"کیا کہا بھائی تم نے زرا پھر سے کہنا….؟؟؟؟” نیہا کو لگا شاید اس نے کچھ غلط سنا ہے
"ارے تمہیں کیوں یقین نہیں رہا….چلو تمہاری تسلی کیلئے پھر سے کہہ دیتا ہوں…..I wanna marry with maharma…” انس نے ایک بار پھر کہا
ماوی کو لگا اسے کسی نے کند چھری سے ذبح کرنا شروع کردیا ہو
وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی
” کیا ہوا ….؟؟؟” عالیہ نے پوچھا
” وہ….وہ خالہ مجھے اپنا اسائنمنٹ مکمل کرنا ہے ابھی یاد آیا…..”
ماوی نے بہانہ گھڑا
” تو کھانا تو کھالو…..” عالیہ نے کہا
” جی بس کھا چکی…..” ماوی کی تو بھوک ہی مرگئی تھی
اور شاید دل بھی…..!!!!!!
” تم مہرماہ سے شادی کرنے کیلئے واقعی سنجیدہ ہو…..'”
نیہا نے پوچھا
” اب کیا اسٹامپ پیپر پہ لکھ کے دوں…..ایک بار کا کہا سمجھ نہیں آرہا.
…” انس چڑ کے بولا
نیہا کی سی آئی ڈی سے اسے چڑ تھی
” اسے ہوگا کوئی خودساختہ مسئلہ….رہنے دو اسے….میں آج ہی تمہارے ابا سے بات کرتی ہوں …وہ بات کریں آگے…. ” عالیہ بیگم بے پایاں خوشی سے بولیں تھیں
مہرماہ کی ذات سے انہیں ہمیشہ سکھ ہی ملے تھے ……اور اب بھی وہ یہی امید رکھتیں تھیں
_____________________________________
” بھائی…..” نیہا نے انس کے کمرے کا دروازہ ناک کیا
” آو نیہا…..” انس کا انداز مصروف سا تھا وہ لیپ ٹاپ پہ کسی میپ پہ الجھا ہوا تھا
” بات کرنی ہے کچھ انس بھائی….” نیہا نے تمہید باندھی
” اندازہ ہے مجھے کہ کیا بات کرنی ہے تم نے …..خیر کہو…”
انس اپنی بہن کو اچھے سے جانتا تھا
” اسے تو سائیڈ پہ کرو سارا دھیان تو تمہارا وہاں ہے…..” نیہا نے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کیا
” اچھا بھئی ….بولو….مگر زرا جلدی مجھے اپنا کام مکمل کرنا ہے…..” انس نے پہلے ہی اسے وارن کیا
” اچھا مجھے مہرماہ کے بارے میں بات کرنی ہے….” نیہا نے کہا
” اس کے بارے میں کیا کہنا ہے….” انس نے سوال کیا
” آپ اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں
…کیوں…” نیہا کے اس سوال پہ انس سر تھام کے رہ گیا
ایسے سوال نیہا سفیر ہی کرسکتی تھی
” یہ کیسا سوال ہے…..حد ہے نیہا….”
” بھائی میں سنجیدہ ہوں…..تم مہرماہ سے شادی کرنا چاہتے ہو مگر ضروری نہیں کہ وہ بھی تم سے شادی کرنا چاہتی ہے…….” نیہا نے چڑ کے کہا
اپنی طرف سے تو وہ مہرماہ کی مدد کررہی تھی
” اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی…” انس نے پوچھا
” وہ آپ سے تو کیا کسی سے بھی شادی نہیں کرے گی …سوائے ایک کے……”
نیہا نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا
” اور وہ ایک میں ہی ہوں گا نیہا فکر نہ کرو…..” انس کو مہرماہ کا اقرار مل چکا تھا
اس لئے وہ پرسکون تھا
” وہ ایک آپ نہیں کوئی اور ہے…..” نیہا نے جیسے اسکی عقل پہ ماتم کیا
” اچھا کون…..!!!!!” انس کا لہجہ بہت ٹھنڈا تھا
” میر ہالار جاذب…..” نیہا نے آہستگی سے کہا
” شٹ اپ نیہا…..تم اپنے ہونے والے شوہر اور کزن کے بارے میں کیا کہہ رہی ہو….تمہیں احساس ہے….” انس نے اسے ڈپٹا
” میں ٹھیک کہہ رہی ہوں انس بھائی …..اسی لئے میں اس دن یہ چاہتی تھی کہ ان دونوں کا نکاح ہوجائے….مجھے میر خاندان کی بہو بننے میں کوئی دلچسپی نہیں…. ” نیہا نے کڑوے لہجے میں کہا
"نیہا….اپنے دماغ سے فضول باتیں نکال دو….میں نے اگر گھر میں بات کی ہے تو مہرماہ کی مرضی سے ہی کی ہے…..” انس نے اسے بتایا
” بھائی کیا ہوگیا ہے تمہیں…وہ کیسے تمہیں ہاں بول سکتی ہے…سترہ برس وہ اس شخص کے پیچھے پاگل رہی ہے….سترہ برس کی محبت ہے….”
نیہا نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا
” لیکن وہ آج سے پہلے اسے جانتی ہی کب تھی….دن ہی کتنے ہوئے ہیں اسے اپنے رشتہ داروں سے ملے ہوئے….”
انس الجھ کے بولا
"_آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی مگر میر جاذب کو وہ اسکی صدا کاری کی وجہ سے جانتی ہے ….جس ریڈیو چینل پہ مہرماہ ہے وہیں کا سینئر آرجے ہے میرہالار سترہ برس سے وہ اسے سنتی آرہی ہے…..بھائی تم ایک ایسی لڑکی سے شادی کررہے ہو جو سترہ سال سے ایک ساحر کے طلسم میں قید ہے…..” نیہا نے ساری داستان اسے سنا دی تھی
انس چپ چاپ بیٹھا رہا تھا …..وہ یہ تو جانتا تھا کہ مہرماہ نے اگر اسے انکار کیا ہے تو یقینا اسکے پیچھے یہی وجہ ہوگا ….مگر سترہ برس کی محبت تھی صرف ایک آواز کے صدقے…..میر ہالار جاذب سے
مگر انس یہ بھی جانتا تھا کہ آواز اور سائے کی کشش وقتی ہوتی ہے
اور
ان سے محبت ناپائیدار لکڑیوں کی مانند ہوتی ہے جو سلگ سلگ کے ختم ہوجاتی ہے ہا یا پھر کسی نرم مہربان بادل کی بارش سے امر ہوجاتی ہے
اور
اب یہ انس سفیر کو طے کرنا تھا کہ وہ مہرماہ کے وجود کو سلگنے کیلئے چھوڑ دے یا پھر کسی مہربان بادل کی طرح اپنی پناہوں میں لے لے ….
” نیہا سفیر…..اس بات سے میں کیا سمجھوں کہ تم مہرماہ کا بھلا چاہتی ہو یا پھر رقابت کا احساس تمہیں چین نہیں لینے دے رہا….” انس نے اپنی عمیق نظریں اس پہ گاڑیں تھیں
” بھائی اف کورس میں اسکا بھلا چاہتی ہوں….وہ سمجھتی ہے کہ وہ میرے اور ہالار کے درمیان ہے اس لئے شاید اس نے تمہیں ہاں کی .م…مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ہوں ان دونوں کے درمیان ….اس لئے میں چاہتی ہوں کہ ان دونوں کی شادی ہوجائے….اس کا طلسم اسکی محبت امر ہوجائے….”
نیہا نے جوش سے کہا تھا
” نیہا…..تم نے اس شہزادے کی کہانی پڑی ہے جس کے پور پور میں سوئی اتری تھی….اور صدیوں سے وہ اپنے محل میں منتظر تھا ایک مسیحا…..وہ ایک طلسم تھا جادو تھا…..برسوں بعد صدیوں کے بعد ایک مسیحا آکے اسے امر کرتا ہے….اسکے وجود کو اس طلسم سے نجات دیتا ہے….”
انس نے اسے بچپن میں سنی ایک کہانی یاد دلائی
” تو اسکا یہاں کیا ذکر…..” نیہا نے حیرت سے پوچھا….
” نیہا کہانیاں اس لئے نہیں ہوتیں…..کہ پڑھ کے وقت گزارا جائے ….بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ ان سے سبق لیا جائے…” انس نے رسان سے کہا
” تو اس سے کیا سبق ملا بھائی…..” نیہا الجھی
” طلسم جلد یا بدیر ٹوٹ جاتا ہے….نیہا…..طلسم ٹوٹنے کیلئے ہوتے ہیں….سحر ختم ہوہی جاتے ہیں….مسیحا کو اگر مسیحائی کرنے دی چاہی….”
انس کا لہجہ اتنا متاثر کن تھا نیہا کھو سی گئی تھی
” بھائی ہو تو تم بھی ایک مرد ہی …..کبھی نہ کبھی تو تمہیں یہ احساس ستائے گا…کہ تمہاری بیوی کا دل سترہ برس کسی اور کی محبت کے حصار میں رہا ہے…..مرد تو کبھی یہ برداشت نہیں کرتا….” نیہا کا لہجہ چبھتا ہوا تھا
” ٹھیک کہتی ہو نیہا لیکن سرابوں سے کیا بیر باندھنا….میری محبت میری انا سے کہیں ذیادہ ہے ….مہرماہ سے مجھے آج سے نہیں ہمیشہ سے محبت ہے میں اسے دکھی کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا…..تم ذیادہ مت سوچو اس بارے میں…..”
انس نے اسے تسلی دی تھی …..یہ اور بات نیہا کی تسلی ہوئی نہیں تھی
انس ٹھیک کہتا تھا محبت میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ محبت کو محبت میں ہی مدغم کرلے
…..ایک محبت کا دکھ دوسری محبت کے سکھ سے ہی کم ہوتا ہے
یہی ریت ہے
یہی روایت ہے
یہی رسم الفت ہے
جسکی پہچان صرف ایک سچے انسان کو ہوتی ہے…..
_____________________________________
رات قطرہ قطرہ بھیگ کے سیاہ ہورہی تھی آج آسمان پہ چاند کا نشان بھی نہ تھا …..اماوس کی کالی سیاہ رات تھی ….نہ چاند تھا نہ اسکے سنگی تارے
مہرماہ لان کی طرف بنی سنگی سیڑھیوں پہ بیٹھی ہوئی یوں ہی اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ان میں الجھی ہوئی تھی
” کیا ہورہا تھا اسکی زندگی میں…..اور کیا ہونے والا تھا….”
مہرماہ نے تھک کے سوچا تھا
اس گھر میں آج اسکی پہلی رات تھی مگر سوچ کے دریچوں میں کاسنی پھولوں سے سجا وہ بنگلا آباد تھا جس کا ایک مکین اسکی روح کا امین تھا
انس سفیر….مہرماہ سیال کا دردگر….یا پھر ہم درد ….اس ہمدردی میں چھپی محبت مہرماہ سیال کبھی نہ کھوج پاتی اگر اسکے اپنے دل پہ یہ واردات نہ گزرتی
سترہ برس سراب کے پیچھے وہ بھاگتے بھاگتے اب سائے کی تلاش میں تھی…..اور انس سفیر اسے اپنی پناہوں میں لینے کو تیار تھا
بس مہرماہ کو اپنے وجود کو اس ساحر کے طلسم سے آزاد کرانا تھا
میر ہالار گھر پہ نہ تھا …..مہر ماہ جانتی تھی وہ ریڈیو پہ تھا ….اسے یہ تو فنگر ٹپس پہ یاد ہوتا تھا کہ آج اسکا شو ہوتا ہے
سترہ برسوں میں آج پہلی بار اس کی یہ عادت قضا ہوئی تھی ……کیونکہ وہ اس سیراب سے منکر ہونا چاہتی تھی….اس طلسمی محبت سے مہرماہ کا وجود منکر ہونے لگا تھا
جس کے عوض اسکی عزت نفس رولی جاتی….مہرماہ کو یہ کبھی قبول نہ تھا
وہ نہ جانے کب تک یوں ہی بیٹھی رہی تھی….جب کسی مانوس لہجے نے اسے چونکایا تھا
” آپ ابھی تک سوئی نہیں…..” وہ ہالار تھا …شاید ابھی لوٹا تھا
” ہاں بس وہ نئی جگہ ہے تو. اس لئے……”
مہرماہ نے سرسری انداز میں کہا
ہتھیلیاں پسینے سے تر ہوگئیں تھیں…..اس دشمن جان کا سامنا کرنا آسان نہ تھا
” ہاں ….نئی جگہ ہے مگر آپکو ایڈجسٹ کرنا ہوگا….زندگی آسان رہتی ہے….وہ کہتے ہیں نا سمجھوتہ زندگی کا حسن ہوتا ہے…..” ہالار کین کی ایک کرسی پہ ہاتھ ٹکائے کھڑا تھا
مہرماہ نے نظریں جھکا لیں تھیں…..اس آدمی کے سامنے دل اور نگاہیں دونوں جھک جاتیں تھیں….مگر مہرماہ اپنا وجود اور اپنی عزت نفس نہیں جھکا سکتی تھی
” کچھ باتیں کہنے میں جتنی آسان اور سہل لگتیں ہیں درحقیقت وہ اتنی ہی مشکل ہوتیں ہیں…..آپ مجھے اس سفر کی ابتدا نہ سنائیں میر صاحب جس کی انتہا سے میں گزر کے آئی ہوں…..” نہ چاہتے ہوئے بھی مہرماہ کا لہجہ تلخ ہوگیا تھا
” آئی نو….سمیہ چچی اور سیال چچا کے بعد زندگی آپ کیلئے آسان نہ ہوگی….ماں باپ کے بغیر زندگی واقعی پہاڑ ہوتی ہے….اینی ہاؤ گڈ ٹائم ول بی کمنگ……” ہالار نے تسلی دی تھی
” انشاء اللّه….. اچھا وقت آنے والا ہے…..” مہرماہ نے مضبوط لہجے میں کہا تھا
” گڈ نائٹ…..”
مہرماہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی…..اس شخص کے اگے وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی
جن سے محبت کی جاتی ہے نا انہیں محبت ہی دی جاتی ہے …..اپنی خودداری نہیں کیونکہ پھر آپ اندر سے مرجاتے ہیں اور جو انسان اپنے ہاتھوں اپنی ہی ہلاکت کا سامان کرے وہ کیسے کسی اور سے محبت کا دعوا کرسکتا ہے…..”
_____________________________________
مہرماہ کمرے میں آئی تو انس کی پانچ مسڈ کالز تھیں
ماہ الجھ گئی تھی……انس نے اسے کبھی کال نہیں کی تھی…پرسنل نمبر پہ تو کبھی نہیں….اب کیوں….اسے دوسروں کی طرح موبائل اپنے ساتھ لے لے کے گھومنے کی عادت نہیں تھی اس لئے اسے پتہ ہی نہ چلا
” انس…..نے کیوں فون کیا…..”
مہرماہ یہی سوچتے سوچتے سونے کیلئے لیٹ گئی تھی
رات کا ایک بج رہا تھا ورنہ وہ خود ہی اسے کال کرلیتی ….مگر اب اتنی رات کو فون کرنا مناسب نہ تھا
” جو ہوگا صبح دیکھا جائے گا……اللّه رحم کرے گا….” مہرماہ نے آنکھیں موندتے ہوئے سوچا
سونے سے پہلے یہ اسکی آخری سوچ تھی
_____________________________________
صبح کا دھندلکا فجر کے نور کے لپیٹے میں طلوع ہورہا تھا مہرماہ رب کی نعمتوں پہ شکر ادا کرنے کیلئے سجدہ فرض ہمیشہ کی طرح بجا لائی تھی اور اب معمول کے مطابق بالکونی میں آکھڑی ہوئی تھی
اس گھر میں بھی اسے جو کمرہ دیا گیا تھا اس کا دروازہ بالکونی میں کھلتا تھا مگر یہاں گملے نہ تھے …..مہرماہ یوں ہی کہنیاں جنگلے پہ ٹکائے لان کا منظر دیکھ رہی تھی جہاں انواع اقسام کے پھولوں نے نفیس خوشبوؤں سے فضا معطر کررکھی تھی
میر ہاؤس میں شاید اب تک اور کوئی مکین جاگا نہ تھا…..مہرماہ بلا کی سحر خیز تھی اس لئے آج بھی معمول کے مانند اٹھ بیٹھی تھی
مہرماہ کے سیل پہ دوبارہ رنگ ہوئی تو اس نے لپک کے اٹھا لیا تھا …..انس کی کال تھی وہ جانتا تھا کہ مہرماہ بیدار ہوچکی ہوگی
” کیسی ہو مہرماہ……”
انس نے سلام دعا کے بعد پوچھا تھا
” ٹھیک ہوں گھر میں سب کیسے ہیں…..؟؟؟؟”
مہرماہ نے پوچھا
” گئے ہوئے ایک دن ہوا ہے اور تمہیں سب کی پڑ گئی ہے……” انس نے شگفتگی سے کہا
” جانے کا مطلب یہ تو نہیں کہ مجھے انکی فکر نہیں….” مہرماہ نے رسان سے کہا
” جانتا ہوں اچھی لڑکی…..یہ بتاؤ بنا بتائے کیوں چلی آئیں پتا بھی نہیں لگنے دیا….” انس نے موہوم سا شکوہ کیا
” بس وہ چچی اچانک سے لینے آگئیں …..اور مامی نے بھی کہا مجھے جانا چاہئیے… ” مہرماہ نے بتایا
” اور تمہارے دل نے کیا کہا…..مہرماہ….تمہارے دل نے کیا چاہا کہ تم.کیا کہو…..”
انس نے پوچھا
” مہرماہ نے تو آج تک وہی کیا ہے انس جس سے سب کو خوشی ملی…..م”
” اور مہرماہ کی خوشی…..” انس نے پوچھا
” سب کی خوشی میں میری خوشی ہے انس….آپ فکر کیوں کرتے ہیں ” ماہ اس سوال کا پس منظر جانتی تھی
” نہیں ماہ….ایسا نہیں ہوتا….میں چاہتا ہوں تم اپنے لئے جینا سیکھو …اپنے لئے کچھ کرو جس سے تمہارا دل خوش ہو تمہاری روح پرسکون ہو…..مہر ماہ کیا تم میری زندگی میں اپنی رضا سے آنا چاہتی ہو یا میری خوشی کیلئے……” انس کو نیہا کی باتیں یاد تھیں
” انس …..میں بھلے آپ سے محبت کا دعوا نہیں کرسکتی….مگر میں آپکو اتنا یقین ضرور دے سکتی ہوں کہ آپکے ساتھ گزرنے والی زندگی میں …..میں ہمیشہ آپکی وفادار رہوں گی پورے دل سے….سچے دل سے چاہے کتنا ہی یہ مشکل نہ ہو….مہرماہ نے واقعی یہ فیصلہ پورے دل سے کیا ہے…..”
مہرماہ نے جذب سے کہا تھا اور گالوں پہ بہتے آنسو پونچھ لیے تھے
” میں جانتا ہوں اچھی لڑکی…..اور میں کبھی تمہیں یہ پتہ نہیں لگنے دوں گا کہ مجھے تمہاری ادھوری محبت کی کسک سے واقفیت ہے…..کہ اسی میں تم پھولوں جیسی نازک شیشے جیسا دل رکھنے والی لڑکی کی بھلائی ہے……”
انس کی کرنجی آنکھوں میں ہلکی سی نمی سرخی کے ساتھ چھلکی تھی …..ماہ کے دکھ پہ
مگر وہ یہ جانتا تھا کہ اسکی محبت کا سکھ مہر ماہ کی محبت کے دکھ کو کم کرسکتا ہے…….
____________________________________,_
” سفیر صاحب…..آپ خیریت سے ہیں……” میر جاذب نے انکا فون سننے پہ کہا تھا
” مالک کا احسان ہے….جاذب بھائی….مہرماہ بیٹی ٹھیک ہے”
” اللّه کا شکر ہے وہ خیریت سے ہے…..”
” جاذب بھائی ایک بات کرنی ہے مہرماہ کے بارے میں…..”
سفیر صاحب نے کہا
” جی کہئے نا….” میر جاذب نے کہا
” اب آپ لوگ بھی مہر ماہ کے سر پرست ہیں اس لئے یہ بات اپ سے کرنا ضروری ہیں….آپ میر برفت کو بھی بتائیے گا…..” سفیر صاحب نے کہا
” کھل کے کہیں…..”
جاذب صاحب الجھے
” ہم مہرماہ بیٹی کو اپنے انس کی دلہن بنانا چاہتے ہیں….ہمیشہ سے یہ ہماری خواہش رہی ہے….آپ کیا کہتے ہیں….” سفیر صاحب نے پوچھا
"جی….” میر جاذب اتنا کہہ کے چپ ہوگئے
میر برفت نے ایک قیامت اٹھانی تھی ان میں اتنا دم تھا آج بھی…..وہ ایسا کیسے ہونے دے سکتے تھے
میر جاذب کی نگاہوں میں رات کا منظر تازہ ہوا تھا……..!!!!!!!!!
"آپ کا بی پی تو اب کافی نارمل ہے اور ہارٹ بیٹ بھی کافی بہتر ….”
میر جاذب میر برفت کا چیک اپ کرتے ہوئے بولے
” یہ سب مہرماہ کی کئیر کا نتیجہ ہے…..” میر برفت نے چائے لیتی مہرماہ کو دیکھ کے کہا
” ہاں یہ تو ہے….مہر ماہ نے بہت اچھے سے آپ کو کیری کیا ہے….”
میر جاذب ستائشی انداز میں بولے تھے
ورنہ میر برفت کی فطرت سے وہ واقف تھے جو بیماری میں کسی کے قابو نہیں آتے تھے حد سے ذیادہ چڑچڑے ہوجاتے تھے
” تھینکس مہرماہ… ” میر جاذب بولے
” تھینکس کیسا…..تایا ابو….یہ تو میرا فرض تھا…” مہرماہ سادگی سے بولی تھی
اور مہرماہ ہمیشہ فرض کی ادائیگی میں اپنے حق کی وصولی بھول جاتی تھی
"سو نائس مہرماہ….”
میر جاذب بولے
” میں کچن دیکھ لوں عائشہ چچی اکیلی ہیں….وہاں”
حسب عادت مونا بیگم نے کچن میں پاؤں نہیں دھرنا تھا یہ تو طے تھا
اور مہرماہ کو اول دن ہی محسوس ہوگیا تھا یہ
” میر جاذب…..” میر برفت نے پکارا
” جی بابا….”
” میر عدیل کے بارے میں کیا سوچا ہے….مطلب اسکی شادی”
میر برفت نے پوچھا
” سوچنا کیا ہے بابا….آپکی جو مرضی ویسے مونا کا ارادہ اپنی بھانجی سبین کا ہے” میر جاذب نے بتایا
” اسے چھوڑو…..ہالار نے اپنی مرضی نہ کی ہوتی تو ہم اسکا اور مہرماہ کا رشتہ طے کردیتے لیکن خیر میر عدیل اور میر ہمدان تو ہیں مہرماہ کے جوڑ کے…..ان دونوں میں سے کسی ایک کی نسبت مہرماہ کے ساتھ ٹھرا دیتے ہیں کیا خیال ہے….” میر برفت نے پوچھا
” ابا جان مہرماہ کو یہاں آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں….اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے سفیر بھائی کا ارادہ اپنے بیٹے کیلئے ہو…” میر جاذب نے اپنا خیال بتایا
” بس میر جاذب یہیں خاموش ہوجاؤ…..ہماری پوتی جتنا وہاں رہ سکتی تھی رہ چکی….اب دوبارہ وہ اس گھر میں قطعی نہیں جائیگی کسی نئے رشتے کے حوالے سے تو بالکل بھی نہیں…..” میر برفت نخوت سے بولے تھے
انکا انداز انکی حقارت اور بیزاری کو ظاہر کررہا تھا
اور آج سفیر صاحب فون کرکے انس کا رشتہ مہرماہ کیلئے طلب کررہے تھے
یعنی اب میر ہاؤس میں دبی ہوئی چنگاری کو ہوا ملنے والی تھی
” سفیر بھائی یہ بہت مشکل ہے…..بہرحال میں آپکو سوچ کے بتاتا ہوں بابا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے ”
میر جاذب پریشانی سے بولے تھے
انکی زندگیوں میں آدھے مسئلے باپ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تھے
______________________________
” آج دھوپ بہت اچھی ہے….اس لئے ہم آج دھوپ میں بیٹھ کے کچھ کھاتے ہیں اور میں آپ کو شہاب نامہ بھی سناؤں گی…..” مہرماہ میر برفت سے بولی تھی جو کرسی پہ بیزاری سے بیٹھے تھے
” مجھے شہاب نامہ نہیں پڑھنا…..” میر برفت نے صاف انکار کیا
” تو ٹھیک ہے …A tale of two cities پڑھ لیتے ہیں” مہر ماہ نے شیلف سے مطلوبہ کتاب برآمد کی اور پھلوں کی ٹوکری دوسرے ہاتھ میں اٹھائی تھی
آج چھٹی کا دن تھا لہذا سب گھر پہ تھے اور مہرماہ میر ہالار کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی
باہر لان میں سنہری روپہیلی نارنجی دھوپ پھیلی ہوئی تھی مہرماہ نے میر برفت کو کرسی پہ بٹھایا اور خود نیچے سبز گھاس پہ جوتے اتار کے بیٹھ گئی تھی
اس سنہری دھوپ میں یوں بیٹھنا اسے پسند تھا
” کیا دیکھ رہے ہو….” ثمر نے ہالار سے پوچھا
جو ٹیرس پہ کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ کے شاید سنڈے انجوائے کررہا تھا
لیکن ابھی وہ مہرماہ اور میر برفت کو دیکھ رہا تھا مہرماہ انہیں کوئی کتاب پڑھ کے سنا رہی تھی اور میر برفت کے تھیکے نقوش میں جو نرمی گھلی تھی وہ شاید صرف مہرماہ کیلئے مخصوص تھی
” اس لڑکی کا خمیر اٹھا ہی محبت سے ہے…..” ہالار نے مہرماہ کو دیکھ کے سوچا
” اوہ بھائی آپ سے بات کررہا ہوں….” ثمر نے اسکا شانہ ہلایا
” دیکھ رہا ہوں دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف محبت کرنا جانتے ہیں اور اسی کو مقدم مانتے ہیں….”
ہالار نے کہا
” یہ خیال یقینا اس کزن کو دیکھ کے آیا ہوگا….” انگلی سے ثمر نے مہر کی طرف اشارہ کیا
"ہاں تقریبا….”
ہالار نے گول مول جواب دیا
” ویسے مجھے مہرماہ بہت سلجھی ہوئی لگیں….مینز لڑکیاں ایسی آج کل کہاں ہوتیں ہیں….” ثمر ستائشی انداز میں بولا
” ہنہ….کہتے تو تم ٹھیک ہو ایسے لوگ احساس کی خوشبو کی طرح ہوتے ہیں….جو محسوس ہی توجہ پہ ہوتے ہیں پرائم روز کی طرح….ذرا سی شفقت انہیں کھلا دیتی ہے…اور بے رخی پہ شکوہ کیے یہ چپ چاپ رخصت ہوجاتے ہیں…..”
میر ہالار کا لہجہ کھویا کھویا سا تھا
کیا محبت کی پہیلی کے اسرار میر ہالار پہ کھلنے والے تھے…..!!!!!!!
” مہر ماہ جتنی اچھی ہے نا آئی ایم شیور اسے بھی کوئی اتنا کئیرنگ کوئی ملے…..” ثمر نے رائے دی
” وہ تو ملے گا ہی…..” ہالار نے زیر لب کہا تھا
نکلتی سنہری دھوپ نے تھک کے اس اچھی لڑکی کو دیکھا تھا اور تھک کے اپنے پر سمیٹ لیے تھے
______________________________
” اوہ میر ہالار آپ…..فرمائیں…” نیہا اسے دیکھ کے ٹھٹکی تھی
” آپ سے کچھ باتیں کرنیں ہیں…..” ہالار بولا
” فرمائیے….مگر ذرا جلدی میری کلاس ہے….” نیہا نے گھڑی دیکھی
” اس دن آپ نے وہ شرط کیوں رکھی تھی…..” ہالار نے پوچھا
” حیرت ہے آپ جیسا ذی ہوش انسان ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا….” نیہا نے آنکھیں پھیلائیں
” نیہا میرے پاس تمہاری پہلیاں بوجھنے کا وقت نہیں ہے…اس لئے صاف بات کرو…..” ہالار بیزاری سے بولا تھا
” آپ جانتے ہیں میر ہالار میں نے ایسا کیوں کیا…..آپ کو معلوم ہے مہرماہ آپ سے محبت کرتی ہے آج سے نہیں پچھلے سترہ برس سے ….دیوانگی کی حد تک….عقیدت کی انتہا تک…” نیہا چٹخ کے بولی تھی
"تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ ہر وہ لڑکی جسے مجھ سے محبت ہے آپ اسکا نکاح مجھ سے کرادیں گی….نیہا آپ نے بہت امیچور حرکت کی ہے…”
ہالار ناگواری سے بولا
” مانا کہ یہ حرکت امیچور تھی….مگر اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا….مہر ماہ آپ سے محبت کرتی ہے ہالار صاحب میں نہیں….ایک مرد کیلئے یہ بڑے مرتبے کی بات ہوتی ہے کہ اسکی بیوی ساری زندگی اسے ایک شاہ کا درجہ دیتے ہوئے کنیز کی طرح اپنا آپ وار دے…..مہر ماہ ایسی ہی ہے میر ہالار اسکا ساتھ باعث فخر ہوگا آپ کیلئے یقین مانیں…..” نیہا اسے سوچوں میں ڈوبا چھوڑ کے جاچکی تھی
کچھ لوگوں کی اچھائیاں…..دوسروں کیلئے عذاب بن جاتیں ہیں….حالانکہ وہ دوسروں کی خوشیوں کیلئے سب کرتے ہیں
مگر جب وقت بیت جائے تو بنجر زمینوں پہ بارش برسنے کے باوجود فصلیں نہیں اگتیں…….
______________________________
” چچی….اس میں چیز کتنا ڈالوں….” مہرماہ نے عائشہ سے پوچھا تھا
” بس یہ جو اس باؤل میں ہے بس یہ ڈال دو…..ہالار کو تو چیز ذیادہ پسند نہیں ہے….” عائشہ نے وجہ بتائی
مہر سر ہلا کے اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئی تھی
کیا فرق پڑتا تھا کہ اسے کیا پسند ہے اور کیا نہیں…..!!!!!!!!
"مہر ماہ ….” عائشہ نے اسے پکارا
” جی….”
” ایک بات پوچھوں….”
” جی کہئے….”
” ہالار سے تمہارا کوئی جھگڑا ہے….”
” نہیں تو آپکو ایسا کیوں لگا….”
انکے درمیان سرد خلیج سب کو محسوس ہونے لگی تھی
” اچھا….جب بھی ہالار کا ذکر آتا ہے تم یوں ہی چپ ہوجاتی ہو….” عائشہ نے وجہ بتائی
” نہیں چچی….میں کسی کے بارے میں کیا رائے دے سکتی ہوں…” مہرماہ رخ بدلتے ہوئے بولی تھی
عائشہ نے سر ہلادیا تھا….واقعی یہ ایک اچھی عادت تھی کہ وہ دوسروں کی طرح کسی کے معاملے میں نہیں بولتی تھی
______________________________
” دادا….آپکی طبیعت کافی بہتر لگ رہی ہے اب….” ہالار انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا تھا
” ہاں اللّه کا شکر ہے….تمہیں فرصت مل گئی ….” میر برفت طنزیہ بولے
” کچھ ناراض ہیں…..خیریت…” ہالار چونکا
” کیا فرق پڑتا ہے…..تم تو اپنے فیصلے خود کرنے کے عادی ہو …”
میر برفت بولے
"اگر آپ اس وجہ سے ناراض ہیں کہ میں نے نیہا سے شادی کا فیصلہ کیا تو.ٹھیک ہے میں اسے بدل دیتا ہوں اور آپکی بات ماننے کو تیار ہوں….” گرگٹ بھی کیا رنگ بدلتا ہوگا جو میر ہالار نے بدلا تھا
جب کوئی آپ سے آپ سے ذیادہ محبت کرے تو مرد کیلئے یہ واقعی مقام فخر ہوتا ہے….
” اور وہاں کیا جواب دو گے.. ” میر برفت نے پوچھا
” دریا کے دو کنارے اب ساتھ چل بھی نہیں سکتے….ہم دونوں نے اپنے راستے الگ کرلیے ہیں…” ہالار نے سنجیدگی سے کہا تھا
” تو ٹھیک ہے ہم شام.میں تمہاری اور مہرماہ کی نسبت کا اعلان کردیتے ہیں …” میر برفت قطعیت سے بولے تھے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ دوسری طرف کیا اثر پڑے گا…..
اور لوگ اتنے سنگدل کیوں ہوتے ہیں….کہ دل بھی انہی کا توڑتے ہیں جن سے وہ محبت کرتے ہیں