یہ چوتھا لڑکا تھا جسے مار مار کے اُس نے لہو لحان کر دیا تھا۔ اب باقی جتنے بھی لڑکے تھے مقابل وہ آگے آنے سے کترا رہے تھے۔
” جاؤ جاؤ مقابلہ کرو نا اب۔” مقابل گروہ سے کسی کی آواز بلند ہوئی تھی۔
” نہ بابا، ہمیں اپنی جان پیاری ہے۔ دیکھ نہیں رہے ہو لڑکا نہیں فولاد معلوم ہوتا ہے۔” کسی نے کہا۔
چوبیس سالہ وہ لڑکا جیسے ہی میدان میں آیا سب کو لگ پتہ گیا۔
وہ گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا۔ اس کے ماتھے سے پسینہ رس رہا تھا۔ لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا وہ زمین کو دیکھ رہا تھا۔اور تمام تماشائی اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ یہاں نہ ہوتا تو کسی انگریزی فلم کا ہیرو ہوتا۔ بھورے بال، براؤن آنکھیں۔ ہلکی سی بڑھی ہوئی شیو
لڑائی کسی اور کی تھی لیکن وہ بیچ میں کود پڑا۔صرف اس لیے کہ اس کے گاؤں کی عزت کا سوال تھا۔
پاس والے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ فٹبال کے گراؤنڈ میں اس گاؤں والوں کی تھوڑی سی جھڑپ ہوئی اور ہاتھا پائی شروع ہو گئی اور پھر مارا ماری۔۔۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے گاؤں کے لڑکے کمزور ہیں اور مقابل گروں سے مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں اچھے طریقے سے تو وہ میدان میں آ گیا۔
دونوں گروہوں کے کچھ لڑکے بے ہوش بھی ہو چکے تھے جنہیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا تھا۔
اس نے اپنے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر سر کو دائیں بائیں جنبش دی۔ پھر ہمت کرکے اٹھا۔ اس کے منہ سے تھوڑا سا خون رس رہا تھا۔ اس نے سیاہ رنگ کی قمیض کی آستین سے خون صاف کیا۔ اور لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا اپنے گاؤں کے لڑکوں کے پاس آیا۔
” دیکھ سرور ، تم نے بہت مارا ہے ان لڑکوں کو پولیس کیس بن جائے گا.” اس کے چچا زاد بھائی ذیشان نے کہا۔
” تو اور کیا بیٹھ کر اپنے گاؤں کی عزت کا تماشا دیکھتا رہتا؟ دو تین بندے نہیں گرائے جا رہے تھے ان لوگوں سے۔ اور آ گئے فٹ بال کھیلنے۔ بچوں کا کھیل نہیں ہے یہ فٹ بال۔ جگر چاہیے جگر۔ ”
سرور نے سامنے بڑے سے پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی بھی لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔
سورج سوا نیزے پر تھا۔ وہ پسینے میں شرابور ہو چکا تھا۔حالانکہ سردیوں کی شروعات تھی۔ لیکن مار دھاڑ کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی تھی۔
” تین لڑکے اسپتال پہنچ گئے ہیں اگر کوئی ہڈی ٹوٹی تو ایف آئی آر کٹ جائے گا۔” گلزار نے کہا۔
” بڑی چالاکی سے کام کیا ہے۔۔۔ مارا بہت ہے لیکن ہڈی نہیں توڑی۔ سرور کو ہلکا نہ لو۔”
سرور نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں مقابل گروہ کھڑا تھا لیکن لڑنے والے جا چکے تھے اب صرف تماشائی باقی تھے۔ جو فٹبال کا میچ دیکھنے آئے تھے لیکن لڑائی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
_______________
” میرے خدا یہ کیا ہو گیا سرور؟ تم پھر کسی سے لڑ کر آ رہے ہو؟”
وہ جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوا ہوا تو اس کی ماں حلیمہ خاتون نے اسے اس حالت میں دیکھا تو تڑپ کر بولی۔
” آ میں تمھاری مرہم پٹی کر دوں۔”
حلیمہ فوراً اندر گئی اور کپڑا اور تیل لیکر آئی۔
” کس سے لڑ کر آیا ہے بتاؤ مجھے۔” حلیمہ نے اس کے ماتھے پر کپڑے سے تیل لگاتے ہوئے کہا۔
” کچھ نہیں اماں، ساتھ والے گاؤں کے ساتھ ہمارے لڑکوں کا کوئی فٹبال میچ تھا۔ وہاں پر ہاتھاپائی شروع ہوگی کسی بات پر۔ ان لڑکوں سے تو مکھی بھی نہیں ماری جا رہی تھی۔اتنے سارے لوگوں کا مقابلہ کیسے کرتے۔ میں نے تو بس مدد کر دی تھی۔”
سرور نے بتایا ۔۔۔ تیل لگانے سے اس کی پیشانی پر موجود زخم میں تکلیف شروع ہوگئی تھی۔
” کیا کر رہی ہو اماں جل رہا ہے زخم تیل لگانے سے۔ ” سرور نے اپنا چہرہ پیچھے کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
“چھوڑ لگانے دو مجھے صحیح ہو جائے گا تھوڑی دیر میں.” حلیمہ نے کہا اور پھر سے تیل لگانے لگی۔
اس کی سیاہ رنگ کی قمیض میں خون کے دھبے تھے لیکن نظر نہیں آرہے تھے۔ورنہ حلیمہ نے تو اتنا خون دیکھ کر واویلا ہی کر دینا تھا۔
” کتنی بار کہا ہے لڑائی جھگڑے نہ کیا کر۔جا کر اپنی زمینیں سنبھال۔ ” حلیمہ نے کہا۔
” اماں کبھی کہتی ہو پڑھائی کرو کبھی کہتی ہو زمین سنبھالو ایک بیان پر تو تم بھی قائم نہیں رہتی ہو۔” سرور نے چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔
” ٹھیک ہے جب تمہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے فرصت مل جائے تو زمینوں پر احسان کر دینا۔ ” حلیمہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
” ٹھیک ہے دیکھ لوں گا زمینوں کو۔ بس زبردست سا لسی پراٹھا کھلا دے بھوک لگی ہے۔” وہ بولا۔
” کوئی ضرورت نہیں ہے زمینوں پر جانے کی۔شرافت سے یونیورسٹی جانا شروع کر دو دوبارہ۔ اتنے قرضے لے کر تمہارا داخلہ کروایا تھا۔ ”
اس کے والد سجاد حسین نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔انہوں نے شاید ماں بیٹے کی باتیں سن لیں تھیں۔
سرور ابرو اچکا کر رہ گیا سجاد کی بات پر۔
حلیمہ نے لسی پراٹھا سرور کے سامنے رکھا۔
” ابا ۔۔۔۔ یونیورسٹی جاتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ گھر واپس آ جاؤ۔۔۔ گھر آتا ہوں تو کہتے ہیں کہ یونیورسٹی چلے جاؤ۔۔۔ اب میرا دل نہیں لگتا پڑھائی میں تو کیا کروں؟”
سرور نے پراٹھے سے نوالہ توڑتے ہوئے کہا۔
” تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں نے تمہیں واپس کیوں بلایا تھا۔ آئے دن کسی لڑکے کا سر پھاڑ دیتے ہو تم یونیورسٹی میں۔تمہارے ہاتھ قابو میں کیوں نہیں آتے آخر؟” سجاد حسین نے کہا۔
” مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی ابا۔۔۔ اور میں خود پر قابو کھو دیتا ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے۔” اس نے لسی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
” دیکھو سرور ، میں تمہیں اس طرح سے نہیں دیکھنا چاہتا جس طرح سے تم بن گئے ہو۔ میں تمہیں کسی اعلی عہدے پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ کسی گنڈاگردی گینگ کا سربراہ نہیں دیکھنا چاہتا تمہیں۔ ہر طرف پڑھائی کا دور دورہ ہے۔مجھے بہت افسوس ہے کہ میں خود نہیں پڑھ سکا۔لیکن تعلیم کی اہمیت کو سمجھتا ہوں۔ذمہ داریوں کی وجہ سے میں نے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔میری پہلی خواہش تھی کہ میں آگے پڑھوں لیکن بچپن سے کبھی بھی حالات میرے حق میں نہیں رہے۔گاؤں کے سکول میں اتنا پڑھ لیا اور بس۔مگر میں تمہیں ہیں اس طرح سے نہیں دیکھ سکتا۔” سجاد حسین سنجیدہ ہو گئے۔
” اماں لسی میں نمک زیادہ ڈال دیا تم نے لگتا ہے۔” سرور نے کہا۔
” یوں کہنا کہ میری باتیں کڑوی لگ رہی ہیں تمہیں۔۔۔ سنا ہے احسان بھائی کی دونوں بیٹیاں بھی یونیورسٹی جا رہی ہیں۔ اور میرا اکلوتا بیٹا ہے کہ اسے لڑائی سے فرصت ہی نہیں۔” سجاد حسین نے کہا۔
” ابا ۔۔۔ اگر آپ کے کزن کے اندر سے غیرت کے جراثیم ختم ہوگئے ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ خاندان کی کوئی بھی لڑکی آج تک کالج بھی نہیں گئی۔ سب نے پرائیویٹ پڑھا ہے۔ اور ایک یہ آپ کے چچا زاد بھائی ہیں جو کالج کی بجائے بیٹیوں کو سیدھا یونیورسٹی بھیج رہے ہیں۔” سرور نے کہہ کر لسی کا گلاس ختم کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
” ان کے گھر کا معاملہ ہے میں تو بس کہہ رہا تھا کہ ان کی بیٹیاں بھی پڑھ رہی ہیں اور میرا بیٹا نہیں۔” سجاد حسین نے کہا۔
” ابا میرے سامنے نہ پڑھائی کی باتیں نہ کیا کرو۔ قسم سے دل برا ہو جاتا ہے۔” سرور نے کان کھجاتے ہوئے کہا۔
” کیوں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو؟ اتنا پیسہ لگایا ہے میں نے تمہاری پڑھائی پر۔ پچھلے تین مہینے سے گاؤں میں بیٹھے ہوئے ہو بلاوجہ۔ صرف اپنے اور اپنے آوارہ دوستوں کی باتوں میں آکر۔وہ لوگ خود تو نہیں پڑھتے تمہاری پڑھائی میں بھی روڑے اٹکا رہے ہیں.” سجاد حسین سمجھانا چاہا لیکن سرور کب کسی کی سنتا تھا۔
_______________
فون بند کرنے کے بعد وہ بے حد مطمئن ہو گیا تھا۔ وہ جیسا چاہتا تھا ویسا ہی ہو رہا تھا۔
کافی دیر بات کرنے کے بعد بھی عبیر اس سے بے تکلف نہیں ہوئی تھی۔وہ اپنی حدود میں رہ کر نارمل انداز میں بات کر رہی تھی۔ بلکہ باتیں تو صرف وہی کرتا رہا وہ تو ہاں نہ میں جواب دیتی رہی۔
ادھر عبیر صبح جا گی تو رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔
” تمہیں رات کو ٹھیک سے نیند نہیں آئی کیا؟” سدرہ کو کسی انہونی کا احساس ہوا تو اس نے پوچھا۔
سدرہ کے سوال پر اس نے چونک کر پہلے احسان احمد کو دیکھا جو ناشتہ کرنے میں مشغول تھے۔پھر اپنی ماں اور بھائی کو دیکھا۔ پھر خود کو نارمل کرتے ہوئے جواب دیا۔
” میرے سر میں درد تھا ۔۔۔ ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔” اس نے مختصر سا جواب دیا۔
” مجھے لگا شاید پڑھائی کرتی رہی ہو ساری رات اس وجہ سے ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔” سدرہ کا انداز معنی خیز تھا۔
” بس کردو سے طرح تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔” علی نے اس کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا۔
علی کیوں اس کی آجکل سائیڈ لے رہا تھا وہ اچھے طریقے سے جان گئی تھی۔ ورنہ تو بچپن سے دشمنی چلی آرہی تھی دونوں کے مابین۔
” چلو عبیر مجھے دیر ہو رہی ہے آفس کے لیے۔”علی گاڑی کی چابی اٹھاتا ہوا بولا۔
عبیر اس کے پیچھے بھاگی۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
” تو کیسی طبیعت ہے تمہاری اکلوتی سہیلی کی؟” علی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
” علی میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہی ہوں کہ اس کے متعلق سوچنا چھوڑ دو۔ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی اور وجہ تمہیں بتا چکی ہوں۔” عبیر نے کہا۔
” عبیر میں صرف اس وجہ سے اپنی محبت نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ کہ وہ تمہاری بیسٹ فرینڈ ہے۔ اتنی چھوٹی سی بات پر کوئی اپنی محبت نہیں چھوڑتا۔ میں اسے پسند کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا۔ تم سے نمبر مانگا تھا کہ اس سے بات کر سکوں۔ اور اس نے ہاں بول دی تو اسی دن امی ابو کو بھیجوں گا اس کے گھر ۔ ” علی نے کہا تو عبیر سوچ میں پڑ گئی۔
کل رات اس نے شہیر سے کہا تھا کہ اپنے گھر والوں کو بھیجے تو شہیر نے وقت مانگا۔۔۔ اور علی اتنی جلدی اپنے والدین کو حریم کے گھر بھیجنے کی بات کر رہا ہے۔
” تم اتنی جلدی اس کے گھر رشتہ بھیج دو گے؟ میرا مطلب ہے کہ سوچنے کے لئے وقت نہیں لو گے؟” عبیر نے نہ جانے کیوں سوال کر ڈالا۔
” سوچنا کیسا ۔۔۔جب لڑکی پسند آگئی ہے ۔۔۔ تو بس والدین کو بھیج دینا چاہیے اس کے گھر۔۔۔ بلاوجہ طول کیوں دوں اس ریلیشن کو؟ ”
علی نے کہا۔
” لیکن اتنی جلدی؟” عبیر بولی۔
” یہ جلدی نہیں ہے۔ میرے خیال سے جب لڑکے کی جاب لگ جائے تو اسے رشتہ بھیج دینا چاہیے یہی مناسب وقت ہوتا ہے۔ میں اس سے کافی سالوں سے پسند کرتا ہوں لیکن میں نے اس سے کبھی ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک میں اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو جاتا۔ ابے اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا ہوں ۔۔۔ تو پہلے اس سے بات کروں گا۔اگر وہ راضی ہے تو اماں ابا کو بھیج دوں گا۔”
علی کی بات نے عبیر کو سوچ میں ڈال دیا تھا۔
( پھر شہیر مجھے کیوں ٹال رہے تھے کل؟ کیا وہ بلاوجہ طول دینا چاہتے ہیں اس ریلیشن کو؟؟؟)
اس کے ذہن میں سوال اٹھا تھا۔
________________
برہان احمد فلیٹ کے اندر داخل ہوا جہاں پر مکمل اندھیرا تھا۔ اس نے بورڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے لائٹس آن کیں۔
عبیر بھی اس کے پیچھے چلی آئی۔
” عبیر، میں آپ کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا۔وہاں پر میری فیملی ہوتی ہے اور ایک انجان لڑکی کو گھر لانے پر مجھ سے ہزاروں سوالات کیے جائیں گے۔مجھے ان سوالات کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔مجھے پرواہ صرف اس بات کی ہے کہ کہیں آپ کی ذات پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔اس لیے یہی ایک ٹھکانا ہے جہاں پر آپ رہ سکتی ہے اس مصیبت کے وقت میں. میں آپ کو ضرورت کی تمام اشیاء یہاں فراہم کر دوں گا آپ آرام سے رہیں۔ مجھ سے جتنا ہو سکا میں آپ کی مدد کروں گا اور جب تک ہو سکا تب تک کروں گا۔”
برہان احمد نے اسے فلیٹ دکھاتے ہوئے کہا۔
یہ ایک کمرے کا ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔جس میں فل وقت صرف ایک فوم رکھا ہوا تھا۔ وہ بھی تھوڑی دیر پہلے ہی برہان احمد نے وہاں رکھوایا تھا۔ یہ بالکل نیا فلیٹ تھا جو استعمال شدہ نہیں تھا۔اور اس میں تھوڑا بہت کام بھی رہتا تھا کنسٹرکشن کا۔ لیکن عبیر کے لیے کافی تھا۔
” میرے کزن کا فلیٹ ہے یہ۔میں اسے کرایا فراہم کروں گا۔آپ آرام سے رہ لیں۔” برہان احمد نے اسے فوم پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ بیٹھ گی۔
دیکھا کہ سردی کی وجہ سے عبیر نے شال کو اپنے گردے کھینچ کر اوڑھا تاکہ اس کا وجود چھپ جائے شال میں اور اسے سردی نہ لگے۔
” میں آپ کے لئے سامان کا بندوبست کرتا ہوں۔ آپ عدت کے چار مہینے دس دن یہاں مکمل کر لیں آرام سے۔” برہان احمد نے کہا۔
” اپنے ہی شوہر کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کے بعد کیسی عدت برہان صاحب؟” عبیر نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے خود ہی اپنا تمسخر اڑایا۔
” ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ مرا بھی ہے یا نہیں۔ لیکن باہر حال۔۔۔ ہمیں اپنی مذہبی تسکین کرنی ہوتی ہے کسی نہ کسی طریقے سے۔ آپ بھی اپنی تسکین کر لیں۔ میں آج کے بعد یہاں نہیں آؤں گا۔ ایک خاتون کو بھیج دیا کروں گا۔ آپ پیغامات کے ذریعے مجھ سے بات کر سکتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں اپنی عدت کا وقت آپ صحیح طریقے سے گزار لیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ایک گناہ آپ نے کیا ہے تو پھر گناہ پر گناہ کرتی جائیں۔ گناہ کرنے کے بعد مسلسل نیکیاں کرنا گناہ کو دھو دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آپ مجبوری میں میرے پاس آئیں تھیں مدد کے لیے۔ یہاں تک آپ کی مجبوری خدا سمجھتا ہوگا۔ لیکن آج کے بعد آپ کو جگہ میسر ہے رہنے کے لئے۔ آج کے بعد آپ کی کوئی مجبوری نہیں۔ آپ کو عدت پوری کرنی ہوگی ہر حال میں۔ جن حالات میں آپ نے بتایا کہ آپ کی یہ شادی ہوئی تھی۔۔۔ اور آپ اس شادی کو نہیں مانتی۔۔۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔آپ نے خود اپنے ہوش و حواس میں نکاح کیا تھا۔ اور اب آپ کو عدت بھی گزارنی ہوگی۔ ” برہان احمد نے کہتے ہوئے کچن کا جائزہ لیا جہاں پر کسی قسم کا کوئی سامان نہیں تھا۔
” میں شام تک آپ کو تمام تر سامان یہاں مہیا کر دیتا ہوں۔آج کل آن لائن آرڈر کا سسٹم ہے۔سبزی سے لے کر ہر چیز آپ کو آرڈر کرنے کے بعد اس فلیٹ کے دروازے پر ہی مل جائے گی۔ کسی بھی چیز کے لیے آپ کو یہاں سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ موبائل میں نے آپ کو دے دیا ہے۔ اس میں بیلنس بھی ہے۔ آپ انٹرنیٹ کا پیکج کروا کر اپنی وقت گزاری کر سامان بھی کر سکتی ہیں۔۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ چار مہینے دس دن ایک ہی جگہ پر گزارنا کافی مشکل کام ہے ۔ خاص کر تب جب آپ بالکل بے سہارا ہوں۔ اس لیے آپ انٹرنیٹ کا پیکج کروا کر خود کو مصروف رکھیں۔ورنہ پھر سے ڈپریشن میں چلی جائیں گی۔ ” برہان احمد نے کہا اور جانے لگا۔
” سر ۔۔۔ آپ جتنا خرچہ مجھ پر کر رہے ہیں وہ سب رقم میں آپ کو واپس کر دوں گی۔ مگر فی الحال میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔” وہ بولی۔
” اسے قرضہ سمجھ لیں۔۔ میں آپ سے واپس لے لوں گا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اپنے ذہن پر زیادہ زور نہ ڈالیں۔جو ہوا اسے بھولنے کی کوشش کریں۔” برہان احمد کہتا وہاں سے چلا گیا۔
عبیر نے دروازہ لاک کیا۔ فلیٹ کا جائزہ لینے لگی۔
واش روم کا کام بھی تھوڑا آدھا ادھورا پڑا تھا۔ کچن کے نام پر چھوٹے سے لاؤنج میں ایک صلیب بنی ہوئی تھی۔ جہاں پر گیس کا کنکشن تو تھا لیکن چولہا نہیں تھا۔
اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اسے ایک ٹھکانہ مل گیا تھا رہنے کے لیے۔
اسے عدت والی بات یاد آئی۔
عدت مکمل ہونے کے بعد وہ پھر سے اپنے محبوب کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔ اس کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا چاہتی تھی جس کا موقع اسے پہلے نہیں دیا گیا تھا۔۔۔
” کیا وہ مجھے قبول کر لے گا؟؟؟”
اس نے خود سے سوال کیا۔۔۔
________________
کلاس شہیر شیرازی اپنے جادوئی الفاظ کا ذخیرہ لٹا رہا تھا۔
آج عبیر جھجھکنے کی بجائے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ لیکن جیسے ہی شہیر اُسے دیکھتا اور دونوں کی آنکھیں چار ہوتیں۔ وہ شرما کر نظریں دوسری طرف پھیر لیتی۔
اس کی اس ادا پر شہیر شیرازی کے دل کے تار چھیڑ جاتے۔
یہ نیا جذبہ ، نیا احساس ، عبیر کو لطف دے رہا تھا۔ جب سامنے والا کہہ چکا ہو کے وہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اُسے کچھ غلط بھی نہیں لگ رہا تھا اس ریلیشن شپ میں۔۔۔۔
______________
“میں اسے ریلیشن شپ نہیں بلکہ ذلالت شپ کہوں گا۔۔۔ مس ہانیہ۔”
آج پھر ہانیہ برہان احمد کے پاس آئی تھی سیشن کے لیے۔ وہ یہ بتانے آئی تھی کہ اس کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہے۔اور وہ بہت بہتر محسوس کر رہی ہے۔
” جی میں سمجھی نہیں۔” ہانیہ نے کہا۔
” یہ جو آپ بار بار پانچ سال کی ریلیشن شپ کا نام لیتی ہیں نا۔۔۔ میں اس کو ریلیشن شپ نہیں بلکہ ذلالت شپ کہتا ہوں۔ لڑکیاں اس تعلق میں صرف ذلیل ہوتی ہیں۔ ” وہ بولا۔
” صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔ میں پچھلے پانچ سال سے ذلیل ہی ہوتی رہی ہوں اس شخص کے ہاتھوں۔” ہانیہ نے کہا۔
” آپ جانتی ہیں ہانیہ ۔۔۔ مرد پہلی بار کسی عورت کو دیکھتا ہے۔ تو اسی وقت فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گا یا نہیں۔۔۔ اگر اس نے شادی کرنی ہوتی ہے تو وہ پانچ سال تک اس تعلق کو نہیں گھسیٹتا ۔۔۔ اگر کرنی نہیں ہوتی تو وہ اس تعلق کو طول پر طول دیتا رہتا ہے۔” برہان نے کہا۔
” اچھا مجھے یونیورسٹی بھی جانا ہے لیکچر دینے کے لیے۔ کبھی کبھار بلا لیتے ہیں وہ لوگ۔” برہان احمد کہتا ہوا وہاں سے اٹھا۔
______________
ابھی گھر واپس آئیں تو اس کی ٹون ہی بدلی ہوئی تھی آج۔ اس کے لہجے میں اعتماد سا تھا۔ اداسی کہیں دور ہو گئی تھیں اور چہرے پر ایک خوشی کا سایہ تھا۔
دنیا بھر میں کیا ہو رہا ہے اسے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔ اس کے دل کی دنیا میں کیا چل رہا تھا اسے بس وہی نظر آرہا تھا اور اسی سے مطلب تھا۔
پہلے جب کبھی حریم بیمار ہوتی تھی تو وہ سخت بوریت کا شکار ہو جایا کرتی تھی۔اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی دنیا منجمد ہو گئی ہے اور اس کے کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔
اس کی کل کائنات حریم سے شروع ہو کر حریم پر ختم ہو جاتی تھی۔
مگر آج تیسرا دن تھا اس نے حریم کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا۔
سوچوں میں تو شہیر شیرازی حملہ آور ہو چکا تھا۔
” کھانے میں کیا بنایا ہے امی؟” پرجوش انداز میں ڈائننگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹتے ہوئے بولی اور بیٹھ گئی۔
سعدیہ بیگم اس کی اس خوشگوار موڈ پر حیران ہوئیں۔
” پالک گوشت بنایا ہے۔” سعدیہ بیگم نے اس کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے کہا۔
سعدیہ حیران تھی کہ آج اس نے اپنے کمرے کی بجائے لاؤنج میں بیٹھ کر کھانا کھانے کو ترجیح دی تھی اور یہ ایک اچھا چینج تھا۔
وہ گھل مل کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھی۔ مگر آج بیٹھ گئی تھی۔
” امی مجھے ان دیسی کھانوں نے بور کر دیا ہے۔کبھی کوئی چائنیز بنا لیا کریں۔کوئی اٹیلین ڈش بنا لیں۔۔۔ کوئی چکن منچورین۔۔ کچھ تو مختلف بنائیں اب۔۔۔ چینج کے لیے دل کر رہا ہے۔۔۔ ”
وہ خوشگوار انداز میں بولتے ہوئے کھانا کھاتے جا رہی تھی۔
” کوشش کروں گی کہ آئندہ تمہاری پسند سے کچھ بنا لوں۔تم کھاتے نہیں ہونا شوق سے کچھ بھی اس لیے میں نے کبھی بنایا نہیں۔اگر تم نے فرمائش کردی ہے تو ضرور بناؤں گی۔مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے بھی فرمائش کی۔ ورنہ تمہیں تو یوں ہمیشہ اداس دیکھ کر میرا دل ڈوب جایا کرتا ہے۔” سعدیہ نے کہا۔
” اداسیوں کے دن اب ختم ہوگئے ہیں امی۔۔۔ اب آپ کی بیٹی کرے خوشیوں کا دور شروع ہو چکا ہے۔بس آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔”
اس نے فورا ہی کھانا ختم کیا اور ہاتھ جھاڑتے ہوئی اٹھی۔
” بہت اچھی بات ہے حریم ٹھیک ہو گئی؟” سعدیہ نے پوچھا۔
“‘پتا نہیں میں نے کال نہیں کی اس کو.” وہ بولی
” کریم کے بغیر تمہیں مشکل نہیں ہو رہی یونیورسٹی میں؟” سعدیہ نے عجیب سے انداز میں پوچھا۔جیسے کہ کچھ کریدنا چاہتا رہی ہو۔
” امی۔۔۔ حریم ساری زندگی میرے ساتھ نہیں رہے گی۔میں اس کے بغیر رہنے کی عادت ڈالنا چاہتی ہوں۔” وہ بولی۔
” ہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے۔یہ بات تو تمہاری سولہ آنے درست ہے۔لیکن میری بچی ہے قدم سنبھال کر رکھنا۔” سعدیہ نے کہا۔
” آپ فکر نہ کریں امی۔۔۔ آپ کا سر جھکنے نہیں دے گی عبیر۔۔”
عبیر نے اپنی ماں کے گرد باہوں کا گھیرا ڈالتے ہوئے محبت سے کہا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...