سورج کی ٹکی آسمان پر بدلیوں میں چھپی ہوئی تھی۔ سردی یوں اچانک سے آئی تھی کہ ہر طرف دھواں دھواں سا پھیلا ہوا تھا۔ یہ اندر کا دھواں تھا ۔ باہر موسم کے دھویں کو تو دنیا دھند کہا کرتی ہے۔
نماز ادا کی جا چکی تھی اور سارے اواراد بھی تسبیح سے دانہ دانہ ختم ہو چکے تھے۔ بوڑھے وجود کی ٹھاٹ باٹ بھی ایک دم سے ماند سی ہوئی جاتی تھی۔ اتنی تھکاوٹ تو زندگی میں کبھی بھی محسوس نہ کی تھی جتنی ان دنوں میں وجود پہ طاری تھی۔
“زہرہ بی!” وہ سوچوں میں گم تھیں جب انہیں اس کی آواز سنائی دی۔
وہ یوں ہی بیڈ پر سر جھکائے بیٹھی رہیں۔ سوچوں سے چونک ضرور گئی تھیں مگر نہ ہاں میں جواب دیا تھا نہ ہی سر اٹھایا تھا۔
اسے فکر ستانے لگی۔
“زہرہ بی؟؟” ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ جو چپ سی بیٹھی تھیں چہرے پر پھسلتے آنسو نے بھرم توڑ ڈالا تھا۔
“مجھ سے ناراض ہیں نا؟” آواز میں شرمندگی واضح تھی۔
انہوں نے بمشکل سر اٹھایا اور آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا دیں۔
“میں کیوں ناراض ہوں گی تم سے بھلا؟ چڑی اپنے بوٹ(بچے) سے بھی ناراض ہوا کرتی ہے؟” بازو پھیلاتے ہوئے وہ بولیں۔
“تو کل رات بھی باہر نہیں آئیں آپ۔ میں اتنا کچھ لے کر آئی تھی۔ اب بھی سورج نکل آیا مگر آپ ابھی تک کمرے میں ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” وہ ان کے بازوؤں میں سما کر بولی۔ سر ان کے سینے سے ٹکا کر اسے جہان و مکاں کی بھی فکر نہ تھی۔
“طبیعت اداس ہے” انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
“کیوں؟ ” اسنے سر اٹھایا۔
“یوں ہی۔ سوچ رہی تھی بیٹیوں سے مل لوں۔ ان کو بلا لوں ۔ زندگی کا کونسا پتہ ہے ۔ آج ہے کل نہیں”
“زہرہ بی خدا کا خوف کریں اتنی دل دہلانے والی باتیں کیوں کرتی ہیں آپ”وہ منہ بناتے ہوئے بولی۔
“لو جی۔ خدا کاخوف ہے تبھی تو موت کو یاد رکھتے ہیں ہم بیٹا جی” وہ ایک دم ہنس دی تھیں۔
“یہ ایسے ہی ہنس کے نہیں دکھا سکتی تھیں ؟ لازمی اتنی عجیب باتیں کر کے میرا دل خراب کرنا تھا؟ ”
“اچھا بھئی بس کرو ۔ یہ بتاؤ بھائیوں نے تنگ تو نہیں کیا؟”
“بالکل بھی نہیں۔بلکہ اتنا مہنگا موبائل لے دیا ہے۔ مجھے تو استعمال بھی نہیں کرنا آتاتھا۔ منال نے رات سکھایا سارا” وہ ہنستے ہوئے بتا رہی تھی۔
“اچھا اور کپڑے بھی دلائے یا نہیں؟”
“دلائے نا۔ اتنے سارے۔ میں نہ نہ کرتی رہ گئی۔ آپ نے تو پوری پٹی پڑھائی ہوئی تھی نا انہیں۔ ایک بھی بات نہیں سنی۔ اتنا کچھ دلا دیا۔جدھر دیکھتی تھی وہی چیز لیتے جا رہے تھے۔ مجھے اتنی شرمندگی ہوئی”
“لو بھئی اس میں شرمندگی کاہے کی۔ بھائی ہیں تمہارے۔ فرمائش سے بھی لے سکتی ہو۔ اور آج اگر وہ کر رہے ہیں تو کل کو تم ان کے بچوں کو اچھی پھوپھی بن کے لوٹا دینا نا۔ سادہ سا تو نقطہ ہے” وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔
“آپ ناشتہ کرنے تو آئیں گی نا باہر”
“ارے ناشتہ تو کروں گی ہی۔ تم میری فکر نہ کرو ۔ ” وہ ہنسیں وہ بس مسکراتے ہوئے ان کو دیکھنے لگی تھی۔
“تمہیں پتہ ہے۔ ‘ماں اور بچے’ کا پیار یوں ہی ہوا کرتا ہے۔ ” وہ اسے یوں دیکھتا ہوا پا کر مسکراتی ہوئی بولیں۔
“کیسا؟”اس نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
“ہمارے جیسا”
“ہمارے جیسا کیسا؟”
“ماں کے سینے سے لگ کے بچہ جہان کا سکون پا لیتا ہے اور بچے کو سینے سے لگا کر ماں جہان کی خوشیاں پا لیتی ہے۔ اوراگر وہی بچہ ا سکا سب سےدل پسند اور فرمانبردار بچہ ہو تو ماں جب اسے سینے سے لگاتی ہے نا۔ کوئی مقابلہ نہیں کر سکتااس وقت ماں کے دل سے نکلنے والی دعاؤں کا”
غنویٰ کو لگا اسے اس وقت دنیا کی سب سے اچھی چیز سے نواز دیا گیا ہے۔
“یہ بات نہیں ہے کہ میری اچھی بچی تم ہی ہو۔ باقی بچے بھی اپنی جگہ رکھتے ہیں۔ مگر کچھ بچے ایسے ہوتے ہیں جو چنوے
(چنے ہوئے) ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر دل سےسیسیں (دعائیں) نکلتی ہیں۔ جیسے کشور کے تم تینوں بچے۔ کشور بھی کم نہیں ہے۔ میرے لڑکوں میں سے سب سے بہترین میرا شیر زمان ہے ۔ سبھی بہت مانتے ہیں میری ۔ مگر شیر زمان حق اداکر دیتا ہے بیٹا ہونے کا۔ اللہ نے اسے ویسی ہی اچھی عورت سے نوازا ہے” وہ سانس لینے کو خاموش ہوئیں۔
غنویٰ بہت غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
“پھر اللہ نے اولاد بھی بہت چنی ہوئی دی ہے۔ بے شک شرارتوں میں پاگل پن میں بھی کوئی ان کا ثانی نہیں ہےمگر میرے آگے کبھی نہ چوں کی ہے نا چُراں۔ اور اب دیکھو تو اللہ نے ایک اچھی سلجھی ہوئی بیٹی بھی دے دی شیر زمان کو”
زہرہ بی اس وقت سکون سے بیٹھی تھیں گویا سب تھکاوٹ بھلا چکی ہوں۔
“تمہاری بھی چلو اللہ نے ماں باپ کی کمی پوری کر دی ہے۔ بس اسکی شان ہے” غنویٰ مسکرا دی۔
“اب باہر چلیں آپ کے بغیر مزہ نہیں آتا کہیں بھی۔ ” اس نے پاؤں پلنگ سے نیچےرکھے اور ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ زہرہ بی بھی کمبل ایک طرف کرتی ہوئی اٹھ گئیں۔
اس نے سائیڈ ٹیبل کے پاس پرا عصا اٹھایا اور انکو پکڑایا۔ ایک ہاتھ سے خود ان کا بازو پکڑا۔
“رکو مجھے شال ٹھیک کرنے دو”
“میں کر دیتی ہوں “غنویٰ نے شال ان کے سر پر ٹھیک کی اور بازو پھر سے پکڑ کر ہولے ہولے چلنے لگی۔
“جب یوں بھی کوئی بچہ کرے نا۔ ماں کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ توفیق بھی کسی کسی کو ملا کرتی ہے” وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی دھیما سا بولیں تو وہ مسکرا دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ فریش ہو کرلٹھے کے کلف لگے سفید کڑکڑاتے سوٹ میں باہر نکلے تو کشور بیگم کو اپنا منتظر پایا۔ مسکراہٹ نے ایک دم ان کے چہرے پے چھب دکھائی۔
“آپ کی عادت ہمیشہ ایک ہی رہی چودھری صاحب۔ کب سے انتظا ر کر رہی ہوں۔ جب جانے کے لیے اٹھتی ہوں تب آ پ حاضر ہوتے ہیں” ماتھے پر ہمیشہ کی طرح دو سلوٹیں تھیں جو بے شک ان پر بہت بھلی لگا کرتی تھیں ۔ مسکراہٹ گھنی مونچھوں تلے چھپائی اور چلتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل تک گئے ۔
“آپ چلی جایا کریں بیگم صاحبہ کون روکتا ہے” جانتے تھے نا کہ کبھی بھی نہیں جا سکتیں کہ ان کے تیار ہونے تک کشور بیگم کو سر پر کھڑے ہونا پڑتا تھا ۔ کیونکہ اگر چلی جاتیں تو سو بار پیچھے سے کسی نہ کسی چیز کے لیے وہ آوازیں دیا کرتے تھے۔
” جبل جا کر اپنی امی سے جرابوں کا پوچھ کر آؤ” جبکہ جرابیں سامنے بیڈ پر رکھ کر جایا کرتی تھیں۔
“حبل اپنی امی سے پوچھو شال کہاں رکھ چھوڑی ہے مل کے نہیں دے رہی” اور وہ شال اسٹینڈ پر استری شدہ ٹنگی ہوئی ملا کرتی تھی۔
وہ سوچتے ہوئے مسکرا دئیے جبکہ کشور بیگم انہیں گھور رہی تھیں۔
“بچے جوان ہو کر کندھوں تک پہنچ گئے پر آپ بچے ہی رہے”
“آپ بات بتائیے جو بے کل کیے ہوئے ہے” انہوں نے بال برش کیے اور ان کی طرف مڑے۔
“زہرہ بی کا پیغام تھا آپ کے لیے۔ رات بھی جب میں کمرے میں آئی تب تک سو چکے تھے آپ۔ اب دھیان سے سن لیجیے گا”
وہ جرابیں پہنتے ہوئے ان کی بات سن رہے تھے۔
“ہمہ تن گوش ہیں جناب فرمائیے کیا پیغام دیا ہے آپکی ساس صاحبہ نے” وہ شرارت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تو وہ چڑ گئیں۔
“حیا کریں چودھری صاحب۔ تین جوان بچوں کے ابا جی ہوتے ہیں ماشااللہ سے آپ۔”
“اجی ہم نے اب کیا کہہ دیا۔ آپ ہی شرمائے جاتی ہیں۔ ” وہ اٹھے اور اسٹینڈ پر لٹکی بھوری شال کی طرف بڑھے۔
“بہر حال ۔ زہرہ بی کہ رہی تھیں کہ غنویٰ کے ساتھ تعلقات بحال کریں اسے لگے کہ باپ بھی ہے اس کا۔ ڈری سہمی رہتی ہے آپ تینوں بھائیوں کی موجودگی میں۔ آپ اسپیشلی پیار سے پاس بٹھا کر کسی دن بات کیجئے گا اس سے” انہوں نے شال شیر زمان کےکندھوں پر ٹھیک سے جماتے ہوئے کہا۔
“بس آپ کے سامنے ہی ہے کشور بیگم شام کے وقت ہی تو آتے ہیں وقت ہی نہیں مل پاتا۔ میں خود چاہ رہا تھا پر جب آتا ہوں تھکاوٹ ہی اتنی ہوتی ہے”
“اچھا بس اب یہ بہانے مجھ سے نہیں کریں آپ۔ اور زہرہ بی جائیداد کے بٹوارے کی بات بھی کر رہی تھیں” وہ سنجیدہ سی ہو کر بولیں تو شیر زمان بھی چونکے۔
“کیوں بھئی۔ ایسی کیا ضرورت آن پڑی بٹوارے کی؟ گھر میں کسی نے بات کی ہے کیا؟” وہ پریشان سے ہوئے۔
“نہیں فی الحال تو کسی نے بات نہیں کی۔ زہرہ بی بھی کچھ نہیں بتا رہیں مگر جس طرح ان کے معمولات میں تبدیلی آئی ہے صاف محسوس ہوتا ہے کچھ ہوا ہے۔ سجاول بھی گم سم سا ہے دو تین دن سے۔ مجھے لگتا اس نے کوئی ان بن کی ہے ان کے ساتھ۔ ” انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
“اور مجھے لگتا ہے لڑکی کا مسئلہ ہے۔ سجاول زمان زہرہ بی سے ایک ہی مسئلے پر آواز اونچی کر سکتا ہے ۔ ورنہ اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔اور پھرکچھ بھی ہو تو ان سب میں جائیداد کا بٹوارہ تو کوئی معانی نہیں رکھتا” کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے شیر زمان بولے۔
“اللہ نہ کرے آپ لڑکی والا معاملہ کیوں کہہ رہے ہیں ہماری غنویٰ کا کیا بنے گا شیرزمان” وہ دہل کر بولیں۔
“ارے بھئی ہماری غنویٰ کے لیے بہت اچھے جوڑ مل جائیں گے آپ اس معاملے میں فکر نہ کریں۔ اپنی بچی کو پھینکنا نہیں ہے ہم نے۔ بیاہنا ہے۔ اور جہاں تک جائیداد کی بات ہے میں فخر بھائی سے ڈسکس کرتا ہوں آج اور مل کر زہرہ بی سے اس معاملے کو بھی ٹھیک کرتے ہیں۔ ایک تو ہماری ماں بھی جتنی مرضی رعب دار ہو ں، دل چڑیا جتنا ہی ہے” وہ مسکراتے ہوئےبولے اور شال کندھوں پر ایک بار پھر درست کرتے کمرے سے باہر چل دئیے جبکہ کشور بیگم سوچوں میں گم وہیں کی وہیں رہ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“آہم آہم۔۔۔ میں کیا جی بھائی صاحب آج کل رنگ لال کیوں رہتا آپ کا”
وہ اپنی ٹائی ٹھیک کرتا لاؤنج سے گزر کر ڈائیننگ ٹیبل کی طرف جا رہا تھا جب منال اس کے سامنے آتے ہوئے بولی۔
“بات مت کرو تم مجھ سے” اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بناتا ایک قدم آگے کی طرف بڑھا۔ منال ایک بار پھر سامنے آئی۔
“میں نے انجیکشن لگوا دیا کیا آپکو؟” وہ غصے سے ماتھے پر تیوریاں لیے ہوئے بولی۔
“دفعہ ہو جاؤ جہاں بھی ہو سکتی ہو۔ تم سےاچھی تو رانی ہے بات تو پہچا دیتی ہےاس تک” اس نےاپنا نیوی بلیو کوٹ ٹھیک کیا اور سائیڈ سے نکل گیا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی۔
“رانی آپ کی سائیڈ لیتی ہے کوئی تو اس کی سائیڈ پر بھی ہونا چاہیے نا”
“ہاں بس اب تمہارے پاس اور کوئی بہانہ جو نہیں تھا یہی کہنا تھا” اس نے ایک بار پھر سے منہ بنایا۔
سفید شرٹ ، نیوی بلیو ٹائی ، نیوی بلیو ہی کوٹ اور جینز کی بلیو پینٹ پہنے وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔
“جا کہاں رہے ہیں ویسے اتنے ہیرو بن کر؟” منال نے ابرو اچکا کر اگلا نقطہ ڈھونڈا۔
کومیل نےپر سوچ انداز میں نئی بنی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرا اور اس کی طرف آنکھیں چھوٹی کر کے دیکھنے لگا۔
“میری کیلکولیشنز کہتی ہیں کہ تمہاری پاکٹ منی ختم ہو چکی ہے اور تمہیں اس وقت پیسوں کی سخت ضرورت ہے ۔ ان شارٹ تم اس وقت فقیروں کو بھی مات دیتی ہو” وہ جیسے جیسے بول رہا تھا منال کا منہ کھلتا جا رہا تھا۔
“آپکو کیسےپتہ چلا والی بات ہر دفعہ بولتی ہو اس بار کچھ نیا ہونا چاہیے جس سے دل باغ باغ ہو جائے اور میری پریزینٹیشن بھی اعلیٰ سی ہوجائے” شہد رنگ آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح شرارت سی بھری ہوئی تھی۔ جانتا تھا کبھی بھی اس کا کام نہیں کرے گی کہ عبادت اسے کومیل سے زیادہ عزیز تھی۔
“انتہائی مطلبی انسان ہیں آپ” کالے سیدھے بالوں کی پونی ہلاتی وہ دھپ دھپ کرتی نکل گئی تو وہ بھی ہنستا ہوا ٹائی ٹھیک کرتا ڈائیننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سجاول آج کھانے کی میز پر موجود تھا ۔جبل کی رگِ ظرافت اسے دیکھتے ہی پھڑکنے لگی تھی۔ سب سے بآوازِبلند سلام لینے کے بعد وہ اس کے ساتھ والی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھا۔
“اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ، اس سے کیچ کیچ نہیں کھیلنا چاہیے” اس نے آہستہ سے سجاول کو سنایا اور میز بجانے لگا۔ سجاول نے کوئی رسپانس نہیں دیا تھا۔ البتہ زہرہ بی جو اجر کو ناشتہ لانے کا کہ رہی تھیں اسے دیکھنے لگیں۔ وہ پھر بھی باز ہیں آیا اور دانت نکالتا انہین دیکھتا رہا۔ میز پر ابھی بھی دھمک جاری تھی۔
“او بے ہدیتیا! کیوں سویرے سویرے میرے کو لوں سننا کجھ”
(او بے ہدایت! کیوں صبح صبح مجھ سے سننا ہے کچھ)
زہرہ بی چڑ کر بولیں تو وہاں بیٹھے سبھی لوگ سر جھکائے کھی کھی کرنے لگے۔
“یار کیا ہے زہرہ بی ایک ہلکا سا مخول (مذاق)بھی برادشت نہیں ہوتا آپ سے” سفید قمیص کے بازو کہنیوں تک فولڈ کیے ، بالوں کو اچھی طرح سیٹ کیے اور نئی نئی شیو میں سرخ و سفید رنگت لیے وہ بیٹھا تھا۔
غنویٰ ہمیشہ کی طرح وہاں بیٹھے سب کا جائزہ لے رہی تھی۔ اور اس وقت اس کا دھیان جبل کی طرف تھا۔ دل ایک دم سے کوش ہوا۔ اسے پلے پلائے اتنے پیارے ، لمبے اونچے بھائیوں سے نواز دیا گیا تھا۔
“مخول؟ انوں مراثی پنا کہیا جاندا پتر”
(مذاق؟ اسے میراثی پنا کہا جاتا ہے بیٹا)
زہرہ بی کے ماتھے پر اب بھی تیوری تھی مگر آواز میں کھنک سی تھی۔
آج میری ڈارلنگ بڑی حسین لگ رہی ہیں خیر تو ہے جانِ من؟” حبل پیچھے سے آیا اور ان کو بازوؤں مین بھرتے ہوئے ان کے کان میں آہستہ سے بولا تو وہاں بیٹھے شیر زمان اور فخر زمان قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔ جبکہ جبل کا منہ بنا ہوا تھا کہ اسے بھی فجر کی طرح ‘ میراثی’ ڈکلیئر کر دیا گیا تھا۔
“بھئی اب ہم جیسے گھبرو جوانوں کی ماں ہیں حسین تو لگیں گی نا۔ “حیدر زمان جو جبل اور حبل کے ہنسی مذاق میں اکثر حصہ ڈالا کرتے تھے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ اس بار سجاول بھی نا چاہتے ہوئے مسکرا ہی دیا تھا۔
“چھوٹے چاچو آپ خدا کا خوف کر لیں یہ دیکھیں۔” جبل نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تھے۔
“خدا کا خوف بہت ہے بیٹا جی اس کی تو بحث نہ کرنا مجھ سے۔ باقی آپس کی بات ہے بھئی میں ابھی بھی جوان ہوں اور نہیں یقین تو نمل پتر ادھر آ نا ذرا” انہوں نے نمل کو بلایا جو ان کے سامنے پراٹھا رکھ کے کچن کی طرف مڑ ی تھی۔
“چاچو کم از کم گواہ تو بندہ اچھا پکڑ لے یار” حبل اپنی جگہ پر بیٹھتا ہوا بولا۔ نمل جی جان سے جلی تھی۔
“بتا بیٹا تجھے کوئی شک ہے؟” انہوں نے اس ساتھ والی کرسی پر بٹھانا چاہا۔
“ابو آپ کیوں بندروں کی باتوں پہ دھیان دیتے ہیں ” نمل بولی نہیں پھٹی تھی۔ سب ہنسنے لگ گئے تھے۔
“اب دیکھ منہ کیسے لال ٹماٹر بن گیا ہے” حیدر زمان قہقہہ لگا کر ہنسے تھے۔
حبل واقعی منہ بنائے اب سامنے پلیٹ میں پڑاپراٹھا کھانے لگا تھا۔ غصہ منہ سے صاف ظاہر تھا۔ جبل کی کاربن کاپی تھا وہ۔ بھوری لیدر کی جیکٹ اور نیلی جینز کی پینٹ پہن رکھی تھی۔ اس میں اور جبل میں سوائے کپڑوں کے کوئی فرق نہ تھا کہ جبل اس وقت شلوار قمیص میں تیار بیٹھا تھا جبکہ حبل زہرہ بی کے مطابق’انگریزی لباس’ میں ملبوس تھا۔
ایک دم ایک دوسرے کی کاپی تھے وہ دونوں ہی۔
“اور سجاول بیٹا کیسا جا رہا ہے تمہارا کام؟” شیر زمان جو کب سے سجاول کو فوکس میں لیے ہوئے تھے اب کے بول ہی دئیے۔ وہ جو چپ سا بیٹھا تھا سر اٹھا کے انہیں دیکھنے لگا۔
“ٹھیک جا رہا ہے چاچو۔ پچھلے دنوں ایک کمپنی سے معاہدہ کیا ہے کچھ پراڈکٹس کے لیے ” اس نے مسکراتے ہوئے انہیں جواب دیا۔ وہ جانچتے ہوئے سر ہلا گئے۔ جبکہ فخر زمان کبھی اسے دیکھتے اور کبھی زہرہ بی کو۔ آخر کو ایک جہان دیکھ رکھا تھا انہوں نے بھی۔
“زہرہ بی میں چاہ رہا تھا اجر کے ساتھ سجاول کا بھی نکاح کر دیا جائے۔” فخر زمان نے اپنی پلیٹ کھسکاتے ہوئے زہرہ بی سے کہا تھا جو خاموش سی اپنا ناشتہ ختم کر رہی تھیں۔
سجاول ایک دم سے کرسی سے اٹھا اور ڈائیننگ روم سے باہر نکل گیا۔
زہرہ بی نے جیسے سر اٹھایا تھا ویسے ہی جھکا بھی لیا۔ البتہ فخر زمان مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے تھے اور شیر زمان نے کشور بیگم کی طرف دیکھا تھا جو اب بھی ویسی ہی دہلی ہوئی تھیں جیسے کچھ دیر پہلے انہیں میں کمرے میں چھوڑ کر آئے تھے۔
“ایک تو ہمارے گھر میں یہ عجیب رواج پتہ نہیں کیوں ہے لسی والا” جبل نے سب کا دھیان بٹانے کو بات بدلی تھی۔
“ہاں مجھے نہیں سمجھ آتا یہ سردیوں میں کون لسی پیتا ہے یار۔ “حبل نے بھی اپنا لسی کا گلاس ختم کرتے ہوئے کہا تھا۔
“تو گھر بدل لو تم لوگ “کشور بیگم نے غصے سے کہا اور ان کے سامنے سے جگ اٹھا کر لے گئیں۔
سب اس وقت ہق دق بیٹھے تھے ۔ سب کے دل وہموں کا شکار تھے۔
جبل اور حبل اٹھے اور منال کو ساتھ آنے کا اشارہ کر کے باہر نکل گئے جبکہ کمیل بھی اٹھا اپنی بائیک کی چابی جیب میں ٹٹولی اور باہر نکل گیا۔
لڑکیاں بھی سب کچن میں سہمی کھڑی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دوپہر کا وقت تھا مگر سورج اب تک ٹکیا ہی کی صورت آسمان میں دبکا تھا۔ ماحول میں اتنی کدورت تھی کہ دل ٹھہر ٹھہر جاتا تھا۔ سب خاموشی سے اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ کوئی لڑ رہا تھا نہ ہی کسی کے ہنڈیا پر چمچ مارنے کی آواز کان میں پڑتی تھی۔ سب اپنی اپنی جگہ سہمے بیٹھے تھے۔
غنویٰ سے زیادہ دیر برداشت نہ ہوا تو لاؤنج سے اٹھ کر نمل کے کمرے میں چلی گئی جو کمبل میں دبکی پڑی تھی۔
“نمل!” اس نے اس کا کمبل ذرا سا سرکایا۔
“ہوں؟”
“کیا بات ہے یار؟ سب اتنے خاموش کیوں ہو؟ ” اس کے پا س ایک طرف بیٹھتی ہوئی وہ بولی۔
“کوئی بھی بات نہیں ہے۔ سجاول بھیا بس آج کل اور ہواؤں میں ہیں اور کیا ہونا ہے” نمل نے اٹھ کر اپنے بال باندھتے ہوئے کہا۔
“وہ تو ان کی ہوائیں ہیں نا جو بھی کریں ۔ تم سب لوگوں کی ہواؤں کے رخ کیوں بدلے ہوئے ہیں آج؟” وہ پریشان سی تھی۔
“صبح جس طرح سے اٹھ کر گئے ہیں آج تک زہرہ بی کے ہوتے ہوئے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ یوں اٹھ کر چلا جائے۔ اور اوپر سے زہرہ بی نے بھی سر جھکا لیا تھا۔ اس کا مطلب نہیں جانتی تم ۔ اور کوشش بھی مت کرنا جاننے کی یہ جوڑتی ہوں ہاتھ۔ چلو میری پیاری بہن اٹھو آج اکرم چاچا گھر ہوں گے تمہیں ان سے ملوا لاتی ہوں” نمل کمبل ایک طرف کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور دوپٹہ لےکر باتھ روم میں چلی گئی۔
“ایک تو تمہیں اور منال کو ہاتھ جوڑنے کی بہت عادت ہے” غنویٰ منہ بناتے ہوئے بولی تو وہ جو باتھ روم میں ابھی داخل ہو کر دروازہ بند کر رہی تھی ، دوبارہ سے منہ باہر نکال کر اسے گھورنے لگی۔
“ہاں تو غلط بولا میں نے؟” غنویٰ نے ہونٹ بھینچتے ہوئے مسکراہٹ روکی۔
“اس وقت بہت سی گالیاں بے قرار ہوئی ہیں لبوں سے پھسلنے کو مچل رہی ہیں مگر تم جو یہ اپنی شکل مسکینوں والی بنا لیتی ہو نا قسم سے بندہ کیا کرے پھر آگے سے” نمل منہ بناتی ہوئی بولی تو ایک قہقہہ تھا جو غنویٰ نے بمشکل ضبط کیا تھا۔
“بد تمیز میں نے کب بنائی ایسی شکل”
“اچھا اب مہربانی مجھے اندر جانے دو ۔ تم فجر کو جگاؤ جا کر” اس نے اتنا کہا اور غڑاپ سے اندر غائب ہوگئی۔ غنویٰ بھی مسکراتی ہوئی باہر کی جانب چل دی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ لاؤنج سے ہوتی زہرہ بی کے ساتھ والے کمرے کی جانب مڑی ہی تھی جب وہاں سے گزرتی کشور بیگم نے اسے بلایا۔
“بیٹا کچھ بات کرنی تھی اگر فری ہو تو۔۔۔”
“میں فجر کو نمل کا پیغام دے کر آتی ہوں آپ کے پاس بس۔” وہ جھجکتی ہوئی گیویا ہوئی۔
“ہاں کمرے میں آجانا میرے” وہ آگے بڑھ گئیں تو غنویٰ بھی اجر کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔
گردشوں کے ہیں مارے ہوئے نہ، دشمنوں کے ستائے ہوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر، دوستوں کے لگائے ہوئے ہیں
کمرے کا دروازہ کھولنے کی دیر تھی اور اسے نصرت فتح علی خان کے ساتھ ساتھ فجر بھی فل جوش میں تالیاں مارتی اور گاتی ہوئی نظر آئی۔
عشق کو روگ مار دیتے ہیں، عقل کو سوگ مار دیتے ہیں
آدمی خود کا خود نہیں مرتا، دوسرے لوگ مار دیتے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر۔۔۔
وہ فوراًدروازےکی طرف مڑی اور اسے ٹھیک سے بند کیا کہ زہرہ بی کی پچھلی بار والی ڈانٹ اور پچھلی رات میں سجاول کا کمرے میں چلے آنا اسے ابھی بھی یاد تھا۔
لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں
ہم نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
تم تو غیروں کی بات کرتے ہو
ہم نے اپنے بھی آزمائے ہیں
غنویٰ اس کا مست سا انداز دیکھ کر ایک بار تو مسکرا دی پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی جو قالین پر اپنے بال کھولے تالیاں بجاتے ہوئے گا رہی تھی۔
کاسۂ دید لے کے دنیا میں ، میں نے دیدار کی گدائی کی
میرے جتنے بھی یار تھے سب نے حسبِ توفیق بے وفائی کی
غنویٰ ایک دم سے ہنس دی۔ وہ جو آنکھیں بندکیے لگی ہوئی تھی ایک دم آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی۔
“تم کب نازل ہوگئیں؟” اس نے منہ بنا تے ہوئے اپنی کلائی پر باندھا ہئیر بینڈ اتار کر بال باندھے اور اسے گھورنے لگی۔
“جب تم عام ِ مدہوشی میں تھیں” وہ ابھی تک ہنس رہی تھی۔
“دانت نہ نکالوزہر لگ رہی ہو” وہ اٹھی اور دوپٹہ اٹھانے بیڈ کی طرف گئی۔ غنویٰ نے بھی فوراً سے دانت اندر کیے تھے۔
“کس کام سے آئی ہو؟” فجر نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
“میں کام کے بغیر نہیں آسکتی کیا؟”
“فی الحال تو بالکل بھی نہیں کیونکہ میں نے دعوت نہیں دی تھی ایویں آگئی ہو ۔ اچھا خاصا سُر آیا تھا آج” فجر کا منہ ابھی بھی بنا ہی ہوا تھا۔
“نہیں بیٹا سُر نہیں آیا تھا۔ جن آیا لگ رہا تھا” غنویٰ ہنستی ہوئی بولی۔
“ہاں اب تم نمل کی کمپنی میں رہ رہ کر مجھے ایسی باتیں بھی کہا کرو گی۔ ٹھیک ہو گیا۔ نکل جا ؤ میرے کمرے سے”
“اچھا موڈ ٹھیک کرو۔ میں کپڑے چینج کر لیتی ہوں پھر نمل کہہ رہی کہ مل کر اکرم چاچا کی طرف چلتے ہیں”
“چلو شکر ہے باہر جانے کا بھی سوچا کسی نے۔ کتنے دن ہوگئے باہر نہیں نکلے۔” فجر ایک دم سے خوش ہوئی تھی۔
“پہلے میں تیار ہوں گی ” غنویٰ نے کہا اور الماری میں جہاں اپنے کپڑے رکھے ہوئے تھے نکال کر باتھ روم کی طرف چلی گئی جبکہ فجر کو تو کبھی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی تھی کہ وہ نہا بھی لے۔ یہ تو پھر صرف کپڑے بدلنے کا معاملہ تھا۔
“ٹھیک ہے کمرہ بھی سیٹ کر دینا بعد میں ۔ میں ذرا اپنے کپڑے دیکھ لوں” فجر نے اس کے ذمے کام لگایا تھا۔
وہ باتھ روم میں تھی سو کوئی جواب نہ دیا۔
اور دے مجھ کو دے اور ساقی
ہوش رہتا ہےتھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہا کی
آج وہ بھی پرائے ہوئے ہیں
وہ ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی۔ اب جوش تھوڑا ماند پڑ چکا تھا مگر آواز میں واقعی آج سوز تھا۔
کل تھے آباد پہلو میں میرے
اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈیرے
میری محفل میں کر کے اندھیرے
اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں
الماری کھولے کبھی ایک سوٹ دیکھتی تو کبھی دوسرا۔ ہزار سوٹ ہوتے تب بھی وہ کبھی فیصلہ نہ کر پاتی کہ پہننا کون سا ہے۔ ہر قمیص ہاتھ میں پکڑ کر شیشے کے سامنے جاتی ، ساتھ لگا کر دیکھتی اور منہ بنا کر لا کر واپس رکھ دیتی۔
“تم تو یوں کر رہی ہو جیسے ہم ولیمے پر جا رہے ہوں” غنویٰ باہر نکلی تو اسے یوں دیکھ کر ہنس دی۔ گنگناہٹ مسلسل تھی۔
اس کی بات سن کر کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھورنے لگی۔
“کیا کہہ دیا اب میں نے ؟” غنویٰ نے پوچھا تو وہ جو تھوڑا سا تسلسل ٹوٹا تھا اب پھر سے شروع ہو گیا۔ الماری کی طرف گئی سوٹ واپس رکھااور اگلا نکال لیا۔
اپنے ہاتھوں سے خنجر چلا کر
کتنا معصوم چہرہ بنا کر
اپنے کاندھوں پے اب میرے قاتل
میری میت اٹھائے ہوئے ہیں
“اللہ معاف کرے ایک تو تم سب کے پاس جواب بھی ہر چیز میں موجود ہوتے ہیں” غنویٰ اس کے الفاظ سن کر بولی تو وہ اس کی طرف مڑی۔
مہ وشوں کو وفا سے کیا مطلب
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
ان کی معصوم نظروں نے ناصؔر
لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں
“میں پھوپھو کے کمرے میں جا رہی ہوں ” غنویٰ نے اس کے گھورنےاور گنگنانے پر چادر سر پر لی اور باہر کی جانب جانے لگی۔
“تو کمرہ کون صاف کرے گا؟” فجر چلائی تھی۔
“انہی مہ وشوں سے کرواؤ جن کی بے وفائی کا ابھی ذکر کر ہی تھیں ” غنویٰ نے کہا اور ٹھک سے دروازہ بند کر دیا۔
فجر نے سب کپڑے گولہ سا بنا کر الماری میں واپس رکھے اور باتھ روم کی طرف چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ کمرے کا دروازہ تھوڑا سا ناک کر ے اندر داخل ہوئی تو کشور بیگم سامنے ہی بیٹھی نظر آئیں۔
“آجاؤ بیٹا”وہ مسکرائیں تو غنویٰ آہستہ آہستہ چلتی ان کی طرف گئی۔
کمرہ کافی وسیع تھا مگر روم ہیٹر آن ہونے کی وجہ سا نرم گرم سا ماحول بنا ہوا تھا۔ دو دیواروں پر سی گرین جب کہ باقی دو پر سفید پینٹ کیا گیا تھا۔ ایک دیوار پرجہاں سی گرین پینٹ تھا بہت ہی عمدہ سی ہلکے سی گرین رنگ کی دھاریاں بنائی گئی تھیں اور اسی دیوار کے ساتھ وہ وسیع سا بیڈ رکھا تھا جہاں اس وقت کشو ر بیگم بیٹھی تھیں۔
بیڈ کی سائیڈ ٹیبلز پر بہت ہی نفیس سے ٹیبل لیمپ رکھے تھے اور دیوا ر کے دونوں کونوں میں ویسے ہی دو دیوار گیر لیمپس رکھے تھے ۔ ان کی سفید روشنی دیوار پر پڑتی ایسی محسوس ہوتی تھی جیسے صاف پانی کا چشمہ بہہ رہا ہو۔ ایک طرف ایک گولڈن اسٹینڈ رکھا گیا تھا جس پر اس وقت ایک شال اور کوٹ ٹنگا ہوا تھا۔ بائیں دیوار جس پر سفید پینٹ کیا گیا تھا کے ساتھ ایک گولڈن ہی ڈریسنگ ٹیبل رکھا تھا۔ دائیں دیوار کے ایک کونے میں دو کرسیاں آمنے سامنے رکھی گئی تھیں۔ ان کا رنگ بھی سی گرین اور گولڈن تھا۔ بیڈ پر بھی سفید چادر اور سی گرین کمبل رکھا گیا تھا۔ کمرے میں اس رنگ سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا مگر اس وقت کمرے کا ماحول مناسب تھا۔
وہ چاروں طرف نظر دوڑاتی کشور بیگم کے پاس آ بیٹھی تھی۔
“کچھ کھاؤ گی؟” وہ مسکرائیں تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“اچھا پھر یہ بتاؤ کہ دل لگ گیا ہے؟ بور تو نہیں ہوتیں سارا دن؟”
“جی دل تو لگ گیا ہے ۔ سب ہیں ہی اتنے اچھے۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں نئی ہوں یہاں۔بلکہ اب تو سوچتی ہوں واپس جاتے ہوئے کتنی مشکل ہو گی مجھے” وہ اداس سی ہوگئی۔
“ارے کس نے کہا ہم تمہیں واپس بھیجیں گے ؟ اس لیے تو نہیں بلایا تھا کہ واپس بھیج دیں” کشور بیگم نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ وہ بس ہلکا سا مسکرا دی۔
“اچھا میں نے اس لیے بلایا تھا بیٹا کہ مجھے جبل اور حبل کے متعلق بات کرنی تھی”
” جی جی کریں”
وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
“غنویٰ بیٹا! میں نے اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ کبھی کسی بھی عورت کو نیچا نہیں کر سکتے۔ بے شک بہت سی گرل فرینڈز بناتے ہوں گے۔ ماں ہوں میں ۔ بتاتے نہیں ہیں تو بھی چل ہی جاتا ہے پتہ کہ یہ جس طرح بن ٹھن کے جا رہے ہیں تو ارادہ کہاں کا ہے۔” ان کی اس بات پر وہ مسکرا دی تو وہ مزید گویا ہوئیں۔
” لیکن بیٹاعورت کی عزت کے لیے ڈھال بننا بھی آتا ہے انہیں۔ میں نہیں کہتی کہ مرد کا جو مقام ہے عورت کو وہ دے دیا جائے۔ مگر میں یہ بھی نہیں کہتی کہ عورت سے اس کا اپنا مقام بھی چھین لیا جائے۔ ”
وہ سر جھکائے ا ن کی باتیں سن رہی تھی۔ بے شک اس گھر میں آنے کا اسے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا تھا کہ جس کے پاس بھی بیٹھتی تھی وہ کوئی نہ کوئی بات ایسی لازمی کر دیتا تھا کہ جو ذہن نشین کر لینے والی ہوا کرتی تھی۔
کشور بیگم اٹھیں اور اپنے سائیڈ ٹیبل سے ایک ڈبہ نکال لائیں۔ اس میں خشک میوہ جات رکھے ہوئے تھے۔ غنویٰ مسکرا دی۔
” مرد کی آنکھوں میں عورت ہو، بچی ہو، جوان لڑکی ہو، سبھی کے لیے ‘عزت’ ہونی چاہیے۔ مرد کو مرد رہنا چاہیے۔اس کے ارد گرد رہنے والے افراد کو یہ علم ہونا چاہیے کہ وہ کس راہ پر جانے والا ہے ۔ اس کے گھر والوں کو علم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ عمل غلط ہے تو اس کے بہکے قدموں کا درست کریں۔ ”
انہوں نے کچھ کاجو نکال کر غنویٰ کے ہاتھ پر رکھے۔
“آج ایک بچہ چھوٹا ہے۔ بولنا شروع کرتا ہے۔ دادا، تایا، چاچا کی زبان سے گالی سن کر اپنی توتلی زبان میں گالی دے گا تو وہ تینوں یوں خوش ہوں گے گویا اس نے سقراط کا علم گھول کر پی لیا ہے۔ وہی بچہ کل بدمعاش بنے گا۔ آج ایک بچہ باپ کے بٹوے سے بغیر بتاے پیسہ نکالتا ہے تو باپ تالیاں مارے گا بھئی دیکھو کیا عمدہ کام کیا ہے۔وہی بچہ کل چور اچکّا بنے گا۔ آج بچہ اپنی بڑی بہن کے بال کھینچتا ہے تو ماں کچھ نہیں کہتی کہ چھوٹا ہے ،لاڈلا ہے۔ وہی بچہ کل اپنی بیوی بیٹی اور بہو کو جوتی کی نوک پر رکھے گا۔ ”
غنویٰ کاجو کھانے کی بجائے منہ کھولے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ ایسی باتیں جو ایک ماں اپنی بیٹی کو بتا رہی تھی۔ ایسی بیٹی جس نے نسلوں کی تربیت کرنی تھی۔
“میں نےکوشش کی کہ اپنے دونوں بیٹوں کی تربیت ایسی کروں کہ کبھی کسی کی ماں بہن بیٹی پر اپنی غلیظ نظروں سے ناپاک نہ کریں۔ میں مانتی ہوں مجھ سے کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی ہو گی۔ میں نے اسی لیے تمہیں یہاں بلایا کہ میری بیٹی کی نسل میں کوئی خا می ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔”
غنویٰ ایک دم سے بلش ہوئی تھی۔ سر جھکائے ہاتھ پر رکھے کاجوؤں سے کھیلنے لگی۔
“یہ تو تھی پہلی بات۔ دوسری بات یہ تھی بیٹا کہ جبل اور حبل کی عادت تھوڑی ہنسی مذاق والی ہے۔ مگر بہن کو بہنوں والا مان دیتے ہیں۔ میری اولاد غلط قدم تو نہیں اٹھا سکتی مگر میں تمہیں یہ سب اس لیے کہہ رہی ہوں بیٹا کہ میں ہوں یا میں نہیں ہوں مگر تم تینوں نے ساتھ رہنا ہے۔ ان دونوں بھائیوں کو تم نے ساتھ رکھنا ہے۔ تم چاہے چھوٹی ہو ان سے مگر ایک ہی ہو۔ تم مان سے جو بھی کہو گی وہ مانیں گے۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ جہاں بھی غلط ہوں آج سے ہی پوائنٹ آؤٹ کر دیا کرو۔ ”
وہ بہت پیار سے بات کر رہی تھیں۔
“اور اپنی ڈائیٹ کا خیال رکھا کرو میں دیکھتی ہوں کچھ خاص نہیں کھاتی تم” انہوں نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگائی۔
“اگر اس نے ہماری چغلیاں کر لی ہوں تو ہم اسے لے جائیں ساتھ اسے؟” نمل کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولی تو انہوں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
“نہیں ابھی تو بیچاری نے شروع ہی کی تھیں” وہ ہنس دیں۔
” ویسے میں دیکھ رہی ہوں چچی کہ جب سے آپ کی بیٹی آئی ہے تب سے مزید حسین ہوتی جا رہی ہیں آپ” فجر بھی نمل کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
“بس کچھ بھی بولتی ہو تم لوگ۔ ”
“ارے تین بچوں کی اماں ہیں آپ اور شرما رہی ہیں۔ اب تو ہماری شرمانے کی عمر ہے چچی” نمل بولی تو کشور بیگم اسے گھورنے لگیں۔
“نہیں میرا مطلب ہے ہم عبادت کی طرف جا رہے تھے اگر آپ کی اجازت ہو تو آپ کی بیٹی کو بھی لے جائیں ۔ سچ میں گم نہیں کریں صحیح سلامت واپس لائیں گے” نمل نے ان کے تیور دیکھ کر بات بدل دی تھی اور غنویٰ نے بدقت تمام اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی۔
“ہاں لے جاؤ اور وقت پر واپس آجانا۔ ” ان کے کہنے کی دیر تھی نمل نے غنویٰ کو اشارہ کیا اور وہ تینوں کمرے سے باہر نکل پڑیں۔ کشور بیگم مسکرا دی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میرا خیال ہے جاتے ہوئے کچھ لے جاتے ہیں اس کے لیے۔ یوں خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگتا” غنویٰ کچن کی طرف مڑی تو فجر نے اسے کھینچا تھا۔
“خدا دا خوف کر یار پہلے ہی اتنا ٹا ئم لگا دیا ہے چچی کے پاس”
“شرم کرو۔ وہ جب آئی تھی بسکٹ لے کر آئی تھی” غنویٰ نے شرم دلائی۔
“زہرہ بی کے لیے لائی تھی۔ تصحیح کرلو۔ ” نمل نے چادر درست کی اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی جانب چل دی۔
“میں نے ایک بات دیکھی ہے کہ تم دونوں میں ہی شرم کی کمی ہے ” غنویٰ نے منہ بنایا۔
“ہاں بس شرم ہم نے بیچ دی ہوئی ہے”فجر کا جواب آیا تو غنویٰ سمیت نمل نے بھی اسے گھورا تھا۔
“تم نے بیچی ہو گی میرے پاس ہے ابھی ” نمل نے تڑاخ سے جواب دیا تھا۔
“اچھا بس لڑنا مت اب۔ رانی کو ساتھ لے چلیں؟ ویسے بھی کوئی کام نہیں کر رہی وہ” غنویٰ کے بولنے کی دیر تھی کہ دونوں نے اسے بازو سے پکڑا اور تیز تیز چلتی گیٹ کی طرف بڑھنے لگیں۔ وہ چھوڑ چھوڑ دو کرتی رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...