(Last Updated On: )
“کتنی مرتبہ تمہیں بتاؤں کہ نہیں جانا مجھے کوئ قران پڑھنے۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی۔” رانیہ کافی دنوں سے رمشا کو سمجھا رہی تھی کہ وہ اس کے ساتھ قران کلاسز اٹینڈ کرے مگر سب بے سود۔۔۔
“رمشا آج اگر تم نے منع کیا تو دوبارہ تمہیں اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی۔۔۔” رانیہ کافی غصے سے بولی۔
“یہ بات تم نے کل بھی بولی تھی میری جان۔۔ دیکھ لو آج پھر میرے سر پر حاضر ہو گئ ہو۔۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔۔” رمشا نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ رانیہ کی باتوں میں نہیں آۓ گی۔۔۔
رانیہ پیر پٹختے ہوۓ جانے لگی تو رمشا کی آواذ اس کے کانوں میں پڑی۔۔
“اچھا سنو وہ فورٹی رُولز آف لو (Forty Rules of Love) مجھے پکڑا دینا۔۔۔ جلدی سے ختم کرلوں پھر نیکسٹ ناول بھی تو لینا ہے۔۔۔”
“رمشا میڈم میں کوئ تمہاری ملاذمہ نہیں ہوں جو تمہارے کام کروں۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا ایک دن تم خود جاؤ گی قران سیکھنے لیکن تب بہت دیر ہو جاۓ گی۔۔۔” رانیہ ذور سے درواذہ بند کر کے چلی گئ۔۔
“وہ دن کبھی نہہں آۓ گا۔۔۔۔” رمشا بہت ذور سے ہنسی اور شیلف سے ناول نکال کر پڑھنے لگ گئ۔۔۔۔۔
*———————–*
آج آفندی ہاؤس میں موسیقی کی محفل تھی۔۔۔ عابدہ پروین محفل کو رونق بخشنے والی تھیں۔۔۔۔ ہر کوئ ان کی راہ دیکھ رہا تھا۔۔۔ رمشا کو تو ہمیشہ سے ہی اُن کے کلام پسند رہے تھے۔۔۔ اسی لیۓ علی احمد آفندی نے اپنی بیٹی کی فرمائش پر انہیں مدعو کیا تھا۔۔ اس گھر کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے رمشا کو ہر چیز مانگنے سے پہلے مل جایا کرتی تھی۔۔۔ آفندی ہاؤس کی ساری رونق اسی کے دم سے تھی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی تھی۔۔۔
“بیٹا آپ تیار نہیں ہوئ ابھی تک۔۔ نیچے رامش کب سے آپ کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔” مشال آفندی بیٹی کی تیاری کو دیکھتے ہوۓ بولیں۔۔
“ممی آپ کو پتا ہے مجھے اُس رامش میں کوئ انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ آپ اُس کو مت بلایا کریں۔۔۔” رمشا کو رامش ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔۔ مگر ہر بار مشال آفندی اسے انوائیٹ کرتیں۔۔۔
“میں بہت دور کا سوچتی ہوں مشی بیٹا۔۔ یُو نو رامش کتنا ویل سیٹلڈ ہے۔۔۔ آپ اس کے ساتھ بہت خوش رہیں گی۔۔۔” مشال آفندی کو رامش نواذ کے پیسے سے مطلب تھا۔۔۔ وہ دولت کو ہی خوشیوں کی ضمانت سمجھتی تھیں۔۔۔اسی لیۓ وہ اس کی سائیڈ لے رہی تھیں۔۔
“ممی جائیں آپ, میں آتی ہوں تھوڑی دیر میں۔۔” رمشا اپنا بریسلٹ سیٹ کرتے ہوئ بولی۔۔۔
*———————–*
گرین ریشمی ساڑھی اوڑھے۔۔۔ شارٹ بلاؤذ پہنے۔۔۔۔ لمبے گھنگریالے بالوں کو شولڈر پر پھیلاۓ۔۔۔۔ آنکھوں کو ڈارک میک اپ سے سجاۓ۔۔۔۔ سفید دودھیا کلائیوں میں ڈائمنڈ کا قیمتی بریسلٹ پہنے, رمشا آفندی حُسن کا مجسمہ لگ رہی تھی۔۔ اسے سب کی نظروں کا مرکز بننا آتا تھا۔۔۔۔ ہر ایک اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھتا۔۔۔۔۔ علی احمد آفندی کے جگر کا ٹکڑا تھی رمشا۔۔۔
*————————–*
رمشا نے نوٹ کیا کہ آج رانیہ اس سے آ کر نہیں ملی ورنہ وہ سب سے پہلے ای کے پاس آتی تھی ۔۔ اتنا اگنور اس کو شاید ہی کسی نے کیا ہو۔۔۔ اسے رانیہ سے چِڑ ہونے لگی۔۔۔
“کیا ہو گیا اگر میں نے قران سیکھنے سے منع کر دیا۔۔ کوئ قیامت تو نہیں آ گئ جو رانیہ اس طرح سے کر رہی ہے۔۔۔۔ مجھے بھی بات نہیں کرنی اس سے۔۔۔” رمشا دل ہی دل میں رانیہ کو کوسنے لگی۔۔۔
*———————–*
شہریار آفریدی کی نظریں کافی دیر سے رانیہ کا تعاقب کر رہی تھیں۔۔۔ وہ اسے پہلے بھی کئ مرتبہ یہاں دیکھ چکا تھا۔۔ آج بھی وہ اسی کی خاطر آیا تھا۔۔۔ رانیہ کی شکل و صورت کوئ خاص نہیں تھی۔۔ گندمی رنگت تھی۔۔۔۔ تیکھے سے نقوش تھے۔۔۔ چھوٹی سی ناک تھی۔۔۔۔ حجاب میں چہرہ تھا ۔۔۔ مگر اُس میں اٹریکشن تھی۔۔۔۔ ایسی اٹریکشن جس نے شہریار آفریدی جیسے مرد کو دیوانہ بنا دیا تھا۔۔۔۔
*———————–
“ہیلو رمشا تم مجھے اتنا اوائڈ کیوں کرتی ہو۔؟؟” رمشا اپنی کچھ فرینڈز کے ساتھ کھڑی تھی جب رامش نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اُسے مخاطب کیا۔۔ رمشا نے سب سے ایسکیوز کیا اور رامش کے ساتھ اندر کی جانب جانے لگی
“ہیلو رامش۔۔۔ تم کب آۓ۔۔ میں تمہیں کیوں اوائڈ کروں گی بھلا۔۔۔۔۔” رمشا نے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجاۓ کہا
“مجھے سب پتا ہے۔۔۔ کافی دیر سے نوٹ کر رہا ہوں تمہیں۔۔۔ وہ تو آنٹی کی وجہ سے آنا پڑتا ہے۔۔” رامش نے ہاتھ پیچھے کی جانب باندھتے ہوۓ کہا۔۔
“ممی کا تو تمہیں پتا ہے وہ کیا چاہتی ہیں۔ تم انھیں منع کیوں نہیں کر دیتے رامش۔۔” رمشا ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوۓ بولی۔۔۔
“آنٹی کی بات ٹالنا میرے بس میں ہوتا تو اس طرح بار بار تمہارے سامنے نہ آتا۔۔۔” رامش یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔ رمشا بھی باہر آ گئ۔۔۔
*————————–*
رامش نواز کا بیک گراؤنڈ بہت سٹرونگ تھا۔۔ وہ فرمان نواز خان کا واحد سہارا تھا۔۔۔ ان کی اپنی کافی ملز تھیں۔۔۔ پورے پاکستان میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئ تھی۔۔۔ ایک جانا پہچانا نام تھا ان کا۔۔ آفندی خاندان کے ساتھ ان کے کافی گہرے تعلقات تھے۔۔۔ دونوں خاندان چاہتے تھے کہ اس دوستی کو رشتہ داری میں بدلا جاۓ مگر رمشا اس سب سے ناخوش تھی۔۔ اسے کسی ایسے انسان کی تلاش تھی جسے دیکھتے ہی اس کا دل میں ہلچل ہو۔۔ رامش ایسا بالکل نہیں تھا۔۔۔۔
*————————–*
“اللہ آسمانوں اور ذمین کا نور ہے” (النور ٣٥)
نور کوئ بھی ایسی چیز ہے جو خود بھی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی ظاہر کرے۔ جب انسان کچھ بھی سمجھ نہ سکے تو وہ اندھیرے میں ہو گا اور جب دینِ اسلام کی بدولت اسے سب دکھائ دینے لگے تو اسے اپنے ہر سُو نور دکھائ دے گا۔۔۔ اگر راہِ راست کا علم مل سکتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ سے مل سکتا ہے, اس سے فیض حاصل کیۓ بغیر گمراہی ہے انسان کا مقدر ہے۔
لیکچر کے دوران رانیہ نے میڈم جویریہ سے ایک سوال کیا
“میڈم کیا یہ نور ہر ایک کو حاصل ہو سکتا ہے۔۔۔؟”
اسی آیت میں آپ کے سوال کا جواب ہے بیٹا۔۔ تھوڑا آگے دیکھیں تو اللہ فرماتا ہے:
“اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائ فرماتا ہے۔” (النور ٣٥)
اللہ کا یہ نور سارے جہان کو منور کر رہا ہے مگر اس سے فیض وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں جن کو اللہ توفیق بخشتا ہے۔۔۔ جس طرح اندھے کے لیۓ رات دن برابر ہیں اسی طرح بے بصیرت انسان کو سورج, چاند اور ستاروں کی روشنی تو دکھائ دیتی ہے مگر اللہ کا نور اُسے دکھائ نہیں دیتا۔۔۔ جو لوگ دنیاوی لذتوں میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ انھیں اللہ کے نور کی جستجو نہیں ہوتی, انھیں اللہ ذبردستی نورِ حق نہیں دکھاتا۔
رانیہ کو اُس کے سوال کا جواب مل گیا تھا۔۔ وہ جان گئ تھی کہ بصیرت کا اندھا ان حقیقتوں کو بھی نہیں دیکھ سکتا جو اُس کے پہلو میں اللہ کے نور کی بدولت جگمگا رہی ہوں۔۔
*————————-*
انھین دیکھنے کی جو لَو لگی، تو نصیر دکھ ھی لینگے ھم
وہ ہزار آنکھب سے دور ھوں ، وہ ھزار پردہ نشین سھی
قران کلاسز کے بعد اسلام آباد کی سڑکوں پر رانیہ بس آنے کے انتظار میں تھی۔۔۔ شہریار آفریدی کی نظر اس پر پڑی۔۔۔ اُس نے کالا عبایا پہنا تھا اور اپنے چہرے کو حجاب سے کَور کیا ہوا تھا۔۔ اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔۔۔ شہریار نے نوٹ کیا کہ اسے گرمی کی کوئ پرواہ نہیں تھی۔ اس کے چہرے کا اطمینان دیدنی تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ رانیہ کبھی بھی اس سے لفٹ نہیں لے گی اسی لیۓ رانیہ کی بس آنے کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا۔
*————————*
رانیہ گھر لوٹی تو اس کا سارا عبایا پسینے سے تر تھا۔ اس نے اسے سرف میں ڈالا اور نہانے چلے گئ۔۔۔ نہانے کے بعد جب وہ عبایا پھیلانے جانے لگی تو مہرین بولی
“آپی آپ کس طرح جون کی گرمی میں یہ کالا ماسک پہن لیتی ہیں۔۔ ہمت ہے آپ کی۔۔۔”
“تمہیں پتا ہے جب میں فرسٹ ٹائم میڈم جویریہ سے ملی تو انہیں نے مجھے بتایا تھا کہ کڑکتی دھوپ میں صرف اللہ کی رضا کے لئے یہ عبایا اوڑھ کے گھر سے نکلنا ایک جہاد ہے اور میں اس جہاد کو اپنی خوشی سے کر رہی ہوں مہرین۔۔۔ ذور ذبردستی سے نہیں۔۔۔” رانیہ کے گندمی چہرے پر سکون ہی سکون در آیا۔۔۔
“آپی میں بھی اللہ کو خوش کرنا چاہتی ہوں مگر اتنی گرمی می مجھ سے یہ عبایا نہیں اوڑھا جاتا۔۔۔”
“مہرین تم نے حجاب لینا شروع کیا یے, یہی بڑی کامیابی ہے۔۔ مجھے یقین ہے تم ثابت قدم رہو گی۔۔۔” رانیہ نے مہرین کے ماتھے پر بوسہ دیا اور باہر چلی گئ ۔۔
*————————-*
رمشا آفندی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔ رانیہ اسے سب سے عزیز تھی۔۔۔ بچپن سے وہ دونوں ایک ساتھ ہی رہی تھیں۔۔۔ ہر موقعے پر ساتھ ساتھ۔۔۔۔ مگر اپنی بہترین دوست سے اسے یہ توقع نہیں تھی۔۔ اس نے تو سوچا تھا کہ رانیہ کل پھر اس کے سر پر آ ٹپکےگی مگر ایک ہفتے سے وہ نہیں آئ تھی۔۔۔
وہ انہی خیالات میں گم تھی کہ مشال آفندی اس کے کمرے میں آ گئیں
“مشی بیٹا میں نے رامش کو فون کیا ہے۔ کل آپ اس کے ساتھ ڈنر پر جائیں گی۔۔”
“مگر ماما کل تو میں نے رانیہ کی طرف جانا ہے۔۔۔ ضروری بات کرنی ہے اس سے۔۔۔” رمشا کی آنکھوں میں بے بسی در آئ۔
“کوئ ضرورت نہیں ہے اس کی طرف جانے کی۔ اپنی اوقات بھول گئ ہے شاید وہ۔ دیکھا تھا میں نے کس طرح سے آپ کو اوائیڈ کر رہی تھی وہ۔۔۔ کل آپ رامش کے ساتھ ہی جائیں گی” مشال آفندی غصے سے کہتی ہوئ وہاں سے چلی گئیں۔۔ انھیں رانیہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی مگر بیٹی کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں
رمشا نے مشال آفندی کی خاطر رامش کے ساتھ ڈنر کے لیۓ ہامی بھری۔ رامش کافی دیر سے لاؤنج میں اُس کا انتظار کر رہا تھا مگر اس کی تیاری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔ رمشا نے پنک ڈریس سلیکٹ کیا۔۔۔ اپنی بڑی بڑی ڈارک براؤن آنکھوں پر لائٹ سا میک اپ کیا۔۔۔۔ ہونٹوں کو لائٹ گلوز سے سجایا۔۔۔ کانوں میں ٹاپس ڈالے۔۔۔ کلائیوں میں بریسلٹ پہنا۔۔۔ بالوں کو کیچر میں مقید کیا۔۔۔۔ سینڈل پہنی اور لاؤنج میں آ گئ۔۔۔۔
وہ سیڑھیوں کے ذینے اتر رہی تھی جب رامش کی نظر اس کے سراپے پر پڑی۔۔۔۔ پنک کلر میں وہ کافی معصوم لگ رہی تھی۔۔۔ کافی دیر تک وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔۔۔ اس کے بعد رامش پارکنگ کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ رمشا بھی اس کے پیچھے پیچھے تھی۔۔۔ وہ گاڑی سٹارٹ کر کے اس کے عین سامنے لے آیا۔۔۔ اس نے دروازہ کھولا اور رمشا اندر بیٹھ گئ۔۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی میریٹ کے باہر تھی۔۔۔
*————————-*