صبح ساتھ بجے کے قریب علی کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے جسم میں درد کی ٹیسیں اٹھتی محسوس کی۔ وہ رات میں بارش میں بھیگا تھا اور کپڑے بدلنے کے بجاۓ انہی کپڑوں میں سوگیا تھا۔ اسکے گیلے کپڑے اب سوکھ چکے تھے اور اس لاپرواٸ کے نتیجے میں اب اسے بخار چڑھ گیا تھا۔ وہ اٹھا واش روم گیا، نہا کےباہر آیا تو بخار مزید بڑھ چکا تھا۔ وہ جانتے بوجھتے خود کو اذیت دے رہا تھا۔ موباٸل پر شیری کا میسج آیا ہوا تھا۔ اس نے شیری کو اپنے آج آفس نہ جانے کا میسج کردیا تھا۔ اور جاکے اپنے بیڈ پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا لیکن وہ دواٸ نہیں لے رہا تھا۔ اسی طرح کروٹیں بدلتے بدلتے اسکی آنکھ لگ گٸ دوبارہ وہ اٹھا تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اسے شدید بھوک محسوس ہوٸ۔ بخار شاید خود ہی کم ہوگیا تھا۔ اس نے گاڑی کی چابی، موباٸل اور اپنا والٹ اٹھایا اور کمرے سے باہر آیا۔ تب ہی ایک ملازم اسکے پیچھے آیا
”صاحب جی، آپ ناشتہ کرینگے؟“ اس نے پوچھا تو علی نے نفی میں سر ہلادیا
”صاحب وہ بڑے صاحب کا بی۔پی بہت ہاٸ ہے آپ چل کہ دیکھ لیں“
”دوا دے دو انہیں شام تک ٹھیک ہوجاۓ گے“ اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ بے تاثر لہجے میں کہا اور گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ بےمقصد سڑکوں پر گھومتا رہا پھر اسے بھوک کا احساس ہوا تو اس نے ایک ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روکی۔ سردی کا موسم تھا اور رات بارش کے باعث ٹھنڈ مزید بڑھ گٸ تھی۔ وہ نیلی جینز پر ہلکی آسمانی رنگ کی سفید دھاریوں والی ٹی شرٹ پہنے ہوۓ تھا۔ اتنی ٹھنڈ کے باوجود اس نے کوٸ سوٸیٹر نہیں پہنا ہوا تھا۔ خود اذیتی کی انتہا تھی۔۔۔!!!
وہ آنکھوں پر سے گاگلز ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ اور ایک قدرے پرسکون گوشے میں بنی ٹیبل کی جانب بڑھ گیا۔ اس نے سامنے رکھا مینیو کارڈ اٹھایا اور ڈششز دیکھنے لگا جب ہی اسے اپنے پاس کسی کی آواز سناٸ دی
”سر علی آپ یہاں؟“ علی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ تو اسے خوشگوار حیرت ہوٸ۔
”مس فاطمہ آپ، کس کے ساتھ ہیں؟“ اس نے پوچھا
”کسی کے ساتھ نہیں، اکیلی ہی ہوں“
”اوہ۔۔۔۔میں بھی اکیلے ہی آیا ہوں۔ آۓ ناں آپ مجھے جواٸن کریں“ علی نے خوشدلی سے کہا
”نہیں۔۔۔نہیں سر آپ کی پراٸیویسی ڈسٹرب ہوگی“ وہ ہچکچاٸ
”بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔انفیکٹ اگر آپ میرے ساتھ لنچ کرینگی تو مجھے خوشی ہوگی“ علی نے اصرار کیا تو وہ بیٹھ گٸ۔
”اور ہاں لنچ میری طرف سے“ اس نے پہلے ہی فاطمہ کو بتادیا کہ مبادا کہیں وہ لنچ کے بعد بل پے کرنے نہ لگ جاۓ۔
”لیکن سر۔۔۔۔۔“ وہ کچھ بولنا چاہتی تھی کہ علی نے اسکی بات کاٹ دی
”لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔۔۔ یہ لنچ میری طرف سے ہے بس“ علی نے کہا تو وہ مسکرا دی۔ علی نے ویٹر کو بلا کر آرڈر لکھوایا اور اس سے مخاطب ہوا
”آج آپ آفس نہیں گٸ؟“ علی نے پوچھا کیونکہ یہ آفس ٹاٸم تھا
”دراصل سر مجھے آج امی کو لے کر ہسپتال جانا ہے اس لۓ صبح ہی ہاف لیو(آدھی چھٹی) لے لی تھی۔ یہاں سے گزر رہی تھیں تو سوچا کہ لنچ کرتی جاٶں“ وہ سادگی سے بتارہی تھی۔ اور علی اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے ایمپلاٸز کے ساتھ اتنا بے تکلف نہیں ہوتا تھا، اگر اس وقت فاطمہ کی جگہ کوٸ اور لڑکی ہوتی تو وہ کبھی بھی اسے ساتھ لنچ کرنے کی پیشکش نہ کرتا، لیکن فاطمہ میں کچھ خاص بات تھی۔
”آپ بھی آج آفس نہیں گۓ سر، خیریت؟“ بات کرتے اس نے اچانک سے پوچھا۔ ویٹر کھانا سروو کرکے جا چکا تھا
”مس فاطمہ ہم آفس میں بے شک باس اور ایمپلاٸ ہیں لیکن اگر آفس کے باہر آپ مجھے سر علی کے بجاۓ، صرف علی کہے تو مجھے اچھا لگے گا“
”آپ بھی تو مجھے مس فاطمہ کہہ رہے ہیں“ اس نے کہا تو علی ہنس دیا۔
”ٹھیک ہے اب سے میں بھی آپ کے نام کے ساتھ مس نہیں لگاٶں گا“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا، رات والی ساری کیفیت کہیں گم ہوگٸ۔ ایک دم ہی اسکا موڈ خوشگوار ہوگیا تھا۔ اور ایسا کیوں ہوا وہ خود نہیں سمجھ پارہاتھا
”اوکے۔۔۔۔۔لیکن آپ آج آفس کیوں نہیں آۓ؟“ وہ اتنے جلدی اسکا نام نہیں لے سکی تھی۔
”بس طبیعت کچھ بہتر نہیں تھی“ اس نے کہا اور ویٹر کو بل لانے کہا۔ ویٹر بل لے آیا تو فاطمہ نے دو آٸسکریم آرڈر کردی۔ علی نے حیرت سے اسے دیکھا
”لنچ آپکی طرف سے میٹھا میری طرف سے“ اس نے مسکراتے ہوۓ علی سے پوچھا، وہ بھی ہنس دیا۔ اسے خود پر حیرت ہورہی تھی، کہ وہ کیسے فاطمہ سے اتنا بےتکلف ہورہا تھا۔
”لگتا ہے آپ میٹھے کی شوقین ہیں“ آٸسکریم آگٸ۔
”بہت زیادہ۔۔۔۔“اس نے کہا۔ آٸسکریم کھاتے کھاتے فاطمہ نے سر اٹھایا تو وہ ساکت رہ گٸ۔ وہ پھر سے ایک کال کوٹھری میں قید تھی۔ لیکن اس بار اسکے ہاتھ کھلے ہوۓ تھے۔ جبھی کال کوٹھری کا بڑا سا دروازہ کھلا اور ایک عورت اندر آٸ
”اے۔۔۔۔۔اٹھو“ اس نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کہ کھڑا کیا۔
”چلو میرے ساتھ۔۔۔۔اور خبردار، آواز مت نکالنا“ اس نے فاطمہ کو سختی سے کہا
”کک۔۔۔۔کہاں لے جارہی ہو مجھے۔۔۔پلیز میری بات سنو تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو“ فاطمہ روتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ وہ عورت اسے گھسیٹتی ہوٸ باہر لاٸ
”تم سے کہا ہے ناں خاموش رہو۔ اگر جان پیاری ہےتو اب منہ بند رکھنا“ وہ اسے ایک رہداری سے گزارنے لگی۔ وہ رہداری تنگ اور قدرے اندھیری تھی۔ وہاں ہر تھوڑے فاصلے پر ایک دروازہ تھا۔ جیسے اس رہداری میں مزید کال کوٹھریاں ہوں۔ وہ اسے تقریباً کھینچتے ہوۓ لے جارہی تھی۔ بلاخر راہداری ختم ہوٸ اور وہاں ایک بڑا سا دروازہ تھا۔ وہ اسے اس دروازے سے باہر لاٸ تو فاطمہ کو معلوم ہوا کہ وہ ایک میدان ہے۔ دن کا وقت تھا، میدان میں ایک گاڑی کھڑی تھی۔ وہ عورت فاطمہ کو اس گاڑی کے پاس لے جانے لگی تو اس نے ایک بار پھر سے مزاحمت کی
”دیکھو تمہاری اپنی بھی تو بیٹیاں ہونگی، مجھ پر رحم کھاٶ اور جانے دو مجھے“ فاطمہ نے خود کو اسکی منت کرتے ہوۓ پایا۔ لیکن اس عورت نے اسکی نہ سننی بلکہ اسے گاڑی کے اندر دھکا دے دیا
”فاطمہ۔۔۔۔۔فاطمہ“ علی نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاٸ تو وہ چونکی
”جج۔۔۔ جی سر۔۔۔۔“
”کہاں کھو گٸ آپ؟ آٸسکریم پگھل رہی ہے آپکی“
”کہیں نہیں۔۔۔۔بس ایسے ہے کچھ سوچ رہیں تھیں“ اس نے کہا اور آٸسکریم کھانے لگی۔ اب اسے وہ آٸسکریم کڑوی لگنے لگی تھی۔ علی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسے ہی اکثر بیٹھے بیٹھے کہیں کھو جاتی تھی
————*———*—————*
وہ نہا کر آیا تھا۔ صبح اسے شیری نے بتایا تھا کہ اسکے چاچو نے بشارت کہ اڈے کے قریب جو پولیس اسٹیشن ہے وہاں سے معلومات حاصل کی تو پتہ چلا کہ وہاں کچھ لڑکیاں آٸیں تھیں۔ بہت سی ابھی تک قید میں ہیں۔ آج رات اسے اسی پولیس اسٹیشن جانا تھا۔ وہ شہریار کا انتظار کررہا تھا۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہیں سے بھی مرجان کو ڈھونڈ لاۓ۔ وہ بے چینی سے شہریار کا ویٹ کررہا تھا۔ جب ہی اسکے موباٸل پر کسی کی کال آنے لگی، اس نے دیکھا تو ”ماہی کالنگ“ کے الفاظ جگمگا رہے تھے۔ وہ حیرت سے اسکرین دیکھتا رہا، اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد وہ اسے کیوں کال کر رہی تھی۔ کال کٹ گٸ، تھوڑی دیر بعد پھر سے فون بجنے لگا۔ حنان نے اب بھی فون نہیں اٹھایا۔ جب تیسری بار کال آٸ تو حنان نے یہ سوچ کر کہ شاید آفس کا کوٸ کام نہ ہو فون اٹھالیا
”حن۔۔۔۔حنان“ اس نے جھجھکتے ہوۓ حنان کا نام لیا
”بولو کیا کام ہے؟“ اس نے لۓ دیۓ سے انداز میں پوچھا
”میں وہ۔۔۔۔۔مجھے تم سے ملنا تھا“
”کیوں؟ کیا بات کرنی ہے“ حنان کا بےتاثر لہجہ اسکے حوصلے پست کررہا تھا
”حنان مجھے۔۔۔۔مجھے تم سے معافی مانگنی ہے۔ میں تم سے۔۔۔۔۔۔بہت شرمندہ ہوں۔“ اس نے ہمت مجتمع کرکے کہہ دیا
”تو؟؟؟؟ کیا کروں میں تمہاری شرمنرگی کا؟ کیا ہو جاۓ گا تمہاری معافی سے؟ کیا میری زندگی کے چودہ ماہ واپس آجاۓ گے یا مجھے میری بہن اور دادی واپس مل جاۓ گی؟“ اس نےتلخی سے پوچھا تو ماہین کو رونا آنے لگا
”حنان۔۔۔۔۔۔۔پلیز، مجھے ایک موقعہ تو دو۔۔۔ “
”کیوں؟ تم نے دیا تھا مجھے ایک موقعہ؟ کوٸ غلطی نہ ہوتے ہوۓ بھے تم نے مجھے وضاحت کا موقع دیا تھا؟“ اسکے پوچھنے پر ماہین خاموش ہوگٸ۔
”اگر تمہیں مجھ سے یہی بےکار باتیں کرنی ھیں تو مجھے آٸندہ کال نہ کرنا“ اس نے کہتے ساتھ ہی کھٹاک سے کال کاٹ دی۔ ماہین گم صم سی فون دیکھتی رہی۔ کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ حنان اس سے اسطرح کا رویہ اختیار کرلے گا۔
لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہار نہیں مانے گی۔ اگر اسے حنان کے آگے ہاتھ بھی جوڑنے پڑیں تو وہ بھی کرلے گی۔ مگر ایک کوشش تو کرے گی
——–*—————-*———–*
حنان اور شہریار گھر سے باہر نکل کر پورچ میں آۓ تو ان دونوں کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ سامنے گاڑی کی بونٹ سے ٹیک لگاۓ علی کھڑا تھا۔
”علی تم؟“ حنان نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا
”کیوں مجھے نہیں آنا چاہیے تھا کیا؟“ اس نے مسکراتے ہوۓ پوچھا
مجھے لگا کہ شاید تم نہیں آٶگے“
”تمہیں ایسا کیوں لگا؟“
”تم مجھ سے ناراض ہوگۓ تھے نہ“
”میں تم سے ناراض ہوسکتا ہوں؟“ علی نے مسکراتے ہوۓ پوچھا تو حنان نے نفی میں سر ہلا دیا۔ علی نے آگے بڑھ کر اسکو گلے لگا لیا۔
”تو کچھ بھی بولنے کا حق رکھتا ہے مجھ سے۔۔۔۔ میں تجھ سے کبھی ناراض نہیں ہونگا“ اس نے حنان کو گلے لگاۓ لگاۓ کہا۔ شہریار کی اٹکی ہوٸ سانس بحال ہوٸ تھی۔ وہ کل سے ان دونوں کے لۓ پریشان تھا۔
”چلو اب ہمیں جلدی پہچنا ہے۔ ورنہ ایس پی صاحب چلے جاۓ گے،“ شہریار نے یاد دہانی کراتے ہوۓ ان سے کہا تو وہ دونوں کار میں بیٹھ گۓ۔
———*—————*————*
وہ بیڈ پر لیٹی پرانی باتیں یاد کررہی تھی۔ آج سے تقریباً دوسال پہلے وہ اپنے آفس میں شیلف کے سامنے کھڑی کسی فاٸل کو دیکھ رہی تھی، جب علی اسکے کمرے میں آیا
”کیا ہوا ہے علی؟“ اس نے پوچھا تو علی نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ اس نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب شہریار اور حنان بھی اندر داخل ہوۓ اور علی کو دیکھ کر چونکے
”تو یہاں ہے ہم تجھے پورے آفس میں ڈھونڈ رہے ہیں“ حنان نے حیرت سے پوچھا
”مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ تو میری بہن ماہین کو پرپوز کرنے آیا ہے“
”تیری بہن؟ دیکھ حنان پارٹی بدل لی اس کمینے نے“ شہریار نے صدمے سے بولا
”پرپوز تو میں کر چکا ہوں اسے، اب تو انگوٹھی پہنانے آیاہوں“ حنان نے اپنے منہ بولے سالے کو دیکھتے ہوۓ کہا
”اچھا!!! تو برخوردار کما کتنا لیتے ہو؟ میری بہن کو دو وقت کی روٹی تو کھلا سکتے ہو نہ“ علی نے انتہاٸ سنجیدگی سے کہا
”صرف روٹی؟ میں تو پیزا، برگر اور بہت کچھ کھلا سکتا ہوں“
”ماہین، مجھے تمہاری پسند پر اعتراض ہے۔ میری طرف سے انکار سمجھو“ علی نے ماہین کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔ ماہین مسکراٸ، حنان نے آنکھوں آنکھوں میں شہریار کو اشارہ کیا تو وہ علی کی جانب بڑھا
”اوۓ۔۔۔۔تو کیوں میرے پاس آرہاہے؟“ علی نے گھبرا کر پوچھا
شہریار نے پاس رکھا ٹیپ اٹھا کر علی کے منہ پر لگایا اور اسے ہلنے کا موقع دیۓ بغیر ہی اسکے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے لے جا کر پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ ماہین کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔ حنان نےآگے بڑھ کر اسے انگوٹھی پہناٸ تو شہریار نے تالی بجانے کے لۓ علی کے ہاتھ چھوڑے، ہاتھ آذاد ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے شہریار کے سر پر ایک تھپڑ رسید کیا پھر اپنے منہ سے ٹیپ ہٹا کر وہ بھی تالی بجانے لگا۔
پرانی باتیں یاد کرکے ماہین چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی دوڑ گٸ۔ اس نے دل ہی دل میں ارادہ کیا کہ آج ہی وہ حنان کے گھر جاۓ گی، اس سے معافی مانگے گی۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وہ اسے برابھلا کہے گا، اسے ذلیل کرے گا۔ تو کیا ہوا؟ وہ اس سے زیادہ کی حقدار تھی۔ لیکن اسے یقین تھا کہ حنان اس سے آج بھی محبت کرتا ہے اور وہ زیادہ دیر اس سے ناراض نہیں رہ سکتا۔
———–*———–*————–*
وہ تینوں اس وقت پولیس اسٹیشن میں موجود تھے کیونکہ ڈی آٸ جی صاحب نے اسٹیشن میں انکے آنے کا بتا دیا تھا اس لۓ ایس پی اور تمام کانسٹیبل بہت شرافت سے انکے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے۔
”آپ بلکل صیح کہہ رہے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے بشارت کے اڈے سے کچھ لڑکیاں گرفتار ہوٸ تھیں۔ ان میں سے کچھ لڑکیاں جیل میں ہیں اور ہم نے انکے بارے میں معلومات نکلوالی ہیں، پر ان میں سے کسی کا نام مرجان نہیں ہے“ ایس پی صاحب نے تفصیل سے بتایا
”آپ نے کہا کہ کچھ لڑکیاں جیل میں ہیں تو باقی کہاں گٸ؟“ شہریار نے پوچھا
”زیادہ تر لڑکیاں اغوا ہوکے آٸ تھیں اس لۓ انہیں انکے گھر والے لے گۓ“
”لیکن میری بہن کا اس شہر میں کوٸ نہیں ہے پھر وہ کہاں جاسکتی ہے؟“ حنان نے پریشانی سے توچھا
”ایک منٹ سر۔۔۔۔۔“ ایس پی صاحب نے کہا اور ایک فاٸل نکالی” یہ دیکھے۔۔۔۔جو لڑکیاں یہاں سے جا چکی ہیں یہ انکی معلومات ہیں آپ دیکھ لے ان میں سے کوٸ آپ کی بہن تو نہیں“ اس نے فاٸل حنان کی جانب کھسکاٸ۔ حنان فاٸل کے صفحے الٹنے لگا بمشکل پندرہ سولہ لڑکیوں کی تصاویر تھیں مگر ان میں ایک بھی تصویر مرجان کی نہیں تھی، اسکی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔
”پر ان میں سے کوٸ بھی میری بہن نہیں ہے“
”اوہ۔۔۔۔۔۔سوری سر اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے“
”کوٸ بھی اور معلومات نہیں ہے آپ کے پاس؟“ شہریار نے امید سے پوچھا
”نہیں سر۔۔۔۔۔۔ آٸ ایم رٸیلی سوری“ حنان مرے مرے قدموں سے اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ واپس آگیا۔ وہ لوگ گاڑی میں بیٹھنے ہی والے تھے جب ایک کانسٹیبل اسکے پیچھے بھاگتےہوۓ آیا
”صاحب۔۔۔۔۔صاحب روکیں۔۔۔۔صاحب“ وہ بھاگتے بھاگتے ان تک آیا
”ہاں بولے کیا ہوا ہے؟“ علی نے پوچھا
”میں شاید آپ کو کچھ بتاسکوں“ اس آہستگی سے کہا
”کیا؟ کیا جانتے ہو تم؟“ حنان نے جلدی سے پوچھا
”صاحب بشارت تو اپنے تعلقات لگا کر یہاں سے فرارہوگیا تھا۔ جو لڑکیاں گرفتار ہوکر یہاں آٸیں تھیں ان میں سے زیادہ تر کو انکے گھر والے لے گۓ۔“ وہ رکا
”یہ سب تو میں بھی جانتا ہوں“ حنان نے بےچینی سے کہا
”صاحب جی۔۔۔۔ یہاں پر جن لڑکیوں کے آگے پیچھے کوٸ نہیں ہوتا انہیں آگے پار کردیا جاتا ہے“
”کیا مطلب تمہارا؟“ شہریار نے ناسمجھی سے پوچھا
”مطلب جن لڑکیوں کے بارے میں کوٸ معلومات نہیں ملتیں، یا جن کا آگے پیچھے کوٸ نہیں ہوتا انہیں یہاں کے ایس پی وغیرہ اپنے جاننے والے ایم این اے یا یم پی اے یا پھر جاگیرداروں وغیرہ کو کثیر رقم کے عوض فروخت کردیتے ہیں۔ اگر آپکی بہن کے آگے پچھے کوٸ نہیں تھا تو اسکا صاف مطلب یہی ہوا کہ وہ یہاں سے پار ہوچکی ہیں“ الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ، حنان کا دل کیا زمین پھٹ جاۓ اور وہ اس میں سما جاۓ۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اس کانسٹیبل کو دیکھ رہا تھا۔ علی نے غصے سے اس کا گریبان پکڑ لیا۔
”کہاں اور کس کو بیچا ہے تم لوگوں نے اسے؟“
”یہ جاننے کا اب کوٸ فاٸدہ نہیں صاحب۔۔جس لڑکی کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو کب کی مر چکی ہوگی“
”کیا مطلب تمہارا“ علی نے اسکا گریبان چھوڑا
”صاحب۔۔۔۔۔ایسے لوگ ان لڑکیوں کو زندہ کہاں چھوڑتےہیں۔ بس ایک یا دو دن اپنے ڈیرے پر رکھتے ہیں پھر انکو مار کر انکی لاش کو پھینک دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے زندہ رہنے کی صورت میں انکی پول کھولنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ میں نے آپ کو یہ سب اس لۓ بتا دیا کہ یہ لوگ تو آپ کو اصل بات بتاۓ گے نہیں اور آپ پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے رہیں گے لیکن کوٸ فاٸدہ نہیں ہوگا۔ سچ تو یہی ہے صاحب کہ۔۔۔۔۔آپ کی بہن مر چکی ہے“ وہ کہہ کر چلا گیا۔ حنان کو لگا کہ اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگٸ ہو۔ تمام حسیات جیسے مرگٸ تھی۔ وہ لڑکھڑا کر گرجاتا اگر شہریار اسے سہارا نہ دیتا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا گاڑی میں جاکہ بیٹھ گیا۔
شہریار ڈراٸیو کر رہا علی اسکے برابر میں تھا، جبکہ حنان پیچھے اکیلے بیٹھا تھا۔ وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ بات کرنے کے قابل ہی کہاں رہا تھا۔ گاڑی میں ایک نامعلوم سے خاموشی چھاٸ ہوٸ تھی۔
”جن لڑکیوں کے آگے پیچھے کوٸ نہیں ہوتا وہ یہاں سے پار ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔سچ تو یہی ہے کہ آپ کی بہن بھی مر چکی ہے“ کانسٹیبل کے الفاظ اسکے کانوں میں ابھی تک گونج تھے۔ ایک ایک لفظ خنجر کی طرح اسکے سینے میں پیوست ہورہا تھا۔ ضبط سے اسکی آنکھیں سرخ ہورہیں تھی۔ دل ہی دل میں وہ مرجان سے مخاطب تھا
”کہاں چلی گٸ ہو میری گڑیا؟ کیوں سزا دے رہی ہو اپنے بھاٸ کو؟ پلیز۔۔۔۔۔لوٹ آٶ، لوٹ آٶ واپس ورنہ میں مر جاٶنگا۔“ گاڑی حنان کے گھر کے سامنے رکی تو وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ علی اور شہریار گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔
حنان اپنے کمرے میں آگیا۔ دماغ ماٶف ہورہا تھا۔ کیوں اسکے ساتھ ہی ایسا ہوا؟ کیا گناہ کیا تھا اس نے؟ کس بات کی سزا مل رہی تھی اسے جو ایک ایک کرکے سارے رشتے اس سے چھین رہے تھے؟ پہلے ماں، پھر باپ پھر دادی اور اب مرجان بھی۔ کیوں آخر کیوں؟ اس نے غصے سے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا سامان اٹھاکر زمین پر پھینک دیا۔
دوسری طرف شہریار نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی چاچو کو کال کی اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ چند لمحوں کے لۓ خاموش ہوگۓ۔
”وہ صیح کہہ رہا ہے یہ ہمارے اداروں کی حقیقت ہے۔“
”تو چاچو کیا ہم معلوم نہیں کرواسکتے کہ وہ کون لوگ تھے؟“ شہریار نے امید سے پوچھا
”نہیں بیٹا!!! یہ ایس پی اور کانسٹیبل سب انہی کے پیسوں پر پلتے ہیں کوٸ بھی منہ نہیں کھولے گا“
”تو اب ہم کیا کریں؟“
”بیٹا آپ اپنے دوست کو سمجھاۓ کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ انکی بہن مرچکی ہیں“
”اوکے چاچو خداحافظ“ اس نے فون کاٹ دیا
”جن لوگوں کو عوام کا محافظ بنایا جاتا ہے وہی ہمارے سب سے بڑے مجرم بن چکے ہیں“ شہریار نے افسوس سے کہا، اس سے پہلے کہ علی کوٸ جواب دیتا اند ونوں کو کچھ ٹوٹنے کی آواز آٸ۔ دونوں لمحے کی بھی تاخیر کۓ بغیر اندر بھاگے، اندر تو قیامت برپا تھی۔ حنان ایک ایک چیز تہس نہس کرچکا تھا۔ اسکا اپنا ہاتھ بھی زخمی ہوگیا تھا پر اسے پرواہ نہ تھی۔ اسکے زبان پر ایک ہی سوال تھا کیوں ؟ آخر کیوں؟
”حنان۔۔۔۔کیا کر رہے ہو یہ؟ پاگل ہوگۓ کیا؟“ علی نے اسے روکنے کی کوشش کی پر وہ نہیں رکا۔ ان دونوں کے لۓ حنان کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔ بڑی مشکلوں سے شہریار نے اسے قابو کیا اور دونوں کندھوں سے تھام کر اسے صوفے پر بیٹھایا
”حنان پلیز یار۔۔۔۔مت کرو ایسے، سنبھالو خود کو“ شہریار نے اس سے کہا
”کیسے سنبھالوں؟ میری بہن ان درندوں کے ہاتھوں ُرُلتی رہی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔ کتنا برا بھاٸ ہوں میں، اپنی بہن کا خیال بھی نہ رکھ سکا۔ کیا منہ دکھاٶ گا میں بابا کو؟“ وہ رودیا تھا، اسے روتا دیکھ کر شہریار کی آنکھوں میں بھی آنسو آگۓ تھے۔
علی چلتے چلتے اس تک آیا اور گھٹنوں کے بل حنان کے سامنے بیٹھ کر اسکے دونوں ہاتھ تھام
لۓ،
”ایسے تو مت رو یار۔۔۔۔ اس میں تمہارا کوٸ قصور نہیں ہے، پلیز حوصلہ کرو“
”کیوں نہ رووں میں؟ میری بہن مر گٸ ہے۔ ان
ظالموں نے۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیا کیا ہوگا اسکے ساتھ؟“ آخر میں اسکی آواز لرز گٸ۔ علی نے کچھ کہنا چاہا پر حلق میں آنسوں کا گولہ اٹک گیا وہ کچھ بول نہ پایا، شہریار نے اسے گلے لگالیا
”صبر کرو یار“ شہریار نے کہا
”مجھے میری مرجان واپس لادو۔۔۔۔۔۔میں مرجاٶنگا“ وہ بچوں کی طرح بلک بلک کہ رورہا تھا۔ علی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ جس کی بہن اتنی بے رحم موت مر گٸ ہو وہ اس بھاٸ کو کن الفاظ میں تسلی دے؟ حنان اپنے حواس کھو رہا تھا
وہ روۓ جارہا تھا اور اسکے ساتھ وہ دونوں بھی رو رہے تھے۔ لیکن وہ دونوں اکیلے نہیں تھے جو اسکی اس حالت پر رو رہے تھے بلکہ ایک تیسرا انسان بھی وہاں پر تھا جو اسکی اس حالت پر رو رہا تھا
———–*————-*————*
وہ مرے مرے قدموں سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وہ وہاں حنان سے معافی مانگنے کے ارادے سے آٸ تھی۔ لیکن اندر حنان کو روتا دھوتا اور چیختا چلاتا دیکھ کر اسکی ساری ہمت ہوا ہوگٸ۔ مرجان کے ساتھ کیا ہوا تھا وہ پوری طرح نہ جان پاٸ مگر اتنا ضرور سمجھ گٸ کہ کچھ بہت برا ہوا تھا جبھی وہ اسطرح رویا تھا۔ ورنہ حنان رونے والوں میں سے نہ تھا۔ وہ الٹے قدموں واپس آٸ اور گاڑی میں بیٹھ گٸ
ان چند ماہ میں حنان بلکل بدل گیا تھا، اسکی زندہ دلی، شوخی اور ہنسی کہیں کھو گٸ تھی۔ اسکی جگہ غصہ سرد مہری اور آنسوں نے لے لی تھی۔ اور ان سب کی ذمہ دار کون تھی؟ ماہین۔ اس نے اسٹٸرنگ پر سر ٹکادیا۔ قصوار نہ ہوتے ہوۓ بھی وہ ہر چیز کا ذمہ دار خود کو ٹھرا رہی تھی
کیوں کیا میں نے ایسا؟ کیوں؟
————*————*————*
”علی۔۔۔۔۔۔۔علی۔۔۔۔۔۔“عابد صاحب نقاہت زدہ آواز میں اسے پکار رہے تھے۔ پر وہ ہوتا تو سنتا ناں
انکی طبیعت بگڑ رہی تھی۔ سر کا درد بڑھتا جارہا تھا، وہ علی کو پکارنا چاہتے تھی پر آواز نہیں نکل رہی تھی۔
”بابا!!! مجھے بھوک لگی ہے“
”بابا!! میرا ہوم ورک کرادیں“
”بابا! جلدی گھر آجاۓ مجھے ڈر لگ رہا ہے“
”یہ محبت کا ڈھونک میرے سامنے نہ رچایا کریں مسٹر عابد“
مختلف اوقات میں کہے گۓ علی کے جملے انکی سماعتوں سے ٹکرارہے تھے۔ وہ اپنی دواٸ ڈھونڈنے کے لۓ آگے بڑھے مگر آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا، وہ لڑکھڑا کہ وہیں گر گۓ۔
”علی۔۔۔۔“انکے دل نے شدت سے بیٹے کو پکارا مگر افسوس بیٹا دور جاچکا تھا۔ کتنا اچھا ہوتا نہ اگر وہ شاہینہ کے جانے کی سزا علی کو نہ دیتے۔ دونوں باپ بیٹا مل کر ایک دوسرے کا غم بانٹتے، ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے بولتے، دوستوں کی طرح رہتے۔ کتنا اچھا ہوتا ناں!
انہوں نے ایک آخری بار علی کو پکارنے کی کوشش کی مگر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگۓ
———–*————*————-*
”سوگیا یہ؟“ علی نے حنان کو دیکھتے ہوۓ آہستگی سے شہریار سے پوچھا
”ہاں۔۔۔۔۔علی تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تمہیں گھر جاکے آرام کرنا چاہیے“ شہریار نے کہا
”مگر حنان۔۔۔۔۔“
”حنان کی فکر مت کرو اسکے پاس میں ہوں“ شہریار نے زبردستی اسکو بھیجا تو اسے جانا ہی پڑا۔ اسکے جانے کے بعد شہریار نے فرسٹ ایڈ باکس اٹھایا اور آہستگی سے حنان کا زخمی ہاتھ اٹھا کر پٹی کرنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اب وہ صبح ہی اٹھے گا کیونکہ علی نے اسکی حالت کے پیش نظر اسے خواب آور دواٸ کھلا دی تھی۔ تاکہ وہ رات تو سکون سے گزار سکے۔
شہریار نے اسکی پٹے کردی اور خاموشی سے اسکے سامنے والے صوفے پر لیٹ گیا۔
———-*————*————–*
علی گھر میں داخل ہوا تو خلاف توقع عابد صاحب اس کے انتظار میں وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ جب بھی دیر سے گھر آتا تو وہ ساری رات اسکے انتظار میں لاٶنج میں پھرتے رہتے تھے اور باربار دروازے کی جانب دیکھتے رہتے تھے۔ آج وہ وہاں موجود نہیں تھے تو علی کو کچھ عجیب سا لگا۔ لیکن وہ سر جھٹک کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ فریش ہونے کے بعد وہ دوبارہ لاٶنج میں آیا تو اسکی نظر عابد صاحب کے کمرے کی طرف گٸ، کمرے کا دروزہ کھلا تھا اور لاٸٹیں بھی آن تھیں۔ ایک نامعلوم سے کشش علی کو انکے کمرے کی جانب کھینچ کر لے گٸ۔ اس نے دروازے سے اندر جھانکا تو وہ بیڈ پر موجود نہ تھے
”لگتا ہے گھر پر نہیں ہیں۔ خیر! مجھے کیا؟ فضول میں یہاں آگیا“ اس نے سوچا اور واپس جانے کے لۓ پلٹا۔ لیکن اسی وقت اسکی نظریں زمین پر اوندھے پڑے عابد صاحب پر پڑی۔ وہ تیزی سے ان تک آیا اور زمین پر بیٹھ کر ان کا کندھا ہلایا
”آپ ٹھیک تو ہیں؟ کیا ہوا ہے؟“ اس نے پوچھا پر کوٸ جواب نہ آیا۔ علی نے انکو پکڑ کر سیدھا کیا۔ اور انکا چہرہ دیکھ کر علی کا دل لرز گیا۔ انکی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور چہرہ نیلا ہورہا تھا، سانسیں بھی رک رک کر چل رہیں تھی۔
”بابا۔۔۔۔۔۔بابا! اٹھیں۔۔۔۔۔کیا ہوگیا ہے آپکو؟“ اسکےہاتھ پاٶں پھول گۓ تھے اپنے باپ کو اس حال میں دیکھ کر۔
”ارے کوٸ ہے۔۔۔۔کہاں مر گۓ ہیں سب؟“ وہ چیخا ”بابا ہوش کریں۔ کچھ نہیں ہوگا آپکو“ وہ انکا چہرہ تھپتھپا کہ انہیں جگانے کی کوشش کررہا تھا۔ ملازم اسکی آواز سن کر دوڑے چلے آۓ۔
”گاڑی نکالو جلدی“ اس نے ایک ملازم کو تقریباً چیختے ہوۓ کہا تو وہ باہر بھاگا۔ علی نے انہیں کسی بچے کی طرح دونوں بازوں پر اٹھایا اور باہر کی جانب دوڑ پڑا۔
”بابا کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔۔۔۔میں آپ کو کچھ بھی نہیں ہونے دونگا۔ پلیز۔۔۔۔۔پلیز، ایک بار آنکھیں کھولیں۔۔۔۔مجھ سے بات کریں بابا“ گاڑی تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک ہزار مرتبہ یہ جملہ دہرا چکا تھا۔ اس نے انہیں گاڑی میں بیٹھایا اور اسپتال کی جانب گاڑی دوڑا دی۔ پیچھے گھر کے تمام ملازم حیران کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آج تک جس بیٹے کو وہ اپنے باپ سے نفرت کرتے دیکھتے آۓ تھے، آج اسی باپ کی تکلیف پر اسے پاگل ہوتے دیکھ رہے تھے۔
تو ثابت ہوگیا کہ۔۔۔۔۔۔۔خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے۔۔!
————-*————*———–*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...