(Last Updated On: )
خرد ہُشیار ہو جائے انا بیدار ہو جائے
کچھ ایسے حادثہ سے دل مرا دوچار ہو جائے
قیامت جھیلنے کو پہلے دل تیار ہو جائے
کرے پھر آرزو اس حسن کا دیدار ہو جائے
ہجومِ غم کی یورش بے اثر بے کار ہو جائے
نہ خود احساسِ دل گر در پئے آزار ہو جائے
سیہ خانہ یہ دل قندیلِ صد انوار ہو جائے
اگر ان کی توجہ کی نظر اک بار ہو جائے
میں ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں
سکوں سے سانس لینا تک بھی جب دشوار ہو جائے
نشاطِ زندگی منت پذیرِ مرگ ہے یعنی
نہ مرنا ہو تو جینے ہی سے دل بیزار ہو جائے
دلِ ویراں کی ویرانی مجھے تسلیم ہے لیکن
ابھی تم اک نظرؔ ڈالو یہی گلزار ہو جائے
٭٭٭