چرچ کے پرئیر ہال میں داخل ہوتے ہوئے اسنے طائرانہ نظر پورے ہال میں ڈالی۔آج سنڈے تھا اور اس وجہ سے چرچ میں عام دنوں سے زیادہ بھیڑ تھی ۔وہ ہموار قدموں سے چلتا ہوا قطار میں رکھی بینچوں میں سب سے آخری بینچ کی طرف بڑھ گیا۔اس بینچ پر اسے ایک لڑکی تنہا بیٹھی نظر آئی تھی۔ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھتے ہوئے اسنے اچٹتی سی نظر لڑکی پر ڈالی۔اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں زانوؤں پر رکھے اسنے دوسرے لوگوں کی طرح آنکھیں بند نہیں کی ہوئی تھیں۔اسکے سیاہ بال جوڑے میں قید تھے اور اسنے گھٹنوں تک بلو اوور کوٹ پہنا ہوا تھا ۔یکدم لڑکی نے بھی اپنی گردن موڑ کر اسے دیکھا ۔وہ اسکی سیاہ آنکھوں کو دیکھتا ہوا چونک گیا ۔اور اسی پل وہ دونوں ایک دوسرے کو پہچان گئے ۔ان دونوں کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق آئی۔
زنیرہ نے اپنی گردن موڑتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔چند لمحے ایلن ہال میں پرفارم کرتے پرئیر بینڈ سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا رہا ۔مگر اسنے اپنی آنکھیں بند نہیں کیں۔پھر وہ جلد ہی بیزار ہو گیا ۔
“دے سنگ رئیلی ویل۔” اسنے زنیرہ کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی میں کہا ۔
زنیرہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے اسے گھورا۔
“مجھے پرئیر میں ڈسٹرب مت کرو۔”
“میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بس یونہی اپنی آنکھیں بند کر لیں ہیں ورنہ حقیقت میں تمہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں نظر آ رہی ہے ۔”وہ ہنوز دھیمی آواز میں بولا ۔
“میں خدا سے اپنا تعلق جوڑنا چاہتی ہوں ۔اسلئے مجھے سکون سے عبادت کرنے دو۔”اسنے دبے دبے غصیلے لہجے میں کہا ۔
” وہ تو میں بھی کرنا چاہتا ہوں ۔مگر کیا تمہیں یقین ہے کہ اس طریقے سے تم خدا سے اپنا تعلق جوڑ لوگی۔”وہ اپنی نیلی آنکھوں سے اسے دیکھتا پوچھ رہا تھا ۔
“مجھے نہیں پتہ۔میں بس کوشش کر رہی ہوں ۔”اسکا لہجہ بجھا ہوا تھا ۔
پھر پرئیر ختم ہونے کے بعد وہ دونوں ساتھ ہی باہر نکلے ۔سڑک پر لاشعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ہی چلنے لگے۔
” جب میں نے تمہیں پچھلی دفعہ دیکھا تھا تو شاید تم نے اپنے سر پر طالبان کی طرح اسکارف لپیٹا ہوا تھا ۔”اسکے ساتھ چلتے ہوئے ایلن کو یاد آیا۔
“اور جب میں نے تمہیں پچھلی دفعہ دیکھا تھا تو شاید تمہیں خدا کے وجود کا یقین نہیں تھا۔” اسنے ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔
” تم نے مجھے کئی مہینوں پہلے دیکھا تھا۔درمیان میں آنے والے حالات نے شاید میرا یقین متزلزل کر دیا ۔”
“تم نے بھی مجھے کئی مہینوں پہلے دیکھا تھا۔درمیان میں آنے والے حالات نے شاید میرا حلیہ بدل دیا ۔” اسنے اسی کے انداز میں جواب دیا ۔
اسکی بات سن کر وہ ہولے سے ہنسا۔” انٹرسٹنگ! واقعی تم بہت بہادر ہو اور باتیں بھی اچھی کرتی ہو۔”
اپنے سینے پر بازو لپیٹے چلتی زنیرہ نے اپنا سر جھٹکا۔جیسے اسے اسکے کامپلیمنٹ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
” تمہارا بیٹا اب کیسا ہے؟ “اسنے اچانک پوچھا۔
اس سوال پر زنیرہ کا چہرہ پھیکا پڑا ۔اور اسکے چہرے کا پھیکا پن ایلن کی نظروں سے مخفی نہیں رہ سکا۔
” تم روز چرچ آتی ہو؟” اسنے بات بدل دی تھی۔
زنیرہ نے بے اختیار ہی سکون کی سانس لی۔اب اسکا چہرہ نارمل ہو چکا تھا ۔
” نہیں جب دل چاہتا ہے تب آ جاتی ہوں ۔”
“تم خدا سے اپنا تعلق کیوں جوڑنا چاہتی ہو؟” اسنے دوسرا سوال کیا تھا۔
“تم خدا کو کیوں تلاش کرنا چاہتے ہو جبکہ تم پہلے اس پر یقین بھی نہیں رکھتے تھے؟” ایلن کے سوال کو قطعی نظر انداز کر کے اس نے اس سے سوال کر دیا۔
“کچھ سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں ۔اُس سے کچھ شکایت کرنی ہے اور اسکے احسانات کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔” اسکے جواب میں ابہام تھا۔
” میں چاہونگی کہ تمہاری یہ تلاش جلد پوری ہو جائے ۔”اسنے آہستہ سے کہا ۔
“میں ایلن ہوں ۔اور تم۔۔۔”
“میرے خیال میں تمہیں میرا نام جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔”اسنے کہا تھا اور تیزی سے چلتی ہوئی مشنری کی لڑکیوں کے ہجوم میں غائب ہو گئی ۔
ایلن کے ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ آئی اور اپنے اوور کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اسنے بھی اپنی رفتار تیز کر دی ۔
_________
وہ ایک رومن کیتھولک چرچ میں فادر جان کے سامنے بیٹھا تھا ۔اسکی پیشانی پر دونوں ابرووں کے درمیان ایک واضح لکیر تھی۔وہ بے حد بیزاری سے فادر جان کی جانب متوجہ تھا جو اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
“خدا نے آدم اور حوا کی جنت میں آزمائش کرنے کے لئے ایک مخصوص پیڑ کا پھل کھانے سے منع کیا تھا ۔تاکہ وہ دیکھ سکے کہ ان میں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی تمیز کتنی ہے ۔مگر وہ اس آزمائش میں پورا نہیں اتر پائے اور اُس پیڑ کا پھل کھا کر انہوں نے گناہ کا ارتکاب کر لیا۔جسکی پاداش میں ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور زمین پر بھیج دیا گیا ۔اسلئے ان دونوں کی اولاد اور سارے انسان پیدائشی طور پر گناہگار ہیں ۔ہمیں وہ گناہ وراثت میں ملا ہے۔کوئی بھی اس گناہ سے پاک نہیں ہے۔اسلئے تم نے دیکھا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو جھٹ بولنا یا دھوکہ دینا نہیں سکھاتے۔انہیں یہ سب چیزیں فطری طور پر آتی ہیں ۔”
” تو آپ کا مطلب ہے کہ ایک نو زائیدہ بچہ جس نے ابھی اپنی آنکھیں کھولی ہیں وہ بھی اس گناہ میں مبتلا ہے۔”اسنے تیکھے انداز میں سوال کیا ۔
” ہاں بالکل۔”فادر جان نے ایک زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے جواب دیا ۔اپنے سامنے موجود وہ اکیس بائیس سالہ لڑکا انہیں سخت برا لگ رہا تھا ۔وہ ایک مہینے سے لگ بھگ ہر دوسرے دن نئے نئے سوالات کے ساتھ انکے سامنے موجود ہوتا تھا ۔
“لیکن میں خود کو گناہگار نہیں سمجھتا۔”اسنے لاپروائی سے اپنے شانے اچکاتے ہوئے کہا ۔”میں کیوں خود کو گناہگار سمجھوں ۔جبکہ اپنی پوری زندگی میں مَیں نے کوئی ایسا گناہ نہیں کیا ہے جس پر میں شرمندگی محسوس کروں ۔تو میں خواہ مخواہ کسی اور کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر پر کیوں لوں۔”
” تم جیسے گناہگاروں کی وجہ سے عیسی مسیح مصلوب ہو گئے۔سارے انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اپنی گردن پر لئے وہ سولی پر چڑھ گئے تھے اور تم کہتے ہو کہ تم خود کو بے گناہ سمجھتے ہو۔”فادر جان مشتعل ہو گئے تھے ۔
ایلن نے انکے غصے کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں لیا۔
” اس میں اتنا بھڑکنے والی کیا بات ہے ۔”اسنے جیسے برا مانا۔
” وہ دیکھو ۔۔۔وہ کراس دیکھ رہے ہو ۔کتنی صعوبتیں برداشت کی تھیں انہوں نے ہم جیسے ذلیل انسانوں کے لئے ۔”غصے سے ہانپتے ہوئے انہوں نے دیوار میں قد آدم صلیب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
“یہ تو بہت زیادہ شرمندگی کی بات ہے کہ عیسی مسیح کو انکی اپنی قوم کی وجہ سے مصلوب ہونا پڑا۔”اسنے اپنے لہجے میں شرمندگی پیدا کرنے کی کوشش کی مگر چہرہ پر ندامت کے کوئی آثار نہیں تھے۔
“اب تم جا سکتے ہو۔” فادر جان اب اسے مزید برداشت نہیں کر پا رہے تھے ۔
“ابھی میرے پورے سوالوں کا جواب کہاں ملا ہے؟ ”
” اور کیا رہ گیا ہے؟ “وہ اب اپنے غصے کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہے تھے ۔
“عقیدہ تثلیث (trinity) کو میں ایک دفعہ اور سمجھنا چاہتا ہوں ۔”
“پہلے دن ہی تو تمہیں بتایا تھا۔” انہوں نے لفظوں کو چبا کر کہا۔
“ہاں مگر اب بھی کنفیوژن ہے ۔”اسنے معصومیت سے کہا ۔
” اس بار دھیان سے سننا۔”انہوں نے تاکیدی انداز میں کہا ۔
اس نے تابعداری سے اپنا سر ہلایا۔
” خدا در حقیقت ایک ہی ہے جس نے اس پوری کائنات کو بنایا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے تین مختلف states بھی ہیں ۔جن میں سے پہلا ہے گاڈ دَ فادر، دوسرا خدا کا بیٹا جیسس کرائسٹ اور تیسرا روحِ مقدس ہے۔ایک عیسائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں ان تینوں states پر اعتقاد ہونا چاہئے ۔عقیدہ تثلیث پر ایمان رکھنا تمہارے مذہب کا جزو ہے ۔”
ایلن کے چہرے پر اب بھی شش و پنج کے آثار تھے ۔
” کیا تمہیں اب بھی مسئلہ ہے۔”
” ہے تو۔مگر اب آپ سے نہیں پوچھونگا ۔آپ یہ مسئلہ تثلیث حل کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔”وہ کھڑا ہو گیا تھا ۔
فادر جان اسکی بات سن کر اور زیادہ مشتعل ہو گئے ۔
” نہیں تم مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے ۔”
“نہیں جانے دیں۔” وہ مڑا۔
فادر جان اپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی سے اسکے سامنے آئے اور اسکا راستہ روکا۔
” تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟میں اس چرچ کا سب سے زیادہ قابل عزت اور قابل احترام پادری ہوں ۔میری اتنی بے عزتی کرنے کی جرات کسی نے نہیں کی ہے ۔”وہ غصے سے ہانپنے لگے۔
ایلن نے مطمئن انداز میں اپنا سر ہلایا ۔
“میں آپکی بے عزتی نہیں کر رہا۔میں بس یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ میرے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے۔”اسنے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
” تم جانتے ہو اس دنیا میں سب سے زیادہ آبادی ہم عیسائیوں کی ہے. اور اس 2.3 بلین انسانوں کی آبادی اگر عقیدہ تثلیث پر ایمان رکھتی ہے تو اس میں شبہ کرنا بیوقوفی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔”انہوں نے اس سر پھرے لڑکے کو ایک بار اور سمجھانے کی کوشش کی ۔
“اگر کسی چیز کو زیادہ لوگ صحیح سمجھتے ہیں تو یہ اُس چیز کے صحیح ہونے کا ثبوت نہیں ہے ۔صحیح ماننے اور صحیح ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔اگر مجھے اِس عقیدہ پر شبہ ہے تو چاہے پوری دنیا اسکی تقلید کرے یہ میرے لئے صحیح نہیں ہو سکتا ۔” اسنے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں کہا ۔
” تمہیں کس نے بھیجا ہے ؟”یکدم فادر جان کا لہجہ بدلا تھا۔
” کیا مطلب کس نے بھیجا ہے ۔”وہ حیران ہوا ۔” میں خود ہی آیا ہوں ۔”
” اپنی بکواس بند کرو ۔سچ سچ بتاؤ تمہیں پروٹسٹنٹ (عیسائیوں کا ایک فرقہ) والوں نے بھیجا ہے تاکہ تم میری تحقیر کرو۔”
“ایک یہی تو مسئلہ ہے آپ لوگوں کا۔خود کو آپ سب کرسچن کہتے ہیں مگر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے ۔رومن کیتھولک والے، پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس چرچ کو برا کہتے ہیں اور اسی طرح وہ دونوں بھی یہی کرتے ہیں ۔سب سے بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ تینوں چرچ بائبل پر بھی متفق نہیں ہیں ۔آرتھوڈوکس 39 عہد نامہ قدیم اور 27 عہد نامہ جدید کو قبول کرتے ہیں اور رومن کیتھولک نے بھی اسکو قبولیت کا درجہ دیا ہے مگر پروٹسٹنٹ ان میں سے بعض صحیفوں کو رد کر دیتے ہیں ۔حتی کہ یہ تینوں شادی اور طلاق جیسے معاملات پر بھی متفق نہیں ہیں ۔ہر چرچ اپنے علاوہ دوسرے چرچ کو غلط ٹھہراتا ہے ۔”اسنے بے حد مدلل انداز میں کہا ۔فادر جان خاموش ہو کر رہ گئے تھے ۔
ایک سرد مسکراہٹ انکی طرف اچھالتا وہ باہر نکل گیا تھا ۔وہ جانتا تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی کسی چرچ کی جانب نہیں جانے والا ہے ۔عیسائیت کی طرف اسکے رجحان کا یہ آخری دن تھا ۔
_________
ایک سپر اسٹور میں ڈرائی فروٹس کی ریک کے پاس کھڑی وہ مطلوبہ اشیاء کو اپنی ٹرالی میں منتقل کر رہی تھی۔وہ اب بھی مدر ٹریسا مشنری میں ہی رہتی تھی مگر کچھ دنوں سے اس نے جاب شروع کر دی تھی ۔اسکا کام سپر اسٹور سے چیزیں لے کر مختلف جگہوں پر ڈلیوری کرنا تھا۔اب بھی اسے کچھ چیزیں ایک شاپ میں ڈلیور کرنی تھی ۔لسٹ پر ایک نظر ڈال کر اسنے مطمئن انداز میں اپنا سر ہلایا اور واپس پلٹی۔اسی وقت کسی نے اسکی راہ مسدود کی۔
اسنے نظر انداز کر کے نکلنا چاہا مگر سامنے کھڑے شخص نے ٹرالی تھامے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔کرنٹ کھا کر اسنے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا۔
“میرے سامنے سے ہٹو۔” اسنے غصے سے کہا ۔
“یوں کس طرح ہٹ جاؤں ڈئیر وائف۔” جبران نے مسکرا کر کہا۔
“میں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔”
“مگر میں کرنا چاہتا ہوں۔”
زنیرہ نے بغیر کچھ کہے غصے سے اپنا چہرہ موڑ لیا۔
“تم بہت بدل گئی ہو زنیرہ ۔” اسنے اُس پر چوٹ کی۔” کہاں تو اتنی پارسائی کہ تم میرے دوست کے ساتھ بیٹھ کر ڈنر نہیں کرنا چاہتی تھیں اور اب اپنا حجاب تک اتار دیا ہے ۔” وہ اسکے کندھے تک آتے تراشیدہ بالوں کو غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
“یہ میرا مسئلہ ہے تمہارا نہیں ۔”اسنے مشکل سے ضبط کرتے ہوئے کہا ۔اسے افسوس ہو رہا تھا کہ جبران کو اب بھی اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہے ۔
“یہ میرا بھی مسئلہ ہے ۔”جبران نے تصیح کی۔” بیوی ہو تم میری ۔”
“اگلی پیشی میں ہماری طلاق ہونے والی ہے ۔” اسنے اسے جتایا ۔
“اگلی پیشی میں پندرہ دن رہتے ہیں ۔۔زنیرہ تم نے اپنی مرضی بہت کر لی۔” وہ یکدم بہت سنجیدہ ہوا۔”اب میرے ساتھ اپنے گھر چلو۔”
“کس گھر کی بات کر رہے ہو؟ میں اب تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔ ”
” میں جانتا ہوں کہ تمہارا یہ اعتماد کسکا دیا ہوا ہے ۔مدر ٹریسا مشنری میں رہ رہی ہو نا تم آجکل۔تمہیں معلوم بھی ہے کہ وہ لوگ تم پر اتنے مہربان کیوں ہیں؟ ” وہ اسے سنجیدگی سے دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا ۔
” اگر اس میں انکا کوئی مقصد بھی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ۔وہ لوگ میری عزت تو کرتے ہیں ۔”اسے جبران کا اپنے لئے فکر مند ہونا بالکل اچھا نہیں لگا ۔اسے اسکے ہاتھوں کی جانے والی تذلیل اچھی طرح یاد تھی۔اور اسکے جسم پر اسکے دئیے زخموں کے نشان اب بھی موجود تھے ۔
“سیریسلی زنیرہ! تم عیسائیت میں کنورٹ ہونے والی ہو یا۔۔۔” وہ بولتے بولتے رکا اور اسکی طرف جھک کر اسکے گلے میں پہنی روژری کو دو انگلیوں سے چھوا۔”یا ہو چکی ہو۔”
زنیرہ نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ خود سے دور کیا۔
“جبران اب میں مزید تمہاری بکواس نہیں سنونگی ۔” اسنے کرختگی سے کہا۔
اسکے لہجے پر جبران کے چہرے پر بیک وقت غصہ اور حیرت نمودار ہوئی۔اسکے دسترس میں رہنے والی عورت یوں اسکی انا کو للکار رہی تھی ۔جبران نے ایک قدم آگے بڑھ کر اسکا بازو سختی سے دبوچا۔زنیرہ نے ایک لمحے کے لئے اپنے دل میں خوف اترتا محسوس کیا ۔مگر اگلے ہی لمحے وہ اس احساس سے باہر آ گئی۔وہ اب اسکے تشدد سے ڈرنے والی زنیرہ نہیں رہی تھی۔
“میرا بازو چھوڑو۔” اسنے سختی سے کہا۔
“تم کیا سمجھتی ہو میرے گھر سے نکل کر تم خود مختار ہو چکی ہو؟ میں اب بھی تمہارا ہاتھ کھینچ کر اپنے ساتھ لے جانے کا حق رکھتا ہوں ۔” جبران نے درشت لہجے میں کہا ۔
“کوشش کر کے دیکھ لو۔” اسنے نڈر لہجے میں کہا ۔
“مجھے چیلنج مت کرو زنیرہ پچھتاؤگی۔” اسنے دھمکی دی ۔
” ہاں کر رہی ہوں چیلنج۔ “اسنے مزید اعتماد سے کہا۔
جبران نے اپنا سر ہلایا۔مطلب وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے پہلے کی ہی زبان میں بات کرے۔
اسکے بازو پر اپنی گرفت مضبوط کر کے اسنے اسے کھینچنے کی کوشش کی ۔
“جبران اگر تم نے مزید میرے ساتھ زبردستی کی تو میں پولیس کو کال کر دونگی۔میری صرف ایک کال سے تم جیل کے اندر ہوگے۔” اسنے دایاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں ڈال کر موبائل نکالا۔جبران نے ہاتھ بڑھا کر اس سے موبائل لینے کی کوشش کی ۔
” تمہاری یہ حرکت کیمرے میں ریکارڈ ہو رہی ہے۔میرے ایک اشارے پر اسٹور کی اتھارٹی میری طرف متوجہ ہو جائیگی اور پھر تمہیں اٹھا کر سڑک پر پھینکنے میں انہیں دیر نہیں لگیگی۔” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی آخر میں مسکرائی تھی۔
جبران کے جبڑے بھینچے اور اسنے آہستہ سے زنیرہ کے بازوؤں سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔
” آئندہ میرے راستے میں نہ آنا۔”اسنے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی ۔اور ٹرالی لئے ہوئے پلٹ گئی۔
اسکی پشت کو گھورتے ہوئے جبران کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ زنیرہ ادیب اسکی محکومیت سے آزاد ہو چکی ہے ۔
_________
پچھلے پانچ مہینوں میں ایلن نے دنیا کے لگ بھگ ہر مذہب کا مطالعہ کر لیا تھا۔اسنے یہودیوں کے نظریات بھی جاننے کی کوشش کی تھی۔وہ پارسیوں کے پاس بھی گیا تھا ۔وہ خدا کی تلاش میں اقلیتی مذہب جین اور سکھوں کے پاس بھی جا چکا تھا ۔اسنے اپنے ایک ہندو دوست کے کہنے پر ہندو مت بھی جاننے کی کوشش کی ۔لیکن مندر میں پہلی دفعہ جانے کے بعد وہ وہاں دوبارہ جانے کی ہمت نہیں کر سکا۔
غرض اسنے خدا کی تلاش میں ہر ممکن دروازے پر دستک دی تگی۔مگر نا امیدی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔تلاش تھی کہ پوری ہونے پر نہیں آ رہی تھی ۔کسی کے مطابق خدا واحد تو تھا مگر وہ اسکے ساتھ اُسکے تین اسٹیٹس پر بھی ایمان لانے پر اصرار کرتے تھے ۔اور کسی نے خدائی میں لا تعداد شعبے تقسیم کر رکھے تھے ۔کسی نے آگ کو خدا مان کر اسکی پرستش میں اپنی نجات سمجھی تھی تو کوئی بے شمار پتھروں کے بتوں کی بندگی کر رہا تھا ۔آخر خدا کا وجود ہے کہاں؟ وہ پھتر کا ہے یا جیتا جاگتا جسم رکھتا ہے؟ اسکی عبادت گھنٹی بجا کر کرنی چاہئے یا زمین پر اپنا سر ٹکا کر کرنا چاہیے؟
وہ اب شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہو رہا تھا ۔اسنے کچھ دنوں سے ایک بودھ مندر میں جانا شروع کیا تھا ۔اور اسنے اپنے دل میں محکم فیصلہ کر لیا تھا کہ خدا کی تلاش میں یہ اسکی آخری جدوجہد ہوگی ۔اگر وہاں اسکا دل مطمئن ہوتا ہے تو بہتر ورنہ اب اسکے لئے خدا کے وجود پر ایمان رکھنا نا ممکن ہوگا۔
اِس وقت وہ ننگے پیر بہت سارے لوگوں کی طرح ٹھنڈے فرش پر آنکھیں بند کیے سر جھکائے بیٹھا تھا ۔آجکل اسنے اپنے بالوں کو سِلور رنگ میں ڈائی کرایا ہوا تھا ۔بائیں کان کی لو میں ہیرے کی اسٹڈ اور گردن پر موجود ٹیٹو سمیت وہ ہمیشہ کی طرح لوگوں کی نظروں کا مرکز تھا۔
“اب آپ سب اپنے ذہن میں مہاتما بدھ کا دھیان کریں ۔انکی شبیہ اپنے ذہن میں اتاریں ۔یہ تصور کریں کہ وہ آپکے سامنے ہیں اور آپکو دیکھ رہے ہیں ۔” ایک بودھ راہب اسپیکر پر ہدایت دے رہا تھا ۔ایلن نے ہاتھ جوڑے ہوئے اپنے ذہن میں مہاتما بدھ کی تصویر لانے کی کوشش کی ۔مگر بار بار ذہن میں زور دینے پر بھی اسے انکی شبیہ نظر نہیں آئی تھی ۔بند آنکھوں کے پیچھے اسے صرف اپنے گرد سیاہ اور ڈراؤنا اندھیرا نظر آ رہا تھا ۔تھک کر اسنے یہ کوشش چھوڑ دی اور یونہی آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔
“دنیا کی چار حقیقتیں کیا ہیں؟” راہب کی گمبھیر آواز گونجی ۔
“پہلی حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں مصائب، تکالیف اور بے اطمینانی اپنا وجود رکھتی ہیں اور بلا استشنا ہر کوئی اس تجربہ سے گزرتا ہے ۔”
ایلن کے اندر کا سکوت ٹوٹا تھا ۔ہاں اسنے بھی تو تکلیف جھیلی تھی۔ وہ بھی اس سے گزر چکا تھا ۔اسکی زندگی میں اہمیت رکھنے والے لوگ اب اسکے آس پاس کہیں موجود نہیں تھے۔وہ اسے چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنی جدائی کا غم دے چکے تھے ۔
” دوسری حقیقت یہ ہے کہ حسرت و خواہش اور دنیا سے وابستگی ہی ان تمام تکلیفوں اور بے اطمینانی کا سبب ہیں ۔”
ایلن کی بند آنکھوں کے گوشے گیلے ہوئے ۔واقعی اسکی ساری بے اطمینانی کا سبب اسکی اپنے لوگوں سے وابستگی ہی تھی۔اپنی ماں کے جانے کے اتنے مہینوں بعد بھی وہ اسکے مدار سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔اسکی بے سکونی کا سبب یہ تھا کہ اسکی کامیابی اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش اب آسمان کو چھو رہی تھی ۔جس دن اسکی ویڈیو کو اسکی مرضی کے مطابق ویوز نہیں ملتے وہ کئی دنوں تک ڈپریشن کا شکار رہتا تھا ۔
“تیسری حقیقت یہ ہے کہ ان مصائب اور بے اطمینانی کا کوئی اختتام نہیں ہے ۔”
ایلن کا دل ڈوب گیا ۔کیا واقعی وہ ساری زندگی اسی فیز میں رہنے والا ہے ۔
“چوتھی اور آخری حقیقت یہ ہے کہ اختتام تک پہنچا جا سکتا ہے اگر ہم اِن آٹھ نکتوں کو اپنی زندگی میں کلی طور پر شامل کر لیں ۔”
ایلن نے سکون کی گہری سانس لی۔وہ اُن آٹھ نکات کو غور سے سننے لگا تاکہ وہ اپنی زندگی کی ساری پریشانیوں کا خاتمہ کر سکے۔
“پہلا تو یہی ہے کہ آپ ان چاروں حقائق کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔”
ہاں وہ انہیں اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔
” دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ کو اپنی زندگی ایک صحیح راستہ پر گزارنی ہے۔”
ایلن نے تائیدی انداز میں اپنے سر کو جنبش دی ۔اسے اپنی زندگی درست روش پر بسر کرنی تھی۔
” تیسرا یہ کہ آپ اپنی زبان درست رکھیں ۔کسی بھی انسان کو دھوکہ نہ دیں۔جھوٹ نہ بولیں ۔ایمانداری کو اپنی زندگی میں آکسیجن کی طرح شامل کر لیں ۔”
ایلن کی توجہ بھٹکی۔وہ لوگ اسے کیا سکھا رہے تھے؟
“چوتھا یہ ہے کہ اپنا طرزِ عمل درست رکھیں ۔”
اسکی توجہ مزید بھٹکی۔
“پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اپنی ذات سے کسی بھی چیز کو خواہ وہ کوئی چھوٹا سا کیڑا ہی کیوں نہ ہو نقصان نہ پہنچائیں ۔”
راہب مزید تین نکات بتا رہا تھا مگر ایلن کی دلچسپی اس پورے وعظ سے ختم ہو گئی ۔اسے اب یہاں وحشت ہونے لگی۔ بیزاری نے اسکے پورے وجود کا احاطہ کر لیا۔اسنے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنے جڑے ہاتھ کھول کر زانو پر رکھ لئے۔مسئلہ تو اب بھی وہی تھا۔ خدا کہاں تھا؟ وہ کیسا تھا؟ کون تھا؟ اس کائنات کی تخلیق کسنے کی تھی؟ اس کاروبارِ عالم کو کون اتنی مشاقی سے بغیر تھکے صدیوں سے چلا رہا تھا؟
بودھ مذہب کے پیرو کسی خالق پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔ایلن خاموشی سے کھڑا ہو گیا ۔اسے تو خدا کی تلاش تھی۔وہ اخلاقیات سیکھنے نہیں آیا تھا ۔اسے کوڈ آف ایتھکس کا سبق نہیں پڑھنا تھا۔اسے تو اپنا رب چاہیے تھا ۔وہ اسکی انگلی پکڑ کر بقیہ زندگی گزارنا چاہتا تھا ۔
وہ بغیر آواز پیدا کئے چلتا ہوا باہر آ گیا۔جھک کر اسنے اپنے جوتے پہنے۔بودھزم زندگی گزارنے کا ایک اچھا طریقہ تو ہو سکتا تھا مگر وہ کوئی مذہب نہیں تھا۔
وہ اپنے اوور کوٹ کا ہڈ سر پر چڑھائے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے سڑک پر چلنے لگا۔
_________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...