فوزیہ نے باہر نکلتے ہی دونوں بچوں کو وہاں سے ہٹنے کا اشارہ کیا تھا۔ ان کے ابا کا کچھ پتا نہیں تھا کبھی بھی باہر آ سکتے تھے۔ دونوں اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ فوزیہ روزانہ کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ جبکہ اندر بیٹھے شاہد نے کچھ دیر سوچنے کے بعد، اپنے کمرے میں جا کر، لاہور میں مقیم اپنے سالے حیدر کو فون ملایا تھا۔
“السلام علیکم شاہد بھائی۔! کیسے ہیں آپ؟” فون کے دوسری جانب حیدر کی آواز گونجی تھی۔
“خیریت ہے؟ آج صبح صبح کیسے یاد فرمایا؟ فوزیہ تو ٹھیک ہے؟” ان کا انداز بتا رہا تھا کہ جیسے ان کی کئی دن سے فوزیہ سے بات نہیں ہوئی۔ اور انھیں فوزیہ کے لاہور آنے کا بھی کچھ علم نہیں تھا۔
“وعليكم السلام! ہاں بھئی اللہ کا کرم ہے، سب خیریت سے ہے۔ فوزیہ بھی ہشاش بشاش ہے۔ میں نے تو تمھاری خیریت دریافت کرنی تھی۔ کیونکہ فوزیہ نے اچانک ہی لاہور کا پروگرام بنا لیا ہے۔” چونکنے کی باری ان کی تھی۔
“لاہور آنے کا، مجھے تو نہیں بتایا فوزیہ نے۔” وہ کچھ رک کر بولے تھے۔
“اچھا شاید اچانک دل کر گیا ہو گا۔ پھر تو شازیہ بھی آ رہی ہو گی۔ دونوں ایک ساتھ ہی تو آتی ہیں۔” شاہد کسی نتیجے پر پہنچ گئے تھے۔
“شازیہ کا مجھے نہیں پتا۔ اور فوزیہ کی بھی ابھی میں نے سیٹ کروانی ہے باقی پھر جو پکا ہوتا ہے، میں تمھیں اطلاع دے دوں گا۔”
“ٹھیک ہے، آنا ہوا یا نہ آنا ہوا، دونوں صورتوں میں اطلاع لازمی دیجیے گا۔” حیدر نے انھیں تاکید کی اور فون بند کر دیا۔ شاہد بخوبی سمجھ گئے تھے کہ فوزیہ صرف ان پہ دباؤ ڈالنا چاہ رہی تھیں کہ وہ سبکتگین کو آسٹریلیا جانے کی اجازت دے دیں۔ وہ اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے تھے، دکان پر جانے کی بھی فکر نہیں رہی تھی۔
“ابھی تو بات گھر میں ہے، صرف فوزیہ ہی مجھ پر دباؤ ڈال رہی ہے، گھر سے باہر بات نکلی تو سب مل کر مجھے مجبور کریں گے۔” دائیں سے بائیں چکر لگاتے وہ مسلسل سوچ رہے تھے۔
“پھر میں ہی برا بنوں گا کہ بیٹے کی خوشی کی پروا نہیں کرتا اور اس کی زندگی میں آئے اتنے اچھے موقع کو گنوا رہا ہوں۔” ٹہل ٹہل کر ٹانگوں میں درد ہوا تو وہ کرسی پر بیٹھ رہے۔
“لیکن کیا بھروسہ کہ وہ لڑکی۔۔۔ کیا نام بتایا تھا سبکتگین نے اس کا۔۔۔” سر پہ ہاتھ رکھے وہ کافی دیر نام سوچتے رہے
“اف۔!! جو بھی نام تھا۔” انھوں نے سر جھٹکا۔
“کیا بھروسہ کہ وہ واقعی کسی کوکنگ شو کے لیے لے جا رہی ہو سبکتگین کو؟؟ کہیں اور مقصد نہ ہو۔۔ آخر کو ہے تو میرا بچہ پنجاب کا گبھرو جوان ہی۔۔ گیا بھی تو باپ پہ ہے۔” وہ زیر لب مسکرائے تھے۔
“مجھے خود ایک بار اس لڑکی اور اس کے باپ سے ملنا چاہیے۔ کہیں وہ میرے شیر جوان کو پھنسانے کے چکر میں تو نہیں ہے؟” ایک نئی سوچ نے ان کے دماغ میں پھن پھیلائے۔
“اس لڑکے کا تو دماغ ساری پیشکش سن کر ہی خراب ہو گیا ہو گا، کوئی کام کی بات اس نے کی ہی کب ہو گی۔ مجھے خود ہی کچھ کرنا ہو گا۔” انھوں نے فون اٹھایا اور کسی کا نمبر ملانے لگے۔
“سبکتگین کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔ میں ابھی تم سے ملنے آ رہا ہوں۔” فون بند کرکے جیب میں رکھا اور بائیک کی چابی اٹھا کر باہر نکلے تھے۔ فوزیہ گھر کی صفائی کر رہی تھیں۔
“کیوں؟ جانے کا ارادہ ترک کر دیا یا بھائی نے آنے سے منع کر دیا؟” ان کے پاس رک کر طنز کرنے سے باز نہیں آئے تھے۔
“میرے بھائی نے کیوں منع کرنا ہے مجھے؟”
“بغیر اطلاع دیے جاؤ گی تو شاید گھر میں تالا لگا ملے۔” وہ جیسے مزہ لے کر بولے تھے۔
فوزیہ نے گھوم کر، قدرے خفگی سے انھیں دیکھا۔
“میں جا ہی رہی ہوں بےفکر رہیے۔ یہ تو سوچا، جانے سے پہلے کام کر جاؤں۔ اور بھائی کے گھر تالہ لگا ہوا تو بھی کچھ دیر ہی کو لگا ہو گا۔ پڑوس میں بیٹھ جاؤں گی۔” ان کا منھ یوں بنا جیسے دانتوں تلے زبان آ گئی ہو۔
“کم عقل عورت۔! سیٹ کروانے جا رہا ہوں، تیار رہنا۔” دل جلانے والا جملہ بولتے وہ موٹرسائیکل لے کر، گھر کا مرکزی دروازہ عبور کر گئے۔ فوزیہ ہاتھ میں پکڑا جھاڑن شیلف پہ پٹخ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
“پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں، ذرا جو ان پہ اثر ہوتا ہو کہ بیوی گھر چھوڑ کر جا رہی ہے۔ چلے ہیں خود ہی سیٹ کروانے، جیسے مجھ سے اکتائے بیٹھے تھے اور اسی موقعے کی تلاش میں تھے۔” سوچ سوچ کر ان کا سر دکھنے لگا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“کیا قیامت آ گئی تھی ردابہ؟ جو اتنا بھیانک قسم کا میسج کیا تم نے مجھے۔” سفیر تولیے سے بال رگڑتا، اسی کمرے میں آیا جہاں وہ آتش دان کے قریب رکھے کافی ٹیبل پہ کھانے کے لوازمات لیے بیٹھی تھی۔ اس کی بات کا جواب دیے بغیر کھانے کے برتن سیٹ کرتی رہی۔ اس کی خاموشی اس کی ناراضی کو ظاہر کر رہی تھی۔
“آج کھانا یہاں۔۔!” اس نے لاپروائی سے تولیہ کرسی پہ پھینکا اور کاؤچ پہ بیٹھ کر خالی پلیٹ اپنی طرف کھسکائی۔
“کیا ضروری ہے کہ اپنے ہی گھر میں بھی ہم ایسے رہیں جیسے کسی ملٹری کے ہاسٹل میں ہوں۔” وہ خفگی کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے سالن نکالنے لگی۔
“کھانا کھانا ہے تو ڈائننگ ٹیبل پہ، کافی یا چائے پینی ہے تو کافی ٹیبل پہ، اس وقت کھاؤ اس وقت پیو۔۔۔ ہونہہ!” وہ مسکرا کر بولا:
“ڈیڈی کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا رہی ہو؟” اس نے کھانا شروع کیا تھا
“نہیں! میں ان سب سے یہ واضح کرنا چاہ رہی ہوں کہ مجھے اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دیا جائے۔” سفیر کو اب جا کر اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کس بات کو لے کر یوں خفا ہے۔ وہ خاموشی سے کھانا کھاتا رہا۔ ردابہ نے بھی کچھ نہیں کہا۔
“کیا مسئلہ ہے ردابہ؟ مجھے بتاؤ کیا کروں؟” کھانے سے فارغ ہو کر، سفیر تسلی سے بیٹھا وہ بھی برتن کچن میں رکھ کر واپس آئی تھی۔ اتنی دیر میں سفیر نے موبائل اٹھا لیا تھا۔
“غزنوی کی امی نے وٹے سٹے کی شادی سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غزنوی کی بہن کے لیے اپنے بھانجے کو پسند کر چکی ہیں۔” سفیر نے موبائل رکھا اور اس کی طرف دیکھا۔
“تم کیا چاہتی ہو ردابہ؟” اس کا یہ پوچھنا ہی غضب ہوا تھا، اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔
“تمھیں اب بھی نظر نہیں آ رہا کہ میں کیا چاہتی ہوں؟ تم اتنے لاپروا یا بےحس کیوں ہو سفیر؟ کہ تمھیں اپنی بہن کی خوشی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ ڈیڈی ایک بے معنی سی ضد کو لے کر غزنوی کو منع کر رہے ہیں اور تمھیں بھی جیسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شادی کس لڑکی سے ہو گی۔ بس جہاں ڈیڈی نے کہہ دیا وہاں کر لو گے، لیکن کم از کم میرے بارے میں تو سوچو۔۔” وہ روہانسی ہو گئی۔
“ارے ارے۔۔۔ رونے کیوں لگی ہو ردابہ!؟” سفیر ایک دم پریشان ہوا۔
“ڈیڈی کا اپنا ایک نکتہ نظر ہے، اپنی جگہ وہ ٹھیک ہیں، اور تم بھی۔ باپ ہونے کے ناطے وہ تمھارا مستقبل محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔” اسے پانی کا گلاس دیتے، سفیر نے اسے پرسکون رہنے کو کہا۔
“دیکھو ردابہ! تم بچپن سے یہاں کینیڈا کے آزادانہ ماحول میں پلی بڑھی ہو، پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے میں ایک حد سے زیادہ ڈیڈی نے کبھی روک ٹوک نہیں کی۔ تم اپنی مرضی سے آزادانہ زندگی جیتی ہو۔ لیکن غزنوی اور اس کا خاندانی پس منظر ہم لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔” اب کے بولنے کی باری سفیر کی تھی اور وہ بس اسے سن رہی تھی۔
“وہ پاکستان کے ایک اپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور وہاں کے ماحول میں تمھارا رہنا ناممکن نہیں تو مشکل ہو سکتا ہے۔ ان کے اور ہمارے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔” اب اس نے بولنا ضروری سمجھا تھا۔
“میں جانتی ہوں سفیر! غزنوی سے شادی کا فیصلہ کرنے سے پہلے ہی میں ان سب چیزوں پہ غور کر چکی ہوں۔ اس نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں چھپایا۔” سفیر نے ٹیبل پہ رکھے ڈبے سے پستے کے دانے نکالے تھے۔
“یہ اچھی بات ہے کہ اس نے کچھ نہیں چھپایا۔ میں بھی بہت اچھے سے جانتا ہوں سب۔ لیکن تم مجھے ایک بات بتاؤ!” وہ مزید کان لگا کر بیٹھی۔
“کل کو اگر اچانک غزنوی کینیڈا سے سب چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونا چاہے تو کیا کرو گی؟”
“میں اس کے ساتھ ہی جاؤں گی۔ وہ جہاں جائے گا، جہاں رہنا چاہے گا۔ میں اس کے ساتھ رہوں گی۔ مجھے اس کے گھر والوں سے کوئی بیر یا خار نہیں ہے۔ بلکہ میں بھی چاہتی ہوں کہ ایک مکمل خاندان کے ساتھ، سب کی محبتوں کے درمیان ایک خوشگوار زندگی بسر کروں۔ مجھے اکیلے نہیں رہنا۔ میں پاکستان کے باہمی خاندانی نظام میں رہنا پسند کرتی ہوں۔” سفیر نے محسوس کیا کہ وہ یہ سب دل سے کہہ رہی تھی۔
“اب اگر ڈیڈی یا تم یہ اعتراض کرو کہ دور سے ہر چیز متاثر کرتی ہے تو پھر بھی میں یہی کہوں گی کہ مجھے رہنا ہے، جیسے غزنوی چاہے گا۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں۔ اور میں غزنوی کے ساتھ ہر قسم کے حالات میں گزارا کرنے کو تیار ہوں۔” سفیر بہت دیر چپ رہا، جبکہ وہ بولتی رہی۔
“ڈیڈی اگر وہ وٹہ سٹہ قسم کی شادی کروا دیں تو کیا گارنٹی ہے کہ اس شادی میں کبھی اختلاف نہیں ہوں گے؟ بلکہ اس شادی کے ختم ہونے کا تو خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایک فریق میں لڑائی ہو تو دوسرے فریق کی زندگی پہ لازمی اثر پڑے گا۔”
“دیکھو ردابہ! تمھاری اپنی سوچ ہے اور ڈیڈی کی اپنی۔ ممی اگر زندہ ہوتیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی سوچ نہ رکھتے، کہ جو بھی ہو، ماں آخر اولاد کی سب سے بڑی طاقت اور ڈھال ہوتی ہے۔” دونوں کو ہی اس لمحے شدت سے اپنی مرحومہ ماں کی یاد آئی تھی۔
“اب میں یا تم ڈیڈی کی سوچ بدل نہیں سکتے، لیکن ہم انھیں قائل تو کر سکتے ہیں نا۔!” بات پوری کرکے وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ جیسے اس کے الفاظ اور ان کی سچائی پہ غور و فکر کر رہا ہو۔ اور آیندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے رہا ہو۔
“ٹھیک ہے پیاری بہن۔! تمھاری خوشی میرے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔ تم بےفکر ہو جاؤ میں خود ڈیڈی کو مناؤں گا۔ لیکن تم اس سلسلے میں ان سے کوئی بحث نہیں کرو گی۔ اب سب میں خود دیکھ لوں گا۔” اس کا اتنا کہنا تھا کہ وہ خوشی سے اچھل ہی تو پڑی تھی۔ اسے اب یقین ہو گیا تھا کہ ڈیڈی مان جائیں گے، کیونکہ سفیر انھیں منا لینے کا ہنر جانتا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
فیاض دوپہر کا کھانا گھر ہی کھاتے تھے۔ آج جب دوپہر میں گھر آئے تو شازیہ نے انھیں سبکتگین کے آسٹریلیا جانے والی بات بتائی، سن کر وہ تو خوشی سے جھوم اٹھے۔
“یہ تو بڑی اچھی خبر سنائی بھئی تم نے!” کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو فون اٹھایا۔
“سبکتگین کو مبارک دیتا ہوں۔” شازیہ نے یہ سنا تو فون ان کے ہاتھ سے لے لیا۔
“جب آپ کے بڑے بھائی صاحب راضی ہو گئے تو مبارک دیجیے گا۔ فوزیہ نے تو گھر تک چھوڑ دینے کی دھمکی دی ہے، لیکن ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔” شازیہ نے ساری بات بتائی تو وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
“بھائی صاحب تو مانا کے ضد لگا کر بیٹھے ہی ہیں، بھلا فوزیہ کو ایسی بچکانہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اب بھائی بھی نہ مانیں اور وہ گھر سے بھی چلی گئی تو؟ تم عورتوں سے عقل کی امید رکھنا ہی بےکار ہے۔” شازیہ نے منھ پھلا کر شوہر کو دیکھا جو اب فون کے کال لاگ سے شاہد بھائی کا نمبر ملا رہے تھے۔
“خیریت تو ہے فیاض؟ اس وقت فون کیا؟” دوسری جانب شاہد نے عجلت میں پوچھا، وہ جس سے ملنے کے لیے گھر سے نکلے تھے، وہاں پہنچ گئے تھے۔
“مجھے پتا چلا ہے کہ سبکتگین کو آسٹریلیا جانے کی پیشکش ہوئی ہے۔” شاہد نے فون کان سے ہٹا کر یوں دیکھا جیسے فیاض سامنے ہی براجمان ہوں۔
“تمھاری بھابھی اور بھتیجے کے پیٹ میں کوئی بات ٹکتی بھی ہے یا نہیں۔” لہجہ نرم ہی تھا، فیاض سن کر مسکرا دیے۔
“چچا بھتیجے میں محبت بھی تو بڑی ہے۔”
“خاندان کے ہر فرد کو بھتیجے، بھانجے، بھائی یا بیٹے سے محبت ہے۔ میں تو کسی شمار ہی میں نہیں ہوں۔” وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولے تھے۔
“اب جانے بھی دیجئے بھائی! مان جائیں۔” فیاض نے سفارش کی تھی
“مجھے معلوم تھا کہ اس کی وکالت کی غرض سے ہی فون کیا ہو گا۔ بس بس مزید کچھ نہیں سننا مجھے۔ ویسے بھی ابھی کسی سے ملاقات کے لیے آیا ہوں، رکھتا ہوں فون۔ وقت کم ہے۔” فون بند ہوا۔ شازیہ کی سوالیہ نظریں انھیں پہ ٹکی تھیں۔
“مجھے ان کے بات کرنے کے انداز سے ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ مان گئے ہیں، بس کچھ سوچ کر ٹھہرے ہوئے ہیں۔”
“اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔ میں دراصل کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔” کھانا کچن میں ہی بیٹھ کر کھایا جا رہا تھا تو شازیہ نے انھیں چائے کا کپ دیا تھا۔
“اللہ کرے گا بھائی مان جائیں گے تو سبکتگین کے آسٹریلیا جانے سے پہلے آپ اقدس کے سلسلے میں ان سے بات کر لیجیے گا۔” چائے پیتے ہوئے فیاض ایک دم گڑبڑا گئے۔ حیرت سے بیوی کو دیکھا۔
“تمھارا کہنا ہے کہ میں خود اپنی بیٹی کے لیے بات کروں؟”
“جی ہاں! یہی کہا میں نے۔ فوزیہ اور میرے درمیان تو معاملہ طے ہی سمجھیں، لیکن آپ مردوں کو تو آپس کے معاملے خود ہی سلجھانے ہیں۔” ان کی حیرت کو خاطر میں لائے بغیر، وہ سکون سے بولے جا رہی تھیں۔
“میں کیسے بات کر سکتا ہوں؟ بیٹی کا باپ ہو کر میں۔۔۔”
“بس۔!” شازیہ نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روکا۔
“یہ گھسے پٹے جملے مجھے تو بالکل مت سنائیے گا کہ ہم لڑکی والے ہیں، اچھا نہیں لگتا، فلاں ڈھمکاں۔۔ وہ آپ کے بھائی اور میری بہن کا بیٹا ہے۔ غیر نہیں ہیں۔ جہاں ہمیں یہ خدشہ ہو گا کہ کل کو ہماری بیٹی کو کوئی طعنہ ملے کہ جی اس کے باپ نے خود رشتہ ڈالا تھا۔” شازیہ کو شوہر کی اس بات پر بڑا اعتراض تھا۔
“زمانہ بدل رہا ہے، اب وہ دور نہیں رہا کہ لڑکی کے رشتہ بھیجنے پہ باتیں کی جائیں۔ اسلام میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” چائے پی کر خالی پیالی شیلف پہ رکھی تھی۔ اور بیوی کو سمجھانے لگے۔
“کس دنیا میں رہتی ہو شازیہ۔!؟ اب بھی وہی دور ہے، اور اسلام پہ کون کتنا چلتا ہے، اس سے ہم دونوں ہی واقف ہیں، لہٰذا یہ لاحاصل بحث تو چھیڑو ہی مت۔”
” ٹھیک ہے نہیں چھیڑتی یہ بحث۔ لیکن کچھ جگہیں ہوتی ہیں جہاں انسان کو مان ہوتا ہے کہ وہ بات کرے گا اور اس کی بات کی لاج رکھی جائے گی۔ تو میری بہن کا گھر ویسی ہی جگہ ہے جہاں مجھے مان ہے اور آپ بھی اس لایعنی سوچ کو دماغ سے نکال دیں کہ ہم لڑکی کے ماں باپ ہیں، یہ وہ۔۔۔” ساری بات سن کر انھوں نے سر جھٹکا اور بولے:
“چلو اچھا نہیں کرتا یہ باتیں، لیکن کیا ضروری ہے کہ ابھی یہ بات چھیڑی جائے؟ سبکتگین کے واپس آنے پر بھی تو۔۔۔”شازیہ نے بات مکمل ہونے سے پہلے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“کوئی پتا نہیں کہ سبکتگین نے آسٹریلیا کتنے عرصے کے لیے جانا ہے سال یا دو سال۔۔ اللہ جانے۔ میں بس اپنی تسلی چاہتی ہوں۔ ایک تو غزنوی مزید کوئی دباؤ نہیں ڈال سکے گا اور دوسرا سبکتگین اور اقدس کو بھی پتا ہو گا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی ہیں” شازیہ نے خالی پیالیاں اٹھا کر سنک میں رکھی تھیں۔
“اگر ہمارے بچوں میں سے ہی کسی کو اس رشتے پر اعتراض ہوا تو۔؟” فیاض ہر ممکنہ بات کو مدنظر رکھنا چاہتے تھے۔
“سبکتگین کو میں جانتی ہوں! وہ اقدس کو پسند کرتا ہے۔” وہ سوچ کر مسکرائیں، کئی واقعات ذہن میں گھوم گئے تھے جس سے انھیں یہ یقین ہوا تھا کہ سبکتگین، اقدس کو پسند کرتا تھا۔
“اپنی بیٹی کے متعلق کیا خیال ہے؟”
“مشرقی لڑکی ہے میری بیٹی! ہاں ہی کہے گی۔” ان کی بات پر فیاض نے سر پیٹا۔
“میں تمھاری بات مانوں گا، لیکن اس سے پہلے میری ایک شرط ہے”
“کیا؟؟” وہ ایک دم گھومیں۔ (ایک تو یہ دونوں بھائی، ہر کام شرائط و ضوابط کے تحت کیوں کرتے ہیں۔) انھوں نے سوچا اور شوہر کو دیکھا۔
“اقدس سے پوچھ لو، غزنوی نے جس لڑکے کا ذکر کیا تھا اور سبکتگین، دونوں کے متعلق۔”
“کیا۔!!؟؟” وہ اپنی آواز کو بلند ہونے سے روک نہ سکی تھیں۔
“غزنوی کے بتائے اس لڑکے کے بارے میں؟؟ جب کہ اس دن ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہو گا۔ تو اب یہاں اس کا نام آیا ہی کیوں؟” اور فیاض کو بھی یاد آیا کہ وہ خود اس لڑکے کا باب بند کر چکے تھے۔ اب ایسے میں شازیہ کا خفا ہونا بجا بھی تھا۔
“اچھا اچھا ٹھیک ہے، اس لڑکے کا مت پوچھنا لیکن سبکتگین کے بارے میں ضرور رائے لینا، کل کو یہ نہ کہہ سکے کہ اس سے پوچھا نہیں گیا۔” شازیہ ٹھہر کر، بے تاثر سے انداز میں انھیں دیکھتی رہیں۔
“آخر کو اس کا بھی حق بنتا ہے۔ گائے بکری تو ہے نہیں کہ کہیں بھی کسی بھی کھونٹے سے باندھ دیں” اور یہ جملہ کہنا گویا مزید غضب ڈھا گیا۔
“بھئی واہ۔۔!! اب اپنی اولاد کی باری آئی تو میرا لائق فائق، ہیرو میں تولنے کے قابل بھانجا آپ کو گائے یا بکری کا کھونٹا لگنے لگا، بھئی واہ۔۔!” انھوں نے ہاتھ ہلا کر جلے دل سے کہا۔
“میری شادی کے وقت تو ابا نے نہیں دیکھا تھا کہ کس کھونٹے سے باندھ رہے ہیں یا میں گائے بکری نہیں انسان ہوں۔ میری باری تو کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ رشتہ طے ہونے سے قبل پوچھ لیں کہ آیا مجھے آپ پسند ہیں بھی یا نہیں۔” فیاض بیچارے ہکا بکا، نان سٹاپ بولتی اپنی بیوی کو دیکھتے رہے۔
“اپنی اولاد کی باری آتی ہے تو برسوں سے دماغ کے صندوق میں بند پڑے سبھی اصول اور قاعدے یاد آ جاتے ہیں۔ بھئی واہ۔!” وہ سارا غصہ اب دیگچی کو مانجھنے پہ اتارنے لگیں۔ شوہر کو جتنا سنانا تھا سنا چکی تھیں۔ فیاض نے پیار سے بہلا پھسلا کر آخر انھیں قائل کر ہی لیا تھا۔ جو بھی تھا، ان کی بات میں وزن تو تھا کہ بیٹی کی رائے بھی معنی رکھتی تھی۔ ویسے بھی اپنی بھڑاس تو نکال ہی چکی تھیں۔
“میں آج ہی اقدس سے بھی بات کروں گی۔”
(تم تو ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے چکر میں ہو۔) اب فیاض یہ کہہ کر ان کو مزید غصہ نہیں دلانا چاہتے تھے۔ خاموشی سے اٹھ کر دکان پہ واپسی کی راہ لی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
برتن دھو کر کچن سے اندر کمرے میں آئیں تو حسب معمول اقدس اور اریبہ کو لڑتا پایا۔ ہاتھا پائی کی نوبت بس آنے ہی والی تھی۔
“کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں نے دو بیٹیاں نہیں، بلکہ انسان کے روپ میں دو جنگلی بلیاں پیدا کی ہیں۔” دونوں ہنسی دباتیں شریف بچوں کی طرح بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر پہلے ہی کالج سے آئی تھیں۔ یونیفارم ہنوز کمرے میں بکھرا ہوا تھا۔
“یہ اپنا پھیلاوا سمیٹ کر بھلے تلواریں لے کر لڑائی کرو، مجھے کوئی پروا نہیں۔” ان کے یونیفارم اٹھاتے، انھیں ڈانٹنا بھی جاری تھا۔
“دونوں بہنوں کی آپسی لڑائی میں ایک آدھ اگر ٹپک بھی گئی تو میرا جو وقت تم دونوں کا پھیلاوا سمیٹنے میں صرف ہو گا، وہی وقت رونے دھونے میں لگا لوں گی۔” ماں کی بات پر دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی تھیں۔
“آپ اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہیں امی!” اقدس صدمے سے بمشکل باہر آئی تھی۔
“آپ اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہیں امی۔؟ ہونہہ۔۔” شازیہ نے باقاعدہ اس کی نقل اتاری تھی۔
“جیسے تم دونوں اتنی پھوہڑ اور بد سلیقہ ہو سکتی ہو۔” اس کی کمال بےعزتی پر اریبہ نے ماں سے نظر بچا کر اسے زبان چڑائی۔
“امی! یہ دیکھیں اریبہ کو۔” شازیہ نے پلٹ کر ایک گھوری سے اریبہ کو نوازا اور اقدس سے بولیں۔
“دیکھ لیا، اب بس!” وہ بےچاری اپنا سا منھ لے کر رہ گئی۔ اب وہ اریبہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
“جاؤ کچن میں جا کر کھانا گرم کرو، اقدس سے بات کرنی ہے مجھے۔” ماں کی سنجیدگی دیکھ کر اریبہ تو وہاں سے کھسکی ہی لیکن اقدس کا بھی خون خشک ہوا، کہ “نجانے کیا شامت آنی ہے۔”
“اور مجھے تم باہر دیوار کے ساتھ، چھپکلی بن کر چپکی ہوئی نظر نہ آؤ۔” شازیہ کی تنبیہ نے اریبہ کی سوچ پہ پانی پھیرا تھا۔ اس نے فوری طور پر کچن ہی کی راہ لی تھی۔
“اقدس۔!” اس کے سامنے بیٹھیں۔
“جج۔۔ جی امی!” اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔ شازیہ نے اس کی حالت دیکھی تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
“اتنی گھبرا کیوں رہی ہو بیٹا؟ میں تمھیں ڈانٹ یا غصہ تو نہیں ہو رہی۔” کچھ دیر پہلے والا غصہ اب نہیں رہا تھا۔
“وہ تو تم دونوں کی بکھری چیزیں اور حرکتیں مجھے وقتی تاؤ دلا دیتی ہیں۔” ماں کی بات سن کر اقدس نے سکون کی سانس لی تھی۔
“آج تمھاری خالہ نے بتایا کہ سبکتگین کو آسٹریلیا جانے کی پیشکش ہوئی ہے، بیکنگ کے کسی مقابلے کے سلسلے میں۔” انھوں نے بات کا آغاز کیا، بقول فیاض کے، ہتھیلی پر سرسوں جمانے لگی تھیں۔
“اچھا۔۔۔!” اس نے خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے منھ بنا لیا۔
“تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟”انھوں نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں بھئی خوشی کیسے ہو، آخر ہو تو اپنے تایا ابا ہی کی حمایتی۔ وہ بھی نہیں مان رہے۔”
“نہیں امی! یہ بات نہیں ہے۔” اس نے ماں کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا:
“یہ ٹھیک ہے کہ وہ بیکنگ کے مقابلے میں حصہ لے، اللہ کرے کہ جیت بھی جائے۔ میں تو ویسے ہی اسے تنگ کرتی ہوں ہمیشہ۔ ورنہ میں جانتی ہوں کہ ہر کسی کے اپنے شوق اور دلچسپیاں ہوتی ہیں لیکن۔۔۔” اس کی رائے نے جہاں انھیں خوش کیا تھا وہیں آخر میں لیکن نے الجھایا تھا۔
” لیکن؟؟؟”
“لیکن کیا ضروری ہے آسٹریلیا جانا؟ پہلے غزنوی بھائی بھی کینیڈا چلے گئے، اب سبکتگین بھی آسٹریلیا جا رہا ہے، کل کو یہ بھی کہے گا کہ وہیں رہوں گا۔ اور پھر ان کی دیکھا دیکھی شاہنواز بھی گھر سے چلا جائے گا۔ کیا فائدہ امی؟” وہ عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھی۔
“ہمارے بھائی ترقی اور اچھی زندگی کے لیے امریکہ یا یورپ جانے کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ کیا اپنے ملک میں رہ کر، اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھی زندگی کے لیے محنت نہیں کی جا سکتی؟ جبکہ محنت تو وہ وہاں بھی کرتے ہیں۔” شازیہ کو اس پہ بڑا پیار آیا تھا۔
(کتنی سمجھدار تھی ان کی بیٹی، انھیں تو پتا ہی نہیں تھا۔)
“اگر تم چاہو گی تو سبکتگین واپس آ جائے گا۔”
“میرے چاہنے سے کیوں بھلا؟” وہ حیران ہوئی
“اگر اس نے وہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا تو وہ تایا ابا یا خالہ کی بھی نہیں سنے گا۔ میں کس شمار میں ہوں؟ جب اپنے سگے بھائی، غزنوی بھائی نے جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہماری نہیں سنی، تو کسی اور سے کیا توقع رکھنی امی؟” اس نے سر جھٹک کر پرانی تلخ یادیں ذہن سے نکالی تھیں۔
“کچھ لوگوں سے الگ توقع رکھی جاتی ہے بچے!”
“نہیں امی! توقع انسان کو توڑ دیتی ہے۔”
“لیکن کچھ لوگوں سے ایسا رشتہ ہوتا ہے جن پہ مان ہوتا ہے۔ اور جن سے مان کا رشتہ بن جائے وہ توقع توڑتے نہیں ہیں۔” وہ آہستہ آہستہ اصل موضوع کی طرف آ رہی تھیں۔
“کیا مطلب امی!؟” وہ کھٹکی تھی۔
“میں اور تمھارے ابو تمھارے اور سبکتگین کے رشتے کا سوچ رہے ہیں۔” انھوں نے اس کی سماعتوں پہ بم پھینکا تھا۔
“میں اور سبکتگین۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” وہ اتنی حیران ہوئی کہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
“بیٹھ جاؤ! میں نے تمھیں کوئی ایسی خبر نہیں سنائی کہ تم یوں اچھل اچھل جاؤ۔” شازیہ نے تپ کر اسے بٹھایا۔
“اقدس۔! کھانا گرم ہو گیا ہے اب آ بھی جاؤ۔” اریبہ کی آواز آئی۔ وہ بھی حواسوں میں لوٹ آئی تھی۔
“چلو جاؤ کھانا کھا لو، اچھی طرح سوچ سمجھ لو، چاہو تو اریبہ سے بھی مشورہ کر لینا۔” وہ باہر جاتے جاتے رک گئی اور پلٹ کر ہنس کر بولی:
“اریبہ سے مشورہ۔؟؟؟ وہ تو سبکتگین کی حمایت ہی کرے گی۔”
“تو چلو تم خود ہی سوچ لینا۔”
“مجھے کچھ نہیں سوچنا امی! آپ کو جو مناسب لگے کریں لیکن میری ایک شرط ہے۔” شازیہ کا دل چاہا کہ اپنا سر دیوار پہ دے ماریں۔ (باپ سے لے کر تایا تک، سبھی کی یہ شرطیں!)
“سبکتگین کو یہ پہلے ہی واضح کر دیجیے گا کہ میں نہ کبھی خود بیرون ملک جا کر رہنا پسند کروں گی، نہ اسے رہنے دوں گی۔ مجھے یہیں اپنے ملک میں، اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا ہے۔” وہ کہہ کر رکی نہیں تھی۔ فوراً چلی گئی۔ اور شازیہ نے شکر کا کلمہ پڑھا تھا۔ انھیں اقدس پہ بےتحاشا پیار آیا تھا لیکن تب تک وہ کمرے سے جا چکی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
شاہد گھر سے چلے گئے تو پیچھے فوزیہ اکیلی ہی سوچ بچار کرتی رہیں۔ (خدا اتنا ضدی شوہر بھی کسی کو نہ دے۔)
“منوا کر تو اب میں رہوں گی۔ آپ دیکھتے جائیے۔” بالآخر وہ اٹھیں اور کھانے کی تیاری کا سوچنے لگیں کہ کیا بنایا جائے۔ پھر سوچ کر فریزر سے گوشت کا پیکٹ نکال لیا کہ پلاؤ بنا لیتی ہوں اور ساتھ میں زردہ بھی۔ یخنی بن گئی، پیاز کاٹ لیا، لہسن ادرک بھی بن گیا تھا۔ زردے کے لیے بادام و پستے کی ہوائیاں بھی کاٹ کر رکھ لیں۔ اور تو اور ایک چکر شازیہ کے گھر کا لگا کر انھیں بھی اپنے منصوبے سے آگاہ کر آئی تھیں۔ لیکن شاہد صاحب کا ابھی تک اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے فون بھی کیا لیکن کوئی خبر نہیں۔ نمبر ہی مصروف کر دیا تھا۔ دوپہر کے تین بجنے کو آئے تھے۔
“کب سے آپ کو فون کر رہی تھی، کہاں تھے آپ۔” ان کی موٹر سائیکل اندر آئی تو بےتاب ہو کر پوچھا تھا۔
“خیر سے تم تو لاہور جا رہی تھی نا! مجھے تو لگا تھا کہ پہنچ کر فون کرنے والی ہوں گی۔ گئی نہیں؟” چونکنے کی کمال اداکاری کی گئی تھی۔
“آپ تو جیسے اسی انتظار میں تھے کہ کب میں یہ گھر چھوڑ کر جاؤں۔” وہ تنک کر بولیں۔
“بس کرو فوزیہ۔! میرا دماغ صبح سے گھوم رپا ہے، مزید پریشان مت کرو۔” وہ اداکاری کر سکتی تھیں تو انھیں بھی حق تھا کہ اداکار بنتے۔
“بس میں کروں یا آپ کو کرنی چاہیے؟” انھیں پانی کا گلاس پکڑایا اور سوال کیا۔
“آخر چاہتی کیا ہو تم؟”
“کمال کرتے ہیں آپ، جیسے آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ میں کیا چاہتی ہوں؟” انھوں نے خالی گلاس ان کے ہاتھ پہ رکھا قدرے تیز لہجے میں گویا ہوئے:
“تم ہی اس گھر کی حاکم بن جاؤ! تم ہی فیصلے کرو۔ جو دل کرتا ہے کرو، سبکتگین نے جہاں جانا ہے وہ جائے۔ لیکن خبردار جو اس گھر سے جانے کی بات کی اور۔۔۔” فوزیہ جو گلاس لیے کچن میں جا رہی تھیں، نے خوشی اور حیرت سے پلٹ کر شوہر کو دیکھا۔
“اور خبردار جو آیندہ اس کے بعد مجھ سے کسی معاملے میں ضد کی۔ اس کے بعد وہی ہو گا جو میں چاہوں گا۔” ان کا انداز سنجیدگی لیے ہوئے تھا۔ لیکن ان کے مان جانے کی خوشی میں فوزیہ نے فی الوقت ان کے لہجے پہ غور نہیں کیا تھا۔ ابھی کے لیے ان کا مان جانا ہی بہت تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...