خفیہ طور پر طے شدہ منصوبے کے مطابق فروری 1713 میں فرخ سیر کی فوج کی یلغار کے سامنے جہاں دار شاہ کے پروردہ بانکے، کلاونت، ڈُوم اور مسخرے ٹھہر نہ سکے اور دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ جہاں دار شاہ اور اس کے معتمد ساتھی ذوالفقار خان نے بھیس بدل کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن فرخ سیر کے سپاہیوں نے ان بُزدل موقع پرستوں کو دبوچ لیا اور انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جب فرخ سیر فاتحانہ انداز میں قصرِ شاہی میں داخل ہوا تو ہاتھی پر بیٹھے جلاد نے جہاں دار شاہ کا سر نیزے کی نوک پر بلند کر رکھا تھا۔ جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا تھا۔ تیروں سے چھلنی ذوالفقار خان کی لاش تیسرے ہاتھی کی دُم سے بندھی تھی، زمین پر مسلسل گھسٹنے کی وجہ سے یہ لاش بُری طرح مسخ ہو چُکی تھی۔ لال کنور نے پہلے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا رکھا تھا اس نے زر و مال اور ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی اپنی گٹھڑی بغل میں دبائی اور چادر اوڑھ کر فرار ہونے کے لیے باہر لپکی۔ فرخ سیرکے حفاظتی دستے کے مسلح سپاہیوں نے اس مکار جسم فروش طوائف کو پہچان لیا اور اس سے گٹھڑی چھین کر ایک طرف دھکا دیا۔ نیم عریاں لباس پہنے لال کنور زمین پر منہ کے بل بے سُدھ گری پڑی تھی۔ فرخ سیر کی فوج کے ہاتھیوں کی ایک قطار اُسے روندتی ہوئی آگے نکل گئی۔
میں وہاں سے فرار ہو کر تھر تھر کانپتا ہوا صحرائے تھر میں پہنچا اور زندگی کے باقی دن تارک الدنیا سادھو بن کر گُزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے مداحوں اور پرستاروں کو اپنے آبائی فن موسیقی، رقص اور آلات موسیقی کے استعمال کا ہنر خوب سکھایا۔ میرے خرمن کے خوشہ چینوں نے راگ اور موسیقی کے جن آلات میں اپنی صلاحیت، محنت اور مہارت کا لوہا منوایا ان میں الغوزہ، بِین، بانسری، بِگل، گیٹار، پکھاوج، پیانو، پی پا، تنبورا، ترہی، خنجری، جل ترنگ، چمٹا، دف، دوتارہ، ڈُگڈگی، ڈرم، ڈھول، ڈھولک، سارنگی، سنکھ، ستار، سرود، سُر بہار، شہنائی، طبلہ، کرتال، کمانچی، گراموفون، گھنگرو، گھڑا، مُرلی، منجیرا، وائلن، وینا اور ہارمونیم شامل ہیں۔ یہی آلاتِ موسیقی زندگی بھر ہم سب کلاونتوں کا اوڑھنا بچھونا رہے۔ دیپک راگ میری اولین چاہت تھی اور میری زندگی اسی میں سلگتے سلگتے بِیت گئی۔ میں زندگی کی بازی ہار گیا اور پیمان شکن لال کنور ملکۂ ہند بن کر جیت گئی۔ ایک بات میرے لیے قابل فخر ہے کہ ہمارے خاندان کی نائکہ قفسی اور اس کی بیٹی مس بی جمالو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے، اپنا اُلّو سیدھا کرنے، محسن کُشی اور پیمان شکنی میں ہم سے سبقت لے گئی ہیں۔‘‘
نائکہ قفسی اور اس کے دیرینہ آشنا بھڑوے جھابو کے معاملے میں تاریخ نے محمد شاہ رنگیلے کی بیوہ ادھم بائی اور اُس کے عاشق جاوید خان کی مثال کو دہرایا۔ مکر وال کے لوگ نائکہ قفسی کے قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کے سامنے ایک گدھا اور خارش زدہ کتیا باندھ دیتے اور کہتے اس دشت خار میں قدم رکھنے سے پہلے اور قحبہ خانے کے مکین ننگ انسانیت درندوں سے ملنے سے پہلے اس خر اور کتیا کو بھی ایک جھلک دیکھ لو جو کہ جھابو اور قفسی سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ مارچ 2020ء کا مہینا ا پنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ چوبیس مارچ کو ملک بھر میں کورونا وائرس کے باعث چودہ اپریل 2020ء تک کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا۔ اکتیس مارچ 2020ء کی شام نائکہ قفسی کے قحبہ خانے کی سب رذیل طوائفوں اور بھڑووں کے لیے ایسی عبرت ناک شام عذاب ثابت ہوئی جو آئی مگر نہ تو ڈھلی اور نہ ہی ٹلی۔ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عقوبت خانے کے نواح میں واقع مزدوروں کی بستی کے مکینوں نے بتایا کہ آدھی رات تک تو ان طوائفوں کے عشرت کدے سے ساز، سریلی آواز اور رقص کی دھمال کی آواز سنائی دیتی رہی۔ رات ڈھلنے کے بعد کھانسنے اور چھینکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ گھنے جنگل سے ایک دراز قد اور تنو مند آسیب نمودار ہواجس کے ساتھ دس کے قریب چڑیلیں، کئی بھوت اور ڈائنیں بھی تھیں۔ ان سب کی کریہہ آنکھوں اور بھاڑ جیسے منھ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ اس انتہائی پر اسرار مخلوق کے چلنے سے نزدیکی علاقے کی زمین لرزنے لگی اور گردو نواح کا پورا ماحول خوف و دہشت میں ڈوب گیا۔ نا معلوم کس طرف سے بُوم، چغد اور شِپر کے غول کے غول اُمڈ آئے۔ یہ سب طیور اُس خوف ناک آسیب کی ہدایت پر نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے پر نیچی پرواز کر کے لگاتار اس پر ضماد گرا رہے تھے۔ پہلے بھی یہ علاقہ نائکہ قفسی اور مس بی جمالو کے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کی وجہ سے بے حد متعفن تھا مگر اُس رات توہر طرف سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان طوائفوں کے گھر کے سامنے کھمبے پر رکھے بجلی کے ٹرانسفارمر میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی آواز دُور تک سنی گئی۔ دھماکہ ہوتے ہی نائکہ قفسی کے قحبہ خانے میں ہر طرف آگ کے شعلے بلند ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت ملبے کے ڈھیر میں بدل گئی۔ طوائفوں کاسب اثاثہ جل چکا تھا اگلی صبح کچھ سر پھرے جعل ساز، فصلی بٹیرے اور اُچکے قحبہ خانے کی طوائفوں کی چاندی کی صراحی دار گردنوں میں پہنی ہوئی سونے کی گانیوں، پنڈلیوں میں بندھی سیمیں پازیبوں اور پتلی کلائیوں میں پہنی بھاری طلائی چُوڑیوں کی تلاش میں وہاں جا پہنچے اور راکھ کریدنے لگے۔ قحبہ خانے کے ملبے کی راکھ سے صرف ایک آہنی لوح بر آمد ہوئی جس پر جلی حروف میں کندہ تھا:
’’اے چیرہ دستو! فطرت کی سخت تعزیروں سے ڈرو، نظام قدرت میں انصاف کی فراہمی میں کچھ دیر تو ہو سکتی ہے مگر وہاں اندھیر کا کوئی تصور ہی نہیں۔‘‘
انسانی زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں عالم خواب میں زندگی کے تلخ حقائق سے آگہی ملتی ہے اور لا ینحل مسائل کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نیند میں جب ایسی کیفیت ہو تو بیداری کے سرابوں پر اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اچانک بشیر نے دیکھا کہ رضوان سر جھکائے دبے پاؤں وہاں سے گزرا۔ اس کے چہرے پر تاسف اور ندامت کے آثار نمایاں تھے اور وہ خاموش تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بشیر کے ساتھ اس کے پس ماندگان نے جو پیمان شکنی اور محسن کشی روا رکھی وہ اس سے دل گرفتہ ہے۔ اچانک بشیر نے اپنے مرحوم باپ رانا سلطان کی مانوس آواز سنی:
’’بشیر! جو ڈرامہ دیکھ کر تم بہت دِل گِیر ہو اس کا مسودہ تو خود رضوان نے تحریر کیا تھا۔ رضوان ہی اس ڈرامے کا ہدایت کار تھا اور سب اداکار اُسی کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ رضوان جب ساتواں در کھول کر نکل گیا تو اُس کی اہلیہ نے ڈرامے کی ہدایت کاری اور فریب کاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ جور و ستم اور ہوسِ زر و مال میں قفسی بھی اپنے شوہر سے دو ہاتھ آگے نکل گئی ہے۔ فصلی بٹیرے اب غائب ہو گئے ہیں اور طیور آوارہ نے تمھارے خرمنِ علم و ادب کے سب دانے چُگ لیے ہیں۔ تمھارے ترکش میں اب کوئی تیر باقی نہیں جب کہ ٹھگوں کی تیر اندازی کا سلسلہ جاری رہے گا اور تمھاری آرزوئیں مات کھا کر رہ جائیں گی۔ ناگ اور ناگنیں تمھیں کاٹ کر نکل گئیں اب لکیر پِیٹنا بے سُود ہے۔‘‘
بشیر یہ ندائے غیب سُن کر چونک اُٹھا اپنے دیرینہ رفیق رضوان کو دیکھتے ہی بشیر نے کہا:
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دِل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کر کے
رضوان کھانستا ہوا بیتے لمحات کے مانند دل پر گزرنے والے صدمات کے نقوش چھوڑ کر آگے نکل گیا۔ اس اثنا میں بشیر کی آنکھ کھُلی تو وہ سوچنے لگا نیند نے کس قدر دیانت داری اور راز داری سے کام لیتے
ہوئے لوحِ جہاں میں محفوظ تاریخ کے منتخب اوراق سے ایسے معانی و مفاہیم اخذ کیے ہیں جو اس کی باقی زندگی کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوں گے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید