رانا صاحب آفس میں بیٹھے ٹیبل پر پڑے فائلوں کا مطالعہ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر پچھلے ماہ میں آفس اور اپنے گھر میں ہوئے مصروفیات پر بھی نظر ڈال رہے تھے جو وہ ٹرپ کے دوران نہیں دیکھ پائے تھے۔ گھر کی ویڈیو دیکھتے ہوئے وہ ٹھٹک گئے کرن روز 11 بجے کے قریب روحان کے کمرے میں داخل ہوتی اور ایک دو گھنٹے وہی رہتی رانا صاحب کو کھٹک محسوس ہوئی انہوں نے کچھ بٹن دبا کر آفس کی ویڈیو نکالی تو انہیں دونوں معاملوں میں ایک چیز مشترکہ لگی آرین بھی روز اسی وقت آفس سے باہر جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ پہلے تو سوچا شاید یہ اتفاق ہو یا ان کا گمان ہو لیکن گھڑی دیکھتے ہوئے گھر کی لائف سکرینگ چلائی تو 11 بج گئے تھے اور کرن پورے گھر میں کہی دکھائی نہیں دے رہی تھی تب ان کی ماتھے پر بے یقینی سے بل نمودار ہوئے۔ ان کو کرن اور آرین کی اپنے گھر کے لاؤنج میں پہلی ملاقات یاد آئی وہ تیزی سے سیٹ سے اٹھے اور ورکر ہال میں جاکر ملاتشی نظروں سے آس پاس دیکھا۔ ان کو سخت تاثرات سے کسی کو ڈھونڈتا پا کر مینیجر آگے آیا اور ان سے حال دریافت کرنے لگا۔
” آرین کہاں ہے” انہوں نے رعب دار آواز میں کہا اور مینیجر کا جواب سنے بغیر آرین کے ٹیبل پر آئے وہاں سب چیزیں بکھری پڑی تھی جیسے وہ ہڑبڑی میں کہی گیا ہو ضبط سے رانا صاحب کا چہرہ سرخ پڑنے لگا۔ آرین کے ان تین چار دوستوں نے بوکھلائے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا جیسے آرین کے لیے آنے والے طوفان پر جوفزدہ ہو رہے ہو۔
رانا صاحب نے ان چاروں لڑکوں کو دیکھا جو ان سے نظریں چرا کر سر جھکا گئے تو الٹے قدم بھاگے اور ہال سے نکل کر لفت کو لپکے۔
***********&&&&*************
کرن روحان کے کمرے میں کی کھڑکی کے چوکٹ پر بیٹھی گھٹنوں کے گرد بازو مائل کئے ہوئے اپنے چند لمحوں کی خوشی کو پھر سے چُور چُور ہوتے دیکھ رہی تھی اس نے اپنی چاہت سے زیادہ اپنے فرض کو ترجیح دی تھی اس نے آرین کے بجائے رانا مبشر کو چن لیا تھا اس نے ایک آذاد پرندے کے ساتھ اڑنے کے بجائے اس قید کو اپنا مقدر بنا دیا تھا۔
ایک زخمی سرد آہ بھرتی بھیگی پلکیں جھپکاتی وہ اٹھی اور دروازے پر آئی ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولنا چاہا تو اس کا ناب پکڑنے سے پہلے ناب گھوما اور دروازہ کھلا وہ حیرت سے ماو دماغ کے ساتھ دروازہ کھلتا دیکھنے لگی سامنے سے رانا صاحب اندر داخل ہوئے کرن کی سانس رکنے لگی دھڑکن تیز ہوگئی۔
“کہی رانا صاحب نے مجھے آرین کے ساتھ دیکھ تو نہیں لیا” اس نے اٹکتی سانسوں کو قابو رکھتے ہوئے سوچا۔
رانا صاحب انگارہ پڑتی نظر کرن پر ڈالتے ہوئے کمرے کو بغور مشاہدہ کر رہے تھے واشروم اور ڈریسنگ روم بھی چیک کیا اور ٹیرس کا ہُک کھول کر وہاں بھی جھانکا جب کہی بھی کسی دوسرے انسان کے آثار نہیں ملے تو کرن کے سر پر پہنچے۔
“تم کیا کر رہی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔ روز اس وقت یہاں کیا کرنے آتی ہو” انہوں نے غراتے ہوئے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
کرن خود کو نارمل رکھنے کی ہر ممکنہ کوششیں کر رہی تھی۔ دھڑکن بحال ہو گئی تھی۔
“شکر ہے رانا صاحب نے مجھے آرین سے ملتے نہیں دیکھا” اس نے دل میں سوچا اور سکون کی سانس خارج کی۔
“کتابیں پڑھنے آتی ہوں رانا صاحب۔” کرن نے شیلف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کپکپاتی زبان سے کہا۔
رانا صاحب نے اس کے اشارے کے سمت میں شیلف کی جانب دیکھا اور کرن کو گھورتے ہوئے آگے آئے اور شیلف سے ایک کتاب اٹھا کر صفحے پلٹاتے ہوئے ایک صفحہ پر ٹھہرے۔
“پیج 182 پر کیا لکھا ہے” انہوں نے سرد مہری سے پوچھا اور تیز نظریں کرن پر گڑھ کر اس کے تاثرات دیکھنے لگے۔
وہ کرن کے جھوٹ کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتے تھے۔ آرین اور کرن پر اپنے شک کو ترک کرنے لے لیے سچائی کی تصدیق کرنا چاہتے تھے۔
وہ وہی جاسوسی انگلش ناول کی کتاب تھی جو اس نے سب سے زیادہ شوق سے پڑھی تھی اس لیے کرن کو اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں دینا پڑا۔
“اس میں لکھا ہے کہ ہیروین کے باپ کو ولن نے نہیں خود ہیرو نے مارا ہوتا ہے اور ہیروین کو بھی مارنے کا سوچ رہا ہوتا ہے کیونکہ ہیرو ایک vampire ہوتا ہے اور اصل میں جسے ہیروین ولن سمجھتی ہے وہ اس کی جان بچانے کے لیے آتا ہے” کرن نے جھٹ سے اس صفحے کی داستان سنا دی۔
رانا صاحب نے سنجیدہ انداز میں تیزی سے وہ صفحہ پڑھا تو بلکل وہی لکھا تھا جو کرن نے زبانی بتایا۔ ان کے غصے پر گڑھوں پانی پھیر گیا۔
کتاب بند کر کے وہ تنے آبرو سے کرن کے پاس آئے اور کتاب اس کے ہاتھ پر زور سے پٹخی۔
“آیندہ کتاب پڑھنی ہو تو باہر لا کر پڑھنا۔۔۔۔۔۔ یہاں بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے” انہوں نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کہا۔ کرن نے سمجھنے والے انداز میں سر کو جنبش دی۔ اسے بس اس بات کی تسلی ہوئی کہ رانا صاحب کو اس کے اور آرین کے ملاقات کا نہیں پتا۔
“اور ایک اور بات۔۔۔۔۔۔۔ تم میرے نکاح میں ہو۔۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو نا تم۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی بےایمانی کی۔۔۔۔۔۔ تو یاد رکھنا۔۔۔۔۔ جان سے مار دوں گا تمہیں۔” انہوں نے دانت پیستے ہوئے کرن پر جھک کر تہش میں کہا۔
“رانا صاحب۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے سارے حدود یاد ہے۔۔۔۔۔۔ میں آپ سے کبھی بےایمانی نہیں کروں گی۔”اس نے نرمی کہا اور جو کہا سچ کہا دل سے کہا پورے حواس میں کہا کیونکہ اس نے آرین سے ہر طرح کا رابطہ ختم کر دیا تھا اور اسے اطمینان تھا کہ آرین اب دوبارہ کبھی وہاں نہیں آئے گا۔
رانا صاحب لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کرن نے پھیکا مسکرا کر کتاب واپس شیلف پر رکھی اس کی معمول کی زندگی واپس شروع ہوگئی تھی رانا مبشر کی حکمرانی کا پھر سے آغاز ہوگیا تھا۔
*************&&&&***************
اس دن رانا صاحب جلدی گھر آگئے تھے۔ مغرب تک روحان اور نور نے پہنچنا تھا۔
“رانا بھائییییی۔۔۔۔۔ ” روحان نے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی جوش و خروش سے پکارہ اور رانا صاحب کے گلے لگا۔ اتنے عرصے بعد رانا بھائی کو دیکھ کر ان کے گلے مل کر روحان کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ رانا صاحب نے بھی محبت سے روحان کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
“میرا بچہ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو” انہوں نے نرمی سے کہا۔
“اچھا ہوں بھائی۔۔۔۔۔۔ آپ کو بہت مس کیا میں نے” روحان نے الگ ہوتے ہوئے ایک دفعہ پھر ان کے بازو سے لپٹ کر کہا۔
“اسلام علیکم رانا بھائی۔۔۔۔۔۔ ” نور نے جھجکتے ہوئے روحان کے ساتھ کھڑے ہوکر کہا۔
“وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ کیسا رہا سفر۔” رانا بھائی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور حال دریافت کیا۔
نور نے کرن کو آتے دیکھا تو تیزی سے آگے آئی اور کرن کے گلے ملی۔ کرن نے بھیگی آنکھوں سے اسے مظبوطی سے حصار میں لیا اور روحان سے حال دریافت کرنے لگی۔ سب مل لینے کے بعد لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے گفتگو کرتے رہے۔ نور اور روحان کے آجانے سے کرن بہت خوش تھی گھر میں رونق لگ گئی تھی۔
رات تک وہ وہی بیٹھے رہے۔ نور اور روحان نے ان کے لیے لائے تحائف پیش کئے۔ روحان تو کھل کر باتیں کرتا قہقہے لگاتا رہا جبکہ نور سسرال میں پہلے دن رانا بھائی کے سامنے دباؤ میں آجاتی۔
ڈنر سروو ہوا تو سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے وہی ایک واحد جگہ تھی جہاں روحان رانا مبشر کے بنائے قوانین کے احترام میں خاموش ہوا۔ رانا صاحب اور کرن اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے روحان کو بھی رانا بھائی کے ٹیبل مینر پتا تھے صرف نور کا اضافہ ہوا تھا جسے خبر نہ تھی۔ روحان نے پہلے خود نیپکن گھٹنوں پر پھیلایا اور پھر نور کے آگے سے نیپکن لے کر اس کے گھٹنوں پر ترتیب دیا۔ رانا بھائی نے ایک نظر اسے دیکھا پھر واپس اپنے پلیٹ میں ڈش نکالنے لگے۔ کرن روحان کے انداز سے مسرور ہوتی ان دونوں کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔
نیپکن ترتیب دینے کے بعد اس نے اپنے اور نور کے پلیٹ میں برابر مقدار چاول نکالے اور چمچ اور کانٹے کی مدد سے کھانے لگا ساتھ ساتھ نور کو بھی اشارے سے اسی ترتیب سے کھانے کی ہدایت دی۔ نور روحان کے بتائے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے اسی انداز میں کھانے لگی۔
“کتنا فرق ہے دونوں بھائیوں میں۔۔۔۔۔۔ ایک آسمان دوسرا زمین ۔۔۔۔ ایک پھول دوسرا کانٹا۔۔۔۔۔ میں بھی تو نئی آئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس طریقے سے رانا صاحب مجھے پیار سے ان کا ٹیبل مینر بتاتے۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ہوجاتا” کرن نے اپنی شادی کی صبح کی ڈانٹ یاد کرتے ہوئے مایوسی سے سوچا۔
روحان جب تک اسکول میں تھا رانا صاحب اسے اپنی اولاد کی طرح رکھتے کچھ نہیں کہتے۔ کالج اور یونیورسٹی اس نے ان سے دور امریکہ میں رہ کر پڑھے ہیں۔ جب وہ ڈگری حاصل کر کے واپس آیا تو رانا صاحب اپنے بزنس کو بنانے میں مصروف ہوتے تو کبھی سفر پر گئے ہوتے اس لیے روحان کو ان کے مزاج جیسے عادات نہیں لگے۔ وہ عام انسانوں کے بیچ رہ کر عام انسان کے عادات سے پلا بڑا ہے اس لیے دونوں میں اتنا فرق ہے۔
کھانے کے بعد رانا صاحب جلدی سونے چلے گئے۔ نور روحان اور کرن روحان کے کمرے میں بیٹھے رات دیر گئے تک ان کے 6 مہینے کا طویل مدت ہنی مون اور 18 ملکوں میں سیر و سیاحت کی تصاویر دیکھتے رہے۔
ہر دوسرے تصویر پر نور اور روحان کی نوک جوک شروع ہوجاتی۔ کرن نے ان کی مستیوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک آدھ بار کھڑکی کے پار ٹیرس کو دیکھا جس سے اس کی کئی ساری یادیں وابستہ ہے۔ آرین کی مستیاں اس کے نوک جوک اس کے پیار کا اظہار اور کرن کا اسے رد کر دینا ایک ایک لمحہ اس کے ذہن کے پردے پر لہرا رہا تھا۔
“یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔ یہاں کتنی گندی فوٹو لی ہے تم نے میری” نور نے منہ بھسورتے ہوئے روحان کے بازو پر ہلکا دھکہ لگاتے ہوئے کہا۔
کرن کی سوچ کا تسلسل نور کی آواز پر ٹوٹا اس نے زخمی مسکراتے ہوئے آرین کا خیال اپنے دماغ سے جھٹکا اور ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئی۔
“اب اتنے بڑے پل پر ہاتھ پھیلا کر پوز بناو گی تو ایسی تصویر آئے گی۔ ” روحان نے نور کی تصحیح کرتے ہوئے اسے ٹوکا۔
“نہیں جناب۔۔۔۔۔ مجھ پر دھیان رہتا تو اچھی فوٹو آتی۔” اس نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔
“اچھا جی۔۔۔۔۔ اب تم مجھ پر یہ الزام لگا رہی ہو۔” روحان نے نور کے سر پر ہلکے سے تھپکتے ہوئے کہا۔
نور تپ کر اپنا سر سہلاتے ہوئے اس پر جھڑپنے لگی کہ کرن نے اسے مخاطب کیا۔
“ارےےےے۔۔۔۔۔ اب تم دونوں میرے تو سامنے تو مت لڑو” کرن نے دونوں کو روکتے ہوئے ہاتھ بلند کئے۔
نور اور روحان نے پہلے ایک دوسرے کو پھر کرن کو اور تینوں ایک ساتھ کھل کر ہنسے۔
نور اور روحان کی وہی دوستی اب بھی برکرار تھی بلکہ شادی کے بندھن سے اور مظبوط ہو گئی تھی۔ کرن کا ان کے ساتھ کافی دل بہل گیا تھا۔ گھڑی نے رات کا 1 بجایا تو کرن شب بخیر کہتی ان کے کمرے سے باہر آگئی اور سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
*************&&&&***************
ایک ہفتہ تک گھر میں سفر کی تھکن نکالنے کے بعد آج سے روحان نے آفس جانا شروع کر دیا تھا۔ وہ رانا صاحب کے ہمراہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس آفس کے ملبے میں داخل ہوا تو سب نے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا وہ چھ ماہ بعد آفس آیا تھا کارکنوں نے پھولوں کے گلدستے دے کر اسے خوش آمدید کہا وہ سب سے مشکور ہوتا کارکنوں سے مصافحہ کرتا حال چال پوچھتا آگے بڑھ رہا تھا۔
کارکنان کے جھمکٹے میں سب سے آخر میں آرین بھی خاموش تماشائی بنا کھڑا تھا۔
کرن سے آخری ملاقات کے بعد اس میں بہت نمایاں تبدیلیاں آگئی تھی وہ چپ چاپ اپنا کام نپٹاتا بریک ٹائم میں اکیلے بیٹھتا دوستوں کے لطیفوں اور خوش گپیوں میں بھی دلچسپی نہیں لیتا۔ اس کی یہ تبدیلیاں دیکھ کر ایک دن دوست نے روک کر اس سے وجہ پوچھی
“آرین۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔۔ دیکھ رہا ہوں کئی دنوں سے تم بہت گم سم رہنے لگے ہو۔” رفیق نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پوچھا۔
آرین نے تاثرات کمپوز رکھتے ہوئے آبرو اچکائے۔
“ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔ بس گھر کی یاد آرہی تھی شاید اس لیے ایسا ہوگیا ہوں۔۔۔۔۔ فکر نہ کر ٹھیک ہوجاو گا۔ ” اس نے جعلی مسکراتے ہوئے کہا
اسی طرح اس کے باقی ہم منصب دوستوں نے بھی اس کے مزاج نوٹ کیے اور فکرمندی سے وجوہات پوچھی جسے اس نے ذاتی مسائل پر پریشان ہوں کہہ کر ٹال دیا۔
روحان سب سے مل کر آخر میں آرین سے بھی ملا۔
“نئے آئے ہو۔”روحان نے خوش دلی سے پوچھا۔
“یس سر۔” آرین نے بھی اسی جذبے سے جواب دیا۔
آرین کی جاب روحان کے غیر موجودگی میں ہوئی تھی اس لیے آرین اس سے انجان تھا اور اب متعارف ہورہا تھا۔
ڈیپارٹمنٹ کی معلومات جاننے کے بعد روحان پھر سے آرین سے مصافحہ کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ آرین سپاٹ تاثرات سے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رخ موڑے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ روحان کوریڈور میں رانا صاحب کے ساتھ کسی بات پر مباحثہ کرنے کھڑا ہو گیا۔ آرین نے رانا صاحب کو دیکھا تو جبڑے سخت کر لیے جب سے کرن نے اسے ٹھکرا کر رانا مبشر کا انتخاب کیا تھا آرین کے ان کے لئے جذبات بدل گئے تھے۔ یہ رد کئے جانے کا دکھ تھا یا رانا مبشر سے جلن لیکن اسے رانا صاحب سے شدید نفرت ہوگئی تھی
رانا صاحب کی طرح روحان کا بھی اپنا پرسنل سٹاف تھا باڈی مین مینیجر سیکرٹری اور دو سیکیورٹی گارڈ جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے چونکہ روحان حساب میں بہت اچھا تھا اس لیے رانا صاحب نے اسے فائنانشل ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ بنایا تھا اور 8 سے 10 کارکنان کا عملہ اس شعبہ میں کام کرتا تھا۔ رانا مبشر کے بر عکس روحان کا اپنے سٹاف اور کارکنوں کے ساتھ رویہ بہت دوستانہ تھا وہ بریک ٹائم میں ان سب کے ساتھ مل کر چائے پیتا ان سب کے ساتھ خوش گپیاں کرتا اگر کام میں کسی سے کوئی غلطی ہو بھی جاتی تو سنجیدگی سے سمجھاتا اور اسی طرح سب مل کر باہمی تعاون سے کام کرتے۔
اپنی غیر موجودگی میں روحان نے اپنے مینیجر کو ڈیپارٹمنٹ کی سربراہی سونپی ہوئی تھی اور اس وقت وہ اپنے کیبن میں کھڑا اس کی کارکردگی سے مسرور ہو رہا تھا۔
” بہت اچھے۔۔۔۔۔ well done حُسین۔۔۔” روحان نے اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے اس کے کام کو سراہا جس سے حسین چہک اٹھا اور سر کو خم دے کر روحان کی تعریف بٹوری۔
******************&&&&&**************
نور کے آجانے سے کرن کی زندگی خوشگوار ہوگئی تھی۔ کمرے میں یا کچن میں یا لاونج میں وہ دونوں ساتھ ساتھ ہوتی۔ نور کے ساتھ کرن بہت الرٹ رہتی ویسے تو نور گھر کے کام کاج کرنے کی شوقین نہیں تھی پر کبھی وہ کوئی کام کرنے کا کہتی تو کرن ساتھ ساتھ لگی ہوتی یا ملازمہ سے کہہ کر ساتھ ساتھ سامان سیٹ کرواتی رہتی۔ نور کو کرن کے اس تبدیلی سے تپ چڑنے لگی اسے جیٹھانی دیورانی والی فیلنگ آنے لگی تھی اور وہ کرن سے کوئی اختلاف نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے وہ کوئی بھی کام کرنے سے دست بردار ہوگئی۔
روحان کو آفس جاتے دو ماہ ہوگئے تھے اور نور کچھ دن اپنی میکے رہنے گئی ہوئی تھی اس نے کرن کو ساتھ چلنےکے لیے بہت کہا پر کرن نے انکار کر دیا۔
اسے دو دنوں سے اپنی طبیعت کافی خراب لگ رہی تھی اور اس دن تو وہ اٹھ بھی نہیں پا رہی تھی ملازمہ سے کہہ کر گھر کے فون سے رانا صاحب کو کہلوا کر اس نے نور کو واپس گھر بلایا۔
نور گھر آئی اور بھاگتی ہوئی سیدھے کرن کے کمرے میں داخل ہوئی۔
“کیا ہوا کرن تم ٹھیک تو ہو۔” اس نے کرن کی نبض دیکھی اور بخار دیکھنے لگی۔ اس کا زرد پڑھتا چہرا دیکھ کر نور کو پریشانی ہونے لگی اس نے رانا بھائی کو کال کر کے کرن کی حالت بتائی اور ان کے ہدایت پر فوراً سے ڈرائیور کے ساتھ اسے ہسپتال لے گئی۔ وہ اور روحان انٹرنیشنل بزنس مین کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے اس لیے بروقت خود نہ آسکے۔
چیک اپ کروا کر وہ واپس آئی تو نور خوشی سے پھولے نہیں سماء رہی تھی وہ تو کال کر کے روحان اور رانا صاحب کو بتانا چاہتی تھی لیکن کرن نے اسے روکا ہوا تھا۔ کرن کو ابھی بھی بہت کمزوری ہورہی تھی تو آرام کرنے کمرے چلی گئی۔
شام کو رانا صاحب اور روحان جلدی گھر آگئے۔ نور صوفے پر بیٹھی تھی ان دونوں کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔
” کرن کیسی ہے” رانا صاحب نے فکرمندی سے نور سے پوچھا روحان بھی متفکر انداز میں نور کو دیکھ رہا تھا۔
“آپ خود جا کر دیکھ لیں۔”نور نے مسکراہٹ دبائے ہوئے نظریں نیچی کر کے کہا تو رانا صاحب پھرتی سے اپنے کمرے میں جانے لگے۔ روحان بھی ان کے پیچھے جا رہا تھا کہ نور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔
“تم کہاں جا رہے ہو۔” اس نے شرارتی انداز میں کہا
“ان کے کمرے میں۔۔۔۔۔ بھابھی کو ملنے” روحان نے حیرانگی سے رانا بھائی کے کمرے کی جانب ہاتھ لہرا کر کہا۔
“پہلے ان میاں بیوی کو تو ملنے دو۔۔۔۔۔ تم بعد میں مل لینا” نور نے شرارتی انداز میں آبرو اچکا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
“کیا مطلب” روحان کو اب بھی نور کی پہیلیاں سمجھ نہیں آرہی تھی۔
“بتاتی ہوں۔۔۔۔ تم چلو تو۔” نور اس کا بازو پکڑے اپنے کمرے میں لے جانے لگی۔
رانا صاحب کمرے میں گئے تو کرن نیم دراز بیٹھی تھی ان کے آتے ہی وہ بلش کرنے لگی وہ اس کے پہلو میں بیٹھے۔
“کیسی طبیعت ہے۔” انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
“بہتر ہے۔۔۔۔ میڈیسن دی ہے۔۔۔۔۔۔ کمزوری ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ شروع کے کچھ مہینے بہت نازک ہوتے ہے۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے اپنا خاص خیال رکھنے کے لیے کہا ہے۔ “کرن نے جھجکتے ہوئے کہا اور چمکتی آنکھوں سے رانا صاحب کو دیکھنے لگی وہ جانتی تھی رانا صاحب اتنے سمجھدار تو ہے ہی کہ اس کا اشارہ سمجھ جائے گے۔
رانا صاحب نے سمجھنے والے انداز میں آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
“مطلب تم۔۔۔۔۔۔” وہ سوچ سوچ کر ناپ تول کر بول رہے تھے اور کرن سے اور چپایا نہیں جا رہا تھا اس لیے اس نے خود رانا صاحب کا فقرہ مکمل کیا اور خوشخبری کی نوید سنائی۔ رانا صاحب تسکین سے مسکرائے اور کرن ہاتھ کا اپنے ہاتھوں میں تھام کر مبارکباد دی اور پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے مشکور ہوئے۔
اسی سانحہ میں دروازے پر دستک ہوئی رانا صاحب نے اندر آنے کی اجازت دی تو روحان ہاتھوں میں گلاب کے پھولوں کا گلدستہ لیئے اندر داخل ہوا۔ نور بھی اس کے پیچے پیچے کمرے میں آئی۔
“مCongratulations بھابھی۔۔۔۔۔۔ آپ نے ہمارے گھر کو خوشیوں سے بھر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔” اس نے پھولوں کا گلدستہ کرن کے آگے کرتے ہوئے کہا۔ کرن نے گلدستہ پکڑا اور قریب کر کے دیکھنے لگی۔ ایک پل کے لیے اس کے چہرے پر سایہ گزرا وہ روحان کے کمرے کے ٹیرس کے گلاب تھے ایک مرتبہ پھر آرین کی یاد تازہ ہوگئی تھی جسے اس نے تیزی سے جھٹک دی آج اس کی دنیا میں خوشیاں آئی تھی اس کی زندگی میں نئے مہمان کا اضافہ ہونے والا تھا اور وہ ماضی کے دکھ میں نہیں پڑنا چاہتی تھی اس نے گلدستہ سایئڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور سامنے متوجہ ہوئی جہاں اس سے جڑے لوگ اس خوشخبری سے جھوم اٹھے تھے۔
***************&&&&&*****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...