میں نے خوشبو کا سفر تفصیل سے اور دلچسپی سے پڑھی ہے ۔خوشبو کا سفر رکتا نہیں، ہوائیں اس کو لے کر پھرتی ہیں اور فضائیں اسے اپنے گلے لگاتی ہیں۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بڑے عرصے بعد ایک ایسا سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا جسے گھر بیٹھے نہیں لکھا گیا بلکہ انتہائی دلچسپ سفر کے بعد تحریر کیا گیا۔ ویسے بھی یہ کتاب اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اس میں اتنی سلاست ہے، اتنی روانی ہے، اتنی دلچسپی ہے، اتنی ندرت ہے، اتنی قدرت بیان ہے، اتنی حیرتیں ہیں۔ فی الواقعہ کتاب تحریر اور واقعات کے لحاظ سے دلچسپ اور بھرپور ہے۔ سفر زندگی کا حصہ ہے۔ انسان کا پہلا سفر تو وہ ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؔ نے کہا تھا
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
حضرت ابراہیم کو سفر کے نتیجے میں پیغمبری ملی، موسی علیہ السلام کا نیل کی موجوں پر سفر، نبی کریمﷺ کا شام اور ہجرت کا سفر اور آپﷺ کا وہ سفر جس کے بارے میں اقبالؔ نے کیا تھا۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیﷺ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں گردوں
سفر ہر کوئی کرتا ہے لیکن سفرنامہ کوئی کوئی لکھتاہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے فی الحقیقت یہ ساری اصناف سخن میں سب سے مشکل کام ہے۔ طارق مرزا نے مشکل کام کس آسانی سے کر دکھایا۔’خوشبو کے سفر‘ میں افسانہ بھی ہے ، ڈرامہ بھی ہے ، مکالمہ ، شاعری، منظر نگاری، خاکہ نگاری بھی ہے۔ نثر شاعرانہ ہے، منظر نگاری اتنی دلکش ہے کہ موصوف کا سراپا نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور پھر مصنف خود کو اس منظر سے اتنی خوبصورتی سے الگ کرتا ہے کہ ایک دلچسپ سین بیان کرتے کرتے ٹرین درمیان سے گزار دیتا ہے۔
خوشبو کا سفر میں مغرب کا کرب بیان کیا ہے جو اوپر سے خوشحال اور خوش دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اس میں ہر سو خار چبھے نظر آتے ہیں لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ وہ اپنی خارزرہ تہذیب ہمارے اوپر مسلط کی جارہی ہے۔ ثقافتی دہشت گردی ملاحظہ فرمایئے کہ تہذیب مشرق کی خوبصورت روایات کو پامال کرکے ویلنٹائن ڈے ، نیو ائر ، لو میرج ، شادی کے بغیر بے رکاوٹ میل جول ، شراب و شراب سے آلودہ مخلوط پارٹیاں، ڈش ، انٹرنیٹ ، سیٹلائٹ اور ٹی وی کے ذریعے ہماری تہذیب اور دین پر نقب لگائی جارہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ بقول اقبالؔ
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا
سنا ہے میں نے قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
ہماری قوم کب ہوشیار ہوگی؟ یہ سوال ہے خوشبو کے سفر کا!
میں مبارک باد دیتا ہوں طارق محمود مرزا کو ان کی بہترین تصنیف پر اور دعا کرتا ہوں کہ خوشبو کے سفر کی شہرت ہر جگہ سنائی دے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
صدر حلقہ علم و ادب پاکستان