اپنے آنسوؤں کو صاف کر کے اُس نے بلال کو کندھے سے تھما تھا۔۔۔
‘ھمارا نمبر آنے والا ہوگا، یہ جوس پورا کرو اور چلو’ وہ حق جتاتے ہوۓ بولی۔۔
‘اسلام و علیکم ڈاکٹر’ وہ مُسکرا کر بلال کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔جو خود کو مظبوط دیکھا رہی تھی مگر وہ۔۔ وہ اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔۔۔
دورانِ گفتگو اُس نے مُسلسل بلال کا ہاتھ تھامے ہوۓ تھا۔۔
‘میں نے سب رپورٹیں دیکھ لیں ہیں بلال کی۔۔ کچھ بھی کہنے سے پہلے میں کچھ مرید ٹیسٹ چاہتا ہوں کہ آپ کروائیں’ ڈاکٹر بے یقینی میں بولا۔۔۔
‘جی بِلکُل جو بھی ٹیسٹ ہونگے ہم کروائیگے’ وہ پُراعتماد ہوکہ بولی۔۔
وہ دونوں ٹیسٹ کروا کر لیب سے واپسی پر تھے۔۔
‘خُود کو مظبوط رکھنا اِیمان’ وہ بے اعتباری سے بولا تھا۔۔
‘جب خُدا ساتھ ہیں اور پھر اتنی دُعائیں ہیں تو تم کیوں ایسے سوچ رہے ہو’ وہ افسردہ ہوکہ بولی۔۔۔
گاڑی سائیڈ پر کھڑی کر کے اُس نے جوس کا آرڈر دیا تھا۔۔
‘ٹائم دیکھا ہے؟ یہ رات کے بارہ نہیں پورے دو بج رہے ہیں’ فون اُٹھاتے ہی وہ بولی تھی۔۔ وہ انتہائی فکرمند نظر آٸی۔۔
‘کیا کروں یار بوڑھا ہوگیا ہوں اب’ وہ مزاق میں بولا۔۔
‘مجھے فکر ہوگئ تھی بلال اپنا خیال رکھا کرو’ اُس کی آواز میں نمی تھی۔۔
‘کیوں رکھوں؟ تم کیا کروگی؟ ویسے بہت کام چور ہو تم۔۔’ وہ مزید مزاق کے موڈ میں تھا۔۔
‘بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے میری چڑیل پریشان نہیں ہو۔۔ پھر تو تم میری بریانی کھاؤ گی۔۔ دیکھو بال کھول کے نہیں آنا میں ڈر کر بیٹھ جاؤں گا’ وہ بار بار اُس کو تنگ کر رہا تھا کہ اچانک اُس کو اِیمان کی سِسکی سناٸ دی۔۔
‘اِیمان؟ اِیمان۔۔۔ تم۔۔ رو رہی ہو؟ مت کرو ایسا۔۔ تم مجھے کمزور کر رہی ہو۔۔ میں تمھاری آنکھوں میں اپنی وجہ سے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔ میری وجہ سے تمھارے آنسو رُک گۓ تو میری زندگی کو مطلب مل جاۓ گا ورنہ۔۔لانت ہے میری زندگی پر۔۔ وہ اُس کو مانا رہا تھا۔۔۔
رات بھر دونوں کے بیچ آنسوؤں نے گفتگو کی تھی۔۔۔
سُرخ جوڑے میں۔۔ہاتھوں پر مہندی لگاۓ بال کھولے وہ انتہا کی حسین لگ رہی تھی مگر
اُس کو اپنا ہوش کہاں تھا۔۔
‘کہاں ہو تم؟ اتنی دیر ہوگئ ہال میں سب آگۓ ہیں با تمھاری فیملی رہتی ہے’ اِیمان چیخ کر بولی۔۔۔
‘بس آرہے ہیں۔۔چیخو مت پتا ہے کہ تم چڑیل ہو۔۔ بہن کی شادی ہے تمھاری اُس کو انجوۓ کرو۔۔ہم بس پہچ رہے ہیں’ وہ مُسکرا کہ بولا۔۔
اسٹیج پر کھڑی اِیمان مُسلسل تلاش میں تھی۔۔ تلاش اُس انسان کی تھی کہ جس کے لیۓاُس نے خود کو سجایا تھا۔۔
‘کیسے ہو بیٹا؟ بہت ذکر سُنا ہے تمھارا۔۔ تم آۓ بہت اچھا لگا’ اِیمان کی ماما بلال سے مختب ہوئ تھیں۔۔
‘آپی آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں’ مریم نے اِیمان کو گلے لگایا۔۔
‘تم شَرما کیوں رہی ہو؟ پتا ہے ہمیں کہ تمھاری بہن کے بعد اب تمھاری باری ہے۔۔ ہوجاۓ گی کیا جلدی ہے اِیمان؟ وہ اُس کو بُری طرح تنگ کر رہے جب وہ ٹیبل پر سب سے ملنے آئ تھی۔۔سب بلال کی شرارت سے لطف اندوز ہورہے تھے جب اِیمان بھگی ہوئ چلی گئ تھی۔۔۔۔
‘انٹی آپ سب آۓ۔۔ اّبو بھی آۓ۔۔ مجھے بہت اچھا لگا۔۔’ وہ شکرانہ انداز میں اُن سے لپٹ کر بولی۔۔۔
‘آپی دل نہیں کررہا جانے کا میرا تو’ مریم مڑجاۓ انداز میں بولی۔۔۔
‘اّمی آپ لوگ جائیں میں اور مریم لیٹ آئینگے۔۔’ بلال نے موقعے کا فائدہ اُٹھایا۔۔
‘میں سچ کہہ رہا ہوں اِیمان، لال جوڑے میں یوں بال کھول کر سَر جھکاۓ تم واقعی چڑیل سے کم نہیں لگ رہیں’ وہ اُس کو چھیڑ رہا تھا جو بہن کی روخصتی پر افسردہ بیٹھی رو رہی تھی۔۔
‘بھئیا آپ کی سانس کیوں پھول رہی ہے؟ مریم کے اِس سوال نے اِیمان کو چُپ کروا دیا تھا۔۔
‘کیا ہوا بلال؟؟ سانس کیوں ایسے؟ وہ اپنا آپ بھول کر اُس کے لیۓ پریشان ہوگئ تھی۔۔
‘کچھ نہیں یار، ہوجاتا ہے کبھی کبھی انسان ہوں یار۔۔’ اُس نے گاڑی کی جانب رُخ کیا تھا۔۔
‘آج تم بہت حسین لگ رہی تھیں اِیمان۔۔ مجھے رشک آتا ہے اپنی قسمت پر۔۔ بلال تم سے بےحد محبت کرتا ہے’ رات کے پہر اُس میسج نے اِیمان کی ساری تھکن دور کردی تھی۔۔ وہ پُرسکون ہوکہ سوگئ تھی۔۔۔
آنکھ کُھلی تو گھڑی رات کے تین بجا رہے تھے۔۔ اُس کو لگا جیسے کسی نے اُس کے پیر کو جنجوڑ کر اُس کو جگایا تھا۔۔
‘وہ وضو کر کے تہجُد ادا کررہی تھی۔۔ اُس کو اپنا آپ بےچین سا لگا۔۔
‘تم سو رہے ہوگے۔۔آج ہسپتال میں تم کافی تھک گۓ تھے’ اُس نے اُمید پر میسج کیا اور جاۓ نماز پر بیٹھ گئ۔۔۔
‘پروردگار میں بہت کم ضرف ہوں۔۔ گناہ گار ہوں۔۔ میں نے کبھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر نہیں مانگا تجسے۔۔ مجھے تیری محبت پر بہت یقین ہے۔۔’ اُس کی آواز میں درد تھا۔۔
‘تو مجھ سے میری ماں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔۔تو میرے آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔ تو رحمان ہے پروردگار۔۔ اُس کو صحت عطا کردے۔۔ اُس کو شِفا دے دیں۔۔میں اپنے لیۓ تجھ سے اُس کی زندگی مانگتی ہوں۔۔ میں اُس کی ماں کی گود کی آبادی منگتی ہوں۔۔
اُس کو شُفا دے دیں۔۔میرے سارے وِہم ختم کردے خُدا۔۔اُس کو زندگی عطا کردیں۔۔ وہ سجدہ ریز ہوکہ بِلک بِلک کر روٸ تھی۔۔
اُس کی چادر آنسوؤں سے بھیگ گئ تھی۔۔ خود کو سمیٹتے ہوۓ اُس کی نظر موبائل پر پڑی۔۔
بلال کی کال آرہی تھی۔۔
‘تم کیوں جاگ رہے ہو اب تک؟ اِیمان خُود کو نوُرمل شو کرا کے فون اُٹھا کے بولی۔۔
‘کیوں روئ ہو تم؟ میں زندہ ہوں اور تم رو رہی ہو؟ وہ سنجیدہ ہوکہ بولا۔۔
‘پروردگار تمھیں میری عُمر بھی دے دیں’ وہ آنسو روک کے بولی۔۔
‘کچھ نہیں ہوگا ابھی تو بہت کچھ دیکھنا ہے زندگی میں۔۔۱۰،۱۲ بچے ہونگے۔۔ویسے تم بوڑھی ہوکہ صیح کی چڑیل لگوگی’ وہ قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا۔۔
اور اِیمان اُس کو سُنتے ہوۓ آنسوؤں کے ساتھ دُعا دے رہی تھی۔۔
‘خُدا تمھیں ایسی مُسکراتا ہوا رکھیں۔۔ تمھیں میری خوشیاں بھی ملیں۔۔
‘میں نے تمھارا نام موبائل میں قیسوہ رکھا ہے کیوں کہ اِس نام کا مطلب ہے خُدا کے گھر کا پردہ۔۔میری بیٹی کا نام یہی ہوگا اِنشاءالّللا’ بلال بہت مان سے اُس کو بتا رہا تھا۔۔ جب کہ وہ اُس کو دُعا دینے میں مشغول تھی۔۔۔
************************
‘چاچی۔۔ چڑیل چاچی۔۔ آج سے تم چڑیل چاچی ہو’ فون اُٹھاتے ہی اُس نے پُرجوش انداز میں بولا۔۔
‘کیا ہوا دماغ خراب ہوگیا؟ پڑھ رہی ہوں میں ایکزیمز سَر پہ ہیں اور تم’ وہ سخت چڑ گئ تھی۔۔
‘پڑھائ چھوڑو۔۔ میں تو خوشی سے پاگل ہورہا ہوں۔۔ اِیمان میں چاچو بن گیا ہوں’ وہ چلّا کر بولا۔۔۔
‘مبارک ہو یہ تو واقعی بہت اچھی نیوز ہے۔۔بھابھی کیسی ہیں؟ وہ خوش ہوکہ بولی۔۔
‘اب ٹھیک ہیں۔۔تم تیار ہوجاؤ۔۔میں آرہا ہوں لینے اور کچھ نہیں سنونگا میں۔۔’ اُس نے بغیر سُنے فون رکھ دیا تھا۔۔
‘ہسپتال پہچ کر اِیمان نے مُنّنے کو گود میں لے لیا تھا۔۔
‘کتنا پیارا ہے بھابھی۔۔ شکر ہے سب خیریت سے ہوگیا۔۔’ وہ مُسلسل مُنّنے کو پیار کر رہی تھی۔۔۔
‘بلال بے اِس کے کان میں اذان دی ہے اِیمان’ بھابھی نے مُسکرا کر بلال کی جانب دیکھ کے کہا تھا۔۔
‘آپ نے کیوں فون کیا میں بغیر اِنویٹیشن کے بھی آجاتی انٹی’ اِیمان نے بلال کی امّی کا فون اُٹھا کے کہا تھا۔۔
‘کہاں آئ ہو تم۔۔ میں اکیلی اتنا کام کر رہی ہوں۔۔ اچانک عقیکے کی دعوت نے بہت ڈسٹرب کردیا ہے مجھے’ اّمی نے تھک کر کہا۔۔
‘اچھا تم ہال جلدی آجانا بیٹا زرا مجھے آسانی ہوگی اور سب کے ساتھ آنا’ وہ مزید بول کر فون رکھ چکی تھیں۔۔۔
***********************
‘ایک منٹ آپ ایسی کھڑی رہیں’ فوٹوگرافر نے اِیمان کو اسٹیج کے پاس روکا تھا۔۔
‘اتراؤ نہیں اپنے دوست کی طرح۔۔ بہت ڈھیٹ ہو تم باسط’ اُس نے مُنہ چڑا کر بولا۔۔
‘سب برداشت ہے پر میرے دوست کو کچھ نہیں کہنا’ بلال بھی باسط کی طرح اُس کو تنگ کرنے لگا۔۔۔
‘بکواس بند کو اور تصویر لو میری اور مُنّنے کی’ وہ پوز دینے لگی جب بلال بھی آکے کھڑا ہوا تھا۔۔
‘اب مکمل ہے تصویر’ وہ دھیمے سے اِیمان کے کان میں بولا تھا۔۔۔
***********************
‘انٹی میں صبح سے بلال کو فون کر رہی ہوں مگر وہ نہیں اُٹھا رہا، سب خیر ہے؟ اِیمان نے فکرمند ہوکہ پوچھا۔۔
‘صبح سے اپنے کمرے میں ہے اور کسی سے بات نہیں کررہا ہے۔۔نجانے کیا بات ہے گم سم ہے’ وہ دبے لہجے میں بولیں۔۔
وہ تیزی سے اُس کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔
‘دروازہ کھولو’ اِیمان نے سپاٹ لہجے میں بولا۔۔
دروازہ کُھل چکا تھا۔۔ وہ سامنے بیڈ پر بیٹھا اُس کی طرف پیِٹ کر چکا تھا۔۔
‘سمجھتے کیا ہو تم خُد کو؟ کس نے تمھیں یہ حق دیا ہے کہ تم اتنی زندگیوں کے ساتھ ایسا کرو؟ موبائل دیکھا ہے اپنا؟ تیس کالز ہونگی۔۔ تمھیں احساس ہے کہ میں کس حالت میں آٸ ہوں؟ وہ مُسلسل بولے جارہی تھی۔۔
وہ بےجان خاموش بیٹھا تھا۔۔
جیسے اِیمان اُس سے نہیں کسی اور سے مخاتب ہو۔۔
‘میں تم سے بات کررہی ہوں’ وہ اُس کے سامنے جاکر بیٹھ گئ تھی۔۔
آنسو اُس کے گریبان کا رُخ کر رہے تھے۔۔ اُس کی نظریں جُھکی ہوٸ تھیں۔۔ وہ اِیمان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
‘مت لے کے جاؤ مجھے۔۔ وہ اُس کے سامنے زمین پر گِر کر چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔۔ میں کہہ رہا ہوں کیوں نہیں سمجھتی تم؟
تمھیں خُدا کا واستہ ہے۔۔ یہ دیکھو ہاتھ جوڑ رہا ہوں اِیمان۔۔ دیکھو نہ۔۔’ اُس کے آنسو اِیمان کو ختم کر رہے تھے۔۔
‘کیا چھپا رہے ہو مجھ سے؟’ اِیمان اُس کے پاس زمین پر بیٹھ کر پوچھ رہی تھی۔۔
‘مجھے موت سے نہیں۔۔مجھے تم سے دور جانے سے ڈر لگتا ہے اِیمان’ وہ ویسی ہاتھ جوڑے بےبس رو رہا تھا۔۔
بلال بِنا کچھ بولے اُٹھا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔۔
‘میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اِیمان’ وہ سرد لہجے میں بولا۔۔
‘کیسا فیصلہ’ اِیمان کی سانس ہلک میں اٹکی ہوٸی تھی۔۔
‘میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں’ وہ گہری سوچ میں بولا تھا۔۔
‘نکاح۔۔ کیا مطلب؟ تم ابھی چلو ہمیں ہسپتال جانا ہے اور تم ایسی باتیں کر کے میرا ارادہ نہیں بدلو’ وہ سہمی ہوٸی پرس اُٹھتے ہوۓ بولی۔۔
‘تم کیوں نہیں سمجھتی ہو؟ میں مزاق نہیں کررہا۔۔کیا تم مجھ سے نکاح کروگی؟ مجھے جواب چایۓ دلیلیں نہیں ابھی اسی وقت’ وہ سُرخ آنکھیں لیۓ بیڈ سے اُتر کر چلایا تھا۔۔
اِیمان گم سم کھڑی اُس کو تَک رہی تھی۔۔ اُس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے۔۔
‘تو تم میری محبت کو آزمانہ چاہتے ہو؟ اِیمان کا جسم کانپ رہا تھا۔۔
‘ٹھیک ہے۔۔ ابھی ہم ہسپتال چلتے ہیں۔۔واپسی پر میں تم سے نکاح کر کے تمھاری بیوی کے روپ میں تمھارے ساتھ آؤنگی میرا وعدہ ہے تم سے مگر ابھی میری بات مان لو’ وہ بےحد پیار سے اُس کو سمجھا رہی تھی۔۔
‘بس مجھے میرا سب کچھ مل گیا آج۔۔ اب ہنستے ہوۓ جاؤں گا’ وہ بستر سے اُٹھ کر تیاری کرنے لگا تھا جب کہ۔۔
اِیمان وہیں بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔۔
***********************
‘ہاں باسط سب خیر ہے؟ اِیمان نے فون اُٹھاتے ہی پوچھا۔۔
‘وہ بلال کی طبیعت تھوڑی خراب ہوگئ تھی۔۔ ہسپتال میں۔۔’ باسط بول رہا تھا جب اِیمان نے اُس کو روکا۔۔
‘کہاں ہے ابھی وہ؟ وہ ڈر گئ تھی۔۔
رات تو سب ٹھیک تھا۔۔ کیا ہوا تمھیں؟ وہ پہچتے ہی بلال پر برہم ہو گئ تھی۔۔
‘کچھ نہیں انسان ہوں ہوجاتا ہے۔۔ اب پرفیکٹ ہوں’ وہ دانت نکال کر ہنسا تھا۔۔
اِیمان نے خاموشی سے اُس کے پاس مُنّنے کو لٹایا اور آہستہ سے بولی۔۔
‘اپنا خیال رکھنا’ اُس کی آواز میں درد تھا۔۔ وہ واپس جاچکی تھی۔۔۔
***********************
لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ أَنتَ سُبْحَـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظَّـلِمِينَ۔۔ ہسپتال کی جانب جاتے ہوۓ پورے راستے وہ آنکھیں بند کیۓ پڑھ رہی تھی۔۔
وہ مُسلسل اُس کو ڈرائف کرتے ہوۓ گھور رہا تھا۔۔کتنا پیار کتنی فکر تھی اُس کے چہرے پر۔۔ وہ خُود کو مُکمل محسوس کر رہا تھا۔۔
‘کیا ہے؟ کیا پڑھ کر پھونک رہی ہو ایسے؟ وہ چڑ کر بولا۔۔ جس پر اِیمان نے مُنہ موڑ لیا تھا۔۔
‘اچھا نہ کچھ نہیں ہوگا مجھے۔۔ مت ڈرو۔۔ ڈر تو میں رہا ہوں ہسپتال کے بعد میری چڑیل جو میرے گلے پڑھنے والی ہے’ وہ اُس کی نمی کو مُسکراہت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
‘سوری ٹو بی پرسنل مگر آپ کیا ہیں بلال کی؟ ڈاکٹر نے تفشیش کا اظہار کیا۔۔
‘یہ میری ہونے والی بیوی ہیں آج ھمارا نکاح ہے۔۔ میں گھر میں ماحول خراب نہیں کرنا پاہتا اِس لیۓ میں اِن کو لاتا ہوں۔۔ ‘ اُس نے سینہ تان کر اِیمان کی زات کی دلیل دی تھی۔۔
‘آپ کیا کچھ دیر کے لیۓ باہر جاسکتے ہیں؟ ڈاکٹر کے اِس سوال نے اِیمان کو توڑ دیا تھا۔۔
وہ اپنے جسم کو چور چور محسوس کر رہی تھی جب اُس نے بلال کا ہاتھ پکڑا تھا۔۔
‘آپ کو جو بھی کہنا ہے آپ ہم دونوں کے سامنے کہیں’ اُس نے بلال کو بیٹھنے کا اِشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔
‘آئیں اّبو۔۔ یہاں بیٹھ جائیں’ اِیمان نے کُرسی سے اُٹھتے ہوۓ اُنہیں جگہ دی۔۔
‘میں نے اّبو کو فون کر کے بلایا تھا۔۔ بہتر ہے جو بھی بات ہو ڈاکٹر اّبو کے سامنے کریں’ اُس نے بلال کی حیرانگی دیکھ کر کہا تھا۔۔
‘بدقسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ بلال کی رپوٹز کے مطابق اِن کے دل میں تین سوراخ ہیں۔۔ ایک ہوتا تو علاج ممکن تھا۔۔ دو ہوتے ہم پھر بھی کوشش کرتے مگر تین۔۔ یہ نا ممکن ہے۔۔ کیس بگڑ جاۓ گا۔۔ آپ خُدا پر چھوڑ دیں۔۔۔
کمرے میں طویل خاموشی تھی۔۔
اِیمان نظریں جھکاۓ کونے میں کھڑی تھی۔۔
ایک باپ کی کمر جُھک گئ تھی۔۔۔
پروردگا مجھے ہمت دیں کہ میں اس شخص کو سمبھال سکوں۔۔، مجھے طاقت دیں کہ میں اپنا درد چھپا سکوں۔۔’ وہ واپسی کے سفر پر دل میں خُود سے گفتگو کر رہی تھی۔۔
‘اّبو آپ گھر جائیں میں زرا کچھ کام نمٹا کر آتا ہوں’بلال نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولا۔۔۔۔۔
‘ہم کہاں جارہے ہیں؟ تم اّمی کو تو بتادو کم از کم۔۔سب بہت ہرٹ ہونگے’ وہ سہمی ہوٸی بولی۔۔
‘یہاں کیا کرنے آۓ ہیں ہم؟ ہمیں تو نکاح؟ وہ ساہلِ سمندر پر گاڑی رکنے پر حیران ہوٸی تھی
‘کاش کہ میں خُودغرض ہوتا’ اُس کی آنکھیں بھری ہوٸ تھیں۔۔
وہ سمندر کی سمت بڑھ رہا تھا۔۔ اِیمان اُس کا پیچھا کرتے، آنسو دامن سے صاف کرتے ہوۓ خُود کو مضبوط بنانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔
‘ہیں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اِیمان’ وہ آسمان کی جانب دیکھ کر چِلایا تھا اور پھر لہروں میں گر کر بیٹھ گیا تھا۔۔
‘کیا ہوگیا ہے تمھیں؟ وہ بھاگی ہوٸ اُس کے پاس آئی تھی۔۔
‘مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔۔ سب کو ایک دن جانا ہے مگر اتنی جلدی؟ اِیمان میں کیسے رہونگا؟ وہ ایک بچے کی مانند رو رہا تھا۔۔
‘اچھا تم چلو نہ، مجھے تم سے نکاح کرنا ہے بس آج ہی’ وہ اُس کا ہاتھ تھام کر بولی تھی۔۔
گاڑی پورچ میں کھڑی ہوٸ تھی۔۔
وہ اُتر کر کمرے میں جا چکا تھا۔۔
‘آپ تو ماں ہیں۔۔ آپ کا بہت مضبوط رشتہ ہے خُدا سے۔۔ آپ دُعا کریں سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔
وہ بے نیاز ہے آنٹی۔۔ آپ بس سب نورمل رہیں اُس کے ساتھ۔۔’ وہ خُود کو ضبط کے بندھن میں باندھ کر سب کو دِلاسا دے رہی تھی۔۔
‘دیکھو بلال آج کون لایا ہے تمھارے لیۓ کھانا۔۔’ وہ دروازہ کھول کے اُس کو بولی تھی۔۔
بھری آنکھوں سمیت۔۔سُرخ ناک اور کانپتے وجود کے ساتھ مریم ٹرے لیۓ اُس کے پاس گئی جو بیڈ سے کھڑا ہوچکا تھا اپنی بہن کو دیکھ کر۔۔۔
‘آؤ بھئ آج تو ہم کھانا مِل کر کھائیں گے’ اِیمان نے مریم سے ٹرے لے لی تھی۔۔ وہ جانتی تھی کہ ایک بہن خُود کو روک نہیں پاۓ گی۔۔
اِیمان اُن دونوں کو چُپ کرانا چاہتی تھی مگر اُس کا دل ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔۔ اُس کا خُد کا دل بھی پھٹ رہا تھا۔۔
وہ خاموش کھڑی تھی جب کہ۔۔ بلال اور مریم پھوٹ پھوٹ کے گلے لگ کر رو رہے تھے۔۔
‘بھیئا۔۔ بھئیا بول دو کہ سب ایک مزاق ہے۔۔میں کوئ فرمائش کوئ شرارت کچھ نہیں کرونگی۔۔بھیئا پلیز نہ؟ وہ چیخ رہی تھی۔۔ اور بلال۔۔ وہ لَب سی چکا تھا۔۔
‘میں برتن لے کے جاتی ہوں۔۔’ کھانا کھانے کے بعد مریم ٹرے اُٹھاۓ جاچکی تھی۔۔۔
‘مجھے ایسے مت دیکھو بلال۔۔’ وہ ضبط کا دامن تھام کر بولی۔۔
‘کیا میں تمھاری گود میں صرف سر رکھ سکتاہوں۔۔؟’ وہ ہسرت سے بولا۔۔
‘شاید بلکہ یہ یقینٍ جائز نہیں کہ میں یوں تمھاری گود میں ایسے مگر۔۔ زندگی مُہلت دے نہ دے۔۔’ وہ بےآواز رو رہا تھا۔۔۔
‘کتنے حسین ہیں یہ لمحے۔۔ وہ پُرسکون سر رکھے آنکھیں بند کیۓ لیٹا ہوا تھا جب کہ آنسو مُسلسل اُس کی بند آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔
‘کیا ہم نکاح کل کریںنگے؟ وہ آس لگا کر بولی۔۔ وہ واقعی اُس کی ہونا چاہتی تھی۔۔ اُس کے نام سے منسوب ہونا چاہتی تھی۔۔ مگر۔۔
‘میں نے تم سے محبت کی ہے مطلب نہیں کیا اِیمان۔۔ میں کیوں تمھاری زندگی برباد کرونگا۔۔میں تو آباد کرونگا۔۔’ وہ دھیمے سے مُسکرایا تھا۔۔
‘اِیمان؟؟ اِیمان۔۔؟؟ اّمی نے اُس کو زور سے جنجھوڑا تھا۔۔
‘ہہ ہاں’ وہ بوکھلا گئ تھی۔۔
نجانے کتنی دیر سے وہ وہیں بیٹھی اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔جو اُس کی آغوش میں پُرسکون سو چکا تھا۔۔
‘کب سے ایسے بیٹھی ہو۔۔ وہ سوگیا ہے تم بھی آرام کرو تھک گئ ہو بہت۔۔
وہ لوٹ آئ تھی۔۔ اپنے ٹوٹے وجود کو سمیٹے وہ لڑکی اندر سے ٹوٹ گئ تھی۔۔۔
***********************
‘جلد کھاؤگی میری بریانی’ وہ مُسکرا کر بولا
‘میں فون بند کردوں؟ وہ غّصے میں بولی۔۔
‘میں تمھیں کوئ بھی جھوٹی اُمید نہیں دینا چاہتا۔۔’وہ سنجیدہ ہوکر بولا تھا۔۔
‘مجھ سے نکاح کرلو؟ وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ التجا کر رہی تھی۔۔
‘میں کرلیتا اگر مجھے تم سے تھوڑا سا بھی غرض ہوتا۔۔’ اِیمان میں نے تمھیں دُعاؤں میں مانگا ہے۔۔میں تمھاری زندگی بددعا کیوں بناؤں؟ اُس کی آواز میں درد تھا۔۔۔
***********************
‘آج تو آپی کی مریم بہت پیاری لگ رہی ہے’ اِیمان مریم سے گلے لگ کر بولی۔۔
‘ہیپی برت ڈے’ اُس نے مریم کو گفٹ دیتے ہوۓ وِش کیا۔۔
‘تم آتی ہو تو یہ کچھ زیادہ ہی فریش نہیں ہوجاتا؟ بھابھی نے مُنّنے کو اِیمان کی جانب بڑھایا۔۔
‘یہ لڑکی صحیح نہیں ہے پہلے اِس نے مجھ پہ جادو کیا اور اب میرے بھتیجے پر’ وہ اُس کو چھیڑ رہا تھا۔۔
‘ایک فیملی فوٹو پلیز؟ باسط نے سب کو ایک فریم مین قید کرلیا تھا۔۔
‘چلتی ہوں آنٹی شام ہونے کو ہے’ وہ بلال کی اّمی سے بولی۔۔
‘آرام سے بیٹھو میں نے تمھاری ماما کو فون کردیا ہے میں رات کے کھانے کے بعد تمھیں خُود چھوڑ کر آؤنگی’ اّمی اُس کو پیار کرتے ہوۓ بولیں۔۔
‘تم دونوں لان میں بیٹھو میں چاۓ لاتی ہوں’ اّمی کچن کا رُخ کرتے ہوۓ بولیں۔۔
‘موسم اچھا ہے آج کافی۔۔’وہ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولی۔۔
‘ارے تم کہاں جارہے ہو؟’ اُس نے اچانک بلال کو جاتے دیکھا تھا۔۔
‘تم چاۓ پی کر اوپر آجانا تمھیں کچھ دیکھانا ہے’ وہ سنجیدہ لہجے میں بول کے جا چکا تھا
***********************
‘میری اِیمان بہت مضبوط ہےنا؟ اُس نے اِیمان کی جانب سوفہ کھینچ کر بیٹھتے ہوۓ کہا۔۔
‘مضبوط ہوں مگر مجھے آزمانہ مت، میں انسان ہوں ولی نہیں’ وہ ڈر گئ تھی۔۔
‘اگر خُدا نے ہمیں آزمایا ہے تو ہمیں اُس کا احترام کرنا چائیے’ وہ مطمئن ہوکہ اُس کے سامنےکچھ رکھ کر بیٹھا تھا۔۔
‘تمھارا دِماغ خراب ہوگیا ہے۔۔تم پاگل ہوگۓ ہو۔۔ تم ہوش گواہ بیٹھے ہو۔۔ تمھیں نہ میری پرواہ ہے نہ گھر والوں کی۔۔ تم صرف باتیں کرسکتے ہو بڑی بڑی۔۔تمھیں خُدا پہ یقین نہیں ہے’ وہ باآوازِ بلند چیخ رہی تھی۔۔ آنسو اُس کے درد کی گواہی دے رہے تھے۔۔ وہ روتے ہوۓ اُس سُفید کپڑے کو پھاڑ رہی تھی۔۔
‘اِایمان تم۔۔’ بلال اُس کو اس روپ میں دیکھ کے حیران تھا۔۔
‘بس۔۔ بس کچھ نہیں بولنا’ اُس نے گلاس زمین پر پھینک دیا تھا اور وہ زمین پر بےجان گر گئ تھی۔۔۔
***********************
‘تم سے مجھے ایسی اُمید نہیں تھی’ اّمی نے اُس کی جانب غّصے سے دیکھا تھا۔۔
ایمرجنسی رُوم میں بےسود لیٹی وہ بہت کمزور دیکھ رہی تھی۔۔
‘چلا جاؤ یہاں سے’ وہ مُنہ پھیر کر بولی۔۔
‘چلا جاؤں؟ وہ دھیمے سے بولا۔۔
‘مت کرو مجھ پہ ظُلم۔۔مجھے اپنے ساتھ جینے دو۔۔مجھے ایسے نظارے نہیں دیکھاؤ کہ میں تم سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں’ وہ اسٹریچڑ پر لیٹی بلال کے آگے ہاتھ جوڑے رو رہی تھی۔۔
‘وہ لباس جو تمھیں دکھایا وہ سب کو پہننا ہے، تمھیں مضبوط ہونا ہوگا’ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔۔
‘اگر ایسا لباس ہے تو پھر خُدا مجھے یہاں سے اسی لباس میں’ وہ بول رہی تھی جب بلال نے اُس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھا تھا۔۔
***********************
‘میں تیرے فیصلوں میں بولنے کے قابل نہیں ہوں۔۔تو مجھ سے بہت محبت کرتا ہے پروردگار۔۔ میں نے کیا زیادہ مانگ لیا تھا؟’
وہ مُسلّلے پر بیٹھی۔۔قرآن ہاتھ میں لیۓ گڑگڑا رہی تھی۔۔
‘مجھے یقین ہے تیری زات پر۔۔ تو اُس کو شِفا عطا کردے۔۔ تو کُن کہےگا اور اُس کو شِفا مل جاۓ گی۔۔تو میرا سب کچھ لے کر بس اُس کو بچا لے۔۔مجھ کو سّتر ماؤں سے بڑھ کر چاہنے والے اُس کو بچا لے۔۔’ وہ پل پل ٹوٹ رہی تھی۔۔
قرآن پاک میز پر رکھ کر وہ سجدہ ریز ہوگئ تھی۔۔
اُس کا وجود جواب دے رہا تھا۔۔ وہ اذانِ فجر پر سجدے سے اُٹھ کر بیٹھی تھی۔۔
..
‘یہ کیا ہے؟’ پانی سپلاۓ کرنے کا کام شروع کیا ہے کیا؟ بلال اُس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل دیکھ کے بولا تھا۔۔
‘بکواس بند کرو اور یہ پیو۔۔ سورۃ یٰس اور سورۃ رحمن کا دم کیا پانی ہے’
وہ انتہائ حسین لگ رہی تھی اُس کو۔۔
‘اِیمان میری بات سُنو’ اُس نے اِیمان کو اپنی طرف اِشارہ کر کے آنے کو کہا جب وہ نماز پڑھ کر کھڑی ہوئ تھی۔۔
‘یہ زندگی ہے۔۔کوئ آتا ہے کوئ جاتا ہے۔۔میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے اس تھوڑے وقت میں تم جیسی ساتھی ملی۔۔ تم نے ہمیشہ میرا مان رکھا ہے’ وہ نظریں جھکاۓ اُس کو سُن رہی تھی جب کہ اُس کی رُخسار پہ بہنے والے آنسو اُس کی کیفیت بیان کر رہے تھے۔۔
‘ ہم دونوں میں سے کسی کی محبت بھی مطلبی نہیں تھی۔۔تم نے مجھ سے جوڑے ہر رشتے کو بہت تکریم دی اِیمان جس کے لیۓ میں ہمیشہ احسان مند رہونگا۔۔’ اُس کے لہجے میں اپنئیت تھی۔۔۔
‘مجھ سے وعدہ کرو اِیمان۔۔میں آخری بار تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں پھر کبھی نہیں مانگوں گا پلیز؟ وہ ہاتھ جوڑ کر اُس کے سامنےبیٹھا تھا۔۔
‘مجھ سے ایسا کچھ نہیں مانگنا جو میں نہ دے سکوں’ اُس نے بلال کو پیھچے کر کے اُٹھنا چاہا تھا۔۔۔وہ سہم گئ تھی۔۔
‘بیٹھو یہاں!!’ میرا تم پر حق ہے پورا’ اُس نے اِیمان کو آنکھیں دیکھا کر بیٹھایا تھا۔۔
‘میں بہت کمزور ہوں۔۔ مجھے مت آزماؤ۔۔میں نہیں کرسکوں گی انکار تمھیں اور شاید تمھاری بات بھی نہ مان سکوں’ وہ سمجھ گئ تھی کہ بلال کچھ ایسا مانگگے گا جو اُس کے لیۓ دینا نہ ممکن ہوگا۔۔
وہ رو رہی تھی۔۔مگر اکیلی نہیں تھی وہ۔۔
آنسوؤں کی گہری گفتگو۔۔ سِسکیاں اور درد تھا وہاں۔۔
‘اِیمان میں پہلی بار تمھیں اپنی قسم دے کر کہتا ہوں۔۔میرے جانے کے بعد تم روکنا مت۔۔ تم آگے بڑھنا۔۔ میرے جانے کے بعد نہ چاند روکےگا نہ سورج۔۔ تم بھی نہیں روکنا۔۔تم خوش ہوگی تو میں مُطمئن ہونگوں گا۔۔وہ اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھام کر بولا تھا۔۔
‘تم ہمیشہ جانے کی باتیں کیوں کرتے ہو۔۔؟ مجھ پہ ترس نہیں آتا؟ وہ سُرخ آنکھوں کو اُٹھا کر بولی تھی۔۔۔
‘میں تمھیں حالات سے آگاہ کر رہا ہوں۔۔اگلی سانس لوں یہ نہیں۔۔ تمھیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنا کر جانا چاہتا ہوں کیونکہ تمھیں دیکھ کر میرے گھر والے بھی خوش رہنگے۔۔’ وہ آنسو نہیں روک پایا تھا۔۔
اُس شام دونوں نے سجدہ ریز ہوکہ رَب کی بارگاہ میں آنسوؤں کی پیشی دے کر اُس کے فیصلے میں ہامی بھر دی تھی۔۔
****************************
۵ جون کی دوپہر وہ نماز کی تیاری کر رہی تھی۔۔
‘بھابھی۔۔ تم گھر آجاؤ’ باسط کی آواز نے اِیمان کا دم نکال دیا تھا۔۔
‘باسط کیا ہوا؟ بلال کہاں ہے؟ سب ٹھیک ہےنا؟؟کس ہسپتال میں ہے وہ؟ اِیمان ایک سانس میں بولی تھی۔۔
‘وہ گھر میں ہے۔۔مگر۔۔’ اُس نے فون رکھ دیا تھا بات ادھوری چھوڑ کر۔۔
‘وہ بغیر چپل کے عبایا پہن کر گاڑی میں سرد جسم کہ ہمراہ اُس کے گھر پُہچی۔۔
‘گھر کے باہر رش اِیمان کو جالا رہا تھا۔۔
گرم زمین پر اُس کے پاؤں جل رہے تھے مگر اُس کو ہوش کہا تھا۔۔
‘آپی۔۔ آپی بھیئا۔۔’ مریم اِیمان سے لپٹ کر چلّائ تھی۔۔
‘کیا ہوگیا مریم؟ نہیں نہیں ابھی کسی کونے سے نکال آۓ گا دیکھنا۔۔ وہ اُس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی۔۔
لونج میں داخل ہوکہ اُس کی نظر سامنے اُس شخص پر پڑی جو بےسود پڑا تھا۔۔
‘یہ بلال تو نہیں ہے’ اُس کے دل نے تسلّی دی تھی۔۔
ایک ایک قدم بڑھتی اِیمان اور اُس کا دل صدا لگا رہے تھے۔۔
نہیں بلال۔۔ نہیں ہے یہ۔۔
قریب جاکر اُس نے باہمت ہوکہ۔۔ کانپتے ہاتھوں سے کفن ہٹایا تھا۔۔۔
وہ مُسکرا رہا تھا۔۔
وہ۔۔ وہ اِیمان کا بلال ہی تو تھا۔۔
‘میں خوش ہوں اِیمان۔۔دیکھو مُسکرا رہا ہوں۔۔’اِیمان کو لگا بلال بے اُس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔
اُس کے گیلے بال۔۔ اُس کی چمکتی پیشانی اور مُسکراتے ہونٹ۔۔ وہ بہت پُرسکون دیکھ رہا تھا۔۔۔
اِیمان بےسود اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔
‘اُٹھ جاؤ؟ میں آئ ہوں۔۔ ابھی بھی نہیں اُٹھوگے؟ وہ اُس کی ڈولی کے پاس بیٹھی اُس کو واستے دے رہی تھی۔۔ جو ہمیشہ کی نیند سوچکا تھا۔۔۔
وجود کام نہیں کررہا تھا۔۔ جیسے دماغ سُن تھا۔۔ ہوش تب آیا جب مردوں میں آواز گونجی
کلماء شہادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کو لےجایا جارہا تھا۔۔ اور وہ۔۔ بے بس کھڑی لون میں ایک کونے میں کھڑی اُس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔.
‘جاؤ بلال۔۔ تم سے اور خُدا سے روزِ محشر ملاقات ہوگی۔۔ روزِ محشر کا انتظار کریگی تمھاری اِیمان’ اُس نے وہیں بیٹھ کر خُود سے ہمکلام ہوکہ کہا تھا۔۔۔
اِیمان۔۔ بھابھی نے اُس کو پکارا تھا۔۔
‘یہ لو تمھاری امانت۔۔ بلال نے دی تھی تمھیں دینے کو۔۔’ وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ کمرے سے جاچکی تھیں۔۔
گھر آکے اُس نے اپنے کالے سیاہ پیروں کو دیکھ کے بہت آنسو بہاۓ تھے۔۔ جو بغیر چپل کے گلیوں میں رولے تھے ایک شخص کے پیچھے۔۔۔
رات عشاء پڑھ کر وہیں بیٹھ کر وہ خط کھول کے دیکھنے لگی۔۔
اِیمان۔۔
ھمارے نصیب میں اتنا ہی لکھا تھا ہروردگار نے۔۔ میں نے تمھارے ساتھ بہت کچھ جیا۔۔ بس تم اپنا خیال رکھنا۔۔ دونوں گھر والوں کا بھی خیال رکھنا۔۔ رونا مت۔۔ جس دن تمھیں کفن دیکھایا تھا اور تم روئ تیھں تو اُس دن میں رات بھر رویا تھا۔۔ کیونکہ میری وجہ سے تم روئ تھیں۔۔ آۓ ایم سوری۔۔ تم یقین رکھنا خُدا پر۔۔ اُس کی زات پہ یقین رکھنا۔۔ میں اُن سے تمھیں اس جہاں کے لیۓ مانگوں گا۔۔
بس دُعا کرنا میرے لیۓ۔۔وہ کیا ہے کہ تمھارے بِنا دل نہیں لگے گا۔۔ تم میری کُل کائنات ہو
اپنا خیال دکھنا۔۔ زندگی میں مُڑ کر مت دیکھنا۔۔
میں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں۔۔ سنو۔۔ اپنی بیٹی کا نام قسوہ رکھنا۔۔ خوش رہنا۔۔
چلتا ہوں۔۔
جانے سے پہلے ایک آخری بار کہنا چاہتا ہوں۔۔
بلال نے تم سے عشق کیا ہے اِیمان طارق۔۔
تمھارا اور صرف تمھارا۔۔
بلال خان۔۔’
اُس خط کو دل سے لگا کر۔۔ وہ سجدہ ریز ہوکہ رات بھر ہچکیوں سے روئ تھی۔۔۔
****************************
‘ایسے تو نہیں کرتے ہیں اور پھر تم تو اتنی سمجھدار ہو میری گڑیا’ اِیمان نے مریم کے منُہ میں نوالہ دیتے ہوۓ کہا۔۔
مریم جو خاموش آنسو سے اپنے جواب اِیمان کو دے رہی تھی۔۔
‘درد نہیں ہوتا آپ کو؟ بھئیا یاد نہیں آرے آپی؟
مریم نے اِیمان کو گلے لگا لیا تھا۔۔
وہ جو ضبط کرکے بیٹھی تھی۔۔۔کمزور پڑھ گئ تھی۔۔۔۔
اپنے آنسوؤں کو فورًا صاف کرکے اُس نے مریم کو سنبھلا۔۔۔
‘ادھر دیکھو مجھے۔۔۔ کس نے کہا کہ بھئیا چلے گۓ ہیں۔۔؟ وہ یہیں ہیں۔۔اور پتہ ہے مجھے غصّے سے دیکھ رہے ہیں کہ کیوں میں اُن کی گڑیا کو رونے دے رہی ہوں۔۔’ اُس نے مریم کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
‘کیا تم چاہتی ہو کہ بھئیا کو تکلیف ہو؟’ اُس نے دوسرا نوالہ مریم کے مُنہ میں دیتے ہوۓ پوچھا۔۔
‘نہیں آپی ہرگز نہیں’ مریم نے خُود آنسو صاف کیۓ تھے۔۔۔
‘شُکر ہے اُس نے کچھ کھایا۔۔ تم میرے ایک فون پر آئیں تھینکس اِیمان مگر مجھ سے نہیں دیکھا جارہا تھا اور میں چاہ کر بھی دِلاسا نہیں دے پارہی تھی مریم کو’ بھابھی نے نم آنکھوں سے اِیمان کا شُکر ادا کیا۔۔۔
جواب میں وہ کچھ نہ کہہ پائ تھی۔۔۔
وہ خاموش ہوگئ تھی۔۔ وقت نے اُس کو خاموش کردیا تھا۔۔۔
‘امّی کہاں ہیں؟ وہ آنسو ضبط کرکے بولی۔۔۔
جس گھر میں آکے اُس کی ذات کو سُکون ملتا تھا۔۔وہاں سے واپس جانے کا دل نہیں کرتا تھا۔۔
آج وہی گھر اُس کی روح کو تکلیف دے رہا تھا۔۔
اُس کی دُنیا اُجڑ گئ تھی۔۔
وہ امّی سے مل کر واپس جانا چاہتی تھی۔۔
‘امّی بلال کے کمرے میں ہیں ایمان۔۔’ بھابھی خُود کو نہ روک پائ تھیں۔۔
‘کیسے جاؤں اُس کمرے میں؟ کیسے رکھوں وہاں قدم۔۔؟ وہاں تو میں نے بلال کے ساتھ اپنی دُنیا کے خواب دیکھے تھے۔۔ کہاں سے لاؤں اتنی ہمت۔۔۔ کیسے اپنی آنکھوں کو بہنے سے روکوں۔۔؟ وہ باتھ روم میں کھڑی شیشے میں خود کو دیکھ رہی تھی۔۔ اُس کو اپنے آپ پر ترس آرہا تھا۔۔ بکھرے بال۔۔ لال سوجھی ہوئ آنکھیں۔۔ وہ خُود کو مسلسل دیکھ رہی تھی۔۔۔
گہری سانس لے کر۔۔ مُنہ دھوکر اُس نے ایک بار پھر خُود کو مضبوط کیا تھا۔۔
ایک ہی آواز تھی جو ذہہن میں گونج رہی تھی۔۔
‘ایمان میرے گھر والوں کا خیال رکھنا۔۔ میں اُن کی ذمہ داری تمھیں سونپ کہ جارہا ہوں’۔۔۔
‘میرے بیٹوں میں تو میرا سب سے قریب اور لاڈلہ تھا۔۔ تو ہی مجھے ہنساتا تھا پھر کیوں آج رولا رہا ہے۔۔؟ امّی بلال کی شرٹ سینے سے لگاۓ زور و قتار رو رہی تھیں۔۔
‘امّی۔۔ امّی۔۔۔؟ ایمان اُن کے پاس بیٹھی تھی۔۔
‘بس امّی پلیز بس کریں۔۔’ وہ بس اتنا ہی بول پائ تھی۔۔۔
‘وہ میری نہیں سُن رہا۔۔ تم ہی اُس کو بولو کہ وہ واپس آجاۓ۔۔’ امّی اُس سے گلے لگ کر چیخ چیخ کر رو رہی تھیں۔۔
اور وہ۔۔۔
وہ لڑکی زندہ لاش بن کر بیٹھی تھی۔۔۔
‘میں آپ کے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کیونکہ آپ نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے امّی۔۔
لیکن الّللا کے فیصلوں کے آگے ہم کچھ نہیں کرسکتے اور پھر اگر ایسے ہم روئیںنگے تو بلال کیا خوش ہوگا۔۔؟ وہ پوری ہمت کے ساتھ امّی کے قدموں میں بیٹھ کر اُن کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر بولی۔۔
‘تم میں مجھے میرا بلال نظر آتا ہے۔۔ وہ بھی ایسی اپنی بات منوالیتا تھا۔۔جیسے کہ تم۔۔’ اُن کے آنسو بہہ رہے تھے۔۔
‘اچھا آپ لیٹ جائیں میں ادھر ہی ہوں’ ایمان نے امّی کو بیڈ پر لیٹایا تھا۔۔
وہ خُود کو دُنیا کی سب سے بےبس لڑکی کے روپ میں دیکھ رہی تھی۔۔ وہ جو ہلکے زخم پر تڑپ جاتی تھی۔۔ آج اُس کا وجود خُود گہرا زخم بن کر رہ گیا تھا۔۔۔
جاۓنماز پر بیٹھی وہ اُس کمرے کو گھور رہی تھی۔۔ سب کچھ تھا۔۔ بس نہیں تھا تو وہ شخص جس سے کمرا آباد ہوا کرتا تھا۔۔۔ اگر تھا تو بکھرے وجود تھے۔۔ وہ ماں تھی جس کی گود اُجڑ گئ تھی۔۔
وہ لڑکی تھی جو سب کو ہمت کے سبق پڑھا رہی تھی مگر دراصل وہ خُود ہار گئ تھی۔۔ وہ اپنا سب کچھ ہار گئ تھی۔۔
‘آپی آپ مت جائیں ورنہ مجھے پھر رونا آجاۓ گا’ مریم جاتی ہوئ ایمان کے گلے لگ کر رو رہی تھی۔۔
‘مریم بیٹا آپ ہمارے ساتھ چلو ہم بہت انجواۓ کرینگے۔۔’ ایمان کی ماما مریم کی معصومیت پہ بولیں۔۔
‘ہاں مریم چلو تیار ہوجاؤ آج تم اپنی آپی کے ساتھ چلوگی’ ایمان اپنی ماما کی بات پر ہامی بھرتے ہوۓ بولی۔۔
****************************
‘آپ کہاں جارہی ہیں شادی کی وڈیو لگا کر’ مریم نے ایمان کو ہاتھ سے پکڑا تھا۔۔
‘تم ایشعال کی شادی کی وڈیو ماما کے ساتھ دیکھو میں اپنی گڑیا کے لیۓ ڈنر تیار کرکے بس ابھی آتی ہوں’ ایمان نے اُس کو پیار کرتے ہوۓ کہا۔۔
ایمان بھاگ کر مریم کے رونے پر کچن سے آئ تھی۔۔
‘کیا ہوا مریم۔۔ میری جان۔۔ کیا ہوا۔۔’ وہ گھبرا کے بولی۔۔۔
ایمان ٹی وی کی جانب دیکھ کے خاموش ہوئ تھی۔۔۔
‘آپی بھئیا۔۔ دیکھو نہ۔۔ کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔۔ کاش وہ۔۔ ‘ دونوں گلے لگ کر رو رہی تھیں۔۔
دیر رات کھانے کے بعد ایمان نے عبایا پہن کر مریم کو مخاتب کیا تھا۔۔
‘ہم آئس کریم کھا کر گھر چلینگے۔۔’ ایمان نے مریم کو مُسکرا کر کہا۔۔۔
****************************
‘تم جس طرح سب کر رہی ہو۔۔
میں کچھ بھی کہوں تو کم ہوگا’۔۔ بھابھی نے گیٹ پر ایمان کو گلے لگایا تھا۔۔
دو دِن سے وہ سوئ نہیں تھی۔۔
رات دو بجے وہ اُٹھی۔۔وضو کرکے نوافل ادا کیۓ اور وہیں بیٹھی رہی۔۔
چاہ رہی تھی کہ روۓ۔۔
چاہ رہی تھی کہ الّللا سے بات کرے مگر آنسو آنکھوں سے نکل رہے تھے نہ لفظ لبوں سے نکل رہے تھے۔۔
بس وہ ساخت بیٹھی تھی۔۔
درد کی شدّت سے اُس کا وجود جواب دے رہا تھا۔۔
‘یا اللّلا’ وہ بمشکل یہ کہہ کر سجدہ ریز ہوگئ تھی۔۔۔
‘میں کیا کہوں؟۔۔ کیا میں کچھ کہہ سکتی ہوں۔۔؟ نہیں میں کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی ہوں۔۔
میں نے تیرے فیصلے میں ہامی بھرلی ہے۔۔ مگر۔۔’
وہ زور و قتار رو رہی تھی۔۔
‘میں تو وہ بدنصیب ہوں جو اپنا درد بھی ظاہر نہیں کرسکتی۔۔ روز مجھے بہادری کا لبادہ اُڑھ کر اُس کے گھر والوں کا سہارا بننا پڑھتا ہے۔۔ میری مدد کر خُدایا۔۔ میں اتنی بھی بہادر نہیں ہوں۔۔ میرے دل پر اپنا ہاتھ رکھ دیں مالک۔۔’
رات بھر وہیں لیٹی وہ بس خاموش وجود سمیت آذان کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
‘ایمان؟ ماما نے اُس کو جگاتے ہوۓ پکارا۔۔
وہ ڈر کر بیٹھی تھی۔۔
‘سب ٹیھک ہے ایمان بیٹا’ ماما اُس کا پسینہ صاف کرتے ہوۓ بولیں۔۔
‘نہیں بس۔۔۔ میں کیا کروں ماما۔۔ مجھ سے نہیں ہورہا۔۔ میرا دل ہر پل روتا ہے۔۔ آنسو نہیں روکتے۔۔ دل کرتا ہے اُس کے پاس جانے کو۔۔ اُس کا خیال رکھنے کو۔۔ اِس اُمید سے سوئ تھی کہ کیا پتہ وہ آجاۓ ماما’۔۔ ایمان خُود کو روک نہ سکی تھی۔۔ وہ سب کا جو مرہم بنتی تھی۔۔ اُس کا زخم ناسور بن گیا تھا۔۔
وہ دل کھول کر روئ تھی۔۔ وہ جو ضبط کا دامن تھام کر سب کو سہارا دے رہی تھی۔۔اُس کا ضبط ٹوٹ گیا تھا۔۔۔
‘وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا ماما۔۔ وہ مجھ سے سب سے دور جانے سے ڈرتا تھا۔۔ وہ جان چکا تھا کہ اُس کے پاس وقت نہیں تھا۔۔اُس نے مجھے نہیں بتایا تھا۔۔وہ وہاں اکیلا ہے ماما۔۔ وہ اکیلا ہے۔۔’ وہ بولتے بولتے فرش پر گر گئ تھی۔۔ اُس کا دامن بھیگ گیا تھا۔۔۔
”وہ ایمان کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔ مگر وہ مجبور تھا۔۔ آپ کی دُعا ضرور سُنےگا الّللا آپ دُعا کریں ماما۔۔’ وہ بولتے بولتے خاموش ہوگئ تھی۔۔۔
اُس کی ماما نے اُس کو روکا نہیں تھا۔۔وہ چاہتی تھیں کہ ایمان کا دل ہلکا ہوجاۓ۔۔
****************************
‘میری بیٹی کیسی ہے؟’ ایمان کے بابا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا تھا۔۔۔
‘ٹھیک ہوں بابا’ اُس نے نظریں چھوپا کر اپنے بابا کو گلے لگ کر کہا تھا۔۔
‘ایمان یہ دُنیا کا دستور ہے بیٹا۔۔ دوست کھونا بہت بڑا دُکھ ہے مگر ایسے اب تم ہمیں دُکھ دے رہی ہو۔۔ میں واپس دبئ چلا جاؤں گا تو تم تو میرا بیٹا ہو نا۔۔ اگر تم ایسے ہوگی تو میرا دل کیسے لگےگا۔۔؟ جو چلا گیا اُس کے لیۓ دُعا کرو مگر خُود کو تکلیف مت دو۔۔’ وہ ایمان کی پیشانی چوم کر جا چکے تھے۔۔
‘میں چاہ کر بھی اپنی کیفیت آپ کو نہیں بتا سکتی۔۔ میں نہیں بتا سکتی کہ وہ میری کُل کائنات تھا۔۔ اور میں نے اپنی کائنات کھو دی بابا۔۔ میں کیسے اپنا وجود دیکھاؤں جو چھلّی ہوگیا ہے۔۔ کہاں بیان کرسکتی ہوں آپ کے آگے۔۔ آخر میں ہوں تو ایک بیٹی۔۔ جو اپنی عزت کو آنچ نہیں آنے دیتیں۔۔ بابا۔۔ میں نے بہت پاک محبت کی جس کا گواہ پروردگار ہے۔۔’ وہ سر جھکاۓ اپنی ہتیلی پر آنسوؤں کو دیکھ رہی تھی.
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...