“کیا آپ کو کبیرا بنت وحید انعام حق مہر بعوض ستر ہزار قبول ہے ؟”
“قبول ہے !”
مبارک سلامت کا شور اٹھا تھا ۔۔۔۔
سب سے مل کر جب وہ بیٹھا تو سوہا اور ہانیہ آپی جو عتیق اور کبیرا کے درمیان سرخ دیدہ زیب پردہ حائل کیئے کھڑی تھیں درمیان سے ہٹا دیا تھا۔۔۔
عتیق کی بیتاب نظریں اس کے چہرے کی طرف اٹھی تھیں ۔۔۔
مگر یہ کیا !
کبیرا کے چہرے پر گھونگٹ گرا تھا ۔۔۔۔
“آئیے عتیق بھائی ۔۔۔!”
سارہ نے اسے کبیرا کے پاس چلنے کا اشارہ کیا تھا اور وہ جس طرح فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا کئی شوخ جملے اس کی طرف پھینکے گئے تھے جن پر جھینپتا ہوا وہ اس کے پہلو میں آ بیٹھا تھا ۔۔۔۔
“نکاح مبارک !”
“آپ کو بھی !”
گھونگٹ کے اس پار سے بھیگی ہوئی سی مدھم آواز ابھری تھی ۔۔
“ائے گھونگٹ مت اٹھانا میں نے سارہ کے نکاح پر بھی نہیں اٹھانے دیا تھا !”
جنت بیگم کے قطعی انداز پر جبار سارہ کی طرف جھکے تھے ۔۔۔
“جنت خالہ اتنی ظالم کیوں ہیں ؟
مجھ پر بھی ظلم کیا تھا اب اس بیچارے پر بھی ۔۔۔”
جواباً سارہ انہیں گھور کر رہ گئی ۔۔
“مگر کیوں ؟”
جہاں آرا بیگم نے بھی اعتراض اٹھایا تھا ۔۔۔۔
“میرا ذاتی خیال ہے پھر رخصتی پر زیادہ روپ نہیں آتا ۔۔۔۔
آگے آپ لوگوں کی مرضی !”
“بات تو دل کو لگی ہے ۔۔۔”
ہانیہ آپی جنت بیگم کی ہمنوا ہوئی تھیں ۔۔۔۔
اور پھر فیصلہ یہی ہوا کہ ابھی کبیرا کا گھونگٹ نا الٹا جائے ۔۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر عتیق سوچ کر رہ گیا کیا کبھی وہ اس چہرے کو غور سے دیکھ پائے گا !!
کبیرا کے گریجویٹ کرنے تک رخصتی پینڈنگ کر دی گئی تھی جس کا پہلے تو نہیں مگر نکاح کے بعد عتیق کو کچھ زیادہ ہی احساس ہو رہا تھا ۔۔۔۔
************************
گوہر شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے اس کے نکاح میں شریک ہونے سے رہ گئی تھی اور اب اس سے روٹھی بیٹھی تھی کہ کیا وہ کچھ دن صبر نہیں کر سکتی تھی ؟
“میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا بلکہ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا ۔۔۔ میں کیا کسی کو روکتی ۔۔۔”
“بس بس ! میں سب سمجھ گئی ۔۔”
گوہر کا منہ ہنوز بگڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
“اچھا بتائو کیسے منائوں تمہیں ۔۔۔۔ حالانکہ میری کوئی غلطی نہیں ہے ۔۔”
وہ ہار مان کر صوفے پر گر سی گئی ۔۔۔۔
“عتیق بھائی سے بولو ہمیں ڈنر کروائیں ۔۔۔”
“کیا !!!”
“کیا ؟؟؟”
کبیرا کے آنکھیں نکالنے پر گوہر نے اس سے بھی زیادہ آنکھیں نکالی تھیں ۔۔۔
“میری ان سے کوِئی ہائے ہیلو نہیں ہے ۔۔۔۔”
انداز میں شرم جھجک اور بیچارگی تھی ۔۔
“تو میری تو کروائو !”
“کیا ؟؟”
“ہائے ہیلو اور کیا ”
“میرے پاس ان کا نمبر نہیں ہے ۔۔”
“شاباش میری بچی شاباش ! “گٙرو” ہے مجھے تم پر ۔۔”
“تھینک یو امی جان !”
اس کے دانت نکوسنے پر گوہر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی ۔۔۔
“سنو کبیرا ! میں تمہیں دو دن کا وقت دے رہی ہوں ۔۔۔
عتیق بھائی کو ڈنر یا لنچ پر لے جانے کے لیئے تیار کرو ۔۔ ورنہ بھول جائو کہ تمہاری کوئی گوہر نامی ماں تھی ۔۔۔!”
“میں ۔۔۔۔۔”
“چپ !!”
اسے ڈپٹ کر گوہر پھر لیپ ٹاپ پر چمکتی اس کی نکاح کی تصویر دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔
***********************
وہ سیاہ چادر میں لپٹی جبکہ گوہر عبایا میں چھپی جب اس کی گاڑی میں آ بیٹھیں تو وہ بیک ویومرر سے اسے دیکھ کر رہ گیا تھا جو پچھلی سیٹ پر گوہر کے ساتھ ہی چپکی بیٹھی تھی ۔۔۔
نکاح کے بعد پہلی بار وہ اس کے ساتھ کہیں جا رہی تھی وہ بھی دو دو “گارڈز” ساتھ لیئے ۔۔۔
نا کوئی خاص تیاری ۔۔ جیسے اس کے ساتھ جانا اس کی نظر میں خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔۔۔۔۔۔!
خفگی بھری نظروں سے وہ اسے تب تک دیکھتا رہا تھا جب تک سوہا اس کے ساتھ کی فرنٹ سیٹ سنبھال نہیں چکی تھی ۔۔۔
گاڑی اپنے سفر پر رواں دواں دی ۔۔
سوہا کے شوخ جملے اس کا موڈ بھی بحال کر چکے تھے ۔۔۔
گوہر نان اسٹاپ اسے کبیرا کی اسکول اور کالج کی بیوقیاں سنا سنا کر محفوظ کر رہی تھی اور وہ جزبز ہوتی منزل جلدی آنے کی دعا کر رہی تھی ۔۔۔۔
***********************
گوہر کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد وہ شام ڈھلے گھر پہنچے تھے ۔۔۔
سوہا کے اترنے کے بعد وہ بھی اترنے لگی تھی لیکن دروازہ لاک ہونے پر گھبرا کر اس کی طرف دیکھنے لگی جو بڑے پر سکون انداز میں گاڑی پھر سے اسٹارٹ کر چکا تھا ۔۔۔۔
گھر کے گیٹ پر کھڑی سوہا مطمئین سی گھر کے اندر گھس گئی تھی ۔۔۔۔
اتنا کچھ کھا پی کر سارا دن عیش میں گزار کر وہ بدلے میں اتنا تو عتیق کے لیئے کر ہی سکتی تھی ۔۔۔۔
“اسلام علکم ۔۔۔”
وعلیکم سلام ۔۔۔ کبیرا کہاں ہے ؟”
شمائلہ بیگم کے ماتھے کے بل دیکھ کر اسے اندازہ ہوا تھا سب اتنا آسان نہیں ہے ۔۔
“آ گئی تم ! وہ نواب زادی کدھر ہے ؟”
“اف !! پھپھو کافی نہیں تھیں ۔۔۔۔ میری ماں تو یوں بھی مار دھاڑ کی شوقین ہے ۔۔۔”
خوف زدہ نظروں سے اس نے پہلے باری باری ان دونوں خواتین کو دیکھا پھر اپنے کمرے کو جو زیادہ دور نہیں تھا ۔۔۔
وہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ زیادہ سے زیادہ ایک جوتی ہی کھا سکتی تھی ۔۔۔۔
“آہمم۔۔۔۔۔ وہ عتیق بھائی کے ساتھ ڈیٹ پر گئی ہے ۔۔۔!”
توقح کے مطابق جنت بیگم کی پھینکی گئی ایک جوتی اس کی کمر پر پڑ گئی تھی مگر دوسری جوتی تیزی سے بند کیئے جانے والے دروازے پر پڑی تھی ۔۔۔۔
“کتنا سمجھایا ہے میں نے ۔۔۔ روپ نہیں آتا !
وہ بات نہیں رہتی ۔۔۔
لیکن آج کل کی نوجوان نسل سمجھتی ہی نہیں ہے کچھ ۔۔۔۔۔
بیشرم کہیں کے ”
نکاح نا ہوا ہوتا تو شمائلہ بیگم بھی یقیناً مائنڈ کر جاتیں لیکن اب جبکہ نکاح ہو چکا تھا ! وہ مطمئین سی ہوتی اپنی مسکراہٹ جنت بیگم سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر کامیاب نہیں ہوئی تھی ۔۔
“ہنس لو بی بی ہنس لو !
ہم جاہل ہماری باتیں جاہلانہ ۔۔ تم پڑھے لکھے صحیح ہو ۔۔ جو مرضی کرو ۔۔۔”
“ارے بھابی سنیں تو سہی !”
دھیرے سے ہنستی ہوئی وہ انہیں منانے ان کے پیچھے دوڑی تھیں ۔۔
***********************
دروازے سے بلکل لگ کر دبکی بیٹھی وہ شاک کی کیفیت میں تھی جب عتیق کی خفگی بھری آواز سنائی دی تھی ۔۔۔
“آرام سے بیٹھو میں کھا نہیں جائوں گا ۔۔۔”
بغیر اس کی طرف دیکھے وہ بس زرا سا ہلی تھی ۔۔ کم از کم عتیق کو تو اس کی پوزیشن میں کوئی فرق نظر نہیں آیا تھا ۔۔۔۔
“پہلے تو مجھے یہ بتائو کہ سوہا سے کیوں کہلوایا اس لنچ کے بارے میں؟ خود کیوں نہیں کہا ؟”
“وہ ۔۔۔ گوہر نے کہا تھا ۔۔۔”
“گوہر نے کہا تھا کہ لنچ کا سوہا سے کہلوانا مجھ سے ؟”
“آپ مجھے نروس کر رہے ہیں ؟”
“اتنی جلدی نروس بھی ہوگئیں تم ۔۔۔ ابھی تو بہت باتیں کرنی ہیں ۔۔”
“میں نہیں کروں گی آپ سے باتیں ۔۔۔!”
“بیشک نا کرنا ۔۔۔ بس میری سننا ! اور ضرور سننا !”
عتیق نے سنجیدگی سے کہا تھا اور پھر جب تک ڈرائیو کرتا رہا خاموش ہی رہا تھا ۔۔
سمندر کنارے گاڑی روک کر وہ کہنا شروع ہوا تھا ۔۔
“جو غلطی میں بچپن میں کرنے لگا تھا اس پر سوائے ندامت کے میں اور کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔
وہ میری زندگی کا ایسا باب ہے جس سے مجھے شدید نفرت ہے ۔۔
میں چاہتا ہوں تم اس باب کو زندگی کی کتاب سے پھاڑ پھینکو ۔۔۔۔”
رک کر عتیق نے جواب طلب نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
“بھول گئی ہوں تو ہی آپ کے نکاح میں ہوں نا !
ایسی یادیں جو تکلیف دیتی ہوں انہیں بھول جانا ہی بہتر ہے ۔۔۔”
“تھینک یو ۔۔۔”
چاندنی میں نہائے اس کے چہرے سے بمشکل نظریں ہٹاتا وہ یہی کہ پایا تھا ۔۔۔
“اور ایک بات بتائو ۔۔۔”
“جی ؟”
“لائبہ کو سب کیوں بتانے لگی تھیں ؟”
کبیرا کا جھکا سر اور جھک گیا تھا ۔۔۔
“میں چاہتی تھی وہ رشتہ ختم کر دیں ۔۔۔”
“اور تم ایسا کیوں چاہتی تھیں ۔۔۔”
عتیق جانتا تھا مگر پھر بھی سننا چاہتا تھا ۔۔
“آپ سب جانتے ہیں ۔۔”
اس کی مسکراہٹ کو خائف نظروں سے دیکھتی وہ واپس گاڑی میں جا بیٹھی تھی ۔۔۔
“اب آپ بھی مجھے کچھ بتائیں گے ؟”
“بلکل بتائیں گے ۔۔۔”
اپنی سیٹ سنبھالتے ہوئے وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔۔
“آپ لوگوں کو رشتہ کیوں ٹوٹا تھا ؟ کیا میری وجہ سے ؟”
“ہاں تمہاری وجہ سے ۔۔۔”
اس قدر صاف گوئی پر کبیرا کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔۔۔۔
“اس نے میری آنکھوں میں تمہارا عکس دیکھ لیا تھا ۔۔۔”
بات مکمل کر کے وہ بڑا پیارا سا مسکرایا تھا ۔۔
سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ وہ رخ موڑ گئی تھی ۔۔۔
“گھر چلیئے ۔۔۔”
“کس کے ؟”
“میرے !”
“تمہارا اصل گھر تو میرا گھر ہے ۔۔”
“میرے ماموں کے گھر ۔۔۔”
کبیرا کو اپنی ہتھیلیوں میں بھی پسینہ محسوس ہوا تھا ۔۔۔
وہ بے دھیانی میں فرنٹ سیٹ پر جو بیٹھ گئی تھی ۔۔
“چلتے ہیں نا آرام سے ۔۔”
“نہیں جلدی چلیں ۔۔۔ ممانی غصہ کریں گی ۔۔۔۔۔۔”
“ایک تو تمہاری ممانی کو غصہ کے سوا کچھ نہیں آتا ۔۔۔۔”
“جی نہیں وہ بہت اچھی ہیں بس زبان تھوڑی تلخ ہے ۔۔۔”
“مجھے تو وہ سرتاپا تلخ لگتی ہیں ۔۔۔
اچھا گھورو تو نہیں ۔۔ آئسکریم کھائو گی ؟”
“کچھ دیر پہلے ہی تو گوہر اور سوہا کے ساتھ کھائی تھی۔۔”
“اب میرے ساتھ بھی کھا لو ۔۔ میں نے اس وقت نہیں کھائی تھی ۔۔۔”
گاڑی روک کر مزید اس کی سنے بغیر وہ سنسنان راستے پر بنی اس بڑی سی دکان میں گھس گیا تھا ۔۔۔۔
چند ایک اور بھی دکانیں تھیں وہاں جن کا جائزہ لیتے ہوئے وہ شور کی آواز پر چونک کر مڑا تھا اور اگلے ہی پل پوری رفتار سے اس طرف دوڑ پڑا تھا ۔۔۔
“اے گاڑی روکو ۔۔۔۔ رکو !!!! کبیرا !!!!”
حلق کے بل چلاتا وہ یونہی بھاگتا بھاگتا واپس اپنی گاڑی طرف پلٹا تھا ۔۔۔۔۔
جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کر کے وہ اس سیاہ بڑی سی گاڑی کے پیچھے لگا چکا تھا جو اپنی راہ پر تیزی سے گامزن تھی ۔۔
“آخر وہ گاڑی سے کیوں نکلی تھی ۔۔۔۔۔”
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے شدت سے چیختا وہ شائد خود سے مخاطب تھا ۔۔
بجتے فون کو کان سے لگا کر اس نے ایک ہی سانس میں حمید صاحب کو صورتحال سے آگاہ کیا تھا. . . .
“کیا ؟ کون گاڑی میں اٹھا کر لے گیا اسے ۔۔ کیسے لے گیا ؟ اور تم کیا کر رہے تھے ؟
تمہاری ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“ابو آپ مجھ پر بعد میں چلا لیِجیئے گا ۔۔۔ بلکہ شوٹ کر دیجیئے گا ۔۔۔ اس وقت آپ پولیس سے رابطہ کریں ۔۔۔ میں اس گاڑی کے ہیچھے ہی ہوں ۔۔!”
انہیں اس گاڑی کا نمبر اور جس جگہ وہ تھے وہاں کا بتا کر اس نے پھینکنے والے انداز میں موبائل ڈیش بورڈ پر پٹخا تھا ۔۔۔۔
************************
ریش ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دھند بھی چھاتی جا رہی تھی جسے وہ ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے صاف کر رہا تھا ۔۔۔۔
اس وقت اس کے دل کی حالت کیا تھی یہ وہی جانتا تھا ۔۔۔
اس کی گاڑی کچھ پرانی تھی جبکہ سامنے جو گاڑی تھی وہ بہترین اسپیڈ رکھتی تھی ۔۔۔۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اس گاڑی کے سامنے تو دور برابر بھی اپنی گاڑی نہیں لا سکا تھا ۔۔
یکدم ہی چونکتے ہوئے اس نے بریک لگائے تھے ۔۔
وہ سیاہ گاڑی رک چکی تھی اور پھر ۔۔۔۔۔۔
“کبیرا ۔۔۔۔ کبیرا !!!! ”
اس کی پکار میں اذیت ہی اذیت تھی ۔۔۔۔
وہ سیاہ گاڑی آگے بڑھ چکی تھی مگر اس وقت عتیق کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔۔۔۔
اپنی کوٹ اتار کر اس پر ڈال کر اس نے اذیت ناک چیخ مارتے ہوئے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا تھا ۔۔
کتنی ہی دیر تک وہ روڈ پر اس کا نیم مردہ وجود خود میں سموئے بیٹھا بے بس سا روتا چلا جا رہا تھا ۔۔۔۔
یہ کیا ہو گیا تھا اچانک !
کچھ دیر پہلے ہی تو انہوں نے زندگی کو تمام خوبصورتیوں سمیت محسوس کرنا شروع کیا تھا ۔۔۔
کچھ دیر پہلے ہی تو انہوں نے ہر غم بھلا دینے کا عہد کیا تھا ۔۔
اب سے کچھ ہی دیر پہلے سب کتنا خوبصورت تھا ۔۔
ایسے اچانک قسمت نے کیسے پلٹا کھا لیا تھا ۔۔۔
کیسے ؟؟؟؟
************************
ہر فرد گھر میں موجود تھا مگر خاموشی ایسی تھی کہ سوئی بھی گرنے کی آواز آ جاتی ۔۔۔۔
ہر کوئی ایک دوسرے سے نظریں چراتا پھر رہا تھا ۔۔
شمائلہ بیگم کی آنکھیں ہی خشک نہیں ہوتی تھیں اور کبیرا ۔۔۔!
وہ ایک ہفتے میں اتنا روئی تھی کہ اس کی آنکھیں بنجر ہو کر رہ گئی تھیں ۔۔۔۔
لاکھ کوشش کی تھی سب نے مگر بات گھر سے نکل ہی گئی اور دور تک بھی چلی گئی تھی ۔۔
خوبصورت راہ پر چلتے چلتے بہت بدصورت موڑ لیا تھا زندگی نے ۔۔۔۔!
************************
“کہاں جا رہے ہو تم ؟”
“کہاں جا سکتا ہوں ؟”
“عتیق بس بہت ہو گیا ۔۔۔۔ یہ جو ہو گیا ہے میری برداشت سے باہر ہے ۔۔”
“کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ ؟”
وہ گاڑی میں بیٹھیے بیٹھتے واپس نکل آیا تھا اور دروازہ ایک جھٹکے سے بند کر کے اپنی ناگواری کا اظہار کیا تھا ۔۔۔۔
“وہی کہنا چاہ رہی ہوں جو سمجھ کر بھی تم سمجھنے کے لیئے تیار نہیں !
مجھے اس سے ہمدردی ہے لیکن میرے جیتے جی وہ اس گھر میں بہو بن کر نہیں آ سکتی اب ۔۔”
جہاں آرا بیگم کی آواز بتدریج اونچی ہوتی جا رہی تھی ۔۔
“وہ آلریڈی اس گھر کی بہو ہے امی ۔۔۔!
ہاں اگر آپ چاہتی ہیں تو وہ اس گھر میں نہیں آئے گی ۔۔ کہیں اور لے جائوں گا میں اسے۔۔۔۔ ”
“کتنا ضدی ہو رہا ہے یہ ۔۔ دیکھ رہے ہیں آپ !”
وہ وضو کرتے حمید صاحب سے مخاطب تھیں جنہوں نے جواباً ایک ناراض نظر ان پر ڈالی تھی ۔۔
گویا وہ بھی بیٹے کے ہمنوا تھے ۔۔۔
“عتیق بات سمجھنے کی کوشش کرو میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا کو سب پتہ چل گیا ہے ۔۔ لوگ کیا کہیں گے ۔۔!”
“لوگ کچھ نہیں کہ سکیں گے اگر گھر والے اس کی ڈھال بن جائیں گے ! یہ اپنے ہوتے ہیں جو موقح دیتے ہیں لوگوں کو کہنے کا۔۔۔
ورنہ لوگ کیا !
اور ان کے کہے کی اوقات کیا !”
“تم اپنی ماں کو چھوٹا کر رہے ہو اس کے آگے ۔۔۔۔ اسے چن رہے ہو ۔۔ میری بات نہیں مان رہے ہو !
ماں سے زیادہ عزیز ہو گئی ہے وہ تمہیں ؟”
“اف !!! آپ سمجھ ہی نہیں رہی ہیں جو میں کہ رہا ہوں !
اگر آپ میں سے اور کبیرا میں سے مجھے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو امی میں لمحے کی دیر کیئے بغیر آپ کو چنتا !
لیکن یہاں معاملہ الگ ہے ۔۔
ایک طرف آپ اور دوسری طرف “وہ” نہیں ہے ۔۔۔
ایک طرف آپ کی ضد ہے ! لوگوں کا ڈر ہے !
اور دوسری طرف اس کی بے بسی اور محبت !!!
اور میں اس کی محبت کے آگے آپ کی ضد اور ڈر کو نہیں چن سکتا ۔۔۔
آئی ایم سوری !”
بات ختم کر وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھا تھا ۔۔۔
پھر گیٹ کھولنے کا دھیان آیا تھا مگر حمید صاحب کو گیٹ کھولتا دیکھ کر ایک خفا سی نظر جہاں آرا بیگم پر ڈال کر کار کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے مدھم آواز میں بولا تھا ۔۔۔
“مت بھولیے امی آپ کے بیٹے نے بھی چودہ سال پہلے وہی گناہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔
اور اس وقت بھی “وہی” تھی ۔۔
اگر اللہ نے مجھ پر اپنا کرم کر دیا تھا تو آپ کو یہاں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔۔ اس پر غرور نہیں ۔۔۔۔!”
وہ گاڑی نکال کر لے گیا تھا اور پیچھے جہاں آرا بیگم کے پاس جیسے کہنے کے لیئے کچھ رہا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
************************
کمرے میں قدم رکھتے کے ساتھ ہی ایسی وحشت نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا کہ اس کا دم گھٹنے لگا تھا ۔۔۔دل فوراً سے پیشتر کمرے سے نکل جانے کا کیا تھا ۔۔
اور وہ نکلے کا ارادہ بھی کر چکا تھا ‘ مگر اسے ساتھ لے کر جو ساری دنیا سے چھپ کر کمرے میں پناہ لیئے بیٹھی تھی ۔۔۔
عتیق کی نظریں اس کے الجھے ہوئے بالوں پر تھیں ۔۔ پتا نہیں آخری بار اس نے بالوں کو کب سنوارا تھا ۔۔۔
دوسری طرف منہ کیئے لیٹی وہ آج بھی گہری نیند میں لگتی تھی ۔۔۔۔۔
بے آواز چلتا وہ بیڈ کے قریب جا کھڑا ہوا تھا ۔۔
ایک گھٹنا بیڈ پر رکھ کر اس نے آگے کو جھک کر اس کا چہرہ جانچا تھا ۔
زرد چہرہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی بھیگی پلکیں ۔۔۔
وہ شائد نیند میں بھی رو رہی تھی ۔۔۔۔۔
عتیق کا دل تکلیف کے گہرے احساس میں گھر گیا تھا ، بیساختہ ہی اس نے ہاتھ کبیرا کی پیشانی پر رکھا تھا مگر کبیرا نے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں اور پھر اس کے شور شرابے نے سب ہی کو کمرے میں جمح کر دیا تھا ۔۔۔
دنگ نظروں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا جو کسی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دے رہی تھی ۔۔۔۔
شمائلہ بیگم تک کا ہاتھ بار بار جھٹک دیتی تھی وہ ۔۔
عتیق یہاں بلا ناغہ آتا رہا تھا مگر اتفاق سے اس وقت کبیرا سو رہی ہوتی تھی ۔۔۔
وہ بھی بغیر اسے ڈسٹرب کیئے کچھ دیر بیٹھ کر بوجھل دل لیئے واپس چلا جاتا تھا ۔۔۔
آج اس کی حالت دیکھ کر دل جیسے پھٹنے لگا تھا ۔۔۔۔
“آپ لوگ جائیں !”
“کیا ؟”
“کیوں ؟”
“کیا مطلب جائیں ؟”
مختلف سوالات کے جواب میں اس نے بس ہاتھ جوڑ دیئے تھے اپنے ۔۔۔
اور اس کا قطعی انداز کسی کو اور کچھ پوچھنے ، کہنے سے روک رہا تھا ۔۔۔
“عتیق خیال رکھنا ۔۔ یہ پہلے بھی خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر چکی ہے ۔۔۔”
عتیق کے لیئے یہ خبر شاک کا باعث تھی ۔۔
جھکے سر کے ساتھ اس نے بدقت اثبات میں سر ہلا کر انہیں مطمئین کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔
***********************
“آپ بھی نکل جائیں یہاں سے قریب مت آئیں ۔۔۔ دور ہو جائیں مجھ سے !”
اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ حلق کے بل چیختی واش روم کی طرف بھاگی تھی ۔۔
وہ چھپ جانا چاہتی تھی اس کی نظرروں سے مگر عتیق نے اس سے پہلے ہی اسے بازو سے پکڑ لیا تھا جس پر جنونی ہوتی وہ اس پر تھپڑوں مکوں کی برسات کر چکی تھی ۔۔
عتیق کی آنکھ میں اس کا ناخن لگ گیا تھا جو اس نے گرفت ڈھیلی کر کے اپنی آنکھوں پر ایک ہاتھ رکھ لیا تھا ۔۔۔۔
دوسری طریف کبیرا بھی ہوش میں آتی پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔۔
آنکھ سہلاتے ہوئے عتیق نے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
حال تو پہلے ہی اجڑا ہوا تھا ۔۔
مگر اس وقت چہرے پر آنسئوں کے نشانات اور خوف و ہراس اس کا حال اور بھی قابل ہمدردی بنا رہا تھا۔۔
کچھ دیر دونوں ہی خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے تھے پھر کبیرا کا ضبط ٹوٹا تھا اور وہ اونچی آواز میں روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی تھی ۔۔۔۔۔
“میں ناپاک ہوں ۔۔۔ میں غلظ ہوں ۔۔ میرا خود کو دیکھنے کا دل نہیں کرتا پھر آپ لوگ کیوں دیکھتے ہیں مجھے ؟
مجھ سے دور رہا کریں ۔۔۔۔
آپ لوگوں کی محبت میرے لیئے عذاب بن گئی ہے ، میری زندگی میرے لیئے عذاب بن گئی ہے ۔۔ میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ آپ لوگ مجھے کیوں نہیں مرنے دیتے ؟
کیوں دشمنی کر رہے ہیں مجھ سے ؟
آپ چھوڑ دیں مجھے طلاق دے دیں ۔۔۔ بعد میں بھی تو دیں گے نا !”
“کیا بکواس کر رہی ہو ؟
میں کیوں دینے لگا تمہیں طلاق !”
وہ ہرٹ ہوا تھا اس کی بے اعتباری پر ۔۔
“مجھے پتہ ہے بس ۔۔ یقین ہے مجھے آپ مجھے کزن ہونے کی وجہ سے چھوڑیں گے نہیں تو باتیں سنایا کریں گے مجھے ۔۔۔۔ طعنہ دیا کریں گے مجھے ۔
آپ آسمان سے تو نہیں اترے ۔۔۔
اسی بے رحم دنیا کا حصہ ہیں ۔۔
آپ ایسا ہی کریں گے ۔۔۔۔
اور اس وقت میں بہت ہرٹ ہو جائوں گی ۔۔ میں بہت ہرٹ نہیں ہونا چاہتی اس لیِے چاہتی ہوں آپ ابھی مجھے چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔
پلیز چھوڑ دیں ۔۔ پلیز مجھے چھوڑ دیں ! چھوڑ دیں !
چھوڑ دیں مجھے !!!! ۔۔۔۔۔۔!”
عتیق بیچارگی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگا جیسے کہنا چاہتا ہو “کیسے دور کروں میں تمہارے دل سے یہ غلط فہمی ۔۔ یہ ڈر !”
“ادھر بیٹھو ۔۔۔۔”
“نہیں بیٹھنا مجھے کہیں آپ جائیں ۔۔۔۔”
“یہاں بیٹھ جائو اور میری بات غور سے سنو !”
اس کے بازو سے پکڑ کر عتیق نے اسے بیڈ پر بٹھایا تھا اور خود اس کے سامنے ہی اس کا ہاتھ تھام کر ایک گھٹنا ٹیک کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
کبیرا نے کچھ دیر تک تو ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی تھی پھر جھٹکے سے چہرہ موڑ کر جیسے ہار تسلیم کر لی ۔۔۔
“ہاں میں آسمان سے نہیں اترا ہوں ۔۔۔ لیکن یہ جو محبت ہوتی ہے نا !
ابو کہتے ہیں یہ آفاقی جذبہ ہے ۔۔۔۔۔
مجھ پر نا سہی ، محبت پر تو یقین ہے نا تمہیں ؟”
“نہیں ہے !”
اس کے جواب کو عتیق نے بلکل ان سنا کر دیا تھا ۔۔۔۔
“کبیرا !! تم میری عزت ہو !
اگر کوئی نظریں چرائے گا ۔۔ زندگی میں کبھی شرمندہ ہو گا ۔۔۔ تو وہ میں ہوں ۔۔۔۔ میں کیوں تمہاری حفاظت نہیں کر سکا !
تم لوگوں سے نہیں ملنا چاہتیں ؟
کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ لیکن تمہیں لوگوں سے بھاگنا نہیں چاہیے ۔۔
اعتماد سے سامنا کرنا چاہیے ۔۔۔
کیونکہ تم بے قصور ہو ۔۔
تمہاری تو کوئی غلطی نہیں تھی نا ؟
تمہاری روح تو پاک ہے نا ؟
پھر کیوں چھپتی پھر رہی ہو سب سے ؟
اعتماد سے سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو ۔۔۔۔
تمہارا اعتماد لوگوں کچھ الٹا سیدھا بولنے تو دور ، سوچنے بھی نہیں دے گا !”
“کہنا بہت آسان ہے !”
“کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے !”
عتیق کے اعصاب کچھ پر سکون ہوئے تھے ۔۔۔۔
وہ سن تو رہی تھی ۔۔ سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔!
“مجھ سے نہیں ہوگا کسی کا سامنا ۔۔۔۔”
“کبیرا مجھ پر یقین رکھو ۔۔۔ مجھ پر ۔۔ ہم سب پر !
ایک تو دنیا والوں کا سوچ کر انسان خود کو اور سے محبت کرنے والوں کو پتہ نہیں کیوں اتنی تکلیف دے دیتا ہے !
تم افسردہ ہو تو کم غزدہ ہم بھی نہیں ہیں ۔۔۔۔
خود کے غم سے نکل کر ایک بار چاچی کا چہرہ دیکھو ۔۔۔
سوہا کو دیکھو ۔۔۔۔ گوہر کو دیکھو جو خود کو اس سب کا قصور وار سمجھتی روتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
روزانہ وہ اتنا لمبا سفر کر کے گھنٹوں یہاں بیٹھی رہتی ہے کہ تم جاگو گی تو تمہارا دل بہلائے گی ۔۔۔ باتیں کرے گی ۔۔ مگر تم سب جان کر بھی انجان بنی رہتی ہو ۔۔
اپنی ممانی کا پتہ ہے تمہیں ۔۔۔
وہ بھی ہر وقت تمہارے لیئے دعائیں کرتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔
ان کے کچھ رشتے داروں نے اس بارے میں سوال جواب کیا کر لیئے انہوں نے سب کے سامنے ان کا دماغ صاف کر دیا ۔۔
تم یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لو کبیرا ۔۔۔۔! اکیلی نہیں ہو تم !
ہم سب ہیں تمہارے ساتھ ۔۔۔
اور جب سب اپنے تمہارے ساتھ ہیں تو دنیا کی فکریں پالنے کی آخر تک کیا بنتی ہے !
دنیا والوں کو پہلے رکھ کر اپنوں کے ساتھ ، خود کے ساتھ ۔۔ زیادتی کر جائو گی تم ۔۔۔۔!!!!”
لمبی سی سانس بھر کر وہ تھکا ہارا سا آخر میں اس کے پہلو میں بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔
وہ اس کے ہاتھ میں قید اپنے ہاتھ کو دیکھتی رہی اور عتیق اپنے ہاتھ پر گرتے اس کے آنسئوں کو ۔۔۔۔
“ان لوگوں کا کیا ہوا ۔۔ جانے دیا آپ لوگوں نے انہیں ؟”
مشکل سے وہ اپنے مجرموں کا ذکر کر پائی تھی ۔۔۔۔
اذیت ناک تھا اس بارے میں سوچنا بھی اس کے لیئے ۔۔۔
“ایسے ہی جانے دیتے انہیں ؟ وہ لوگ بہت باثر خاندانوں کے تھے پولیس ان کے خلاف سخت ایکچن نا بھی لیتی تو میں یقینی طور پر انہیں قتل کر دیتا ۔۔
مگر جانتی ہو کیا ؟
تمہاری آہیں عرش تک جا پہنچی تھیں ۔۔۔۔۔۔
اس ہی رات ان لوگوں کا بھیانک ایکسڈنٹ ہو گیا تھا ۔۔ دو تو موقح پر ہی جہنم واصل ہو گئے تھے ۔۔۔۔ اور ایک ہسپتال میں پڑا ہے ۔۔ مگر ڈاکٹرز اس کی طرف سے بھی پر امید نہیں ہیں ۔۔!”
حیرت زدہ سی وہ اسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔۔۔
اسے اگر پہلے یہ خبر پتہ چل جاتی تو اس کی آدھی اذیت تو ویسے ہی ختم ہو جاتی ۔۔
ایک اور خیال بھی اس کے ذہن میں آیا تھا جس سے وہ اندر تک کانپ گئی تھی ۔۔۔۔
کیا وہ گناہ کرتے وقت انہیں گمان بھی ہوگا کہ موت کا فرشتہ بھی ان کے پاس ہی کہیں منڈلا رہا ہے ۔۔۔
ان کے گمان میں بھی نہیں ہوگا اب سے کچھ دیر بعد وہ اس دنیا کی رونق کا حصہ نہیں رہیں گے ۔۔
ان کا تو یہی خیال ہوگا کہ اپنے تعلقات کی بنا پر وہ بچ جائیں گے ۔۔۔۔ با اختیار تھے ۔۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ۔۔۔
کیا روح قبض ہوتے وقت ان کا اختیار کسی کام آیا ہوگا ؟؟
زندگی کا ایک ایک پل یہ سوچ کر گزارنا چاہیے کہ شائد یہ آخری پل ہو ۔۔۔۔۔
یہ سب اس کے لیئے عبرت کا مقام تھا ۔۔۔۔!!
ہلکی سی جھرجھری لے کر اس نے اہنا ہاتھ عتیق کے ہاتھ میں سے نکالا تھا ۔۔۔۔۔۔
چند گہری گہری سانسیں لے کر وہ خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔
“میں ۔۔۔۔ رخصتی کی بات کرلوں چاچی سے ؟”
“رخصتی ولیمہ سب بہت سادگی سے ہوگا ۔۔۔۔!”
وہ فوراً بولی تھی ۔۔۔۔
“ہاں کوئی شو ، شا نہیں ہو گی لیکن لوگ بہت ہوں گے ۔۔۔۔۔
سب جاننے والوں کو بلائیں گے ہم !
سب دیکھ لیں گے کہ کبیرا تنہا نہیں ہے ۔۔۔ اس کے اپنے ہیں اس کے ساتھ ۔۔ ٹھیک ہے !”
مدھم آواز میں کہ کر عتیق نے ترچھی سوالیا نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
وہ جاننا چاہتا تھا وہ کچھ سمجھے بھی تھی ۔۔۔
“ٹھیک !!!”
گال پر لڑھکتے آنسو کو صاف کر کے وہ مری مری آواز میں بولی تھی ۔۔۔
عتیق نے بیساختہ ہی سکون کی گہری سانس بھری تھی ۔۔۔
************************
اندھیرے ہال میں سب کی نظریں اس طرف ہی مرکوز تھیں جہاں روشنیوں کا رخ تھا ۔۔۔۔
جتنے منہ تھے اتنی باتیں بھی جاری تھیں ۔۔
جو اس وقت رک گئی تھیں جب ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ چلتی کبیرا کے گرد پہلو میں چلتے عتیق نے بازئوں کا گھیرا بنا دیا تھا ۔۔۔۔
حسد طنز بھری باتیں نکالنے والے منہ اپنے آپ بند سے ہو گئے تھے جبکہ خوشیوں بھرا شور اچانک ہی اٹھا تھا ۔۔۔۔۔ سیٹیوں تالیوں کی گونج بیساختہ تھی ۔۔۔۔
پیشانی سے ٹھنڈا پسینہ صاف کرتے ہوئے اس نے جھلملاتی نظروں سے عتیق کو دیکھا تھا ۔۔
جس کے چہرے کا اطمینان و خوشی قابل دید تھے ۔۔۔۔۔
یہ شخص جو اس کا مجرم بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔ اس کا محافظ بن گیا تھا ۔۔۔۔!
جس کی پناہوں میں وہ خود کو سچ مچ بہت محفوظ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
کچھ وقت تو لگنا تھا اس کا اعتماد بحال ہونے میں ۔۔۔۔
لیکن جب اس سے محبت کرنے والے اتنے تھے اور اس کے ساتھ تھے ۔۔
جن کی محبت قسمت کی ستم ظریفی پر بھی کم نہیں ہوئی تھی بلکہ اور بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
اسے یقین تھا بہت وقت نہیں لگنا تھا اسے پہلے کی طرح کھل کر ہنسنے میں ۔۔۔۔!!!
زندگی ایک بار ہی ایسا کاری وار کرتی ہے ۔۔۔
اس لیئے اسے یقین تھا اب آگے کی زندگی میں بس خوشیوں کی چہکار ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
***********************
ختم شُد !
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...