نصرت ظہیر
یہ مجھ میں کون رہتا ہے
جو مجھ سے روز کہتا ہے
کہ تم کو یہ نہیں کرنا
کہ تم کو وہ نہیں کرنا
تمہیں اِس سمت جانا ہے
تمہیں اُس سمت آنا ہے
تمہاری منزلیں یہ ہیں
تمہارے راستے یہ ہیں
یہ مجھ میں کون ہے
جو میری آنکھوں سے مجھے ہی دیکھتا ہے
میرے کانوں سے مجھے سنتا ہے
میرے نطق سے
ہر دم مجھے آواز دیتا ہے
جو میری سوچ بن کر
میرے بارے میں
مرے سب فیصلے کرتا ہے
اور ہر فیصلے کومجھ سے ہی نافذ کراتا ہے
یہ مجھ میں کون آبیٹھا ہے
جو مجھ کو دکھائی تک نہیں دیتا
جسے چھوبھی نہیں سکتا
مگر میں اُس کے آگے
عہدِ رفتہ کے غلاموں کی طرح
سر کو جھکائے بیٹھا رہتا ہوں
جو وہ کہتا ہے کہتا ہوں
جو وہ کہتا ہے سنتا ہوں
جو وہ کہتا ہے بس وہ دیکھتا ہوں
ورنہ آنکھیں بند رکھتا ہوں
یہ مجھ میں کون ہے
جو مجھ پہ قابض ہے
جو مجھ کومجھ سے ہی بے دخل رکھتا ہے
مجھے کچھ بھی مری مرضی سے اب کرنے نہیں دیتا
مجھے جینے نہیں دیتامجھے مرنے نہیں دیتا
یہ مجھ میں کون رہتاہے
جسے میں پا نہیں سکتا
کبھی اپنا نہیں سکتا
جسے میں چھوڑ کر بھی جا نہیں سکتا
یہ مجھ میں کون رہتا ہے؟