دماغ خراب ہے کیا اسکا ۔۔۔۔ایک نمبر کی پاگل اور جھلی ہے ۔۔تیری کزن ۔۔۔وہ کزن پر زور دیتے ہوئے بولا ۔۔
بہت ہو گیا ہاں ۔۔۔وہ جھلی بھی تیری وجہ سے ہوئی ہے ۔۔۔حدید اسے وارن کرتے ہوئے بولا ۔۔
ہاں ۔۔۔میں نے اسے کہا تھا نہ کہ میرے گھر میں آکر چیزوں کو تہس نہس کرے ۔۔بنا بتاۓ گھر سے غائب ہو کر دوسروں کو پریشان کرے ۔۔سنسان سڑک پر گاڑی سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں فون تھمائے وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوا ۔۔
اچھا کیا ۔۔۔بلکہ بہت اچھا کیا ۔۔۔اسے چاہیئے تھا کہ تجھے بھی ساتھ میں تہس نہس کر دے ۔۔جان ہی چھوٹ جائے گی میری ۔۔اس بار حدید بلک اٹھا ۔۔
ہاں یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا تمہیں بہت جلد ۔۔۔۔وہ خلا میں گھورتے ہوئے بولا ۔۔
یار ۔۔۔۔تم لوگوں کو دیکھ کر نہ ۔۔۔اب پیار جیسی بیماری فضول لگنے لگی ہے دل ہی نہیں کرتا محبت کرنے کا ۔۔ جہاں صرف وقت ہی ضائع ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں ۔۔یہ کہتے ہی حدید نے فون کان سے ہٹاتے ہوئے لمبی سانس کھینچ کر خود کو کمپوز کرنا چاہا ۔۔
ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں یہ پیار جیسی چیز ہوتی ہی فضول ہے جو انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ۔۔۔۔صرف اسی کا ۔۔۔
کچھ ہوش نہیں رہتا کچھ دھیان نہیں رہتا
انسان محبت میں انسان نہیں رہتا
وہ کچھ سوچتے ہوئے گاڑی کی جانب بڑھ گیا ۔۔
۔*************۔
وہ بہت تھکی تھکی سی گھر پہنچی تھی ۔۔لہجے میں بے زاری چھائی تھی ۔۔
بنا کسی سے بات کیئے سیدھا اس نے اپنے کمرے کی راہ اختیار کی ۔۔اس عورت کی بتائی گئی باتوں پرعمل کرتے ہوئے وضو کر کے قرآن پاک کو آنکھوں سے لگاتے ہوئے کھولا ۔۔
ایک عجیب سے احساس نے اسے اپنی گرفت میں لیا ۔۔نہ جانے کتنے عرصے بعد اسنے غلاف میں لپٹے خوبصورت قرآن پاک کو ہاتھ لگایا تھا ۔۔
("خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہوں ” )
سامنے لکھی آیت کو پڑھ کر بے اختیار اسکے ہاتھ لرزنے لگے ۔۔آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ۔۔
ہم کتنا لوگوں پر بھروسہ کر کے انکے پیچھے بھاگتے ہیں ۔۔مگر امید صرف اللہ پاک ہی بندھاتا ہے ۔۔وہ اپنے بندے کو نا امید کر ہی نہیں سکتا ۔۔
اور کرتا بھی کیسے ۔۔۔؟
اللہ پاک ستر ماؤں سے زیادہ جو پیار کرتا ہے اپنے بندے سے ۔۔۔
۔*************۔
زندگی روز کے معمول کے مطابق چل پڑی تھی ۔۔۔
فائنل ٹرم سر پر تھے ۔۔مگر ہر طرف اداسی پھیلی تھی ۔۔اتنے دنوں سے نہ ظفر کے ساتھ کوئی پنگا ہوا نہ امل اور باسط کی بے وقوفیاں دیکھنے کو ملیں ۔۔اور نہ ہی تابین اور حزیفہ کے جھگڑے سے کسی نے لطف اٹھایا تھا ۔۔
ایگزامز کے بعد سینئر کو ایک زبردست الوداعی پارٹی دینے کا انعقاد کیا گیا ۔۔جس کے نتیجے میں جونیئر سخت محنت کرنے لگے ۔۔
رات سے تابین کی شکل نہ دیکھنے کی وجہ سے اسکا دماغ گھوم رہا تھا ۔۔۔تابین کے نہ آنے کا سن کر اسے اور غصہ آنے لگا ۔۔
جبھی کلاس میں بیٹھ کر وہ بامقصد یونہی پیج پر لائنیں لگانے لگا ۔۔۔
حدید صفحے پر نظریں جمائے جھکا ہوا کچھ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔
حزیفہ نے غصے بھری ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے اسے اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔
کیا مسلہ ہے ۔۔۔۔؟ بلآخر اس نے پوچھ ڈالا ۔۔
یہ تو میرا سوال ہے ۔۔حدید نہ بھنوؤں کو اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔
وہ جھنجھلاتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر جانے لگا جبھی سر حمید کو کلاس میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ۔۔
” کیا مصیبت ہے اب یہ دوبارہ کیوں نازل ہوا ۔۔”
سٹوڈنٹس اوپن یور بکس ۔۔۔۔آتے ہی انہوں نے اعلان کر دیا ۔۔۔
حزیفہ کے ساتھ ساتھ ساری کلاس حیران و پریشان تھی کہ یہ انکا پیریڈ تو نہیں ۔۔۔
سٹوڈنٹس کو بنا حرکت کیئے دیکھ کر وہ چلائے ۔۔۔
میں نے کہا اپنی بکس کھولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
ارے واہ ۔۔۔۔۔۔بلکل سہی جملہ کہا ہے آپ نے اس بار ۔۔۔کلیپ فور سر ۔۔۔حدید داد دیئے بنا نہ رہ سکا ۔۔
ساری کلاس کے کھی کھی کرنے پر سر حمید تلملا اٹھے ۔۔۔
باسط جو ایگزام کی تیاری کرنے میں مصروف تھا انکی بات چیت سے ڈسٹرب ہوتے ہوئے ٹھیک سے مسکرا بھی نہ سکا ۔۔۔
ایکسکیوزمی سر ۔۔۔انکے کچھ بولنے سے پہلے کسی سٹوڈنٹ نے ہانک لگائی ۔۔۔ "یہ آپکا پیریڈ نہیں ۔۔۔۔”
مجھے پتا ہے ۔۔۔آپ لوگوں کی ایگزامز قریب ہیں لہٰذا فارغ بیٹھنے سے اچھا ہے پڑھ لو ۔۔۔وہ غصے کے اشتعال کو دباتے ہوئے بولے ۔۔
حزیفہ پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوکر جانے لگا ۔۔۔
ہے مسٹر یو ۔۔۔۔سر نے وہیں سے ہانک لگائی ۔۔۔
وہ جاتے جاتے مڑا ۔۔۔
تم کو پتا نہیں کلاس میں سر کی موجودگی میں تم بنا اجازت لیئے باھر جارہے ہو ۔۔۔
سر آپ کی کلاس اٹینڈ کرنے سے بہتر ہے میں چلا جاؤں ۔۔کیوں کہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔وہ روعب سے باور کراتا ہوا جانے لگا ۔۔جبھی سر حمید گویا ہوئے ۔۔
تم ابھی کہ ابھی اپنی جگہ پر بیٹھو گی ۔۔یہ میرا حکم ہے ۔۔وہ چشمے کو ناک پر جماتے ہوئے چیخ پڑے ۔۔
باسط سمیت سب نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ۔۔
سر میں رکنے والا تو ہوں نہیں ۔۔۔لہٰذا آپ اپنی انرجی ضائع نہ کریں ۔۔حزیفہ کان کو رگڑتے ہوئے ڈیٹھائی سے بولا ۔۔
سر حمید کے تن بدن سے دھوویں اٹھنے لگے ۔۔۔انکا سرخ ہوتا چہرہ ساری کلاس دیکھ سکتی تھی ۔۔۔
آہ سر ۔۔میں بھی جانا چاہوں گا ۔۔۔اسکے ساتھ باسط بھی کھڑا ہو گیا وہ بھی جان چکا تھا کہ یہاں صرف ٹائم ہی ضائع ہوسکتا ہے اس سے اچھا ہے کہ لائبریری میں بیٹھ کہ پڑھ لیا جائے ۔۔
سر حمید کے تاثرات بدلے ۔۔یس یو کین ۔۔۔۔وہ nنرم لہجے میں بولے۔۔
جبھی حدید نے موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا فوراً جمائی روکتے ہوئے بولا ۔۔
سر اس سے اچھا ہے آپ ہی چلے جائیں ۔۔تاکہ ہمیں بھی پرسکون رہنے کا موقع ملے ۔۔
ہاں کیوں نہیں ۔۔۔میں ہی جاتا ہوں ۔۔یہ کہتے ہی وہ جانے لگے ۔۔۔جبھی جاتے جاتے مڑے ۔۔
مجھے امید ہے یہ دن آپ میں سے کوئی بھی نہیں بھولے گا ۔۔۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نہ جانے کیا باور کرا گئے تھے ۔۔
حدید تو نظر انداز کرتا ہوا وہیں لیٹ گیا ۔۔۔
۔**************۔
تابین کا بدلتا رویہ دیکھتے ہوئے اماں پریشان ہونے لگیں کہ اچانک اسے کیا ہو گیا ۔۔
وہ جسے سارا دن سونے سے فرصت نہ تھی اب پابندی سے پانچ وقت کی نماز ادا کرنے لگی تھی ۔۔۔سارا سارا دن اپنے کمرے میں ہی بند رہتی ۔۔۔
اور اب تو اس نے کچن میں بھی آنا شروع کیا تھا ۔۔اب بھی وہ کچن میں کھڑی بریانی کو لاسٹ ٹچ دی رہی تھی جبھی کسی کی نظریں خود پر محسوس کرتے ہوئے فوراً مڑنے لگی ۔۔
ماں کو دروازے پر براجمان دیکھ کر اس نے گہری سانس کھینچی ۔۔
تابین ۔۔۔بلاآخر وہ اسے پکار بیٹھیں ۔۔۔
جی اماں ۔۔۔۔۔ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس نے جواب دیا ۔۔
بیٹا تم ٹھیک تو ہو۔۔نا ۔۔۔۔۔؟ انکے سوال پر جہاں تابیں کو حیرت ہوئی تھی وہاں انھیں پریشانی ۔۔۔
میرا مطلب ہے ۔۔نماز وغیرہ ۔۔اور یہ سب ۔۔۔؟ وہ شرمندگی کے ملے جلے تاثرات سے کہنے لگیں ۔۔۔
اماں ۔۔۔وہ انھیں شانوں سے پکڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
میں سیدھی راہ پر چلنا چاہتی ہوں ۔۔۔کیڈنیپینگ ۔۔اور نہ جانے کن کن مشکلات سے گزرکر میں زندہ سلامت ہوں ۔۔اس خوفناک رات کو سوچ کر میرے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔اسکی آنکھیں بھیگ گئیں
نہ چاھتے ہوئے بھی میں خود کو موت کے منہ میں سمجھتی تھی ۔۔لیکن میں زندہ بچ گئی آپ کے سامنے ہوں ۔۔تو کیا اس رب کا شکر کرتے ہوئے میں نے نیک راہ اختیار کرنے کا سوچا تو کیا غلط کیا ۔۔؟
نہیں میرا بیٹا ۔۔۔تم نے بلکل ٹھیک کیا ۔۔جو میں نہ کر پائی وہ میرے رب نے کر دکھایا ۔۔انہوں نے نم ہوتی آنکھوں سے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا ۔۔۔
اچھا چلو کل تمہارا پیپر ہے جاؤ تیاری کرو شاباش ۔۔انہوں نے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے تابین سے کہا ۔۔
بس یہ تھوڑا رہتا ہے ۔۔وہ بھی خود کو کمپوز کرتے ہوئے بریانی کی جانب بڑھی تھی جبھی اماں نے روک دیا ۔
اسکو میں دیکھ لوں گی تم جاؤ ۔۔۔زبردستی انہوں نے اسے وہاں سے بھیجا ۔۔۔
تبھی سیدھا اپنے کمرے میں آتے ہی اسکی نظر بیڈ پر رکھے گلاب کے بکے پر پڑی ۔۔۔
وہ حیران سی اسکے قریب جانے لگی ۔۔۔
میں علیلِ عشقِ ذات ہوں
تیرا دیدار ہی علاج ہے۔۔۔!
ساتھ میں لکھی تحریر کو پڑھتے ہوئے وہ پہلے حیران ہوئی ۔۔مگر جب کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ۔۔تو مسکرا کر تحریر کو کلیجے سے لگایا ۔۔شکریہ اللہ جی ۔۔آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کھلکھلااٹھی ۔۔۔
۔*************۔
اسے اٹھتے ہوئے ذرا سی لیٹ ہو گئی ۔۔۔جبھی بھاگ دوڑ کر وہ ایگزام ہال میں پہنچا تھا ۔۔۔ابھی پیپر سٹارٹ ہونے میں پانچ منٹ تھے جبھی اس نے پورے ہال میں ارد گرد نظر دوڑا کر اسے ڈھونڈنا چاہا ۔۔
حدید ۔۔باسط ۔۔امل سب موجود تھے مگر وہ نہ تھی ۔۔وہ پریشان ہوتے ہوئے وہاں سے اٹھتا جبھی دروازے پر براجمان کسی کو دیکھ کر وہ رک گیا ۔۔
پاؤں سے لے کر سر تک اسکا جائزا لیتے ہوئے وہ ٹھٹھکا ۔۔
خود کو سیاہ عبائے میں مکمل طور پر چھپائے ۔۔صرف آنکھوں کو بے پردہ کیئے وہ کس قدر حسین لگ رہی تھی یہ کوئی حزیفہ سے پوچھتا ۔۔
وہ یک ٹک اسے دیکھتے ہوئے خود کو یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا کہ ہاں یہ تابین ہے ۔۔پر اچانک کیسے ۔۔۔۔؟
وہ اس پر اپنا حق سمجھتے ہوئے اسے دیکھے جارہا تھا ۔۔۔تابی جونہی اسکے قریب سے گزری ۔۔آنکھوں سے آنکھیں ملیں ۔۔
حزیفہ کی آنکھوں میں خوشی کی رمک دوڑ اٹھی ۔۔وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ بولتا اس سے پہلے وہ اس سے نظریں پھیر گئی تھی ۔۔۔
جو حزیفہ کو حیرانگی میں مبتلا کر گئی تھی ۔۔۔
۔***********۔
بہت اچھا پیپر ہونے کے بعد امل کی تلاش میں پوری یونی چھان ماری مگر اسکا نام و نشان نہ ملا ۔۔
کسی سی اسکا پتا پوچھتے ہوئے اب اسکے قدم لائبریری کی جانب بڑھے تھے ۔۔
آس پاس نظریں دوڑاتے ہوئے بلاآخر اسے وہ نظر آ ہی گئی تھی ۔۔جو کتاب پر جھکی ہوئی پہلے سے بہتر نظر آنے لگی ۔۔۔
وہ ہولے ہولے سے چلتا ہوا اسکے قریب بیٹھ گیا ۔۔
جبھی امل ہڑبڑاتی ہوئی اٹھ کر جانے ہی لگی تھی کہ باسط نے اسکی کلائی تھامتے ہوئے اسے روک دیا ۔۔۔
ّوہ ڈبڈباتی آنکھوں سے اسے بے بسی سے دیکھنے لگی ۔۔
۔*************۔