(Last Updated On: )
خوشیاں کہاں نصیب ہیں غم دل میں بس رہے
جیتے ہوئے بھی جینے کو ہم تو ترس رہے
گلشن میں ہم رہے کہ میانِ قفس رہے
آزردہ قلب و شعلہ بجاں ہر نفس رہے
جب زندگی پہ موت کا ہونے لگے گماں
ایسے میں زندگی کی بھلا کیا ہوس رہے
دریا کے پار اتر گئے تھا جن میں حوصلہ
مُنہ دیکھتے رہے وہ جنھیں پیش و پس رہے
پھوٹا ہے رنگِ لالۂ داغِ جگر سے وہ
شرمندۂ بہار نہ اب کے برس رہے
گلشن میں خوفِ صاعقہ و برق آئے دن
اس سے بھلے تو ہم بحدودِ قفس رہے
وہ آدمی نہیں ہے خدا کی قسم نہیں
دنیا میں پھنس کے جس کو نہ کچھ دیں سے مَس رہے
اپنے چمن میں پھول کہاں نکہتیں کہاں
اب تو یہ آ رہا ہے نظرؔ خار و خس رہے
٭٭٭