(Last Updated On: )
وہ گیٹ لاک کرکے اندر آ رہا تھا کہ اسے کسی کے چلانے کی آواز آئ تو وہ لان کی طرف چل دیا۔وہاں پہنچا ہی تھا کہ اسے حور کے چہرے کا رنگ فق ہوتا محسوش ہوا”کیا ہوا؟”اسنے فکرمندی سے پوچھا “وہ۔۔۔وہ”اسنے کانپتی آواز میں کہا۔عرشمان کو کچھ سمجھ نہ آئ کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔حور نے ہاتھ سے بالکونی کی دیوار کی سمت اشارہ کیا”وہ چھپکلی مجھے ہی دیکھے جا رہی ہے”اسنے ڈرتے ہوئے کہا۔عرشمان نے پہلے حیرت سے حور کی طرف دیکھا اور پھر دیوار سے چپکی چھوٹی سی چھپکلی کی طرف دیکھا۔
میری کار کا ٹائر پنکچر کرنے والی۔۔۔میری گاڑی کا حشر کرنے والی جھانسی کی رانی بھی کسی چیز سے ڈرتی ہے کمال ہے اسکا چھپکلی کو سلیوٹ کرنے کو دل چاہا لیکن وہ اپنی مسکراہٹ دباتا گیا۔”دیکھ کیا رہے ہو ہٹاو اسے یہاں سے”حور نے بیچارگی سے کہا “اسے چھوڑو یہاں باہر بیٹھ جاو”اسنے حور کو بہلاتے ہوئے کہا”وہاں بھی آجائے گی”حور نے کہا”نہیں آتی”اس بار اپنی مسکراہٹ روکنا اسے زیادہ مشکل لگا۔وہ دونوں چلتے ہوئے باہر آگئے”تم صبح ریحان کو اتنی متجسس نگاہوں سے کیوں دیکھ رہی تھی”صبح سے دل میں اٹھتا سوال اسنے بلآخر پوچھ ہی لیا”بس ہے ایک وجہ تم مجھے یہ بتاو انہیں لوئ لڑکی پسند تو نہیں ہے نا؟”حور نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”نہیں”اس بار اسکی آواز میں کچھ عجیب تھا اسے اپنے حدشات درست ثابت ہوتے لگے۔”گڈ”حور اسکے لہجے کا اتار چڑھاو محسوس کر چکی تھی اسی لیے چراتے ہوئے بولی”ویسے ہیں تو کافی ڈیشنگ”حور نے کہا”ہمم۔۔”عرشمان نے مختصرن جواب دیا اور اٹھنے لگاہی تھا کہ حور کے بولنے پر پھر بیٹھ گیا۔”مجھے تمہیں ایک بریکنگ نیوز دینی ہے سن کر تم بھی خوش ہو جاو گے” اسنے جانچتی نظروں سے اسے پوچھا”عائشہ ریحان بھائ کو پسند کرتی ہے اور ہمیں کسی بھی طرح ریحان کو منانا ہے اور تم میری ہیلپ کرو گے”اسنے مسکراتے ہوئے بتایا”دیٹس گریڈ یار دونوں ویسے ہی ساتھ بہت اچھے لگتے ہیں”وہ جو اتنی دیر سے اداس بیٹھا تھا مسکراتے ہوئے بولا۔
رات ڈنر بہت اچھا گیا۔ سب نے خوب انجوائے کیا اور نیکسٹ ڈے سب اپنی مصروفیات میں مگن رہے۔ عائشہ البتہ کچھ زیادہ ہی خوش تھی۔ اسنے کئ بار ریحان کی غیر ارادی اٹھتی نگاہ خود پر محسوس کی تھی حور کے کہنے کے مطابق رات وہ بہت جتن سے تیار ہوئ تھی۔ ماہین اور عرشمان نے بھی ریحان کی توجہ اس پر محسوس کی تھی اور وہ تینوں مسکراتے ہوئے محظوظ ہو رہی تھی جبکہ عائشہ سے پلکیں جھپکنا دو بھر ہورہا تھا۔
رات کو جب عرشمان کچھ دیر سے واپس لوٹا تو سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ اسی لیے وہ کسی کو بھی ڈسٹرب کیے بغیر اپنے کمرے کے ٹیرس پر کوفی کا کپ اور لیپ ٹاپ لے آیا۔ اسے کچھ بہت امپورٹنٹ میل وسول ہونی تھی جس کا وہ کچھ دنوں سے انتظار کرتا رہا تھا ساتھ ہی کچھ ڈاکیومنٹس بھی سینڈ کرنا تھے۔ رات ڈھائ بجے کے قریب اسے ایپروول میل وسول ہوچکی تھی اور جسے دیکھتے ہی خوشی کی ایک لہر اسکے چہرے پر دوڑ گئ صبح اسے جوائنمنٹ لیٹر بھی وسول ہو جانا تھا۔ وہ میل کی ڈیٹیلز چیک کرنے لگا جس میں اسے مبارکباد کے ساتھ ساتھ اگلے ایک ماہ میں جوائن بھی کرنا تھا اسکا مطلب وہ ایگزیمز سے فری ہونے کے بلکل بعد یہاں سے موو کر جائے گا۔ وہ یہ خوشخبری سب کو صبح دینا چاہتا تھا۔
اسنے نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ لیپ ٹاپ آف کیا ہی تھا کہ اسے لان سے اوپر سیڑھیوں تک آتے ہوئے کسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئ۔ وہ دور سے دیکھنے پر بھی ان نیلی آنکھوں کو پہچان سکتا تھا۔اسنے سکتے کی حالت میں ورسٹ واچ پر وقت دیکھا۔ گھڑی کی سوئیاں تین بجا رہی تھیں۔ اس کی چال میں لغزش بھی تھی یوں لگتا جیسے وہ مزید ایک قدم بڑھائے گی تو ڈگمگا جائے گی۔ وہ اسے اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی۔وہ قدم تیزی سے بڑھاتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچا۔جونہی اس نے ایک اور قدم بڑھایا تو وہ ڈگمگا گئ اگر عرشمان اسے سہارا نہ دیتا تو وہ تمام سیڑیوں سے گر جاتی”ہور تم ہوش میں تو ہو”اسنے حور کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا تو وہ نیم مدہوش نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی اسکی آنکھیں اس بات کی گواہ تھی کہ وہ بہت سا رو چکی ہے اور اب اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو پارہی۔
“کہاں تھی تم اتنی رات”عرشمان نے ہموار لہجے میں اسے بازو سے سہارا دیتے ہوئے پوچھا۔”بار میں تھی اور کہاں جانا ہے مجھے”وہ نیم مدہوشی میں بڑبڑائ۔ ضبط کے باوجود تیش سے عرشمان کی شریانے پھٹنے کو تھی۔”تم ڈرنک کرکے آرہی ہو”اس بار اسنے سختی سے پوچھا۔حور کا سر خود با خود ہلنے لگا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ حور کا حشر کر دے مگر رات کے اس پہر اس حالت میں وہ اس سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔اسنے خاموشی سے اسے اسکے کمرے تک سہارا دیتے ہوئے چھوڑا اور رخ موڑتے ہوئے باہر نکلنے لگا ہی تھا کہ حور نے اسے پکارا۔”تم نے کبھی سوچا ہے خوف انسان کو کیا بنا دیتا ہے” عرشمان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا”سب کچھ ایک بساط پر کھونے کا خوف اسے بدظن بنا دیتا ہے اسے ڈوبتے ہوئ لہروں میں کھینچتا ہوا لے جاتا ہے جہاں وہ گہرائ کا سفر طے کرتے ہوئے جینے کی امید کھو بیٹھتا ہے اب تم جا سکتے ہو”وہ سر جھٹکتا ہوا دروازہ بند کرکے باہر نکل گیا۔ یہ لڑکی گزرے دنوں کے ساتھ ساتھ اسکے حواسوں پر چھاتی جا رہی تھی اور پہ در پہ اس میں پنہاں راز اسے مزید اسکی کھوج میں اکساتا۔
***********
آنکھوں کے سامنے سے سیاہ پٹی ہٹتے ہی اسکی نگسہیں روشنی کے باعث چندھیاں گئ۔وہ اب بھی پوری طرح سے حوش میں نہ تھی۔ مگر گرد ونواں میں موجود ہر شہ کا جائزہ لینے لگی وہاں صرف ایک روشن دان تھا جس سے روشنی اس طےخانے میں پھیلی تھی۔ اسے اب روشنی کی عادت رہ ہی نہیں گئ تھی اسے یہ تک معلوم نہ تھا کہ وہ اک مدت ہوئے سیاہی میں ڈھل چکی تھی۔اچانک دو لوگ اندر داخل ہوئے اور چلتے ہوئے اسکے قریب آئے”تو کریسٹی تم اب بھی نہیں بتاو گی کہ وہ ڈاکیومنٹس کہاں ہے” انس نے اس سے پوچھا۔وہ اپنے حواس بہال کرتے ہوئے اسے دیکھنے لگی اور پھر رخ موڑ لیا
“لڑکی میں اب بھی کہہ رہا ہوں شرافت سے وہ ڈاکیومنٹس ہمارے حوالے کر دو”اس بار جوسیف نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے سختی سے کہا”نیور”کریسٹی نے چلاتے ہوئے کہا۔”کافی ضدی ہو خیر میں تمہیں وقت دوں گا جب تک تم خود گھٹنے نہ ٹیک دو”انس نے مسکراتے ہوئے کہا”میں اپنی آخری سانس تک یہ نہیں کروں گی ” کریسٹی نے کہا”یہ تو وقت بتائے گا” جوسئف تن فن کرتے وہاں سے نکل گئے البتہ انس بلکل پرسکون تھا۔ اس نے گارڈ کو اشارہ کیا اور اسنے پھر اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور چلتا ہوا باہر آیا اور ایک گارڈ کو اپنی طرف بلایا”اسکو دی جانے والے انجیکشنز کی کوانٹیٹی بڑھادو دیکھتے ہیں کب تک اپنے حواس برقرار رکھ پائے گی”گارڈ نے اس بات پر سر ہلایا اور وہ مسکراتا ہوا واک آوٹ کر گیا۔
*******
آج سب کی صبح کافی جلدی ہوچکی تھی اور اسکی سب سے بڑی ذمہ دار ماہین تھی جسے صبح صبح واک کے بعد گھر کے باہر جوائنمنٹ لیٹر ملا تھا جو کہ عرشمان کے لیے تھا۔”ماہین کیا آفت آگئ ہے اتنی صبح کہ تم ہر ایک کے روم کا دروازہ پیٹ رہی ہو”عائشہ نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے پوچھا”گیس واٹ عائشہ اٹس آ بلاسٹنگ نیوز”ماہین کہتے ہوتے خوشی سے اچھلنے لگی”عائشہ بڑی ہے تم سے آپی کہا کرو اور ہاں صبح ہی صبح کونسے خزانے کا نقشہ لگ گیا ہے تمہارے ہاتھ”ریحان نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا جو نیند سے بےحال روم سے نکل رہا تھا “آپ تو رہنے دیں ریحان بھائ خیر نیوز تو بہت سپیشل ہے”ماہین نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“مان بھائ کا Pak Navy میں سلیکشن ہو گیا ہے یاہوووو!!! اور انہیں نیکسٹ منتھ سے جوائن کرنا ہوگا انکا انٹرویو سب کلئیر ہو چکا ہے۔ بھائ کو تو شروع سے ہی کریز رہا ہے نیوی میں جانے کا ڈیڈ کا بزنس اب آپ اور ارسلان بھائ سنبھالیں گے” اسی وقت عرشمان اور حور اپنے اپنے کمروں سے باہر آئے چونکہ دونوں نیوز سن چکے تھے اسی لیے حور خاموش رہی البتہ عرشمان سب سے مبارکباد وسول کرنے لگا۔
بریک فاسٹ ٹیبل پر سب گھر والے اب اکٹھے ہو چکے تھے اور سب نے اس خوشی کی خبر پر عرشمان کو مبارک باد دی تھی۔”بھائ دیٹس ناٹ فئیر آپکو ہمیں ٹریٹ دینی ہوگی آخر سیلیبریشن تو بنتا ہے”عائشہ نے مصنوعی ناراضی سے کہا”صرف ٹریٹ پر نہیں ٹرخا سکتے آپ ہمیں ہم نے تو اس سے بھی کچھ بڑا پلین کیا ہے”ماہین نے کہا”وہ کیا”سب حیرانی سے ماہین سے پوچھنے لگے”کیوں نا ہم سب لنڈن چلیں اسی خوشی میں ایک ہفتے کے لیے اور پھر نیکسٹ ویک سحرش آپی کی شادی بھی ہے اس سے پہلے واپس آجائیں گے اور پھر ہمارا ٹور بھی ہو جائے گا ورنہ ایسے تو ہمارے بزرگوں نے ہمیں اس شادی شدہ کپل کے ساتھ کسی ٹور پر جانے نہیں دینا”ماہین نے منہ بسورتے ہوئے ارسلان اور سحرش کو دیکھا اور اسکی ممی ماہین کو گھورنے لگیں جبکہ باقی سب مسکرانے لگے۔۔
“ویسے پلین تو بہت اچھا ہے ضرور چلتے ہیں پر جا کون کون رہا ہے؟”ریحان نے ماہین کی سائیڈ لی جس پر وہ کھلکھلا اٹھی جبکہ عرشمان اور حور سنجیدگی سے ناشتہ کر رہے تھے”میں عائشہ حور آپ اور مان بھائ” ناشتہ کرتی حور نے ہاتھ روک کر ان سب کی طرف دیکھا”میں نہیں جا پاوں گی میں یہیں سحرش آپی کے پاس رک جاتی ہوں “حور نے راہ فرار اختیار کرنا چاہی “نہیں بیٹا آپ بھی جاو سب کے ساتھ یہ وقت بار بار نہیں آتا خوب انجوائے کرنا سب ” آمنہ آنٹی اور پھر ماہین اور عائشہ کےانسیسٹ کرنے پر وہ بامشکل رضامند ہوئ۔”پھر سب پیکنگ سٹارٹ کرو میں کل رات کی فلائٹس بک کروا رہا ہو”عرشمان نے ٹیبل سے اٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور چل دیا۔”گریٹ اب چلو اپنی شاپنگ لسٹس تیار کر لو وقت بہت کم ہے”عائشہ نے آرڈر دیتے ہوئے کہا”راجر بوس”ماہین نے کہا اور سب مسکرا دی۔۔۔
“عائشہ میرے پاس تو اس ریڈ فروک کے ساتھ کوئ میچنگ ائیرنگز ہی نہیں ہیں اور نہ ہی اس بلو ڈریس کے ساتھ کی ہیلز اور یہ دیکھو اس کے ساتھ کوئ ڈھنگ کا پاوچ بھی نہیں”ماہین ٹینشن سے کمرے میں چکر لگانے لگی۔”ماہین ریلیکس یار ابھی پورا دن ہے ہمارے پاس میں ابھی مان کو کہتی ہوں وہ ہمیں شوپنگ پر لے چلے”عائشہ نے کہا۔”آپ رہنے دیں میں انہی کے پاس جا رہی ہوں اور ریحان بھائ کو بھی ساتھ چلنے کا کہہ دوں گی”ماہین نے شرارت سے کہا تو عائشہ سر جھٹک کر وہاں سے چل دی۔
“بھائ ہمیں شاپنگ پر جانا ہے آپ لوگ دس منٹ میں ریڈی ہو کر پورچ میں پہنچے”ماہین انہیں انفارم کرنے کے بعد وہاں سے چل دی۔”حور آپ کتنا ٹائم لوگی مزید سب ریڈی ہیں”ماہین نے چوتھی مرتبہ اسکا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا بس پانچ منٹ “اسنے کمرے میں سے ہی آواز لگائ”یہ نہیں نکلنے والی ٹائم پر ہم لوگ نکلتے ہیں یہ عرشمان کے ساتھ آجائے گی”عائشہ نے کہا اور دونوں ریحان کے ساتھ پینوراما نکل گئیں۔ وہ باہر آئ تو اسے کوئ نظر نہ آیا وہ چلتی ہوئ گیراج تک پہنچی۔پورچ میں صرف عرشمان کی کار کھڑی تھی جس میں وہ خاموشی سے بیٹھا تھا۔ جس سے وہ دن بھر گریز کر رہی تھی اب جانا بھی اسی کے ساتھ تھا مرتا کیا نہ کرتا کہ مسداک وہ خاموشی سے کار میں بیٹھ گئ۔
وہ انتظار میں تھا کہ شاید اب وہ اسے سب بتا دے مگر آدھا سفر کٹ جانے پر بھی وہ کچھ نہ بولی تو وہ بلآخر خود بول اٹھا۔”کب سے ڈرنک کر رہی ہو تم”اسنے سنجیدگی سے پوچھا”پچھلے تین سال سے”حور نے کھڑکی سے پار دیکھتے ہوئے کہا۔”اور کیوں کر رہی ہو؟”اسنے پھر پوچھا”تمہاری ہر بات کا جواب دینے کی میں پابند نہیں”اسنے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اب اسے ملامتی نظروں سے دیکھ رہا تھا تو وہ رخ پھیر گئ۔اس نے گئیر سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اسکے ہاتھ پر رکھا “میں تمہیں کسی چیز کے لیے فورس نہیں کروں گا بس اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ جب تمہیں مجھ پر بھروسہ ہو تو ضرور بتانا”اسنے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا وہ جانتا تھا یہ سچویشن اتنی آسانی سے ہینڈل نہیں ہو سکتی اسی لیے وہ نرم پر گیا۔ “میں تمہیں ضرور بتاو گی مگر ابھی نہیں صحیح وقت پر”اس نے کہا “اوکے”اور اسکے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔
****
سٹیٹس سے واپس آنے کے بعد وہ استنبول گئے تھے۔ گھر پر کوئ انکی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا اور یہ بات انہیں بہت متفکر کر رہی تھی اسی لیے وہ پہلی فلائٹ سے ہی واپس آنا چاہتے تھے مگر اب انہیں آنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے اپنے تمام کونٹیکٹس استعمال کیے تھے مگر پھر بھی ان دونوں کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ شام کو ہی وہ وہاں پہنچے تھے۔ کوٹیج میں داخل ہوتے ہی انہوں نے جو منظر دیکھا تھا اس سے انہیں واقع کی سنگینی کا اندازہ ہوچکا تھا۔۔۔
ارد گرد لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ یہاں اس گھر میں الیکٹرک سرکٹ کے بریک ڈاون ہونے کی وجہ سے ایک خاتون وفات پا چکی تھی ۔آگ پر بہت دیر سے قابو پایا گیا تھا۔ قبرستان میں ایک قبر کے قریب بیٹھے ہوئے اس کی سطح کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوتے ہوئے انکی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے”مجھے معاف کردو میں تمہیں نہیں اس ظالم سے بچا پایا مگر میں کریسٹی کو کچھ نہیں ہونے دوں گا یہ میرا وعدہ ہے میں اسے تلاش کر لوں گا میں بہت جلد ان تک پہنچ جاوں گا۔ اپنی آنکھ کے نرم گوشے کو صاف کرتے ہوئے وہ اک عزم کرتے ہوئے وہاں سے چل دیے۔۔۔
******
ماہین اپنے لیے سینڈلز دیکھنے کے لیے ایک شاپ میں اینٹر ہو گئ جبکہ عائشہ اور ریحان باہر ونڈو شاپنگ میں مگن تھے”ریحان یہ عرشمان اور حور کہاں رہ گئے آپ انہیں کال کرخے ذرا پوچھے”عائشہ نے کہا۔ “اوکے”اور وہ نمبر ملانے لگا ہی تھا کہ اتنے میں وہ دونوں اسے سامنے سے مسکراتے ہوئے آتے دکھائ دیے۔”کہاں رہ گئ تھی”عائشہ نے آتے ہی اس سے پوچھا”آ تو گئ ہوں یار” حور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اتنے میں ماہین شوپنگ بیگز سے لدی ہوئ ایک شوپ سے باہر نکلی اور آتے ہی آدھے بیگز عرشمان اور آدھے ریحان کو تھما دیے۔ اور بل کی چٹس بھی پورے چھے ہزار کی وہ اب تک شاپنگ کر چکی تھی ریحان نے اپنے حصے کے بیگز بھی عرشمان کو تھما دیے “ماہین کل سے مالز میں کرفیو نہیں لگ جانا جو تم اگلے تین ماہ کی شاپنگ آج ہی کرنے بیٹھ گئ ہو ریحان نے حیرانی سے کہا”بٹ بھائ ابھی تو صرف شوز لیے ہیں باقی کی شاپنگ تو رہتی ہے”ماہین نے مسکراتے ہوئے کہا۔اور کہتے ہوئے وہ تینوں مال کی مختلف دکانوں میں گھس گئیں اور وہ دونوں ان کے بیگز تھامنے لگے۔
تینوں باری باری انہیں اپنے بیگز تھماتی رہی نتیجاتن دونوں عرشمان اور ریحان دونوں بیگز سے لدے پھدے مختلف دکانوں سے نکلے جو ایک دوسرے کے سامنے تھی۔ اپنے دھیان چلتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور اور زمین پر گرتے ہوئے تینوں کے بیگز آپس میں مکس ہوگئے اور دونوں اپنا سر کھجانے لگے “او گوڈ یہ تم لوگوں نے کیا کیا کوئ کام تو ڈھنگ سے کر لیا کرو میرے بلو سینڈلز اور میرا گرین پاوچ اور میرا پنک ڈریس تینوں سر تھام کر بیٹھ گئیں۔ “کسی کو ہمارا بھی خیال ہے یا نہیں دونوں قہر آلود نظروں سے ان تینوں کو دیکھنے لگے جو ان سے زیادہ گرے ہوئے بیگز اٹھانے میں مگن تھی۔وہ دونوں اپنی جینز جھارتے ہوئے کھڑے ہوگئے جبکہ وہ تینوں مسکرانے لگیں۔
فلائٹ کافی لمبی تھی سو وہ پانچوں شام کو لندن پہنچے تھے سفر کی تھکاوٹ سے چوور اپنے اپنے روم میں آرام کرنے کو گھس گئے عرشمان اور ریحان ایک ہی روم شئیر کر رہے تھے اور ہور اور عائشہ ایک روم جبکہ ماہین نے سیپریٹ روم لیا تھا۔ اپنے گیسٹ ہاوس میں انہیں پر سوں شفٹ ہونا تھا اسی لیے ابھی صرف انہوں نے ہوٹل میں ٹیمپریری رہائش اختیار کی تھی۔ صبح ان دونوں کی آنکھ دروازہ کھٹکھٹانے سے ہوئ تو وہ دونوں بستر سے اٹھ بیٹھے ریحان دروازے کی طرف بڑھا”میں دیکھتا ہوں عائشہ ہوگی شاید اسے کوئ کام ہوگا۔وہ دروازے تک پہنچنے ہی والا تھا جب عرشمان نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا”نہیں حور ہوگی مجھے دیکھنے دو”اسنے سراعت سے کہا “میں دیکھتا ہوں نا”ریحان نے کہا اتنے میں عرشمان نے روم کا دروازہ کھولا تو ماہین نے اپنے بلمقابل کھڑے دونوں کے کان پکڑ لیے اور اپنے ساتھ کھینچتی ہوئ اندر لے آئ “بات یہاں تک پہنچ چکی ہے اور مجھے معلوم ہی نہ ہوا کبھ بہن کو بھی اتنا پروٹوکول دے دیا کریں ابھی ممی کو کال کرکے بتاتی ہوں آپ دونوں کی خبر لیتی ہین ارسلان بھائ کی شادی ہوئ نہیں اور پر آپ دونوں کے نکل آئیں ہیں
وہ دونوں اس سے اپنے کان چھرواتے ہوئے مسکرانے لگے۔۔۔۔
وہ دونوں بھی فریش ہو کر ان کے کمرے میں آگئیں۔ اون ائیر ایریا میں ناشتے کے بعد سب نے مل کر آوٹنگ کا پلین بنایا۔ “تو کہاں چلنا ہے پھر آج”ریحان نے سب سے پوچھا “windsor castle” چلتے ہیں کیا خیال ہے؟ عائشہ نے کہا “نہیں وہ جگہ کافی اینٹیک اور سنسان ہے میرے خیال میں ہمیں view of Shard دیکھنے چلنا چاہیے”ماہین نے بھی اپنی رائے دی۔ “لیکن ماہین اس skyline سے پورے لندن کا ویو رات کو زیادہ دلفریب محسوس ہوتا ہے I guess ہمیں London eye چلنا چاہیے کافی مزا آئے گا اور ویک اینڈز پر وہاں زیادہ رونق ہوتی ہے۔” حور نے کہا “چلو پھر ٹھیک ہے آج ہم London eye ہی چلتے ہیں”عائشہ اور ماہین نے رضامندی ظاہر کی۔ “چلو پھر سب ریڈی ہو کر چار بجے تک اینٹرنس ہال میں پہنچ جانا وہاں سے اکٹھے لندن آئے پہنچے گے۔
سب تیار ہو کر اینٹرنس میں پہنچ چکے تھے۔ حور ٹی پنک آدھی آستینوں والی گھٹنوں تک آتے فراک کے ساتھ آف وائٹ ٹائٹس پہنے ہوئے تھی۔بالوں کو کرلر سے کرل کر رکھا تھا اور نیلی آنکھیں کاجل سے لبریز تھی وہ انتہائ دلکش لگ رہی تھی کہ ہر اٹھتی نگاہ اسپر ضرور کچھ مدت کو ٹھہر سی جاتی۔ اسکی لک اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ وہ اسی کلچر سے بیلونگ کرتی ہو۔ عرشمان زینے اترتے ہوئے نیچے آیا تو نگاہ اس پر ٹھہر سی گئ مگر ارد گرد لوگوں کی اس پر اٹھتی نگاہ اسے غیر آرام دہ کر گئ مگر وہ اسے ٹوک نہیں سکتا تھا۔ سب کیب سے لنڈن آئے پہنچ چکے تھے عرشمان اور ریحان دونوں ہی ٹکٹس لینے چل دیے۔کچھ ہی دیر میں وہ لوٹے اور ان تینوں کے ساتھ آگے بڑھنے لگ گئے۔ ماحول واقع میں بہت پر رونق تھا۔
********