۔۔۔۔۔حال۔۔۔۔۔
کیسا رہا آج کا دن۔۔۔۔
بس ٹھیک ہی تھا۔۔۔ ماہم جتنا صبح خوشی کا اظہار کر رہی تھی یونیورسٹی جانے پر اب اتنی ہی بیزار نظر آ رہی تھی۔۔ جبکہ نور مھین کی گود میں سر رکھے صوفے پر ہی لیٹی نظر آ رہی تھی۔۔۔
کیوں بھی صبح تو آپ بہت خوشی خوشی گی تھی پھر اب کیوں موڈ بنا ہوا ہے۔۔ کچھ ہوا ہے کیا؟؟ یا کسی نے کچھ کہا ہے؟
ہاہاہا۔۔۔ نہ پوچھے افی بھائی۔۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ نور لٹے ہوئے ہی سوچ سوچ کے ہنس رہی تھی۔۔
کیوں کیا ہو گیا ایسا۔۔ صبح یہ خوش تھی اور عین کا موڈ خراب تھا اب عین ماشاءالله خوش ہے تو ماہم کا موڈ خراب ہے۔۔۔
معاذ کا بچہ۔۔۔۔۔ بہت تنگ کرتا ہے مجھےاس دن پارٹی میں بھی میری جان عذاب میں ڈالی ہوئی تھی اور اب وہ یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہو گا۔۔۔ یہی نہیں بلکے اس کے سبجیکٹ بھی سیم ہے۔۔ پورا وقت ساتھ رہا کرے گا،میں ہو سوچ سوچ کے پاگل ہو رہی ہوں۔۔۔
ماہم بری بات ہے بچے ایسے نہیں کہتے۔۔۔ معاذ شرارتی ضرور ہے پر بہت سلجھا ہوا ہے۔۔ ہلکا پھلکا مذاق تو چلتا ہے۔۔مھین نے سمجھایا۔۔
اوو۔۔۔ تو یہ اچھی بات ہے معاذ آپ کے ساتھ ہے مجھے تھوڑی بہت جو پریشانی تھی اب وه بھی ختم ہو گی میں بات کرو گا معاذ سے آپ دونوں کا دھیان رکھے۔۔ کوئی مسئلہ ہو تو آپ اس سے کہہ سکتی ہیں۔۔۔
افی بھائی معاذ بہت اچھے ہے۔۔ وه بلکل آپ کی طرح میرے سے بات کرتے ہے۔۔ جیسے آپ کو لگتا ہے ہم چھوٹی بچی ہے سیم ویسے ہی معاذ بھائی خیال کرتے ہے۔۔ ہاہاہا۔۔۔
نور اٹھ کے افنان کے پاس آئی۔۔۔
تو آپ کو اس سب میں ہنسی کیوں آ رہی ہے۔
وه اس لئے ہم مسکرا رہے ہے کے وه خود تو ہماری ایج کے ہی ہے۔۔۔ آپ تو میرے سے بہت بڑے ہے نہ تو آپ اس لئے خیال رکھتے ہے پر وه تو ہماری ایج کے ہی ہو گے ہمارا دھیان رکھ رہے تھے۔۔۔۔
بہت اچھی فیملی ہے نور پیلس کی۔۔۔ سب ملنسار اور خوشاخلاق لوگ ہے۔۔۔ مھین کافی متاثر نظر آ رہی تھینور پلیس والوں سے۔۔۔
۔
۔
پھر عین ، افنان ، ماہم کا باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔ افنان ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس سے لوٹا تھا پر تھکاوٹ کا نامونشان تک چہرے پر نہ تھا۔۔۔ اپنوں کے لئے وقت نکلا یہ لڑکا جانتا تھا۔۔ پیار’ محبّت ‘ خلوص کیا کچھ نہ تھا جو اس کی باتوں سے نا جھلکتا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کن سوچو میں گُم ہے ہمارا شہزادہ۔۔۔ ہال میں سب ہی بیٹھے باتوں میں مصروف تھے جبکہ معاذ آج اپنی عادت کے خلاف چپ’ گم سم بیٹھا نظر آ رہا تھا۔۔۔
کچ۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ اچھا ہے۔۔۔
ہےکیا اچھا ہے۔۔۔ ہم کیا پوچھ رہے ہے اور آپ کیا بول رہے ہے۔۔۔سب ٹھیک تو ہے نا معاذ۔۔۔اکفہ نے معاذ کے پریشان چہرے ہو دیکھا جو کافی دنوں سے کچھ ایسے ہی نظر آ رہا تھا۔۔ بیٹھے بیٹھے کہی کھو جاتا تھا۔۔۔
معاذ کچھ ہوا ہے یا کوئی پریشانی ہے۔۔ مجھے نہیں بتاؤں گے؟؟ محمش اس شرارتی شیطان کو کب سے نوٹ کر رہا تھا۔۔ پر اسے لگا تھا کے معاذ خود ہی بتا دیتا تھا اب بھی خود بتا دے گا۔۔۔ پر ایسا نہ تھا۔۔۔
معاذ کافی دنوں سے خود سے جنگ لڑ رہا تھا۔۔ جو بات وه سوچ رہا تھا ممکن نہیں تھی پر پھر بھی وہی سوچ بار بار دل دماغ پر دستک دے رہی تھی۔
۔
۔
میں پریشان ہوں۔۔۔ اور اگر میں آپ سب کو وجہ بتاؤں گا تو کیا آپ یقین کرے گے میرا؟؟
ایسی بھی کیا بات ہے معاذ جو تم ایسے پوچھ رہے ہو۔۔ ہم سب نے پہلے کب تمہارا یقین نہیں کیا۔۔۔ بولو؟؟؟
محمش کو لگا کوئی عام بات ہو گی۔۔۔ شاید کچھ آفس کا مسئلہ ہو۔۔ معاذاس ہی سال اکثر آفس چلا جاتا تھاجب کے نظر آنے والا لاپروا سا یہ شیطان کافی سمجھدار اور محنتی تھا۔۔۔
آپ سب نے نور کو دیکھا ہے نہ تو آپ کو وہ ماما جیسی نہیں لگتی؟؟
اس میں مجھے ماما کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کی آنکھیں سیم میرے اور ماما جیسی ہے جبکہ اس کی فیملی کی آنکھوں کا رنگ تو بلیک ہے پھر ایک بچے کی آنکھیں بلی کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔وه جیسے ہنستی ہے بولتی ہے سب گھر والوں سے الگ ہے پر اس کی ہنسی بول چال سیم ماما جیسا ہے۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟؟ اگر وه نائل انکل کی بیٹی ہے تو پھر وه اُن سب میں بھی الگ نظر کیوں آتی ہے ان سب جیسی کیوں نہیں ہے؟؟
بات نہیں تھی۔۔۔ کوئی عام بات نا تھی۔۔۔ ایک پہاڑ گرایا گیا تھا نور پیلس پر ان سب پر۔۔۔ معاذ کی باتیں۔۔۔ اس کی سوچ۔۔۔ اس کی شاپ عادت لوگوں کو جانا۔۔۔ اتنی جلدی اندازہ لگانا۔۔۔ بلکے اندازہ نہیں۔۔۔ سوچ بچار کرنا۔۔۔
محمش نے آنکھوں کے اشارےسے اپنی ماں سے پوچھا۔۔۔ جیسے کہہ رہا ہو یہ سب کیا ہے؟
۔
۔
ہمیں بھی پہلی نظر میں یہی لگا کے جیسے ہم آہینور کو دیکھ رہے ہے۔۔۔ آپ کی ماما بھی آج سے پندرہ سال پہلے کچھ ایسی ہی دیکھتی تھی۔۔ پر وه نائل مصطفی کی ہی بیٹی ہے۔۔۔ اور کوئی اپنی بیٹی کے بارے میں جھوٹ نہیں بولتا معاذ۔۔۔ وه سب ان کے بچے ہے۔۔ آپ نے دیکھا ہی تو ہے کوئی کیسے ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔۔۔ بہن بھائیوں والا پیار تھا۔۔ ہاں ماہم ان کی بیٹی نہیں ہے وه نورالعین کی دوست ہے جو کے کچھ ماہ سے مصطفیٰ ولاز میں ان سب کے ساتھ رہ رہی ہے۔۔۔
عالمگیر شاہ نے پھر ماہم کے بارے میں بتایا۔۔۔ جس کو سن کے محمش ہی نہیں بلکے معاذ بھی حیران نظر آ رہا تھا۔۔۔
پر بڑے پاپا مجھے ایسا کیوں لگتا ہے وه میری۔۔۔۔
میری کیا معاذ؟؟ اب کی بار آغا جان نے پوچھا۔۔ معاذ کسی بھی طور ان سب باتوں سے مطمئن نہیں تھا۔۔۔
وه۔۔۔ مجھے دیکھ کر ایسا فیل ہوا کے۔۔۔ کہ نور میری بہن ہے۔۔۔ مطلب میں سچ میں۔۔۔ ایسا لگا۔۔۔۔نور اور ماہم بھی میری یونیورسٹی میں ہے ‘ سیم کلاس میں۔۔۔ آج پورا دن مجھے یہی فیل ہوا ہے جیسے ہماری گڑیا وہی ہے۔۔۔
معاذ بہت برداشت سے یہ سب بتا رہا تھا۔۔ جانتا تھا یہاں کوئی یقین نہیں کرے گا۔۔ پر وه کیسے دل کو سمجھتا۔۔۔ گھر والوں کو سمجھتا کہ نور میں اسے اپنی ماما نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی اور معاذ کی پرچھائی ایک جیسی ہے.۔۔۔
معاذ۔۔۔ خدا کا خوف کرو بچے کیا بول رہے ہو۔۔۔ ہم مانتے ہے وه سب سے الگ ہے اپنے گھر والوں سے پر وه ان کی ہی بیٹی ہے۔۔۔ اللہ نے ایک ہی شکل کے سات لوگ بنائے ہیں۔۔۔ اس لئے وه ہماری نوری جیسی لگتی ہے پر ہے نہیں۔۔۔ آپ ان سب کے سامنے مت بول دینا۔۔۔
آغا جان اب معاذ کی باتوں سے ڈر رہے تھے۔۔ اس گھر کے خون میں شامل تھا کہ اگر ایک بار جس کام کا ارادہ کر لیا جاتا وه ہو کے ہی رہتا تھا۔۔۔۔
اور اگر معاذ نے کچھ ایسا ویسا کرنے کا سوچا تو۔۔۔ یہی باتیں وہاں سب کو ڈرا رہی تھی۔۔۔
جب کہ ان سب میں محمش چپ چاپ بیٹھا نور میڈم کے اوپر ہونے والے تبصرے سن رہا تھا۔۔۔ دیکھے بغیر اور کر بھی کیا سکتا تھا۔۔ پر معاذ کی باتیں اس کی سوچ محمش کو اندر تک ضرور هالا گئی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے میں آپ کی مان لیتا ہوں۔۔ پر یقین مجھے اب بھی نہیں ہے۔۔۔معاذ کہہ کر ہال سے کیا نور پیلس سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔
وہاں بیٹھے سب کے سب اب تک معاذ کی آخری بات کے زیر اثر تھے۔۔ مان لیتا ہوں پر یقین نہیں۔۔۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔۔۔
آپ پریشان نا ہوں میں معاذ کو دیکھ لو گا اور سمجھا بھی دو گا۔۔۔ محمش نے ماحول ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ماضی۔۔۔۔۔۔
ارحم نے ایک دو بار اپنے سامنے ہی آہینور کی بات نور پیلس کروائی تھی۔۔ دس دن گزارنے کے بعد ارحم آہینور کو اپنے ساتھ لیۓ کراچی آ گیا۔۔۔ وہ نازک لڑکی کیا کرتی۔۔۔
کرتی بھی کیا۔۔۔۔ پر اب ارحم نے ان کی شادی کے پندرہ دنوں میں اس معصوم پر ہر طرح کا ظلم کیا۔۔۔ پورے جسم پر نشان تھے۔۔ سرخ سفید نظر آنے والا جسم اب عجیب ہی رنگ میں بدل چکا تھا۔۔۔ جسم پر جگا جگا نیل کے نشان تھے۔۔۔
ظلم تب زیادہ بڑھ جاتا جب ارحم آہینور کو مجبور کرتا کہ وه نور پیلس کال کر کہ اپنی باقی کی بھی پراپرٹی مانگے۔۔۔ شادی کے وقت آغا جان نے پچاس لاکھ آہینور کے اکاؤنٹ میں الگ سے ٹرانسفر کروائے تھے پر ارحم کا لالچ ابھی باقی تھا۔۔
تم کال کر رہی ہو گھر کہ نہیں ارحم کا غصہ درودیوار ہلا رہا تھا۔۔
ہم مر جائے گے پر گھر کال کر کہ پراپرٹی کی بات نہیں کرے گے۔۔ سب۔۔۔ کچھ تو لے لیا ہے آپ نے، سب اور نہیں۔۔۔ وہ میرے بابا جانی اور لالا کی محنت ہے، آپ کو نہیں لے کر دو گی۔۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ کسی صورت نہیں۔۔۔
کانپتی۔۔۔سسکتی۔۔۔۔آہینور نے کہا۔۔۔
کچھ زیادہ ہی بول پڑی، سزا تو اب ملنی ہی تھی۔۔۔
بہت زبان چل رہی ہے نا تیری۔۔۔۔ آج بتاتا ہوں تجھے میں ہوں کون۔۔۔ بہت دیکھ لیا تیرے سے آرام سے بات کر کے پر نہیں۔۔۔
کہتے ساتھ ہی ارحم نے آہینور کو بازوں سے کھینچ کر اپنے سامنے کیا اور کوئی بھی موقع دئے بغیر جلتا سگرٹ آہینور کےہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔ ایک بار نہیں۔۔۔ پوری طرح اپنی گرفت میں لئے ہوے اس گڑیا پر ظلم کی انتہا کر دی۔۔ ہونٹ۔۔۔ اس کے بعد گالوں کو نشانہ بنایا گیا۔۔۔
اس چھوٹے سے فلیٹ میں آہینور کی دلدھلا دینے والی چیخے گونجنے لگی۔۔۔ بلی آنکھوں سے لبلب پانی بہا۔۔۔ جو تازہ دئے گے زخموں پر اور تکلیف کا سبب بن رہا تھا۔۔۔
اور پھر ظلم کی انتہا پر بےبس ہوتی آہینور بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔۔۔ ارحم نے بیہوش وجود پر ہی ایک زور دار ٹانگ ماری اور فلیٹ سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
تکلیف دار۔۔۔اذیت بھرے یہ دن ہفتوں اور پھر مہینوں پر گزرتے گے۔۔۔ پچھلے سات ماہ سے آہینور کا نور پیلس والوں سے کوئی رابطہ نہ تھا اور یہی ہال اسلام آباد میں اس کے گھر والوں کا تھا۔۔۔
عالمگیر شاہ اور جہازیب ان کچھ ماہ میں پاگلوں کی طرح پورے پاکستان میں اپنی جان۔۔۔ شہزادی۔۔۔ نوری۔۔۔ آہینور کو مارے مارے ڈھونڈ رہیں تھے۔۔ پر کچھ خبر نا تھی۔۔ ان ہی دنوں آہینور کو خوش خبری سننے کو ملی۔۔ پر جیسے ظلم جو ستم ارحم کر چکا تھا آہینور جان چکی تھی اس بندے میں رحم نام کی چیز ہی نہیں۔۔۔
ناامید پھر بھی نہیں تھی۔۔۔ روز رو رو کے یہاں سے نکلنے کی دعا مانگتی۔نمازیں لمبی ہوئی اور سجدے اس سے بھی لمبے۔۔۔۔
اپنے لئے اپنے آنے والے بچے کے لئے رحم مانگا جا رہا تھا۔۔ اللہ بےشک اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے۔۔۔ پھر کیسے اس معصوم کی نا سنتا۔۔۔ نور پلیس والوں کی دعائیں رنگ لانے والی تھی۔۔۔۔
سات ماہ میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ارحم اپنا ایک موبائل گھر ہی بھول گیا۔۔۔ کب آتا کب جاتا۔۔۔ کہاں جاتا۔۔۔ آہینور کو کچھ خبر نا تھی پر جب بھی گھر لوٹا وہی حال ہوتا۔۔۔ نشہ۔۔۔۔
آہینور کا سارا پیسہ نشے کی نظر ہو رہا تھا۔۔ پر نور کو پروا نہیں تھی اس کو بس اب یہاں سے نکلنا تھا کسی بھی طرح۔۔۔
باہر سے دروازہ لاک تھا۔۔آہینور نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل دراز میں سے نکالا۔۔ موبائل شکر تھا ون ہی تھا۔
نمبر ڈائل کیا تھا۔۔ پر غلط۔۔۔ بلی آنکھیں پانی سے بھرنے لگی تھی۔۔۔
دوسری بار پھر سے کوشش کی گئ۔۔۔۔۔ اس بار نمبر ٹھیک سے مل گیا۔۔۔
بل جا رہی تھی۔۔ آہینور کے دل کی دھڑکن۔۔۔۔ حد سے زیادہ تھی۔۔۔ آنکھوں سے پانی مسلسل بہہ رہا تھا۔۔ سات ماہ کا انتظار ختم ہو رہا تھا۔۔۔ آزمائش ختم ہو رہی تھی۔۔۔
کال اٹھا لی گی۔۔ ایک نظر موبائل پر اور دوسری دروازے پر بھی تھی۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔
کون بات کر رہا ہے کوئی بولے گا بھی؟؟
۔
۔
لا۔۔۔۔لالا۔۔۔۔ اور یہاں آہینور پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔۔
نو۔۔۔نور۔۔۔ میری جان۔۔۔ لالا کی جان۔۔۔
کہاں ہوآپ۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔۔
لالا۔۔۔۔ یہاں۔۔۔ اچھا۔۔۔ ارحم۔۔۔ نہیں۔۔۔ مارا۔۔۔
عالمگیر شاہ کا دل پھٹ رہا تھا جس بہن کو کبھی رونے نا دیا آج وہی بہن اتنی تکلیف ازیت سے رو رو کے اپنے لالا کو بولا رہی تھی۔۔۔
میرابچہ۔۔۔ گڑیا۔۔۔ چپ ہو جاؤ پہلے۔۔۔ میں سن رہا ہوں آپ کو۔۔۔
لالا۔۔۔
جی گڑیا بولو۔۔۔
ارحم نہیں اچھا۔۔۔ مجھے۔۔۔ بہت مارا۔۔۔ روز مارتا ہے۔۔۔ مجھے۔۔۔ یہاں۔۔۔ دور لے آیا۔۔۔ ڈر لگتا۔۔۔ آپ۔۔ آ جائے۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں یہاں۔۔۔ مر جاؤں گی۔۔۔ پلززز۔۔۔
آپ۔۔۔ کی گڑیا مر جائے گی۔۔۔۔
نا۔۔۔ نا۔۔۔ ایسے نہیں کہتے میری جان۔۔۔ لالا بس آ رہے ہے۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔لالا کی جان۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔
آپ مجھے بتاؤں کہاں ہو اس وقت۔۔ کس جگہ پر ہو۔۔ کچھ یاد ہے۔۔۔
لالا بہت دور ہے۔۔۔
سسکیاں۔۔۔۔۔ رونا۔۔۔۔۔
لالا کراچی۔۔۔۔
اس ہی بات پر عالمگیر شاہ پر پہاڑ گرا تھا۔۔
پریشان مت ہو۔۔۔ میری بات غور سے سنو۔۔
موبائل۔۔۔ ہاں یہ موبائل ون رکھنا۔۔۔ کسی بھی طرح بس۔۔۔ ہم لوکیشن کی وجہ سے آپ تک بہت جلد آ جائے گے۔۔۔ ہمت نہیں ہارنی میرا بچہ۔۔۔ لالا بہت جلد آ جائے گے شام تک انتظار کر لو۔۔۔
نہ۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ لالا ابھی آ جائے۔۔۔ وه مار دے گا مجھے۔۔۔۔ابھی باہر ہے وه گھر نہیں۔۔۔ وه آ کے بہت مارتا ہے۔۔۔آہینور کا رونا وہاں بیٹھے عالمگیر شاہ کو رولا رہا تھا۔۔۔ دل دہلا دینے والا آہینور کا رونا اور بات کرنا۔۔۔ عالَم کو کسی بھی پل چین نہ تھا۔۔۔
بس نا میرے بچہ۔۔۔ ہم جلدی آ جائے گے آپ کے پاس۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ آپ چپ کرو اور یہ موبائل یہی چھپا دو پر ون ہی رکھنا۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔ پر آپ بات کرتے رہے، ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ وه آ جائے گا پھر سے۔۔۔
آہینور کسی بھی طرح موبائل اف کرنے کو نہیں مان رہی تھی۔۔۔۔
آپ بات کرو گی تو ارحم گھر آ جائے گا۔۔۔ مسئلہ ہو جائے گا پھر۔۔۔ بات کو سمجھو میری گڑیا۔۔۔
۔
۔
آپ آ تو جائے گے نہ۔۔۔ دیر مت کرنا نہیں تو آپ کی گڑیا مر جائے گی آج۔۔۔۔ دیر نہیں کرنا۔۔۔۔
اور پھر روتے روتے موبائل اف کر دیا۔۔۔ آہینور زمین پر بیٹھے سیسک رہی تھی۔۔۔ پورا جسم اب تک کانپ رہا تھا۔۔۔ بلی آنکھیں رو رو کے سوج چکی تھی۔۔۔۔
انتظار کی گھڑیاں تھی۔۔۔ ملنا واجب کیا جانا تھا۔۔۔ پر ابھی درمیان میں وقت تھا۔۔۔ جو ان سب کو ازیت میں کاٹنا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...