بائیس ستمبر 1930 کو چرچ کی طرف سے نوجوان nuns کو کہا گیا کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں تین سو الفاظ پر مشتمل ایک مضمون لکھیں۔ یہ خواتین زیادہ تر بیس سے پچیس سال کے درمیان کی تھیں۔ اس میں انہوں نے اپنے بچپن سے اب تک کے خیالات کے بارے میں لکھنا تھا اور یہ کہ انہوں نے نن بننے کا انتخاب کیوں کیا۔ ہاتھ سے لکھے گئے ان مضامین میں ہر ایک کی شخصیت کی جھلک نظر آتی تھی۔
ان مضامین کو محفوظ کر لیا گیا اور یہاں پر وہ کئی دہائیوں تک پڑے رہے۔ ساٹھ سال بعد کینٹکی یونیورسٹی میں لمبی عمر پر تحقیق کرنے والوں کو ان کا پتا لگا۔ اور وہ اپنے تحقیق کے لئے nuns کو ہی استعمال کر رہے تھے۔ ان میں سے 180 وہ تھیں جنہوں نے ساٹھ سال پہلے یہ خطوط لکھے تھے۔
یہ ایک غیرمعمولی موقع تھا۔ سائنسدانوں نے ان مضامین کے جذباتی مندرجات کا تجزیہ کیا۔ ان کی مثبت، نیوٹرل اور منفی میں تقسیم کیا۔ اور پھر اگلے نو سال میں ان کی ذاتی مزاج اور ان کی زندگی کے دورانیے کا تعلق نکالا۔ نکلنے والا نتیجہ حیران کن تھا۔ جو نن سب سے مثبت تھیں، ان کی زندگی کا اوسط دورانیہ سب سے منفی کے مقابلے میں دس برس زیادہ تھا۔
یہ وہ تحقیق تھی جس نے ایک نئے شعبے کے لئے ایندھن فراہم کیا۔ یہ “مثبت نفسیات” کا شعبہ ہے۔ نفسیات میں عام طور پر لوگوں کے مسائل اور ذہنی بیماریوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ جبکہ مثبت نفسیات میں مثبت جذبات کو دوچند کرنے پر۔
یہ اپروچ خاص طور پر بڑے کاروباری اداروں میں مقبول ہوئی ہے۔ کیونکہ خوش ملازمین بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اور یہ ہمیں ایک اپنے کوگنیٹو فلٹرز کو ڈھیلا کرنے کے ایک اور طریقے کا بتاتا ہے۔ اس کے لئے منشیات یا ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں۔ بہتر موڈ بہتر تخلیقی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔
یہ سمجھنے کیلئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ مثبت اور منفی جذبات میں فرق کیا ہے۔ منفی جذبات میں خوف، غصہ، اداسی، کراہت وغیرہ ہیں۔ ان کا اثر ہمارے خودکار اعصابی سسٹم پر ہوتا ہے۔ اس کا اثر دل کی دھڑکن بڑھ جانا یا متلی ہونا وغیرہ ہیں۔ ہر ایک جذبہ طے کرتا ہے کہ ہمارا ردِ عمل کس طرح کا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ ایسا ہے جو کہ ٹھیک نہیں۔ ہم خطرے پر ایکشن لیتے ہیں۔ غصہ حملے کرنے، خوف بھاگ جانے، کراہت بدن سے کھایا ہوا نکال دینے کی تحریک دیتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں مختلف قسم کے مثبت جذبات میں کوئی خودکار ری ایکشن نہیں ہے۔ خوشی، تشکر یا سکون پر کوئی خودکار ایکشن نہیں لینا پڑتا۔
منفی جذبات کسی ردِعمل کی طرف فوری توجہ مانگتے ہیں۔ اور یہ کوگنیٹو چھلنیوں سے آنے والے خیالات کو مزید محدود کر دیتا ہے۔ لچکدار سوچ کے لئے یہ مضر ہے۔
جبکہ اچھا موڈ فرق ہے۔ چونکہ ان کے ساتھ ایکشن کرنے کو نہیں تو پھر یہ توجہ کو ایک نکتے تک محدود نہیں کرتے۔ پھر یہ کرتے کیا ہیں؟ مشی گن یونیورسٹی میں نفسیات کی محقق باربرا فریڈرکسن کے مطابق یہ اس سے بالکل الٹ کام کرتے ہیں۔
فریڈرکسن کا کہنا ہے کہ مثبت جذبات سوچ کا دائرہ وسیع کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی تحریک دیتے ہیں کہ ہم نئے تعلقات بنائیں، نیٹورک وسیع کریں، اپنے ماحول کا کھوج لگائیں اور نئے انفارمیشن کو جذب کرنے کیلئے تیار ہوں۔ ان میں ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ خوش مزاجی کا زندگی کی طوالت میں حصہ ڈالتی ہے۔
فریڈرکسن کا کہنا ہے کہ سوچ کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے کوگنیٹو چھلنی کو کھولنا پڑتا ہے۔ یہ ہمیں مسائل کے حل کے لئے وسیع تر دائرہ کار دیتا ہے۔ اور تجربات ان کی پیشکردہ تھیوری کی حمایت کرتے ہیں۔
ان سے پتا لگتا ہے کہ اچھے موڈ اور نئے خیالات کا براہِ راست تعلق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جاننا اچھا ہے کہ ہمیں پتا لگے کہ مثبت موڈ کا دماغ پر کیا اثر ہوتا ہے لیکن زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ مثبت نفسیات اس تک پہنچے کے طریقے بتاتی ہے۔ اور اس سے سیکھے گئے سبق صرف لچکدار سوچ کے لئے ہی نہیں بلکہ زندگی کیلئے بالعموم مفید ہیں۔
اس سے آنے والے کچھ سبق تو خود ہی عیاں ہیں۔ مثلا، ہم سب کو خوشگوار ایکٹیویٹی میں حصہ لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں سادہ ترین چیزیں شامل ہیں جیسا کہ ناول پڑھنا یا گرم پانی سے نہا لینا۔۔۔ یا پھر اچھی خبر ملنے پر وقت نکال کر اس کا لطف لینا اور اس کی خوشی منانا، اسے اپنے پیاروں کے ساتھ شئیر کرنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثبت نفسیات میں جس چیز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے یہ اظہارِ تشکر کی مشق ہے۔ لوگوں کو وہ چیزیں لکھنے کو کہا جاتا ہے جس کیلئے وہ خدا کے شکرگزار ہیں۔ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ روشن دن، اچھی صحت یا کچھ بھی اور۔
ایک اور قسم کی مشق اس تحقیق کی بنا پر ہے جو بتاتی ہے کہ ہم دوسروں کیلئے کچھ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کو “مہربانی کی مشق” کہا جاتا ہے۔ یہ شکرگزاری کی مشق کی طرح ہیں۔ لیکن اس میں ان چیزوں کی فہرست بنانے کا کہا جاتا ہے جو آپ نے دوسروں کیلئے کی ہیں۔
اس طرح دوسری مشقیں بھی ہیں اور ان کا مرکزی خیال یہی ہے کہ آپ اپنے بارے میں مثبت انفارمیشن سے زیادہ آگاہی حاصل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر دفاعی مشقیں ہیں۔ کیسے ان منفی سوچوں کو نکالا جائے جو ذہن پر حملہ کرتی ہیں۔ اس کا پہلا قدم اس بات کو قبول کرنا ہے کہ بری سوچ کونسی ہے اور اس کو دبائے بغیر اس بات کو تسلیم کرنا ہے۔ قبول کر لینے سے اس کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ تصور کریں کہ یہ سوچ آپ کو نہیں بلکہ آپ کے دوست کو آئی ہے۔ اسے کیا مشورہ دیں گے؟ مثلاً، آپ نے اپنے کام میں کوئی غلطی کر لی ہے تو کیا آپ اسے یہ تسلی دیں گے کہ ایسی غلطی کبھی کبھار ہو جاتی ہے اور اس سے آگے بڑھا جائے؟ اب یہ مشورہ آپ خود کو دے سکتے ہیں۔
یہ دفاعی تکنیک طاقتور ہے۔ اور ٹرائل بتاتے ہیں کہ یہ ڈیرپشن کی علامات کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش رہنا ذہنی پیداواری کیلئے اچھی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔ وہ لوگ جن کی زندگی کا فوکس اس پر ہے کہ کیا مقاصد حاصل کر لینا ضروری ہے، وہ اس کو تبدیل کر کے وہ کام کر سکتے ہیں جو انہیں خوشی دیتے ہیں۔ اور اس سے ہونے والا اچھا موڈ اپنے سائیڈ ایفیکٹ کے طور پر انہیں اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر لینے میں بھی مددگار ہو گا۔ اپنی مصروف زندگی کے مسائل کے مقابلے کیلئے خوش مزاجی ایک بہت کارگر ہتھیار ہے۔
اور یقینی طور پر یہ کسی بھی طرح کے نشے سے زیادہ موثر ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...