(Last Updated On: )
میں نے جیسے ہی اپنی گاڑی اسٹارٹ کی وہ تیزی سے میری گاڑی کے آگے آ گئی ۔ میں نے شیشے کو نیچے کرکے کہا ۔۔۔ ’’ کیا ارادے ہیں؟‘‘ ۔۔۔ ’’نیک ارادے ہیں ، ہمیں بھی ساتھ لے چلیے۔‘‘
’’ کہاں؟‘‘
’’ جہاںتک سندھو چلتا جائے۔‘‘
اچھا ۔۔۔ صرف سندھ کے کنارے کنارے!
ہاں!
دیکھ لیجیے ! تنہائی، رات ، خوشبو ، رفاقت اور ۔۔۔ سب ساتھ ہوں گے۔
’’ تو اور مزہ آئے گا۔‘‘
اچھا آئیے بیٹھ جائیے۔
اس نے دروازہ کھول کر بیٹھتے ہوئے کہا ’’ آپ کا شکریہ!‘‘
میں نے اس پر اک گہری نظر ڈالی ، وہ بلا کی حسین نوجوان تھی ، کسا کسا سا جسم، خوبصورت بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ لمبے بل کھاتے بال۔۔۔ سروقد۔۔۔ غنچہ دہن۔۔۔ صبیح و ملیح چہرہ، موتیوں جیسے دانت۔۔۔ میں نے کہا ۔
محترمہ آپ یہاں کیسے؟
میں یہاں قلندر باباکی نگری میں دل کا حال کہنے آئی ہوں پھر دبئی چلی جاؤں گی۔
اکیلی۔۔۔
ہاں اور کیا ۔۔۔
دبئی میں کب سے قیام ہے؟
چار سال سے۔۔۔
کیا کوئی ملازمت کرتی ہیں؟
نہیں ۔۔۔ کچھ اور کاروبار ہے۔
یہ اورکاروبار کیا ہوتا ہے۔
بس اسے بھی زندگی کا اک انوکھا رُخ جانیے گا۔
اچھا ۔۔۔ زندگی کے کتنے رُخ ہوتے ہیں؟
لاتعداد۔۔۔ بے شمار۔۔۔ محبت اور نفرت سے لبریز۔۔۔ سمندر کی طرح جس کا کوئی انت نہیں ہے؟
تمھارے حصے میں کیا آیا ہے؟
وہ سب کچھ وہ زندگی میں ہوتا ہے۔۔۔ تلخ و شیریں۔۔۔
اچھا میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ میری گاڑی میںکیوں بیٹھی ہیں؟
آپ ایک مکمل شریف آدمی ہیں۔
کیا یہ سب کچھ میرے ماتھے پر لکھاہے؟
ہاں۔۔۔ میں۔آپ کو کار میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا آپ ایک مکمل شریف آدمی ہیں۔ آپ کا انداز بہت اچھا اور جچا تلا تھا ۔ شریف آدمی کا سلیقہ دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔ قلندر کی نگری میں لاتعداد آئینے موجود ہیں۔ انھیں دیکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
آپ کا مقصد ’ ’انوار سہون‘‘ سے ہے۔
ایسا ہی سمجھ لو، بلکہ جان لو۔۔۔ اور مان لو کہ بن بلائے یہاں کوئی نہیں آتا۔
’’ میںحیرت زدہ ہوں کہ آپ مجھے نہ جانے کیوںشریف آدمی سمجھ رہی ہیں؟‘‘
’’ سنو! میرا تجربہ میرا رفیق ہے ۔ میں نے زندگی میںہزاروں آدمیوں کے ساتھ سفر کیا ہے ۔ مکمل اور نامکمل، آسوہ اور ناآسودہ۔ حالت ہوش و حالت مدہوشی میں ، رنگین اور چمکتی راتوں میں ، طوفانی برساتوں میں، شہروں اور صحراؤں میں ، جنگل اور بیابانوں میں۔‘‘
’’ میں آپ کو کس نام سے پکاروں؟‘‘
ماروی۔۔۔ اس نے کہا۔
پھر تو تمھیں تھر کی ریت بہت پسندہو گی۔
آپ کہہ سکتے ہیں ، ویسے کیا تھر میں سب راج دلارے ہی رہتے ہیں؟
ماروی اور عمر۔۔۔ اور کوٹ۔۔۔ کون سی کس کی کھونٹ۔
پیارے زندگی بھی تو عمر کا اک کوٹ ہی ہے جس میں حاکمیت دھری رہتی ہے۔۔۔
ہاں! عورت کا اصل گھر’’ چاردیواری‘‘ ہی تو ہے۔۔۔
بجا ۔۔۔ صحیح۔۔۔ عورت کوٹ میںاچھی لگتی ہے ۔۔۔ مگر جب تک کم عمر ہو۔۔۔ زیادہ عمر کی عورتوں کو کوٹ برداشت نہیں کرتے۔۔۔
میں ماروی ہوں۔۔۔ اور طرح کی۔۔۔ روتی کم ہوں ، رلاتی زیادہ ہوں۔
ماروی۔۔۔ باب تہذیب میں یہ درج ہے کہ غمزہ و عشوہ ، دلبری ، حسن اور تکبر ہی لوگوں کو رلاتے ہیں ، کوئی کسی کو نہیں رلاتا ۔ سب خود ہی روتے ہیں ۔ بتلائیے پہاڑوں سے چشمے کیوں ابلتے ہیں؟
اوہو! آپ نے بڑی جاندار بات کی ہے ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ سنا ہے سنگ دل کی آنکھ سے آنسو نہیں بہتے ۔
کیا شعر و شاعری سے بھی دل چسپی ہے۔۔۔
نہیں! بس کبھی کبھار کسی گیت وغیرہ سے دل بہلا لیتی ہوں۔ ذرا سا آگے چل کر گاڑی روکیے گا۔
کیوں ۔۔۔ شور مچانے کا ارادہ ہے۔۔۔ میں کچھ بسکٹ اور پانی کی بوتل خریدوں گی۔۔۔ لمبا سفر ہے اورنوجوان رفیق ہمراہ۔۔۔
دیکھو ماروی وہ سامنے پولیس اسٹیشن ہے ، وہاں گاڑی کھڑی کرکے بآواز بلند پکاروں کہ لوگو مجھے ایک ظالم حسینہ سے بچاؤ، جو مجھے زبردستی اغوا کرکے لے جا رہی ہے۔
میرے پیارے۔۔۔ یہ سین یورپ کی فلموںمیں ہوتے ہیں ۔۔۔ یہاں لوگ الٹا سمجھتے ہیں ۔ وہ مان ہی نہیں سکتے کہ کسی مرد کو کوئی عورت اغوا کرسکتی ہے اور پھر تم جانتے ہو عورت کاجبر۔۔۔ اس کے آنسو ہیں جنھیں دیکھ کر بڑے سے بڑا سورما بھی ’’ ڈھے ‘‘ جاتے ہیں۔
اچھا ماروی اگر تم اور میں دبئی کے کسی صحرا میں سفر کر رہے ہوتے اور راستے میں کوئی ’’ بدو‘‘ ہمارا صحرا میں استقبال کرتا تو۔۔۔
بدو بھی بہت شریف ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ بات ان کے اونٹ بھی جانتے ہیں تو پیارے بدو کوتو خیمے کے باہر ہی ہونا تھا ، خیمے کے اندر تو ہم تم ہوتے۔۔۔
تو پھر کیا ہوتا۔۔۔
کیا ہوتا۔۔۔ میں بڑے سکون سے نماز ادا کرتی ۔۔۔ اس لیے کہ شریف آدمی کے ساتھ سفر کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
تو پھراب تم نے کیانماز پڑھ لی ہے۔
ہاں۔۔۔ میں نماز پڑھ کر ہی قلندر کی نگری سے چلی ہوں۔
اور شاید تم نے بھی نماز پڑھی ہے، تمھاراصاف چہرہ بتلا رہا ہے۔
ماروی میراچہرہ عادی چور ہے۔۔۔ زندگی میں، میں نے فلیش بہت کھیلی ہے۔ چہرے پر معصومیت طاری کرنا مجھے خوب آتا ہے۔
اچھا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ بہروپیے ہو۔۔۔میں نے کہا ہے کہ تم ایک مکمل شریف آدمی ہو، مجھے اب بھی یقین ہے کہ تمھارے جسم میں دوڑتا لہوا تمھیں کانپنے پر مجبور کر دے گا کیوں کہ وحشی نہ اجالا دیکھتا ہے نہ تاریکی۔۔۔ ایسے میں رب کا ذکر اور شکر ہی کام آتا ہے۔
ماروی کیا تم نے مجھے عمر کوٹ کا بادشاہ عمر سمجھ رکھا ہے۔
پیارے صرف عمر خیر کا استعارہ ہے اور زندگی کا سہرا ہے ۔ نفس کو کنٹرول کرنا ہی جہاد ہے۔
بزور قوت بستیوں کو تاراج کرنے والے ہمیشہ عبرت کا نشان بنے ہیں۔
کیا عمر عبرت کا نشان ہے ؟
نہیں۔۔۔ مگر وہ جو ظالم بنے ، نفس کے غلام بنے، وہ ہمیشہ سخت خسارے میں رہے ہیں۔
ماروی فتنے کی جڑ ہے نفس۔۔۔ نفس امارہ۔۔۔
ہاں میرے رفیق سفر۔۔۔ گناہ کی لذت فتنے کو سر اٹھانے کا موقع دیتی ہے۔۔۔ مجھے سخت پیاس لگ رہی ہے وہ دیکھیے۔۔۔ دکان ہے شاید۔۔۔ مجھے پانی لے دیں۔۔۔
میں نے گاڑی روکی اور اتر کر دکان سے پانی اور بسکٹ خرید کر ماوری کو لا دیے۔
یہ پیسے لے لیں۔۔۔ ماروی نے سو کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے پیسے دے دیے ہیں۔۔۔ اس لیے کہ آپ ہماری مہمان ہیں اور مہمان کے ساتھ ہمیشہ عزت و احترام سے پیش آیا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنا’’ گناہ‘‘ ہے۔
میرے اچھے رفیق سفر۔۔۔ یہ احساس گناہ ہی انسانوں کو بچاتا ہے۔ یہ احساس جو دلوں میں پیدا کرتا ہے، وہی خدا ہے، خدا کے پیارے بندے ، اب ہماری گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرے گی ۔ تنہائی ہمیشہ نفس امارہ میں گدگدی پیدا کرے گی ۔ بے قابو جذبے ہمیں روندھتے کو تیار ملیں گے ۔ ایسے
میں صرف ذکر خدا کرنا ہی نفس امارہ کو پانی پانی کرتا ہے ۔ مجھے یہ پتہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب تم نے مجھے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا اور میں نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھا ، رات کے ٹھیک آٹھ بج رہے تھے ۔ قلندر کی نگری میں سناٹا بڑھ رہا ہے ۔ زائرین اپنی اپنی راہ لے رہے تھے، میں نے سوچا عمران میاں۔۔۔ یہ خاتون تمھاری مدد چاہ رہی ہے۔ انسانی صداقت اور رشتے ناطے ہمیشہ سے دردمندوں کی مدد کرتے آئے ہیں۔۔۔ میں اگر اک بے سہارا اور مظلوم لڑکی کی مدد کر سکوں تو۔۔۔ شاید زندگی میں بہار آجائے۔
اے مرے رفیق۔۔۔ میں تمھیں مظلوم نظر آتی ہوں۔
ماروی۔۔۔ نوجوان اور خوبصورت اکیلی لڑکی نظر آنا ہی مظلومیت ہے۔
وہ کیسے؟
ماروی یا تو تمھارے گھر میں تمھارا کوئی چاہنے والا ، محبت کرنے والا موجود نہیں ہے جو تم اکیلی اس پسماندہ اور دوردراز علاقے میں پھر رہی ہو بے سروسامان۔
نہیں نہیں۔۔۔ قلندر میرے ساتھ ہے۔ اس نے خود بٹھایا ہے مجھے تمھاڑی گاڑی میں۔ سنو میں مزار کے سامنے والی گلی میں کھڑی ہوئی تھی۔ اک باریش شحص نے میرے قریب آ کر کہا ۔۔۔ بیٹا۔۔۔ یہ جو سامنے گاڑی آ رہی ہے ، اسے روکو اور اس میںسوار ہو جاؤ۔۔۔ جاؤ اللہ بھلا کرے گا ۔ یہ گارنٹی ملتے ہی میں آپ کی گاڑی میں بیٹھ گئی اور سنو۔۔۔ یہ سارا سفر بے خطر، امن و امان سے کٹ جائے گا۔ تم جان لو کہ میں نے اپنا سارا احوال قلندر سے کہہ دیا ہے ۔۔۔ میں جنس کی ماری ہوئی ہوں، نفس کی نہیں۔۔۔
ماروی ۔۔۔ تم مجھے بہت عزیز ہو۔۔۔ کیوں۔۔۔ یہ قصہ امریکہ سے شروع ہوتا ہے۔قلندر سائیں نے مجھے امریکہ سے چراغ جلانے کے لیے بلایا ہے اور خواب میں تمھیں۔ تمھارے ہونے والے شوہر اور سندھو کے کنارے مچھیروں کی بستی دکھائی ہے۔
اچھا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بات صحیح ہے۔۔۔ مجھے بھی دبئی میں اک خواب میں ، تمھیں ، میرے سرتاج اور سندھو کے کنارے مچھیروں کی بستی دکھلائی ہے ،۔ میری بات غور سے سنو ۔۔۔ نکاح پڑھانے والے مولوی صاحب کو بھی دکھلایا ہے ان کی پگڑی سبز ہو گی ۔۔۔ سبز۔۔۔ یاد رکھنا۔۔۔
ماروی ۔۔۔ میرا رب جب رحم کرنے پر آتا ہے تو نہ جانے کہاں سے اسباب و علل آ کر یکجا ہو جاتے ہیں۔۔۔ دیکھو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر تمھارے لیے ایک خوبصورت ڈبہ رکھا ہے ۔۔۔ یہ ڈبہ مجھے قلندر کے مزار کے اندر ۔۔۔ ایک عمر رسیدہ خاتون نے دیا تھااور کہا تھا عمران بیٹے یہ تحفہ تمھاری بہن ماروی کے لیے ہے۔۔۔
میں نے حیران ہو کر کہا تھا۔۔۔ مادر مشفق۔۔۔ میری تو کسی بھی بہن کا نام ماروی نہیں ہے۔ اس پر خاتون نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ یہ بات مجھے قلندر بابا نے بتلائی ہے۔۔۔ ماروی تم سے تھوڑی دیر بعد ملے گی۔۔۔ میں نے جو کہا ہے تم خود ہی دیکھ لو۔۔۔ یہ سرخ جوڑا تمھارے لیے ہے اور اس میں چند گہنے بھی رکھے ہوئے ہیں۔
عمران بھائی۔۔۔ یہ نگری اندھیر نگری نہیں ہے ، نہ یہاں کسی چوپٹ راجہ کا راج ہے ، یہاں بندگان الہیٰ کو ہمیشہ سے بہت کچھ ملتا ہے ۔۔۔ اس دیار میں بندگان خدا کی رہبری کے لیے فریضہ خضری ادا ہوتا ہے۔۔۔
ماروی میری بہن۔۔۔ جان لو کہ یہاں انھیں بہت کچھ ملتا ہے جو کہ دنیا ’’ ترک‘‘ کرکے اگلے دائمی سفر کی تیاریوں میں مشغول رہتے ہیں۔۔۔ اگر تمھیں کبھی موقع ملے تو بزرگان سلف کے ’’ ملفوظات‘‘ ضرور پڑھنا۔۔۔ اگلے سفر کے لیے یہ نصاب بہت ضروری ہے۔
عمران میرے بھائی۔۔۔ سندھو کے کناروں پر غریب مچھیرے دو ہی دعائیں مانگتے ہیں ایک یہ کہ اے اللہ ہماری زندگی عزت سے گزر جائے۔۔۔ ر
زق حلال کھلاتے ہوئے دوسرے اس کے رحم و کرم سے سندھو سدا بہتا رہے۔۔۔ اور سارا ملک سندھو سرسبز اور ہریالی سے لبریز رہے۔۔۔
ماروی بہن۔۔۔ ہمارا سفر ختم ہونے کے قریب ہے۔۔۔ اس سفر میں ہمیں تیقین کی دولت میسر آئی ہے۔۔۔ سندھو کا کنارہ آنے کو ہے ۔۔۔ مچھیروں کی بستی میں اپنے کھلیانوں میں کھڑاہوا اک شخص مصروف مناجات ہو گا ۔۔۔ وہی تمھارا مقصود حیات ہے۔۔۔
عمران بھائی ۔۔۔ سب کچھ حیرت نا ک ۔۔۔ مگر ہے ۔۔۔ جیسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
ہاں ماروی بہن۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ہم سندھو کے پل سے گزریں گے ۔۔۔ دوسری جانب مچھیروں کی بستی ہے۔۔۔ اور ۔۔۔ تم دیکھنا۔۔۔ کہ نشانیاں کیسے نظر آتی ہیں۔
دیکھو ماروی بہن۔۔۔ پل آ گیا ہے ۔۔۔ وہ سامنے کھیتوں میں کھڑا اک شخص مصروف مناجات ہے۔۔۔ اور اس سے ذرا پرے۔۔۔ تین چار آدمی اور ہیں۔۔۔ ان میں وہ سبز پگڑی والا بھی موجود ہے۔ میں گاڑی کو روکتا ہوں ۔۔۔ ہم نیچے اتریں گے۔۔۔ تم پچھلی سیٹ سے اپنا تحفہ بھی اٹھالو۔۔۔ تمھارے نکاح کے بعد تمھارا بھائی تم سے جدا ہو جائے گا۔۔۔ میری بہن آؤ اترو۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ پانچ آدمی ہمارے قریب آ گئے۔۔۔ سندھو کے کنارے سے ذرا سا آگے ایک بچھی ہوئی دری پر ہم سب بیٹھ گئے۔ سبز پگڑی والے نے نکاح پڑھایا۔۔۔ اس کے بعد سب نے ایک دوسرے کو مبارک بار دی ۔۔۔ میں نے نوجوان سے کہا ، سائیں قلندر سائیں کی مہربانی ہے۔۔۔
ہاں سائیں! اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
سائیں۔۔۔ عشق کا خمار ایسا ہوتا ہے۔۔۔
ہاں میاں۔۔۔ ماروی کو عمر ہی ملتا ہے۔۔۔۔
_______________