زینہ نے اشکبار آنکھوں سے ڈائری میں مقید حقائق جوکہ مع تاریخ اور مع وقت درج تھے ، سب کچھ دلجمعی سے پڑھا مگر ساتھ اس ظالم سماج کی یاد ستانے لگی۔۔ دل مچلا۔۔۔
ابھی پیغام بھیجتی ہوں شاید جواب دے دیں۔
زینہ نے ڈائری کو ایک طرف رکھا اور سرعت سے پیغام لکھنے لگی۔۔
“روحیل آپ کو پتا ہے میں آپ سے بہت ناراض ہوں۔! میں نے بارہا آپ سے رابطہ کیا ہے مگر آپ نے پلٹ کر جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا، میں نے آپ کی شکایت چچا اور ویر سے کر دینی ہے ۔!! پھر نہ کہنا مجھے پیشگی اطلاع نہیں کی ہے ۔”
پیغام ارسال کرتے ہی روحیل کا منہ پھاڑ جوابی ایموجی موصول ہوا۔۔
آپ ہنس رہے ہیں۔؟؟
تمہاری شکایت پر ہنسی آ رہی ہے۔!
کیسی ہو ؟؟ بہت یاد آ رہی ہو۔!
جھوٹ ۔! میں نہیں مانتی ہوں۔!
عاصم سے پوچھ لو .!
کیوں ویر آپ کے دل میں رہتا ہے ۔؟
آپ اتنے سارے گھنٹے کہاں پر گزار کر آئے ہیں اور ابھی کدھر ہیں۔؟؟
فی الحال اپنے کمرے میں موجود ہوں اور اس وقت اپنے اور عاصم کے لیے کھانا لینے باہر نکلا تھا یار۔
گھر واپسی پر کچھ دوست مل گئے تو پھر باتوں میں پتا ہی نہیں چلا اور پھر عاصم کو بھی ادھر ہے بلوانا پڑ گیا ۔۔۔
میں نہیں مانتی۔!!
تو پھر اب میں کیسے یقین دہانی کرواؤں۔؟؟
سکائپ پر آؤ کمرہ دکھاتا ہوں۔!
امی سو رہی ہیں۔!
اور تم کیوں جاگ رہی ہو۔؟
میں یاد آ رہا ہوں۔؟
شاید ۔؟ زینہ نے مان لیا۔
اچھا پوچھ سکتا ہوں کہ اتنی رات گئے مجھے یاد کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔؟؟
اور یہی سوال میں آپ سے بھی کروں گی کہ اتنی رات گئے آپ کے جاگنے کی کیا تک بنتی ہے۔؟؟
میں تو بیوی کی محبت میں جاگ کر سزا کاٹ رہا ہوں۔!!
اور میں شوہر کی ضد میں سزا کاٹ رہی ہوں۔!
ہائے سامنے ہوتی تو تمہیں بتاتا۔!!
زیادہ ہیرو نہ بنیں اور سو جائیں۔!
اب کس ظالم کو نیند آنی ہے ۔؟
اچھے بنیں آ جائے گی۔!
کیسے بنوں اچھا ؟ کوئی نسخہ بتا دو۔!
میں اس وقت شدید تھکن کا شکار ہوں اور سونے جا رہی ہوں۔
آپ مسنون اذکار پڑھیں تو نیند آ جائے گی۔
تم پڑھو نا ۔ اپنی آواز ریکارڈ کرکے فورا بھجواوء ۔!
آپ بھی نا بہت ضدی ہیں۔!
ابھی تم نے میری ضد دیکھی ہی کہاں ہے زینہ عرف خشک مزاج محبوبہ۔!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا آپ کا علاج ہے۔!!
میرے پاس بھی بہت سارے علاج موجود ہیں مگر میں مجبوری کا مارا ہوا ہوں۔۔
روحیل ۔!
جی روحیل کی جان۔!!
وہ دروازے پر اس وقت دستک ہو رہی ہے۔
تو پوچھو کون ہے۔! مگر دروازہ کھولے بنا پوچھو۔!
جی میں ابھی دیکھتی ہوں۔!
مجھے فوراً بتاؤ کون ہے ۔!
جی بہتر۔!
کککون ہے ؟؟ زینہ نے گھبرا کر دھیمی آواز میں دروازے کے پاس جا کر پوچھا۔
جواب نا پاکر زینہ نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر سائل کو سننے کی کوشش کی شاید کوئی آہٹ محسوس ہو سکے۔
آدھی رات کو کون ہو سکتا ہے بھلا۔؟؟ چچا کی طبیعت ٹھیک ہو ، اللہ خیر کرے ۔۔ پریشانی نے آن گھیرا ۔ دھک دھک کرتا دل سینے میں پھڑپھڑانے لگا۔
دروازہ کھولنے کی ہمت بھی مفقود ہوتی جا رہی تھی۔۔
کون ہے باہر۔؟؟ زینہ نے آخری بار تصدیق چاہی مگر جواب نا پاکر خاموشی سے ہاتھ میں تھاما فون لے کر بستر پر آن بیٹھی۔۔
شاید جیمی ہو ، رات کے اس پہر میرے سے تھپڑ کا بدلہ لینے کے لئے نا آیا ہو۔؟ دل میں خوف جڑ پکڑنے لگا ۔۔ فورا بستر سے اتر کر کھڑکی کے کھلے پٹ بند کیے۔۔
ہو سکتا ہے شاید میرا کوئی وہم ہو ۔۔
خیر جو بھی ہے میں دروازہ قطعاً نہیں کھولوں گی۔۔
واپس بستر کی طرف پلٹی اور روحیل کے پیغامات کو پڑھ کر برق رفتاری سے جوابات ٹائپ کرنے لگی۔۔
روحیل کی پریشانی اپنے عروج پر تھی۔۔۔
روحیل آپ پریشان نہ ہوں۔ مجھے شاید وہم ہوا تھا ، کھلی کھڑکی سے شاید کمرے میں آہٹ ہوئی تھی ، میرے دو تین بار پوچھنے پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے ۔
اچھا چلو شکر ہے۔! مجھے یکدم ڈیڈ اور پھپھو کی فکر نے آن گھیرا ہے زینہ ۔۔۔
سب خیریت ہے روحیل آپ پریشان نہ ہوں اب آپ آرام سے سو جائیں ۔روحیل کے ساتھ صرف پیغام رسانی پر ہی زینہ کے وسوسے ہرن ہو گئے۔۔میں اس شخص کے ساتھ خود کو کتنا محفوظ تصور کرنے لگی ہوں حالانکہ یہ شخص میلوں دور بیٹھا ہوا ہے۔۔مگر شاید اس شخص کا جڑا نام میرے نام کی رکھوالی کا ضامن ہے۔۔
روحیل آپ آرام سے سو جائیں۔ زینہ نے دوبارہ بولا۔۔
زینہ نیند آئے گی تو سو جاؤں گا ، جب سے میری زندگی میں آئی ہو میری نیند کا گراف نو گھنٹے سے گر کر تین سے چار گھنٹوں پر چلا گیا ہے۔
روحیل۔! میں آپ کو منع تھوڑی کرتی ہوں کہ نا سوئیں ۔!
تم منع نہیں کرتی ہو مگر میرے دل و دماغ پر کاری وار ضرور کرتی رہتی ہو ۔!!
آپ کو چرب زبانی میں ایوارڈ ملنا چاہئے۔!!
نیکی اور پوچھ پوچھ۔!
مجھے ایوارڈ میں صرف زینہ درکار ہے۔۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا چھوٹی سی بات پر آپ کا دماغ کس طرف چلا جاتا ہے۔۔؟؟
میرے اوپر ہنس رہی ہو ۔؟؟؟
جی !!! زینہ نے روحیل کو چڑایا۔۔۔
تم بہت ظالم ہو زینہ ۔!!
عزت افزائی کا بہت شکریہ۔!
پاس ہوتی تو تمہیں بتاتا کہ کیسے چڑاتے ہیں۔؟
اسی بات کا تو فائدہ اٹھا رہی ہوں۔ہاہاہاہا۔
کوئی بات نہیں زینہ تیرہ دن کی بات ہے پھر میں نے رخصتی کروا لینی ہے ۔ دھمکی نہیں ہے حقیقت میں بول رہا ہوں۔!
روحیل کا دھمکی آمیز پیغام پڑھ کر زینہ کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں ۔ جی نہیں۔ !!
آپ نے وعدہ کیا تھا کہ امی کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک رخصتی نہیں ہوگی۔۔!
جی یہی بولا تھا۔! مگر بیوی صاحبہ ماسی امی تیرہ دنوں میں بہت بہتر ہو جائیں گی فزیو سے میری بات ہوئی ہے اس نے آدھے گھنٹے کی ورزش کے بعد مجھے تمام تفصیلات ووٹس ایپ کر دیں تھیں ، میں دیار غیر میں ہوتے ہوئے بھی بےخبر نہیں بیٹھا ہوں۔! ابھی کوئی اور اعتراض ہے تو بتا دو ۔؟؟
ننننہیں اعتراض تو کوئی نہیں مگر میں پہلے ویرے کی دلہن ڈھونڈوں گی ان شاءاللہ۔
چلو جی ابھی میری جان کے لیے نیا سیاپا۔!!
روحیل توبہ ہے ۔! آپ کتنے خود پرست اور خود غرض ہیں۔؟ اپنی شادی رچا لی ہے اور اپنے چھوٹے بھائی کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔۔ چچچچچچچچچچ
بیوی صاحبہ عرف خشک مزاج چھوٹے بھائی کی پرواہ کرتے ہوئے دبئی میں کھجل ہونے آیا ہوں ورنہ مجھے کیا پڑی تھی اپنی خشک مزاج بیوی کو چھوڑ کر آتا ۔
میں خشک مزاج نہیں ہوں۔!!
زینہ تمہارا یہ کہنا کہ “میں خشک مزاج نہیں ہوں” اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے ۔!
آپ مجھے تنگ کر رہے ہیں تو میں چلی جاؤں گی۔!
جا کر دکھاؤ تو ذرا.!!!
اگر چلی گئی تو کیا کر لیں گے ۔؟؟
تمہیں نہیں اندازہ میں کیا کچھ کر سکتا ہوں۔!!
مثلاً۔؟؟
سب چھوڑ چھاڑ کر لوٹ آؤں گا مجھے چیلنج نہ کرو تو تمہارے ہی حق میں بہتر ہے۔!
اچھا جناب میں ہی ہار مان لیتی ہوں، آپ جناب میں بہت ساری صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں مگر اس وقت نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہو رہی ہیں ، بہت دقت سے آپ سے بات کر رہی ہوں۔!
مجھے اجازت دیں ۔! میں ابھی سونا چاہتی ہوں۔!
تم تو سو جاؤ گی مگر مجھے نیند نہیں آئے گی زینہ۔!
ایک مرتبہ بولو تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی ہے ۔!
محبت تو نہیں ہوئی مگر آپ کی کمی شدت سے ضرور محسوس ہو رہی ہے ۔!
خشک مزاج میرا دل رکھنے کے لیے بول دیتی۔!
میں کسی کو بھی خوش فہمیوں میں رکھنا پسند نہیں کرتی ہوں۔
میں کسی بھی نہیں ہوں ، شوہر ہوں تمہارا زینہ۔! روحیل نے تڑپ کر لکھا۔۔۔
جی جناب شوہر نامدار روحیل ارشاد صاحب آج ساراااااااااااا دن آپ کی کمی محسوس ہوتی رہی ہے، بلکہ کئی مرتبہ تو آپ کو خیالی دنیا میں پکارا بھی ہے ۔!
ابھی خوش ہیں۔؟؟؟
میں اس وقت تک خوش نہیں ہوں گا جب تک تم مجھے محبت نہیں کرو گی !
روحیل محبت بھی ہو جائے گی ان شاءاللہ ، شاید وقت لگے گا یا پھر شاید ہو چکی ہو ۔!
تم کتنی ڈھیٹ ہو .!
آپ سے کم ہوں روحیل۔!
جتنے ڈھیٹ آپ ہیں ، میں نے زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا ہے ۔۔!!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا روحیل نے منہ پھاڑ ایموجی بھیجی۔۔
روحیل پلیز سونے دیں قسم سے شدید تھکن کا شکار ہوں۔!
اچھا جاؤ سو جاؤ مگر محبت والی بات ذہن میں بٹھا لو۔
میری واپسی تک اپنا ذہن بنا لو ۔!
ماسی امی نے تو بالکل بھی منع نہیں کرنا ہے ،بلکہ اگر میں انہیں ابھی بولوں کہ زینہ کو رخصت کروا رہا ہوں تو وہ بخوشی اجازت دیں گی۔! ایک صرف تم اڑیل ہو جس کے سینے میں پتھر کا دل فٹ ہے ۔!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا روحیل آپ کا حال قابل رحم ہے۔!
میں جا رہی ہوں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔!
زینہ فورا آف لائن ہو گئی۔ فون کو بستر سے منسلک چھوٹے کیبنٹ پر رکھا ، ناچاہتے ہوئے بھی بستر سے اتر کر میز کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔
دبئی میں حالات کا ستایا روحیل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔۔
زینہ تمہیں تو میں واپس آکر سیدھا کرتا ہوں۔! روحیل نے چڑ کر دانت پیسے اور جوابی سلام بھیجا۔۔
زینہ اپنی کارستانیوں پر مسکراتی دوبارہ روحیل کی ڈائری کی طرف لپکی۔۔۔مطلوبہ صفحہ پر پہنچ کر مطالعہ شروع کر دیا۔۔۔
“کل اس کے تمام جملہِ حقوق میرے نام محفوظ ہو جائیں گے ان شاءاللہ۔ اسے خبر نہیں ہے کہ اس کی ایک “ہاں” نے میرے اندر کی تشنگی میں تروتازگی اور توازن بھر دیا ہے ، میری بکھری ٹوٹی شخصیت کو جیسے ایک سایہ دار درخت میسر ہونے والا ہے۔
اسے بتاؤں گا کہ میں اسے وقت گزاری کے لیے نہیں اپنا رہا ہوں ، میں اسے دل سے چاہتا ہوں ، دسمبر کی سہہ پہر میں بولے گئے وہ میرے تمام الفاظ جھوٹ پر مبنی تھے ، میں تو اپنے آپ سے بھی ڈر گیا تھا کہ کہیں تمہاری اس ایک جھلک کا اسیر ، میں منیب کے سامنے اپنی کمزوری نہ ظاہر کر بیٹھوں۔۔شاید میں اپنے آپ سے بھی چھپانے لگا تھا۔۔
اسکی ایک جھلک اس کی پاکیزگی اور پارسائی کا ثبوت تھی۔۔ وہ معصوم سی پری پیکر میرے دل کی ملکہ بن بیٹھی۔ اپنے سکول کالج بلکہ یونیورسٹی کے دور میں ، میں نے کبھی بھی کوئی ایسی لڑکی نہیں دیکھی تھی جسے اپنے بےپردگی پر اس قدر غم ہو ۔۔
زینہ نے اگلا صفحہ پلٹا:
باقی تو سب ٹھیک ہے مگر میں اس کے بیہوش ہونے پر خائف ہوں کہیں وہ دوبارہ نکاح کے بعد مجھے دیکھ کر بیہوش نہ ہو جائے۔؟ اور میں نکاح کے بعد ہسپتال کے چکر کاٹنے کا قطعاً خواہش مند نہیں ہوں۔۔۔
ہوش میں لانے والی “نس” کے بارے میں سیکھ تو چکا ہوں ، لگتا ہے یہ پہلا حربہ اسی پر آزمانا پڑے گا۔۔میرے خیال میں اسے بیہوش ہونے کی مہلت ہی نہیں دوں گا ، اسے اپنی باتوں میں الجھا لوں گا۔۔
روحیل کے اس آخری جملے کو پڑھتے ہوئے زینہ نے اپنے قہقہے کو بمشکل دبایا۔۔ روحیل کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دو پچاس پچاس کے نوٹوں کی فرمائش اور پھر تبت کریم کا مانگنا کس قدر عجیب تھا مگر ذہین ترین سوچ تھی ، روحیل کو میرا کتنا خیال تھا۔زینہ نے مسکراتے ہوئے ڈائری کے صفحات پر مکتوب روحیل کی تحریر پر ہاتھ پھیرا۔۔
روحیل کی آپ بیتی کا آخری صفحہ صبح پانچ بجے تحریر ہوا تھا ۔۔
ان شاءاللہ آج وہ میری ہو جائے گی۔!
بس یہی دعا ہے کہ اس کا دل بھی میرا ہو جائے آمین۔ اسکے تلخ روپے اور تلخ باتوں سے لگتا ہے مجھے خاصا رگڑائے گی ، مجھے ناکوں چنے چبوائے گی یا تو میں “زن مریدی” کا شکار ہو کر اسکے اشاروں پہ ناچوں گا یا پھر وہ میرے کہے بولے کا مان رکھے گی یعنی میرے ماضی کو بھلا کر مجھے معاف کر دے گی اور میری فرمانبرداری کرے گی۔۔۔
میری پیاری ڈائری آج کے بعد تمہیں بھی خدا حافظ کیونکہ میرے دکھوں کا مداوا کرنے والی آ رہی ہے، آج کے بعد تمہیں وہی کھولے گی۔! بھلا کون .؟
ان شاءاللہ میرے ہونے والی زینہ حیات۔!!
روحیل کی تحریر اپنے اختتام کو پہنچی تو زینہ کے مسکراتے پنکھڑی لب اور پانیوں سے لبریز آنکھیں اس حقیقت شناسی پر شکر گزار تھیں۔۔۔
آخری صفحے کو دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا، نیند تو غائب ہو چکی تھی۔۔۔کچھ دیر سوچ کر قلم اٹھا لیا۔۔۔
“میں ہوں زینہ حیات اور اب زوجہ روحیل ارشاد ۔!! اس وقت رات کے دو بج رہے ہیں۔
آج میں کھلے دل سے اقرا کرتی ہوں کہ مجھے روحیل ارشاد سے محبت ہو چکی ہے۔ میں اس شخص کی فرمانبرداری کے لیے خود کو پیش کرتی ہوں۔! میری دنیا و آخرت کی کامیابی اس شخص کے ساتھ جڑی ہے ، یہ شخص میری دعاؤں کا صلہ ہے جو مجھے میرے کردار سمیت چاہتا ہے ، یہ شخص اللہ کے قوانین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا تابع بننا چاہتا ہے تو مجھے یہ عظیم انسان روحیل ارشاد من و عن قبول ہے ۔۔بیشک اللہ کے ہاں سچی توبہ کا حامل شخص اللہ کے ہاں عظیم مقام و مرتبہ رکھتا ہے”۔۔۔
زینہ کی سرعت سے چلتی انگلیاں روحیل کی ڈائری میں اپنے خلوص کے موتی بکھیرنے لگیں۔۔۔
“روحیل ارشاد آپ کو آپ کی بیوی زینہ ٹوٹ کر چاہنے لگی ہے۔ زینہ آپ کو مزید انتظار کی سولی پر نہیں لٹکائے گی ۔۔۔ آپ تو زینہ سے بہتر انسان نکلے ہیں جو اس کی نالائقیوں پر بھی اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔۔
روحیل صبر کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے مگر آپ اس مرحلے پر کامیاب و کامران ہو چکے ہیں۔۔
آپ نے مجھے عزت سے اپنا نام دیا ، مجھے عزت سے اپنے گھر کی چار دیواری میں ایک مقام دیا ، میری خواہشات کی قدر کی اور میرا ساتھ دیا جس کے لئے میں جتنا بھی شکر ادا کروں وہ کم ہے ۔
روحیل آپ کی بیوی تاعمر آپ کی قدر دان رہے گی ان شاءاللہ”۔۔
“میرے سر کے تاج ، میری خوشیوں کے ساتھی ، میرے ہمسفر روحیل ارشاد مجھے آپ سے ایسی محبت ہو چکی ہے جیسے پیاسے کو پانی کی طلب ہو ۔مجھے لگتا ہے یہ آپ کی دن رات کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ مجھ جیسی لڑکی اس ڈیڈھ ہفتے میں آپ کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔! اب خوش ہو جائیں روحیل ارشاد آپ کی من چاہی مراد بھر آئی ہے۔”!!
“مجھے لگتا ہے آپ کی دعاؤں میں میری دعاؤں سے زیادہ شدت ہے۔ میری سوچوں کے محور آپ کے گھر خیریت سے لوٹنے کی شدت سے دعاگو ہوں اور بےچینی سے منتظر ہوں ، آپ جب خیریت سے گھر لوٹ آئیں گے تو آپ کا استقبال اظہار سمیت کروں گی ان شاءاللہ مگر فی الحال آپ اپنے ضروری کام پوری دلجمعی سے نپٹائیں۔۔
صرف اور صرف آپ کی زینہ”۔!
زینہ نے مسکراتے ہوئے ڈائری بند کر کے دوبارہ ماں کے دواؤں والے دراز میں چھپا دی اور سونے کے لیے پر تولنے لگی۔۔
******************************************
ناشتے سے فراغت کے بعد شریفاں خالہ کے ساتھ باورچی خانے کی صفائی میں جت گئی۔۔
خالہ پھپھو نے آج کے کھانے کے بارے میں کچھ بتایا ہے کیا۔؟؟
نہیں بی بی جی ابھی تک تو کچھ نہیں بتایا ہے۔
چلیں میں ان سے پوچھ آتی ہوں وہ یقیناً ابھی چچا کے ہمراہ باغیچے میں ہوں گی ۔
نہیں بی بی جی آپ کو نہیں پتا وہ جیمی بابو کو ایئر پورٹ چھوڑنے گئی ہیں۔۔؟؟
اچھا مجھے تو نہیں خبر ہے۔!
بی بی جی آپ اس وقت اپنی امی کے پاس ناشتہ کھلا رہی تھیں۔
اوہ اچھا۔ میں سمجھ گئی۔ زینہ نے جیمی کے گھر سے چلے جانے پر سکھ کا سانس لیا۔۔۔اب گھر میں عبایا اور حجاب نہیں اوڑھنا پڑے گا ۔ الحمدللہ۔
بس اللہ میری مشقتوں کو قبول فرما لے آمین۔ زینہ نے دل ہی دل میں دعا مانگی۔۔
خالہ میں ذرا امی کو دیکھ آؤں ، جیسے ہی پھپھو لوٹیں مجھے اسی وقت آگاہ کر دیجیۓ گا۔
جی بی بی جی آپ بےفکر ہو کر جائیں۔۔
کس قدر سلجھی ہوئی بچی ہے ماشاءاللہ ۔شریفاں بھی دل میں تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔۔
السلام علیکم امی جی۔! فزیو آیا تھا کیا ۔؟ زینہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھا جبکہ بستر پر لیٹی امی کی گردن دائیں جانب لڑھک رہی تھی ۔
امی جان ۔!! زینہ تڑپ کر ماں کی طرف لپکی۔۔
امی جی کیا ہو گیا ہے۔؟؟ آنکھیں کھولیں امی جی ۔!!
زینہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں ماں کا چہرہ لے کر دھیرے دھیرے تھپتھپانے لگی۔۔
آنسوؤں کی لڑیاں نازک صورتحال پر بےقابو ہو گئیں، دوڑ کر کوریڈور سے خالہ شریفاں کو آواز دی۔۔
بی بی جی سب خیریت ہے۔؟؟
خالہ پتا نہیں امی کو کیا ہو گیا ہے، آپ جلدی سے چچا کو باغیچے سے بلا کر لائیں۔۔روتی بلکتی زینہ بھاگ کر ماں کی طرف پلٹی۔۔۔
خود پر قابو پانے کی پرزور کوشش کرتے ہوئے ماں کی کلائی کی نبض تھام لی۔۔۔
ایک ہاتھ گردن کی نس پر اور دوسرا ہاتھ کلائی پر رکھ کر زینہ ماں کی حالت کو بھانپنے لگی۔۔۔
ماں کی آنکھوں کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی مدد سے پورا کھول کر دیکھا تو آنکھوں کی پتلیاں ایک جگہ پر ٹھہر چکی تھیں۔۔زندگی کی ایک بھی رمق باقی نہ تھی۔
شاید مجھے ٹھیک سے پتا نہیں چل رہا ہے ، ابھی ڈاکٹر کو بلوا کر چیک کرواتے ہیں۔
امی جی آنکھیں کھولیں ، مجھے دیکھیں ۔!! آپ کو اچانک کیا ہو گیا ہے ۔؟؟ دیکھیں آپ کی بیٹی اکیلی رہ جائے گی۔۔زینہ تڑپ کر ماں کو جھنجھوڑنے لگی۔۔
زینہ کے مسلسل جھنجھوڑنے پر بےجان وجود ایک طرف ڈھلک گیا ۔۔
یکدم زینہ کی زبان سے دعائیہ کلمات ادا ہونے لگے۔۔
“انا للہِ وانا الیہ راجعون”
زینہ کی اشکبار آنکھیں اور فریادی دل اللہ کے فیصلے پر صبر و تحمل کے لیے کوشاں تھا۔
دایاں ہاتھ بڑھا کر ماں کی نیم وا آنکھوں کو بند کر دیا۔۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
“کوئی بھی مسلمان کسی بھی مصیبت کے پہنچنے پر حکم الہی کے مطابق کہتا ہے: ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرَاً مِنْهَا “۔۔
“بیشک ہم اللہ کیلئے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹیں گے ، یا اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما، اور مجھے اس سے اچھا بدلہ نصیب فرما تو اللہ تعالی اسے اِس سے اچھا بدلہ ضرور عطا فرماتا ہے۔”(مسلم: 918)
میت کی روح پرواز کر جانے پر لوگوں کا دعا کرنا:
ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، [آپ فوت ہوچکے تھے] اور آپکی آنکھیں پتھرا گئی تھیں، آپ نے انکی آنکھیں بند فرمائیں، اور ارشاد فرمایا:
“جس وقت روح قبض کی جاتی ہے، نظر اسکا پیچھا کرتی ہے) یہ سن کر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ میں سے کسی نے چیخ ماری، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے لئے اچھے کلمات ہی بولو؛ کیونکہ تم جو بھی کہو گے فرشتے اس پر آمین کہہ رہے ہیں۔”( مسلم:2722)
میت کی روح پرواز کرنے کے بعد واویلا کے بجائے دعائیہ کلمات بولنے چاہئیں کیونکہ اس وقت فرشتے لواحقین کے کلمات پر آمین بولتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں رونا پیٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ہائے میں مر گئی ، ہائے میں لٹ گئی وغیرہ وغیرہ
ایسے ناشکرے پن سے پرہیز کرنا چاہیئے۔اللہ کی رضا میں صابر و شاکر ہونے کے ساتھ ساتھ مرنے والے کی بخشش اور زندوں کے لیے خیر مانگنی چاہئے”۔۔
وفات کے فورا بعد میت کی آنکھیں بند کردینا چاہئے اور وہاں صرف خیر کی باتیں کرنی چاہئے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
” جب تم فوت ہونے والے کے پاس موجود ہو تو اس کی آنکھیں بند کردوکیونکہ نظر روح کے پیچھے ہوتی ہے اور تم (میت کے پاس) خیروبھلائی کی بات کرو کیونکہ فرشتےاہل خانہ کی بات پر آمین کہتے ہیں” ۔( صحیح ابن ماجہ:1199)
زینہ کیا ہو گیا ۔؟؟ ارشاد صاحب سے پہلے پھپھو بھاگتی کمرے میں آن پہنچیں۔
زینہ کی اشکبار آنکھیں پھپھو کو انہونی کا پتا دے گئیں۔۔ پھپھو نے فوراً آگے بڑھ کر زینہ کو اپنے سینے میں بھر لیا۔ زینہ کی ہچکی بند گئی۔
پھپھو امی چلی گئی ہیں۔۔
ارے نہیں زینہ تمہیں کوئی وہم ہو رہا ہے ، صبح باجی اچھی بھلی تھیں جب فزیو ہو کر گیا ہے۔ اور پھر میں جیمی کو الوداعی ملاقات کے لیے لائی تھی تم شاید اس وقت اوپری منزل پر تھی۔
زینہ باجی نے ڈھیروں دعائیں دے کر جیمی کو رخصت کیا ہے۔۔
زینہ میں خود دیکھتی ہوں۔!
پھپھو نے آگے بڑھ کر شہناز بیگم کی نبض دیکھی اور ہلکا سا ہلایا مگر بےجان وجود لڑھک گیا۔۔۔
یا اللہ ہماری اس بہو کے لئے یہ آزمائش آسان بنا دے آمین۔پھپھو نے تڑپ کر دعا مانگی۔۔۔
زینہ میری بچی جو اللہ کو منظور ہے مگر تمہیں بہت ہمت سے کام لینا ہو گا۔ صبر کرو میری بچی۔۔!
پھپھو نے زینہ کی تسلی تشفی کے بعد دوبارہ شہناز بیگم کی طرف رخ کیا اور تمام اعضاء جسم سیدھے کر کے چہرہ ڈھانپ دیا۔۔۔
ارشاد صاحب نے پہنچتے ساتھ ڈاکٹر کی فوری آمد کی اطلاع دی اور زینہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔
زینہ تم تو بہت صبر والی ، میری بہت بہادر بیٹی ہو نا ۔!!! بس میں ابھی زید اور عاصم لوگوں کو اطلاع کرتا ہوں۔
تم حوصلہ رکھو۔!
شمیم تم زینہ کو سنبھالو۔! اسے پانی وغیرہ دو۔!!
ڈاکٹر کچھ دیر بعد پہنچ آئے گا۔۔
جی بھائی جان آپ جائیں میں سب سنبھال لیتی ہوں۔۔
بے آواز روتی زینہ پھپھو کے ساتھ لپٹ کر اپنی ماں کے مردہ وجود کا غم ہلکا کرنے لگی۔۔
زینہ کو اس وقت ایک کندھے کی ضرورت تھی اور پھپھو نے فراغ دلی سے زینہ کا سر اپنی آغوش میں لے لیا۔۔۔
تجربہ کار خاندانی ڈاکٹر آیا ، تمام بنیادی طبی معائنے کے بعد پچیس منٹ قبل حرکت قلب بند ہونے پر امی کی اچانک موت کی تصدیق کر گیا۔۔
ارشاد صاحب تو سب کو پہلے سے مطلع کر چکے تھے۔۔کچھ سوچ کر زینہ کی طرف پلٹے ۔ زینہ میری بیٹی تم کیا چاہتی ہو ۔؟ تمہاری امی کو جلد از جلد اسلام آباد میں ہی سپرد خاک کر دیا جائے یا پھر انکی میت میرپور لے چلیں۔؟ جو تم بولو گی ہمیں وہی منظور ہے۔۔
چچا زید آپا آرہے ہیں تو میں امی کو جلد از جلد دفنانے کے حق میں ہوں کیونکہ یہ حکم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔۔
اشکبار آنکھوں اور چھلنی دل کے ساتھ بھی بھرائی آواز میں زینہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اولین ترجیح دی۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹی ۔۔ بس اب زید شہلا پہنچ آئیں تو ظہر کے بعد جنازہ رکھ لیتے ہیں۔
عاصم نے آج کی ٹکٹوں کی پرزور کوشش کی ہے مگر تین دن بعد کی ٹکٹ مل رہی ہیں، تمہیں تو پتا ہے کہ ان مہینوں میں ٹکٹوں کا حصول نہایت کٹھن ہے۔۔
اور روحیل تو چند گھنٹے قبل ترکی کے لیے روانہ ہو چکا ہے ، اس نے جانے سے قبل تمہیں بارہا کال کی ہے مگر تم شاید باورچی خانے میں مصروف تھی اس لیے بات نہیں ہو پائی ہے ۔۔
میں نے بھی اس کے پیغامات کچھ دیر قبل ہی سنے ہیں۔ اصل میں وہ پاکستان جلدی لوٹنا چاہتا ہے تو جس کے لئے آج صبح اچانک ترکی کا ٹکٹ مل رہا تھا تو دبئی ائیرپورٹ سے ترکی نکل کھڑا ہوا ہے ۔۔
ابھی تو وہ شاید جہاز میں ہو گا ، میں نے کال کی بہت کوشش کی ہے مگر نہیں ہو پائی ہے ، اسکا مطلب ہے اسکا طیارہ اڑان بھر چکا ہے ۔۔
روحیل استنبول کے بجائے اناطولیہ گیا ہے جہاں کا ہوائی سفر دبئی سے بھی ساڑھے آٹھ گھنٹوں پر محیط ہے ، روحیل کو باجی کی وفات کی خبر بھی شاید کل ہی ملے گی۔۔ استنبول جاتا تو پانچ ساڑھے پانچ گھنٹوں میں پہنچ جاتا۔۔۔بہرحال تم بالکل بھی پریشان نہ ہو ، میں اور تمہاری پھپھو ہیں نا تمہارے پاس۔!!
مجھے اپنا ابو ہی سمجھو بیٹی۔!
ارشاد صاحب کا دست شفقت ہنوز زینہ کے سر پر تھا اور وہ دھیمے لہجے میں تمام حقائق زینہ کے گوش گزار کر رہے تھے جبکہ زینہ بے آواز قیمتی موتی لٹانے میں محو تھی۔۔ دل رنج و الم کی اذیت ناک کیفیات سے گزر رہا تھا۔۔
زینہ بیٹی عاصم نے بھی یہی بولا ہے کہ جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے لہٰذا میں ابھی غسل اور کفن دفن کے انتظامات دیکھ لوں ۔۔۔ اور ہاں زید شہلا گھر سے روانہ ہو چکے ہیں بس ایک گھنٹے تک پہنچ آئیں گے ان شاءاللہ۔
شمیم میری بہو تمہارے حوالے ہے ، اسکا خیال رکھو ۔! ارشاد صاحب نے زبانی تنبیہ کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے اشارے سے بھی چھوٹی بہن کو سمجھانا ضروری سمجھا۔۔
جی بھائی جان یہ میری بھی بہو ہے ، آپ بے فکر ہو کر باہر کے کام نپٹائیں ۔۔
ارشاد صاحب نے دست شفقت زینہ کے سر پر سے اٹھایا اور متوازن چال چلتے کمرے سے نکل گئے۔۔
******************************************
ہائے او میرے ربا۔!! میری بہن اچھی بھلی تھی ، کیسے ایک دم موت کے منہ میں چلی گئی۔؟؟! ہائے آخری وقت میں تو اپنی بہن کے ساتھ چند دل کی باتیں بھی نہ کر پائی ، اولاد جب منہ زور ہو جائے تو سگی بہنیں بھی بچھڑ جاتیں ہیں۔۔ بہو رانی مجھے چھوڑ کر اپنے بھائی کے ساتھ دوڑی چلی آئی ہے۔ میں بد نصیب چند گھڑیوں کے لیے بہن کا دیدار کر پائی ہوں اور سب جنازہ اٹھا کر دوڑ گئے باہر۔۔۔
ہائے ہمیں تو اس زینہ نے بکھیر ڈالا۔! پسند کی شادی رچا کر میری بہن کو بھی اپنے ساتھ لے اڑی۔۔
شہلا کی ساس خالہ ٹسووں کے ساتھ ساتھ بین بازی کرنے میں مصروف مہمان خانے کے داخلی دروازے سے داخل ہوئیں۔۔
زینہ برداشت نہ کر پائی تو بول اٹھی ۔۔ دیکھیں خالہ آپ اپنا غم آنسوؤں سے نکال لیں مگر خدارا یہ بین چھوڑ دیں ، اس سے میری امی کو اذیت پہنچ رہی ہے۔!
ہائے کیسے نا بولوں زینہ۔؟؟ میری بہن دنیا چھوڑ کر چلی گئی ہے ، میرے کلیجے میں آگ لگی ہوئی ہے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ(صحیح البخاری /1294)
’’وہ ہم میں سے نہیں جو رخساروں کو پیٹے ، گریباں پھاڑے اور زمانہ جاہلیت کے کلمات کہے۔‘‘
یہ بھی نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی پر لعنت فرمائی ہے اور یہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے :
الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ( صحیح البخاری /1292)
’’ نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتاہے ۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ (صحیح البخاری /1286 مسلم /927)
’’میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔‘‘
(فتاویٰ اسلامیہ ج2 ص93)
اس وقت کہاں تھیں جب بہن بستر مرگ پر تھی۔؟؟ زینہ سوچ کر رہ گئی۔۔
خالہ ایسا کرنا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ صبر وہی ہے جو مصیبت کے وقت کیا جائے۔! آپ آنسوؤں سے روئیں کوئی منع نہیں کرے گا مگر خدارا زبان سے اللہ کی نافرمانی والے کلمات نہ بولیں۔!!
زینہ نے آگے بڑھ کر خالہ کو تھام کر صوفے پر بٹھایا۔۔
شہلا غم کی تصویر بنی ایک کونے میں خاموش بیٹھی اپنی ماں کے لئے سوگوار تھی۔جبکہ پھپھو زینہ کے ساتھ ساتھ چلتی اسکی کمر سہلا رہیں تھیں۔۔ خالہ کی بناوٹی حرکات و سکنات ان سے بھی پوشیدہ نہ تھی مگر موقع کی مناسبت سے خود کو بولنے سے باز رکھا۔۔
اے زینہ تو اپنی یہ اسلامی کتابی باتیں اپنے پاس رکھ ، جب کسی کے اندر آگ دہک رہی ہو تو انسان بے اختیار ہو جاتا ہے۔
خالہ آپ پانی پیئیں اور آرام سے بیٹھیں ، آپ نے امی کو دیکھ تو لیا ہے نا یہ کم ہے کیا۔؟
اے بارہا ذیشان نے ادھر آنے کے لئے زور دیا ہے مگر تیری ماں اسے مسلسل منع کرتی رہی ہے۔
خالہ امی یہی چاہتی تھیں کہ جلد از جلد صحت یاب ہو کر میرپور لوٹ جائیں اس لیے آپ سب کو لمبے سفر کی تکلیف سے بچاتی رہیں ہیں۔۔
آپ اپنی بہن کے لیے دعا مانگیں۔
زینہ اپنے آنسو رگڑ کر خالہ کی دلجوئی میں لگ گئی۔۔
خالہ میں آپ کے لئے باورچی خانے سے پانی لے آؤں۔
زینہ تم بیٹھو میں لے کر آتی ہوں۔ پھپھو نے رنجیدہ زینہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
پھپھو شریفاں خالہ کدھر ہیں۔؟ اسے میں نے مہمانوں کے ٹھہرنے کا بندوست کرنے کا بولا ہے۔ تمہارے بہن بھائی ٹھہریں گے نا تمہارے پاس۔؟؟
پتا نہیں پھپھو فی الحال کچھ کہہ نہیں سکتی ہوں ۔۔
چلیں میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں، سوگوار زینہ شہلا کو بھی کھینچ تان کر مہمان خانے سے نکال کر لے گئی۔۔ زینہ جانتی تھی کہ خالہ کی گل افشانیاں مذید شہلا کا جی جلائیں گی۔۔۔
کچھ دیر کے لئے کنارہ کشی میں عافیت جانی۔۔۔
پھپھو کیا میں آپا کو امی کے کمرے میں لے جاؤں۔؟؟ زینہ نے غمگین لہجے میں پھپھو سے اجازت طلب کی۔۔ صبح سے سیلابی ریلے بہا بہا کر آنکھوں کے پپوٹے سوجھ چکے تھے، نشیلی آنکھیں حزن و ملال کی کیفیت سے دوچار تھیں۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں زینہ۔! دونوں بہنیں جا کر بیٹھو اور اپنی خالہ کی فکر نہ کرو ، انہیں بولنے دو جو بولتی ہیں۔۔!
جی پھپھو۔! زینہ دھیمے لہجے میں بول کر شہلا کا ہاتھ تھام کر کوریڈور سے ماں کے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔
جنازے سے فراغت کے بعد ذیشان بھائی اپنی زبان کی میل اتارنا نہ بھولے۔۔
امی جان کیوں روتی ہیں۔؟ ان لوگوں کو اپنے خون کی قدر ہے بھلا ؟ میں اپنا خون تھا تو خالہ کی موت کی خبر ملتے ہی دوڑا چلا آیا ہوں ، سب کاروباری معاملات ترک کر کے پہلی ہائی ایس پکڑی ہے مگر یہ نیا داماد تو دیکھو ذرا ،اپنی موج مستی میں مبتلا نجانے کون کون سے گھاٹ کا پانی پی رہا ہے۔اور وہ رضاعی بھائی بھی جنازے میں شرکت نہیں کر پایا ہے ۔
رضاعی بھائی کی حالت بھی دیکھو ذرا۔!!
ہماری خالہ نے اپنی بیٹی کا حصہ اسے پلایا تھا اور آج دیکھو جنازہ تک نصیب نہیں ہوا ہے۔۔۔
زید برداشت نہیں کر پایا تو بول اُٹھا۔۔۔
ذیشان بھائی اول تو یہ وقت اس طرح کی گفتگو کا نہیں ہے اور دوسرا وہ دونوں بھائی دوسرے شہر نہیں بلکہ دوسرے ممالک گئے ہوئے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے جہاز کا ٹکٹ درکار ہے۔
ہاں تو لیتے نا ٹکٹ۔!! غریب تھوڑی ہیں۔!
ذیشان بھائی بچوں کی مارچ اپریل کی چھٹیاں چل رہی ہیں اس لیے لوگ اس مہینے میں زیادہ سفر کرتے ہیں ، اچانک ٹکٹوں کا حصول ناممکن ہے۔۔۔
زید نے بمشکل برداشت کیا اور وضاحت دی۔۔۔
تم تو انکی چمچہ گری کرو گے ، تمہیں ماہانہ انکی طرف سے نوٹ جو ملتے ہیں۔!!
بوڑھی ماں کو پرائے در چھوڑ کر خود پیسے کے پیچھے بھاگتے رہے ہو۔۔ ذیشان نے زہر اگلا۔۔۔
بھائی صاحب ابھی آپ اپنی حد پار کر رہے ہیں ، میری ماں جیسے آپکو یہاں پر نہیں آنے دیتی تھی ویسے ہی مجھ پر بھی پابندی عائد تھی ، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ بیٹی کے گھر میکوں کا زیادہ آنا جانا ہو۔۔۔ آپ کو ذرا بھی خوف نہیں آتا کہ آدھا گھنٹہ قبل ہم سب اپنے ہاتھوں سے امی کو منوں مٹی تلے دفنا کر آئے ہیں۔؟!
امید ہے آپ کو میری بات سمجھ آ چکی ہو گی۔۔! زید نے سوالیہ نظروں سے ذیشان کو دیکھا۔۔
تو بڑا سمجھ دار ہو چکا ہے لہٰذا تو ادھر پرائے گھر میں بیٹھ کر ماں کا سوگ منا ،ہم تو واپس میرپور جا رہے ہیں۔
اماں شہلا اٹھو۔!!! ذیشان نے مہمان خانے میں دائیں بائیں گردن گھما کر شہلا کو ڈھونڈا۔۔
آپا کہیں بھی نہیں جائے گی بھائی صاحب۔!
یہ چند دن اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ ٹھہرے گی ، اس وقت ان دونوں کو ایک ساتھ وقت گزارنے کی اشد ضرورت ہے۔۔۔!!
او اچھا ۔!! روحیل کی بیوی ذیشان سے پردہ کرے اور شہلا کیوں اس نئے داماد روحیل سے پردہ نہ کرے۔؟؟
ذیشان بھائی اول تو روحیل بھائی گھر پر نہیں ہیں اور دوسرا وہ واپس آئے بھی تو انہیں تین سے چار دن لگ جائیں گے۔
تین دن بعد میں آپا کو واپس لے آؤں گا۔
واہ رے واہ تیرا یہ برادری کو کھلانے سے بچنے کا نیا نسخہ۔۔۔!!
تو بھی ادھر ہی پڑا رہے گا کیا ۔؟؟
بھائی صاحب میرا وہاں پر ہے کون ؟؟؟ جو میرا درد بانٹے گا ۔؟؟ ننھیال ددھیال سب کو میری غربت چبھتی ہے ، کسی ایک نے میری ماں کو دیکھا یا پوچھا ہے ۔؟؟؟ سبھی خاموش تماشائی بنے رہے ہیں ، اب میں وہی کروں گا جس میں میرا اور میری بہنوں کا سکون و اطمینان شامل ہو گا ۔۔
ٹھیک ہے پھر تیرے میں اتنی جرآت ہے تو سنبھال دونوں بہنوں کو ایک ساتھ پھر۔
چلو اٹھو اماں چلو چلیں۔! میری تو غیرت نہیں گورارا کرتی کہ میں پرائے در میں پڑا بےعزت ہوتا رہوں۔۔
اے بیٹھ جا تھوڑی دیر ذیشان۔! زینہ کے سسر کو آنے دے اور پھپھو ساس سے بھی چند ایک باتیں کر کے جائیں گے۔!
زید اس گھر کے مکینوں کو بلا کر لا۔!! یہ بھی کوئی طریقہ ہے ہمیں یہاں پر اکیلا بٹھا کر خود غائب ہو چکے ہیں۔! خالہ نے منہ مروڑا۔۔
خالہ بہتر ہے آپ لوگ عزت سے رخصت ہو جائیں۔! کس لیے خواہ مخواہ انہیں تکلیف دوں۔
چلیں میں آپ کو اڈے تک چھوڑ آتا ہوں۔!
اے دیکھ ذیشان۔! کتنا ڈرتا ہے زینہ کے سسرال سے اور سگی خالہ بہنوئی کو چلتا کر رہا ہے۔۔
خالہ ایسی بات نہیں ہے۔!
تو ٹھیک ہے پتر پھر ہم نکل رہے ہیں ، کچھ سوچ کر تم بہن بھائیوں سے رابطہ کریں گے۔
******************************************
زینہ بیٹی شہلا اور زید جا چکے ہیں ،پہلے تو تم دونوں بہنیں اس کمرے میں سوتی رہی ہو مگر اب میں تمہیں اس کمرے میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ہوں۔ آج سے تم اوپر روحیل کے کمرے میں سویا کرو گی۔
روحیل کا کچھ پتا نہیں کب اچانک واپس آ جائے ، تمہیں یہاں نیچے اکیلا دیکھے گا تو پریشان ہو گا۔۔۔ میں بھی نیچے سے اوپر جیمی کے کمرے میں سو رہی ہوں ، بھائی جان بھی اوپر ہوتے ہیں اور ویسے بھی تمہارا اصلی مقام روحیل کا کمرہ ہی ہے ، بلکہ یوں کہو کہ تم دونوں کا مشترکہ کمرہ ہے ۔۔
مجھے پتا ہے اس وقت تمہارے ساتھ اس طرح کی باتیں کرنا غیر مناسب ہے مگر زینہ تمہیں ایک مضبوط کندھے ، ایک سہارے کی ضرورت ہے جو صرف روحیل ہی تمہیں دے سکتا ہے ، میں بھی چند دنوں کی مہمان ہوں ، اپنے گھر لوٹ جاؤں گی۔۔
نہیں پھپھو آپ ابھی نہ جائیں ۔!! میں بہت اکیلی ہو جاؤں گی پھپھو ۔!! زینہ نے بولتے ساتھ زارو قطار رونا شروع کر دیا۔۔
ہائے میری بچی خود کو سنبھالو۔!!
روحیل کا اس وقت تمہارے ساتھ ہونا بہت ضروری ہے۔۔ عاصم تو کل آ رہا ہے ان شاءاللہ۔
تمہاری امی کے انتقال کی اطلاع دوسرے دن ملتے ہی روحیل نئے ٹکٹ کے حصول کے لیے سرگرداں ہے ، یہی بول رہا تھا کہ جتنا جلدی ہو سکا لوٹ آؤں گا۔۔۔
زینہ وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے ، وہ تمہارے لیے پردیس میں پریشان ہے ۔۔ آج ہمت کرکے اس سے بات کر لو میری بیٹی۔!
تم جب بھی روحیل سے بات کرتی ہو صرف روتی رہتی ہو ، آج تم نے روحیل کو باور کروانا ہے کہ تم ابھی بالکل ٹھیک ہو۔۔
جی بہتر۔!
پھپھو میں بہت کوشش کرتی ہوں مگر جب بھی ان سے بات کرتی ہوں ، انکی آواز سنتی ہوں تو میرا خود پر قابو نہیں رہتا ہے، میری آواز بھرا جاتی ہے ، میرے منہ سے کوئی بات ہی نہیں نکلتی ہے۔۔ امی اور روحیل کے درمیان ہونے والی آخری باتیں یاد آ جاتی ہیں۔۔
زینہ تم خود ہی تو بولتی ہو کہ سوگ صرف تین دن کا ہوتا ہے اسکے بعد زندگی کو معمول کے مطابق گزارنا چاہئے۔۔
جی پھپھو۔!! جیسے آپ کی خواہش ہے میں ویسے ہی کروں گی۔۔
اچھا چلو شاباش اپنی اور امی کی ساری چیزیں سمیٹو میں شریفاں کو بھیجتی ہوں وہ تمہاری مدد کروا دے گی۔
ارے نہیں پھپھو میں کر لوں گی، آپ بس چچا کو دیکھیں شاید انہیں چائے کی طلب نہ ہو رہی ہو۔
اچھا لمبا چوڑا سامان کل دن میں اوپر لے جانا ، ابھی وہی لے جاؤ جو ضروری ہے۔!
جی بہتر۔ زینہ نے بھیگے گال رگڑ ڈالے اور الماری دراز کی چھانٹی شروع کر دی۔۔
زینہ ابھی عشاء پڑھ کر سو جاؤ۔! یہ لمبا چوڑا کام بالکل بھی نہیں کرنا ہے۔!
بس پھپھو ابھی دو منٹ میں جا رہی ہوں۔
زینہ نے دکھی دل سے ماں کے خالی بستر پر ہاتھ پھیرا ، اپنا فون چارجر اُٹھایا اور دواؤں والے دراز سے ڈائری اٹھائی اور زینے چڑھنے لگی۔۔
خشوع و خضوع سے نماز عشاء ادا کی اور اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا لئے ، ماں کی بخشش کی دعاؤں سے لے کر روحیل کی جلد اور خیریت سے واپسی پر گڑگڑانے لگی۔۔۔
میرے مالک میرے سر کے تاج ،میرے شوہر گھر خیریت سے لوٹ آئیں آمین ۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی گال نمکین پانی سے تر ہونے لگے۔۔
معصوم نورانی چہرہ شدت غم سے کملا گیا۔۔۔
جائے نماز سمیٹ کر بستر پر آن لیٹی تو روحیل کی پسندیدہ مخصوص خوشبو سرہانے سے ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔
مسنون اذکار کی ادائیگی کے بعد نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔۔ کمرے میں جلتی مدھم روشنی اور مکمل سناٹا چھایا ہوا تھا سوائے دیوار پر آویزاں بڑے گھڑیال کی ٹک ٹک کے۔۔۔
رتجگوں کی ماری زینہ آج ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔ تکیے پر سر رکھتے ہی مدہوش ، فون اور چارجر سنگھار میز پر چھوڑ کر حتیٰ کہ الماری میں ڈائری چھپانا بھی بھول گئی۔۔ ڈائری بستر سے ملحق دراز کے اوپر پڑی رہ گئی ، خود بستر پر لیٹتے ہی خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی۔۔۔
روحیل نے آرام سے بند دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔ کمرے میں مدھم روشنی اور کسی کی موجودگی کا احساس ہوا ، گھر کے کسی بھی فرد کو مطلع کیے بنا آن دھمکا ، اتفاقا ائیرپورٹ سے ٹکٹ کی دستیابی کسی بھی نعمت سے کم نہ تھی۔۔
اچانک گھر واپسی اور کمرے میں پہنچنے پر اپنے بستر پر مدہوش ہستی دیکھ کر چہرہ کھل اٹھا۔۔۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ دھیرے دھیرے دبے پاؤں چلتے ہوئے بستر کے قریب پہنچ کر تصدیق کی تو چہرے پر میٹھی مسکراہٹ بکھر گئی۔۔ طویل سفر کی تھکان اڑن چھو ہو گئی ہو۔۔دعائیں ایسے بھی قبول ہوتیں ہیں۔! میں نے زندگی کے کتنے ماہ و سال جہالت اور لا پرواہی میں گزار دیئے ہیں۔۔میری سفری دعائیں اس قدر دلفریب نتائج دیں گی سوچا بھی نہ تھا۔ سبحان اللہ۔
روحیل نے اپنی تصدیق کے بعد کندھے پر لٹکا لیپ ٹاپ بیگ اور فون کمرے میں موجود میز پر رکھا ، کلائی پر بندھی سلور “ہوگو بوس” کی بیش قیمت گھڑی کو سنگھار میز پر احتیاط سے اتار کر رکھا ، ٹائی کی گرہ ڈھیلی کر کے گہرے نیلے رنگ کا بلیزر اتار کر الماری کے ہینگر میں لٹکایا۔۔۔سفید شرٹ کے اوپری دو بٹنوں کو کھول کر سکھ کا سانس لیا ،
پاؤں جوتوں کی قید سے آزاد کیے اور محتاط دبے قدموں سے چلتا بستر کے قریب آن پہنچا۔۔
اس تمام دورانیے میں زینہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔۔ اللہ جانے اسکی نیند گہری ہے یا پھر شدید تھکن کا شکار ہے۔۔۔ روحیل خاموشی سے زینہ کے پاس فرش پر گھٹنوں کے بل دو زانوں بیٹھ کر اسکا بغور جائزہ لینے لگا
دل میں آئی کہ زینہ کو آواز دے کر اٹھا لے مگر پھر کچھ سوچ کر اپنے نظریے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا ، ہاتھ بڑھا کر مدہوش زینہ کے چہرے کو چھونا چاہا مگر پھر اپنا بڑھا ہوا ہاتھ روک لیا۔۔
شب باشی کی دودھیا مدھم بتی کمرے میں پرکیف منظر پیش کر رہی تھی ، روحیل ٹکٹکی باندھے زینہ کے چہرے کے نقوش ایسے حفظ کرنے لگا جیسے دوبارہ زینہ کے دیدار کی مہلت نہیں ملے گی ۔۔
گزشتہ تین مہینوں سے دیدار کی تشنگی وہ اسی ایک رات پوری کرنے کے در پر تھا ، اپنی آنکھوں کی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ عنابی لب ہنوز مسکرا رہے تھے ، جی چاہا اس منظر اور ان لمحات کو اپنی مٹھی میں قید کرلے ، پرکیف پرکشش منظر دل میں ہلچل مچانے لگا۔ بار بار باغی دل گستاخی پر اکسانے لگا ۔۔
دوبارہ سے زینہ کے چہرے کو چھونے کی کوشش میں دایاں ہاتھ بڑھایا مگر زینہ کے رد عمل کا سوچ کر ہاتھ واپس بستر پر ٹکا دیا۔۔۔
اگر خشک مزاج محبوبہ کی آنکھ کھل گئی تو اس نے خوف سے اس بستر پر سونا بھی نہیں ہے لہذٰا بہتر ہے شرافت سے دیدارِ یار سے نینوں کو خیرہ کیا جائے۔۔۔
معصوم قدرتی حسن دیکھ کر دل میں اطمینان اترنے لگا ، ایسے لگ رہا تھا جیسے سالوں سے زینہ روحیل کے دل میں بستی رہی ہے اور اس سے صرف چار دنوں سے بچھڑا روحیل زینہ کے دیدار کو ترس گیا تھا ، اوپر سے اتنی دردناک آزمائش روحیل کی غیر موجودگی میں زینہ کی دنیا ویران کر گئی۔۔
ماسی امی کی موت کا سوچ کر دل میں زینہ کے لئے جذبہ ہمدردی نے سر اٹھایا۔۔۔
زینہ تم سوچ بھی نہیں سکتی میں نے یہ گزشتہ چار دن کس قدر اذیت میں گزارے ہیں۔۔
روحیل نے اپنے جذبات و احساسات کو مضبوط تھپکی دی اور دھیرے سے اٹھ کھڑا ہوا۔
بنا شور مچائے الماری سے شب باشی کا لباس نکالا اور غسل کے لئے چل دیا ، غسل سے فراغت کے بعد عشاء ادا کی اور پھر بستر پر سوئی عزیز از جان ہستی کی طرف پلٹا۔۔۔ گھڑی رات کے بارہ کا ہندسہ عبور کر کے خراماں خراماں ایک بجے کی طرف رواں دواں تھی۔۔?