یہ کیا بدتمیزی ہے تمھاری ہمت کیسے ہوٸی مجھے ہاتھ لگانے کی۔۔۔
ارے اس میں کون سی بدتمیزی ہے۔۔یہ لیں دوبارہ لگا لیا۔۔۔عفاف اسے پھر سے ہاتھ لگاتی کہنے لگی۔۔۔۔
اور عفان نے اسکے ہاتھ کو بے دردی سے جھٹکا۔۔۔ اور وہاں سے جانے لگا۔۔
ارے سنے تو۔۔عفاف پھر سے اسکا ہاتھ پکڑتی اسے روکنے لگی۔۔اور عفان نے اسے ایسے دیکھا جیسے کھا جاۓ گا۔۔۔
عفاف نے ڈر کر ہاتھ چھوڑ دیا۔۔۔ اچھاایسے ہی سن لیں۔۔۔
ایسا بھی کیا کر رہے ہیں۔۔۔مانا کے خوبصورت ہیں حسین ہیں دیکھتے ہی کسی کا دل آجاٸیں جیسےمیرا آپکو دیکھتے ہی دل بے قابو ہوجاتا ہے۔۔۔۔میں عفاف محمود آپ سے محبت کا اقرار کرتی ہوں۔۔۔۔
اور ایک زوردار تھپر عفاف کے منہ پر پڑا اور وہ دور جا کر برف پر گری۔۔۔
عفاف محمود میں تم جسی خود غرض جذباتی اور بے باک لڑکی سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔۔۔۔وہ اسے انگلی دیکھاتا باور کرواتا چلا گیا تھا۔۔۔
وہ جو نازوں میں پلی تھی آج تک کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔۔۔اور وہ اسکے منہ پر اسکی محبت کو مار گیا تھا۔۔۔وہ تو اس صدمے سے ہی نہیں نکل پاٸی تھی۔۔۔کہ وہ اسے منع کر گیا تھا کس چیز کی کمی تھی اس میں شکل پیسہ سب تو تھا۔۔۔۔
ایمان چلتے ہوۓ آٸی تو عفاف وہاں برف پر گڑی ہوٸی تھی۔۔۔۔کیا ہوا عفاف تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔عفاف بولو ایمان اس کا گال تھپتھپا رہی تھی۔۔۔
اورعفاف جھٹکےسے اٹھی اور گاڑی میں جاکر بیٹھ گی۔۔۔۔
اورسب آہستہ آہستہ آتے گے اورگاڑی گھر کی طرف روانہ ہوگی۔۔۔ایمان نے بہانابنایا کے عفاف کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔۔ اور باہر کھانے کا پروگرام کینسل ہوا اور راستہ خاموشی سے گزرا۔۔
گھر پہنچتے ہی سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گے۔۔اور ایمان عفاف سےپوچھنے کے لیے کمرے میں جانے لگی۔۔۔۔
*********
ہاں بھٸ کیا بنا کام کا مال پہنچھا جی صاحب آپ نے چیتے کو کام دیا تھا کیوں نہ ہوتا ایک ایک پیس پانچ پانچ لاکھ کا بکا ہے۔۔۔چیتا ایسے بتا رہا تھا کے بہت بڑا تیر مرا ہو اور اس کام میں تو یہ سچ میں بہت بڑا تیر تھا۔۔وہ نیلی آنکھوں کے ساتھ اتنا سارا کاجل لگاتا تھا شکل سے ہی موالی لگتا تھا مگر دماغ وہ آٸنسٹاٸن جیسا چلاتا تھا۔۔۔۔
شاباش چیتا پولیس کی نگرانی کے باوجود تم نے بہت ہوشیاری سے کام کیا ہے تم سچ میں چیتے ہو۔۔ تمھارا انعام تو بنتا ہے۔۔
یہ لو پانچ لاکھ عش کرو مگر سنو۔۔۔۔ایسا ہی اچھا مال لایا کر۔۔۔ایک بات پوچھوں صاحب ویسے تو مجھے اپنے پیسے سے مطلب ہے معلومات کے لیے پوچھ رہا رہوں۔۔۔
آپ ان معصوم بچوں کو اٹھواتے کیوں ہو۔۔۔۔مطلب فاٸدہ اور اسکے لاکھوں میں پیسے کیوں دیتا ہے کوٸی۔۔۔۔
ہہہمممم اچھا سوال ہے کبھی تمھیں بڑے اڈے پر لے جاٶں گا پھر سب بتاٶں گا۔۔۔۔
ابھی فلحال کچھ لڑکیوں کو لانے کا بندوبست کر مالک صاحب کا فون تھا۔۔۔۔ دبٸی والے۔۔کون مالک صاحب
ارے ہاں تو نہیں جانتا۔۔۔جیسے بچوں کو ہم اغوا کر کے بھجتے ہیں ویسے ہی مالک صاحب دبٸی میں اپنے کام کے لیے لڑکیاں لیتے ہیں۔۔۔
بس اب تجھے جتنا کہا ہے کرجا کر۔۔۔۔دس پندرہ دن کا ٹاٸم ہے اچھا مال لے آٸیو۔۔۔۔۔
جی صاحب جی مگر کچھ دن اس پیسے کو اڑانے کے لیے لگے گے۔۔۔۔
ہاں جا جی لے اپنی زندگی۔۔۔شکریہ وہ
کہتا باہر نکل گیا۔۔۔۔
**********
پتہ ہے تجھے ایمان تو ٹھیک کہتی۔۔ہیام اسے پکر کر اپنے روم لے آٸی جبکہ وہ عفاف اور اپنے مشترکہ کمرےمیں جانا چاہ رہی تھی۔۔۔۔
اگر محبت دونوں طرف ہو تو پہل کر لینی چاہیے کچھ اسکی مان کر کچھ اپنی منوا کر یہی تو ایک چیز ہے جو انا کو توڑ سکتی ہے اور رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔۔۔۔
آج پتہ ہے مجھے پہلی بار اسکے اور اپنے رشتے کی اہمیت کا پتہ چلا میری زندگی میں اس ہٹلر کے۔۔۔۔سوری سوری ہٹلر نہیں ہے وہ بہت اچھا ہے لاوینگ اور ۔۔۔۔ہیام بولتے بولتے روکی
اور۔۔۔ایمان جو بہت غور سے اسکی باتیں سن رہی تھی اچانک اسکے روک جانے پر فوراً بولی۔۔
بس کافی ہیں اسکی اتنی تعریفیں اور نہیں ہونگی مجھ سے۔۔اس عفاف کی بچی کو کیا ہوا ہے سارا کھانے کا پروگرام خراب کر دیا۔۔
میں پوچھتی ہوں۔۔۔ایمان کہتی وہاں سے نکل گی۔۔
عفاف کیا ہوا ہے کیوں ایسے ریکٹ کر رہی ہو کسی نے کچھ کہا ہے۔۔۔۔عفاف بیڈ پر بیٹھی گھٹنوں میں منہ دیے آنسو بہا رہی تھی۔۔۔
میری جان کچھ تو بولو۔۔۔۔۔وہ ایسا کیسے کرسکتا ہے آپی میں نے اسے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اسنے اتنی بےدردی سے میری محبت کو میرے منہ پر مار دیا
تم نے اسے کہہ دیا۔۔۔اتنی کیا جلدی تھی تمھیں کیا کہا اسنے۔۔ایمان نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
یہاں تھپڑ مارا۔۔۔عفاف اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر بتانے لگی۔۔۔ایمان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔
آپی کسی سے پیار کرنا گناہ ہے وہ اتنا ظالم کیسے ہوسکتا ہے پیار کرتی ہوں میں اور اب تو وہ میری ضد ہے اور اسکے لیے عفاف محمود کو کچھ بھی کرنا پرے وہ کریگی۔۔۔۔
یا اللہ پتا نہیں اب کیا کرے گی۔۔۔ اللہ اسے ہدایت دے۔۔ وہ سوچتی نماز پرھنے کے لیے کھڑی ہوگی۔۔۔
*********
عفان کمرے میں غصے میں گھوم رہا تھا دماغ میں عفاف کی باتیں چل رہی تھیں رات کے کھانے کا وقت ہوگیا تھا شہریار نہاکرنکلا تو عفان کو دیکھ کر بولنے لگا۔۔۔
کیا ہوا ہے میرے چیتے کیا سوچ رہا ہے۔۔۔شہریار عفان کے گلے میں ہاتھ ڈال کر پوچھنے لگا۔۔
وہ۔۔۔عفان کچھ سوچ کر چپ ہوگیا۔۔۔میں سوچ رہا تھا جب تیری بیوی کوپتا چلےگا کے تو اسکی یونی میں از لیکچرار اپوٸنٹ ہوگیا ہے تو ریکشن کیا ہوگا۔۔۔کیا معلوم کیا ہوگا۔۔
یار وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا چل کھانا کھانے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔
**********
عفان۔۔۔کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گے تھے۔۔۔ایمان کچن کا کام ختم کر کے اپنے روم میں جانے لگی۔۔تو اسے عفان نظر آیا اور اس سے بات کرنے کے لیے روکی۔۔۔
جی ایمان آپی۔۔تم نے عفاف پر ہاتھ کیوں اٹھایا۔۔۔آپ نے اسکی باتیں سنی ہیں۔۔۔
کہتی ہے مجھ سے محبت ہوگی ہے اسے۔۔خود سے ایس ایس سی تو پاس نہیں کر سکتی اور مجھ سے محبت کے داوے کر رہی ہے۔۔عفان بھی پر اعتمادی کے ساتھ جواب دے رہا تھا مگر لہجہ نرم اور نظریں جھکی ہوٸی تھی۔۔
میں اسے سمجھاٶں گی مگر ہاتھ اٹھانا صحیح بات تو نہیں۔۔۔وہ نادان ہے بول دیا ہوگا مذاق میں۔۔
وہ سولہ سال کی ایک بالغ لڑکی ہے۔۔۔اور ایک لڑکی پر اتنی بےباکی اچھی نہیں لگتی آپی۔۔۔۔وہ اپنے ماں باپ بھاٸی کی پروا چھوڑ کر اپنے اپنے لیے خود غرضی پر اتر آٸی ہے۔۔ایمان نے غور سے اسکی بات سنی اور پھر بولنے لگی۔۔
ٹھیک ہے اگر تم اسے محبت نہیں کرتے تھے تو صاف منع کردیتے یوں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی کسی نے۔۔۔ایمان نے سختی سے کہا تو عفان بھی شرمندہ ہوگیا۔۔۔
ہاں مگر مجھے غصہ آگیا تھا۔۔
ٹھیک ہے میں سمجھا دونگی اسے اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ایمان جانے لگی۔۔تو عفان نے پکارا
سوری آپی۔۔۔کوٸی بات نہیں آٸندہ خیال رکھنا۔۔اور عفان اپنے پورشن کی طرف بڑھ گیا اور ایمان اپنے کمرے میں جانے لگی کے فون بجا۔۔اور ان نون نمبر دیکھ کر ایمان کو پھر ڈر لگنے لگااور وہ کچن میں چلی گی اور کال اٹھاٸی۔۔۔
تم کیا کر رہی تھی عفان کے ساتھ۔۔۔آواز سے صاف پتہ چل رہا تھا۔ مقابل کھڑا شخص بہت غصے میں بول رہاہے۔۔۔
آپ کو کیسے پتہ کون ہیں آپ؟؟؟وہ ڈرتے ڈرتے بول رہی تھی۔۔
میں نے کہا تھا نہ ایمان تم صرف میری ہو اور میں تمھیں حاصل کر کے رہوں گا۔۔۔۔آٸندہ کسی سے ایسے بات کرتے نہ دیکھوں۔۔اور فون کٹ گیا۔۔۔مگر ایمان ڈر سے فون کان میں ہی لگایا ہوا تھا۔۔اچانک کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
اور وہ ڈرتے ہوۓ اپنی آنکھیں بند کر گی۔۔۔
آپی کیا ہوا کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔۔شہری کی آواز سن کر وہ پیچھے مڑی وہ۔۔۔۔بس ایسے ہی رونگ نمبر تھا۔۔
اچھا۔۔جانجتی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔تم کیا کر رہے ہو یہاں پر۔۔ ایمان بات بدلتی ہوٸی پوچھنے لگی۔۔۔
وہ میں کافی بنانے آیا تھا۔۔ میں بنا دیتی ہو۔۔۔ایمان شہری کی بات سن کر فورا کافی بنانے کے لیے بڑھ گی۔۔۔
ارے نہیں آپی سارا دن تو کام کرتی ہیں آپ تھوڑی محنت آپ کی لاڈلی سے کرواٶں گا آج۔۔۔۔شہری اپنی ہنسی چھپاتا سوچتے ہوۓ کہنے لگا۔۔
اسے کافی بنانے نہیں آتی ہے شہری۔۔۔۔ایمان فکرمندی سے بولنے لگی۔۔
آج میں بہت اچھے سے سیکھاٶں گا۔۔۔۔آپ جاٸیں اوپر چلیں شاباش۔۔وہ ایمان کو اوپر بھیج کر ہیام کو کال ملانے لگا
کہاں ہو۔۔۔۔کال اٹھاتے ہی شہری نے پوچھا۔۔۔۔
میں کرکٹ کھیل رہی ہوں کھیلو گے۔۔۔ہیام بھی کہا کسی سے کم تھی۔۔
اچھا نیچھے کچن میں آٶ۔۔۔ میں نے کھانا کھا لیا ہےاب بھوک نہیں ہے مجھے۔۔۔ ہیام دو منٹ میں نیچے آٶ ورنہ میں اوپر آ جاٶں گا۔۔۔۔اور شہری فون بند کر کے سلپ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔تیار ہوجاٶ ہیام بی بی۔۔۔۔اور وہ سوچ سوچ کر ہنسنے لگا۔۔
عجیب ہے یار رات کے بارہ بجنے والے ہیں اور وہ ہٹلر صاحب کو چین نہیں ہے۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔ہیام کچن میں پہنچی تو اسے شہریار سلپ پر بیٹھ کر ویفر کھاتا نظر آیا۔۔۔۔
ارے واہ تم تو ابھی گی۔۔۔۔کہتے ہو تو واپس چلی جاتی ہوں۔۔ارے ایسے کیسے میرے لیے کافی تو بنا دو۔۔۔
کیا؟؟؟تم نے مجھے رات کے اس وقت کافی بنانے کے لیے بلایا ہے ۔۔۔۔۔۔ہیام کے منہ پر عجیب تاثرات دیکھ کر شہریار اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
افسوس کے ساتھ شہریار حسن صاحب مجھےکافی نہیں بنانے آتی۔۔۔۔ہیام بول کر جانے لگی جب شہریار سلپ سے اترتا اسکے آگے آکر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
تو یہ خادم حاضر ہے میں سیکھاٶں گا۔۔۔ہیام کمر پرہاتھ رکھ کر اسے گھورنے لگی۔۔۔
اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو پتا ہے مجھے بہت حسین ہوں۔۔۔۔تم خدا کا شکر ادا کر رہی ہونا کے میرے جیسا شوہر ملا ہے۔۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔۔ میں تو نوافل ادا کرونگی ہٹو ابھی ادا کر کے آتی ہوں۔۔۔وہ اسے ہٹاتی جانے لگی
نہیں نہیں ابھی تو پہلے تم مجھے اچھی سی کافی بنا کردو گی پھر جاٶ گی۔۔۔۔جب تمھیں بنانے آتی ہے تو خود بنا لو میری جان کے پیچھے کیوں پڑھ گۓ ہو۔۔۔
اب آنے والی لاٸف میں تم نے ہی بنا کر دینی ہے کافی مجھے اور میں تو روز رات کو پیتا ہوں۔۔۔۔
کسی عقلمند نے کہا ہے ”اپنا کام خود کرنا چاہیے“ تو اب اپنی کافی خود بناٶ۔۔
اچھا تو یہ عقلمند تمھیں تب کیوں یاد نہیں آتا جب اپنے سارے کام ایمان اپی سے کرواتی ہو۔۔۔شہریار ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔۔۔
وہ۔۔وہ میرا ایمان کا معملہ ہے تم کیوں بول رہے ہو بیچ میں۔۔۔
پہلے تو تم یہ تم تم کہنا بند کرو آپ کہنے کی عادت ڈالو۔۔۔کیوں؟
میں پہلے بھی تم کہتی تھی اب بھی تم کہونگی۔۔۔وہ بھی ہاتھوں کو باندھ کر پورے اعتماد کے ساتھ اسے الجھ رہی تھی۔۔۔
جب تم میری بیوی نہیں تھی۔۔اور نکاح کے بعد تین سال تک تم سے بات کرنے کا کوٸی خاص موقع نہیں ملا۔۔مگر اب میں آگیا ہونا اچھے سے سیدھا کردوں گا۔۔۔ شہریار بھی اسکے مقابل آتا ہاتھ بندھ کر بولنے لگا۔۔
آپ مجھے قید کرٸیں گے۔۔ہیام اسکے قریب ہوتی کہنے لگی تو شہریار پیچھے ہوتے ہوۓ بولا۔۔ کتنا بولتی ہو یار اتنی دیر میں دس دفعہ کافی بنا چکی ہوتی۔۔
تو اب شروع ہوجاو وہ کافی کا ڈبہ اسے نکل کر اسکے ہاتھ میں تھاماتا کہنے لگا۔۔۔
اور وہ گھورتے ہوۓ پتیلی چولھے پر رکھ کر آگ جلانےلگی۔۔۔
اور شہریار بتاتا جاتا اور وہ کافی بیٹ کرنےلگی۔۔۔وہ پانچ بار کافی بیٹ کرکے تھک گی۔۔ پانچواٸی بار دودھ بھی ابل چکا تھا۔۔۔ اور شہریار صاحب آرام سے ویفر کھا رہے تھے۔۔۔
بس ہاں بہت ہوگیا۔۔میری اچھاٸی کا فاٸدہ مت اٹھاٶ۔۔
پچھلے ایک گھنٹے سے تمھارے ساتھ یہاں دماغ کھپا رہی ہوں کبھی چینی کم ہے تو کبھی دودھ کبھی ذیادہ کافی ہےتو جھگ کیوں نہیں آیا میں پاگل نظر آرہی ہوں اتنی تو کبھی اپنے لیے محنت نہیں کی جتنی تمھارے لیے کر رہی ہو۔۔اور تم خود آرام سے بیٹھ کر ویفر ڈونس رہے ہو۔وہ مگ کو سلپ پر رکھتی شہریار کے ہاتھ سے ویفر چھینتی اسکے مقابل کھڑی ہوگی۔۔۔
تم ویسے ہی ہو ہٹلر میں صبح سب کو بتاٶں گی کے یہ
وہ ہاتھ جھاڑتا ہیام کے مقابل کھڑا ہوگیا۔۔ اور ہیام کو اٹھا کر ہلپ پر بیٹھا دیا۔۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔۔شششش شہریار اسکے ہونٹ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کرتا ابلتے ہوۓ دودھ کو بیٹ کی ہوٸی کافی میں ڈالنے لگا اور کپ اٹھا کر ہیام کے پاس آیا۔۔اور اسے مگ پکرنے کو کہا۔۔اور اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا اسی کے ہاتھ سے کافی کا ایک سپ لیتا۔۔۔۔
”بس یہی تو چاہیے تھا۔“۔ہیام کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔اور سارے برتن اور چیزیں جگہ پر رکھتا ہیام کے پاس آیا اور کافی کے دو سپ لیے۔۔۔ صحیح کہا تم نے خود بنا سکتا ہو تین سال خود ہی تو کیا ہے سب کچھ مگر اتنے سال بعد جب تمھیں دیکھانا تو دل چاہا اب سے نہیں بولوں گا۔۔۔وہ اسے سلپ سے اتار کر جانے لگا۔۔۔
میں بنا دونگی۔۔ہیام چلتی ہوٸی اسکے مقابل آگی۔۔میں کون سا سیریس تھا روز اسی ٹاٸم پر یہاں موجود چاہیو مجھے بیگم صاحبہ۔۔۔۔اور وہ اپنے پورشن میں بھاگ گیا۔۔۔۔
ہٹلر کہی کا۔۔۔۔ہہہہہہہم۔۔۔وہ عجیب و غریب منہ بنا کر چلتی اپنے کمرے میں چلی گی۔۔۔
***********
عفاف۔۔۔۔کیا ہوا ہے میری جان آپی میں اتنی بری ہوں کے وہ میرے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے اسلیے کیوں کے مجھے پڑھنے کا شوق نہیں مجھے کھانا نہیں پکانے آتا اسلیے۔۔۔وہ رو رہی تھی اور ایمان اسے دیکھ کر اپنے آنسو نہیں روک پاٸی۔۔۔جو ہر وقت چھکتی رہتی تھی سب کو پکر پکر کر اپنے ناول کے قصے سناتی تھی ۔۔۔۔آج ایک نہ محرم کی محبت کے لیےرو رہی تھی۔۔۔
نہیں عفاف ایسا نہیں کرتے۔۔۔ تم وہ کرو جوتم کر سکتی ہو یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دو۔۔اگر وہ تمھاری قسمت میں ہوا تو مل جاۓ گا۔۔۔
ہہہہہم آپی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔۔”I proof my self”۔۔۔۔عفاف ایمان کے گلے لگ کر کہنے لگی۔۔۔
**********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...