“گھنے پیڑوں میں بھی سایہ ہمیں نصیب نہیں۔۔۔
میرے سورج کی بھی سبھی سمتیں تمہاری ہیں۔۔۔”
وہ انسانوں سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ بھلا انسان کبھی رحم کرتا ہے۔ وہ واحد خدا کی ذات ہے جو ہماری اتنی غلطیوں اور کوتاہیوں پہ بھی ہمیں معاف کر دیتا ہے۔۔۔مگر بےحس انسان کو رحم نہیں آتا۔۔۔اور اسکی بھابی اور بھائی کو بھی اس پہ رحم نہیں آیا۔۔۔
چلچلاتی دھوپ میں گھر کے باہر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہاں جائے۔۔۔
اس گھر کے علاوہ کوئی اور سائیباں بھی تو نہیں تھا۔۔۔
حیا۔۔۔!!
ایسے میں بس حیا ہی تھی جس کے پاس وہ جا سکتی تھی۔۔۔
وہ وہاں سے سیدھا حیا کے گھر آئی۔۔۔
حیا کے ممی ڈیڈی اس وقت گھر پہ نہیں تھے۔۔۔ وہ اکیلی ہی تھی۔۔۔
“باصفا تم اس وقت یہاں۔۔ اور یہ بیگ۔۔۔ از ایوری تھینگ اوکے؟؟؟؟
حیا اسے ایسی حالت مین دیکھ کر بہت پریشان ہو گئی۔۔۔
باصفا اسکے گلے لگ کر سسکنے لگی۔۔۔
OHHH MY GOD…
اچھا تم آؤ اند۔۔۔ وہ اسے لیے ڈرائینگ روم میں آئی اور ملازمہ کو پانی لانے کا بولا۔۔۔۔
لو پانی پیو۔۔ اس نے باصفا کو پانی پلایا۔۔۔ پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی جسے باصفا کی آواز نے توڑا۔۔۔
باصفا نےٍاسے ساری بات بتا دی۔۔
اللہ باصفا یہ تم کیشکریہ۔۔ ہو۔۔۔ تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ زاویار ایسا نہیں ہے میں اسے بچپن سے جانتی ہوں۔۔۔
اور وہ تو کل صبح ہی امریکہ کیلیے روانہ ہو گیا ہے۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے حیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔۔۔۔میں خود اپنے کانوں سے انکی باتیں سنی تھیں۔۔۔ اس نے کہا تھا مجھے ۔۔۔ وہ بدلہ ضرور لے گا۔۔۔
اففف میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی زاویار تمہارے ساتھ ایسا کرے گا۔۔۔میں تو سمجھی وہ تمہارے ساتھ فئر ہے۔۔۔
لگتا تو مجھے بھی ایساہی تھا مگر۔۔۔
ائم سو سوری باصفا یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے۔۔ نہ میں تمہیں زاویار سے ملواتی نہ یہ سب ہوتا تمہارے ساتھ۔۔۔
نہیں حیا اس میں تمہارا کیا قصور۔۔۔ غلطی تو میری ہی ہے۔۔۔
حیا کیا تم مجھے ایک فیور کر دو گی۔۔۔۔ کافی دیر بعد وہ بولی۔۔۔
ہاں ہاں بولو۔۔۔
حیا کیا میں اگزیمز تک یہاں رک سکتی ہوں۔۔ آئی پرومس اگزیمز ہوتے ہی میں چلی جاؤں گی۔۔۔ میں بھائی سے بات کروں گی۔۔ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گا تو وہ میری بات ضرور سنیں گے۔۔۔ ابھی انہوں نے مجھے غصہ میں نکالا ہے۔۔۔ وہ بھلا کیسے مجھے یوں چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔ میں ان سے معافی مانگوں گی تو وہ ضرور مجھے معاف کر دیں گے۔۔۔ وہ جیسے ابھی تک شارکڈ تھی۔۔ جیسے اسے حمزہ سے اس حد تک کی امید نہیں تھی۔۔
حیا جانتی تھی حمزہ اسکی بات نہیں سنے گا۔۔ مگر وہ یہ کہ کر باصفا کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہی ہو باصفا۔۔۔ تم جب تک چاہو رہ سکتی ہو۔۔۔
حیا آنٹی کو میرے یہاں رکنے سے کوئی پروبلم تو نہیں ہو گی۔۔۔
تم ان کی فکر نہ کرو۔۔۔ میں خود ہی سب مینیج کر لوں گی۔۔۔
تم بے فکر ہو کر رہو۔۔۔
“OHHH THANK YOU HAYA…. THANK YOU SOO MUCH…”
میں تمھارا یہ احسان کبھی نہیں بھولو گی۔۔۔ پھر وہی بات۔۔۔ اب اگر تم نے ایسا کچھ کہا نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔
اتنے میں آنٹی بھی آ گئیں۔۔۔
حیا یہ کون ہے؟؟؟
ممی یہ باصفا ہے ۔۔۔ اووہ تو یہ ہے باصفا۔۔۔ تم سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔۔ حیا تمھارا ذکر بہت کرتی ہے مجھ سے۔۔۔
حیا یہ بیگ کسکا ہے؟؟؟؟ انہوں نے باصفا کے پاس پڑے بیگ کو دیکھ استفسار کیا۔۔۔
ممی وہ ایکوئیلی باصفا لوگوں کا کافی عرسے سے عمرہ پہ جانے کا پلین بن رہا تھا۔۔۔ مگر وہ کچھ پروبلمز کی وجہ سے پہلے جا نہیں سکے۔۔۔ اب جانا ہوا تو باصفا کو اگزیمز کی وجہ سے رکنا پڑا۔۔۔ اسکا یہاں کوئی ریلیٹو نہیں ہے تو میں نے اسے یہیں بلوا لیا۔۔۔ اور پھر مل کراگزیمز کی تیاری بھی ٹھیک سے ہو جائے گی۔۔۔
اوووہ ٹھیک ہے بیٹا تم اسے اپنے روم میں لے جاؤ۔۔ باصفا بیٹے اسے اپنا ہی گھر سمجھنا۔۔۔
جی شکریہ آنٹی۔۔۔چلو تم لوگ باتیں کرو میں تھک گئی ہوں تھوڑا ریسٹ کر لوں۔۔۔
حیا تم نے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا۔۔۔۔ تو باصفا میں انھیں تمہارے یہاں آنے کی وجہ کیا بتاتی۔۔۔ ایک بار اگزیمز ہو جائیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔۔۔
تم آؤ تھوڑا ریسٹ کر لو۔۔۔
15 دن بعد انکے انٹر کے فائینل اگزیمز تھے۔۔۔ اگزیمز سے پہلے وہ دو بار اپنے گھر گئی مگر دونوں بار ہی بھائی سے اسکے ملاقات نہ ہوئی۔۔۔
حیا بھی اسکے ساتھ گئی اور بھابی کو ساری بات بتائی۔۔۔
پلیز بھابی بھائی کو سمجھائیں نہ ان سے کہیں کہ وہ مجھے بس ایک دفعہ معاف کر دیں۔۔۔
ٹھیک ہے باصفا میں بات کروں گی۔۔ تم پریشان نہ ہو۔۔۔
دونوں بار ہی بھابی نے کافی امید دلائی جس سے وہ کچھ مطمئن ہو گئی۔۔۔اُسے امید تھی کہ بھائی بھابی کے کہنے پہ اسے معاف کر دیں گے۔۔
مگر حرم بیوقوف تھوڑی نہ تھی جو مصیبت سے جان چھوٹنے پہ پھر سے اپنے سر پہ مصلت لر لیتی۔۔۔اس نے تو اس موقع سے فائیدہ اُٹھایا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ اگزیمز میں ایسا مصروف ہوئی کہ گھر جانا نہ ہوا۔۔ اگزیمز سے فارغ ہوتے ہی وہ گھر گئی۔۔ مگر گھر پہ لگے تالے کو دیکھ کر وہ نامراد واپس لوٹ گئی۔۔۔
اس نے سوچا شاید بھابی اپنے میکے گئی ہوئی ہے اس لیے تالا لگا ہے۔۔ کل پھر آنے کا سوچ کر وہ واپس چلی گئی۔۔
مگر اگلے دن کیا مسلسل ایک ہفتے دروازے پہ لگا تالا اس کا منہ چڑاتا رہا۔۔ اب اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔ آخر اس نے ساتھ والے گھر سے معلوم کیا۔۔
“سعدیہ باجی بھابی کی دوست ہیں یقیناً انہیں پتہ ہو گا۔”
۔ یہی سوچ کر وہ انکے گھر گئی۔۔۔ تو اسے معلوم ہوا کہ حمزہ کو یو-کے سے ایک بہت اچھی جاب آفر ہوئی ہے اور وہ سب لوگ ایک ہفتہ ہوا یہاں سے جا چکے ہیں۔۔۔ اب باصفا کا سر صحیح معنوں میں چکرایا تھا۔۔۔ اس نے تو سوچا تھا اب تک بھابی نے بھائی کو منا لیا ہو گا۔۔ مگر وہ کیا جانتی تھی تقدیر اس کے ساتھ مزید کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔۔۔
وہ تو کافی حد تک مطمئین تھی۔۔۔ مگر اب کیا ہو وہ کہاں جائے گی۔۔۔بھائی اسکے ساتھ ایسا بھی کر سکتے ہیں اسنے سوچا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
اب باصفا کہاں جائے گی۔۔۔ اسکی زندگی میں مزید کتنی آزمائیشیں ہیں۔۔ ایک خطا کی اسے کتنی سزا ملے گی ۔
وہ تو شکر تھا کہ وہ نقاب میں تھی۔اس لیے سعدیہ باجی اسے پہچان نہ سکیں۔۔ ورنہ وہ انکے سوالوں کے کیا جواب دیتی۔۔۔
وہ مرے قدموں سے وہاں سے واپس لوٹ آئی۔۔۔
زاویار یہ کیا کِیا تم نے۔۔ مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔۔ میری زمین میرا آسمان سب چھین لے گئے۔۔۔ میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ اللہ کرے تمہیں کسی پل سکون نصیب نہ ہو۔۔۔ سارے راستے وہ زاویار کو کوستی رہی۔۔۔ مگر اس سب سے جو مصیبت اس کے سر تھی وہ تو نہیں ٹل سکتی تھی نہ۔۔۔
اب سب سے بڑا مسئلہ اس کے رہنے کا تھا۔۔۔ اب تو اگزیمز ختم ہوئے بھی ہفتہ گزر گیا تھا۔۔ وہ اب مزید یہاں کیسے رہ سکتی تھی۔۔۔
آخر اس نے حیا کی مدد سے ایک ہوسٹل میں کمرہ لیا۔۔۔ جس میں وہ چار لڑکیاں روم شئر کر رہی تھیں۔۔۔ساتھ میں اس نے حیا کے ہی کسی جاننے والوں کے اسکول میں جاب اسٹارٹ کر دی۔۔۔چونکہ اس کی ایجوکیشن کم تھی مگر پرنسپل چونکہ حیا کی جاننے والی تھیں تو اسے جاب پہ رکھ ہی لیا گیا۔۔۔
اس مشکل گھڑی میں جب اس کا اپنا بھائی اسے تن تنہا چھڑ گیا تھا۔۔ ایسے میں حیا نے اسکا بہت ساتھ دیا تھا۔۔ وہ اس کی بہت مشکور تھی۔۔۔
انٹر کا رزلٹ آنے کے بعد حیا ہائیر اسٹدیز کیلیے ابروڈ چلی گئی۔۔۔ اور باصفا پھر ایک دفعہ تنہا رہ گئی۔۔ مگر اب تو شائد تنہائی ہی اسکے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔۔ خیر زندگی پھر رواں دواں ہو گئی۔۔ کسی کے چھوڑ جانے سے زندگی رک تھوڑی نہ جاتی ہے۔۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ جیسے کیسے گزر ہی جاتا ہے۔۔۔
اس نے بھی خود کو جاب اور اسٹدی میں بے حد مصروف کر لیا۔۔۔
اب اس نے انٹر کے بعد پرائیویٹ بی،بی،اے بھی کر لیا تھا۔۔
ان اڑھائی سالوں میں باصفا نے وقت سے بہت کچھ سیکھا تھا۔۔۔ ابھی تو صرف اس واقعے کو اڑھائی سال ہی گزرے تھے۔۔۔ مگر یوں لگ رہا تھا جانے کتنی صدیاں بیت گئی ہوں۔۔۔ اعتبار سے بے اعتباری کا یہ سفر بہت لمبا تھا۔۔ جس میں اس نے اپنا سب کچھ ہی کھو دیا تھا۔۔۔
کچھ بھی تو نہیں تھا اب اس کے پاس۔۔ وہ خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔۔۔ تنہا اس فریبی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے۔۔۔
وقت نے جہاں اس سے سب کچھ چینا تھا وہیں اسکی شخصیت بھی بدل کر رکھ دی تھی۔۔۔
کبھی دامن، کبھی پلکیں بھگونہ کس کو کہتے ہیں۔۔۔
کسی مظلوم سے پوچھو کہ رونا ،کس کو کہتے ہیں۔۔۔
کبھی میری جگہ خود کو رکھو، تو جان جاؤ گے۔۔۔
کہ دنیا بھر کے دُکھ دل میں سمونہ، کس کو کہتے ہیں۔۔۔
میری آنکھیں، میرے چہرے کو، اک دن غور سے دیکھو۔۔۔
مگر مت پوچھنا، ویران ہونا کس کو کہتے ہیں۔۔۔
تمہارا دل کبھی پگھلے اگر غم کی حرارت سے۔۔۔
تمہیں معلوم ہو جائے گا رونا ،کس کو کہتے ہیں۔۔۔”
برینڈڈ جوتے اور کپڑے پہننے والی باصفا اب سادہ سے کپڑوں میں بدل گئی تھی۔ بے تحاشہ شاپنگ کرنے والی کو بازار کے نام سے ہی چڑھ ہو گئی تھی۔۔۔
جس باصفا کے کھانا کھانے میں اتنے نکھرے ہوا کرتے تھے۔
بھنڈی،بینگن، کدو،کریلے،ٹینڈے۔۔ اسے ان سبزیوں سے سخت چڑ تھی۔گھر میں اگر یہ سبزی پکتی تو اس کے لیے علیحدہ سے کھانا بنتا۔ اور دالیں تو اس نے کبھی کھائیں ہی نہیں تھی۔ وہ چکن کی دلدادہ اب ہوسٹل کے روکھے پھیکے کھانے کھاتی تھی۔۔ جو سبزیاں اور دالیں اس نے کبھی چکھے بھی نہ تھے یہاں اسے وہ سب کھانا پڑھتا تھا۔۔۔اففف انسان کو صرف موت کا انتطار کرنے کے لیے ساری زندگی سفر کرنا پڑھتا ہے۔۔۔ چاہے وہ سفر کتنا ہی کانٹوں سے کیوں نہ بھرا ہو۔۔۔ اسے طے کرتے کرتے ہم کتنے ہی لہو لہان کیوں نہ ہو۔۔۔ مگر ہر شخص کو اپنا سفر طے کرنا ہی ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی۔۔۔!!
ہر ورک کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا۔۔۔!!
۔۔۔۔۔۔
باصفا۔۔۔ باصفا۔۔۔
ثناء کی آواز پہ وہ چونکی۔۔۔
“نہ لفظوں کا لہو نکلتا ہے، نہ کتابیں بول پاتیں ہیں۔۔۔
میرے درد کے دو گواہ تھے، دونوں بے زباں نکلے۔۔۔”
اس کی شہد رنگ آنکھوں میں ٹوٹے کانچ کی سی چبھن تھی۔۔۔ ماضی سے حال تک کا یہ سفر ہمیشہ اسکے لیے تکلیف دہ ہوتا تھا۔۔۔ ان اڑھائی سالوں میں جانے اس نے یہ سفر کتنی دفعہ طے کیا تھا۔۔۔ اور ہر دفعہ اُنتی ہی تکلیف ہوتی تھی۔۔۔ مگر وہ کیا کرتی وہ اذیت ناک لمحے بھولانے والے بھی تو نہیں تھے۔۔۔
بھائی جو کہ مما، بابا کے بعد اسکا سب کچھ تھا۔۔ اسی نے ہی اسے تنہا دنیا کے رحم و کرم پہ چھڑ دیا تھا۔۔۔ ایک دفعہ بھی نہیں سوچا وہ اکیلی کہاں جائے گی۔۔ کیا کرے گی۔۔۔ اسے حرم سے شکایت نہیں تھی۔۔ شکوہ تھا تو اپنے بھائی سے۔۔ وہ تو غیر تھی اسکی۔ مگر حمزہ وہ تو اسکا بھائی تھا ۔خون کا رشتہ تھا انکا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثناء جو 6 ماہ سے اسکی روم میٹ تھی۔۔ اب اس روم میں وہ اور ثناء ہی رہتیں تھیں۔۔۔
وہ اپنی سوچوں کو جھٹکتی اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
ہاں بولو۔۔
ایک تو تم پتہ نہیں ہر وقت کس دنیا میں گم ہوتی ہو۔۔ دس آوازیں دو تو جواب ملتا ہے۔۔۔ “ہاں کیا ہوا”۔۔۔
باصفا اسکے انداز پہ مسکرا دی۔۔۔
میں نے کوئی جوک نہیں سنایا۔۔آ جاؤ کھانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔
اور وہ کھانا کھانے چل دی۔۔۔
“شاید خوشی کا دور بھی آئے گا اک دن۔۔۔
غم بھی تو مل گئے تھے تمنا کئے بغیر۔۔۔۔”
اذیت کا یہ مقام بھی در پیش ہے اب”
سہنا بھی درد ہے اور کہنا بھی نہیں ہے۔۔۔”
وہ اپنی ریزروڈ نیچر کے باعث یہاں بھی خاموش ہی رہتی تھی۔۔۔ سب کو اس کے مطعلق اتنا ہی معلوم تھا کہ اسکا بھائی ابروڈ چلا گیا ہے۔ اور وہ اپنی اسٹڈیز کیلیے یہاں ہے۔
ثناء کافی دفعہ اسکے متلعق اس سے پوچھتی مگر ہر بار وہ ٹال جاتی۔۔۔
اسے اپنے کیے پہ بہت پچھتاوا تھا۔۔ وہ اکثر سوچتی جانے بھابی کے ریلیٹوز نے کیسا ریکشن کیا ہو گا۔۔ بھابی نے اسکے متلعق جانے کیا کیا کہا ہو گا۔۔۔
اب تو بس سوچیں تھیں یہ پچھتاوا تھا۔۔
جو ہو گیا تھا اسے اب کوئی بدل نہیں سکتا تھا۔۔۔ اب تو یہ ہی اسکی زندگی تھی۔۔۔ اسے اب یہیں اسی ہوسٹل میں رہنا تھا۔۔۔
مگروہ اس بات سے بے خبر تھی کہ اسکی زندگی میں مزید طوفان آنے والا ہے جو ایک دفعہ پھر اسکی زندگی ہلا کر رکھ دے گا۔۔
وہ نہیں جانتی تھی اسکی قسمت اسے کہاں سے کہاں لے جانے والی ہے۔۔۔
آج بھی اتوار کا ہی دن تھا۔۔۔ ثناء نے اسے ساتھ مارکیٹ چلنے کو کہا۔۔ پہلے تو اس نے انکار کر دیا۔۔ مگر پھر یاد آیا کہ اسے بھی کچھ چیزیں لینی ہیں تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...