وہ شاکڈ سی کھڑی تھی یہ وہ کیا کہہ رہی تھیں
” بولو بیٹا؟” انہوں نے پھر پوچھا
” آنٹی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں”
” بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں بیٹا سچ پوچھو تو ہمیشہ علی کی دلہن کے روپ میں میں نے تمہیں ہی دیکھا ہے اور اب تو ویسے بھی حالات ٹھیک ہو گئے ہیں ساری غلط فہمی بھی دور ہوگئی ہے”
” آنٹی پر۔۔۔۔۔” اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے
” بیٹا نہ مت کرنا میں تمہارے پاس بہت امید لے کر آئی ہوں”
” آنٹی آپ۔۔ نے علی سے پوچھا؟”
” بیٹا جب سب ٹھیک ہو ہی گیا ہے تو علی سے کیا پوچھنا میں جانتی ہوں وہ اب منع نہیں کرے گا” وہ خاموش رہی
” بتاؤ بیٹا۔۔۔۔۔ کیا میں خاموشی کو انکار سمجھوں؟” انہوں نے پوچھا یشل اب بھی کچھ نہ بولی وہ اب بھی نہ ہاں کی کشمکش میں تھی
” کوئی بات نہیں بیٹا۔۔۔۔۔ جب دل کی رضامندی نہ ہو تو اس رشتے کا بھی کوئی فائدہ نہیں” وہ مایوس ہوئیں تو یشل بولی
” ایسا نہیں ہے آنٹی بس میں سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں علی راضی بھی ہیں یا۔۔۔۔ پتا نہیں مجھے ہاں بھی کرنی چاہیے یا نہیں پر”
” پر۔۔۔۔؟؟؟”
” پر اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے میرے لیے علی کی زندگی سے بڑھ کے کچھ نہیں ہے میں اسے جلد سے جلد اپنے پاؤں پہ کھڑا دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔ میں تیار ہوں آنٹی” وہ بولی تو وہ ایک دم خوش ہوئیں اور اسے گلے سے لگالیا
” شکریہ بیٹا بہت بہت شکریہ میرا مان رکھنے کا” وہ اس کا ماتھا چوم کے بولیں
———–
اس نے فون کر کے ارسلان بھائی مشعل اور مصطفٰی کو بلا لیا تھا اس کے دونوں بہن بھائی حیران پریشان تھے پر ارسلان بھائی نے انہیں ساری بات بتا کے ریلیکس کردیا تھا
علی کو بالکل یقین نہیں تھا کہ اب وہ پھر سے کبھی اپنے پیروں پہ کھڑا بھی ہو سکے گا۔۔ اور صرف اسی وجہ سے وہ شادی سے انکار کررہا تھا کہ اس پیاری لڑکی کو ملے بھی تو ایک اپاہج۔۔۔۔۔ جس کا بوجھ وہ ساری زندگی اٹھاتی رہے گی۔۔۔۔۔ اتنا کچھ کیا ہے یشل نے اس کے لیے۔۔ اتنی تکلیف سہی صرف اس کی وجہ سے۔۔۔۔۔ نہیں۔۔ وہ اتنا خودغرض نہیں ہے جو جانتے بوجھتے یشل کو اس تکلیف میں ڈالے گا
اس نے امی سے بھی کہا کہ وہ یہ شادی نہیں کرسکتا پر وہ تو اس کی سن ہی نہیں رہی تھیں اسے غصہ بھی آرہا تھا
یشل کسی کام سے آئی تو وہ بولا
” یشل تم اس شادی سے انکار کردو” اس کے لہجے میں سختی تھی
” کیوں؟” وہ ایڑی کے بل گھومی
” مجھے تم سے شادی نہیں کرنی دیٹس اٹ” وہ جتنی سختی سے بول سکتا تھا اس نے بولا
” کیوں نہیں کرنی ؟”
” یہ میں تمہیں کیوں بتاؤں تم بس جا کے امی کو انکار کردو”
” نہیں” وہ فورا بولی
” کیا مطلب تمہارا؟” وہ ابرو اچکا کے بولا
” مطلب سمپل ہے میں آپ سے ہی شادی کروں گی” وہ دوٹوک بولی
” وجہ؟”
” وجہ صرف آپ کی صحت ہے۔۔۔۔۔ زیادہ خوش مت ہونا کہ اس کی وجہ کچھ اور ہے” وہ بھی چڑ گئی
” مجھے کویہ خوشی ہے بھی نہیں ۔۔۔۔۔ اور میری صحت کی فکر کرنے کا شکریہ پلیز جا کے انکار کرو مجھے نہیں کرنی یہ شادی” وہ بھی چڑا
” کیوں کروں انکار”
” تم نہیں کرو گی انکار ؟” وہ بولا
” نہیں۔۔۔”
” ٹھیک ہے کرو میری خدمتیں پر مجھ سے کوئی صلے کی امید نہ رکھنا ” وہ غصہ ہوگیا
” انکار کی کوئی وجہ؟” یشل بولی
” لیلٰی سے محبت۔۔۔۔۔” یشل کا دل دکھا پر پھر ہمت سے بولی
” تو کرنی تھی نا اس سے شادی۔۔۔۔۔”
” اس نے انکار کردیا تھا میری حالت دیکھ کے۔۔۔۔۔ پر کہتے ہیں نا محبت درگزر کرنا جانتی ہے تمہاری خدمتوں کی وجہ سے اگر میں ٹھیک ہوگیا تو اپنی لیلٰی کے پاس پھر سے چلا جاؤں گا” وہ اسے تپا بھی رہا تھا یشل کو گہرا دکھ پہنچا تو کیا سچ میں اس کی محبت ختم ہوگئی ہے اس کے لیے
“اور ہاں میں تمہیں طلاق دے دوں گا” اس نے کہا یشل نے اس کو ایک نظر دیکھا اور پلٹ گئی
———
دوسرے دن ان کا نکاح ہاسپٹل میں ہی سادگی سے ہوگیا تھا یہ ان کے نکاح کے دوسرے دن کی بات ہے ڈاکٹرز کی تجویز پہ آج وہ لوگ امریکہ جا رہے تھے علی کو لے کہ کیونکہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا وہاں پہ ان کا اچھا علاج ہوسکتا ہے اور علی جلد صحت یابی کی طرف لوٹ سکتے ہیں
یشل علی کو اپنے گھر کے بجائے علی پیلس لے کے آئی جو اس نے خاص علی کے لیے بنوایا تھا علی اس کی محبت پہ حیران تھا اتنی شدید محبت کرتی تھی وہ اس سے۔۔۔۔۔اسے اپنے اوپر فخر محسوس ہوا
اور یشل اسے تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ خوش ہو یا روئے۔۔۔۔۔
خوش وہ اس بات پہ تھی کہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر میں علی کبھی آئے گا بھی۔۔۔۔۔
اور دکھ یہ تھا کہ وہ اب اس سے محبت کا دعوے دار نہیں رہا تھا
وہ علی کا بہت خیال رکھتی تھی حالنکہ وہ اس سے کوئی بات نہ کرتا بلکہ ہر بار اس کے لہجے میں تلخی ہوتی یشل کا دل کٹ کے رہ جاتا
علی بھی کیا کرتا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی عمر اس کی خدمت کرنے میں گزار دے جیسے لیلٰی کا کہنا تھا وہ بھی تو لڑکی تھی اس کے بھی تو کچھ ارمان ہوں گے۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں کررہی تھی یہ۔۔۔۔۔ وہ اس کو اپنے لہجے کی تلخی سے عاجز کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ اسے خود چھوڑ جائے کیونکہ اتنے سالوں کے بعد اسے پایا تھا اس نے اب چھوڑنے ہمت نہیں اس میں ۔۔۔۔ وہ یشل کو یہ تو کہہ چکا تھا کہ وہ اسے چھوڑ دے گا اور لیلٰی کا ذکر بھی اس نے جان بوجھ کے ہی کہا تھا اور یشل کے دل کی حالت اس سے چھپی نہیں رہ سکی تھی اسے دکھ ہوا تھا اسے اس طرح بول کے پر۔۔۔۔۔
پر علی بھول گیا تھا کہ یہ محبت ہے جو یشل کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے وہ علی کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار تھی پھر یہ تکلیف تو کچھ بھی نہیں تھی دن گزرنے کے ساتھ ساتھ علی بہت تیزی سے صحت یابی کی طرف آرہا تھا یشل بہت خوش تھی اور علی حیران کہ وہ تو بالکل مایوس ہوگیا تھا پھر۔۔۔۔۔
پھر ایک دن آیا جب علی نے پہلی بار ذمین پہ اپنے قدم رکھے اور اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا تو احساس تشکر سے یشل کی آنکھیں نم ہوگئیں انہی دنوں امی فاطمہ اور حیدر بھی وہیں آئے ہوئے تھے وہ بھی اسے اپنے پیروں پہ کھڑا دیکھ کے بے حد خوش تھے آج پورے چھ ماہ بعد علی اپنے پیروں پہ کھڑا ہوا تھا
یشل خوش تھی کہ علی ٹھیک ہوگیا تھا
پر ساتھ ساتھ اندر سے دل دکھ رہا تھا کہ اب علی اسے چھوڑ دے گا
——–
آج علی کی برتھ ڈے تھی سب نے سوچا کیوں نا اسے سرپرائیز پارٹی دی جائے۔۔۔۔۔ سب صبح سے تیاری میں لگ گئے شام میں علی کو سرپرائیز دیا گیا تو اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی
سب نے اسےسالگرہ کی مبارک باد دی اور گفٹس بھی پر یشل نے اسے صرف مبارک باد دی جس پہ علی نے شرارت سے کہا
” میڈم گفٹ کہاں ہے میرا ۔۔۔۔۔ صرف وش کردینے سے کام نہیں چلے گا”
“صبر کریں مل جائے گا ” وہ بولی
“رئیلی۔۔۔؟ آج مل جائے گا میرا گفٹ؟”
وہ شرارت سے بولا
” اتنی جلدی کیا ہے ؟” وہ سنجیدگی سے بولی
” حد کرتی ہو مجھے جلدی نہیں ہوگی تو کس کوہوگی۔۔۔۔۔ پھر مجھے اپنی محبت کو منانا بھی ہے جو پتا نہیں کب سے ناراض ہے” وہ اسے نظروں کے حصار میں لے کے بولا پر وہ تو کچھ اور ہی سمجھ رہی تھی
” ارے بھئی باقی باتیں بعد میں کر لینا پہلے کیک کاٹ لیں” مشعل بولی تو وہ لوگ کیک کی طرف آگئے دونوں نے مل کے کیک کاٹا کیک کاٹنے کے بعد پکس بنوائی گئیں خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا یہ اس کی زندگی کا سب سے یادگار دن تھا
——–
وہ روم میں آئی تو علی اسی کا ویٹ کررہا تھا
” میرا گفٹ؟” وہ چلتا ہوا اس تک آیا اور بولا یشل نے بہت شانے بےنیازی سے اسے اگنور کیا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک لفافہ نکالا علی اسے ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا وہ لفافہ لے کے اس تک آئی اور اس کی طرف وہ لفافہ بڑھایا
” یہ کیا ہے؟” علی نے پوچھا
” آپ کا گفٹ ” وہ بولی علی نے لفافہ کھولا اس میں کچھ پیپرز تھے اس نے پیپرز کو کھولا تو شاکڈ رہ گیا
” ڈائیورس پیپرز” اس کے منہ سے نکلا یشل اس کے سائیڈ سے نکلنے لگی کہ علی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
” یہ کیا ہے؟” علی نے پوچھا
” آپ کی خواہش۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک ہوگئے ہیں اب۔۔ آپ نے ہی کہا تھا نا کہ آپ مجھے ٹھیک ہونے کے بعد طلاق دے دیں گے تو۔۔۔۔۔ اور۔۔ لیلٰی کے پاس آپ جاسکتے ہیں” وہ بہت ضبط سے بولی
“لیلٰی کے پاس تو میں ویسے بھی جا سکتا ہوں تمہیں چھوڑنے کی مجھے ضرورت نہیں ہے ویسے بھی اسلام میں چار جائز ہیں” وہ اسے تپانے کو بولا
” بس شادی کے بام پہ سب شریعت یاد آجاتی ہے فورا ” اس نے ہاتھ چھڑایا اور جانے لگی تو علی نےپھر سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اپنے مقابل کیا
” ہاتھ چھوڑیں میرا علی” وہ چڑ گئی
” چھوڑنے کے لیے تھوڑی تھاما ہے” وہ ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا جو ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا
” علی پلیز۔۔۔۔۔ جہاں محبت نہ ہو وہاں یہ سب باتیں بیکار ہیں” وہ رودینے کو تھی علی سنجیدہ ہوا
” یشل۔۔۔۔” اس نے پکارا وہ سو جان سے اس کی طرف متوجہ ہوئی
” مجھے معاف کرو گی یشل” وہ بولا تو یشل حیران سی اسے دیکھنے لگی
” میں جانتا ہون میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے تم سے محبت تو کی پر اعتبار نہیں کیا۔۔۔۔۔ اور یہ ہی میری سب سے بڑی غلطی تھی پر تم تب بھی مجھ سے محبت کرتی رہیں ایک لفظ شکایت کا نہیں کہا تم نے مجھے کیوں یشل؟” وہ خاموشی سے اسے بولتا ہوا سن رہی تھی
” میں نے تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر والوں پہ اعتبار کیا مگر انہوں نے ہی مجھے دھوکا دیا۔۔۔۔۔ اور اس لڑکی کے ساتھ زیادتی پہ زیادتی کرتا رہا جو مجھ سے بےوفائی کرنا تو دور ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔ یشل میں گنہگار ہوں تمہارا ہوسکے تو معاف کردو مجھے” اس نے ہاتھ جوڑے تو یشل کانپ گئی اور اس کے ہاتھ فورا تھامیں
” نہیں۔۔۔۔۔ نہیں علی یہ ہاتھ بندھے ہوئے بالکل اچھے نہیں لگتے” وہ بولی ” ان ہاتھوں کو تھامنے کی خوہش بہت کی ہے میں نے پر ان ہاتھوں کو بندھے ہوئے دیکھنے کا کبھی میں نے سوچا تک نہیں ہے” وہ رو رہی تھی
“تم نے مجھے معاف کردیا یشل ؟” وہ جیسے یقین کرنا چاہ رہا تھا
” میں ناراض ہی کب تھی آپ سے علی بس ایک دکھ تھا کہ آپ نے میرا اعتبار نہیں کیا بس اور کچھ نہیں” وہ اپنے بات کہ اختتام پہ روتے روتے مسکرائی تو علی نے اسے اپنے گلے سے لگالیا اور اس کے گرد بازوؤں کا حصار باندھ دیا اور اسکے ماتھے پہ بوسا دیا۔۔۔۔۔اپنے رشتے کا پہلا استحقاق ادا کیا۔۔۔۔۔ یشل شانت سی اس کے سینے پہ سر رکھے اس کی دھڑکن کو سن رہی تھی
“علی۔۔۔۔۔” وہ مدھم سا بولی
” ہمممم۔۔۔۔۔”
“آپ کیا لیلٰی سے۔۔۔۔۔”
” نہیں ” وہ اس کی بات کاٹ کے بولا ” وہ تو بس میں نے یونہی کہہ دیا تھا” یشل نے سر اٹھایا
” کیا ہے رکھے رہو نا سر۔۔ اٹھایا کیوں” وہ بدمزہ ہوا
“پہلے یہ بتائیں یونہی کیوں کہاں تھا” وہ بولی
” ئشل ان دنوں جو میری حالت تھی میں مایوس تھا اپنے آپ سے کہ کبھی چل بھی پاؤں گا یا نہیں اور تم سے شادی کرکے میں زندگی بھر تم پہ بوجھ بن کے نہیں رہ سکتا تھا اور طلاق کا بھی بس میرے منہ سے نکل گیا تھا میں چاہتا تھا کہ تم مجھ سے مایوس ہوجاؤ اور مجھے چھوڑ کے چلی جاؤ کیونکہ تمہیں چھوڑنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی” وہ بولا
” آپ کو کیوں لگا کہ آپ مجھ پہ بوجھ بن جائیں گے یا میں آپ کے رویے سے مایوس ہو جاوں گی؟” وہ نروٹھے پن سے بولی
” تو پھر یہ کیا ہے؟” اس نے وہ کاغذ لہرایا
” یہ تو آپ کی خوشی کے لیے۔۔۔۔۔”
” ایک بات تم اپنے ذہن میں بٹھالو کہ میری خوشی تم سے ہے سمجھ آئی اور آئیندہ یہ ” اس نے کاغذ کی طرف اشارہ کیا ” مجھے نظر آیا نا تو۔۔۔۔” وہ کاغز پھاڑتے ہوئے بولا
” آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں علی” وہ ناراض ہوگئی اور اپنا رخ پھیر لیا
” ارے ڈانٹ رہا ہوں تو کیا ہوا بعد میں پیار بھی تو کروں گا نا” وہ اس کندھے تھم کے جھک کے اس کے کان میں بولا تو یشل سرخ پڑگئی
” بہت بدتمیز ہیں آپ” وہ بولیں اور دور ہوئی
” جیسا بھی تمہارا ہی ہوں” وہ مسکرایا اور یشل کو گلے سے لگا لیا آج اسے بےحد سکون محسوس ہوا تھا آج وہ مکمل تھے رات چاہے جتنی لمبی کیوں نا ہوں ڈھل ہی جاتی ہے ان کی بھی وہ دن گزر ہی گئے تھے اور ایک نیا اور روشن سویرا ان کا منتظر تھا
کچھ لمحے ایسے ہی گزرے کہ ایک دم دروازہ ناک ہوا یشل شرماتے ہوئے پیچھے ہٹی
امی دروازہ کھول کے اندر آئیں
“تم لوگ بزی تو نہیں تھے ۔۔ میں کہیں غلط وقت پہ آگئی کمرے میں” وہ مسکرائیں تو یشل جھینپی
” نہیں امی ایسی بات نہیں ہے آپ آئیں نا بیٹھیں” یشل نے آگے بڑھ کے ان کا ہاتھ تھاما اور انہیں بیڈ پہ بٹھایا
” دیکھو تم لوگوں کی شادی ہوگئی ہے یہ صرف گھر کے لوگ ہی جانتے ہیں” وہ بولنے لگیں ” میں چاہتی ہوں تم دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو جیسے اوروں کی ہوئی ہے”
” پر امی۔۔۔۔۔ اس کی کیا ضرورت ہے ہم ولیمہ دھوم دھام سے کرلیں گے نا” علی بولا
” یہ کیا بات ہوئی ارے لڑکیو کے بڑے ارمان ہوتے ہیں اپنی شادی کو لے کر یہ کیا تم خالی خولی نکاح پہ ہی دم بھر رہے ہو۔۔۔۔۔ ” وہ کچھ بولنے لگا تو وہ بولیں” بس میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ یشل اور تمہاری شادی بھی بہت دھوم دھام سے کی جائے گی تب تک یشل میرے ساتھ میرے کمرے میں رہے گی” ان کی بات پہ علی کو شدید صدمہ پہنچا جبکہ یشل نے اپنی مسکراہٹ دبائی
” امی۔۔۔۔۔ یہ غلط بات ہے”
” ارے کیا غلط ہے ایک ماہ کی ہی بات ہے صرف” وہ بولیں تو علی کا حیرت سے منہ کھل گیا
” ایک ماہ صرف” وہ بولا اور یشل کو دیکھا جو اپنی مسکراہٹ کنٹرول کررہی تھی
” تمہیں بڑی ہنسی آرہی ہے”وہ چڑا
” تو کیا روؤں؟” یشل معصومیت سے بولی
” اسے چھوڑو یشل تم چلو میرے ساتھ” وہ اٹھیں تو اسے بھی اٹھالیا وہ چپ چاپ ان کے ساتھ چلتی بنی
علی پیچھے سے روکتا ہی رہ گیا
۔ ——–
ٹھیک ایک ماہ بعد وہ علی کی دلہن بن کے اس گھر آگئی دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں بہت خوش اور مطمئن تھے علی کی محبت میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا یشل کو اپنے آپ پر بہت رشک آتا تھا کہ اس کا شوہر اسے بے انتہا چاہتا ہے تو دوسری طرف اسے اس کے حد سے زیادہ رومانٹک ہونے پہ چڑ ہوتی علی چاہتا تھا وہ ہر وقت اس کے پاس رہے۔۔۔۔۔۔
شہلہ کو گھر سے تو نکال دیا تھا پر عمر اور شہلا کا بیٹا ابھی چھوٹا تھا اور اسے ماں کی اور باپ دونوں کی ضرورت تھی اس لیے اسے گھر واپس لے آئے یشل کو ان سے بھی کوئی شکایت نہیں تھی پر وہ یشل سے خار کھائے رہتی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے اسے خوب سناتی اس لیے عمر نے اپنا گھر علیحدہ لے لیا لیلٰی کا بھی انہیں پتا چلا تھا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے اور پھر کچھ دنوں بعد خبر آئی کہ اس لڑکے نے لیلٰی کے ساتھ زیادتی کرکے اسے کچرے میں پھینک دیا تھا اور وہاں سے اس کی لاش ملی تھی اس کا سن کے علی اور یشل کو بہت دکھ پہنچا وہ دل سے اس کی مغفرت کے لیے دعاگو تھے۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے اور رمضان کا مہینہ بھی آکے گزرنے لگا تھا کہ انہی دنوں یشل کو خوشخبری ملی کہ وہ ماں بننے والی ہے وہ بے اینہا خوش تھی جلد سے جلد علی کو بتانا چاہتی تھی اور اس کے لیے عید کا انتظار کررہی تھی کہ علی کو یہ سرپرائیز عید پہ دیا جائے ۔۔۔۔۔ خیر عید کا دن بھی آپہنچا جب یشل نے اسے اتنی بڑی خوشی کی خبر سنائی تو علی خوشی سے پاگل ہی ہو گیا تھا وہ اس دن بے انتہا خوش تھا وہ جتنا اپنے رب کا شکر ادا کرتا اتنا کم تھا پریگنینسی کے دوران علی نے اس کا بے انتہا دھیان رکھ رہا تھا کہ انہی دنوں حیدر نے بتایا کہ اسے جاب کی طرف سے باہر بھیجا جا رہا ہے مستقل طور پہ اور ساتھ ہی مشعل سے شادی کی خواہش بھی ظاہر کردی یشل بہت خوش تھی کیونکہ حیدر اس کی بہن کے لیے ایک اچھا لائف پاٹنر ثابت ہو سکتا تھا اور پھر دونوں ہی گھرانوں میں شادی کا شور مچ گیا یشل کا ایک پاؤں یہاں ہوتا تو دوسرا پاؤں وہاں۔۔۔۔۔ علی اس کا حد سے زیادہ دھیان رکھنے لگا تھا کیونکہ انہی دنوں اس کی ڈلیوری کے دن قریب تھے
حیدر اور مشعل کی شادی ہوگئی تھی اور علی والے انہیں آج ائیر پورٹ چھور کے آئے تھے
علی کو میٹنگ کے لیے تین دن کے لیے سنگاپور جانا تھا پر وہ یشل کی حالت دیکھ کے جانے سے منع کررہا تھا کیونکہ اس کی ڈلیوری کے یہ ہی دن تھے پر یشل کی ضد پہ وہ چلا گیا
آج تیسرا دن تھا اسے گئے ہوئے شام تک علی نے پاکستان آجانا تھا صبح سے ہی یشل کی طبیعت خراب تھی پر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا
جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو امی نے فکرمندی سے بولا
” یشل لگتا ہے ہاسپٹل جانا پڑے گا بیٹا ہمت کر کے اٹھو” اور ساتھ ہی فاطمہ کو آواز دی
” نہیں امی جب علی آجائیں گے تب چلی جاؤں گی ابھی تو ٹھیک ہوں” وہ بولی
” نہیں بیٹا تاخیر اچھی بات نہیں اٹھو ”
” نہیں امی علی آجائیں پھر۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں اپنے کمرے میں جا رہی یوں کچھ دیر آرام کروںگی” کہہ کر وہ اٹھ گئیں امی کو ایک دم فکر لگ گئی یشل سن ہی نہیں رہی تھی
کمرے میں جا کے وہ لیٹی تو طبیعت ایک دم ہی بہت زیادہ خراب ہوگئی کہ برداشت سے باہر ہوگئی اور پھر اس کی آنکھوں میں ایک دم اندھیرہ چھا گیا
۔ —–
” امی امی یشل ٹھیک تو ہے نا ” وہ پاکستان پہنچا تو ائیرپورٹ سے آتے ہوئے اس نے گھر فون کیا تو فاطمہ نے اسے بتایا وہ فورا سے پیشتر ہاسپٹل پہنچا
” پتا نہیں علی ڈاکٹرز ابھی تک آپریشن تھیٹر سے نہیں آئے ہیں” وہ خود بہت فکرمند تھیں کہ ڈاکٹر روم سے نکلی علی فورا ان کے پاس آیا
” ڈاکٹر میں علی۔۔ میری وائف ہیں اندر۔۔ کیسی ہیں وہ۔۔۔۔؟؟؟”
” مبارک ہو مسٹر علی آپ ٹوئینز بچوں کے بابا بن گئے ہیں” ڈاکٹر مسکرائیں
” اللٰہ تیرا شکر۔۔۔۔ مبارک ہو علی بیٹا” امی خوشی سے بولیں
” خیر مبارک امی آپ کو بھی مبارک ہو” وہ خوشی سے بولا
” ڈاکٹر کیا ہم مل سکتے ہیں ان سے؟” علی بولا
” مسٹر علی ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں آپ لوگ دعا کیجیے” علی سن کے سناٹے میں آگیا وہ پھر سے یشل کو کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ڈاکٹر ان کے پاس بچے لے آئیں تھیں جنہیں علی نے ایک نظر دیکھا تک نہیں اس کا روں رواں یشل کی صحت کے لیے دعاگو تھا
۔ ——
یشل اب خطرے سے باہر تھی اسے روم میں شفٹ کردیا گیا تھا اور علی اس سے لگ کہ ہی بیٹھ گیا تھا شگق آپی ہنسیں
” اب تو بیوی کا پیچھا چھوڑ کے اپنے بچوں کی خبر لے لو علی” یشل جھینپ گئی
” بیوی کا پیچھا چھوڑوں امپاسبل ۔۔۔۔۔لاؤ ذرا میرے بچے تو دکھاؤ” وہ فاطمہ سے بولا
” ارے میرے بچے کتنے پیاے ہیں نا سارا حسن انہوں نے اپنے بابا کا چرالیا ہے” وہ انہیں پیار کرتے ہوئے بولا
” میری بیٹی تو بالکل پرنسز لگ رہی ہے” وہ بغور انہیں دیکھ کے کومنٹ پاس کررہا تھا
” ارے یشل بھی کم تھوڑی ہے بچی تو بالکل ماں پہ گئی ہے” امی نے فورا یشل کی ہمایت کی علی نے اسے دیکھا پھر بولا
” جی نہیں صرف ان دونوں کی آنکھیں میری یشل جیسی ہیں باقی تو یہ پوری بابا کی کاپی ہے ” علی مسکرا مسکرا کے ان کو کومنٹ دے رہا تھا اور یشل اسے دیکھ دیکھ کے مسکرا رہی تھی
زندگی بہت ہی خوبصورت ہوگئی تھی ایک دم سے
سچ ہے محبت ایک سمندر جیسی ہی تو ہے جس کی گہرائی کو ناپنا مشکل ہے یہ تو بہت وسیع ہوتی ہے بہت۔۔۔۔۔ پر کم ہی لوگ اسے سمجھ پاتے ہیں
شادی کے آٹھ سال بعد اللٰہ نے علی اور یشل کو ایک اور بیٹے سے نوازا تھا وہ دونوں جتنا اپنے رب لا شکرادا کرتے کم تھا ان کی زندگی خوش مطمئن اور آسودہ تھی۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...