” کیا!! یہ بھی ہو سکتا ہے؟؟” شایان انکی پوری روداد سن کر حیرت سے چیخا
“اللہ کی قدرت ہے” مصطفی صاحب مسکراتے ہوئے بولے
“اچھا آپ ایک دم سے دادی کے پاس مت جائیگا میں پہلے انکو اشارة بتاؤں تاکہ وہ کچھ امید لگائیں پھر جائیگا ایک دم سے شاید وہ برداشت نہیں کر پائیں گی آپ اور چاچی جب تک یہاں آرام کریں میں آفس سے بابا اور چاچو کو بلاتا ہوں پھپھو کو بھی کال کرتا ہوں جب سب جمع ہوجائیں گے تب میں آپکو میسج کروں آپ نیچے آجائیگا” وہ جلدی جلدی پلیننگ بنانے لگا اور کرن اور مصطفی اسکی جلدبازی دیکھ کر مسکرادئے
“بیٹا جلدی کرنا اب اور صبر نہیں ہوتا” مصطفی کے لہجے میں تھکن تھی
“بس ابھی سے کام شروع کرتا ہوں” وہ چٹکی بجاتے ہوئے بات کہ کر نیچے کی طرف بھاگا
________________________
وہ سب کو کال پر گھر آنے کا کہ کر دادی کے پاس آیا
“دادی؟” وہ دادی کے کمرے میں آیا وہ لیٹی ہوئی تھیں
کتنی کمزور ہوگئی تھیں غم سہ سہ کر بالکل چپ چپ سی رہتی تھیں شایان انکے قریب آگیا
اسکو سمجھ نہیں آریا تھا بات کیسے شروع کرے
“وہ دادی آپکی طبیعت کیسی ہے؟” پہلے تصدیق چاہی آیا خبر سنانا خطرناک نہ ہو
“ٹھیک ہوں” نحیف سی آواز میں کہا
“مصطفی چاچو اگر زندہ آپکے سامنے آجائیں تو آپکو یقین آجائیگا کہ وہ زندہ ہیں کیا آپ انکو پہچان لینگی؟” شایان ڈرتے ڈرتے بولا
“ماں کو کوئی بچہ نہیں بھولتا اگرچہ کتنے سال بیت جائیں لیکن تم یہ فضول باتیں کر کے میرا دل مت بہلاؤ” وہ اداسی سے بولیں
“نہیں دادی جان یہ فضول باتیں نہیں ہیں وہ سچ میں زندہ ہیں” وہ خوشی سے بولا تو دادی بے یقینی سی اسکو دیکھ رہی تھیں
“یہ کیسے ہوسکتا ہے ہم نے اسکا جنازہ پڑھا ہے” دادی اب بھی حیرت میں تھیں
“وہ جنازہ اس بس ڈرائیور کا تھا جس سے انکی گاڑی ٹکرائی تھی” وہ دادی کو اٹھاتے ہوئے بولا
“شایان بیٹا پوری بات بتاؤ” دادی کو اب تجسس ہورہا تھا تب شایان نے پوری بات بتائی
“کہاں ہیں میرے بچے بلاؤ بلاؤ” وہ جذباتی انداز میں بیڈ سے اٹھنے لگیں
” ارے ارے رکیں تو سہی” شایان انکو آہستہ سے اٹھا کر لاونچ میں لے آیا تب ہی بابا اور چاچو بھی آگئے
“کیا ہوا شایان اتنی ایمرجینسی میں بلایا ہے؟” دونوں پریشان تھے رابعہ اور سمیہ بیگم بھی وہیں آگئیں تھیں
“بوا آپ حوریہ کو بلائیں” اس نے سائڈ پہ کھڑی بوا کو کہا جو فورا اسکو بلانے چلی گئیں
دس منٹ میں پھپھو کی فیملی بھی آگئی
“اب بول بھی دو شایان کیوں ہولائے جاریے ہو؟” سمیہ بیگم ماحول سے گھبرا کر بولیں
“میں جو آپ لوگوں کو خبر سنانے جارہا ہوں اسکو جان کر آپ لوگ بہت خوش ہونگے مصطفی چاچو اور کرن چاچی زندہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔آگے اس نے ساری روداد سنادی اور سب کے چہرے دیکھنے لگا جو ہکا بکا اسکو دیکھ رہے تھے
“یہ کیسے ہوسکتا ہے”
“کیا؟؟؟”
“غلط فہمی ہوئی ہوگی”
طرح طرح کے الفاظ اسکے کانوں پر پڑے اس نے مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ دونوں اسکے میسج کرنے پر آگئے تھے
“یقین نہیں آرہا تو خود دیکھ لیں” اس نے دروازہ کی طرف اشارہ کیا دونوں اندر داخل ہوئے اور سب کے چہرے حیرت کے مارے کھلے تھے اور حوریہ تو اپنی میم کو ادھر دیکھ کر حیران سے بھی حیران رہ گئی تھی اسکا اندازہ درست تھا اور شہوار بھی بالکل ٹھیک کہتی تھی آخر کو وہ بیٹی جو تھی۔۔
“مصطفی میرا بیٹا” دادی صوفے سے اٹھیں مصطفی بچوں کی طرح بھاگ کر ان سے لپٹ گئے دونوں روتے رہے”
“مصطفی” بڑے تایا کی بھیگی آواز پر وہ ماں سے الگ ہوئے اور بھائی کے گلے لگ گئے یہ وہ بھائی تھے جو اسکے بہترین ساتھی تھے
“واؤ واٹ آ فلمی سچویشن” اریبہ تالیاں بجاتے ہوئے بولی
مصطفی اور کرن سب سے مل کر صوفے پر بیٹھ گئے کرن کیلئے حیرانی کی بات تھی کہ سمیہ بیگم بھی انکے گلے لگ کر روئی تھیں اور انکا مثبت رویہ سب کیلئے خوشی کا باعث تھا
“آپ لوگ باتیں کریں میں اور رابعہ کھانا لگواتے ہیں” سمیہ بیگم اٹھنے لگیں تو کرن بھی ساتھ اٹھنے لگیں
“ارے بھابھی آپ ادھر ہی بیٹھیں ہم دونوں کرلیں گے” سمیہ بیگم کے اس انداز کر تو کرن بے ہوش ہونے کو تھی
____________________________
شہوار اور فیضان دونوں کراچی پہنچ گئے تھے
“شہوار ایڈریس دو گھر کا” فیضان گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا جو اس نے دوست سے منگوائی تھی اس نے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دی تھی
“کون سا ایڈریس؟” شہوار حیرانی سے بولی
“ماما بابا کے گھر کا یار” فیضان اسکی عقل پر افسوس کرتے ہوئے بولا
“وہ تو میرے پاس نہیں ہے” شہوار نے معصومیت سے بولا
“کیا؟؟” ایڈریس نہیں ہے اب ہم کیسے جائیں گے بتا تو دیتی یار عجیب ایڈریس تو پتہ ہوتا ہے یار” فیضان کا بس نہیں چل رہا تھا اپنا سر شیشے پر دے مارے
“آپ بابا کو فون کر کے پوچھ لیں نا” شہوار نے “عظیم” مشورہ دیا
“ہاں سرپرائیز خراب کردوں” فیضان سخت جھنجھلایا ہوا تھا
“ہاں تو اب کیا کریں آپ پوچھ لیں نا پلیز” شہوار کو بھی اب ٹینشن ہونے لگی تھی
آخر ناچارہ کار اس نے مصطفی کو کال ملادی دو تین بیل کے بعد فون اٹھالیا گیا تھا “بابا یار کیسی بے عقل بیٹی ہے آپکی” مصطفی کے کال اٹھاتے ہی فیضان نے کہا تو شہوار نے اسکو ایک مکہ جڑا
“کیا ہوا فیضان؟” فیضان کا نام سن کر حوریہ کے دل کی دھڑکن اتھل پتھل ہونے لگی اور باقی سب بھی فیضان کے نام سے چونک گئے تھے
“گھر کا ایڈریس تو دیں آج ہم نے سرپرائیز دینا تھا پر آپکی بیٹی کی وجہ سے سب کینسل ہوگیا” فیضان کی آواز جھنجلائی ہوئے تھی شہوار خاموشی سے باہر دیکھنے لگی
“اچھا ابھی ایک کام کرو تم دونوں ادھر آجاو دادی کے گھر” مصطفی نے کہا جبکہ فیضان جو ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا ایک دم سیدھا ہوکر بیٹھا
“کیا کہ رہے ہیں بابا ہم وہاں کبھی بھی نہیں آئیں آپ نہیں جانتے وہاں ہماری عزتیں اچھالی گئی تھیں” وہ بے یقینی سے دکھ سے بولا
“بیٹا میرے لئے آجاو پلیز ماما بابا کی خوشی کیلئے آجاو” مصطفی اب سب کے پاس سے اٹھ کر باہر آگئے تھے وہ ساری عداوتیں دور کردینا چاہتے تھے
“پر بابا۔۔” وہ آگے کچھ کہتا پر ٹون ٹون کی آواز پر مزید جھنجھلا گیا
“کیا مصیبت ہے۔۔وہ بڑبڑایا شہوار حیرت سے بھائی کو دیکھ رہی تھی
” رزاق گاڑی ہمارے گھر کیطرح موڑ دو” رزاق(ڈرائیور ) چونکہ وہ گھر جانتا تھا اس لئے گاڑی ادھر ہی موڑ دی
“بھیا ہم ادھر کیوں جاریے ہیں” شہوار حیرت سے بولی
“بابا کا حکم ہے” وہ اسپاٹ لہجے میں بولا
“پر کیوں بابا کو نہیں پتا کیا ہمارے ساتھ وہاں کیا ہوا ہے؟” شہوار بے یقین تھی
” پتہ نہیں انہوں نے کیا گل کھلائے ہیں کہ اپنے بچوں کی عزتیں نہیں دکھ رہیں” فیضان کو غصہ آرہا تھا شہوار نے بھی خاموش رہ جانے کر مصلحت جانی
________________________
“ماموں شہوار اور فیضان بھائی آپکو کیسے ملے؟” اریبہ نے تجسس سے پوچھا حوریہ نے تشکر سے اسکو دیکھا اسکے دل کی بات جو کہہ دی تھی
اسکے جواب پر مصطفی نے ساری کہانی بتائی کیسے شہوار کرن کو اور فیضان انکو ملا
“اور تم مجھے بالکل نہیں پہچانی ہاں؟” کرن حوریہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولیں تو وہ فقط مسکرادی اب بہت کم بولتی تھی
کرن کو اسکی حالت دکھ رہی تھی کیسی مرجھائی ہوئی تھی
“فیضان آئیگا تو سمجھاؤں گی اسے” انہوں نے دل میں پکا عہد کرلیا تھا ۔
شایان وہاں سے اٹھ کر لان میں آگیا اسکو یقین نہیں آرہا تھا رب نے اسکی سن لی تھی اور شہوار آرہی تھی وہ اپنے کمرے میں گیا اسکو دیکھنے سے پہلے ہی رب کا شکر ادا کرنا زیادہ ضروری تھا
“اس رب کو مت بھولو جسکی وجہ سے تمہارے دل میں خوشی آئی ہے” حوریہ کو میسج کر کے وہ وضو کرنے چلا گیا اور حوریہ بھی میسج پڑھ کر مسکراتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف آگئی
___________________________
دونوں گھر کے باہر کھڑے تھے بیل بجانے کی دونوں نے زحمت نہیں کی تھی
شہوار نے بھائی کو دیکھا اسکے چہرے پر سختی تھی فیضان نے موبائل نکال کر مصطفی کو اپنے آنے کی اطلاع دے دی
“ارے بھئی میرا بیٹا آگیا” انہوں نے میسج پڑھ کر خوشی سے کہا تو بڑے تایا ان دونوں کو ریسیور کرنے اٹھے
گیٹ کھل گیا سامنے بڑے تایا کھڑے تھے اور دونوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو بنا ساز و سامان کھڑے تھے
“تم دونوں کا سامان کہاں ہے؟”انہوں نے حیرت سے پوچھا
“ہمیں بابا سے ملنا ہے” فیضان کے سخت لہجے پر وہ سائیڈ پر ہوگئے اور وہ شہوار کا ہاتھ پکڑ کر تیز تیز اندر کی جانب بڑھ گیا
فیضان کو دیکھتے ہی مصطفی نے اٹھ کر گلے لگایا جبکہ شہوار سیدھا ماں کے پاس آگئی
“فیضان بیٹا سب سے ملو” مصطفی صاحب اسکو بیٹھتا دیکھ کر ایسے بولے جیسے وہ کوئی چھوٹا بچہ ہو
انکی بات سن کر فیضان نے ایک نفرت بھری نظروں سے سب کو دیکھا
“السلام علیکم” وہ فقط سلام کر کے بیٹھ گیا کرن بیٹے کے اس رویہ سے دکھی ہورہی تھیں
پھر سمیہ بیگم نے کھانے کی اطلاع دی تو سب اٹھ کر جانے لگے شہوار کو دیکھ کر انکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے لیکن وہ ابھی کچھ بھی کہنے سے گریز کر رہی تھیں
_____________________________
“فیضان نے کھانے سے فورا ہاتھ کھینچ کر کہا
“بیٹا ابھی تو آئے ہو تھوڑی دیر بیٹھو تو سہی” دادی کی کمزور آواز پر وہ پہلو بدل کر رہ گیا
“فیضان بیٹا آپ اور شہوار دونوں کمرے میں جاکر آرام کرو تھکے ہوئے آئے ہو” کرن نے اسکی تھکاوٹ محسوس کرتے ہوئے کہا
اسکا دل چاہا بول دے اب میرا کمرہ نہیں ہے وہ ہر ماں کی بے ادبی کے ڈر سے خاموش رہا اور ان سب سے دور جانے کیلئے اسکو کمرے سے بہتر کوئی جگہ اچھی نہیں لگی وہ شہوار کو اشارہ کر کے کمرے کی طرف چل دیا اور شہوار بھی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی
_________________________
مسلسل دستک پر شہوار نے جھنجلا کر دروازہ کھولا تو سامنے اریبہ کھڑی تھی
“کیسی ہو شہوار؟” اریبہ اندر آتے ہوئے بولی
“ٹھیک” مختصر سا جواب دیا
“مجھ سے بھی ناراض ہو؟” اریبہ کے سوال پر شہوار نے نظریں اٹھا کر اسکو دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلادیا اسکی تو کوئی غلطی نہیں تھی نا
“شہوار حوریہ کی بہت طبیعت خراب ہے” اریبہ نے اسکو حوریہ کے بابت بتانا چاہا
“میرے سامنے اسکا نام مت لو” وہ سختی سے بولی
“ہاں میرا نام مت لو اریبہ میں بہت بری ہوں” حوریہ کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا اور چونک گئی کتنی کمزور ہوگئی تھی وہ آنکھوں کے نیچے حلقے چہرہ زرد اسکو خود سے خوف محسوس ہونے لگا اسکی حالت کی ذمہ دار کہیں وہ تو نہیں؟
اریبہ ان دونوں کو چھوڑ کر چلی گئی وہ چاہتی تھی دونوں کی صلح ہوجائے گھر بھر ان دونوں کی شرارتوں سے مہکتا جو تھا
“شہوار” وہ کمزور آواز میں بولتی ہوئی آگے آئی اور اسکے گلے لگ کر زار و قطار رونے لگی
” مجھے معاف کردو شہوار تم لوگوں نے میری خاموشی کو غلط سمجھا میں سب سن کر سکتہ کی کیفیت میں چلی گئی تھی میں بہت کچھ بولنا چاہتی تھی پر بول نہیں پارہی تھی شہوار پلیز میں شاک میں تھی اسکا یہ مطلب نہیں تھا مجھے فیضان پر اعتماد نہیں تھا دیکھو میں اندر سے ختم۔ہورہی ہوں تمہاری علاوہ تو کوئی میری دوست بھی نہیں تھی میں اکیلی ہوگئی شہوار۔” وہ زار و قطار رو رہی تھی اور شہوار کا دل اتنا سخت نہیں تھا کہ بچپن کی دوست کی یہ حالت دیکھ کر بھی نرم نہ پڑتا اس نے بھی حوریہ کو ٹائیٹ سے ہگ کرلیا
“میں تم سے ناراض نہیں حوری” وہ بھیگی آواز میں بولی
“سچ کہ رہی ہو؟” حوریہ نے اس سے الگ ہوکر بے یقین سے پوچھا اس سے اتنی جلدی معاف کرنے کی توقع کہاں تھی
“ہاں بالکل مچ بس اب رونا بند کرو” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“لیکن بھائی کو اب خود منانا بیٹا” وہ وارن کرتی ہوئی بولی
حوریہ نے مسکراتے ہوئے اسکو گلے سے لگالیا اور یوں بچپن کی دوستی کا گلاب پھر سے کھلنے لگا
____________________________
شایان بنا دستک دیئے اسکے کمرے میں داخل ہوگیا
“کسی کے کمرے میں کھٹکھٹا کے داخل ہوتے ہیں” فیضان اسکو دیکھ کر ہی سختی سے بولا
“وہ کسی کا کمرہ ہوتا ہے بھائی کے کمرے میں دستک کے بنا بھی داخل ہوجاتے ہیں” شایان نے مان سے کہا تو فیضان پہلے تو اسکو دیکھ کر رہ گیا پھر فورا ہی نظریں پھیر لیں
“یار انسان ہوں خطا کا پتلا ہوں غلطی ہو جاتی ہے معاف کردو فیضی بہت پچھتاتا ہوں تمہارا دل دکھا کر بہت دکھی رہتا یوں خود بھی سکون نہیں ملتا” شایان دکھی لہجے میں بولا
“صرف دل تھوڑی دکھایا ہے میرا مان توڑا میری عزت کو تاڑ تاڑ کیا مجھ پر کیچڑ اچھالا لفظوں سے میرا بدن چھلنی چھلنی کیا” فیضان ایک دم بھڑک گیا
“معافی نہیں مل سکتی مجھے؟” وہ مایوسی سے بولا
“نہیں کبھی نہیں” وہ قطعیت سے بولا
“ٹھیک ہے” وہ کمرے سے چلا گیا اور فیضان حیران رہ گیا
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا ہاتھ میں پستول تھی شایان نے سارے دروازے بند کردیئے
فیضان کو دھچکا لگا
“یہ لو مجھے مارو کیونکہ میں تمہارے اور شہوار کے بغیر نہیں رہ سکتا” شایان نے تھکے ہوئے لہجے سے کہا اور پستول فیضان کے ہاتھ پر دے دی
فیضان اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا کتنی سرخ ہورہی تھیں یہ وہ شخص تھا زندگی کے ہر موقع پر اس شخص نے اسکا ساتھ دیا تھا ہر خوشی میں اسکے ساتھ ہنسا تھا ہر غم میں اسکا ساتھی بنا تھا اور جب ساتھ دینے کا موقع آیا تو اس نے ساتھ چھوڑ دیا فیضان کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے اس نے فورا رخ پھیر کر چھپالیے
“تو جانتا ہے تیرے آنسو مجھ سے چھپ نہیں سکتے فیضی” شایان سے فیضان کا دکھ دیکھا نہیں جارہا تھا جو اسکی طرف سے ہی ملا تھا
“چھپ سکتے ہیں اور چھپے ہیں جب تو نے مجھ پر الزام لگایا میں آنسو صاف کر کے کمرے سے گیا تجھے نہیں دکھا میں گھر چھوڑ کر بھیگی آنکھیں لے کر گیا تجھے نہیں دیکھا مجھے امید تھی تو آئیگا مجھ سے معافی مانگے گا میں ساری رات نہیں سویا تھا شانی تو نے صرف مجھ پر نہیں میرے بہن پر بھی الزام لگایا جس سے تو بچپن سے عشق کرتا تھا مجھے دکھ تو اس بات کا ہے” فیضان بھرک اٹھا
“وہ میں نہیں تھا جس نے تجھ پر الزام لگایا وہ شیطان تھا فیضی اللہ نے میرے اندر کے شیطان کو مار دیا فیضی تو معاف کرے شہوار سے میں خود معافی مانگوں گا” وہ روتے ہوئے بولا اور پھر فیضان سے اور برداشت نہیں ہوا اس نے اپنے اس بچپن کے دوست کو معاف کردیا
دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ۔۔شیطان دم دبا کر بھاگا۔۔۔اور دوستی کے پھول مسکرانے لگے
__________________________
“سنیں مصطفی اور کرن بھی آئے ہیں ہم دبے پاؤں یہاں سے چلے جاتے ہیں میں اور بد نامی نہیں سہ سکتی” عالیہ صبح سے گھر میں شور سن رہی تھیں
احمر کے آتے ہی ان سے بولیں
” ہاں چلو پر بینش کا کیا کریں؟” احمر بھی پریشانی سے بولے
” ہم امریکہ نہیں جاتے بائے روڈ اسلام آباد کیلئے نکل جاتے ہیں ابھی اتنا پیسا ہے کہ ہم ہوٹل لے سکتے ہیں” عالیہ نے مشورہ دیا جس احمر نے اتفاق کیا اور سامان پیک کرنے لگ گئے
کچھ دیر بعد بینش بھی آگے جو آج پورے ایک ہفتے بعد اپنی شکل دکھا رہی تھی ماں باپ کی بات سن کر اس نے بھی اتفاق کیا اور بیگ پیک۔کرنے چلی گئی
_____________________________
“فیضان” وہ اسکے کمرے میں آئی جو الٹا لیٹا ہوا تھا اسکی آواز سن کر جھٹکے سے اٹھا
“کیوں آئی ہو ادھر؟” فیضان سختی سے سے بولا
“فیضان مم مجھے مم معاف کک کردیں” کمزوری کی وجہ سے اس سے بولا بھی نہیں جارہا تھا فیضان نے چونک کر اسکی حالت دیکھی جو حد سے زیادہ کپکپارہی تھی اسکو شہوار کی بات یاد آئی جو کچھ دیر پہلے ہی اسکا میسج پڑھ رہا تھا
“اسکا ایک ایک عضو سچائی کی گواہی دے رہا ہے غور سے دیکھے گا بھیا کسی کو اتنا بے بس نہیں کرتے اسکی آنکھوں میں اپنے لئے تڑپ ضرور دیکھے گا” شہوار نے حوریہ کی خاموشی کی وجہ بتا کر لاسٹ میں یہ لکھا تھا
فیضان اسکو بغور دیکھ رہا تھا واقعی وہ بہت کمزور ہوگئی تھی آنکھوں میں اپنے لئے محبت اور تڑپ دیکھ کر اسکو آگے بڑھ کر سینے سے بھینچ لیا اور حوریہ اسکی بانہوں میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رودی
” اب بس بھی کرو میں ناراض نہیں ہوں میری جان” فیضان سے اسکا رونا برداشت نہیں ہورہا تھا
“آآآپ۔۔” وہ کچھ کہنا چاہتی تھی
“جانتا ہوں بہت اچھا ہوں لیکن تم چڑیل لگ رہی ہو بالکل” فیضان ہنستے ہوئے بولا
“کیا کیوں” حوریہ گھبرا کر بولی
“آؤ دکھاؤں یقین آجائیگا” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر آئینہ کے سامنے لے آیا
“یہ کون میرا مطلب یہ کیسے ہوا؟” آنکھوں کا سارا کاجل رخساروں پر اپنے نقش بنا گیا تھا اور حوریہ کی بات سن کر فیضان کا قہقہہ گونجا
“اپنے آپکو بھی نہیں پہچان رہی جانی” وہ اسکو کندھوں سے پکڑ کر بولا تو حوریہ اسکا موڈ دیکھ کر واشروم بھاگ گئی اور پیچھے وہ مسرور سا اپنے آپکو آئینہ میں دیکھنے لگا
____________________________
مصطفی کے اصرار پر فیضان اور شہوار وہیں رک گئے فیضان کو کوئی مسئلہ نہیں تھا البتہ شہوار بہت روئی تھی اسکو لگا تھا فیضان بھی ادھر آکر بدل گیا کل اسکا شایان سے سامنا ہوا تھا جب وہ پانی لینے کچن میں آئی تھی شایان نے اسکو بہت روکا لیکن اسکی سرد مہری کے آگے وہ بھی ہار گیا تھا فیضان بھی شایان کو معاف کرنے پر زور دے رہا تھا اور حوریہ بھی اسکی صفائی پیش کر رہی تھی
شایان اسکو منانا چاہتا تھا پر وہ ہاتھ نہیں آرہی تھی وہ مدد لینے لان میں آیا جہاں حوریہ اور فیضان بیٹھے تھے
“شرم تم کو مگر آتی نہیں” وہ منہ بسورتا ہوا بولا
“کیا ہوا” فیضان نے مسکراہٹ چھپا کر کہا
“ہونا کیا ہے آپکی بہن کے سینے میں غلطی سے پتھر چلا گیا ہے” وہ جھنجھلا کر بولا
“سوری اس بارے میں میںں آپکی کوئی مدد نہیں کروں گا” فیضان نے صاف ہری جھنڈی دکھائی
“اچھا دوست دوست نہ رہا کے مصداق پر عمل کروگے” حوریہ ان دونوں کی نوک جھونک سے محفوظ ہورہی تھی
“یار یہ دیکھو” اس نے ہاتھ جوڑ دئیے
“بس مجھے ایک موقع فراہم کردو منا میں خود لوں گا” وہ بے چارگی سے بولا
” بس اس سے زیادہ نہیں کروں گا” گویا احسان بتایا
“حوریہ شہوار کو بولو میں اسکو چھت پر بلا رہا ہوں اور تم پانچ منٹ بعد چھت پر چلے جانا” اس نے بیٹھے بیٹھے آرڈر جاری کیا
حوریہ اٹھ کر چلی گئی اور شایان اسکے قریب آگیا
“دوست ہو تو ایسا” اسکے ماتھے پر بوسہ دیکر وہ بھاگ گیا
“پاگل” فیضان اسکی حرکتوں پر مسکرا کر رہ گیا
_______________________________
وہ کب سے چھت پر کھڑے فیضان کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ آکر ہی نہیں دے رہا تھا
“اففف بھیا بھی نا اب نہیں آونگی میں” وہ جانے لگی ایک دم نظر شایان کی طرف اٹھی جو سیڑھیوں پہ کھڑا تھا
“جگہ دیں” وہ قریب جاکر سختی سے بولی
“دے چکا ہوں” شایان نے با معنی جملہ کہا
“کہاں دی ہے؟” وہ جھنجھلا کر بولی
“ادھر” اس نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ کیا
” مجھے نیچے جانا ہے” وہ اسکی بات اگنور کر کے بولی
“شہوار کب تک معاف کروگی؟” وہ بے بسی سے بولا
“کبھی نہیں” وہ بھی سختی سے بولی
“میں مر جاؤنگا تب بھی نہیں؟” اسکی بات کر شہوار اندر تک کانپ گئی
“شایان فضول باتیں مت کریں مجھے جگہ دیں نیچے جانا ہے” شہوار کی بات سن کر شایان نے جگہ دینے کے بجائے اسکو اپنے سینے سے لگالیا اس نے اپنا آپ چھڑانا چاہا لیکن چھڑا نہیں پائی اور اسکے سینے پر سر رکھ کر رودی وہ بھی اکیلے رہ رہ کر تھک گئی تھی
“آپ نے کیوں ایسا کیا؟” سینے پر سر رکھ رکھے پوچھا
“غلطی ہوگئی غصہ میں تھا”
“مجھے طلاق بھی دے دیتے”
“شکر نہیں دی ورنہ قبر میں ہوتا”
“آپ بینش کو طلاق دینگے”
“ہاں لیکن ابھی نہیں ایک سبق سکھانے کے بعد” اور شہوار نے اثبات میں سر ہلا کر اسکے سینے میں منہ چھپالیا شایان کے اندر ڈھیروں سکون اتر آیا وہ بھی بے تاب تھا اسکو سینے سے لگانے کیلئے آج وہ پیاس بھی بجھ گئی اور نیچے کونے میں کھڑی سمیہ بیگم مسکرادیں
______________________________
“واٹ یہ کیا کہ رہے ہیں آپ؟” شایان کال پر کسی سے بات کر رہا تھا تب اچانک بولا سب اسکی طرف متوجہ ہوگئے
“آپ ادھر ہی لے آئیے انکو” اس نے کہ کر فون بند کردیا اور بوا کی طرف متوجہ ہوا
“عالیہ خالہ اور انکل کو بلا کر لائیں ” وہ دھاڑا
“کیا ہوا شایان” فیضان اسکو اتنے غصے میں دیکھتا ہوا بولا
“حساب برابر ہوا ہے” وہ بڑبڑایا سب پریشان تھے پتہ نہیں کیا ہونے والا تھا
عالیہ بھی آئیں تھیں احمر بھی ساتھ ہی تھے پورا خاندان
لاونچ میں جمع تھا شایان نے کسی کو کال کر کے آنے کو کہا تھا سب خاموش تھے جب بیل کی آواز آئی
وہ اور اسکے ساتھ دو لڑکے بینش کو بے ہوشی حالت میں لے کر آئے تھے
“ارے کیا ہوا میری بیٹی کو” عالیہ تڑپ کر اٹھیں شایان نے آگے بڑھ کر فورا انکو روک لیا
پیچھے سے خادم بھی آگیا جسکو وہ گھر سے نکال چکے تھے
” آپ اسکو ادھر ہی لٹا دیں” وہ اس شخص سے مخاطب ہوا تو انہوں نے آگے بڑھ کر صوفے پر لٹادیا
“جی ڈاکٹر صاحب آپکو یہ کہاں سے ملیں اور انکو کیا ہوا تھا” وہ با آواز بلند لہجے میں بولا
“میں گزر رہا تھا یہ ایسے ہی روڈ پر گری ہوئی تھیں میرے دوست اور میں نے انکو اٹھایا اور ہاسپٹل لے گئے وہاں پورے چیک اپ کے بعد جو پتا چلا وہ بہت شرمناک ہے” ڈاکٹر افسردگی سے بولے
“جی آپ بتادیں انکو کیا ہوا ہے” وہ لہجے میں سختی لاتے ہوئے بولا
“انکو ایڈز ہے” ڈاکٹر نے سر جھکا کر کہا عالیہ نے اپنا دل تھام لیا
” یہ یہ جھوٹ ہے میری بیٹی ایسی نہیں ہے” وہ کانپتی آواز میں بولیں
“پلیز خالہ میں ابھی بات کر رہا ہوں” وہ سختی سے بولا
“تھینکس ڈاکٹر اب آپ جاسکتے ہیں اور ہاں یہ رپورٹس مجھے دے دیں” پھر ڈاکٹرز کے جاتے ہی وہ خادم کی طرف متوجہ ہوا
“جی خادم اس دن کتنے پیسوں پر آپ نے فیضان سے جھوٹ بولا تھا؟” وہ سختی سے بولا
“وہ وہ جج میں بولنا نہیں چاہتا تھا” خادم ڈرتا ہوا بولا
“ابھی جو پوچھا ہے اسکا جواب دیں” وہ چلاتے ہوئے بولا
” جج جی دس ہزار” خادم ہکلاتے ہوئے بولا
“ٹھیک ہے جاؤ اور اب واپس اس گھر کا رخ مت کرنا” اسکے لہجے میں انتہا کی سختی تھی
اسکے جاتے ہی شایان سبکی طرف متوجہ ہوا
“اب تو آپ لوگوں کو سچائی پتہ چل گئی ہوگی یا اور کھل کے بتاوں” وہ استہزائیہ انداز سے عالیہ کو دیکھنے لگا
سمیہ بیگم کے مارے شرمندگی سے برا حال تھا اور عالیہ اور احمر کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں تھے
شہوار حوریہ اریبہ سمرہ مسکرارہے تھے اور فیضان بڑے تایا رابعہ چھوٹے تایا دادی اور پھپھو اسکو فخر سے دیکھ رہی تھیں
“دفع ہو اب میرے گھر سے چلی جاؤ یہاں سے”سمیہ بیگم ایک دم سے اٹھ کر چلانے لگیں
“نا نا ماما ریلیکس اب یہ اپنے ملک کبھی واپس نہیں جائیں گے” وہ مسکراتا ہوا بولا اسکے انداز پر سب چونک گئے
“آجائیں” اس نے دروازہ کی طرف اشارہ کیا وہاں سے پولیس آئی
“آپ لے جاسکتے ہیں” وہ ان تینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
“آپ۔لوگوں کے اطمینان کیلئے بتاتا چلوں کہ یہ پوری فیملی چوری جیسے گھناؤنے جرم میں ملبوس ہے اور اسکے سارے ثبوت میں پچھلے ایک مہینے سے جمع کرکے پولیس کو دے چکا ہوں حتی کہ چوری کرتے ہوئے ویڈیو بھی” دونوں میاں بیوی کے پیروں تلے زمین نکلنے لگی
“نہیں نہیں شایان ایسا مت کرو بیٹا” عالیہ رو رو کر التجائیں کر رہی تھیں
“لے جائیں آپ پلیز” وہ پولیس سے سختی سے بولا تو وہ تینوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر لے جانے
ا”یک منٹ” شایان کی آواز پر رک گئے
“خالہ یہ طلاق کے پیپرز اسمیں میرے سائین ہیں اور میں نے اسی وقت طلاق دے دی تھی جب شہوار مجھے چھوڑ کر گئی تھی اسی لئے اپنے کمرے میں آنے سے منع کردیا البتہ کچھ مصلحت کے طور پر بتایا نہیں تھا ہاں گواہ کے طور پر بابا اور چاچو ہیں “وہ مسکراتا ہوا بولا تو عالیہ نے نفرت بھری نظروں سے اسکو دیکھا اور آگے جانے لگیں جہاں
اب وہ زندگی بھر ذلت کی زندگی گزاریں گے جنہوں نے دوسروں کی زندگی برباد کی آج انکی خود کی زندگی برباد ہوگئی تھی بیشک خدا کی لاٹھی بے آواز ہے
سمیہ بیگم نے سب سے رو رو کو معافیاں مانگیں جسپر سب نے دل بڑا کر کے انکو معاف کردیا تھا ویسے بھی انکا رویہ کچھ دنوں سے مثبت تھا دادی نے بھی ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا
“چلو بھئی فلم ختم ہوگئی اینڈنگ اچھی تھی شایان بھائی” اریبہ اٹھتے ہوئے بولی جسکی بات پر سب مسکرا دئیے
اور ساتھ ہی سب سونے کیلئے اٹھ گئے فیضان قریب آکر اسکو گلے لگا کر تھینکس بولا تو اس نے فیضان کو خود سے چمٹالیا
” یہ میرا فرض تھا” اس نے مسکراتےہوئے بولا
“شہوار اب خوش ہو؟” سب جاچکے تھے شہوار اب بھی سکتے میں تھی
“شایان” وہ کہ کر اس سے لپٹ گئی
حوریہ اور شایان رات کو چار بجے اللہ سے ناز و نیاز میں مصروف تھے جنہوں نے اللہ سے ایسی دوستی کر لی تھی کہ ایک دن بھی اس سے بات نہ کرتے تو دل بے سکون ہوتا تھا آسمان بھی انکی ندا پر جھومتا تھا
“اللہ پاک تیرا جتنا شکر ادا کروں کم ہے تیری تعریف کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں مالک تو تو ہی میرا سچا دوست میرا ہمراز ہے” ایک جذب سے دونوں دعائیں مانگ رہے تھے
__________________________
(دو سال بعد)
“تم۔پھر ادھر کام کر رہی ہو؟” سمیہ بیگم نے اسکو کچن میں کام کرتے دیکھا تو ناراضگی سے بولیں
“بس تائی چائے بنا رہی تھی انکو چائے پینی تھی” شہوار مسکراتے ہوئے بولی
“اسکو تو میں آکر ٹھیک کرتی ہوں تم جاکر تیار ہو اریبہ کیلئے رسم کرنے آنے والے ہونگے اور تم۔نے ابھی تک کپڑے بھی نہیں بدلے” سمیہ بیگم اسکو زبردستی بھیجتے ہوئے بولیں تو وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی
“شہوار یار فیضان کو بولو جلدی آئیں حورین بھی رو رہی ہے ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے” وہ راستہ میں شہوار کو بولی
“تم خود کرو تائی مجھے ڈانٹ رہی ہیں” وہ افراتفری میں بولی
“میں کرلیتی اگر اس شیطان نے میرا موبائل کھڑکی سے باہر نہ پھینک دیا ہوتا” وہ غصے سے بولی
تب ہی فیضان اور شایان اندر داخل ہوئے
“واہ رے ایک شہزادی دوسری ماسی بنی ہے” فیضان نے آکر شہوار کے حلیہ کو دیکھ کر کہا جو تیار نہیں ہوئی تھی
“خبردار جو میری بیوی کو ماسی بولا” شایان مصنوعی ناراضگی سے بولا اور فیضان کا قہقہہ گونجا
“بہت خوبصورت لگ رہی ہو” کمرے میں آکر فیضان نے حوریہ کو بانہوں میں لے کر بولا حوریہ نے شرما کر نظریں جھکالیں فیضان اسکے گمان کے مطابق بہت چینج تھا وہ بہت خیال رکھنا والا اور بہت زیادہ رومینٹک تھا کہ حوریہ بھی شرماجاتی
“پاپا پاپا” حورین کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی اور سیدھا فیضان کے اوپر چڑھ گئی
“یہ بھی غلط ٹائم پر اینٹری مارتی ہے” وہ ہنستے ہوئے بولا تو حوریہ نے اسکو ایک مکہ جڑ دیا اور اسکیلئے کپڑے نکالنے لگے
_____________________________
“شایان میں ایک بھی سوٹ میں اچھی نہیں لگ رہی” شہوار بے چارگی سے بولی
“کیوں نہیں لگ رہی تم تو نائٹ سوٹ میں بھی چودھویں کا چاند لگتی ہو” وہ اسکے بال کھنچتا ہوا بولا
“توبہ ہے آپ سے تو میں تائی کو بول کر آتی ہوں وہ سوٹ نکال کر بولیں گی” وہ جانے لگی
“ہاں شادی بھی ان سے کرلیتی ہر کام تائی ہر کام تائی” وہ جلے کٹے انداز میں بولا
“استغفراللہ نکال کر دیں اب مجھے” وہ ہنستے ہوئے بولی
اس نے شہوار کیلئے ریڈ کلر کی ساڑھی نکال کر دی
“یہ میں پہنوں گی” وہ حیرت سے بولی
“ہاں تو”
“میں اسکو نہیں سنبھال سکتی” وہ روہانسی بولی
“کوئی بات نہیں میں سنبھال لوں گا” شایان کے بے باک انداز پر وہ ساڑھی لے کر ڈریسنگ روم۔کی طرف بڑھ گئی
تھوڑی دیر میں تیار ہوکر آئی تو شایان اسکو دیکھتا رہ گیا
“تعریف کیلئے الفاظ نہیں جان من” اس نے شہوار کو بانہوں میں لے لیا اور اسکے لبوں پر محبت سے پھول برسائے شہوار شرم سے پانی پانی ہوگئی اسکو دھکیلتے ہوئے تیار ہونے چل دی
___________________________
گاڑی پھپھو کے گھر کی طرف رواں دواں تھی اور یہ فیملی سارے غموں کو آخر مات دینے میں کامیاب ہوگئی تھی اب زندگیوں میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ہر طرف مسکراہٹیں تھیں چاند بھی انکو دیکھ دیکھ کر مسکراتا تھا
( ختم شد)