ماضی۔۔
۔
آج موسم صبح سے ہی خوش گوار تھا وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی۔۔ اشر ہسپتال سے ڈائریکٹ جلابیب کے گھر آیا تھا۔
دروازہ خالہ بی نے ہی کھولا تھا وہ جانتا تھا جلابیب کے گھر میں وہ اور خالہ بی کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا اسکے بابا کبھی کبھی ہی گھر پر ہوتے تھے ۔
“السلام عليكم خالہ بی کیسی ہیں آپ؟” اسنے خالہ بی کو سلام کیا ساتھ ہی انکی خیریت دریافت کی تھی۔
“میں تو بلکل ٹھیک ہوں پر تم اپنے دوست کی کچھ خبر لو کل سے تمہارے پاس سے آ کر کمرے میں بند ہوا پڑا ہے اللہ جانے کس کی تصویر بنا رہا ہے کہتا ہے خالہ بی پینٹنگ پر رہا ہوں” انہوں نے جلابیب کی جگہ اسکی کلاس لی تھی۔
“آپ فکر نا کریں خالہ بی میں دیکھتا ہوں اسے” وہ خالہ بی سے کہتا جلابیب کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔
کمرے کے دروازے پر پہنچ کر اسنے اپنی جیب سے ڈوبلیکیٹ کی(key) نکالی تھی جو ہر وقت اسکے پاس رہتی تھی ان دونوں کے بیچ کوئی چیز پرسنل نہیں تھی ۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہی وہ ٹھٹھکا تھا سامنے ہی جلابیب کینوس پر تصویر بنا رہا تھا اسے جلابیب کو تصویر بناتا دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی تھا۔ وہ تو تصویر دیکھ کر حیران ہوا تھا۔نظریں جھکائے سفید ڈوپٹے کے ہالے میں وہ خوبصورت تصویر رابیل کی تھی۔ اسنے ایک نظر تصویر پے ڈالی تھی اور پھر جلابیب کو دیکھا تھا جو بہت پیاری مسکان ہونٹوں پر سجائے اس تصویر پر رنگ بکھیر رہا تھا۔ وہ رابیل کی تصویر بنانے میں اتنا مگن تھا کے اسنے اندر آتے اشر کو بھی نہیں دیکھا۔
“میرا اندازہ غلط نہیں تھا” اشر منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
“تو تو بہت چھپا رستم نکلا دوست کو بتانا بھی گوارا نہیں کیا کے اب اسکا یار بیکار ہو چکا ہے”۔ اشر نے اسکے بلکل قریب آکر کہا تھا۔
اتنے قریب سے اشر کی آواز سن کر جلابیب اچھلا
“اشر تو کیوں آیا میں میرا مطلب ہے تو کب آیا؟” وہ مسلسل کینوس کو چھپانے کی کوشش میں آگے پیچھے ہو رہا تھا۔
“ابھی ہی آیا ہوں میں تو خالہ بی بتا رہیں تھیں کے تو کل سے کوئی تصویر بنا رہا ہے؟ میں نے سوچا میں بھی دیکھ لوں ایسی کون سی تصویر ہے جسے میرا دوست سب کام چھوڑ چھاڑ کر مکمل کر رہا ہے۔۔ اب ہٹ آگے سے میں پہلے ہی دیکھ چکا ہوں ” اشر نے بہت آرام سے اس پر بم گرایا تھا۔
۔
“اشر دیکھ یار میں تجھے بتاتا ہوں تو پلیز مجھے غلط نہیں سمجھنا اور رابیل کچھ نہیں جانتی ہیں اس بارے میں اور تیری قسم میں نے انکو بری نیت سے نہیں دیکھا اشر”۔ وہ آنکھوں میں نمی لئے کہ رہا تھا۔
۔
“پاگل ہو گیا ہےکیا تو، میں کیا تجھے جانتا نہیں ہوں تو ایسی بات کر بھی کیسے سکتا ہے؟ اور رابیل میری بہن ہے اگر تیری نیت پر مجھے شک ہوتا تو آج تو صحیح سلامت کھڑا نہیں ہوتا یہاں سمجھا۔ اب اٹھ سالے پھر تو میں تیرا سالہ بن جاؤنگا”۔ اسکی بات سن کر جلابیب نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا تھا جو مسکرا کر اسکو ہی دیکھ رہا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ اشر کے گلے سے لگ گیا تھا۔
۔
“اب چھوڑ بھی دے یار، میں معصوم کمزور سا ڈاکٹر ہوں تیرے جیسا پہلوان نہیں” اشر کی پھنسی پھنسی آواز نکلی تو جلابیب نے اسے خود سے الگ کیا۔
۔
“تو نہیں جانتا وہ لڑکی میرے لئے کیا بن گئی ہے اشر”۔ وہ بات اشر سے کر رہا تھا مگر نظریں کینوس پے لگی رابیل کی تصویر پر ٹکی تھیں۔
۔
“چل نا اب مجنوں نہیں بن۔۔ میں آج ہی ماما سے بات کرونگا۔” اشر نے شرارت سے کہا تھا۔
۔
“وہ بہت خوبصورت ہیں اشر بلکل بارش کی ان بوندوں کی طرح شفاف، پاکیزہ انھیں دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کے کہیں میلی نا ہو جائیں” وہ گلاس ونڈو سے باہر بارش کی بوندوں کو دیکھ کر کہ رہا تھا۔
“جانتا ہے انہوں نے آج تک نظریں اٹھا کر میری جانب نہیں دیکھا۔ اور اچھا ہی کیا کیوں کے مجھے لگتا ہے اگر میں نے انکی آنکھوں میں دیکھ لیا نا تو میں کبھی انکے سحر سے رہا نہیں ہو پاؤنگا”۔
اور اس وقت اشر اسے یہ نہیں کہ پایا تھا کے اسکے سحر سے تو وہ اب بھی آزاد نہیں ہے۔
۔
لاکھوں کی مالیت کا اکلوتا وارث خوبصورتی اور وجاہت میں اپنی مثال آپ۔ “جلابیب زوار” جسے ایک بار دیکھنے والے رک کر دوبارہ ضرور دیکھتے تھے۔ وہ جلابیب قیدی تھا۔ “رابیل حدید” کی محبت کا قیدی اور قیدی کب بلا معاوضہ رہا ہوتے ہیں۔۔
۔۔
!!سنو تم نے کہا تھا نہ،
مجھے جذبہ محبت سے کبھی جو تم پکارو گے،
میں اس دن لوٹ آؤنگی،
تو دیکھو نا۔۔۔
کئ لمحوں
کئ سالوں
کئ صدیوں سے
یہ تیرا راستہ تکتی یہ میری منتظر آنکھیں،
میرے دل کی یہ دھڑکن اور سانسیں،
بس تمہارا نام لیتا ہوں۔
یہی ایک ورد کرتا ہوں،
میری آنکھوں کے ساحل پر تیری یادوں کے موجوں نے
تیری تصویر۔ سوکھے پھول اور تحفے۔۔۔
تیری چاہت کے خوشبو میں ابھی تک سانس لیتے ہیں،
وہ سب راستے کے جن پہ میں اور تم ساتھ چلتے تھے۔
!!سنو
تکمیل پاتی چاہتوں کو یوں ادھورا تو نہیں چھوڑو۔
مجھے مت آزمائو تم۔
چلو اب لوٹ آؤ نا تم!!!
۔
وہ آج پھر عرش کی قبر پر بیٹھا اس سے باتیں کر رہا تھا۔
” آپ کو پتا ہے عرش فرشتے ایک مہینے کی ہو گئی ہے آج وہ رابیل کو دیکھ کر آوازیں بھی نکالتی ہے عرش اور جانتی ہیں میری گود میں آتے ہی رونے لگتی ہے”۔
وہ عرش کی قبر پر ہاتھ پھیرتا کہ رہا تھا۔ اسکے آنسوں مسلسل قبر پر گر رہے تھے۔
“آپ نے میرے ساتھ یہ بہت غلط کیا ہے عرش ۔ آپ آپ نے وعدہ نہیں نبھایا عرش آپ تو کہتی تھیں میرے ساتھ بوڑھی ہونا چاہتی ہیں آپ۔۔ یوں بیچ راہ میں ساتھ چھوڑ گئیں آپ تو عرش” وہ سسکا
ابھی تو ہمیں بہت کچھ ساتھ کرنا تھا عرش ہماری فرشتے اسے ہم دونوں کی ضرورت ہے میں میں اکیلا اسے نہیں سمبھال سکتا عرش مجھ سے نہیں ہوتا عرش ۔۔
وہ اونچا لمبا مرد اس وقت بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔
اس وقت اگر کوئی اسے دیکھ لیتا تو اسکے لئے یقین کرنا مشکل ہوتا کے وہ عنصر یزدانی ہے۔۔ جسکے پیچھے ایک دنیا چلتی تھی ایک لڑکی کے لئے یوں رو رہا تھا۔۔
مگر “عشق تو بڑے بڑے بادشاہوں کا سر اپنے آگے جھکنا جانتا ہے”
ہاں شہزادہ رو رہا تھا مگر شہزادی ۔۔۔ وہ تو سکون سے سوئی پڑی تھی۔۔
۔
وہ فرشتے کو گود میں لئے اس سے باتوں میں مگن تھی۔۔ شاید وہ عرش کی کمی فرشتے سے پوری کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔ مگر عرش کی کمی کہاں پوری ہو سکتی تھی۔
“جانتی ہو فرشتے یہ تمہاری ماما کو بہت پسند تھے”۔ اسنے چھوٹی چھوٹی کچھ چوڑیاں فرشتے کے ننھنے ہاتھوں میں ڈالیں تھی۔۔دو آنسوں چپکے سے اسکے گال کو بھگو گئے تھے۔۔
جبھی فون پر مسلسل آتی کال نے اسکی توجہ کھینچی تھی۔۔ سکرین پر جلابیب کا نام دیکھ کر اسنے فرشتے کو کاٹ میں لیتا کر کال ریسیو کی ۔
۔
“کیسی ہیں رابیل؟” جلابیب کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائ تھی۔
۔
“میں ٹھیک ہوں”۔رابیل نے آہستہ سے کہا۔ آنسوؤں کا ایک گولہ اسکی حلق میں پھنسا تھا۔۔
۔
“میں جانتا ہوں آپ ٹھیک نہیں ہیں رابیل۔ کیا میرا اتنا بھی حق نہیں رابیل کے آپ مجھ سے اپنے دکھ اپنی تکلیف شیئر کر سکیں”۔
۔
“میں میں اسے بھول نہیں پا رہی ہوں جلابیب ۔ وہ مجھے بہت یاد آتی ہے”۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔ اس سے زیادہ اس میں برداشت نہیں تھی۔۔ یہی چیز تو اتنے دنوں سے مس کر رہی تھی یہی لہجہ ۔۔
“۔
“آپ کو کون کہ رہا ہے۔۔ رابیل کے آپ عرش کو بھول جائیں۔۔آپ اس طرح روئیں نہیں یہ رونا عرش کو بھی تو تکلیف دے رہا ہوگا نا۔
وہ اپنے مخصوص لہجے میں رابیل کو سمجھا رہا تھا۔ اسکا دل چاہ رہا تھا اس لڑکی کے سارے آنسوں اپنے انگلیوں سے چن لے اسے سارے غم سے آزاد کر دے۔۔
۔
“آپ کے آنسوں مجھے بہت تکلیف دیتے ہیں رابیل پلیز یوں نا رویا کریں”۔
۔
اسکی بات سن کر رابیل ہوش میں آئ تھی یہ کیا کہ رہا تھا وہ ۔۔ وہ رو رہی تھی؟ اسنے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔ آنسوں مطلب وہ سچ میں رو رہی تھی مگر وہ جلابیب کو کیوں بتا رہی تھی یہ سب۔۔ اسنے ایک نظر اپنے فون کو دیکھا تھا۔۔
۔
رابیل۔۔ رابیل دوسری طرف سے جلابیب اسے پکار رہا تھا۔
۔
اگلے ہی لمحے اسنے فون کاٹ دیا تھا۔۔
“میں میں جلابیب کو کیوں بتا رہی تھی یہ سب” وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھامے بیٹھتی چلی گئی تھی۔
“جلابیب اب بھی نامحرم ہیں”۔ وہ بڑبڑآئ تھی
“یا اللہ مجھ سے جلابیب کو نہیں لینا میرے مولا” وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کے وہ یہ دعا کیوں کر رہی تھی ۔۔ آنسوں تواتر سے اسکی ہتھیلیوں پر گر رہے تھے ۔۔۔۔
وہ نہ جانے کتنی دیر یونہی روتی رہی پھر کچھ سوچ کر اٹھی اسکا رخ کمرے سے منسلک باتھ روم کی جانب تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ وضو بنا کر نکلی تھی اور اب وہ جائے نماز بچھائے اپنے رب کے آگے دستِ سوال تھی۔ اسکے دونوں ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھے ہوئے تھے مگر لب خاموش تھے آنسوں مسلسل اسکی ہتھیلی پر گر رہے تھے۔
“آپ تو سب جانتے ہیں نہ اللہ پاک آپ تو دلوں کے حال سے بھی واقف ہیں پلیز مجھے معاف کر دیجیے۔۔ میں جانتی ہوں آپ برداشت سے زیادہ بوجھ کسی پر نہیں ڈالتے۔۔ میری بھی برداشت ختم ہو رہی ہے میرے مولا۔۔ عرش کے بعد اب اب کچھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے مجھ میں اللہ۔۔”
وہ بری طرح سسک رہی تھی اسکے لب خاموش تھے۔ وہ جانتی تھی “اُس دربار میں اپنے غم بتانے کی ضرورت ہی کہاں پیش آتی ہے۔۔ وہ رب تو دلوں کے راز پڑھ لیتا ہے۔۔”
وہ بس خاموش آنسوں بہا رہی تھی۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...