(Last Updated On: )
ارشد کمال(دہلی)
خورشید تیزگام ہے یہ کیا مذاق ہے
دن میں ہی ذکرِشام ہے یہ کیا مذاق ہے
جنگل میں بوڑھے پیڑ پہ کرگس کے پاس پاس
شاہین کا قیام ہے یہ کیا مذاق ہے
ظلمت کو بے لگام مرے پیچھے چھوڑ کر
جگنو کا اہتمام ہے یہ کیا مذاق ہے
دریا اُبل کے چرخ کو چومے تو ہے، مگر
ساحل ہی تشنہ کام ہے یہ کیا مذاق ہے
کشتی کی کج روی پہ کسی کی نظر نہیں
دریا پہ اتہام ہے یہ کیا مذاق ہے
کہتے ہیں سیلِ وقت کا اک موجۂ نشاط
منسوب میرے نام ہے یہ کیا مذاق ہے
ارشدؔ! چمن میں پھول تو آزاد ہیں، مگر
خوشبو اسیرِدام ہے یہ کیا مذاق ہے