اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی لی ۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا ۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں۔ اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اتار کر نہر میں پھینک دی ۔ چند لمحوں میں اسکی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی ۔ ڈارک بلوکلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوبصورت جسم بہت نمایاں تھا۔
اس وقت اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا ۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی ، مگر اس کے قدوقامت اور حلیے نے اسکی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا ۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی ۔ جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لیپٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردی اور اس وقت تک لگاتا رہا جب تک کوائل ختم نہیں ہوگیا ۔ پھر پانی میں پڑا سرا واپس کچھنچ کر اس نے اندازے سے تین فٹ کے قریب رسی چھوڑی اور اپنے دونوں پیر ساتھ جوڑتے ہوئے اس نے اپنے پیروں کے گرد رسی کو بہت مضبوطی سے دوتین بل دیئے اور گرہ لگا دی ۔ اب اس تین فٹ کے ٹکڑے کے سرے پر بڑی مہارت سے اس نے دو پھندے بنائے پھر اچک کر پل کی منڈیر پر بیٹھ گیا ۔ اپنا دایاں ہاتھ کمرکے پیچھے لے جاتے ہوئے پھندے میں سے گزارا اور پھر بائیں ہاتھ سے کھینچ کر کس دیا ۔ پھر یہ کچھ اس نے بائیں ہاتھ کے ساتھ کیا ۔
اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پشت کے بل خود کو پل کی منڈیر سے نیچے گرا دیا ۔ ایک جھٹکے سے اس کا سر پانی سے ٹکرایا اور کمر تک کا حصہ پانی میں ڈوب گیا ۔ پھر رسی ختم ہوگئی ۔ اب وہ اس طرح لٹکا ہوا تھا کہ اس کے بازو پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کمر تک کا دھڑ پانی کے اندر تھا ۔ بوری کا وزن یقینا” اس کے وزن سے زیادہ تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ بوری اس کے ساتھ نیچے نہیں آئی اور وہ اس طرح لٹک گیا ۔ اس نے اپنا سانس روکا ہوا تھا ۔ پانی کے اندر اپنا سر جاتے ہی اس نے آنکھیں بند کرلیں ۔ اس کے پھیپھڑے اب جیسے پھٹنے لگے تھے ۔ اس نے یک دم سانس لینے کی کوشش کی اور پانی منہ اور ناک سے اس کے جسم کے اندر داخل ہونے لگا ۔ وہ اب بری طرح پھڑپھڑا راہا تھا مگر نہ وہ اپنے بازوؤں کو استعمال کرکے خود کو سطح پر لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو اٹھا سکتا تھا ۔ اس کے جسم کی پھڑپھڑاہٹ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی ۔
چند لوگوں نے اسے پل سے نیچے گرتے دیکھا اور چیختے ہوئے اس طرف بھاگے ۔ رسی ابھی تک ہل رہی تھی ۔ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ۔ پانی کے نیچے ہونے والی حرکت اب دم توڑ گئی تھی ۔ اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں ۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے ۔ پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا ۔ نیچے پانی میں موجود وجود ابھی بھی ساکت تھا ۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا ۔ کسی پینڈولم کی طرح ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ ! جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔ رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ کس لئے تیار ہوجاؤں ؟
بھئی شاپنگ کے لئے جارہے ہیں ، ساتھ چلو ۔ رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔
کیا مطلب ہے ۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔ تم سے پوچھ کون رہا ہے ۔۔۔۔۔ تمہیں بتا رہے ہیں ۔ رابعہ نے اسی لہجے میں کہا ۔
اور میں نے بتا دیا ہے ، میں کہیں نہیں جا رہی ۔ اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا ۔
زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ ، پورا گروپ جارہا ہے ، فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر ۔ رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے ایک لحظہ کے لئے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا ۔ زینب بھی جارہی ہے ۔
ہاں ، زینب کوہم راستے سے پک کریں گے ۔ امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی ۔
تم بہت ڈل ہوتی جارہی ہو امامہ ۔ رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا ۔ ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے ، آخر ہوتا کیا جا رہا ہے تمہیں ۔
کچھ نہیں ، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں ، اس لئے سونا چاہ رہی ہوں ۔ امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لئے مجبور کرتی رہی ، مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی ۔ نہیں مجھے سونا ہے ، میں بہت تھک گئی ہوں ۔ وہ مجبورا” اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں ۔
رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے ۔ وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی ۔
واپس ہاسٹل چلتے ہیں ، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے ، جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں ۔ مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا
یہ امامہ کہاں ہے ۔ رابعہ نے حیرانی سے کہا ۔
پتا نہیں ۔ کمرہ لاک کرکے اس طرح کہاں جاسکتی ہے ۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے ۔ جویریہ نے کہا ۔
ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئی ۔ رابعہ نے خیال ظاہر کیا ۔ وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں ، جن سے انکی ہیلو ہائے تھی مگر امامہ کا کہیں پتا نہیں تھا ۔
کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی ۔ رابعہ کو اچانک خیال آیا ۔
آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں ۔ جویریہ نے کہا ۔ وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں ۔
ہاں ، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے ۔ وارڈن نے انکی انکوائری پر بتایا ۔ جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں ۔
وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی ۔ وارڈن نے انہیں مزید بتایا ۔ وہ دونوں وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں ۔ یہ گئی کہاں ہے ؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کردیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہے اور اسکی طبعیت خراب ہے ۔ اب وہ اس طرح غائب ہوگئی ہے ۔ رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
رات کو وہ قدرے لیٹ واپس آئیں اور جس وقت وہ واپس آئیں امامہ کمرے میں موجود تھی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان کا استقبال کیا ۔
لگتا ہے ۔۔۔۔۔ خاصی شاپنگ ہوئی ہے آج ۔ اس نے ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ان دونوں نے اسکی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا ۔ بس شاپرز رکھ کر اسے دیکھنے لگیں ۔
تم کہاں گئی ہوئی تھی ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا ۔ امامہ کو جیسے جٹھکا لگا ۔
میں اپنا والٹ لینے واپس آئی تھی تو تم یہاں نہیں تھیں ، کمرہ لاکڈ تھا ۔ جویریہ نے اسی انداز میں کہا
میں تم لوگوں کے پچھے گئی تھی
کیا مطلب ؟ جویریہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
تمہارے نکلنے کے بعد میرا ارادہ بدل گیا ۔ میں یہاں سے زینب کی طرف گئی کیونکہ تم لوگوں کو اسے پک کرنا تھا ۔ مگر اس کے چوکیدار نے بتایا کہ تم لوگ پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہو ۔ پھر میں وہاں سے واپس آگئی، بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے ۔ امامہ نے کہا
دیکھا ۔ تم سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فورا” انکار کردیا ، بعد میں بےوقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں ۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں ۔ رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے کوئی جواب نہیں دیا ، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا نام کیا ہے ؟
پتا نہیں
ماں باپ نے کیا رکھا تھا ؟
یہ ماں باپ سے پوچھیں ۔ ۔۔۔۔ خاموشی
لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں ؟
لڑکے یا لڑکیاں ؟
لڑکے
بہت سارے نام لیتے ہیں
زیادہ تر کون سا نام پکارتے ہیں
Daredevil
اور لڑکیاں
وہ بھی بہت سے نام لیتی ہیں
زیادہ تر کس نام سے پکارتی ہیں ؟
یہ میں نہیں بتاسکتا ۔ یہ بالکل ذاتی ہے
گہری خاموشی ۔۔۔۔ طویل سانس ۔۔۔۔ پھر خاموشی ۔
میں آپکو ایک مشورہ دوں ؟
کیا ؟
آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں ۔
آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے بارے میں ساری تفصیل موجود ہے پھر آپ وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں
سائیکوانالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکلوانالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کار سمجھ رہا تھا ۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک ، خاموشی اور نیم تاریکی نے اسکے اعصاب کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا تھا ۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتا” فوقتا” کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا ۔ سائیکو انالسٹ کے لئے سامنے لیٹا ہوا نوجوان عجیب کیس تھا ۔ وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا ۔ اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا ۔ وہ تھرو آوٹ ، آوٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا ۔ وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا ۔ اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ تیسری بار خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا ۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے اور وہ بے حد پریشان تھے ۔
وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی ۔ چار بھائیوں اور ایک بہن کے بعد وہ چوتھے نمبر پر تھا ۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے ۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا ۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خودکشی کی کوشش کی ۔ پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لیے ۔ اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹیبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گر گیا ۔۔ اس کے بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے ، تب اس کے والدین کانسٹیبل کے اصرار کے باوجود بھی اسے ایک حادثہ ہی سمجھے ، کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا
دوسری بار اس نے پورے ایک سال بعد لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈبونے کی کوشش کی ۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا ۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا ۔ سالار کا بیان یہ تھا کہ کچھ لڑکوں نے اسکی گاڑی کو پل کے پاس روکا اور پھر اسے باندھ کر پانی میں پھینک دیا ۔ جس طرح وہ بندھا ہوا تھا اس سے یوں ہی لگتا تھا کہ واقعی اسے باندھ کر گرایا گیا تھا ۔ پولیس اگلے کئی ہفتے اس کے بتائے ہوئے حلیے کے لڑکوں کو پورے شہر میں تلاش کرتی رہی ۔ سکندر عثمان نے خاص طور پر ایک گارڈ اس کے ساتھ تعینات کردیا تھا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا ۔
مگر وہ تیسری بار اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتا تھا ۔ خواب آور گولیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیس کر اس نے دودھ میں ڈال کر پی لیا تھا ۔ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ معدہ واش کرنے کے باوجود اگلے کئی دن وہ بیمار رہا تھا ۔ اس بار کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ۔ اس نے خانساماں کے سامنے وہ گولیاں دودھ میں ڈال کر پی تھیں ۔
سکندر عثمان اور طیبہ شاکڈ رہ گئے تھے ۔ پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اور وہ پچھتانے لگے کہ انہوں نے پہلے اسکی بات پر اعتبار کیوں کیا ۔ پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا ۔ اس کے بارے میں اسکول ، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں ۔ وہ اس بار اس بار سے انکار نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے خود کشی کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ بھائی ، بہن ، ماں یا باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا ۔
سکندر اے لیولز کے بعد اس کے بڑے دو بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوانا چاہتے تھے ، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے ایڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالرشپ بھی ، لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کرکے اڑ گئے تھے ۔
اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا ، جس کے پاس سکندر کے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھیجا تھا ۔
ٹھیک ہے سالار ۔ بالکل ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں ۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم ؟
سالار نے کندھے اچکائے ۔ آپ سے کس نے کہا میں مرنا چاہتا ہوں
خودکشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم
کوشش کرنے اور مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے
تینوں دفعہ تم اتفاقا” بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
دیکھیں ۔ جس کو آپ خودکشی کی کوشش کہہ رہے ہیں ، میں اسے خودکشی کی کوشش نہیں سمجھا ، میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے ۔
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا ۔
اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتےتھے ۔
بس ایسے ہی تجسس سمجھ لیں ۔
سائیکوانالسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 150 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا جو اب چھت کو گھور رہا تھا ۔
تو ایک بار خود کشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا ۔
اور تب ۔۔۔۔۔ تب میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا ۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار بھی اسیا ہی ہوا ۔ وہ مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔
اور اب تم چوتھی بار کوشش کرو گے ؟
یقینا” میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے ۔
کیا مطلب ؟
جیسے خوشی کی انتہا سرور ہوتا ہے ۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے ۔ اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگئی ۔ جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے ، جیسے سرور میں آپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
میں نہیں سمجھ سکا ۔
فرض کریں آپ ایک بار میں ہیں ۔ بہت تیز میوزک بج رہا ہے ، آپ ڈرنک کررہے ہیں ، آپ نے کچھ ڈرگزبھی لی ہوئی ہیں ، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ۔ آپ سرور میں ہیں ، کہاں ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ کیا کررہے ہیں ؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے ۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں ۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میں مدہوش نہیں ہوتا ۔ میں نے کبھی خوشی محسوس نہیں کی ۔ مجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اور یہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔ وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا
تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو ۔ اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا ۔
سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے جواب دیا ۔ پلیز پلیز اب میری ذہانت کے راگ الاپنا شروع مت کیجئے گا ۔۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں ۔۔۔۔ تنگ آگیا ہوں میں اپنی تعریفیں سنتے سنتے ، اس کے لہجے میں تلخی تھی ، سائیکوانالسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا ۔
اپنے لئے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم ؟
میں نے کیا ہے ؟
کیا
مجھے خودکشی کے ایک اور کوشش کرنی ہے ۔ مکمل اطمینان تھا ۔
کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے ؟
ناٹ ایٹ آل ۔
تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو ؟ ایک گہرا سانس
کیا آپ کو ایک بار پھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں کچھ اور کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ وہ اکتایا۔
بات گھوم پھر کرپھر وہیں آگئی تھی ۔ سائیکلوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا ۔
کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کررہے ہیں ؟
سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ لڑکی کی وجہ سے ؟
ہاں ۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو ۔ اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی گیا ۔
مائی گاڈ ۔ آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خودکشی ۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کر ہنسنے لگا ۔ لڑکی کی محبت ۔۔۔۔۔ اور خود کشی ۔ ۔۔۔۔ کیا مذاق ہے ۔
وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا ۔
سائیکوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیشنز اس کے ساتھ کئے تھے اور ہر بار نتیجہ وہی ڈھاک کے وہی تین پات رہا ۔
آپ اسکو تعلیم کے لئے بیروں ملک بجھوانے کی بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔ ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتا ہو ۔
اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بجھوانے کے بجائے اسلام آباد کے ایک ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیا گیا ۔ سکندر کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے ۔ سالار نے ان کے فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لئے بجھوایا جائے گا ۔
سائیکوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی ۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے ۔ انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے ۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو وہ اس کے لئے محسوس کرتے تھے ۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا ۔ گفتگو کے آخر میں سکندر نے تقریبا” تنگ آکر اس سے کہا ۔
تمہیں کس چیز کی کمی ہے ۔ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے ۔ مجھے بتاؤ سالار سوچ میں پڑگیا
اسپورٹس کار ۔ اگلے لمحے اس نے کہا
ٹھیک ہے میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوادیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے ۔ اوکے ۔ سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا ۔
سالار نے سر ہلا دیا ۔ طیبہ نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرنے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا ۔
وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا
طیبہ ! تمہیں اس پر بہت توجہ دینی پڑے گی ۔ اپنی ایکٹیوٹیز کچھ کم کرو اور کوشش کرو کہ اس کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزار سکو ۔ طیبہ نے سر ہلادیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وسیم نے امامہ کو دور سے ہی لان میں بیٹھے دیکھ لیا۔ وہ کانوں پر ہیڈ فون لگائے واک مین پر کچھ سن رہی تھی۔ وسیم دبے قدموں اس کی پشت کی جانب سے اس کے عقب میں گیا اور اس کے پاس جاکر اس نے یکدم امامہ کے کانوں سے ہیڈفون کے تار کھینچ لیے۔ امامہ نے برق رفتاری سے واک مین کا اسٹاپ کا بٹن دبایا تھا۔
“کیا سنا جارہا ہے یہاں اکیلے بیٹھے؟” وسیم نے بلند آواز میں کہتے ہوئے ہیڈ فون کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیا مگر تب تک امامہ کیسٹ بند کرچکی تھی۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اس نے ہیڈ فون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے وسیم سے کہا۔
“بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے وسیم! بی ہیو یور سلیف۔” اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ وسیم نے ہیڈفون کے سروں کو نہیں چھوڑا، امامہ کے غصے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
“میں سننا چاہتا ہوں، تم کیا سن رہی تھیں۔ اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے، کیسٹ کو آن کرو۔”
امامہ نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے ہیڈفون کو واک مین سے الگ کردیا۔ “میں تمہارے سننے کے لئے واک مین لے کر یہاں نہیں بیٹھی، دفع ہوجاؤ یہ ہیڈ فون لے کر۔”
وہ ایک بار پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے واک مین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔
وسیم کو لگا جیسے وہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے مگر وہ گھبرائے گی کیوں؟ وسیم نے سوچا اور اس خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سامنے والی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ ہیڈفون کو اس نے میز پر رکھ دیا۔
“یہ لو، اپنا غصہ ختم کرو۔ واپس کررہا ہوں میں، تم سنو، جو بھی سن رہی ہو۔” اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
“نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈفون رکھو اپنے پاس۔” امامہ نے ہیڈفون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔
“ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟”
“کیا سنا جاسکتا ہے؟” امامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔
“غزلیں سن رہی ہوگی؟” وسیم نے خیال ظاہر کیا۔
“تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟”
“مثلاً۔”
“مثلاً بال کی کھال اتارنا۔”
“اور۔”
“اور دوسری کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔”
“اور تمہیں پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خودغرض ہوتی جارہی ہو۔” وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔
“اچھا۔۔۔۔۔ تمہیں پتا چل گیا کہ میں خودغرض ہوں۔” اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“حالانکہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلو گے۔”
“تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کررہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔” وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
“پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔”
“آج تمہاری زبان کچھ زیادہ نہیں چل رہی؟” وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“ہوسکتا ہے۔”
“ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔” امامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔
“کون سا چپ شاہ کا روزہ؟”
“تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔”
“مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔”
“سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کوا تنا سر پر سوار نہیں کرتا۔” وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
“چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کررہے ہو؟”
“عیش۔” وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔
“یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔”
“آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جارہی ہو تم۔” وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔
“میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کار سوال کیا۔” امامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
“تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں، اس لئے اب اپنی ملامتی تقریر ختم کردو۔” وسیم نے اسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
“یہ ساتھ والوں کے لڑکے سے تعلقات کا کیا حال ہے؟” امامہ کو اچانک یاد آیا۔
“چُو چُو سے؟ بس کچھ عجیب سے ہی تعلقات ہیں۔” وسیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ “بڑا عجیب سا بندہ ہے، موڈ اچھا ہے تو دوسرے کو ساتویں آسمان پر بٹھا دے گا، موڈ خراب ہے تو سیدھا گٹر میں پہنچا دے گا۔”
“تمہارے زیادہ تر دوست اسی طرح کے ہیں” امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔”
“نہیں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ کم از کم میری عادتیں اور حرکتیں چُوچُو جیسی تو نہیں ہیں۔”
“وہ تو باہر جانے والا تھا نا؟” امامہ کو اچانک یاد آیا۔
“ہاں جانا تو تھا مگر پتا نہیں میرا خیال ہے اس کے پیرنٹس نہیں بھجوا رہے۔”
“حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔”
“تم نے دیکھا ہے اسے؟”
“کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔”
“لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟ وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
“ہاں۔”
“مشروم کٹ بالوں والی۔۔۔۔۔فئیر سی؟”
“ارسہ۔”” وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ “اس کی گرل فرینڈ ہے۔”
“پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔” امامہ نے اسے گھورا۔
“پچھلی دفعہ کب؟” وسیم سوچ میں پڑ گیا۔
“سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔”
“ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔”
“اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنے موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔” امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوئے ہنسی۔
“تمہیں یاد ہے؟” وسیم بھی ہنسا۔
“میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہونا ہی تھا۔” امامہ پھر ہنسی
“میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔” وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“کونسے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔” امامہ نے وسیم کا مذاق اڑآیا۔
“میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔”
“بابا سے جوتے کھانے کے لئے تیار رہنا۔ اگر تم نے موبائل کے نمبر کو گاڑی کے شیشے پر لکھوایا سب سے پہلا فون ان کا ہی آئے گا۔”
“بس اس لئے ہر بار میں رک جاتا ہوں۔” وسیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
“یہ تمہارے لئے اچھا ہی ہے۔ بابا سے ہڈیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے جذبات پر کچھ قابو رکھے اور تمہارے لئے تو خطرات ویسے بھی زیادہ ہیں۔ سمیعہ کو پتا چلا نا اگر اس قسم کے کسی موبائل فون کا تو۔۔۔۔۔” وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔
“تو کیا کرے گی وہ، میں اس سے ڈرتا نہیں ہوں۔”
“میں جانتی ہوں تم اسے سے ڈرتے نہیں ہو، مگر چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سے منگنی کرنے سے پہلے تمہیں تمام نفع نقصان پر غور کرلینا چاہیے تھا جن کا سامنا تمہیں کسی ایسی ویسی حرکت کے بعد ہوسکتا ہے۔” امامہ نے ایک بار پھر اسکی منگیتر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔
“اب کیا کیا جاسکتا ہے، بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔” وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
“مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیونکہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔” وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔
“دیر سے ہی سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔” امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈفون اٹھاتے ہوئے کہا۔
“ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟” وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔
“ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔” امامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“آپ لاہور جارہے ہیں تو واپسی پر امامہ کے ہاسٹل چلے جائیں، یہ کچھ کپڑے ہیں اس کے، درزی سے لے کر آئی ہوں، آپ اسے دے آئیں۔” سلمیٰ نے ہاشم سے کہا۔
“بھئی۔ میں بڑا مصروف رہوں گا لاہور میں، کہاں آتا جاتا پھروں گا اس کے ہاسٹل۔” ہاشم کو قدرے تامل ہوا۔
“آپ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جارہے ہیں، خود نہیں جاسکتے تو اسے بھیج دیجئے گا، وہ دے آئے گا یہ پیکٹ۔ سیزن ختم ہورہا ہے پھر یہ کپڑے اسی طرح پڑے رہیں گے۔ اس کا تو پتا نہیں اب کب آئے۔” سلمیٰ نے لمبی چوڑی وضاحت کی۔
“اچھا ٹھیک ہے، میں لے جاتا ہوں۔ فرصت ملی تو خود دے آؤں گا ورنہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔” ہاشم رضامند ہوگئے۔
لاہور میں انہوں نے خاصا مصروف دن گزارا۔ شام پانچ بجے کے قریب انہیں کچھ فرصت ملی اور تب انہیں اس پیکٹ کا بھی خیال آگیا۔ ڈرائیور کو پیکٹ لے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود امامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لئے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ۔۔۔۔۔ وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔
“السلام علیکم انکل!۔” جویریہ نے پاس آکر کہا۔
“وعلیکم السلام! بیٹا کیسی ہو تم۔”
“میں ٹھیک ہوں۔”
“میں یہ امامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے بلایا نہیں۔” ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔
“انکل! امامہ ماکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔”
“ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔” ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔
ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔
“بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟” وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
“جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ انکل لاہور آرہے تھے تو امامہ نے کہا کہ وہ لے جائیں۔ انکل نے غلطی سے یہاں آکر میرا نام لینے کے بجائے امامہ کا نام لے دیا۔” جویریہ نے ایک ہی سانس میں کئی جھوٹ روانی سے بولے۔
وارڈن نے سکون کا سانس لیا۔ “خدا کا شکر ہے ورنہ میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ مجھے تو وہ ویک اینڈ پر گھر جانے کا کہہ کر گئی ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔”
وارڈن نے مڑتے ہوئے کہا۔ جویریہ پیکٹ پکڑے اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ رابعہ اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آئی۔
“کیا ہوا۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں ہی ہے وہ؟”
“نہیں۔” جویریہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔
“مائی گاڈ۔” رابعہ نے بے یقینی سے اپنے دونوں ہاتھ کراس کرکے سینے پر رکھے۔ “تو پھر کہاں گئی ہے وہ؟”
“مجھے کیا پتا مجھ سے تو اس نے یہی کہا تھا کہ گھر جارہی ہے، مگر وہ گھر نہیں گئی، آخر گئی کہاں ہے؟ امامہ ایسی تو نہیں ہے۔” جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔
“وارڈن سے کیا کہا تم نے؟” رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
“کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں ابھی ہنگامہ شروع ہوجاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔” جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔
“اور انکل کو۔۔۔۔۔ ان کو کیا بتایا ہے؟” رابعہ نے پوچھا۔
“ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔”
“مگر اب ہوگا کیا؟” رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
“مجھے تو یہ فکر ہورہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لئے میں نے وارڈن اور اس کے گھروالوں سے سب کچھ چھپایا۔” جویریہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔
“کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟ ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح۔۔۔۔۔” رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔
“مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔” جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔
“زینب سے بات کریں۔” رابعہ نے کہا۔
“فار گاڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لے لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔” جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔
“تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے۔” رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیرئیر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور انکی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی، وہ اندازہ کرسکتی تھیں اور اسی لئے باربار ان کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے انکے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔
“اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لئے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی وہ یقیناً وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔” رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔
“مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔” جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہورہا تھا۔
“ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزور ہونا چاہیے۔” رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔
“رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے۔” جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
“پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اور وہ اپنے گھر سے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جارہی ہے۔” رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔
“ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اسی لئے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔”
“وہ ہر بار یہاں سے فون کرکے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو ا پنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینا ن سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہوسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔” رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جارہی تھی اور اس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔” جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔
“اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کوراپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے، یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔” رابعہ مسلسل بڑبڑارہی تھی۔
“خیر اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگر وہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتا دیں گے۔” جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔
وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزار لی۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نوبجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر وہ اس دن نہیں آئی۔ ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لئے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کررہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔
وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اور فولڈر ہاتھوں میں، وہ یقیناً سیدھی کالج سے آرہی تھی۔
جویریہ اور رابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یکدم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈلائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یکدم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے اور اشتعال نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔
وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوشگوار سی مسکراہٹ تھی۔
“تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟” سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔
“تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔” رابعہ نے تندوتیز لہجے میں اس سے کہا۔
امامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
“کیا ہوا رابعہ! اس طرح غصے میں کیوں ہو؟” امامہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔
“تم ذرا اندر کمرے میں آؤ پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ میں غصے میں کیوں ہوں۔” رابعہ نے اسے بازو سے پکڑ لیا اور تقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی۔ جویریہ کچھ کہے بغیر ان دونوں کے پیچھے آگئی۔ امامہ ہکا بکا تھی اور رابعہ اور جویریہ کے رویے کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی رابعہ نے دروازہ بند کرلیا۔
“کہاں سے آرہی ہو تم؟” رابعہ نے مڑ کر انتہائی تلخ اور درشت لہجے میں اس سے پوچھا۔
“اسلام آباد سے اور کہاں سے۔” امامہ نے اپنا بیگ نیچے زمین پر رکھ دیا اسکے جواب نے رابعہ کو کچھ اور مشتعل کیا۔
“شرم کرو امامہ۔۔۔۔۔! اس طرح ہمیں دھوکا دے کر، ہماری آنکھوں دھول جھونک کر آخر تم ثابت کرنا کیا چاہتی ہو۔ یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں۔۔۔۔۔ نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکا نہ کھایا ہوتا۔” رابعہ نے کہا۔
“مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کونسا دھوکا۔۔۔۔۔ کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔” امامہ نے بے چارگی سے کہا۔
“تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟” جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
“تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے۔۔۔۔۔” رابعہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
“بکواس بند کرو۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔”
“یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟” اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔
“کیونکہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل۔” امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
“اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو اسلام آباد سے آرہی ہو۔” رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
“بابا یہاں۔ آئے تھے؟” امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔
“ہاں آئے تھے، تمہارے کچھ کپڑے دینے کے لئے۔” جویریہ نے کہا۔
“انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔”
“میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام سے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔” جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
“یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟” اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔
“نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔۔۔ تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہوجانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں۔ مزید اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔” رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
“کون سی حرکتوں کے بارے میں۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔”
“کیا کیا ہے؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لئے گھر کا کہہ کر غائب ہوجانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔”
امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔
“مجھےو ارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔”
رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ “وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔”
“مگر اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو۔۔۔۔۔ مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔” رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“میں تم دونوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔ اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اور ہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔” امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
“پھر تم کہاں گئی تھیں؟” اس بار جویریہ نے پوچھا۔
“اپنی ایک دوست کے ہاں۔”
“کونسی دوست؟”
“ہے ایک۔”
“اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟”
“میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتے۔”
“کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لئے؟” جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
“میں نے کہا نا، میں بتا دوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔” امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
“کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں۔۔۔۔۔ تمہیں وقت دیں تاکہ تم ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس ہی نہ آؤ۔” رابعہ نے اس بار بھی ناراضی سے کہا مگر پہلے کی نسبت اس بار اس کا لہجہ دھیماتھا۔
“تمہیں تو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا کہ تم نے ہماری پوزیشن کتنی آکورڈ بنا دی تھی، اگر تمہارے اس طرح غائب ہونے کا پتہ چل جاتا تو ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ اس کا احساس تھا تمہیں؟” رابعہ نے اسی انداز میں کہا۔
“مجھے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ بابا اس طرح اچانک یہاں آجائیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم لوگوں کو کسی نازک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ورنہ میں اس طرح کبھی نہ کرتی۔” امامہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“تم کم ازکم ہم پر اعتبار کرکے، ہمیں بتا کر جاسکتی تھی۔” جویریہ نے کہا۔
“میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔” امامہ نے کہا۔
“کم از کم میں تمہارے کسی وعدے، کسی بات پر اعتبار نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
“مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنے دو رابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔” امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔
“تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیرئیر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟”
“ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔” امامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
“جب تک تم یہ نہیں بتاؤ گی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔” رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
“میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔” جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
“کون۔۔۔۔۔؟” ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔
“تم لوگ جانتی ہو اسے۔” امامہ نے کہا۔
“وہ فورتھ ائیر کی صبیحہ؟” جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔
امامہ نے سرہلایا۔ “مگر اس کے گھر کس لئے گئی تھیں تم؟”
“دوستی ہے اس سے میری۔” امامہ نے کہا۔
“دوستی۔۔۔۔۔؟ کیسی دوستی۔۔۔۔۔؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لئے کیوں چل پڑیں؟” جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
“وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔۔۔ کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لئے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔” رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔
“تم اسے کال کرکے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں۔۔۔۔۔” امامہ نے کہا۔
“چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں؟” جویریہ نے پوچھا۔
امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ “مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔”
ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ “کس سلسلے میں؟”
امامہ نے سر اٹھایا اور پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ جویریہ نے کچھ بے چینی محسوس کی۔ “کس سلسلے میں؟”
“تم اچھی طرح جانتی ہو۔” امامہ نے قدرے مدھم انداز میں کہا۔
“میں۔۔۔۔۔؟” جویریہ نے کچھ گڑبڑا کر رابعہ کو دیکھا جو اب بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
“ہاں، تم تو اچھی طرح جانتی ہو۔”
“تم پہیلیاں مت بجھواؤ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔” جویریہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ امامہ سر اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر بعد شکست خوردہ انداز میں اس نے سر جھکا دیا۔
——————————————-