’’خوشبو کا سفر‘‘ ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے ، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!
اسلامی معاشرے میں سیر و سیاحت کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔علمِ جغرافیہ سے گہری وابستگی اور فنِ جہاز رانی پر کامل دسترس نے فرمانِ الہی’’سِیرو فِی الارض‘‘ پر عمل پیرا ہونے میں مسلمانوں کی پوری اعانت کی ہے۔ سفر کو وسیلہِ ظفر بنانے والے مسلم سیاح کچھ سیکھنے اور کچھ سکھانے کا جذبہِ فراواں لے کر دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچتے رہے۔ ہر خطہِ زمیں کا سفر ہی انہیں مرغوبِ خاطر نہ تھا، وہاں کی تہذیب و تمدن کا غائر مطالعہ بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا تھا۔ یہی نہیں، معاشرت و معیشت کے رنگارنگ پہلووئں پر مبنی ایسا سفرنامہ وہ لکھ گئے جس نے اس صنف کو ابد الآباد تک کے لئے زندگیِ جاوداں عطا کر دی۔ ایسے سفرنامے لکھنے والوں میں المسعودی، ابو زید سیرانی، البیرونی، ابنِ بطوطہ اور ناصر الدین شاہ قاچار کے نام خاصے نمایاں ہیں۔ خواہ عربی ہو یا فارسی، ان زبانوں میں سفرناموں کا ایک ایسا سلسلہ دراز ملے گا جو مسلمانوں کے شوق و جذبے کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ماہ و سال کی دبیز گرد بھی اس کی تابناکی کو ماند نہیں کر سکی ہے۔ اُردو زبان میں ’’ سفر نامہ‘‘ کی صنف اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے۔ اس کی جڑیں ماضی بعید میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوسف خان کمبل پوش، سرسید احمد خان، خواجہ حسن نظامی اور مولانا شبلی نعمانی نے اپنے اپنے وقت میں سفری رواداد لکھ کر اس فن کوآگے بڑھایا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صنف کو پروان چڑھانے میںاُردو کے کئی ادیب پیش پیش رہے ہیں۔
آج اس صنفِ ادب کے افق پر ایک اور ستارہ اُبھرا ہے۔میری مراد طارق محمود مرزا سے ہے جو’’ خوشبو کا سفر‘‘ لے کر روادادِ سفر سنانے آئے ہیں۔ گوجرخان کے اس سپوت نے آسٹریلیا کے وسیع و عریض بر اعظم میں اپنی افسانی نگاری،کالم نویسی،صحافتی فنکاری سے اردو زبان کا پھریرا تو لہرا ہی دیا تھا، اب دیگر مغربی ملکوں کی خاک چھان کر ایسا سفرنامہ پاکستان کی قومی زبان کی جھولی میں ڈال دیا ہے جو ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے ، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!
کچھ سفر محض اس غرض سے کئے جاتے ہیں:
ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے‘‘
لیکن طارق صاحب کا سفر’’ چیزے دیگر است‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ان کا تحریر کردہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ایسی تحریر کا درجہ رکھتا ہے جو مختلف ملکوں کے سیاسی حالات، طرزِ جہاں بانی، لوگوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور نظریاتِ زندگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔اس سفر نامے نے ہر خطے کے باسیوں کا خط و خال او رنگ و روپ اُجال دیا ہے۔ طارق صاحب نے وہاں کے رہنے والوں کے من میں جھانک شعور کی رو ’’ خوئے حوا ‘‘ کے جلترنگ کو بھی ’’گننے‘‘ کی کوشش کی ہے۔قدِ آدم شیشوں میں سجی سجائی اور ’’ قدرتی لباس ‘‘ میں ملبوس جیتی جاگتی حسینائوں کے انگ انگ کو دستِ نگا ہ سے مَس بھی کیا ہے۔ مگر قابلِ تعریف ہیںکہ اُردو کے صوفی منش شاعر خواجہ میر دردؔ کے مشہورِ زمانہ شعر کو اپنے اوپر’’ لاگو‘‘ہی نہ ہونے دیا
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
ان کا دامن بھی سلامت رہا، بندِ قبا بھی بند کا بند رہا اور یہ حضرت تمام جل پریوں کے رنگا رنگ سائے سے خود کو بچاتے ہوئے سڈنی پہنچ گئے اور ہمارے ہاتھوں میں ایسا ضخیم سفرنامہ پکڑا گئے جو ایک تہذیب کا اُجالا بھی ہے اور ایک تہذیب کا زخم بھی!
پروفیسرڈاکٹر محمود الرحمن
علامہ اقبال یونیورسٹی ، اسلام آباد
۷ اپریل ۲۰۰۸ء