اردو ادب نے گزشتہ ساٹھ برسوں میں کئی رنگ برنگے دَور دیکھے ہیں۔کبھی مختلف نظریاتی گروہوں نے اسے اپنے نظریات کی تشہیر کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہا تو کبھی اسے صرف جمالیاتی حوالے سے دیکھنے پر اصرار کیا گیا۔ کبھی اسے فرائڈین سوچ کے زیرِ اثر لانے کی کوشش کی گئی تو کبھی ادب کو مصنف کی ذاتی زندگی کے آئینے میں جانچنے کی کاوش کی گئی۔ جدید افسانے میں جب تجریدیت کو فروغ دیاجانے لگا تب بڑی بے نیازی سے یہ کہا جانے لگا کہ ہم تو اپنے اندر کی آواز پر لکھتے ہیں۔قاری کو سمجھانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔
یہ سارے ادوار مختلف رنگوں کی صورت اردو ادب کے گرد حاشیے بناتے رہے۔ ان سب میں جزوی سچائیاں بھی تھیں۔تجریدیت کے تجربے میں بھی ایک جزوی سچائی تھی لیکن بدقسمتی سے اسے کلی سچائی سمجھ لیا گیا ۔تجریدیت کے حوالے سے جدید اردو افسانے میں بے معنویت کا سیلاب آیا۔ یہ بے معنویت کاسیلاب اس لحاظ سے با معنی تھا کہ اردو افسانے کی پرانی معنویت کو ، جوزنگ آلود ہو چکی تھی، صاف کر دے۔ چنانچہ جن افسانہ نگاروں نے اس سیلابی دَور کو عبور کر لیا ان کے یہاں نئی معنویت کے انکھوے پھوٹنے لگے۔ جنہوںنے سارے سیلابی تماشے کو دیکھنے کے بعد افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا ان کے یہاں بھی یہی با معنی صورت دکھائی دیتی ہے لیکن جو افسانہ نگار بے معنویت کی سیلابی حالت سے ابھی تک باہر نہیں آسکے ان کے یہاں ٹھہرے ہوئے پانی والی حالت دور سے ہی معلوم ہو جاتی ہے۔ان کے ساتھ یہ ظلم اس لئے ہوا کہ انہیں چند ایسے ناقدین اور شارحین ملک گئے جو ان کی بے معنی تحریروں سے دُور کی کوڑی لانے لگے۔ ابھی تک تخلیق اور تخلیق کار کی اہمیت بنی ہوئی تھی اور قاری کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
جیسے ہی ہمارے یہاں ساختیاتی(اور ساخت شکن)تنقید کے چرچے ہونے لگے،بے معنی تحریروں میں خود ساختہ معنویت باور کرانے والے ناقدین اور شارحین کی بن آئی۔میں اس نئے تنقیدی دسپلن کو بھی ایک جزوی سچائی سمجھتا ہوں لیکن ہمارے ایسے ناقدین جو تخلیقی صلاحیت سے عاری تھے انہیں یہ تنقیدی ڈسپلن کچھ زیادہ ہی راس آنے لگا۔ انہوںنے سوچا کہ جب ہم کسی بے معنی ، بے تکی تحریر میں معانی کے صدرنگ جلوے پیدا کر لیتے ہیں تو پھر سارا کمال تو ہمارا اپنا ہوا۔ تخلیق کیا اور تخلیق کار کیا!___ چنانچہ قاری کی آڑ لے کر تخلیقی لحاظ سے بانجھ ناقدین نے تخلیق کار کو تخلیق سے اس طرح نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال ____ تخلیق کار کو اپنی ہی تخلیق کے قاری ہونے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔یہ کھیل تماشہ ابھی جاری ہے ۔ کبھی ادب کی ٹوپی سے خرگوش نکال کر دکھائے جارہے ہیں اور کبھی رومال میںسے کبوتر برآمد ہو رہے ہیں۔ یار لوگ تماشے سے فارغ ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ ادب تو تخلیق کار ، تخلیق اور قاری کے مابین ایک توازن قائم کرتا ہے۔
دیویندرا سر میرے میرے لئے اس لئے اہم ادیب ہیں کیونکہ انہوںنے جدید اردو افسانے کے سیلابی دور کو نہ صرف دیکھاہے بلکہ اسے عبور کیا ہے۔پھر ساختیاتی تنقید کے مثبت پہلوﺅں کی توصیف کرتے ہوئے اس کے منفی پہلوﺅں کا انہوں نے انکار بھی کیا ہے۔ یوں ان کے یہاں ایک اعتدال دکھائی دیتا ہے۔ بحیثیت تخلیق کار انہوں نے تجریدیت کے سیلاب سے گزر کر اپنا رستہ بنایا ہے۔”خوشبو بن کے لوٹیں گے“ ان کے اس ادبی سفر کی روداد بھی ہے ، ان کی ذاتی زندگی کی تصویر بھی ہے ۔
تجریدی افسانے میں حقیقت سیال حالت میں ہوتی تھی جس کے خدوخال واضح نہیں ہو پاتے تھے۔دیویندراسر نے اپنے ناولٹ میں اسے وضاحتی بیانیہ روپ ہرگز نہیں دیا لیکن اس میں حقیقت سیال حالت سے ابھر کر سیماب جیسی صورت اختیار کر گئی ہے۔اسے آپ ٹھوس اور سیال حالتوں کی درمیانی صورت بھی کہہ سکتے ہیں اور تجریدی اور بیانیہ کا امتزاجی روپ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تجریدیت سیال حالت میں نہیںبلکہ اپنے علامتی خدوخال بھی لے کر آئی ہے ۔جب آپ اسے گرفت میں لینا چاہیں تو اپنے وجود کا احساس تو دلاتی ہے لیکن وضاحتی یا بیانیہ کی طرح پوری گرفت میں نہیں آتی بلکہ اسے ابھی مس کرنے سے یہ معنی ظاہر ہوئے تھے تو دوبارہ مس کرنے سے معنی کی ایک اور پرت سامنے آتی ہے۔ معانی کے یہ متعدد پرت توہیں لیکن ساختیاتیوں کے دعوے کی طرح لا محدود نہیں ہیں۔یوں دیویندراسر کا یہ سفر تجریدیت سے علامت کی طرف ،بے معنویت سے معنویت کی طرف،اور اینٹی سٹوری سے سٹوری کی طرف کا سفر بن گیا ہے۔سٹوری بھی کیسی۔۔۔اپنی زندگی کی کہانی۔۔۔۔ایک کہانی کار کی کہانی۔
اس کہانی کے آغاز میں ہی دیویندراسر نے ایک سوال کی نشاندہی کی ہے:۔
”عمر کا ایک ایسا موڑ آتا ہے کہ اچانک ہمیں یہ آواز سننی پڑتی ہے اور اپنے آپ سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میںنے زندگی سے کیا سلوک کیا ہے؟ اس کے تئیں میرا کیا رویہ رہا ہے؟اور اگر ہم یہ آواز نہیں سنتے تو ہم اس سوال کوالٹ دیتے ہیں۔زندگی نے میرے ساتھ کیا کیاہے؟میرے تئیں اس کا رویہ کیا رہا ہے۔“
”خوشبو بن کے لوٹیں گے“ میں اس سوال کے دونوں رُخ دکھائی دیتے ہیں۔
دیویندراسر ۱۴/ اگست ۱۹۲۸ء کو کیمبل پور ( موجودہ ’اٹک‘) میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹برس کی عمر میں انہیں قیام پاکستان کے نتیجے میں بھارت آنا پڑا۔یہ نقل مکانی ان کی روح میں ایک گھاﺅ کی صورت اختیار کر گئی۔
”تم جہاں پیدا ہوئے ہو ، اس دھرتی سے، اس نگر سے، اس گاﺅں سے، اس جنگل سے ہجرت کر سکتے ہو لیکن اپنے اندر سے اس دھرتی کو ، اس نگر کو ، اس گاﺅں کو، اس جنگل کو باہرنہیں کر سکتے____ لیکن میری تہذیب، میرا سماج، میری حکومت ، میرا مذہب ، میری تعلیم، میری معیشت، روزگار، رشتہ دار ، بیوی ، بچے مجھے ایک گھیرے میں بندکر کے اس بھوت کو نکالنے کے لیے مجھے ہر روز اذیت دیتے رہتے ہیں لیکن یہ بھوت یا پرچھائیں میرے اندر سے نہیں نکلتی۔“
”تمہیں داخلہ نہیں مل سکتا____ کیا ثبوت ہے کہ تم وہی ہو جو تم بتا رہے ہوکہ تم نے بی اے پاس کیا ہے۔ کیا ثبوت ہے ۔ کوئی کاغذ ، کوئی پرچہ، کوئی گواہ، کچھ بھی نہیں تو تمہارے پاس ____
ہاں کچھ بھی تو نہیں تھا میرے پاس____ نہ کاغذ ، نہ پرچہ، نہ کوئی ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ نام، نہ گھر، نہ دیش____ میرا گھر، میرا نام، میرا چہرہ سب کچھ ریکھا کے اس پار رہ گیا تھا جو کاغذ پر کھینچی، زمین پر اتری اور دلوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔تقسیم کا فیصلہ ان لوگوں نے کیا تھا ،پنجاب جن کا وطن نہیں تھا۔ ان کا نام تھا، گھر تھا، دیش تھا،پہچان تھی۔پہچان کیوں نہ ہوتی۔انہوںنے وائس ریگل لاج میں لارڈ اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ لنچ کیا تھا۔ ان کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ ان کے پاس اخباروں کے پلندے تھے، شناخت کے سب اوزار تھے اور میرے پاس کاغذ کا ایک پرزہ بھی نہ تھا۔پہچان کیسے ہوتی؟“
اپنی دھرتی سے جدائی کا دکھ بھوگنے سے پہلے دیویندراسرایک اور اہم جدائی کے سانحے سے گزر چکے تھے لیکن ابھی ان کے ییہاں اس جدائی کا دکھ جوان نہیں ہوا تھا۔ جدائی کا یہ سانحہ پانچ برس کی عمر میں رونما ہوا جب ان کی ماں فوت ہو گئیں۔ ماں کی موت کا وقت سر پر آن پہنچا تھا اور وہ اپنے پانچ سالہ ننھے بچے سے ملنا چاہتی تھیں۔ بچہ سو رہا تھا۔ نوکر نے آکر جگایا کہ ماں بلا رہی ہے ۔ بچے نے کروٹ بدلی اور پھر سو گیا کہ ماں سے صبح مل لوں گا۔نوکر نے زبردستی اُٹھایا اور نیچے لے آیا:
”ماں کمرے میں لیٹی ہوئی تھی۔ نیچے فرش پر چار پائی سے لگے پِتا ماں کا ہاتھ پکڑے بیٹھے تھے۔ موسی، نانا، ماما، بھائی اور کئی لوگ کمرے میں موجود تھے ماں نے مجھے قریب بلایا۔ میں اس کی چھاتی پر سر رکھ کر سو گیا شایداس نے میری پیٹھ تھپتھپائی تھی۔ دعائیں دی تھیں۔ کچھ یاد نہیں ۔ سب خواب تھا، جو ٹوٹا تو سب رو رہے تھے۔ ماں نہیں رہی تھی۔“
لیکن ماں تو دیویندراسر کے اندر آن بسی تھی___
”اپنے اندر زندہ ماں کی ہتیا کر دو، ایک بچے سے بڑھ کر بالغ ہو جاﺅ، اس بچے کو بھی قتل کر دو، ہر اس چیز کو جس کا تعلق تمہاری ماںسے ہے، تمہارے بچپن سے ہے اسے فنا کر دو۔میںنے فرائیڈ کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھا۔“
”کتنا سمے بیت گیا، میں نہ اپنی ماں سے الگ ہو سکا اور نہ ہی اپنے اندر کے بچے ہی کو پیچھے چھوڑ سکا۔ اپنی ماں کی نا بھی ڈور سے بندھا اور اپنے اندر کے بچے کو گود میں اٹھائے کوئی کتنا لمبا سفر طے کر سکتاہے۔“
ماں کے علاوہ ”عورت“ کا ایک اور روپ دیویندراسر کے یہاں بے حد نمایاں ہے۔ ایک بھر پور جسم والی عورت، اس عورت کا پہلا تجربہ اُنہیں پندرہ برس کی عمر میں ہوا۔ گاﺅں کی ندی میں ایک لڑکی کے ساتھ نہانے کا انوکھا تجربہ _____
”میری پیٹھ کو ذرا ادھودو۔میل چھوٹ جائے گی۔ میرے ہاتھ نہیں پہونچتے____ اس نے کہا تھا۔۔۔۔۔اور میری انگلیوں نے پہلی بار آنچ محسوس کی تھی۔ آنچ اتنی شیتل ، اتنی راحت بخش ہو سکتی ہے ۔مجھے معلوم نہ تھا۔“
اس کے بعد عورت کے جسم کے تعلق سے متعدد تجربات آتے ہیں لیکن اس تجربے کی لذت سب سے الگ تھی، پھر ایک اور عورت ان کی زندگی میں داخل ہوئی:
”جب تم پڑھتے پڑھتے اونگھنے لگو گے تو ہولے سے تمہیں شال اوڑھا دوں گی۔جب تم لکھتے لکھتے تھک جاﺅ گے تو تمہاری میز پر گرم گرم کافی کا پیالہ رکھ دوں گی اور ہاں تمہیں سردیوں میں سانس کی شکایت ہو جاتی ہے نا ___ تمہاری چھاتی پر ہولے ہولے بام مل دوں گی اور پھر بلی سی دبک کر تمہارے پہلو میں سو جاﺅں گی۔“
لیکن پھر شاید وہ اپنی کہی ہوئی باتیں بھی بھول گئی ۔تب دیویندراسِر اپنی ماں کی طرف لپکے:
”دیو! آواز آئی ۔ کیسے ہو؟
اچھا ہوں _____
تم کتنے بڑے ہو گئے ہو ۔ کھانا لائی ہوں اور سنا ہے تم کھانا خود بناتے ہو۔
___ہاں۔ اچھا بنا لیتا ہوں ____
جب بیمار پڑتے ہو تو؟ ___
کچھ کھا ہی لیتا ہوں ____
اور باہر؟ ____
کبھی کبھی ____
کیا کہا تھا اُس نے ؟ _____
کہا تھا کہ تمہارے خاندان میں کسی کو عورت کا سُکھ نہیں ملا۔تمہیں بھی نہیں ملے گا___ ماں مسکرا دی۔لو کھاﺅ____ میںنے ہاتھ بڑھایا، کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی بھی نہیں تھا۔“
”خوشبو بن کے لوٹیں گے“ پڑھتے ہوئے میں نے دیویندراسر کے بنیادی مسئلے کو تلاش کرنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے مجھے اسی ناولٹ سے ہی کلید کامیابی ملی ہے۔ وہ کلید جس سے ان کے مسئلے کا دروازہ کھلتا ہے یہ ہے:
”میری دلچسپی پرندے میں کم، اُڑان میں زیادہ رہی ہے۔ پھول میں کم خوشبو میں زیادہ۔ دل میں کم دھڑکن میں زیادہ ، جسم میں کم روح میں زیادہ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روح کا راستہ جسم سے ہو کر گزرتا ہے۔“
دیویندراسر ایک مضطرب آریائی روح ہے۔ آبائی وطن ، ماں اور عورت یہ تینوں علامتیں دراوڑی تہذیب کی اس قوت کا مظہر ہیں جو مفتوح ہو کر بھی فاتح ہو جاتی ہے۔عورت کا ہر روپ زرخیزی اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ دھرتی ماں بھی عورت جیسے کردار کی حامل ہے ۔ دیویندراسر کا آریائی روپ انہیں جسم کی سطح سے اٹھا کر روح، دھڑکن ، خوشبو اور پرواز کی طرف لانا چاہتاہے لیکن روح کا ہر روپ اپنے اظہار کے لئے جسم کا محتاج ہے ۔اسی احتیاج کا دکھ ہی اس کہانی کار کی اصل کہانی ہے لیکن یہ دکھ پورے ناولٹ میں ایک میٹھی اذیت کی طرھ سرایت کر گیا ہے۔زندگی نے ان کے ساتھ دو طرح سے برتاﺅ کیا ہے۔روح بن کر انہیں جسم سے بچ کر رہنے کی تلقین کی ہے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ بچ کر رہنا خاصا مشکل ہے۔ دوسری طرف زندگی نے دھرتی ، ماں اور عورت کی صورت میں بار باراپنی طرف بلایا ہے۔۔۔۔ خود انہوں نے بھی زندگی کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کیا ہے۔
”خوشبو بن کے لوٹیں گے“کے ذریعے مجھے دیویندراسر کے اندر آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کا ہزاروں برس پرانا تصادم ویسے کا ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔بظاہر آریائی فاتح ہے اور دراوڑی مفتوح لیکن اصل حقیقت تو کچھ اور ہے ۔تصادم کایہ منظر نامہ میرے لئے اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ تاریخ کے طویل دَورانیے کے اس کھیل کا اگلا کردار ایک عربی کے روپ میں میرے اندر بھی کہیں چھپا بیٹھا ہے۔
(مطبوعہ ماہنامہ اوراق لاہور،شمارہ :فروری مارچ ۱۹۹۵ء
عالمی اردو ادب دہلی۔شمارہ :۱۹۹۵ء دیوندر اسر نمبر)