کا انگریزی لفظ استعمال کیا ہے کیوں کہ جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ مزاح اور لطیفے دونوں کے زمرے میں نہیں آتا۔ مثال کے طور پر غالبؔ کے ہاں ایسے بظاہر نیم سنجیدہ اشعار بار بار نظر آتے ہیں جو اصل میں کسی دکھ یا تکلیف کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں سن کر زیادہ سے زیادہ آپ مسکرا سکتے ہیں ، ہنس نہیں سکتے۔ ہنسنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ توانائی کو اچانک releaseکر دیا جائے چنانچہ مزاحیہ شاعری کم کم ہی شاعری ہوتی ہے۔ وہ انسان کی توانائی کو اچانک خارج کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اور ہم سب لوگ اپنے اند ر اس قدر گھٹن کا شکار ہوتے ہیں کہ ہم اس توانائی کو خارج کرنے کے وسیلے تلاش کر تے رہتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ قہقہہ تخلیق کرنے کا سبب بن سکتے ہیں ان کی مقبولیت میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔کہتے ہیں کہ ہمیں کسی عورت کے گال کا ایک تل پسند آ جائے تو ہم پوری عورت سے شادی کر لیتے ہیں۔
شاعری اور خواب کے تارو پود ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، کچھ سمجھ میں آنے والے اور کچھ سمجھ میں نہ آنے والے۔مگر شاعری کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس کے معانی اس کے لفظوں سے زیادہ نہیں ہوتے، اگر بین السطور دیکھنے کی کوشش کی جائے توایک خلاکے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔فوری طور پر سمجھ میں آنے والی شاعری زیادہ تر اسی زمرے میں آتی ہے، اس طرح کی شاعری کو آگے بڑھانے میں فی زمانہ مشاعروں نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔شاید اسی وجہ سے بار بار یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ شاعری سے ہم کیا توقعات رکھتے ہیں؟
اپنے اس موقف کو واضح کرنے کے لئے میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں، کیونکہ دنیا کی بہت سی حکمت مثالوں ہی کے ذریعے دوسروں تک پہنچائی گئی ہے۔ سائنس کے بارے میں صدیوں تک یہ تاثر قائم رہا کہ سائنسی اصول اصل میں بے حد سادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ نیوٹن نے اس نظریے پر مہر اثبات ثبت کر دی ۔اس کے مداحوں نے کہا’’نیوٹن ظاہر ہوا اور روشنی ہو گئی۔‘‘ اگرچہ نیوٹن کی دی ہوئی روشنی ہمارے لئے اب بھی بہت کارآمد ہے مگر یہ اس شاعری کی طرح ہے جس کے بین السطور معانی مفقود ہوتے ہیں۔ اگر اصول بے حد سادہ ہو تو اسے زندگی میں صرف ایک بار دریافت کرنا کافی ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے مزید معانی تو دریافت نہیں کئے جا سکتے مگر اس کا اطلاق زندگی کے کئی شعبوں پر کیا جا سکتا ہے۔بہت سے پرندے توغلیل سے بھی شکار کئے جاسکتے ہیں، کچھ کیلئے تیر کمان کافی ہوتے ہیں اور کچھ پرندے بندوق کے نشانے پر بھی نہیں آتے۔
بیسویں صدی کے آغاز ہی میں سائنس اس قدر پیچیدہ ہو گئی تھی کہ اسے صحیح معنوں میں جاننے والے ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ اس کے بعد یہ بھی کھلا کہ یہ جاننے والے بھی آدھی سچائی سے آشنا تھے کیونکہ بقول ہائزن برگ سچائی جانی ہی نہیں جاسکتی:
تو نے جانا مجھے تو کیا جانا تجھ سے اچھا نہ جاننے والا
اب بقول ڈاکٹر عبدالسلام سائنس اس قدر پیچیدہ ہو چکی ہے کہ بغیر ریاضی پر دسترس حاصل کئے سائنس میں کارہائے نمایاں انجام نہیں دیے جا سکتے۔ امریکی ایٹم بم بنانے والا جرمن سائنس دان Oppen Hiemer جب بلیک ہول دریافت کرتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ کوئی خاص دریافت نہیں، کوئی بھی پوسٹ ڈاکٹریٹ کا طالبعلم یہ خدمت سر انجام دے سکتا تھا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آئن سٹائن کی طرح E=MC2جیسا کوئی فارمولا دریافت کیا جائے۔ یہ فارمولا بنانے والے سائنس دان آئن سٹائن کا یہ حال تھا کہ وہ کہتا تھا کہ بلیک ہول کا وجود ہی نہیں، جب اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تصور اس کے نظریات سے ابھرتا ہے تو اس نے بڑی مایوسی کے عالم میں کہا ’’ ہاں یہ ہو سکتا ہے‘‘ مگر اس نے بلیک ہول کے طبعی وجود کو کبھی تسلیم نہ کیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد کوئی سیدھی سادھی اور سامنے کی چیز نہیں رہ گئی۔ جو کچھ ہمارے تجربے میں آتا ہے وہ واہموں کا ایک سلسلہ ہے۔ اگر ایٹم ہر وقت حرکت میں رہتے ہیں تو ٹھوس پن پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہم جن چیزوں کو ٹھوس خیال کرتے ہیں ، وہ اصل میں توانائی کی ایک ٹھہری ہوئی صورت ہیں یا کم از کم ہمیں ٹھہری ہوئی نظر آتی ہیں۔اقبال نے اس استدلال کو اپنے خطبات میں فلسفے اور مذہب کے بعض معتقدات کو سچ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا۔
اقبال کے زمانے تک جو سائنس ہم تک پہنچی، وہ نادرست تو نہیں کہی جا سکتی، مگر اسے غیر متعلق ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ اقبال نے ایڈنگٹن کے حوالے سے ہائزن برگ کے نظریے کو لا تعین(Indeterminacy)کہا مگر یہ خبر ابھی تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ لا تعین (Uncertainty)بھی ہے۔ جو کچھ اقبال نے سائنس سے سیکھا اس کی ایک جھلک مسجد قرطبہ میں موجود ہے، مگر آئن سٹائن کی طرح اقبال بھی ان مضمرات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے، جو ان کے بنیادی فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، لہٰذا وہ بھی آئن سٹائن کی طرح ان تصورات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے، جو خود اس فلسفے کو مزید گہری بنیاد فراہم کر سکتے تھے۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لئے خاصی طویل گفتگو کی ضرورت ہے مگر میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا، صرف اس قدر عرض کروں گا کہ آئن سٹائن کو سمجھنا اس لئے مشکل نہیں ہے کہ اس کے اندر کوئی ایسا بھید ہے، جو انتہائی الجھا ہوا، ریاضی کی سطح پر بقول کارل سیگان(Carl Sagan)ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ آئن سٹائن کو سمجھنے کے لئے جتنی ریاضی کی ضرورت ہے وہ میٹرک کے ہر طالب علم کو آتی ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ وہ جن تصورات کا ذکر کرتا ہے وہ ہماری عام زندگی میں ہم پر کبھی نہیں گزرتے۔یہی مسئلہ کوانٹم طبیعات کا بھی ہے کہ وہ جہانِ کبیر (Macrocosm) اور جہان صغیر (Microcosm) کے جن پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے ، اس کا بھی کوئی واسطہ ہماری عملی زندگی سے نہیں ہے۔
لہٰذا سائنس دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہ جسے ہم عام زندگی سے مطابقت رکھنے کے باعث قبول کرتے ہیں اور دوسری وہ جو ہمارے روز مرہ کے تجربات سے مختلف ہونے کے باعث ہمارے لئے بالکل اجنبی ہو گئی ہے ۔موجودہ زمانے میں ،جو Spaceکا زمانہ ہے، کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا امکان پیدا ہوا ہے کہ ہم مکان یعنیSpaceکے اندر دور تک داخل ہو سکیں، اس معاملے میں ادب اور شاعری پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں نے کچھ نظمیں Space کے حوالے سے لکھی تھیں، کتاب کا نام ’’اترے مری خاک پر ستارہ‘‘ تھا۔ اس کے آخر میں ، میں نے ایک حکایت بیان کی تھی، اب اسے دہرا دیتا ہوں:
’’جب خلاء باز ایک دور دراز کہکشاں کے کسی آباد سیارے پر پہنچے، تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں نوع انسانی(Homosapien) پہلے سے موجود ہے، چنانچہ انہوں نے ان سے سوال کیا کہ تم اس سیارے پر کس ذریعے سے پہنچے۔‘‘
جواب ملا :’’شاعری کے ذریعے ۔‘‘
اس بات کو شاید سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے علوم شاعری کے ذریعے دریافت ہوئے۔ اس کی وجہ بہت سادہ سی تھی۔ فلسفہ ، مذہب ، سائنس اور دوسرے علوم اپنی حدود رکھتے تھے، جن سے باہر نکلنا ان کے بس میں نہیں تھا مگر شاعر ی ایک ایسا ضدی بچہ ہے جو کسی حد کو قبول نہیں کرتا اور وہ ہمہ وقت ساتواں در کھولنے پر اصرار کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس نے کئی در وا کئے، پھر امکانی سطح پر ان کے فلسفے اور علوم بنائے گئے۔اگر شاعری نہ ہوتی تو علوم بھی آغاز نہیں ہو سکتے تھے۔
تخلیقی واردات کی حد تک سائنس اور شاعری میں کوئی فرق نہیں، شاعری اب فلسفے سے دور ہوتی جا رہی ہے مگر سائنس سے قربت بڑھ رہی ہے، یہ شاید شاعری کی خصلت میں ہے کہ وہ نامعلوم کو ہمہ وقت تلاش کرتی رہتی ہے۔ اب تو طبیعات کا بھی یہی حال ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس کے بعض بڑے بڑے تصورات تجربہ گاہوں میں ثابت نہیں کئے جاسکتے۔ ان میں بلیک ہول، Big Bangاور ارتقاء Evolutionسبھی کچھ شامل ہے، اس لئے یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ سائنس کی کوئی یقینی بنیاد موجود نہیں۔جدید سائنس کے اعلیٰ تر اور آفاقی شعبے اس طرح کی بنیاد رکھتے ہی نہیں کہ انہیں یقنی علم کہا جا سکے۔
انہی مسائل میں سے ایک مسئلہTimeیعنی زمان کا بھی ہے۔ میں اس جاودانی سوا ل کو اس لئے اٹھا رہا ہوں کہ Spaceسے تعلق پیدا کرنے کے بعد یہ پھر سے بے حد اہم سوال کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
پال ڈیویز(Paul Davies)کا خیال ہے، زمان کا تصور بھی اس قد ر پرانا ہے جس قدر خود انسانی فکر، مگر پرانے زمانے کے لوگ زمان یعنی Timeکے بارے میں کسی تشویش یا پریشانی کا شکار نہیں تھے، نہ ہی اس سلسلے میں انہیں کسی طرح کا کوئی الجھاؤ تھا۔ یونانی فلسفہ دوام (Eternity)ْؑ اور موجود وقت کے مباحث سے بھرا پڑا ہے ۔ تاہم دنیا بھر کے مذاہب میں زبان کا مسئلہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے اور صدیوں تک ان تصورات پر بحث ہوتی رہی ہے۔ سائنس کے اندر وقت ایک پیمائشی مقدار کے طور پر داخل ہوا اور ایسا کرنے والے گلیلیو (Galileo) اور نیوٹن تھے مگر اپنے طور پر ان کی اہمیت ہمارے ہی دور میں واضح ہوئی، سٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking)نے A Brief History of Timeلکھ کر کائنات کی پوری تاریخ ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش کی تھی۔ یہ کتاب فروختگی میں بھی اپنا خاص ریکارڈ رکھتی ہے۔ اگرچہ بہت کم لوگ اس کو سمجھتے ہیں مگر خریدتے سبھی ہیں، ہمارے ہاں تو یہ رواج بھی نہیں ہے۔
بیسویں صدی کا ایک عظیم واقعہ آئن سٹائن کا تصور زمان تھا، جس نے دنیا بھر کے تصورات زمان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اگرچہ اس تصور کے بارے میں بھی بہت سے شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر تا حال اس کی جگہ لینے والا کوئی تصور موجود نہیں ، خود آئن سٹائن بھی اس امر سے آگاہ تھا اور اس امر پر حیرت کا اظہار بھی کیا کرتا تھاکہ یہ خیال اس سے پہلے کسی کو کیوں نہیں سوجھا، کیونکہ اس کے نزدیک یہ سامنے کی بات تھی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ مکان یعنی Spaceکے تین ابعاد(Dimensions)ہیں ، یعنی لمبائی ،چوڑائی اور گہرائی یا موٹائی، آئن سٹائن نے ان میں ایک اور جہت یا بُعد کا اضافہ کردیا تھا اور بُعد خود زمان تھا ۔مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابعاد اصل میں ایک ہی اکائی ہیں ۔ آئن سٹائن کے بارے میں یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ وہ اشیاء میں وحدانیت (Monotheism)تلاش کرتا تھا ۔ ایٹم کے اندر جو قوتیں ہیں ان کے بارے میں اس کا یہی خیال ہے کہ یہ سبھی قوتیں اصل میں ایک ہی قوت کے مختلف مظاہر ہیں۔ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل انعام اسی حوالے سے ملا تھا۔خیریہ ایک الگ بحث ہے۔
فی الحال ہم آئن سٹائن کا نظریہ مکان و زماں پر بات کر رہے ہیں۔ عام طور پر ہم زمان و مکاں کی بات کرتے چلے آئے ہیں مگر نظریاتی طبیعات کو اس بات پر اصرار ہے کہ مکان کا لفظ پہلے آئے یعنی ہمیں مکان و زمان کہنا چاہیے۔رہا یہ سوال کہ مکان اور زمان ایک دوسرے سے کس طرح متعلق ہیں تو جدید طبیعات کہے گی کہ زمانِ مطلق(Absolute Time)جیسی کوئی شے موجود نہیں۔ کیونکہ زمان، مکان کے سا تھ متعلق ہے، لہٰذا اسے مکان ہی کے حوالے سے پہچانا جائے گا، اگر سیارہ بڑا ہو گا تو زمان سست رو ہو جائے گا اور اگر سیارہ چھوٹا ہو گا تو زمان تیز رو ہو جائے گا۔ انسان کے حوالے سے اسے سمجھنے کے لئے جو مثال دی جاتی ہے وہ بھی خاصی دلچسپ ہے، انسان کی لمبائی، چوڑائی اور موٹائی میں تو کوئی کلام نہیں مگر مذکورہ انسان جیسی زندگی گزار چکا ہے یا گزارنے والا ہے، وہ اس کی چوتھی جہت یا بُعد ہے۔
آئن سٹائن کو اپنا نظریہ متعارف کرائے ایک صدی گزر چکی ہے، مگر وہ ابھی تک کوئی عام فہم نظریہ نہیں ہے۔ ہمارے ادب اور شاعری میں اس کی مثالیں تو موجود ہیں مگر قاری ان تک مشکل ہی سے رسائی حاصل کرتا ہے۔یہاں یہ کہنا شاید ضروری ہو کہ برگساں کی طرح اقبال نے بھی آئن سٹائن کی ایک توجیہہ کو قبول نہیں کیا تھا مگر حیرت انگیز طور پر وہ ان کے مضمرات سے آگاہ تھے ۔ اقبال سے اب تک صورت حال بے حد تبدیل ہو چکی ہے اور زمانِ مطلق کے ماننے والے اب چند ایک ہی رہ گئے ہیں۔
اب چونکہ Spaceکے ساتھ ہمارا تعلق گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم مکان کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھیں اور شاعری کرتے وقت مستقبل کا حوالہ ہمیشہ ہمارے مدِنظر رہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ روایت سے انکار کیا جائے کیونکہ روایت کے بغیر شاعری ممکن ہی نہیں ہے لیکن روایت کی جدید تر توجیہہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ شاعر اپنے فردا کو بھی نگاہ میں رکھے۔ بالکل اسی طرح جیسے مذہبی لوگ عاقبت کی فکر کرتے رہتے ہیں اور ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ عاقبت کو سنوارنے کی سعی میں گزرتا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ہم تادیر کرۂ ارض پر قیام نہیں کر سکتے، صرف انسان کی مہم جوئی ہی اس کی وجہ نہیں ہے بلکہ کائنات کو جاننا اور اس کے ساتھ ہمہ وقت تعلق میں رہنا شاید روایت پسندی سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے والا ہے۔مگر اس رستے میں تاحال رکاوٹیں بھی بہت ہیں ، جن کو دور کئے بغیر Spaceکے ساتھ رشتہ بنایا ہی نہیں جا سکتا، کچھ رکاوٹیں تو علمی اور تکنیکی ہیں مثلاً یہ کہ کہکشاں کے اندر کشش موجود ہے مگر کہکشاؤں کے مابین گریز(Repulsion)موجود ہے، وہ ہمہ وقت ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ Space Shipانتہائی سست رفتار سے چل رہی ہے کیونکہ طے کرنے والا فاصلہ لامتناہی طور پر زیادہ ہے۔دوسری طرف یہ بھی ہے کہ روشنی کی رفتار پر سفر ممکن نہیں ہے، ایسی صورت میں سفر کرنے والی ہر شے توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
مگر انسانی ذہن،خدا اسے ہمیشہ زندہ اور تابندہ رکھے، ایسے متخیلہ کا حامل ہے جو کسی اصول کا پابند نہیں ہے لہٰذا اپنے لئے خود راستے بناتا ہے۔تاہم آئن سٹائن کے بعد سے وقت ،مکان کی چوتھی جہت بن کر رہ گیا ہے بلکہ اس نے تو یہ بھی ثابت کیا کہ روشنی کمیت (Mass) رکھتی ہے اور جب وہ کسی بڑے ستارے کے پاس سے گزرتی ہے تو اس کے تجاذب(Gravity) کی وجہ سے خم کھا جاتی ہے۔ لہذا جب ہم رات کو آسمان پر ستارے دیکھتے ہیں، وہ وہاں موجود نہیں ہوتے، جہاں وہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ روشنی کی رفتار تیس کلو میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ ہے تاہم کچھ کہکشائیں ایسی بھی ہیں جن کی روشنی ہم تک اڑھائی لاکھ ارب سالوں کے بعد پہنچتی ہے۔ اگر وہ کہکشائیں ختم بھی ہو چکی ہیں تو یہ ممکن ہے وہ ہمیں لاکھوں برس آسمان پر موجود نظر آتی رہیں۔ان کے فاصلے کا اندازہ ہم اس بات سے لگائیں کہ سورج کی روشنی ہم تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگاتی ہے اگر خدا نخواستہ سورج اچانک بجھ جائے تو آٹھ منٹ تک ہمیں معلوم نہیں ہو گا کہ وہ موجود نہیں لہذا سارا آسمان ایک واہمہ ہے اور شاعری واہموں کی دلدادہ۔
دوسری شے جو شاعری کو بے حد مرغوب ہے متناقضہ (Paradox)بناناہے۔ایسی شے جو بیک وقت ہو بھی اور نہیں بھی ہو ، وہ جمع بھی ہو منفی بھی، سیاہ بھی ہو اور سفید بھی۔ سائنس کی زبان میں ہم ایٹم کا مشاہدہ کسی تجربہ گاہ میں کر رہے ہوں تو اگر ہم اسے Particleکے طور پر دیکھنا چاہیں گے تو Particleلگے گا اور اگر موج Waveکی طرح دیکھنا پسند کریں گے تو وہ ہمیں موج ہی لگے گا:
یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
باتیں کرنے والی تو بہت ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مجھے آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا۔ یہ مشکل مجھے مشاعرے میں بھی پیش آتی ہے۔ غزل میں لکھتا تو اکثر طویل ہوں مگر مشاعرے میں چند شعروں پر اکتفا کرتا ہوں ۔ ایک تو میرے مضامین کئی بار قدرے اجنبی ہوتے ہیں اور دوسرے شاعری علم بیان کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنا ردِ عمل بیان کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔
فی الحال میں اپنے ہم عصر شاعرو ں سے جو ہر چند عمر میں مجھ سے چھوٹے بھی ہو سکتے ہیں ، یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی شاعری کو صرف معلوم تک محدود نہ رکھیں کچھ نہ کچھ سفر غیر معلوم کی طرف بھی کرنا چاہیے۔اسی سے انسان کی متخیلہ میں جلا آتی ہے، کہے ہوئے اشعار تھوڑے بہت ردِعمل کے ساتھ کہتے چلے جانا آخر کب تک؟ اس وقت دنیا میں نئے موضوعات اس قدر زیادہ ہیں کہ ذرا سی جستجو سے آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ حیران ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے مگر یہی حیرانی تو شاعری اور شاید یہی زندگی بھی ہے:
یہ حقیقت ہے کہ میں زندہ اسی کے دم سے ہوں سانس بھی لینے نہیں دیتی جو حیرانی مجھے
مجھے ماضی کی عظمت سے انکار نہیں مگر فی زمانہ ہمارے لئے منفی اور مثبت دونو ں سطحوں پرفردا کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ میں War of the Worldکی بات نہیں کر رہا اگرچہ وہ بھی ممکن ہے۔ اگرچہ کوئی ثبوت ابھی تک فراہم نہیں ہوا مگر ہمارا دل گواہی دیتا ہے کہ ہم اس عظیم اور ہر طرف سے ایک ہی طرح نظر آنے والی کائنات کی واحد زندگی نہیں ہیں۔ سائنس فکشن تو ایسی کئی آبادیاں ذہنی سطح پر تخلیق کر چکی ہے۔
مگر ہمیں سب سے زیادہ خطرہ خود انسان سے ہے اگر انسان کسی اور سیارے پر زندگی تلاش کرے اوروہاں آباد ہو جائے تو کیا وہ ہماری زمین کو نو آبادی بنانے کی کوشش تو نہیں کرے گا!زمین کے جو حصے بعد میں دریافت کئے گئے ہیں ان میں سے کئی حصوں کو تو انسان نے آبادی بنا رکھا ہے لیکن جمہوریت کے نعروں کے باوجود کوئی ہمیں بنیادی حق دینے کو تیار نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ Spaceکی فتوحات کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ترقی یافتہ اقوام وہاں اپنی آبادیاں قائم کر لیں گی اور ہمیں اپنی بقا کی جنگ نئے انداز سے لڑنی پڑے گی۔یہ مت سمجھئے گا کہ ایسا ہونا ابھی بہت دور کی بات ہے ۔ ممکن ہے اس میں چند صدیاں لگ جائیں مگر یہ واقعہ جلد بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔جو کچھ بھی ہو اب انسان کی سرگرمیاں مختلف قسم کے توسل تلاش کرنے تک محدود نہیں رہ سکتیں۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ شہر کی روشنیوں نے آسمان کی عظمت چھین لی ہے ۔ اب ہم کبھی کبھار ہی آسمان دیکھتے ہیں۔ہمارا طبیعی علم صرف چاند اور سورج تک محدود ہے حالانکہ خود ہماری کہکشاں جو اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے اس میں بھی ہماری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اربوں ستاروں اور سیاروں میں ہمارا نظام شمسی ایک کونے میں ذرا سی جگہ پر پڑا ہے۔ یہ ممکن ہے اگر کسی اور کہکشاں سے کوئی مخلوق آئے تو وہ اتنی دور تک ہماری کہکشاں کے اندر آنے کی کوشش ہی نہ کرے۔سرفریڈ ہائل(Sir Fred Hoyle) جو Big Bangکو تسلیم نہیں کرتے اور کائنات کو ابدی مانتے ہیں کہتے ہیں کہ اکثر وبائی بیماریاں خلاسے ہم پر وارد ہوتی ہیں لہذا خلا ایک خطرہ بھی ہے جس سے نمٹناضروری ہے۔
شاعری کی حد تک میں صرف یہ کہوں گاکہ ہمارے شعور نے درجہ بدرجہ ترقی کی ہے۔ کبھی وہ صرف چیزوں سے آگاہ تھا پھر وہ شعور بنا اور چیزوں سے ہمارے رشتے قائم ہوئے۔پھر خود شعوری آئی اور ہم نے اپنے آپ کو پہچاننے کی سعی کا آغاز کیا۔ اب ہمیں ایک ایسے دماغ کی ضرورت ہے جو Spaceکی جانچ ٹھیک کر سکتا ہو۔اس کے لئے ہم نے کمپیوٹرتو کیا سوپر کمپیوٹر بھی ایجاد کر لئے ہیں مگر خود دماغ کے اندر بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ ارتقا نہایت سست رفتار معاملہ ہے اور ہم اتنی جلدی میں نہیں کہ لاکھوں سال انتظار نہیں کر سکتے۔ اس امر کا آغاز ہو چکا، انسان کی ذہانت کو بڑھانے کے لئے اس کے دماغ میں چپس(Chips) یا اس طرح کی کوئی اور چیز یا چیزیں لگائی جائیں تاکہ وہ کائنات کے سب سے بڑے ریاضی دان کے اس معمے کو سمجھنے کا آغاز کر سکے۔خوش قسمتی سے خدا ہمیں تسخیرِکائنات کی دعوت خود دیتا ہے، قرآن کا آٹھواں حصہ غورو خوض کرنے پر ہے۔ اتنا زور تو نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے پر بھی نہیں دیاگیا۔
لہٰذا انسان کویہ خوش خبری پہنچے کہ کائنات پھر اس کی تسخیر کی منتظر ہے۔اس کا آغاز پہلے بھی شاعروں نے کیا تھا ۔ اب بھی یہ میدان شاعروں کے لئے کھلا ہے اور ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اب وہ سائنس اور کمپیوٹر سے لیس ہیں اور کائنات کو جاننے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
آئیے ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کی طرف بھی دیکھنا شروع کریں۔اگر ہم اس راہ پر چل ہی نکلے ہیں تو رفتار کو کچھ اور بہتر کرنا ہو گا مگریہ یاد رکھیں کہ اس طرح کی تحریک اور امنگ ہمیں اپنے ماضی ہی سے ملے گی۔
خواتین و حضرات !
میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آ پ نے میری معروضات کو سنا مگر یہ ضروری نہیں کہ آپ انہیں حرف بہ حرف سچ تسلیم کریں۔ آپ جو اختلاف بھی کرنا چاہیں، وہ میرے لئے سعادت کا باعث ہو گا۔ بہر صورت میں نے ایک سوال آپ کے سامنے رکھ دیا ہے جو نیا بھی کہا جاسکتا ہے اور پرانا بھی۔ شکریہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے مذہب اور سائنس کے اس پہلو سے دلچسپی ہے جہاں سائنس آزادانہ طور پرکائنات اور اس کے بھیدوں کی نقاب کشائی کا کوئی مرحلہ سرکرتی ہے اور لا الہ ۔۔کا منظر دکھاتی ہے اور وہیں کہیں آس پاس سے مذہب کی بخشی ہوئی کوئی روحانی کیفیت یا کوئی مابعد الطبیعاتی لہر مجھے اس نفی میں سے اثبات کا جلوہ دکھاتی ہے اور الا اللہ کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔اور یہ سارا سائنسی اور مابعد الطبیعاتی آہنگ میری ادبی جمالیات میں میری ادبی استطاعت کے مطابق اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے۔کمپیوٹر کے چِپ کی کارکردگی منکر نکیر اور یومِ حساب پر ایمان پختہ کرتی ہے تو کلوننگ کا تجربہ حیات بعد الموت کا سائنسی ثبوت دے کر اس عقیدہ پر مجھے مزید راسخ کرتا ہے۔خلا کو نکال دینے سے ساری کائنات کا مادہ سوئی کی نوک پر سما جانے ،اور پھر کسی اینٹی میٹر کے اس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اس کے بھی غائب ہوجانے کا سائنسی دعویٰ مجھے اس قیامت پر پکا یقین دلاتا ہے جس میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف خدا کی ہستی باقی رہے گی۔ میر ا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جارہی ہے،مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔اور بس۔۔۔(حیدر قریشی کی یادوں کا ایک باب رہے نام اللہ کا سے اقتباس مطبوعہ جدید ادب شمارہ جنوری تا جون ۲۰۰۷ء)