دن بھر موبائل کی نگرانی کی مگر اختتام صفر رہا۔ذریت کو گئے دو دن ہو چکے تھے ۔اور اس نے ایک بار بھی حال چال پوچھنے کی زحمت نہیں کی ۔اور ماہ نور کا دماغ جل کر خاک ہو چکا تھا۔اور شائد جلد کانوں سے دھواں نکلنے لگتا۔
کس قسم کے خشک انسان سے رشتہ جوڑا ہے۔منہ بنا کر سر جھٹک کر اس نے سامنے پڑی میز سے سرخ دُھلی گاجر اُٹھائی اور شلف سے پشت ٹکا کر دانتوں سے کاٹنے لگی۔وہ اس وقت سیاہ اور نارنجی شلوار قمیض میں سر پہ اسی کی ہم رنگ چادر کو لئے ہوئے تھی۔پاکستان میں اس وقت رات آٹھ بجے کا وقت تھا۔اور ماہ نور ذریت اس وقت ذریت حسن کی کال کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد اب فون چارجنگ پہ لگا کے کھانا بنانے کی غرض سے کیچن میں آ گئی تھی۔جبکہ وہ پکانے سے زیادہ برتن پٹخ رہی تھی۔
دادی جان نے اسے بولا بھی تھا۔کہ وہ ذریت کو کال خود کر لے۔مگر ہائے رے یہ اَنا جو اگر نہ ہوتی تو کتنا سکون ہوتا۔پر اب ناک کا مسّلہ تھا۔
اس نے کھانے کا دم ہٹا کر اندر چمچہ ہلایا اور ہاتھ نیپکن سے صاف کرتی لاءونج میں آ گئ۔دادی جان ابھی کچھ دیر قبل عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر وہاں آئی تھیں۔سردیوں میں دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے عشاء کی اذان جلدی ہو جاتی ہے۔
اس نے لاوءنج میں آ کر دادی کے پہلو میں بیٹھتے سامنے پڑے ریموٹ کو اُٹھایا اور چینل بدلنے لگی۔ماتھے پہ البتہ ناگواری کے بل متواتر تھے۔
دادی جان آنکھوں پہ نظر کا چشمہ جمائے سویٹر بُننے کا کام بھی سر انجام بھی دے رہی تھیں۔اور اس کے اندر کے موسم کو پڑھ پڑھ کر بھی خوب محظوظ ہو رہی تھیں۔
بھابھی کوئی کام رہ گیا ہے تو مجھے بتا دیں۔اپنے کواٹر سے آ کر کیچن کی جانب جاتے ظفر نے پوچھا تو اس نے سر نفی میں ہلا دیا۔
بس جو برتن پھیلے ہیں پلیز ان کو اکٹھا کر دیں۔آج پتہ نہیں کیوں کیچن صاف ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔منہ بنا کر اس نے کہا ۔تو ظفر سر ہلا کر کیچن کی جانب بڑھ گیا۔
ماہ نور۔۔۔
جی۔۔۔؟سامنے چلتے سکرین کے منظر کو دیکھتے اس نے دادی جان کو دیکھا۔
آپ نے کال نہیں کی؟سویٹر بننے کا کام جاری و ساری تھا۔
ماہ نور نے گہرا سانس لے کر پاءوں صوفے پہ اکھٹے کر لئے۔
نہیں۔۔۔
کیوں؟
وہ۔۔۔وہ میرا فون پتہ نہیں کیوں چارج نہیں ہو رہا تھا۔اس نے اٹک کر کہا۔دادی جان مسکرائیں۔
تو بیٹا دوسرے فون سے کر لیتیں۔
نمبر نہیں آتا تھا۔ہونٹ لٹکا کر جواب دیا۔اُنہوں نے ہاتھ روک کر ذرا سی نظر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ماہ نور ماتھے پہ بل ڈالے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
بیٹا سامنے دراز میں جو ڈائری ہے ناں۔اس میں چیک کرو۔ظفر اس میں نمبر نوٹ کرتا ہوتا ہے۔اور میرے موبائل میں بھی ذریت کا نمبر ہے۔جاءو وہ لے آءو۔
اس نالائق کو تو فُرست ہو گی نہیں۔چلو ہم خود کر لیتے ہیں۔اپنی خوشی کے لئے ہم اتنا تو کر سکتے ہیں۔وہ اس کا گُریز سمجھ رہی تھیں۔تبھی سمجھانے والے انداز میں کہا۔اور اون اپنی گود میں رکھ کر آنکھوں سے چشمہ ہٹا کر ٹیبل پہ رکھ دیا۔سفید چادر کے ہالے میں ان کا شفیق چہرہ بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا۔
ماہ نور نے ایک نظر اُنہیں دیکھا اور ٹانگیں سیدھی کر لیں۔
وہ۔۔۔ہم کھانے کے بعد کر لیں؟اب تو بس بن گیا۔خود فون کرنا ۔۔۔۔بالکل بھی نہیں۔
وہ مسکرا دیں۔ٹھیک۔۔۔۔جیسے تمہاری مرضی۔پر کر ضرور لینا۔واپس اپنے کام کی طرف دھیان دیتے اُنہوں نے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔
————-
ابرار نے آنکھوں سے فریم لیس چشمہ ہٹا کر سڑک کے دوسری طرف فرح کو سنگی بینچ پہ بیٹھے دیکھا اور ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر چشمہ صاف کیا۔بیس منٹ سے وہ وہاں اسے بیٹھا دیکھ رہا تھا۔جو مسلسل محض اپنے ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں دیکھنے میں مصروف تھی۔اور ابرار اس کشم کش میں اُلجھا بیٹھا تھا۔کہ آیا کہ اس کے پاس جائے یا نہ۔۔۔۔یا بس بیٹھ کر دیکھنے پہ ہی اکتاف کرے۔
وہ کسی بھی صورت وہ کام نہیں کرے گی جو میڈم اس کو بول رہی تھی۔یہ بات تو پتھر پر لکیر تھی۔پر اس کام سے بچنے کا کوئی حل نہیں تھا جو سمجھ میں آتا ہو۔پشاور جاتی تو شائد گھر والے پھر کاشف کے ساتھ دو بول پڑھوا کر چلتا کرتے۔اور کراچی جانا ممکن نہیں تھا۔کہ پھوپو دو دن پہلے ہی عمرے کے لئے گئ تھیں۔اور وہ ویسے بھی ان کے گھر کا پتہ نہیں جانتی تھی۔
پریشانی تو مجھ سے آ کر ایسے ملتی ہے۔جیسے میری سگھی بہن ہو۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔جو جتنا بھی اچھا سوچ لیں۔انجام پہ پھر خالی ہاتھ رہتے ہیں۔اس کابھی حال اس وقت یہی تھا۔ایک جگہ سے نکلتی تو دوسری جگہ پھنس جاتی تھی۔زندگی اور اس کا حال چوہے بلی والا تھا۔وہ سوچ کر آپ ہی آپ مسکرا دی۔اور تنفر سے سر جھٹکا۔
کیا تھا اللہ جی اگر میں۔۔۔کسی ایسے گھر میں پیدا ہو جاتی۔جہاں میرے والدین کم از کم میری بات تو سُنتے ہوتے۔اُنہیں مجھ پہ یقین ہوتا تو شائد مجھے اس طرح در در دھکے نہ کھانے پڑتے۔ضبط سے ہونٹ کاٹتے اس نے سوچا تھا۔
ابرا کو حیرت تھی کہ وہ ایسا کیا سوچ رہی تھی۔کہ اپنے ارد گرد سے بالکل بے گانہ تھی۔کوئی حوش ہی نہیں تھا۔
والدین اگر ضرورت سے زیادہ زور ،زبردستی یا رعب دیکھانے کی بجائے بچوں سے دوستی والے ماحول کو بنائے رکھیں تو حالات زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔کہ اگر بچوں پہ ڈنڈا رکھا جائے تبھی وہ سیدھے رہتے ہیں۔جبکہ یہ غلط ہے۔
فرح نے دونوں آنکھیں پٹپٹا کر آنسو اندر اُتارے اور بنچ سے اُٹھ کر پیدل ہوسٹل کی جانب چلنے لگی۔ابرار نے بھی کار سٹارٹ کر دی۔
اس کی حالت دیکھ کر تو وہ اندازہ لگا ہی چکا تھا ۔کہ یقیناًوہ پریشان تھی۔اب بس اسے اس سے جاننا تھا۔فرح کو مشکل میں دیکھنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
فرح اپنی سوچوں میں غلطاں چلی جا رہی تھی۔جب ایک کار نے اس کی پشت پہ اس قدر زور سے ہارن دیا کہ وہ دہلا کر موڑی تھی۔
اس کے ڈر کر اور اچھل کر مُڑ کر دیکھنے پہ وہ حیران ہوا تھا۔وہ کیا سوچ رہی تھی۔کہ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ وہ مسلسل اس کے پیچھے آ رہا ہے۔
فرح کا سانس اندر ہی اٹک گیا جب اس کی نظر ابرار پہ پڑی۔۔۔۔اسے ابرار کو پہچاننے میں محض لمحے لگے تھے۔اور اسے لگا اس کی ٹانگیں وزن چھوڑ دیں گی۔یہ شائد شاک تھا۔جو ابرار کو دیکھ کر لگا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ گِرتی ابرار نے بازو سے پکڑ کر اسے سہارا دے دیا۔اور پریشانی اور فکر کے ملے جلے جزبات کے ساتھ اس کو لئے گاڑی کا دروازہ کھولتا ۔اسے بیٹھا کر اپنی سیٹ کی جانب بڑھا۔
اس نے گاڑی سٹارٹ کر کے ڈری اور حیران پریشان سی فرح کو دیکھا۔اور ماحول کو نارمل بنانے کو مسکرا بھی دیا۔
میں ادھر سے گُزر رہا تھا۔جب آپ ایک دم سے فٹ پاتھ سے سیدھا میری گاڑی کے سامنے آ گئیں۔اس کو حیران دیکھ کر اس نے سچ جھوٹ ملا کر کہا۔فرح جو کھڑکی کے ساتھ پشت ٹکائے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی مڑی۔۔۔اور سیدھی ہو بیٹھی۔
جی وہ میں بس۔اسے سمجھ نہیں آئی کیا کہے۔سو جملہ بیچ میں ہی چھوڑ کر باہر دیکھنے لگی۔
آپ ادھر؟
میرا مطلب ہے۔کہ ماہ نور جانتی ہے۔کہ آپ ادھر ہیں؟اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔کہ کیسے اپنے مطلب کی بات پوچھے۔
میرا ہوسٹل یہاں پاس ہی ہے روک دیں۔اس نے جواب دینے نے بجائے گاڑی روک دینے کو کہا تو ابرار نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے گاڑی روک دی۔
مجھے اُمید ہے۔کہ آپ ماہ نور کو میری مو جودگی کا نہیں بتائیں گے۔اس عجیب سی ملاقات میں ختتامیہ کلمات یہ تھے۔ابرار بس حیرت سے اسے جاتا دیکھتا ہی رہا۔جس ملاقات کا سوچ کر وہ رات سے سکون کی نیند سو نہیں پایا تھا۔وہ گُزر بھی چکی تھی۔اور اس کی سوچ سے کہیں زیادہ مختصر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور نے کمرے میں آتے ہی وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑی ہو گئ۔ابھی وہ دوسری رکعت پہ ہی تھی جب موبائل بجا۔کان کھڑے ضرور ہوئے۔پر اس وقت وہ اللہ کے سامنے کھڑی گفتو شنید میں مصروف تھی۔سو پڑھتی رہی۔یوں موبائل اس کی نماز کے دوران بجتا رہا پر اس نے نماز مکمل کر کے ہی اُٹھایا۔۔۔۔
نماز اس نے آدھے گھنٹے میں مکمل کی اور اس عرصے میں ذریت کا پارا ساتویں آسمان کو چھو چکا تھا۔
اس کے فون اُٹھاتے ہی پھٹ پڑا۔
فوں کہاں چُھپا کے رکھا تھا۔دو گھنٹوں سے کال کر رہا ہوں اور کوئی جواب ہی نہیں۔ہوٹل کے کمرے میں اس کی جھنجھلائی ہوئی آواز گونجی۔ماہ نور نے ناگواری سے فون کان سے ہٹا کر سکرین کو دیکھا۔
اوہ۔۔۔۔تو آپ کو یاد تھا۔کہ گھر بھی فون کرنا ہے۔جل کر اس نے کہا۔
ہاں تھا تبھی کیا ناں۔اس کا موڈ سخت آف معلوم ہوتا تھا۔ماہ نور کو مزہ آیا۔
آہاں۔۔۔کیا ہوگا۔پر میں مصروف تھی۔تبھی یاد نہیں رہا آپ کا۔لفظ آپ کا اس نے جانبھوج کے بولا تھا۔ذریت دانت کچ کچا کر رہ گیا۔
ہاں میرے سے اہم ایل و سی کی لڑائی ہے جو تم لڑ رہی تھی۔ٹھیک ہے سمجھ گیا۔تم اچھا کر رہی ہو۔پاک بھارت لڑائی میں اگر تم کام بھی آ جاءو گی تو میرا بھلا ہی ہو گا۔ضبط سے اس کے منہ میں جو آیا اس نے کہہ دیا تھا۔ماہ نور نے منہ بنا کر سر سے چادر ہٹائی اور شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں کو کیچر سے آزاد کر کے سہلانے لگی۔
عورتیں ایل و سی پہ نہیں جاتیں۔اپنی طرف سے طنز کیا۔
باقی نہیں جاتیں پر تم جاتی ہو۔اس نے خوب جل کر کہا تھا۔
اچھا ابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔اگر کوئی کام ہے۔تو بتائیں۔۔۔
نہیں کچھ نہیں۔اسے لگا تھا وہ اس کو یاد کر کر کے ہلکان ہو رہی ہو گی۔پر وہاں اس قدر سنجیدہ اور بے فکر انداز دیکھ کر ذریت کو سخت مایوسی ہوئی تھی۔
دادی جان آپ کو یاد کر رہی تھیں فارغ ہو کر اُنہیں کال کر لیں۔بالوں میں برش کوتے اس نے کہا تھا۔
ٹھیک ۔۔۔۔ کر لوں گا۔ اور کچھ؟منہ بنا کر پوچھا۔
اور کچھ نہیں۔۔۔۔مجھے سخت تھکاوٹ ہو رہی ہے۔میں سونے جا رہی ہوں۔کہہ کر اس نے چڑانے کو جمائی بھی لی۔
ہاں۔۔۔۔ٹھیک ہے کرو تم نیند پوری۔کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
اب لگا ناں بُرا۔۔۔فون رکھ کر اس نے مسکراتے برش بالوں میں چلاتے خوب محظوظ ہو کر خود سے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردی اور دُھند ایک ساتھ ہوسٹل کی عمارت پہ آ پڑی تھیں۔اور اندر موجود نفوس کپکپا اُٹھے تھے۔فرح اس وقت ہوسٹل کی چھت پہ بیٹھی چڑیہ کے بچوں کو چاول کے دانے ڈال رہی تھی۔جو اس نے باورچن سے لئے تھے۔وہ دونوں کل ہوا سے ہوسٹل کی چھت پہ آ گِرے تھے۔چڑیہ ساتھ نہیں تھی۔بے کسوں کو مولا سہارا دے ہی دیتا ہے۔
فرح نے ہاتھ کی ہتھیکی پہ چاول کو دانا رکھ کر ننھے چڑیہ کے بچے کے سامنے کیا تو اس نے ایک دو بار اپنی ننھی آنکھوں سے دیکھا اور چونچ میں چاول کا دانا ڈال کر منہ آسمان کی جانب کیا اورکھانے لگا۔اسے لگا جیسے وہ آسمان کی طرف دیکھ کر اس کے لئے دعا کر رہا ہو۔فرح کو لگا جیسے اس کی دعا اللہ ضرور سُن رہے ہوں۔
اچھی بات ہے کریں نیکی۔اللہ آپ کے پیچھلے گُناہ معاف کریں۔مسکرا کر اس کے پہلو میں کھڑے ہو کر میڈم نے کہا تھا۔وہ جو اپنے کام میں مگن مسکرا کر ننھے چڑیہ کے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔دہل کر مُڑی۔۔۔اس کے ڈرنے پہ میڈم نے قہقہ لگایا ۔فرح کو اگر کسی کے ہنسنے سے شدید مفرت تھی تو وہ میڈم تھی۔وہ مُڑ کر واپس نیچے جانے والی تھی۔جب میڈم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
ہمارے کام میں کامیابی ان کی قسمت میں لکھی جاتی ہے۔جو نڈر ہوں۔اگر چاہتی ہو کہ تمہارا نام بنے ۔تو اپنے اندر سے ڈر ختم کر دو۔بات کو بغیر کسی تاثر کے کہہ کر اختتام پہ اس نے اس کا گال تھپ تھپایا۔فرح کے ماتھے پہ ناگواری کے بل گہرے ہوئے اس نے جھٹکے سے اپنا بازو اس کے ہاتھ سے آزاد کروایا۔
نڈر تو ہر کام کو کرنے سے پہلے ہونا پڑتا ہے۔ہاتھی کو گِرانے کے لئے جب تک چونٹی نڈر ہو کر نہیں آگے بڑھے گی۔تب تک بڑے مقصد کے حصول کو نہیں پا سکے گی۔اب کی بار وہ مسکرائی تھی۔میڈم کے چہرے کی بھی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
آپ کا بولنے کا انداز بہت لاجواب ہے۔کیا کبھی کسی نے بتایا آپ کو۔۔۔۔دل جلانے والی مسکراہٹ۔
چاپلوسی کی خواہش آپ جیسوں کو ہوتی ہے میڈم۔میرے جیسے تو سادھو لوگ ہوتے ہیں۔اس نے بھی اُدھار رکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔کہہ کر تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
اچھی بات ہے۔۔۔۔رات میں ضیا صاحب آ رہے ہیں۔آپ سے آپ کا جواب لینے۔تب تک سوچ لیں۔اس کو جاتا دیکھ کر میڈم نے کہا تھا۔فرح کے قدموں میں تیزی آ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بس ادھر رُکیں میں بیس منٹ میں آ رہی ہوں۔وہ ابھی ابھی مین مارکٹ تک پہنچی تھی۔اسے گھر کے لئے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں۔اور کیاریوں میں لگانے کو کچھ پھولوں کے بیج لینے تھے۔دادی کو بتا کر وہ ابھی آئی تھی۔
اس نے نرسری سے بیج لئے اور وہاں سے کراکری سٹور پہ آ گئی۔۔۔
ابھی اس نے کچھ برتن نکلوائے تھے۔جب اسے اپنی پشت پہ کسی کی آواز آئی۔اور وہ تعجب سے مُڑی۔
مسسز ذریت ۔۔۔۔یہ الفاظ کوئی پہلی بار اس کے لئے استعمال کر رہا تھا۔اس نے مُڑ کر پیچھے دیکھا تو وہاں ایک الٹرا ماڈرن سی لڑکی مسکراتی نظر آئی۔ماہ نور اسے پہچان نہیں پائی تھی۔
جی؟
کیسی ہیں؟لڑکی نے ہاتھ ملانے کو اپنا نازک سامخروطی ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تو ماہ نور نے تھام کر مسکرا کر محض سر ہلانے پہ اکتاف کیا۔
اس کاہاتھ اتنا نازک تھا۔ماہ نور کو کاغز کا بنا ہی معلوم ہوا۔
گھر کے لئے شاپنگ کر رہی ہیں؟برتنوں کی طرف اشارہ کر کے اس نے دوستانہ انداز میں پوچھا۔تو ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
جی۔۔۔
سوری میں نے پہچانا نہیں آپ کو۔آخر اس نے اس خوبصورت سی نازک سی ہری آنکھوں والی لڑکی سے پوچھ ہی لیا۔جس کی چہرے کی جلد ایسے چمک رہی تھی۔جیسے پرل ہوں۔
میں مسسز نتاشا۔۔۔آپ کے ہزبنڈ کی ایکس گرل فرنڈ۔کہہ کر اس نے ایک بے ہنگم سا قہقہہ لگایا اور ماہ نور کو لگا جیسے لڑکی کا دماغ چل گیا ہو۔اس نے اب کی بار ناگواری اور نا سمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
عجیب لگا ناں۔۔۔۔ویسے مشرقی عورتوں کے ساتھ یہی حال ہوتا ہے۔جب وہ ایسی بات سُنتی ہیں۔جیسے ابھی آپ کی ہوئی۔ویسے کہاں ہیں ابھی مسٹر ذریت۔میں آپ سے ملنے آپ کے گھر ضرور آءوں گی۔اپنے سویٹ ہبی کو بتائے گا۔اس کے چہرے پہ پھیلتے تاثر کو دیکھ کر نتاشا خوب محظوظ ہوئی تھی ۔اس لئے آگے کہہ کر اس نے اپنے قیمتی ہینڈبیگ میں ہاتھ ڈال کر حیران پریشان سی ماہ نور کو ایک خاکی لفافہ تھمایا۔اور مُڑنے سے پہلے بڑے انداز میں اس کی گال کو بوسہ لیا۔
یہ دیکھ لیجئے گا۔یہ میں نے آپ کے لئے رکھا تھا۔آپ کے گھر بھیج دیتی مگر آج آپ نظر آئیں تو سوچا آپ کو یہیں دے دوں۔
ویسے ذریت کا پرفیوم بہت اچھا ہے۔اب بھی وہی یوز کر رہا ہے۔؟نہ جانے وہ کیا جتانا چاہ رہی تھی۔ماہ نور کے ماتھے پہ ناگواری کے بل کچھ اور گہرے ہوئے۔آنکھوں میں ناپسندیدگی بھی ابھری۔نتاشا مگر وہاں اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے نہیں رکی تھی۔لفافہ دے کر تیزی سے واپس مُڑگئ۔
ماہ نور نے ایک نظر اسے جاتے دیکھا اور تنے ہوئے ابرو کے ساتھ لفافہ ہینڈ بیگ میں رکھ لیا۔اس کے بعد اسے اپنے ہاتھ پہ ایک انجانہ سا بوجھ ہی محسوس ہوتا رہا۔کچھ ضروری چیزیں بہت بے دلی سے لے کر وہ واپس آ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرح نے سکول سے ریزائن دے دیا تھا۔اور اب ہر روز صبح گھنٹہ گھنٹہ اسی سنگی بینچ پہ آ کر سوچتی رہتی۔زندگی کو ہر طرح سے بچانے کی کوشش میں تنہا ہلکان ۔۔۔۔رات اس نے سوچا تھا۔کہ چپ کر کے پشاور واپس لوٹ جائے۔لاہور اس کی قسمت میں نہیں ہے۔یہاں کی تیز زندگی اسے راس نہیں آئے گی۔مگر پھر بلیک میلنگ کے خوف اور کاشف کی موجودگی کے ڈر سے وہ اگلا قدم نہیں اُٹھا پا رہی تھی۔
کہیں نہ کہیں ابرار کی موجودگی کا احساس بھی اسے تھا۔جس طرح پیچھلی بار اس نے اسے بچایا تھا۔اب کی بار بھی بچا لیتا اسے یقین تھا۔مگر وہ اس کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی۔ماہ نور اس کے بارے میں کیا سوچتی۔
ابرار کے بارے میں ماہ نور کی شادی سے پہلے اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ابرار ابتسام کے بارے میں مختصر وہ ماہ نور سے سُنتی رہتی تھی۔مگر کبھی ایسا کچھ دلچسپ نہیں لگا تھا۔سوائے اس کے کہ ابرار ماہرِنفسیات تھا۔جسے انسان کی نفسیات پڑھنے میں دلچسپی تھی۔اس کے آگے بس فُل سٹوپ تھا۔۔۔۔
اس نے اس کے بارے میں دلچسپی تب لی جب اس نے ابرار کو ماہ نور کی شادی پہ نوٹ کیا۔وہ ایک سنجیدہ اور بُردبار شخصیت کا حامل مرد تھا۔ذمہ داری اُٹھانےوالا۔گھر والوں کے لئے ایثار کا جزبہ رکھنے والا۔محض گھر والوں کے لئے نہیں۔تمام جانداروں کے لئے۔اسے یاد تھا ۔کہ کس طرح ماہ نور کی شادی پہ اس نے اسے لان کی کئیر کرتے دیکھا تھا۔ہر چیز کو سمبھال کے رکھنا وہ بہت بہتر انداز میں جانتا تھا۔اور جس کی آنکھوں پہ فریم لیس چشمہ اسے بہت جچتا تھا۔اس نے اسے اس وقت نوٹس کیا جب اس نے فرح کو احساس دلایا کہ وہ اس کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے۔جب اس نے اس کی مدد کی۔لڑکیوں کو ہمیشہ وہی مرد پسند آتے ہیں ۔جو ان کی عزت اور کئیر کرتے ہیں۔محبت بھی ہو ہی جاتی ہے۔مگر عزت اور کئیر کرنے والا ملنا خوش قسمتی کی علامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور نےگھر میں داخل ہوتے ہی۔دادی جان کو سلام کیا۔اور تیزی سے اپنے کمرے کی جانب آ گئ۔اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ذریت کے بارے میں پہلی بار وہ کچھ ایسا سُن رہی تھی۔جو اس کو امتحان میں ڈال سکتا تھا۔
ابھی ابھی تو ان کا رشتہ ڈھنگ سے بننے لگا تھا۔ایک عام میاں بیوی کی طرح اُنہوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا سوچا تھا۔کہ ایسے میں نتاشا واپس آ گئی ۔۔۔۔
ماہ نور نے کمرے میں آتے ہی۔۔۔لاءٹ آن کی اور سر سے سکارف نوچ کے اُتارا اور دور صوفے پہ اُچھال کر پاءوں بند جوتوں سے آزاد کئے اور بیڈ پہ دھرے بلینکٹ میں گھس کر تیزی سے لفافہ ہینڈ بیگ سے نکالا۔
لفافہ کھولتے ہی۔۔۔ماہ نور کے سامنے بہت سی تصویریں اور کچھ ریکاڈنگز نکل کر اس کی جھولی میں آ گِری تھیں۔
اوپر نیچے پڑی تصویریں تعداد میں ایک سو کے قریب تھیں۔
ماہ نور کو لگا اس کا دل بند ہو رہا ہو۔
جس پہلی تصویر کو اس نے اُٹھایا۔۔۔اس میں ذریت اور نتاشا دونوں ہی تھے۔نتاشا کا چہرہ واضح جب کے ذریت کا چہرہ آدھا جھکا ہوا تھا۔وہ دونوں کسی پارک میں بیٹھے تھے۔نتاشا کا سر ذریت کے کندھے پہ تھا۔وہ شائد رو رہی تھی۔اور ذریت اسے دلاسہ دینے کو اس کی کمر سہلا رہا تھا۔ماہ نور کا دل ٹوٹا۔اس نے تصویر واپس اسی لفافے میں ڈال کر اگلی تصویر اُٹھائی۔اب کی بار تصویر ایک سیلفی تھی۔جسے نتاشا نے ڈیویلپ کروایا تھا۔
سیلفی میں ذریت نتاشا کو دیکھ کر ہنس رہا تھا۔جبکہ نتاشا اس کا دائیاں گال کھینچ رہی تھی۔ماہ نور نے وہ تصویر بھی واپس رکھ دی۔اس سے اگلی تصویر ایک ہوٹل کی تھی۔جس میں وہ دونوں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ذریت کی پشت تھی۔مگر ماہ نور اسے پہچانتی تھی۔اپنے مرد کو تو عورت ہزاروں میں پہچان جاتی ہے۔ماہ نور نے وہ تصویر بھی رکھ دی۔بلاشبہ یہ تمام تصویروں میں بیشتر وہ تھیں۔جو ذریت نے اکمل کے ہاتھ اسفند کو بھیجوائی تھیں۔نتاشا نے وہ سب اس کے ہی خلاف استعمال کی تھیں۔ماہ نور نے تمام تصویریں واپس اسی لفافے میں ڈالیں ۔اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔اسے دکھ تھا شدید دکھ۔۔۔۔اس نے شادی کرنے میں غلطی کی تھی۔
اس نے ریکاڈنگ سُننا ضروری نہیں سمجھا تھا۔جو کچھ نتاشا اسے جتانا چاہتی تھی۔ماہ نور وہ سمجھ چکی تھی۔وہ یہی تو جتانا چاہتی تھی۔کہ ماہ نور اس کی زندگی میں ایک انچاہی لڑکی تھی۔جب کہ محبت تو وہ نتاشا سے کرتا تھا۔ماہ نور کو بھی یہی محسوس ہوا جیسے وہ اس کی زندگی میں ایک بوجھ بنا کر شامل کی گئی تھی۔حلانکہ وہ گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔اور نہ ہی کوئی قابلِ ترس آپاہج لڑکی تھی۔جس کو رشتوں کی کمی ہوتی۔
اگر وہ ان پڑھ جاہل گوار ہوتی۔تو بھی وہ کبھی بوجھ نہ ہوتی۔مگر اب کہ وہ ان پڑھ جاہل یا گوار نہیں تھی۔وہ خوبصورت بھی تھی۔عقل شعور بھی رکھتی تھی۔پہنانا اوڑھنا بھی جانتی تھی۔تعلیم بھی حاصل کی تھی۔مگر پھر بھی اسے اس لمحے اپنا آپ ایک بوجھ معلوم ہوا۔
وہ لفافے سمیت کمرے سے نکل کر دادی جان کے کمرے میں آ گئ۔وہ یہ سب اُنہی سے شئیر کر سکتی تھی۔
اسنے دھیمی آواز میں دروازے پہ دستک دی ۔اور دادی جان کو تسبیح پڑھتے اور اپنی جانب اشارہ کر کے آنے کی اجازت دیتے دیکھ کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔اس نے ان کے بائیں جانب گھوم کر بیڈ پہ اپنے لئے جگہ بنائی اور ان کی گود میں سر رکھ لیا۔دادی جان نے اس کا پریشان چہرہ دیکھ لیا تھا۔وہ اس سے پوچھنے والی تھیں جب ماہ نور نے روتے ہوئے ان کے سامنے خاکی لفافہ کر دیا۔
ماہ نور کو روتا دیکھ کر ان کے ہاتھ پاءوں پھول گئے تھے۔اُنہوں نے ناسمجھی سے بے آواز روتی ماہ نور کے ہاتھ سے لفافہ پکڑا اور سائڈ ٹیبل سے اپنا چشمہ اُٹھا کر آنکھوں پہ رکھ لیا۔چشمہ لگا کر لفافے سے نکلنے والی ہر تصویر کو اُنہوں نے بہت غور سے دیکھا تھا۔ ماہ نور نے اپنی اور نتاشا کی ملاقات بھی بتا دی تھی ۔اور اُنہیں افسوس ہوا تھا۔ذریت نے دھوکہ دیا اس بات پہ اُنہیں یقین نہیں تھا۔مگر ایک لڑکی کسی دوسرے کا گھر خراب کرنے کو اس قدر گِر جائے گی۔اس بات کا اُنہیں دکھ تھا۔اُنہوں نے تمام تصویریں دیکھنے کے بعد لفافہ بند کر کے ساءڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا۔اور ماہ نور کے سر پہ ہاتھ رکھ کر ہونٹ کے بالوں پہ رکھ کر بوسہ لیا۔اُنہیں نتاشا بالکل یاد نہیں تھی۔
دادی جان اب میں کیا کروں؟روئی روئی آواز میں اس نے اُن سے پوچھا تھا۔
اُنہوں نے گہرہ سانس لے کر اپنے اندر کی بے چینی کم کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
بیٹا مجھے اپنے پوتے پہ یقین ہے۔میں نے اس کی تربیت کی ہے۔میں اس کے انگ انگ سے واقف ہوں۔لیکن میں تم سے کہوں گی۔کہ تم اپنے دل اور عقل دونوں کو استعمال کر کے فیصلہ کرو۔کہ تمہارے خیال میں ذریت کو تم سے محبت نہیں ہے؟
کیا وہ تمہاری بجائے کسی اور کو چاہتا ہے؟
کیا اسے تمہاری پروا نہیں ہے۔؟نرمی سے بولتے ہوئے وہ ماہ نور کو سمجھا رہی تھیں۔اور ماہ نور کے رونے میں شدت آتی جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادی جان میں گھر جانا چاہتی ہوں۔رات کھانے کی میز پہ بیٹھتے اس نے کہا تھا۔
دادی جان نے سر ہلا دیا۔
چلی جاءو۔بہتر ہے۔۔۔۔
لیکن بچے فیصلہ عقل مندی اور دور اندیشی سے کرنا۔رشتے آسانی سے جوڑے جاتے ہیں اور نہ توڑے۔اُنہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے فیصلہ کرنے دیا تھا۔تاکہ وہ خود سوچے اور دور اندیشی سے فیصلہ کرے۔
ماہ نور نے جواب میں سر ہلا دیا۔مگر اس نے یہ نہیں بتایا۔کہ وہ فیصلہ کر چکی ہے۔
کیا وہ ایک ایسے مرد کے ساتھ رہ سکتی تھی۔جس نے اس کے عتبار کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔تو جواب تھا نہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آ کر ماہ نور نے مختصراًسامان باندھا اور بابر کو فون کر کے آنے کا بول کر خود حولیہ درست کرنے کو باتھ روم میں گھس گئ۔
لیمن اور سبز رنگ کھدر کے شلوار قمیض پہ سیاہ جیکٹ پہن کر اس نے سر اور شانوں کو سوٹ کی ہم رنگ چادر سے ڈھکا اور کوٹ شوز پہن کر ملازم کو بلا کر سامان لے کر باہر آ گئ۔
دادی جان لاءونج میں بیٹھی تھیں۔اس کے آنے پہ اُٹھ کر کھڑی یوئیں۔
جا کر مجھے وہاں کے حالات سے ضرور آگاہ کرنا۔اور عقل مندی سے حالات کا جائزہ لینا۔نرمی سے کہتے وہ اس کا شانہ سہلا رہی تھیں۔ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
کچھ دیر تک ماہ نور وہاں کھڑی ظفر کو تاکید کرتی رہی۔اور جب بابر آیا تو دادی جان سے گلے مل کر تیزی سے باہر نکل گئ۔ملازم سامان لے جا چکا تھا۔
بابر کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات گہرے تھے۔
وہ ٹھیک تو ہے؟انجانے خوف سے سہم کر اس نے پوچھا۔
بابر نے جواب میں سر نفی میں ہلا دیا۔ابرار بھائی اس وقت کافی پریشان ہیں۔وہ اُنہں اندر آنے کا بول رہے تھے۔لیکن وہ سردی میں لان میں ہی بیٹھی ہوئی ہیں۔میں گھر سے باہر تھا۔صورتِحال کا پتہ چلا تو تمہیں کال کر دی۔گاڑی کا سٹئرنگ ویل گھوماتے اس نے تفصیل سے جواب دیا۔اور ایک اچٹتی سی نگاہ ماہ نور پہ بھی ڈالی۔
وہ چہرے سے کافی پریشان نظر آ رہی تھی۔اسے اس کی وجہ فرح ہی لگی۔
تم نے دادی جان کو آنے کی وجہ بتا دی تھی؟کسی خیال کے تحت اس نے ماہ نور سے پوچھا۔ماہ نور درود پاک پڑھنے میں مصروف تھی۔محض سر ہلا کر جواب دیا۔
اُنہوں نے جواب میں کیا کہا؟
کچھ نہیں۔۔۔۔بس یہی کہ پہنچتے ہی کال کروں۔اس نے رک کر جواب دیا۔اور پھر سے ورد کرنے لگی۔بابر اب کی بار خاموشی سے کار چلانے لگا۔
گاڑی گیٹ کے سامنے کچھ ہی دیر بعد ہارن دے رہی تھی۔گاڑی کا ہارن سُن کر گارڈ نے گیٹ وا کر دیا۔اور بابر گاڑی اندر گیراج تک لے آیا۔ماہ نور بڑی بے تابی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تھی۔
سیاہ آسمان پہ سفید دُھند کی لپیٹ شدید گہری تھی۔جو لان میں لگی روشنیوں میں بہت نمایاں تھی۔
ماہ نور کو وہ ایک لائٹ پول کے نیچے سکڑی سمٹی بیٹھی نظر آئی۔ماہ نور نے اس تک کا سفر بھاگ کر طے کیا تھا۔
بھاگنے کی آواز ۔۔۔۔قدموں کی تیزی سُن کر فرح نے گھٹنوں سے سر اُٹھایا۔ماہ نور حیرت اور پریشانی کے ملے جُلے تاثرات لئے اسے دیکھ تھی۔
ماہا۔۔۔۔ایک سسکاری کے ساتھ اس کے منہ سے ماہ نور کا نام ادا ہوا۔اور سردی میں اکڑی ٹانگوں کو گھسیٹتے وہ اُٹھ کر اس کے کندھے سے جا لگی تھی۔اور بہت سے بے آواز آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ کر ماہ نور کی جیکٹ پہ پھیل گئے۔اسی طرح ماہ نور کی آنکھ کا ہر ہر آنسو فرح کی چادر کو بھگوتا چلا گیا۔
ابرار جو اندر سے فرح کے لئے گرم کافی اور چوکلیٹ لا رہا تھا۔ماہ نور کو وہاں دیکھ کر ٹھٹکا تھا۔
لیکن پھر گیراج میں گاڑی سے پشت ٹکائے پنٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے بابر کو دیکھ کر سمجھ گیا ۔کہ ماہ نور کو وہی لایا ہے۔
اُستادتمہارا ساتھ تو قسمت دے رہی ہے۔آ گئ نند اب بس وہی سمبھالے گی۔کہہ کر اس نے اس کے بائیں ہاتھ سے کافی کا مگ پکڑا اور آنکھ سے اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔وہ کافی کا مگ ابرار اپنے لئے لایا تھا۔
ابرار اس کے اس بےباک تبصرے پہ دھیمہ سا مسکرایا اور ماہ نور اور فرح کی جانب بڑھا جو رونے کا کام بڑی دلجمعی سے کرنے میں مصروف تھیں۔
لیڈیز ۔۔۔۔باقی رونا دھونا بعد میں۔۔۔پہلے یہ کافی لے لو۔ٹرے رکھتے اسنے کہا۔تو اس کی موجودگی پا کر فرح تیزی سے سیدھی ہو کھڑی ہوئی تھی۔جبکہ ماہ نور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کی جانب قدم بڑھا دئے۔
وہ اندر اس لئے نہیں جا رہی تھی۔کہ گھر پہ کوئی بھی نہ تھا۔اور وہ ایسے ہی عورت کے بغیر کسی کے گھر جانے کی حماقت نہیں کر سکتی تھی۔زندگی نے اسے ایسے سبق سکھا دئے تھے۔کہ اب اس میں مزید سکت باقی نہیں تھی۔کہ وہ مزید کوئی بات اپنے کردار پہ برداشت کرتی۔
ماہ نور اسے گھر کے اندر لے آئی۔۔۔اور سیدھا اسے اپنے کمرے لے جا کر کمبل میں بیٹھا دیا۔
گرم کمبل میں دُبک کر بیٹھنے سے اور اوپر سے ابرار کی بنائی گئ کافی پی کر جسم تیزی سے گرم ہوا تھا۔
اس کے تاثرات دیکھ کر ماہ نور نے کوئی ایسی بات نہیں چھیڑی جس سے فرح مزید پریشان ہوتی۔
ماہ نور پلیز کچھ غلط مت سمجھنا۔میرے پاس کوئی چارا نہیں تھا۔سوائے وہاں سے بھاگ کر آنے کے۔ماہ نور خاموشی سے اس کے پاءوں کی سائڈ پہ بیٹھی حالات کا جائزہ لینے کی کوشش میں تھی۔جب فرح نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا تھا۔ماہ نور سے مخاطب ہوتے ایک آنسو بہت خاموشی سے اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلتا قمیض کے گلے میں جزب ہوا تھا۔
ماہ نور چونک اُٹھی اور بے اختیار اُٹھ کر اس کے ساتھ جا بیٹھی۔اور روتی فرح کا سر اپنے کندھے سے ٹکا کر سر سہلانے لگی۔
فری۔۔۔میری جان۔۔۔کیا ہوا؟
مجھے کچھ بتاءو ہوا کیا ہے؟تم پشاور سے کب آئی؟اکیلی کیسے آئی؟
مجھے اپنے رونے کی وجہ تو بتاءو۔ایک ہی سانس میں اس نے پریشان کرتے تمام سوال پوچھ ڈالے تھے۔فرح کے رونے میں مزید شدت آ گئ۔اور ماہ نور اپنی تکلیف اور پریشانی بھولے اسے سہارا دئے بیٹھی آنسو پونچتی رہی۔
میں ۔۔۔بالکل اکیلی پوں ماہ نور۔۔۔بابا نے امی جی نے۔۔۔کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔پھوپو مجھے پشاور سے لے آئیں۔اور یہاں ایک نئ جہنم میں چھوڑ دیا۔روتے ہوئے وہ اُلجھے الفاظ بول رہی تھی۔اور ماہ نور حیرت و بےیقینی سے اور کچھ اُلجھ کر اس کی ایک ایک بات سُن رہی تھی۔
دروازے پہ آئے ابرار کے ہاتھ ڈور نوب پہ ہی ساکت ہو گئے۔۔۔اس کے قدم برف ہوئے اور سانس چلنا ایک لمحے روکی۔۔۔
مجھے بتاءو ۔۔۔تم کیا بات کر رہی ہو۔ہر بات تفصیل سے کہو۔جودل میں ہے سب کہہ دو۔اس کی کمر سہلا کر اس کے سر کا بوسہ لے کر اس نے ملائمت سے کہا تھا۔فرح کو ڈھارس سی محسوس ہوئی اور اس نے وہ سب کہہ دیا جس کا بوجھ اُٹھئے وہ ماری ماری پھر رہی تھی۔اس نے بہت روتے ہوئے ۔ہچکی کے دوران سب کہہ دیا تھا۔ابرار کا دل غم سے رو پڑا تھا۔
اپنے چاہنے والے کو تکلیف میں دیکھنا برداشت کا کام ہوتا ہے۔جب کوئی آپ کا روح سے تعلق رکھنے والا بلک بلک کر رو رہا ہو۔تب جتنی تکلیف سہنے والا سہہ رہا ہوتا ہے۔اس سے دوگنی چاہنے والا سہہ رہا ہوتا ہے۔ابرار کے کانوں میں فرح کی ہچکی کھاتا لہجہ پڑ رہا تھا۔اور اس کا دل چاہ رہا تھا۔کہ وہ اندر جائے اور کچھ ایسا ضرور کہہ دے جس سے وہ بہت باتونی اور بہت ہنسنے والی لڑکی اپنے سارے غم بھول جائے۔یا اسے کسی ایسی جگہ لے جائے جہاں کوئی غم کوئی تکلیف اس تک آنے سے پہلے ابرار اپنے اندر جزب کر لے۔یہ تھی وہ خاموش محبت ۔۔۔جو بے غرض بھی تھی اور خالص بھی۔
ماہ نور کی آنکھیں اپنی بہترین دوست کے غم پہ بھیگ گئیں تھیں۔
فری میری جان۔۔۔پریشان مت ہو۔میں ہوں ناں۔میں ابرار بھائی سے بات کروں گی۔کہ وہ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔پلیز ان سے کچھ مت کہنا۔میرا پردہ ان کے سامنے رکھ لینا۔میں ان کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی۔اس سے پہلے کے ماہ نور کی بات مکمل ہوتی۔اس نے اس کے کندھے سے سر اُٹھا کر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تھا۔ماہ نور چونک کر بہت بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔
ابرار نے ہونٹ بھینچ لیئے۔اور تیزی سے کوئی بھی آواز پیدا کئے بغیر واپس چلا گیا۔اسے فرح کے آخری الفاظ نے گہری تکلیف دی تھی۔
لیکن فرح۔۔۔ماہ نور نے اسے سمجھانا چاہا۔
نئی پلیز ماہا۔۔۔پلیز ان کو کچھ مت بتانا۔بس ایک دو دن تک مجھے یہاں اپنے پاس رکھ لو۔کچھ بھی اپنے بھائیوں سے کہہ دو۔پلیز۔۔۔میری۔۔۔
میری مدد کرو۔پھر میں اپنا ٹھکانہ کہیں اور ڈھونڈ لوں گی۔کوئی محفوظ جگہ۔اس نے روتے ہوئے ایک بار پھر سے کہا تھا۔ماہ نور گہرہ سانس لے کر رہ گئ۔اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگی۔
جیسے تم مناسب سمجھو گی ویسے ہی ہوگا۔لیکن اتنا یاد رکھو۔تم ان کا راز جان چکی ہو۔وہ تم سے یا تو اپنے مطلب کا کام لے کر تمہیں بھی اپنا جیسا کرنا چاہیں گے ۔یا پھر تمہیں مارنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔اس لئے فیصلہ کرتے وقت عقل مندی سے سوچ لینا۔اور تم چاہو تو جب تک چاہو یہاں رہ سکتی ہو۔ہمیشہ تک کے لئے بھی۔۔۔کہہ کر آخر میں اس نے آہستہ سے کہا تھا۔فرح نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔مگر اس سے پہلے کے وہ اس سے بات کا مطلب پوچھتی ماہ نور کھانا لے کر آنے کا بول کر اُٹھ گئ۔اور وہ ہونٹ کاٹتی سوچتی رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کیچن کی جانب جا رہی تھی۔جب بابر صوفے پہ دراض پاءوں جھولاتا موبائل چلاتا نظر آیا تھا۔ٹی وی بھی بلند آواز چل رہا تھا۔ماہ نور نے ایک نظر ٹی وی پہ چلتے مناظر دیکھے اور پھر خاموشی سے بھائی کے پاس آ کھڑی ہوئی۔وہ اس کی موجودگی پا کر سیدھا ہو بیٹھا۔اور ابرو اُٹھا کر پوچھا کہ کیا ہوا؟
ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
کھانا کھائیں گے؟میں بنانے لگی ہوں ۔کیا کھائیں گے؟
تم رہنے دو۔میں نے آڈر کر دیا ہے۔تھوڑی دیر میں آ جائے گا۔اس کے پوچھنے پہ بابر نے کہا تھا۔ماہ نور نے سر ہلا دیا۔اور خالی لاءونج کو دیکھا۔
ابرار بھائی کہاں گئے؟بڑے بھائی کو نہ پا کر اس نے پوچھا تھا۔بابر بے سوچتی نظروں سے اسے دیکھا ۔اور پھر سر انکار میں ہلا دیا۔
نہیں جانتا۔بس ابھی باہر گئے ہیں ۔گاڑی بھی لے گئے ہیں۔
ماہ نور گہرہ سانس لے کر بھائی کے ساتھ ہی بیٹھ گئ۔اور سر بابر کے کندھے پہ رکھ دیا۔
ماہ نور۔۔۔
جی؟
ایک بات کہوں۔؟
جی؟
تمہیں نہیں لگتا کہ بھائی کسی لڑکی کو پسند کرتے ہیں۔دیکھو میں جانتا ہوں کہ یہ وقت ان باتوں کے لئے سہی نہیں ہے۔لیکن تم پھر چلی جاءو گی۔اس لئے میں نے سوچا کہ میں ابھی بات کر لوں۔اس کے چونک کر دیکھنے پہ بابر نے صفائی دیتے ہوئے کہا۔تو وہ گہرہ سانس لے کر رہ گئ۔
ابھی میں یہیں ہوں۔کہیں نہیں جاءوں گی۔اور لڑکی کون ہے؟آپ جانتے ہیں؟
نہیں۔۔۔لیکن اگر تم ساتھ دو۔تو میں معلوم کر کے بتا سکتا ہوں۔اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔تو ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
مجھے بھلا کیا عتراض ہو سکتا۔آپ پتہ کریں ہم ان کے گھر چلیں گے۔اُٹھ کر کہچن سے برتن لینے کے لئے جاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔بابر نے دھیمے سے مسکرا کر سر کو خم دیا۔اور پھرواپس پُرانی پُزیشن میں لیٹ کر موبائل آن کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راوی کے اوپر دُھند پڑتی اس لمبے سامپ کے سے بل کھاتے دریا کو چادر دئے ہوئے تھی۔ابرار کچے راستے پہ راوی کے سامنے کار سےپشت ٹکائےکھڑا ۔۔۔سینے پہ بازو لپیٹے راوی پہ دُھند اُترتی دیکھ رہا تھا۔اس کا سانس ناہموار تھا۔اور ناک کے تھنے پھول رہے تھے۔اس کے ابرو تنے ہوئے اور ہونٹ بھینچ ہوئے۔اس بات کی علامت تھے کہ وہ اس وقت ضبط کے کڑے مراحل سے گُزر رہا ہے۔اسے سوچنے پہ یاد نہیں پڑتا ۔کہ آخری بار اس نے غصہ کب کیا تھا۔غصہ اس کی سرشست میں شامل نہیں تھا۔وہ تعبیتاًسلجھے اور نرم و سنجیدہ مزاج کا شخص تھا۔اس لئے غصہ کم کھاتا تھا۔لیکن پھر جب کھاتا تھا۔تو بہت بے کابو ہو جایا کرتا۔آج بھی وہ بے کابو تھا۔اس کی گردن کی نسیں پھول رہی تھیں۔اور جوتے میں مکین پاءوں کے انگوٹھے وہ رگڑتے ہوئے بہت بے تابی سے کسی کا منتظر تھا۔
اس سے پہلے کے گھڑی رات کے دس بجاتی۔اور وقت مزید گُزرتا اس کی کار کے قریب ہی ایک کار آ رکی۔۔۔کوئی رات کی سیاہی میں کار کا دروازہ کھولتا آ کھڑا ہوا تھا۔
سوری مائی بوئے۔۔۔
میری وائف کی تعبیت خراب تھی۔میں اسے ہسپتال لے کے گیا تھا۔اس کے پیچھے آ کر کھڑے ہوتے اس نوجوان نے کہا ۔چہرے مہرے سے آواز سے بھاری پن نمایا تھا۔آج وہ معمول سے ہٹ کر کریم رنگ کھدر کے شلوار قمیض میں تھا۔اور ابرار ہی کی طرح آنکھوں پہ فریم لیس چشمہ لگا رکھا تھا۔
ابرار نے کوئی جواب نہیں دیا۔بس خاموشی سے راوی کو دیکھتا رہا۔
کیا ہوا؟خاموشی کا مطلب کیا سمجھوں میں؟اس کی خاموشی پا کر وہ اس کے برابر آ کھڑا ہوا۔اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ہلکے سے ہلایا۔
Asfand! I need your help bro.اب کی بار پوزیشن میں تبدیلی آنے کی بجائے محض زبان نے جمبیش کی تھی۔اسفند اکرام مسکرا دیا۔
Any time budy….ایک بار پھر سے اس کے کندھے کو ہلکے سے ہلا کر اس نے کہا۔تو اب کی بار ابرار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر ضرور تھا۔جس نے اسے چونکنے پہ مجبور کر دیا۔
کیا ہوا؟وہ سیدھا کھڑا ہوا۔
تمہارا کوئی دوست پولیس میں ہے؟
ہاں۔۔۔۔کیوں؟
ایک مخبری کرنی ہے۔کسی ایماندار کو ڈھونڈو۔جس کے پاس نام،پیسہ اور بڑے عہدے کی طاقت بھی ہو۔اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس نے بہت ضبط سے کہا تو اسفند اکرام اسے دیکھ کر رہ گیا۔
کیسی مخبری؟
نشے کی کھپ اور اس کے پیچھے موجود افراد کی موجودگی کا یقین۔۔۔اس نے بہت بے ربط الفاظ کہے تھے۔
ضیاء؟اس نے اس قدر مدھم آواز میں نام لیا ۔کہ ابرار بمشکل سُن پایا۔
ابرار نے سر ہلا دیا۔۔۔ہاں ضیاء۔۔۔اور اس کا پورا گُروپ۔
کیا ہوا؟اس پہ ہاتھ ڈالنے کا تم نے کیوں سوچا؟سب خریت؟
بلیک میلنگ اور حریسمنٹ کا کیس الگ سے کرنا ہو گا۔اس کی بات کے جواب میں اس نے ایک الگ جواب دیا ۔تو اسفند اسے دیکھ کر رہ گیا۔
ابرار بتاءو تو ۔ہوا کیا ہے؟اب تو تم مجھے پریشان کر رہے ہو۔لفظ حریسمنٹ نے اسے چونکنے پہ مجبور کردیا تھا۔
ایک لڑکی کو اس نے بلیک میل کیا۔اور اسے حریس کرنے کوہر گِری ہوئی حرکت کی کوشش کی۔لیکن نام اس لڑکی کا نہ آئے تو بہتر ہے۔وہ ایک عزت دار گھر سے ہے۔وہ میری بھی عزت ہے۔اس لئے اپنے دوست سے کہنا کہ کیس کونفیڈینشنل رکھے۔وہ کوئی بھی بات سیدھے طریقے سے نہیں کہہ رہا تھا۔
لڑکی کون؟
جواب میں ابرار نے خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا۔تو اسفند ہونٹ بینچ گیا۔
اگر میں غلط نہیں۔تو ۔۔۔بھا۔۔۔۔
ہاں وہی۔اس کے منہ سے پورے الفاظ نکلنے سے پہلے ہی اس نے ٹوک کر کہا تھا۔اسفند نے اس کے کندھے پہ دوبارہ بازو رکھ لیا۔اور اس کے ساتھ کھڑا ہو کر راوی کے سیاہ ساکت پانی پہ اُترتی سفید چادر کو دیکھنے لگا۔
بھروسہ رکھو۔میں اس مسلے کو حل کروا دوں گا۔تم خود بھی اس سے بات کر لینا۔اور تمام بات بتا دینا۔وہ اس کی حالت کو سمجھ سکتا تھا۔وہ اس سب سے گُزر چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور نے کھانا میز پہ نہیں لگایا تھا۔بابر کو لاءونج میں
دے کر ۔وہ اپنا اور فرح کا کھانا لئے کمرے میں ہی آ گئ۔
ماہ نور تمہارا فون پیچھلے دس منٹ سے بغیر سانس لیے بج رہا ہے۔ڈرسنگ کے سامنے کھڑے ہوتے ۔فرح نے کہا تھا۔اس کا چہرہ گیلہ اس بات کی علامت تھا۔کہ وہ فریش ہو کر نکلی ہے۔
ماہ نور نے ٹرے میز پہ رکھی اور سائڈ ٹیبل کی جانب بڑھ کر فون اُٹھایا۔ذریت حسن کی جانب سے مِسڈ کالز کا ایک سلسلہ تھا۔ماہ نور نے بے دلی سے فون سویچ آف کر دیا۔
کس کی کال تھی؟بال سیدھے کرتے ۔شیشے میں ماہ نور کے پریشان چہرے کو دیکھتے ہوئے ۔اس نے پوچھا۔
رونگ نمبر تھا۔نظر چُراتے ہوئے اس نے جھوٹ بولا۔فرح نے ایک لمحے کو چونک کر اسے دیکھا۔وہ اسے کہہ نہیں پائی۔کہ ماہ نور تمہاری ناک لمبی ہو رہی ہے۔
وہ جانتی تھی۔کہ کال ذریت کی جانب سے تھی۔مگر ماہ نور کا فون آف کر دینا۔اسے عجیب پریشانی میں ڈال گیا تھا۔
مگر اس وقت اس نے کوئی بھی بات کرنا غیر آرامدے سمجھا تھا۔باتھ روم جا کر اس نے دوبارہ سے ہاتھ دھوئے اور بغیر خشک کئے باہر آ گئ۔ماہ نور ٹیبل پہ کھانا رکھ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتاشا نے سر دائیں جانب موڑ کر کسی کی موجودگی کو دیکھا۔اور کھولے گیٹ سے کالج کے اندر غائب ہو گئ۔
اس نے گلز کالج میں دو روز قبل نوکری شروع کی تھی۔یہ نوکری اسے ضیاء صاحب نے دلائی تھی۔اور ساتھ میں کام ہو جانے پہ بھاری رقم دینے کا وعدہ تھا۔جنہیں لے کر وہ اپنے منحوس کزن اور شوہر کے منہ پہ مار کر آسانی سے طلاق لے سکتی تھی۔اس نے یہی تو سوچا تھا۔
جب فرح رات کے کھانے سے قبل روم ڈسٹبن صاف کرنے کو باہر نکلی ۔تبھی گیٹ سے گارڈ اپنی سگریٹ لینے کو اندر چوکی نماں کمرے میں غائب ہوا تھا۔گیٹ محض دو منٹ کو خالی ہوا۔اور اس کے پاس دو منٹ تھے۔۔۔۔ بھاگنے کو۔ان دو منٹوں میں اس نے یہاں سے بھاگنے کا منصوبہ بنایا اور دائیں بائیں کسی کو نہ پا کر تیزی سے گیٹ پار کر گئ۔بھاتے کوئے اسے اس بات کا احساس شدت سے تھا۔کہ جن سے وہ بھاگ رہی ہے۔ان کے پاس اس کی بہت بڑی کمزوری ہے۔لیکن آج کی رات محض آج کی رات اسے سوچنے کی مہلت ملی تھی۔کل صبح اسے زبردستی کیچڑ میں دھکیل دیا جاتا۔جو اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
وطن پرستی انسان کی روح میں باریک بالوں کی طرح ریشے بنائے ہوئے گوندھی گئ ہے۔ملک سے محبت ہر انسان کے خون میں شامل ہوتی ہے۔ہاں البتہ ان کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔جو ان الفاظ سے نابلد ہوں۔جو منافق ہوں۔اور جن کا کوئی حسب نسب تک نہ ہو۔
والدین سے پہلے اور دین کے بعد ہر وفاشعار کا پہلا عشق پاکستان ہے۔اس کا بھی پہلا عشق پاکستان ہی تھا۔اور پہلے عشق سے وفاداری اس کے فرض میں شامل تھی۔
لفظ فرض میں اس لئے لکھ رہی ہوں۔کہ ذمہ داری کوئی بھی اُٹھا سکتا ہے۔ایک منافق بھی۔مگر فرض کو ہر شخص پہ لازم کیا گیا ہے۔اور اسے قضا کرنے سے صرف عاشق ڈرتا ہے۔
اس نے پاکستان کی نسل کیخاطر عزت کی پروا نہیں کی۔اور بھاگ آئی۔اس خوف سے بالکل آزاد ہو کرکہ ان پاس اس کی کمزوری یے۔بس خُدا پہ ایمان کامل تھا۔کہ اب وہ روسوا نہں ہو گی۔
جولوگ پاکستان سے جنون کی حد تک عشق کرتے ہیں۔ان کو میں نے آج تک بلند ہی دیکھا۔ان کو خُدا نے بہت عزت دی۔ان کی حفاظت کی۔اور جو اس کی وفا کو نبھاتے ہوئےمارا گیا۔اسے شہادت دی۔
جب مسٹر ضیاء ہوسٹل پہنچے تب اسی وقت فرح ابرار کے سامنے کھڑی لمبے لمبے سانس لے کر اپنی اکھڑتی سانس بھال کر رہی تھی۔
فرح کے غائب ہونے کا پتہ اُنہیں اس کےجانے کےایک گھنٹے بعد ہوا تھا۔بات آگ کی طرح پھیلی۔
لڑکیاں دانتوں میں اُنگلیاں دباتی سوچتی رہ گئی تھیں۔کسی کو بھی اس بات پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔کہ فرح خان ایساکوئی قدم اُٹھا سکتی ہے۔
دوسری طرف میڈم کو جان کے لالے پڑ چکے تھے۔ضیاء صاحب نے اسے خوب سخت سست سنا کر۔دو دن کا الٹیمیٹم دے دیا تھا۔کہ اس عرصے میں وہ نئی لڑکی بھی ڈھونڈے اور فرح کا بھی حل نکالے۔
تبھی میڈم کو قسمت سے اپنی دوستوں کے ساتھ نتاشا نظر آ گئ۔
نتاشا کلب میں بیٹھی اپنے شوہر کو گالیاں دے رہی تھی۔اور بتا رہی تھی۔کہ وہ بہت ظالم اور لالچی ہے۔اس سے اپنے میلے کپڑے دُھلواتا ہے۔اور بات بات پہ مارتا ہے۔وہ چلاک اور ہوشیار تھی۔اور خوبصورتی اسے بے تحاشا دی گئ ۔وہ اس کام کے لئے بالکل ٹھیک تھی۔وہ ٹھیک سمجھی تھی۔اس نے اسے ٹھیک جج کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ نور ایک بات پوچھوں؟لان کی ٹھنڈی گیلی گھاس پہ چلتے فرح نے کندھوں پہ پھیلی چادر درست کرتے پہلو میں چلتی ماہ نور سے پوچھا۔
ہم؟اجازت دی۔اس کی نظریں گھاس پہ کچھ تلاش کر رہی تھیں جیسے۔
تمہاری ذریت بھائی سے لڑائی ہوئی ہے؟چلتے چلتے اس نے پوچھا۔ماہ نور ایک دم سے رک گئ۔
آ۔۔۔نہیں
ماہاتمہیں جھوٹ نہیں بولنا آتا۔مت بولا کرو۔دو دن میں وہ پہلی بار مسکرائی تھی۔
ماہ نور نے گہرا سانس لے کر اندر کی کسافت کم کرنے کی کوشش کی ۔اور پھر لان میں پڑے واحد سنگی بینچ کی طرف آ گئ۔
تم جان کر کیا کرو گی؟فرح وہیں کھڑی تھی۔جب اس نے پوچھا۔فرح نے اس کے چہرے کے تاثرات کو جانچتی نظروں سے دیکھا۔اور پھر متوازن چال چلتی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
مطلب ہوئی ہے۔۔۔کیوں ہوئی ہے؟
میں نے کب کہا ہوئی۔ماہ نور مسکرائی۔سوگوار مسکراہٹ۔۔۔
تم نے کہا نہیں۔لیکن میں نے سن لیا۔فرح کو اس کی مسکراہٹ نکلی لگی۔
ماہ نور اب کی بار خاموش ہی رہی۔
تم جانتی ہو فرح۔۔۔خاموشی کا وقفہ لیتے اس نے کہا تھا۔فرح بس اسے دیکھتی رہی۔
دل جب تکلیف سے پھٹ رہا ہو۔وجود کے انگ انگ سے تھکاوٹ ٹپک رہی ہو۔اور بہت سا رونے کو دل چاہتا ہو۔مگر آپ کو اپنوں کی خاطر وقت بے وقت مسکرانا بھی ہو۔ایسے میں بہت دل چاہتا ہے کہ کوئی آئے۔آپ کے سر کو کندھے سے لگائے۔اور تھپتھپاتے ہوئے اتنا بول دے۔جو کہنا ہے کہہ دو میں سُن رہا ہوں۔ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر اس کی قمیض کے گلے میں جزب ہو گیا۔
ماہ نور میری جان۔۔۔۔کیاہوا؟فرح کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔اس نے اس کے سر کو اپنے کندھے سے ٹکا لیا۔
مجھے بتاءو کیا ہوا ہے؟
فرح وہ۔۔۔وہ ذریت نہیں تھا۔وہ جس کو میں نے اپنا سب کچھ مانا۔جس کی بھلائی کے لئے دن رات کی۔وہ میرا کبھی نہیں تھا۔روتے ہوئے وہ کہتی گئ۔اسے ایک کندھا میسر تھا۔ایک دوست کا کندھا۔۔۔
ہلو لیڈیز۔۔۔کیا چل رہا ہے۔بابر ایک دم نہ جانے کہا سے آ کر سامنے کھڑا ہوا تھا۔ماہ نور تیزی سے سیدھی ہوئی۔مگر وہ اس کا رونا نوٹ کر چکا تھا۔
ماہا۔۔۔کیا ہوا؟
تم رو کیوں رہی ہو میری گڑیا؟حیرت کے شدید جھٹکے سے اس نے پوچھا ۔تو ماہ نور نے نفی میں سر ہلا دیا۔بابر اس کے پاءوں میں بیٹھ گیا۔دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا۔اور ہاتھ پکڑ لئے۔
میں تمہاری ہر ہر اداسے واقف ہوں۔مجھے بتاءو کیا بات ہے۔تم اتنا کبھی نہیں روتی۔دیکھو۔سارا چہرہ سرخ ہو گیا۔اس کی گال پہ نمی کو پا کر اس نے گلے میں لپٹے اپنے مفلر سے صاف کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
بھائی۔۔۔ایک سسکاری سی منہ سے نکلی تھی۔اور رونے کے دوران وہ ۔وہ سب بتاتی گئ۔جو اہم تھا۔بابر کا منہ حیرت سے کھول گیا۔پر۔۔۔وہ کچھ کہہ نہ سکا۔
اچھا ۔۔۔یہ بات ہے۔انداز پُر سوچ تھا۔اس نے سر ہلا دیا۔
میں پتہ کرتا ہوں ۔کہ معملہ کیا ہے۔اب رونا نہیں۔نرمی سے اس کا گال تھپتھپاتے اس نے کہا۔تو فرح کو یہ منظر بہت بھلا معلوم ہوا۔ایک چوٹ سی لگی تھی دل پہ۔جس سے ٹیس بھی شدت کی اُٹھی تھی۔وہ تیزی سے بینچ سے اُٹھی۔اور گھر کے اندرونی حصے کی جانب بھاگ گئ۔
انہیں کیا ہوا۔بابر نے حیرت سے فرح کو جاتے دیکھ کر پوچھا۔تو اس نے شانے اچکا دئے۔شائد اسے اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں۔۔۔۔میں دیکھتی ہوں۔کہہ کر اس نے گھوٹنے سے بھائی کا ہاتھ ہٹایا اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔
بابر اُٹھ کر بینچ پہ بیٹھ گیا۔اور پرسوچ انداز میں آسمان کو دیکھنے لگا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...