اب شروع کہانی ہے، حضرت عشق کی کتھا سُناتی ہے کہ ہرمز کے دربار میں روز عدل و انصاف کا چرچا رہتا۔ ہر ایک اپنے مقصد کو پہنچتا۔ امرا، وزرا، مصاحبین خسرو کی اسیری سے دلگیر تھے۔ ایک بار موقع پا کر شاپور عرض پیرا ہوا کہ اب شاہزادے کی خطا معاف ہو، اُس کی جانب سے دل صاف ہو۔ وہ اپنے قصور پر نادم اور نظر عنایت کا طالب ہے۔ سب نے اس پر اتفاق کیا۔ محبت پدری نے جوش کھایا۔ فوراً اس کو رہائی ہوئی۔ ولیعہدی کا خطاب پایا۔ پھر ہرمز عرصۂ دراز تک حکمرانی کر کے راہی ملک بقا ہوا۔ خسرو اُس کی جگہ پر فرماں روا ہوا۔ ہزاروں کو عزت ملی، شاپور کو وزارت ملی، جب عادل بادشاہ اور فہیم وزیر ہو تو ملک کیوں نہ ترقی پذیر ہو۔ عالم کو اپنی بخشش سے مطیع کیا۔ ہر ایک نے سرِ اطاعت جھکایا۔
شیریں کی داستان ہے عشق کا سامان ہے
مورخانِ باکمال اور ناقلانِ خوش خیال یوں لکھتے ہیں کہ ملکِ ارمن جو رشک عدن تھا، وہاں ایک شاہزادی شیریں نام حاکم تھی۔ ہزاروں ملک اُس کے قبضہ میں تھے۔ اصلی نام اُس کا سیمران تھا۔ واقف اس سے ہر اہلِ جہان تھا۔ حسن و جمال میں طاق، شہرۂ آفاق تھی۔ جس طرف اُس کی نگاہ پڑتی ادھر سے صدائے آہ بلند ہوتی۔ سر سے پاؤں تک ایک آفت تھی، قد میں غیرت دہِ قیامت تھی۔ دیکھنے والے کو سکتہ ہوتا، دل قابو سے جاتا۔ اُس کے اوصاف میں یہ اشعار نہایت موزوں ہیں
بال بنگالے کے طول شب ہجر عشاق
صورتِ پاک بنارس کی زمانہ مشتاق
لکھنؤ کا وہ غضب ٹھسا پری رو دقاق
حُسن کشمیر ہے مشہور میان آفاق
چشم پنجاب کمر دہلی کی شملے کی گات
جِسم لاہور کا اور قامت و قد گجرات
فوج لشکر سب عورتوں کا تھا۔ انھیں کا ہر وقت مجمع رہتا، دربار اندر کے اکھاڑے کا مزہ دکھاتا۔ اُن سب میں نسترن بو محرم اسرار تھی۔ بہت ذی اقتدار تھی۔ شیریں کے حسن کا شہرہ دور دور تھا۔ تمام عالم اُس کے نشۂ عشق میں چور تھا۔ ہر طرف سے پیام آتے، سلاطین روم و شام اطاعت کےلیے گردن جھکاتے۔ مگر وہ نشۂ حسن میں چور تھی، بڑی مغرور تھی۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ شدہ شدہ روم میں بھی اُس کا شہرہ ہوا اور دربار خسرو میں تذکرہ ہوا۔ عشق نے اپنا کام کیا، اُس کو اسیر دام کیا۔ غائبانہ شیدائی ہوا، ہوش و حواس کھو کر سودائی بنا۔ سلطنت کا کاروبار چھوٹا، ہر وقت اُسی دُھن میں رہتا۔ سب سے مُنہ موڑا۔ شیریں کی محبت میں عیشِ شیریں تلخ نظر آیا۔ کھانا پانی ترک کیا۔ گو اُس نے کسی سے اپنا درد دل ظاہر نہیں کیا مگر یہ وہ مرض ہے جو چھپ نہیں سکتا۔ وزیر صاحبِ تدبیر جو اس کا محرم راز، ہر وقت کا دمساز تھا یہ حال دیکھ کر سمجھا کہ شاہ کو محبت ہوئی، کسی ماہرو کی الفت ہوئی۔ اِدھر اُدھر کے تذکرے چھیڑ کر دریافت کرنے لگا کہ نصیب دشمناں دل معشوقوں کی زلف کی طرح کیوں پریشان ہے۔ وہ بھی چونکہ اس سے کوئی بات نہ چھپاتا تھا، صاف بیان کر دیا کہ جب سےشیریں کے حسن کی تعریف دربار میں سنی ہے، ہزار جان سے اُس کا شیدائی ہو کر سودائی ہوا ہوں۔ فراق کی تاب نہیں، وصال کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ سوا اس کے کہ تلوار کے زور سے اس کو شکست دوں۔ مال و دولت، لشکر فراواں موجود ہے۔ میری شہرت تمام عالم میں ہے۔ فوج کشی کروں۔ جب وہ مقابلہ کی تاب نہ لائے گی، آپ ہی تابع حکم ہو جاوے گی۔ شاپور عاقل دستور یہ سن کر گویا ہوا کہ واقعی رائے صائب ہے، مگر غلام کے نزدیک لشکر اور ملک پر بھروسا نہ کرنا چاہیے۔ لڑائی ہونے پر خدا جانے کیا ہو۔ اُس کے حسن کی شہرت ہر طرف ہے، ممکن ہے کہ جب آپ لشکر کشی کریں اور یہ خبر عام ہو تو ہر طرف کے بادشاہ اُس کی مدد کریں۔ لڑائی میں بکھیڑے پڑیں۔ اگر خدا نخواستہ شکست ہوئی تو نہ دلی مراد ملے گی، نہ سلطنت رہے گی، زندگی دشوار ہوگی۔ دوسرے عشاق کو یہ لازم نہیں کہ معشوقوں کی ایذا رسانی تباہی بربادی کے بانی نہ ہوں۔ خسرو نے پوچھا پھر اُس کے ہاتھ آنے کی کون تدبیر ہے۔ وزیر نے جواب دیا کہ گو اس کی خوبصورتی مشہور عالم ہے۔ مگر آپ بھی حسن میں یکتائے جہان ہیں۔ کسی طرح آپ کی تصویر اُس کو دکھائی جائے کیا عجب ہے کہ وہ بھی شیدائی ہو۔ بادشاہ نے اس رائے کو پسند کیا اور شاپور کو حکم دیا کہ تو نے رائے بتلائی ہے، تیرے ہی متعلق اس کام کو کرتا ہوں۔ جس طرح مناسب ہو کر۔ شاپور مصوری میں استاد تھا، غیرت دہِ مانی و بہزاد تھا۔ خود خسرو کی تصویر بنائی۔ تجارت کا سامان ساتھ لے کر شیریں کے ملک کو روانہ ہوا۔