سردار امین خان کی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔ اسے یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ محض ایک دن پہلے فدا حسین نے فون کر کے اسے دھمکی دے دی تھی کہ وہ جس قدر چاہے اپنا تحفظ کر لے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ تم نے میرے خان کے خون کا سودا کیا ہے۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس دھمکی کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے خان محمد کی موت بھوت بن کر اس سے چمٹ گئی ہے۔ وہ جب تک کوئی ٹونہ ٹوٹکا کر کے، دھونی رما کے اس کو رضی نہیں کرے گا یہ بھوت اس کی جان چھوڑنے والا نہیں ہے ورنہ یہ اس کی جان لے کر ہی رہے گا۔ دوپہر کے وقت یہ دھمکی آئی تھی اور پھر شام تک اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔ بہت سوچ کر اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ڈی آئی جی سے ملے اور اس سے مدد مانگے۔ جونہی اس کی سمجھ میں یہ بات آئی۔ اس نے فوراً فون کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ شام ہوتے ہی وہ ڈی آئی جی کے گھر والے لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
’’خان صاحب۔۔۔ آپ برا مت منائیے گا۔ لیکن یہ حقیقت بہت تلخ ہے کہ ہم لوگ تو فقط آپ جیسے بڑے لوگوں کے درمیان مہرے بن کر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ ہماری ذمہ داری عوام کی بھلائی اور خدمت ہے لیکن آپ جیسے لوگوں کے بنائے ہوئے اس سسٹم میں آپ ہی کے مفادات کی چوکیداری کے لئے رہ گئے ہیں۔‘‘ ڈی آئی جی نے قدرے تلخی سے کہا۔
’’ہمارا تحفظ بھی تو آپ کی ذمے داری ہے نا، ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ ہمارا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ ہم لوگوں کو روزگار کی فراہمی کا باعث بنتے ہیں‘‘۔۔۔ امین خان نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میں جو با ت کر رہا ہوں شاید وہ آپ سمجھ نہیں رہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے خان صاحب کہ ہم یہاں پر عام آدمی کے لئے نہیں آپ کی خدمت کے لئے ہی رہ گئے ہیں۔ تحفظ ہو، مفاد ہو تو وہ آپ کا‘‘۔۔۔ ڈی آئی جی نے قدرے لاپرواہی سے کہا تو امین خان چونک گیا۔ پھر بولا۔
’’جب سیدن شاہ کا معاملہ تھا تو آپ نے قاتلوں تک کو بھگانے میں مدد دی۔ اب جبکہ میں اپنے تحفظ کے لئے مانگ رہا ہوں تو آپ عوامی معاملات کی بات کر رہے ہیں۔ اسے میں کیا سمجھوں؟‘‘
’’آپ کچھ بھی سمجھئے، یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ جہاں تک سیدن شاہ کا معاملہ تھا، اس میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں۔ کل وہ آ جائیں گے آپ کے خلاف کچھ کرنے کے لئے۔‘‘ ڈی آئی جی نے اسی انداز میں کہا تو امین خان قدرے بھڑک گیا۔
’’دیکھیں۔۔۔ آپ نے اگر میرے لئے کچھ نہیں کرنا ہے تو صاف کہہ دیں۔ میں نہ صرف اپنا تحفظ کرنا جانتا ہوں بلکہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہوں جو آپ کے گمان میں بھی نہیں ہو گا۔ آپ مجھے نظر انداز کر کے اچھا نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’خان صاحب۔۔۔ آپ اپنا تحفظ کہاں تک کر پائیں گے۔ آپ نے جس بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے، اب اس سے بچنا بہت مشکل ہے۔ آج میں آپ کو خان محمد کے لوگوں سے تحفظ دوں گا۔ کل اور دوسرے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ میری آپ کو ایک صلاح ہے کہ آپ سیدن شاہ سے دوستی کر لیں۔ بہت اچھا رہے گا۔‘‘
’’میں اسے کیسا سمجھوں؟‘‘ خان محمد نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے تحمل سے کہا۔
’’عقل مندی۔۔۔‘‘ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ ’’کاش آپ میرا اشارہ سمجھ سکیں۔‘‘ ڈی آئی جی نے قدرے صاف انداز میں کہا تو امین خان کافی کچھ سمجھتے ہوئے بولا۔
’’مطلب، سیدن شاہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ چلیں دیکھتے ہیں، کون کس سے صلح کرتا ہے میرے ہاتھ میں چند اور معاملات بھی ہیں۔ آپ ہی کے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ میرے پاس آتے تھے میں ان سے بات کر لوں گا۔‘‘
’’ضرور کیجیے گا، لیکن اتنا دھیان میں رہے کہ سیدن شاہ رکن اسمبلی نہ رہ کر بھی سوا لاکھ کا ہاتھی بن گیا ہے۔ اس کی پارٹی حکومت میں ہے اور بہت ساری ایجنسیاں حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں۔ حکومت بدلنے کا انتظار کریں۔ پھر جو بھی کرنا ہو کیجئے گا۔‘‘ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا تو خان محمد کی سمجھ میں ساری بات آ گئی تھی۔ اس کی چھٹی حس اسے صحیح خبردار کر رہی تھی۔
وہ اپنے کمرے میں لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اس وقت وہ میدان بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا اور نہ ہی بھاگ سکتا تھا۔ شہر میں ہونے والی کسی بھی قسم کی ہنگامہ آرائی اس کے خلاف جانے والی تھی۔ وہ بری طرح پھنس چکا تھا۔ اگر ایجنسیوں کی تحقیقات کی لپیٹ میں آ گیا تو بہت کچھ سامنے آ جانے والا تھا۔ وہ ساری رات بے چین رہا اور صبح اخبار کے انتظار میں نہ جانے کب سے کاریڈور میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔
وہ اس وقت سوچوں میں گم تھا۔ جب اس نے کاندھے پر نرم ہاتھ محسوس کیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، فرزانہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس نے اپنا سر آنچل سے ڈھانپا ہوا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کب کی جاگی ہوئی ہے۔
’’تم۔۔۔‘‘ امین خان کے منہ سے فقط اتنا نکلا۔
’’ہاں بابا سائیں میں۔۔۔ میں نماز پڑھنے کے بعد کھڑکی میں آئی تو آپ کو قدرے بے چین دیکھا۔ کیا بات ہے۔ کوئی پریشانی ہے کیا؟‘‘
’’جب بندہ بہت سارے دشمنوں میں گھر جاتا ہے نا تو پریشانی ہوتی ہے۔‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔
’’میں کسی حد تک سمجھتی ہوں کہ کیا بات ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہی کہ آپ یونہی خوف زدہ ہوتے رہیں بلکہ وہ خوف جو ابھی مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ اس کو سوچ کر پریشان ہوتے رہیں۔ پریشانی کے عالم میں کوئی بھی حل سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ فرزانہ نے دھیرے دھیرے کہا۔
’’تم نہیں سمجھو گی کہ یہ کیا معاملات ہیں۔ تم سناؤ تمہاری این جی او کا کام کیسے چل رہا ہے۔‘‘ اس نے خواہ مخواہ مسکراتے ہوئے کہا۔
’’وہ توٹھیک چل رہا ہے مگر آپ میری بات بدلنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔‘‘
’’وہ اس لئے کہ تم میری پریشانی کو نہیں سمجھ پاؤ گی۔ سیاسی معاملات ہیں، انہیں مجھ تک ہی محدود رہنے دو۔‘‘ امین خان نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
’’اچھا، آپ میری ایک بات مانیں گے بابا سائیں۔‘‘
’’بولو۔۔۔‘‘
’’آپ ایسا کریں۔ کچھ دنوں کے لئے اسد بھائی کے پاس چلے جائیں۔ وہاں پر آپ فریش ہو جائیں گے۔ تبدیلی۔۔۔‘‘
’’تمہیں اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں۔‘‘ امین خان نے پیار سے کہا، پھر جذباتی سے انداز میں بولا۔ ’’دیکھو بیٹی۔۔۔ اگر خدانخواستہ مجھے کچھ ہو جائے تو اپنے بھائی کا بہت خیال رکھنا۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ جو اس طرح باتیں کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کوئی سنگین معاملہ ہے۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے نہیں؟‘‘ فرزانہ نے پریشانی میں کہا۔
’’کہا نا نہیں۔۔۔ یہ میری پریشانی ہے، اسے مجھ تک ہی محدود رہنے دو۔‘‘ امین خان نے کہا اور اٹھ گیا۔ ’’آؤ۔۔۔ ناشتہ کرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن ابھی ناشتے کا وقت نہیں ہوا۔‘‘ فرزانہ نے قدرے بے رخی سے کہا اور اٹھ گئی۔ امین خان اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنی پریشانی اپنی بیٹی کو بتائے یا نہیں۔ وہ دیر تک سوچتا رہا۔ پھر اچانک اسے ایک نیا خیال سوجھ گیا جس پر اس نے فوراً عمل کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اس وقت وہ ناشتے کے بعد اخبار پڑھ رہا تھا۔ فرزانہ اپنے آفس جا چکی تھی ایسے وقت میں اس کا وکیل بیرسٹر سلمان آ گیا۔
’’آئیے سلمان صاحب۔۔۔ میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
’’خیریت تو ہے نا امین خان صاحب۔۔۔ اتنی تیزی میں اور اتنی جلدی میں مجھے یاد فرمایا ہے۔‘‘
’’سلمان صاحب۔۔۔ کیا آپ کو اپنی زندگی پر اعتبار ہے؟‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔
’’کسی کو بھی نہیں ہے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ایسے وقت میں جبکہ دھمکیاں مل رہی ہوں، نامساعد حالات ہوں تو میرا خیال ہے۔ اتنی بڑی جائیداد کے بارے میں کوئی نہ کوئی فیصلہ تو کر دینا چاہیے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ آپ نے ٹھیک سوچا۔ تو آپ کا مطلب ہے کہ آپ اپنی جائیداد کے بارے میں وصیت چھوڑنا چاہ رہے ہیں۔‘‘
’’بالکل۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو رکا اور پھر بولا۔ ’’جائیداد کی تفصیل وغیرہ تو میرا ملازم آپ کے پاس لے کر آئے گا۔ تاہم میں زبانی آپ کو بتا رہا ہوں کہ میرے دو ہی بچے ہیں۔ ایک میری بیٹی ہے فرزانہ اور دوسرا اسد ہے۔ ان دونوں میں جائیداد برابر تقسیم ہو گی۔ میں اس تفصیل میں یہ بھی لکھ دینا چاہتا ہوں کہ کس کو کیا ملے گا۔ آپ کاغذات تیار کیجیے۔‘‘ امین خاں نے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جی بالکل، میں کاغذات تیار کر لیتا ہوں۔‘‘
’’اس کے علاوہ ایک اور بات ہے، میں یا میرا بیٹا، ہم دونوں کی عدم موجودگی میں تمام تر فیصلے کا اختیار فرزانہ کو ہو گا۔ وہ چاہے تو جائیداد بیچ دے یا اس کا جو مصرف بھی کرے۔‘‘
’’یہ بھی ہو جائے گا۔ لیکن کیا آپ اپنی بیٹی پر ضرورت سے زیادہ اعتماد نہیں کر رہے۔ میرا مطلب ہے کیا وہ سب سنبھال پائے گی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہ سنبھال لے گی۔ آپ وہی کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔ یہ جو دوسری بات میں نے آپ سے کہی ہے یہ تو محفظ حفظ ما تقدم کے طور پر ہے‘‘۔۔۔ امین خان نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے سردار صاحب۔۔۔ آپ ایسا کیجیے تفصیل بھجوا دیجیے گا۔ میں کاغذات تیار کر لوں گا۔‘‘ بیرسٹر نے کہا تو ملازم چائے رکھ کر چلا گیا۔ ابھی وہ چائے پی ہی رہے تھے کہ اللہ بخش آ گیا۔ اس نے اپنے مخصوص انداز میں سلام کیا اور ایک جانب کھڑا ہو گیا۔ تبھی امین خان نے بیرسٹر سلمان سے ہونے والی باتوں کی ساری تفصیل اسے بتائی۔ اور پھر کہا۔
’’آج تمہارا یہی کام ہے۔ دوپہر ہونے سے پہلے تک ساری جائیداد کی تفصیل لے آؤ مجھے دکھاؤ، میں ان کی تقسیم کروں گا اور دو بھی جہاں بھی جتنی جائیداد ہے۔ وہ سب قانونی لحاظ سے درست ہو۔ میرے بچوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔‘‘ امین خان نے پوری سنجیدگی سے کہا۔
’’جیسے حکم ہے سائیں۔‘‘ اللہ بخش نے پہلی بار یہ کہتے ہوئے دکھ محسوس کیا تھا۔ بیرسٹر چلا گیا تو اللہ بخش کو بھی جانے کے لئے کہہ دیا گیا۔ پھر امین خان سوچ میں پڑ گیا۔ اس کا بہت سارا بوجھ کم ہو گیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت دوپہر ڈھل چکی تھی اور شہر کی سڑکوں پر رونق ماند پڑ چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں لوٹ رہے تھے۔ بارش ہونے کے بعد سورج چمکا تو حبس بڑھ گیا تھا۔ ایسے میں علی اپنے گھر کے باہر گیٹ پر آیا تو ایک لمحے کے لئے اسے اپنا وجود بھی اجنبی لگا۔ اس کا بیل کی جانب بڑھا ہوا ہاتھ رک گیا۔ اس کا حلیہ عجیب سا ہو رہا تھا۔ پرانے پیوند لگے شلوار قمیض، بڑھی ہوئی شیو، لمبے بال اور سیاہ ہوتا ہوا چہرہ۔ اس کا یہ حلیہ اپنی جگہ لیکن وہ کسی کو کیا بتائے گا کہ وہ اتنے دن کہاں رہا ہے؟ کیا وہ جواب دے پائے گا۔ بہرحال انہیں سب کا سامنا تو کرنا ہی تھا اس لئے اس نے بیل دے دی۔ کچھ دیر بعد احسن دروازے پر آیا تو وہ علی کو پہچان ہی نہیں سکا۔ قدرے غصے میں معاف کرو بابا کہنے ہی والا تھا کہ ٹھٹک گیا۔ چند لمحے ساکت سا وہ علی کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اس سے لپٹ گیا۔
’’علی بھائی۔۔۔ کہاں چلے گئے تھے آپ، اور۔۔۔ اور۔۔۔ یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے۔‘‘ احسن نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا تو علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اچھا ہوا تم دروازے پر آئے ہو۔ ابھی اندر مت بتانا کہ میں آیا ہوں۔ باہر والا دروازہ کھولو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رک گیا پھر ایک لمحے بعد بولا۔ ’’بلکہ تم ایسا کرو کہ میرے اچھے سے کپڑے لے آؤ میں حلیہ درست کر کے ہی امی کے سامنے جاؤں گا۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے بھائی۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔‘‘
’’جو کہہ رہا ہوں، وہ کرو نا، امی مجھے اس حال میں دیکھیں گی تو پریشان ہوں گی۔‘‘ علی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تو احسن کچھ نہ سمجھتے ہوئے واپس چلا گیا۔ پتہ نہیں اس نے ا ندر جا کر کیا کہا ہوگا۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد وہ علی کے کپڑے لے کر آ گیا۔ وہ اسے تھماتے ہوئے بولا۔
’’آپ ٹھہرو۔۔۔ میں بائیک لے کر آ رہا ہوں۔ اکٹھے چلتے ہیں۔‘‘ احسن نے کہا اورواپس مڑ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بھائی وہاں سے کسی سیلون کی جانب نکل گئے۔
عصر کے بعد وہ دونوں جب گھر میں داخل ہوئے تو نگہت بیگم ، غلام نبی اور فائزہ صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ علی پر نگاہ پڑتے ہیں ان کے فکر مند چہرے حیرت زدہ رہ گئے۔ نگہت بیگم یہاں بیٹھی تھیں وہیں ساکت ہو گئی۔ غلام نبی نے علی کو گلے لگایا تو وہ کتنی دیر تک اپنے باپ کے لگے لگا رہا۔ پھر اپنی ماں کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
’’امی میں نے آپ کہ بہت دکھ دیا ہے۔ مجھے آپ کے جذبات کا احساس ہے۔ میں لوٹ آیا ہوں، کیا آپ اپنے بیٹے کو معاف نہیں کریں گی۔‘‘
’’کروں گی معاف، کیوں نہیں کروں گی میرے جگرکے ٹکڑے۔۔۔ ‘‘ نگہت بیگم نے بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اسے گلے لگا لیا۔ کافی دیر تک اسے پیار کتی رہی۔ علی کوبھی یوں محسوس ہوا جیسے کہ وہ ٹھنڈی چھاؤں میں آ گیا ہے۔ ماں سے الگ ہونے کے بعد وہ بہن سے ملا اور اسے پیار دیا۔
’’تو اچانک کہاں چلا گیا تھا۔‘‘ غلام نبی نے پوچھا۔
’’موصوف کا حلیہ درست کروانے گیا تھا، میں نے سوچا آپ اسے اس حالت میں دیکھیں گے، جس حالت میں یہ یہاں آئے تھے تو آپ ڈر جائیں گے۔ یہ تو خوبصورت تراشے ہوئے بال، ’’خط کشیدہ‘‘ داڑھی جس سے ان کا چہرہ مزین دکھائی دے رہا ہے، یہ ہلکی مونچھیں، خوب صاف ستھرے دکھائی دے رہے ہیں، یہ ایسے نہیں۔۔۔‘‘
’’اب بس بھی کرو یار۔۔۔ تم تو نان سٹاپ ہوئے جا رہے ہو۔‘‘ علی نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
’’اب انہیں تو بتانا ہے نا بھائی۔ اصل میں جب سے آپ اچانک غائب ہوئے تھے، امی میرا بھروسہ ہی نہیں کرتی ہیں۔ ذرا دو چار منٹ ادھر ادھر ہوا انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ احسن نے ہنستے ہوئے کہا۔ تو فائزہ نے پوچھا۔
’’بھائی۔۔۔ آپ چلے کہاں گئے تھے جواتنی بری حالت میں آئے ہیں واپس۔‘‘
’’بری حالت نہیں تھی، یہ خواہ مخواہ بات بنا رہا ہے اور آپ سب یقین مانیں، جس جگہ میں تھا، وہ بری نہیں تھی بلکہ میں سمجھتا ہوں وہ دنیا کی بہترین جگہ تھی۔‘‘ علی نے کھوئے لہجے میں کہا۔
’’بہترین جگہ۔۔۔‘‘ حسن نے طنزیہ انداز میں کہا توعلی نے پوری سنجیدگی سے جواب دیا۔
جس جگہ سے بندے کو عشور ملے، زندگی کا مقصد اور آ گہی کا حصول ہو، وہ بہترین جگہ ہی ہوتی ہے۔‘‘
’’کیاکھویا کیا پایا۔‘‘ فائزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کھویا کچھ بھی نہیں، بس پایا ہی پایا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فائزہ سے کہا۔ ’’اب باتیں ہی کرتی رہو گی یا پھر کچھ کھانے پینے کا بھی پوچھو گی۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ علی نے اس موضوع سے خیال ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’پھر بھی تم رہے کہاں؟‘‘ نگہت بیگم نے پھر وہی بات کہہ دی۔
’’امی۔۔۔ چھوڑیں اس موضوع کو۔ آپ بتائیں کہ آپ ٹھیک ہیں، صحت ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے پھرسے اپنی ماں کو باتوں میں لگانا چاہا تو غلام نبی بھانپ گیا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔تب اس نے کہا۔
’’علی۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ صبح تمہارارزلٹ آنے والا ہے۔‘‘
’’جی ابو۔۔۔ مجھے معلوم ہے اور میں صبح جاؤں گا کیمپس۔‘‘ علی نے عام سے انداز میں کہا۔ تو احسن طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’شعور، آ گہی، زندگی کا مقصد۔۔۔ ا تنا کچھ یہ جانتے ہیں تو انہیں اپنے رزلٹ کے بارے میں بھی پتہ ہو گا۔ کیوں بھائی پتہ ہے؟‘‘
’’ہاں پتہ ہے۔۔۔میں نے یونیورسٹی ہی نہیں، پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں ٹاپ کیا ہے میں تمہیں اپنے نمبرز بھی بتا دیتا ہوں، لکھ لو، صبح دیکھ لینا۔‘‘ علی نے یونہی مسکراتے ہوئے کہا تو احسن کھلکھلا کرہنس دیا اور پھر ہنستے ہوئے بولا۔
’’یہ بہت بڑا راز افشاء کیا ہے انہوں نے۔ کل رزلٹ آنے والا ہے، کہیں سے معلوم ہو گیا ہوگا۔ بلکہ وہ جو پوزیشن ہولڈرز ہوتے ہیں۔ ان سے تو پہلے رابطہ ہوتاہے۔ بھائی، کیا یہی ہے۔ شعور، آگہی، زندگی کا مقصد۔۔۔‘‘ احسن نے کہا، اس سے پہلے کہ علی جواب دیتا اتنے میں فائزہ چائے کے ساتھ بسکٹ رکھ کر لے آئی۔ وہ بھی سن رہی تھی اس لئے مسکراتے ہوئے آئی۔ اتنے دنوں بعد اسے گھر کے صحن میں اپنوں کے درمیان بہت ہی اپنائیت والا ماحول ملا تھا۔سو وہ بھی موڈ میں آ گئی۔
’’یہ لیں بھیا چائے۔۔۔ فوراً تو یہ بسکٹ ہی پڑے تھے لے آئی ہوں۔ ابھی کھانا بناتی ہوں۔‘‘ فائزہ نے کہا تو علی بولا۔
’’وہ جو حلوہ کچن میں پڑا ہے، وہ کیوں نہیں لائی۔‘‘
’’حلوہ۔۔۔؟‘‘ فائزہ نے حیرت سے کہا۔ ’’بھائی خیریت تو ہے، کچن میں آپ گئے نہیں۔ حلوہ ہوتاتو میں آپ کے لئے لاتی نا۔‘‘
’’ارے جاؤ دیکھو، انہیں شعورہے، آگہی ہے۔‘‘ احسن نے پھر سے ہنستے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا تو فائزہ سچ مچ پلٹ گئی، پھر چند لمحوں بعد آئی تو چہرے پر حیرت اور ہاتھوں میں برتن پکڑا ہوا تھاجس میں گرم گرم حلوہ تھا۔
’’یہ کیا۔۔۔؟‘‘ وہ حیرت سے بولی، اس کی آواز پھٹ رہی تھی جیسے اسے بولا نہیں جا رہا ہے۔ احسن جو زور سے ہنس رہاتھا، اس کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔ نگہت بیگم اور غلام نبی کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں تھی۔
’’لاؤ نا، کھائیں۔‘‘ علی نے اس کو حیرت سے نکالا۔
’’مگربھائی یہ آیاکہاں سے؟‘‘
’’خود ہی تو لائی ہو کچن سے۔ کیا چمچ لانا بھی بھول گئی ہو۔‘‘ علی نے پھر کہا تو فائزہ جیسے نیند سے جاگ گئی۔ وہ لاشعوری طور پرواپس پلٹی اورپھر چمچ لے کر آ گئی۔
’’لو امی کھاؤ۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ کیاہے بیٹا۔‘‘ نگہت بیگم حیران تھی۔
’’حلوہ ہے کھائیں نا‘‘ علی نے چمچ بھر کے کھلایا۔ نگہت بیگم ڈرتے ڈرتے کھانے لگی۔ اسی طرح اپنے باپ کو دیا۔ احسن کی باری آئی تو علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’شعور ، آ گہی۔۔۔ لو دیکھو۔۔۔‘‘
پھر علی نے بھی ایک دو چمچ لئے اور رکھ دیا اور پھر بولا۔ ’’جاؤ، اس برتن کو ویسے ہی واپس رکھ آؤ۔‘‘
’’نہ۔۔۔ میں نہیں جاتی۔‘‘ فائزہ خوف زدہ ہو گئی تھی۔ علی نے احسن کو اشارہ کیا، وہ برتن کچن میں رکھ کر آ گیا۔ علی جب تک چائے پیتا رہا، وہ سب اس کی طرف حیرت سے دیکھتے رہے۔
’’آپ سب میری جانب یوں کیا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ آخر علی نے کہا۔
’’یہ کیا تھا بیٹا۔‘‘ نگہت بیگم نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں اماں۔ ایویں ان بچوں کے ساتھ مذاق کیاتھا۔‘‘ علی نے کہا تو اتنے میں اذان کی آواز سنائی دی۔ علی اٹھ گیا۔ اور وضو کرنے لگا۔ وہ سب اس کی طرف بڑے غور اور حیرت سے دیکھتے رہے۔ غلام نبی کو جب ہوش آیا تو وہ بہت کچھ سمجھ چکاتھا۔ س لئے وہ ادھر ادھر کی باتوں میں ، ان کے ذہن سے بات دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ علی صحن میں نہیں تھا، وہ اپنے کمرے میں چلا گیا تھا، اس نے گرد آلود جائے نماز اٹھائی اسے جھاڑا اور بچھا کر اللہ کے حضور حاضر ہو گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اگر چہ فرزانہ خاں اپنے آفس میں مضروف تھی۔ چند ملاقاتوں کے بعد وہ فائلیں دیکھ رہی تھی۔ کام اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن وہ خود کو خواہ مخواہ مصروف کئے ہوئے تھی۔ وہ لاشعوری طور پر حامد کی فون کال کی منتظر تھی جو صبح سے روہی گیاہوا تھا۔ فرزانہ نے اسے خصوصاً تاکید کی تھی کہ وہ جاتے ہی علی سے بات کروائے مگر ابھی تک اس کا فون نہیں آیا تھا۔ دوپہر ہونے کو تھی اسے یونیورسٹی بھی جاناتھا اس دن ان کا رزلٹ آنا تھا۔ بہت سارے کلاس فیلوز نے اس سے رابطہ کیاتھا۔ اس نے سب کو ٹریٹ دینے کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا۔ اک کمی تھی توعلی کی تھی۔ وہ پورے دل سے چاہ رہی تھی کہ علی بھی اس پارٹی میں ہو۔ وہ اس دن پورے خلوص سے اسے بلانا چاہتی تھی۔ فرزانہ کو یقین نہیں تھا کہ وہ اس کے بلانے پرآ جائے گا، مگر پھر بھی اس کا دل چاہ رہا تھاکہ ایک بار اسے بلاکر تو دیکھے۔ ساری فائلیں بھی ختم ہو گئی تھیں اور وہ فارغ ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ اسے افسوس بھی ہونے لگاتھا کہ حامد کی اس سے بات نہیں ہو سکی ہے۔ اس نے کلاک پر وقت دیکھا اور اٹھ گئی۔اس وقت وہ آفس سے باہر آ کر گاڑی میں بیٹھی ہی تھی کہ اس کے سیل فون پر حامد کی کال آ گئی۔ اس نے جلدی سے فون اٹینڈ کیا۔
’’ہاں بولو حامد۔۔۔‘‘ اس نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’میڈم۔۔۔ آپ نے علی صاحب سے بات کروانے کو کہا تھا لیکن یہاں سے پتہ چلا ہے کہ وہ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ وہ یہاں سے کل گئے ہیں۔‘‘
’’کل گیا ہے، پر کدھر۔۔۔‘‘ فرزانہ نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’یہ تو انہیں بھی نہیں معلوم، بس یہاں سے چلے گئے ہیں۔‘‘ حامد نے بے چارگی سے کہا تو فرزانہ نے دکھے ہوئے دل کے ساتھ فون بند کر دیا۔ نجانے کیوں اسے احساس ہونے لگا تھا کہ علی ایک بار پھر گم ہو گیا ہے۔ اب اس سے ملاقات ہو گی بھی یا نہیں۔ اگر ہو گی تو اس میں پتہ نہیں کتنا دورانیہ ہو گا۔ اگرچہ علی نے اسے اپنے با رے میں کچھ نہیں بتایا تھا لیکن فرزانہ بہت کچھ سمجھ گئی تھی۔ وہ اس راہ پر چل نکلا تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ وہ جو خود میں بہت زیادہ تبدیلی محسوس کرتی تھی، اس کی وجہ وہ علی ہی کو سمجھتی تھی۔ بلاشبہ یہ اس کی دعاؤں یا اس کی چاہت کا نتیجہ تھا جو وہ آج ایک مختلف فرزانہ خاں تھی۔ اسے وہ دن بھی یاد تھے جب وہ یونیورسٹی جایا کرتی تھی لیکن ابھی تک علی اس کے دل سے نہیں اترا تھا۔ وہ ان دنوں سے آج کے دنوں میں خود کا موزانہ کرنے لگی تو اسے زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ اسے اعتراف کرنا پڑا کہ وہ بہت ساری باتوں میں غلط تھی۔ انہی سوچوں میں کھوئی ہوئی وہ یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ جا پہنچی۔
وہ بہت دنوں بعد یہاں آئی تھی۔ وہ آخری بار اس وقت آئی تھی جب اس کی علی سے ملاقات ہوئی تھی اور اس نے دھیرے سے سب کو معاف کر دیاتھا۔ وہ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عجیب غم ناک قسم کی کیفیت میں مبتلا ہو گئی ۔ اس ے قدم سست ہو گئے یوں جیسے کسی بندے کادھیان کسی طرف ہو اور وہ جاکدھر رہا ہو۔ وہ یوں چلتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ کے کاریڈور میں آ گئی جہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ وہاں کھڑی ہو گئی۔ گئے دنوں کی یادوں کاہجوم اس کے اردگرد اکٹھا ہو گیا۔ اس میں وہ صرف علی ہی کو دیکھ رہی تھی۔ سامنے کے لان۔ روشیں، سنگی بینچ، کینٹین کی خالی کرسیاں، دور لائبریری یک سیڑھیاں، اس سے بھی آگے بس سٹاپ، درخت وہ سب اس کی نگاہ میں تھے جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہوئی تھی۔ ایک ایک واقعہ اسے یاد آ رہا تھا، علی کے ساتھ وہ ساری لڑائیاں، دھمکیاں اور ناراضگیاں اسے یاد آ رہی تھیں۔ جسے وہ بہت آسان خیال کررہی تھی۔ وہ اتنا ہی مشکل ثابت ہوا تھا۔ اسے خود پر ضبط نہ رہا اور وہ ہچکی لے کر رو دی۔ ان لمحوں میں وہ کوئی تعین نہیں کر پائی تھی کہ یہ آنسوں کیوں اس کی پلکوں پر اترے تھے۔ ندامت تھی۔ ہار جانے کا دکھ ، کھو دینے کا احساس تھایا پھر خود کو فنا کر دینے کا ماتم تھا۔ انہی کھردرے لمحوں میں اس کے کاندھے پر کسی کے ہاتھ رکھنے کا احساس ہوا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے سامنے علی کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اسے ایک لمحے کے لئے تو یقین نہیں آیا کہ اس کے سامنے علی کھڑا ہے۔ اس کی مسکراہٹ توخواب کی مانند تھی ہی لیکن۔۔۔ وہ کس قدر بدلا ہوا تھا۔ وہ رو ہی میں ملنے والا فقیر سائیں نہ جانے کہاں تھا۔ اس وقت تو بہترین سوٹ میں ملبوس، سلیقے سے سلجھے ہوئے بالوں اورچہرے کو مزین کرتی ہوئی داڑھی کے ساتھ وہ اس کی جانب دیکھ رہاتھا، اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی جسے وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں دیکھ پائی تھی۔ بس روہی کے فقیر سائیں کی ایک جھلک اس میں تھی، اس کارنگ جھلسا ہوا تھا۔ جیسے سفید رنگ سے تابنے کے جیساہو گیا ہو۔ فرزانہ کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی اس کے ہونٹوں پر سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
’’تم رو رہی ہو فرزانہ۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘علی نے اس قدر پریشان کن انداز میں پوچھا کہ فرزانہ کے رکتے ہوئے آنسو کسی طوفان کی مانند بہنے لگے۔ وہ احساس جس کے سننے کے لئے وہ تڑپ رہی تھی لفظوں کی صورت میں اس کی سماعتوں سے ٹکرا کر روح کی گہرائیوں میں اتر گئے تھے۔ ’’پلیز فرزانہ۔۔۔ تم یوں اس طرح۔۔۔ پلیز، اپنے آنسو روکو، کوئی دیکھ لے گا۔۔۔‘‘
تب فرزانہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے بے ساختگی سے کہا۔
’’مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے تو کسی بندے کی کیا پرواہ۔ آج میں نے اللہ سے جومانگا مل مجھے مل گیا ہے، ساری دنیا میں اعلان کر دو علی کہ وہ سمیع و بصیر ہے، سنتا ہے، ہر دکھی دل کی فریاد وہ سنتا ہے علی۔۔۔‘‘
’’بے شک فرزانہ۔۔۔ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی، لیکن تم نے جو بندوں سے نہ ڈرنے کی بات کی ہے تو یہ ہمارا مقام نہیں ہے۔ یہ غرور اور تکبر کی علامت ہے۔ اس سے بچناچاہیے فرزانہ۔۔۔ عاجزی اللہ کو پسند ہے۔‘‘ علی نے اسے دھیرے دھیرے سمجھاتے ہوئے کہا تو فرزانہ نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو صاف کر لئے۔
’’تم یہاں۔۔۔ کب آئے، فقیر سائیں روہی سے۔۔۔ یہ۔۔۔ علی کب بن گئے۔‘‘ فرزانہ نے دھوپ چھاؤں جیسے احساس کے ساتھ قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔ حالانکہ اس کا لہجہ اب بھی بھیگا ہوا تھا۔
’’میں ہمیشہ سے علی تھا فرزانہ۔۔۔ اب درویش بابا کی مرضی تھی کہ وہ فقیر سائیں کہتے تھے۔ مگر پلیز یہ بات بس خودتک محدود رکھنا، یہاں کہو گی تو مذاق بن جائے گا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں علی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکی، جیسے وہ کچھ کہناچاہتی ہو مگر کہہ نہ پا رہی ہو، پھر جیسے اس نے فیصلہ کر لیا، اور بولی۔ ’’علی۔۔۔ ایک بات کہوں ناراض تونہیں ہو گے نا؟‘‘
’’کہو۔۔۔ تم میری محسن ہو فرزانہ۔‘‘
’’محسن۔۔۔ اور میں۔۔۔ وہ کیسے۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے حیرت سے کہا۔
’’کسی دن وقت ملا تو بتاؤں گا۔ ابھی تو ہم رزلٹ معلوم کرنے آئے ہیں نا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رکا پھر جیسے اسے فرزانہ کا سوال یاد آ گیا۔ ’’تم کہو، کیاکہنا چاہتی ہو۔‘‘
’’تم نے خود ہی میری بات کاجواب دے دیا۔ جس دن تم مجھ سے باتیں کرو گے نا، اسی دن بتاؤں گی۔ بہت ساری باتیں کرنی ہیں، تم سے۔‘‘ فرزانہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہو سکتا ہے ہم آج ہی کسی وقت باتیں کرلیں، یاپھرکل، میں مہرو سے ملنا چاہوں گا۔ اب تمہاری اجازت کے بغیر تونہیں مل سکتا۔ ویسے تمہارا آج کا پروگرام کیا ہے؟‘‘
’’کاش میں نے کلاس فیلوز کو دعوت نہ دی ہوتی تو میں ابھی تمہیں لے کر اپنے آفس چلی جاتی، تم مہرو سے بھی مل لیتے اور باتیں بھی ہو جاتیں۔‘‘ اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا تو علی بولا۔
’’ڈونٹ وری فرزانہ۔۔۔ میں کل مل لوں گا۔ ویسے مہرو ٹھیک تو ہے نا؟‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے اوروہ جوآپ لوگ اسے پاگل پاگل کہتے تھے وہ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ وہ عام آدمی سے زیادہ عقل مند ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جینئس ہے۔ میں نے دوڈاکٹرز سے اس کا علاج کروانے کی کوشش کی، وہ دونوں ہی یہ رائے رکھتے ہیں۔ اب اس کی عقل مندی یا جینئس پن کیاکرے گا، جب تک اس کا ذہن کسی خاص سمت میں لگے گانہیں۔‘‘
’’اس کاذہن ایک طرف تو لگاہوا ہے؟‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جانتی ہوں، وہ سانول کی بات کرتی ہے، آپ لوگوں کو لگتا یہی ہے، خیر۔۔۔ میں اس وقت اس بارے میں بات اس لئے نہیں کروں گی کہ مجھے سمجھانا نہیں آئے گا، تم خود ڈاکٹرز سیمل لینا، وہ کچھ اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں۔ وہ تم ہی سمجھنا۔‘‘ فرزانہ نے قدرے بے بسی سے کہا۔
’’او کے آؤ چلیں۔۔۔‘‘ علی نے کہا اور پھر قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔ ’’یا تو ہم بہت جلدی آ گئے ہیں یا پھر سب سے آخر میں آ گئے ہیں۔‘‘
’’چلیں، دیکھتے ہیں۔‘‘ وہ بھی قدم سے قدم ملاتے ہوئے بولی۔
’’بہت تھوڑے سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ تھے۔ سبھی چیئر مین کے کمرے میں تھے اور یونہی پرانی یادوں کو دہرا رہے تھے۔ چیئرمین سمیت اساتذہ بھی موجود تھے۔ ان دونوں کے آتے ہی حیرت کا تاثر اٹھا اور پھر ہلچل سی مچ گئی۔ تبھی ان کی ایک تیز سی کلاس فیلو نے کہا۔
’’آئیے آئیے، ابھی آپ دونوں کا ہی ذکر خیر ہو رہاتھا۔‘‘
’’خیریت۔۔۔‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’یہ تو امید تھی کہ آپ اور علی دونوں ہی آؤ گے لیکن یوں اکٹھے آنا بہرحال ایک حیران کن بات ہے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس پر دونوں کچھ نہیں بولے، سب سے ملنے کے بعد وہ بیٹھے تو چیئر مین نے کہا۔
’’لو جی۔۔۔ اب آپ وہ اہم نیوز سنو، جو میں تم لوگوں کو سنانا چاہ رہاتھا، آپ سب نے تواپنا رزلٹ سن لیا۔ فرزانہ بھی فرسٹ کلاس میں پاس ہو گئی ہے اور علی۔۔۔ اس نے ٹاپ کیاہے۔‘‘
’’واؤ۔۔۔‘‘ سب نے اپنے اپنے طور پر حیرت اورخوشی کااظہار کیا۔ مبارک دی تو چیئر مین نے مزید کہا۔
’’گولڈ میڈل اورباقاعدہ انعام وغیرہ تو تقریب میں ملیں گے۔ اس کے مارکس دیکھ کر لگتاہے کہ یہ دوسری یونیورسٹیرز میں سے بھی ٹاپ کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے روئے سخت علی کی طرف دیکھا۔
’’میری وی سی صاحب سے بات ہوئی تھی۔ سینڈیکٹ میں یہ طے ہواتھا۔ ہم تمہیں یہاں کی لیکچر شپ آفر کرتے ہیں۔‘‘
’’اور سر میں اسے قبول کرتا ہوں۔ جب تک مجھے کوئی اور۔۔۔‘‘
’’وہ تمہارا حق ہے۔ مجھے امید ہے کہ تم اپنے کیئریر میں بہت آگے تک جاؤ گے۔ چیئر مین نے کہا۔ توان کے درمیان باتوں کا اک سلسلہ چل پڑا۔ کافی دیرتک باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ لنچ کے لئے اٹھ گئے جس کا اہتمام فرزانہ کی طرف سے مقامی ہوٹل میں تھا۔ اس دن علی اور فرزانہ کے درمین کوئی بات نہیں ہو سکی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
وہ ائیر پورٹ شہر سے باہر اور اپنے منظر میں یوں لگتاہے جیسے صحرا کے درمیان ہو۔ ممکن ہے مستقبل میں شہری آبادی اس کے قریب ہو جائے لیکن ان دنوں شہر اور ائیر پورٹ کے درمیان اچھاخاصا ویرانہ تھا۔ ائیر پورٹ پر کافی گہما گہمی تھی۔ فلائیٹ آنے والی تھی اور اس کے مسافروں کو لے جانے کے لئے بہت سے افراد وہاں موجود تھے۔ ان میں پیراں دتہ بھی کھڑاتھا۔ اس کے ساتھ آئے ہوئے چار باڈی گارڈ اسلحہ سمیت دو گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو ائیر پورٹ کے باہر بالکل تیار کھڑی تھیں۔ وہ سب قاسم شاہ کو لینے آئے تھے۔
سیدن شاہ نے صبح سویرے ہی پیراں دتہ کی ڈیوٹی لگادی تھی کہ قاسم شاہ کو ائیر پورٹ سے لے آئے۔ ہمیشہ وہ ہی لے کر آتا تھا اور سیدن شاہ گھر پر ہی ان کا استقبال کیا کرتا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی نے عرس سے محض دو دن پہلے آنا تھا جبکہ اپنے بیٹے کو فوراً آ جانے کے بارے میں سیدن شاہ نے خود حکم دیا تھا اور وہ اپنے باپ کے حکم کے تابع فوراً ہی روہی پہنچ رہا تھا۔
ائیرپورٹ کی عمارت کے اندر کھڑا ہوا پیراں دتہ جذباتی ہو رہا تھا۔ اس نے ساری زندگی اس خاندان کی غلامی کی تھی۔ اس نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ سیدن شاہ کا حکم جائز ہے یا ناجائز۔۔۔ اس کی زندگی کا مقصد صرف یہی تک کہ وہ اپنے پیر سائیں کا حکم بجا لائے۔ باقی وہ جانے اور اس کا کام۔ اس باعث وہ بڑھتی عمر کے ساتھ سیدن شاہ کا مرید خاص بن گیا تھا۔ قاسم شاہ کو اس نے اپنی گود میں کھلایا تھا۔ پھر بچپن ہی میں وہ اپنی ماں کے ساتھ برطانیہ چلا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ جب بھی آتا، وہ اس کی ذمہ داری بن جاتا تھا۔ اب وہ جتنی دیر بھی پاکستان میں رہتا، اس نے قاسم شاہ کے ساتھ رہنا تھا۔ یہ بھی سیدن شاہ کا حکم تھا۔
فلائیٹ آ چکی تھی تو مسافر آنے لگے۔ پیراں دتہ بے چینی سے قاسم شاہ کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر زیادہ وقت نہیں گزرا۔ وہ اس کے سامنے تھا۔ پیراں دتہ اپنی روایت کے مطابق اس کے گھٹنوں کو چھونے لگاتو قاسم شاہ نے جلدی سے اسے پکڑتے ہوئے کہا۔
’’کیوں شرمندہ کرتے ہو پیراں دتہ۔۔۔ تم میرے بزرگوں کی جگہ ہو۔ میں نے کئی بار منع کیا ہے کہ ایسا مت کیا کرو۔‘‘
’’ہمارا تو فرض ہے نا چھوٹے سائیں۔۔۔ آپ منع کرتے ہیں تو ہم خود کو گنہگار محسوس کرتے ہیں۔‘‘ پیراں دتے نے ہاتھ جوڑتے ہوئے انتہائی عاجزی سے کہا۔
’’اچھا ٹھیک ہے، یہ بتاؤ، سب ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’جی چھوٹے سائیں، سب ٹھیک ہے، آپ چلیں، پیر سائیں آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ اس نے پھر اسی عاجزی سے کہا تو قاسم شاہ نے اپنے سامان کی طرف اشارہ کیا اور بولا۔
’’یہ سامان رکھواؤ۔‘‘ قاسم شاہ یہ کہتے ہوئے ائیر پورٹ کی عمارت سے باہر کی جانب چل دیا۔
’’جی چھوٹے سائیں۔۔۔‘‘ پیراں دتہ نے سامان اٹھایا اور اس کے ساتھ چل دیا۔
ائیرپورٹ کی عمارت کے باہر گارڈز کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔ وہ ان سے ملا اور پھر گاڑی میں سامان رکھا اور وہ چل دئیے۔ انہیں شہر کی طرف نہیں حویلی کی جانب جانا تھا۔ ایک گاڑی میں ڈرائیور، قاسم شاہ اور پیراں دتہ تھے اور دوسری میں گارڈز تھے۔ دو گاڑیوں کا یہ قافلہ جلد ہی صحرا کے درمیان آ گیا۔
’’بہت افسوس ہوتا ہے، اس جگہ کو دیکھ کر اور بہت اچھا بھی لگتا ہے۔‘‘ قاسم شاہ نے لب کشائی کی۔
’’وہ کیسے چھوٹے سائیں۔۔۔؟‘‘ پیراں دتہ نے کہا۔
’’افسوس اس لئے ہوتا ہے کہ یہ ویرانگی پتہ نہیں کب آباد ہو گی۔ کب اس طرف توجہ ہو گی، اتنی بڑی زمین بے آباد اور بنجر پڑی ہے۔ اسے کسی نہ کسی طرح قابل استعمال کرنا ہو گا لیکن یہ معلوم نہیں کب؟‘‘ اس نے دکھے ہوئے دل کے ساتھ کہا۔
’’اور اچھا۔۔۔‘‘ اس نے جیسے یاد دلایا۔
’’یہ میری دھرتی ہے پیار ہے مجھے اس سے۔ ٹھنڈے ملک سے، لوگوں کے ہجوم سے نکل کر جب یہاں آتا ہوں تو بہت سکون ملتا ہے۔ یہ ویرانہ بھی بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ پرسکون سناٹا کتنا پیارا لگتا ہے۔‘‘ وہ اپنی ہی رو میں کہتا چلا گیا۔
’’سائیں۔۔۔ یہ تو فطری بات ہے نا کہ ہر بندہ اپنی دھرتی سے پیار کرتا ہے۔‘‘
’’اب دیکھو۔۔۔ ہماری جو زمین ہے، اس میں سے بہت زیادہ حصہ بنجر اور ویران پڑا ہے۔ اگر وہ قابل کاشت ہو جائے تو کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ کتنے گھر خوشحالی کی زندگی گزاریں۔‘‘ وہ پھر اپنی ہی رو میں کہنے لگا جس پر پیراں دتہ بولا۔
’’سائیں۔۔۔ اس بار آپ نے الیکشن لڑنا ہے۔ ایسی باتیں تقریروں میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن ایسے نہیں۔ ابھی آپ چھوٹے ہو۔ یہاں کے ماحول کو نہیں سمجھتے ہو۔ یہاں پر اگر حاکمیت رکھنی ہے تو لوگوں کو بس اتنا دو کہ وہ مریں نہیں۔ اگر یہ لوگ خوشحال ہو گئے تو پھر یہ کس کی بات سنیں گے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو پیراں دتہ۔ لیکن یہ بھی تو سوچو کو وہ کمائیں گے کس کے لئے؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تو پیراں دتہ ہنس دیا۔ پھر ان کے درمیان خاموشی قدرے طویل ہو گئی۔
ان کا سفر جاری تھا کہ ایک جگہ پر قاسم نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے بریک لگائی تو پیراں دتہ نے فوراً پوچھا۔
’’چھوٹے سائیں کیا بات ہے۔ رک کیوں گےء۔‘‘
’’بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہا اور منرل واٹر کی بوتل لئے وہ گاڑی سے نیچے اتر آیا۔ پھر دور تک دیکھتے ہوئے اس نے پانی کے چند گھونٹ لئے اور بوتل پیراں دتے کو تھماتے ہوئے بولا۔
’’تمہیں یاد ہے پیراں دتہ۔۔۔ ایک بار میں بچپن میں اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ یہاں پر شکار کے لئے آ گیا تھا۔‘‘ اس نے یاد دلایا تو پیراں دتہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’ہاں۔۔۔ اسی وجہ سے تو آپ کو برطانیہ بھیجا گیا تھا۔‘‘ قاسم آگے بڑھتے ہوئے بولا۔
’’کتنا خوفناک دن تھا وہ بھی۔ میں بابا سائیں کی گن لے کر آ گیا تھا۔ تم اگر اس دفعہ نہ ہوتے تو میں مر گیا ہوتا، ماما کتنی ناراض ہوئی تھی۔۔۔ یہی جگہ تھی نا وہ، اب وہ بھی ہرن ملتے ہیں یہاں۔‘‘
’’ہاں، یہی جگہ ہے وہ۔۔۔ ہرن نہیں ملتے اب۔ بہت زیادہ شکار ہونے کی وجہ سے وہ یہ علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ وہ باتیں کر رہے تھے کہ دوسری گاڑی کے گارڈز بھی نیچے اتر آئے۔
’’وہ بھی کیا دور تھا یار۔۔۔ کتنا ضدی ہوتا تھا میں۔‘‘ وہ اپنے بچپن کو یاد کرنے لگا تھا۔
’’چھوٹے سائیں چلیں، پیر سائیں آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘
’’چلتے ہیں یار۔۔۔ وہاں جا کر کل تک حویلی سے باہر نہیں آیا جائے گا، میں ذرا اس ہوا کو اپنے سینے میں اتارتا ہوں۔ تمہیں احساس نہیں ہے پیراں دتہ۔۔۔ مجھے یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ممکن ہے چند دن بعد نہ لگے۔‘‘ ابھی یہ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ پہلو کے ٹیلے سے چیتے کی سی تیزی کے ساتھ کوئی شخص نکلا اور انتہائی تیزی سے لڑھکتا ہوا قاسم شاہ کے پاس پہنچ گیا۔ پھر اگلے ہی لمحے گن کی نالی اس کی گردن پر رکھ دی۔
’’رب نواز تم۔۔۔؟‘‘ پیراں دتے نے انتہائی حیرت سے کہا تو وہ بولا۔
’’ہاں میں، اپنے لوگوں سے کہو ہتھیار پھینک دیں۔‘‘
’’تم کون ہو اور میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔۔‘‘ قاسم شاہ نے کہا، جس کا جواب دینا رب نواز نے مناسب ہی نہیں سمجھا۔ تبھی ایک پہلو سے آواز آئی۔
’’ہتھیار پھینکو یا فوراً مرنا پسند کرو گے۔‘‘
’’سب نے آواز کی سمت دیکھا وہاں دو اور لوگ گنیں تانے کھڑے تھے۔ صورت حال سمجھتے ہوئے پیراں دتے نے کہا۔
’’دیکھو رب نواز، تمہاری جو دشمنی ہے، وہ ہم سے ہے۔ ہمارے ساتھ جو چاہے کر لو، لیکن چھوٹے سائیں کو جانے دو۔‘‘
’’ابھی تک تمہارے لوگوں نے گنیں نہیں پھینکیں، لگتا ہے کہ یہی اس کو مروانے کے چکر میں ہیں۔‘‘ رب نواز نے طنزیہ انداز میں کہا تو پیراں دتے نے ہتھیار پھینکنے کا اشارہ کر دیا۔
’’سب دو ہو جاؤ۔‘‘
’’دیکھو رب نواز۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کرو کتے، بند کرو بھونکنا۔۔۔‘‘ رب نواز نے کہا تو ٹیلے پر موجود دونوں لوگ نیچے آ گئے۔ انہوں نے ان گارڈز کی تلاشی لے کر اطمینان کیا اور انہیں ایک طرف زمین پر لٹا کر گنیں سیدھی کر لیں۔
’’سن اوئے پیراں دتہ۔۔۔ میری تمہاری دشمنی ہے، تم مانتے ہو نا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ اس نے بمشکل کہا۔
’’اس لئے میں تمہیں یہاں نہیں ماروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’یہ گارڈز بے چارے، ان کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن یہ ہماری جان لے سکتے ہیں اس لئے انہیں ختم کر دو۔‘‘
اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ صحرا کا پرسکون سناٹا فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھا۔ اس میں ان گارڈز کی چیخیں بھی تھیں جن کا خون پیاسی ریت نے پی لیا تھا۔ یہ بڑا دلدوز منظر تھا۔ قاسم شاہ کی آنکھوں میں وحشت اتر آئی تھی۔
’’یہ ذرا قاسم شاہ کو سنبھالو۔‘‘ رب نواز نے اپنے ساتھیوں سے کہا تو رب نواز پیراں دتے کے پاس چلا گیا۔ پھر انتہائی غصیلے لہجے میں بولا۔
’’تیرے جیسے کتے، ان پیروں کی غلامی میں ہر بندے پر نہ صرف بھونکتے ہیں بلکہ انہیں کاٹتے بھی ہیں۔ میری قاسم شاہ سے کوئی دشمنی نہیں۔ میں اسے کچھ نہیں کہوں گا، میری دشمنی تو تم سے ہے۔ میری معصوم بہن مہرو کو تم نے بے عزت کیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے جنونی انداز میں برسٹ اس کی ٹانگوں پرمارا۔ وہ چیختے ہوئے ریت پر گرا اور تڑپنے لگا۔ وہ وحشیوں کی طرح اس کی طرف دیکھتا رہا پھر ہذیانی انداز میں بولا۔ ’’میں قاسم شاہ کو کچھ نہیں کہوں گا بلکہ اسے وہ لوگ ماریں گے جس کے بھائی خان محمد کو اس کے بے عزت باپ نے مروایا تھا، میرے ہاتھوں۔۔۔ ہم اسی کے انتظار میں خاموشی کے ساتھ دن گزار رہے تھے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ ان میں سے ایک دانت پیستے ہوئے بولا۔
’’میرا بھائی تھا خان محمد۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قاسم پر پل پڑا۔ اس نے انتہائی بے دردی سے اسے مارنا شروع کر دیا۔ ’’تیری نسل ختم کر دوں گا سیدن شاہ۔ سانپ کو بھی ماروں گا اس کے سنپولیے کو بھی ختم کروں گا۔‘‘ وہ وحشیوں کی طرح اسے مارتا رہا۔ جس وقت قاسم شاہ بے حال ہو گیا تو اس نے گن کی نالی اس کے ماتھے پر رکھی۔
’’نہ۔۔۔ نہ۔۔۔ ماتھے پر نہیں۔ دل پر مارنا۔ ماتھے پر مارو گے تو کون پہچانے گا کہ یہ سیدن شاہ کا پلا ہے۔‘‘ رب نواز نے تیزی سے کہا اس نے پہلا برسٹ اس کے سینے میں اتار دیا۔ رب نواز نے ڈرائیور کی جانب دیکھا تو خوف سے بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔
’’نہیں۔۔۔ مت ڈرو۔۔۔ تمہیں مار دیا توحویلی میں لاشیں لے کر کون جائے گا۔ اٹھاؤ ان کو۔‘‘ وہ دونوں ڈرائیور لاشیں گاڑیوں میں رکھنے لگے۔ پیراں دتے کو اٹھانے لگے تو رب نواز نے روک دیا۔ ’’نہ۔۔۔ اسے پڑا رہنے دو۔ اسے ابھی ہم نے مارنا ہے، اسے ہم لے جائیں گے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ڈرائیور ان لاشوں کو لے کر چل دیئے تو رب نواز نے پیراں دتے کو اٹھایا اور اسے رینگنے کے لئے کہا۔ ذرا سے فاصلے پر ان کی گاڑی کھڑی تھی۔ اس میں ڈالا اور چل دئیے۔ تنہائی پاتے ہی وہ اذیت ناک انداز میں معافیاں مانگنے لگا۔ وہ بولتا رہا، چیختا چلاتا را مگر ان تینوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ گاڑی چلتی رہی یہاں تک کہ وہ کچی بستی میں جا پہنچی اور پھر عین چوک میں لا کر رک گئے۔ گاڑی رکتے ہی کچھ لوگوں نے اس کی جانب دیکھا اور پھر جب رب نواز نے پیراں دتے کو گھسیٹ کر زمین پر پھینکا تو لوگ حیران رہ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں مجمع لگ گیا جس کے درمیان پیراں دتہ پڑا سسک رہا تھا۔
’’کچی بستی کے لوگو، یہی تھا وہ شخص جس سے تم خوفزدہ رہتے تھے، جو تم پر ظلم کرتا تھا۔ ایک بے غیرت شخص کے کہنے پر، آج یہ مرے ہوئے کتے کی طرح یہاں پڑا ہے۔ جس جس نے بھی بدلہ لینا ہے، آؤ اسے ٹھوکر مارو۔۔۔‘‘ رب نواز نے کہا تو کئی لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے بے دردی سے ٹھوکریں مارنا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ لوگ پیچھے ہٹ گئے تو وہ بولا۔
’’اب کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ سیدن شاہ کا ڈنگ بھی نکال دیا ہے، بہت جلد اس کا پھن بھی کچل دیا جائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے نفرت سے ایک برسٹ مرے ہوئے پیراں دتے پرمارا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر ایک سمت نکل گیا۔ کچی بستی کے لوگ حیران اور ششدر وہیں کھڑے رہے۔ کسی نے بھی لاش اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔ انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...