بوس ایک بری خبر ہے آزان نے کہا
بوس جو کسی گہرائی سوچ میں تھا آزان کی آواز پر ہوش میں ایا کیا ہو بوس نے پوچھا
بوس ہمارے مال پکڑا گیا ہے آزان نے پریشانی سے کہا
اس کی بات پر بوس کو غصہ ایا
کس (گالی) کی انتی ہمت ہوئی ہے بوس نے پوچھا
بوس یہ کام کسی پولیس والا کا نہیں ہے یہ کام آرمی والوں کا ہے آزان نے۔ بتایا
اووو تو R D کا مقابلہ اب آرمی والوں سے ہے مزہ ائے گا بوس نے مسکراتے ہوے کہا
اب کیا کرنا ہے بوس آزان نے پوچھا
جو کرنا ہے اب میں کرو گا تم بس اب لڑکیوں کو دبئی میں بیجنے کی تیاری کرو بوس نے کہا
اوکے بوس آزان نے کہا اور چلا گیا
آزان کے جانے کے بعد بوس نے فون کیا
ھلیو ہاں کراچی میں بلاسٹ کرو دو ہاں ٹھیک ھے بائے بوس نے کہا اور فون بند کیا
اہم ہم اب R,D کا نقصان ہوا ہے تو کچھ نقصان اس ملک کا بھی بناتا ہے R,D نے مسکراتے ہوے کہا
_____________________
نور کلاس لیے کر باہر آئ تو اچانک آنکھیں کے اگے اندھیر ایا
اللہ لگتا ہے طعبیت زیادہ خراب ہو گئی ہے نور نے کہا اور بیج پر بیٹھ گئی مجھے سے تو اٹھا بھی نہیں جارہا ہے چکرا ارہے ہے اب کیا کرو
اس ہی وقت شاہ نور کے پاس ایا
شاہ آج بلال کو نور سے ملونے لایا تھا کیونکہ۔ آج سر توحید چھٹی پر تھے
نور نے سر اٹھا کر شاہ کو دیکھا وہ اس وقت نور کو فرشتہ ہی لگا اس سے پہلے شاہ کچھ کہتا نور بولی
مسٹر سنئیر پانی پلیز
شاہ اس کی بات پر پریشان ہوا نور تم ٹھیک ہو
جی میں۔ ٹھیک ہوں پانی پلیز نور نے اٹک اٹک کے کہا
ھاں بلال پانی لینے چلا گیا اور
شاہ نے پانی کی بوتل نور کو دی نور اس سے پہلے پانی پیتی آنکھیں کے سامنے اندھیر ایا اور وہ بے ہوش ہو گئی
شاہ اور بلال دونوں پریشان ہوگئے نور شاہ نے اگر ہو کر نور کے چہرہ پر ھاتھ رکھا اوشٹ اس کو بہت بخار ہے شاہ نے کہا اور نور کو اٹھا کر ہپستال لے ایا
______________________
دونوں پریشان سے باہر بیٹھے تھے جب ڈاکٹر باہر آیا
پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے پی بی لو کی وجہ سے یہ بے ہوش ہوئی ہے کچھ وقت بعد ہوش اجاگا ڈاکٹر نے کہا اور چلے گیا
کچھ وقت بعد نور کو ہوش ایا تو خود کو ہپستال کے روم میں پایا
اس ہی وقت شاہ روم میں ایا
اووو شکر ہے تم ٹھیک ہو نور شاہ نے کہا جی ٹھیک ہو اب نور نے سنجیدر لہجہ میں کہا
تمہیں بخار تھا تو یونی ائی کیوں شاہ نے پوچھا
نور اس کے جواب میں چپ رہی
اس ہی وقت بلال اندر ایا نور بلال کو دیکھا کر پریشان ہوئی اور شاہ کی طرف دیکھا جیس پوچھ رہی ہو یہ کون ہے
شاہ اس کی نظروں کا مطلب سمجھ کر بولا
یہ بلال ہے میرا دوست اور بھائ شاہ نے کہا
اور بلال یہ نور ہے تمہاری بھابھی شاہ نے شرارت سے کہا
اسلام و علیکم بھابھی بلال نے کہا
نور نے پہلے شاہ کو گھورا پھر بلال کو
و علیکم اسلام بلال بھائ میں آپ کی بھابھی نہیں ہو نور نے منہ بنتے ھوے کہا
بلال کو وہ بہت کیوٹ لگئی اوکے بہنا طعبیت ٹھیک ہے اب آپ کی بلال نے پوچھا
جی الحمداللہ ٹھیک ھے نور نے کہا
میرا پرس کہاں ہے نور نے شاہ سے پوچھا تو شاہ نے اس کو پرس دی یا نور نے اپنے بابا کو فون کیا
اچھا بہنا میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھنا بلال نے کہا اور نور کے سر پر ھاتھ رکھا
یہ لمس نور کو اتنا اپنا لگا تھا بلال بھائ نور کے منہ سے بے ساختہ نکالا
بلال جو جانے کے لیے مڑا تھا نور کو دیکھا
کچھ وقت نور بلال کو کنفثور نظروں سے دیکھتی رہی اللہ حافظ نور سے جلدی سے کہا
بلال اس کی بات پر مسکرایا اور چلا گیا اس کے جانے کے بعد نور پریشان سی بلال کے بارے میں سوچتی رہی
شاہ نور کو پریشان دیکھ کر مسکراتا ہوا باہر چلا گیا
بلال جو ضبظ کر رہا تھا جب نور نے کہا بلال بھائ بلال کا دل کیا کہ نور کو اپنی ڈول کو گلے سے لگ لے
بلال تو ٹھیک ہے شاہ نے پوچھا
شاہ میں بہت خوش ہو تم نے دیکھا اس نے مجھے رکا اس کی نظروں میں دیکھ تم نے بلال نے خوشی سے کہا
ھاں یار ایک بات ہے اس کی چٹھی حسس تیز ہے شاہ نے سوچتا ہوے کہا
عبداللہ صاحب ہپستال ائے نور کے پاس ائے نور میں بچا کہا بھی تھی نہیں جاو یونی عبداللہ صاحب پریشان ہوتے کہا
بابا میں ٹھیک ہو بس اب تو ڈاکٹر نے بھی چھٹی دے دی ہے نور نے اپنے بابا کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھ کر پیار سے کہا
میری بچا عبداللہ صاحب نے اس کی بات پر نور کو خود سے لگیا اور نور مسکرا دی
جبکہ روم سے باہر شاہ اور بلال دونوں یہ سب دیکھا کر گہرائی سوچ میں چلے گئے
_________________
بلال گھر آیا تو حریم اس کا انتظارا کر رہی تھی بلال حریم کو دیکھا کر مسکرایا ماما آپ سوئی نہیں بلال نے پوچھا
نہیں میں کھانا لاو آپ کے لیے حریم نے کہا
جی آپ گرم کرے میں فریش ہو کر آتا ہو بلال نے کہا
کچھ وقت بعد بلال کھانا کھا رہا تھا اور حریم اس کو دیکھا رہی تھی
کیا ہوا ماما ایسے کیا دیکھ رہی ہے بلال نے پوچھا
دیکھ رہی ہوں ابھی کل کی بات تھی جب تم ضد کرتے تھے کہ میں نے بابا کے ھاتھ سے کھانا کھانا ہے
اور آج بلال میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے وقت کا پتا نہیں چلا
ان کی بات پر بلال مسکرایا جی ماما یاد ہے مجھے
بلال میری جان اب شادی کر لو حریم نے کہا
اس کی بات پر بلال خاموش ہو گیا اور گہرا سانس لیا
ماما مجھے نہیں کرنی شادی ابھی بلال نے کہا
کیوں ابھی تو شاہ نے بھی کر لی ہے وہ افسوس سے بولی
ماما آپ کو پتا ہے میں آج نور سے ملا ہوں بلال نے خوشی سے کہا
کیا کیسی ہے میری ڈول حریم نے بیھگی لہجہ میں پوچھا
ماما بہت اچھی ہے اور اتنی پیاری ہے بلال نے کہا
بلال ڈول کب ائے گئی گھر حریم نے پوچھا ماما بہت جلد ہماری فمیلی مکمل ہو جائے گئی انشاءاللہ
انشاءاللہ حریم نے کہا
_____________
نور میرا بچا میں نے ہمیشہ سے تمہیں ماں باپ کا انتظارا کیا ہے اور اس بات کا میرا خدا گوہ ہے لیکن تمہاری ماں اس دنیا میں نہیں رہی اب مجھے میں ہمت نہیں ہے کہ میں تمہیں بینا رھ لو آج تمہیں فون ایا میرے دل میں کچھ ہوا میں بہت ڈدر گیا تھا میری گڑیا
عبداللہ صاحب نے نور کے سر پر ھاتھ رکھا کر کہا
بابا ایسی باتے نہیں کرے سوری مجھے پتا نہیں تھا کہ طعبیت انتی خراب ہو جاے گئی ورنہ میں یونی نہیں جاتی اور نہ مسڑ سیئنر کی مدر لینی پڑتی
نور نے عبداللہ صاحب کے سینے پر سر رکھا کر کہا
نور ایسے نہیں کہتے اس بچے نے تمہاری مدر کی ہے تم اس کا شکریہ کرو گئی عبداللہ صاحب نے کہا
ان کی بات پر نور نے منہ بنایا
بابا میں نہیں کرو کی کوئی شکریہ وکریہ ان کا نور نے کہا
اچھا ٹھیک ہے نہ کرنا میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتا ہوں عبداللہ صاحب نے کہا اور چکن میں چلے گئے
ایک بات وہ جانتے تھا کہ نور نے کیسی بات پر نہ کر دی تو کوئی ھاں نہیں کرو سکتا اس سے
_____________________
آج نور یونی ائی تھی دو دن بعد اس نے کلاس لی
اور اب وہ گھاس پر بیٹھ کر کاپی پر کچھ نوٹ کر رہی تھی اس کو اپنے اوپر کیسی کی نظروں کی تپسش محصوص ہوئی
ایسا پہلی بارا نہیں ہو تھا اکثر ایسا ہی ہوتا تھا اس کی وجہ اس کا خوبصوت چہرہ تھا اس لیے اس کو اپنی خوبصوتی سے نفرت تھی ایک دو بارا اس نے نقاب کرنے کا سوچ اور کیا بھی لیکن اس کو سانس لینے میں مسلہ ہوا اور ہپستال جانے پڑا تو عبداللہ نے اس کو منع کر دیا نقاب کرنے سے بچپن سے ہی نور کو سانس کا مسلہ تھا
نور اپنے کام میں مصروف رہی لیکن کوئی مسلسلہ اس کو دیکھا رہا تھا غصہ میں نور نے دیکھا تو سر توحید تھے نور نے گہرا سانس لیا اور سر کے پاس آئ
اسلام و علیکم سر نور نے کہا
سر کے سر ہلا کر جواب دیا سر کوئی مسلسلہ ہے آپ کو کچھ کہنا ہے نور نے پوچھا
اس کی بات پر سر مسکرائے نہیں کوئی مسلسلہ نہیں ہے
ٹھیک ھے سر نور نے ضبط کرتے ہوے کہا اور وہاں سے جانے لگئی تھی توحید بولا مس نور طبعیت کیسی ہے اب آپ کی میں نے سن تھا کہ آپ یونی میں بے ہوش ہو گئی تھی
جی ٹھیک سن ہے آپ نے اب میں ٹھیک ہو اور آنئدہ اگر آپ نے مجھے اس طرح دیکھا تو میں یہ بھول جاو گئی کہ آپ میرے ٹیچر ہے نور نے غصہ سے کہا اور چلی گئی
آہ نور تمہاری یہ ہی ادا پر ہی میں مر گیا ہو توحید نے ایک گہری نظر نور پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا
______________________
ھلیو ہاں میں نے تم سے کچھ کہا تھا اس دن RD نے کیسی کو فون پر کہا اگے سے جو خبر ملی وہ سن کر R,D نے غصہ سے فون زمیں پر دے مارا
کچھ دیر بعد خود پر قابو پایا آزان R,D نے آزان کو آواز دی آزان کچھ ہی وقت میں R,D کے سامنے تھا
جی باس آزان نے کہا
آزان کام ہو گیا باس نے پوچھا جی باس گاڈھی تیار ہے آج رات۔ لڑکیوں دبئی پہیچ جائے گئی
گڈ باس نے کہا باس ایک بات پوچھوں آپ سے آزان نے کہا
ھاں بولو بوس آپ نے ایک لڑکی کا کہا تھا وہ نہیں جائے گئی کیا آزان نے پوچھا
اس کی بات پر بوس مسکرایا اس کو نور یاد ائی۔
نہیں وہ چڑیل مجھے بہت پسند آئ ہے وہ میری منظور نظر ہو گئی
اس کی بات پر آزان ضبظ کر گیا جی بوس میں جاو
ٹھیک ھے باس نے کہا اور خود نور کے بارے میں سوچنے لگا
باہر اکر( آزان یعنی بلال ) نے شاہ کو فون کیا
_____________________
نور یونی سے واپس آرہی تھی کہ اچانک وین رکی
کیا ہوا چچا نور نے وین والے سے پوچھا
بیٹا لگتا ہے وین خراب ہو گئی ہے وین والے نے پریشان ہو کر کہا
اب کیا ہو گا نور بھی پریشان ہو گئی میں کوئی راکشہ دیکھتا ہو تم اس میں بستی چلی جانا وین والے نے کہا ٹھیک ہے نور نے کہا
اچانک ایک کار اکر رکی اور بلال باہر آیا نور کو وہ دیکھا چوکا تھا
کیا ہوا کوئی مسلہ ہے بلال نے پوچھا نور بلال کو دیکھا کر خوش ہوئی
اووو بلال بھائ آپ نور نے کہا
جی میں کیا ہوا بلال اس کو خوش دیکھا کر مسکرایا
نور نے ساری بات بتائی اوو چلے میں آپ کو گھر ڈاپ کر دیتا ہو بلال نے کہا
بلال کی بات پر نور کنفثور ہو گئی پھر بولی نہیں بھائ میں خود چلی جاو گئی
اس کو کنفثور دیکھ کر بلال بولا نور بہنا پلیز ائے میں چھوڑ دیتا ہوں
کیا کچھ تھا بلال کے لہجہ میں مان عزت جو نور نے محصوص کیا اور وہ چاہ کر بھی منع۔ نہیں کر سکی
بلال نے نور کے گھر کی گلی کے پاس گاڑھی رکی
بھائ ائے نا گھر میں بابا سے آپ کو ملوتی ہو نور نے گاڑھی سے اترتے ہوے کہا
نہیں مجھے کچھ کام ہے پھر کبھی بلال نے منع کیا
بھائ میں کوئی نہیں نہیں سن رہی ابھی اندر چلے نور نے حکم دیتا ہوے کہا
اس کے حکم دینی پر بلال مسکرایا ٹھیک ہے چلے
اسلام و علیکم بابا نور نے گھر اکر عبداللہ صاحب سے کہا
بچا آج انتی لیٹ میں ارشد (وین والے) کو فون کر رہا تھا اس نے نہیں اٹھا عبداللہ صاحب نے کہا
جی بابا یہ بلال بھائ ہے اور پھر نور نے ساری بات بتائی اسلام و علیکم انکل بلال جو چپ اپنی ڈول کو سن رہا تھا بولا
بھائ پلیز بیٹھ میں چائے لے کر اتی ہوں نور نے کہا
نور چائے بننا چلی گئی اور عبداللہ صاحب اور بلال باتے کرنے لگ
انکل نور کیسی پر گئی ہے میرا مطلب آپ پر یا آنٹی پر نہیں گئی بلال نے عبداللہ صاحب کی بیوی کی تصیور دیکھ کر کہا
نہیں بیٹا ہم پر ابھی عبداللہ صاحب بات پوری ہی کرتے نور چائے لے کر اندر ائی
نہیں بھائ میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو نور نے مزہ سے کہا
اور بلال اس کو کرنٹ لگ نور کے الفاظ تھا کہ کوئی بم بلال کو لگ اب سانس نہیں آے گا
نور عبداللہ صاحب نے نور کو آنکھیں دیکھائی
ایسے نہیں کہتے بچے عبداللہ صاحب نے کہا
اوکے بابا ہمیشہ کی طرح نور نے جواب دیا
اور بلال وہ اکھڑ ہوگیا انکل مجھے کچھ کام ہے میں چلتا ہو بلال نے کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے نور آواز دیتی رہ گئی
گاڑھی میں بیٹھ کر بلال نے گاڑھی چلانی شروع کر دی بلال کو کچھ بھی سنئنی نہیں دے رہا تھا بس نور کے الفاظ
“میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو ”
“میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...