گرمیوں کے دن تھے دوپہر کے دو بج رہے تھے ماں جی سلائی مشین کو ایک طرف رکھ کر آرام کرنے کے لیے چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں ۔ کمرے میں دیواروں پر موجود ہکا چونا اس بات کا ثبوت دے رہا تھا کہ کئی سالوں سے دوبارہ دیواروں پر چونا یا کوئی رنگ نہیں کیا گیا ۔
لیکن پھر بھی اس کمرے کو خوبصورت سے سجایا گیا تھا اوپر ایک شیلف پر سٹیل کے برتن ترتیب سے رکھے ہوئے تھے اس کے ٹھیک نیچے چار صندوق اوپر نیچے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے اور ان کے اوپر خوبصورت پھولوں والے کور بھی موجود تھے سامنے ہی لمبی قطار میں تین چارپائیاں بچھائی ہوئی تھیں ۔
ماں جی کے ساتھ والی چارپائی پر اس وقت زنیب بیٹھی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں قمیض تھی جس پر وہ خوبصورت کڑھائی کرنے میں مصروف تھی ۔
کچھ دیر بعد باہر لکڑی کے دروازے پر دستک ہوئی
عمیر بیٹا ہو گا ماں جی چارپائی سے اٹھنے لگیں ۔
ماں جی آپ لیٹی رہیں میں دیکھتی ہوں وہ انہیں منع کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
اچھا بیٹا پھر بھی پوچھ کر دروازہ کھولنا جی ماں جی وہ سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
کون وہ دروازے کے پاس پہنچتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
بھئی عمیر ہوں اس نے کوفت زدہ لہجے میں کہا کیونکہ گھنٹوں انڑویو کے انتظار اور گرمی نے برا حال کر دیا تھا ۔
السلام علیکم ماں جی عمیر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا ۔
وعلیکم السلام بیٹا بیٹی بھائی کے لیے پانی لے کر آؤ ۔
” جی ماں جی ۔”
وہ آتے ہی پاؤں کو سینڈل سے آزاد کرتے ہوئے چارپائی پر لیٹ گیا ۔
بیٹا آج تو بہت تھک گئے ہو ماں جی نے اس کے تھکن ذدہ چہرے کو دیکھا ۔
جی ماں جی انٹرویو کے لیے بہت لوگ آئے ہوئے تھے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ بیٹھ کر ہی تھک گیا ہوں ۔
یہ لیں بھائی سٹیل کے جگ سے لیموں والے پانی سٹیل کے گلاس میں بھرتے ہوئے اس کی جانب بڑھایا ۔
اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گلاس تھاما اور ایک ہی سانس میں پی گیا پھر اس کی جانب گلاس بڑھایا جسے اس نے دوبارہ بھر دیا اس بار گھونٹ گھونٹ پینے لگا ۔
بس اسے گلاس پکڑا کر دوبارہ تکیے پر سر رکھتے ہوئے لیٹ گیا اور چھت پر چلتے پنکھے کو تکنے لگا ۔
ماں جی آپ پیئیں گئیں اس نے جگ میں موجود پانی کو دیکھ کر پوچھا ۔
“نہیں بیٹا ۔” انہوں نے پیار سے اپنی خوبصورت بیٹی کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا ۔
” بھائی انٹرویو کیسا ہوا ؟” وہ جگ رکھ کر واپس آئی اور اس کے ساتھ والی چارپائی پر براجمان ہو گئی ۔
وہ تو ٹھیک ہوا لیکن نوکری مشکل ہے آج کل سفارش اور پیسوں والوں کو نوکری ملتی ہے میرے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں اور غریبوں کو آج کل کوئی نہیں پوچھتا ہے اس نے کروٹ بدلتے ہوئے جواب دیا ۔
“بیٹا یوں اللہ کی رحمت سےمایوس نہیں ہوتے ہیں دیکھنا بیٹا ایک دن تمہیں نوکری مل جائے گی ماں جی نے ہمیشہ کی طرح اسے تسلی دی ۔ ”
ماں جی مایوس نہیں ہوتا اس لیے تو دو سالوں سے انٹرویو دے رہا ہوں میں ویسے آج کل کے معاشرے کی بات کر رہا ہوں اس نے سنجیدگی سے کہا ۔
اچھا بیٹا آرام کر لو کچھ دیر پھر نہا لینا تھکن اتر جائے گی پھر مل کر کھانا کھاتے ہیں صبح بھی ٹھیک طرح سے ناشتہ کر کے نہیں گئے ۔ وہ ہر ماں کی طرح بیٹے کی فکر کرتی ہوئیں بولیں ۔
عمیر کا تعلق ایک درمیانے طبقے کے گھرانے سے ہے وہ اپنی بہن اور ماں کے ساتھ رہتا ہے والد کا انتقال آٹھ سال پہلے ایک حادثے میں ہو گیا تھا اس کے بعد بیوہ ماں نے دونوں کی پڑھائی لوگوں کے کپڑے سی کر اور کچھ بنک میں موجودہ پیسوں سے مکمل کروائی تھی ۔ عمیر ایم بی اے کرنے کے بعد دو سالوں سے نوکری تلاش کر رہا ہے اور ساتھ میں شام کو ایک ٹیوشن سنٹر میں بچوں کو ماہانہ چار ہزار تنخواہ پر پڑھاتا ہے اور بہن زنیب بی اے کرنے کے بعد گھر کے قریب ہی ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف خاموشی سی تھی اس خاموشی کو کبھی کبھی کسی گاڑی یا موٹر سائیکل کی آواز توڑ دیتی وال کلاک اس وقت رات کے گیارہ بجا رہی تھی ۔
عمیر اس وقت رائٹنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھا ایک اور انٹرویو کی تیاری کرنے میں مصروف تھا کہ پلنگ پر موجود سیل فون کی مسلسل بجنے والی بیل نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔
ہوں رات کے اس وقت کون ہو سکتا ہے اس نے سوچا اور رائٹنگ ٹیبل کے سامنے سے اٹھتا ہوا پلنگ کی طرف بڑھ گیا ۔
رمنا کالنگ سیل فون پر جگمگاتا نمبر دیکھ کر بے ساختہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ چھا گئی ۔
ہیلو عمیر کہاں ہوتے ہیں آج کل میں کال کرؤں تو کرؤں تم تو آج کل بات ہی نہیں کرتے ہو مسیجز کا بھی جواب نہیں دے رہے تھے ۔ وہ کال اٹینڈ کرتے ہوئے اس سے پہلے کہ بات شروع کرتا اس نے غصے اور ناراضگی کے ملے جلے جذبات سے کہا ۔
سوری رمنا مصروف ہوں کچھ انٹرویو کی تیاری میں تو تم سے بات نہیں کر سکا ہوں وہ معذرت کرنے لگا ۔
اوکے اس بار میں انڑویو کی وجہ سے صرف تمہیں چھوڑ رہی ہوں وہ خفا سے لہجے میں بولی ۔
“لیکن ایک شرط ہے میری ۔ ”
وہ جانتا تھا کہ اس کی شرط کیا ہو گئی ہر بار کی طرح کیونکہ وہ ناراضگی ہمیشہ ایک ہی شرط پر ختم کرتی تھی کہ کب مل رہے ہو ۔
پھر بھی پھر بھی اس نے ہر بار کی طرح مسکراتے ہوئے پوچھا ” بتاؤ ؟”
“پھر مجھے سے کل مل رہے ہو؟”
کل تو مشکل ہے بات تو کر رہے ہیں ملنے کی کیا ضرورت ہے اس نے معذرت کرنی چاہی ۔
“کیوں مشکل ہے کل ؟” اس نے پوچھا ۔
میرا انٹرویو ہے ویسے بھی تم تو جانتی ہو ۔ ایسے ملنا اچھا بھی نہیں لگتا روز روز اس نے اسے سمجھنے کی کوشش کی تھی کیونکہ ایسا ملنا اسے پسند نہیں تھا ۔
ہوں روز روز کچھ یاد ہو تو دو ماہ پہلے ملے تھے ۔ جانتی تو ہو تم مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ پتہ نہیں کس دور کے لڑکے ہو تم ملنے سے بھی لڑکیوں کی طرح ڈرتے ہو وہ منہ پھلا کر بولی ۔
” لڑکی تم میری عزت ہو اور میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ایسے اچھا لگے گا کبھی کسی ریسٹورنٹ میں تمہارے پاپا یا کوئی جاننے والے تمہیں میرے ساتھ دیکھ لیں تو تمہارے بارے میں کیا سوچیں گئے خود سوچو ایک لڑکی کی عزت بہت نازک ہوتی ہے مجھے تو کچھ نہیں ہو گا ۔” وہ اسے نرم لہجے میں سمجھانے لگا ۔
” اچھا اب زیادہ تقریر تو نہ کرو ۔”
” اوکے جناب نہيں کرتا میں تقریر ۔” اس نے مسکرا کر کہا ۔
اچھا یہ بتاؤ کیسی ہو ۔
” ٹھیک ہوں تم بتاؤ؟”
میں بھی ٹھیک ہوں ۔
“کیا کر رہے تھے ؟”
بس کل ایک انٹرویو ہے اس کی تیاری کر رہا تھا ۔
اور تم کیا کر رہی ہو ۔
میں تمہیں یاد کر رہی تھی وہ شوخ سے لہجے میں بولی ۔
“اچھا جی ۔ ”
جی میں ہی ہمیشہ یاد کرتی ہوں تم نے تو کبھی مجھے یاد ہی نہیں کیا وہ پھر سے شکوہ کرنے لگی ۔
“جناب تمہارا یہ شکوہ بالکل غلط ہے میں تمہیں بھولتا کب ہوں جو یاد کرؤں بس آج کل کچھ مصروف ہوتا ہوں اس لیے بات کرنے کا ٹائم نہیں ملتا ہے ۔”
“تمہیں باتیں خوب بنانی آتی ہیں ۔ ”
ہاہاہاہاہا یہ سچ ہے تمہیں کیسے یقین دلاؤں اس کی بات پر قہقہہ لگایا ۔
مجھے سے مل کر وہ مسکراتی ہوئی بولی ۔
اچھا کل تو میرا انڑویو ہے پھر کسی دن سوچتے ہیں ۔
پھر کسی دن کا کیا مطلب تم ہر بار ایسے کہتے ہو پھر ملتے نہیں وہ ناراضگی سے بولی ۔
نہیں اس بار کل انٹرویو دے کر فری ہوا تو ملوں گا وہ اسے یقین دلانے لگا ۔
” پرامس نا ۔”
جی ہاں پکا پرامس اب پھر بات کرتے ہیں انڑویو کی ابھی تیاری کرنی ہے ۔
“اوکے گڈ نائٹ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہر ہاشم خوبصورت ڈائننگ ہال میں بیٹھے اس وقت ناشتہ پر اپنی بیٹی تانیہ کا انتظار کر رہے تھے ان کی نظریں ہاتھ میں موجود اخبار پر تھیں ۔
“گڈ مارننگ پاپا ۔”وہ چیئر کھنیچ کر ڈائننگ ٹیبل کے سامنے بیٹھتے ہوئے خوشگوار موڈ میں بولی ۔
گڈ مارننگ تانیہ بیٹا انہوں نے اخبار رکھتے ہوئے پیار سے دیکھ کر کہا ۔
آج ہماری بیٹی لیٹ ہو گئی ہے انہوں نے مینگو جوس کا گلاس بھرتے ہوئے پوچھا ۔
“جی پاپا ۔” رات کو کچھ یونیورسٹی کا کام کرتی رہی اس لیے صبح جلدی آنکھ نہیں کھلی آپ نے ناشتہ کر لینا تھا آپ بھی میری وجہ سے آفس سے لیٹ ہو رہے ہوں گے اس نے کچھ شرمندگی سے کہا ۔
بیٹا آپ کے بغیر میں کیسے ناشتہ کر سکتا ہوں ۔ انہوں نے محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اپنی لاڈلی بیٹی سے کہا ۔
جی پاپا اب شروع کریں وہ مسکراتی ہوئی بولی اور ان کو ناشتہ کی طرف متوجہ کیا ۔
اظہر ہاشم اظہر انڈسٹریز کے مالک ہیں ان کا بزنس میں کافی نام ہے بڑے سے خوبصورت بنگلے میں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہتے ہیں ان کی بیوی کا انتقال دس سال پہلے ہو چکا ہے اب وہ دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کا سہارا ہیں تانیہ یونیورسٹی میں لیکچرر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو سر کوئی عمیر صاحب آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔
اسد اس وقت آفس میں بیٹھا ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھا کہ اس کی سیکرٹری نے اطلاع دی ۔
” جی بھیج دیں ۔ ”
“جی سر ۔”
سر اب آپ جا سکتے ہیں سیکرٹری اپنے سامنے کھڑے خوبصورت نقوش والے لڑکے سے مخاطب ہوئی ۔
السلام علیکم میرے یار کیا حال ہے عمیر گلاس ڈور کھولتے ہوئے داخل ہوا اور پر تکلف لہجے میں بولا ۔
“وعلیکم السلام میرے یار ۔” اسد نے چیئر سے اٹھ کر گلے ملتے ہوئے خوشگوار موڈ میں کہا ۔
بیٹھو میرے یار میں تو ٹھیک ہوں تم سناؤ وہ خود بھی اسے کے سامنے چئیر پر بیٹھ گیا ۔
“بس اللہ کا شکر ہے ۔”
“اتنے دن بعد کیسے آنا ہوا ۔” اسے دیکھ کر سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔
بس اسد یار اس طرف اتنا آتا نہیں ہوں آج ایک انٹرویو دے کر تیرے آفس کے سامنے سے گزار رہا تھا سوچا تجھ سے ملتا جاؤں یہ تو اچھا کیا عمیر آج میں تجھے کال کرنے والا تھا ک آج ایک ساتھ لانچ کرتے ہیں اس بہانے ملاقات بھی ہو جائے گئی ورنہ تو ملتا ہی کب ہے اس نے نہ ملنے کی شکایت کی ۔
“اور سناؤ انٹرویو کیسا ہوا ؟”
اچھا ہو گیا ہے کوئی اچھا آدمی تھا امید تو اس بار ہے نوکری لگ جائے گی وہ اسے تفصیل سے بتانے لگا ۔
چلو اچھا ہے تیری نوکری لگ جائے میں کتنی بار تجھے کہہ چکا ہوں میرے آفس میں تو کام کرتا نہیں ہے اس نے شکوہ کیا ۔
تجھے تو پتا ہے احسان سفارش یہ سب کچھ مجھے پسند نہیں ہے اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
میں نے بھی کتنی بار کہا ہے احسان کی کیا بات ہے اپنا بھائی ہے ۔
بس یار باتوں میں تجھ سے چائے پانی کا بھی نہیں پوچھا تو بھی سوچ رہا ہو گا کیسا دوست ہے اتنی گرمی میں پانی تک نہیں پوچھا وہ شرمندہ سے لہجے میں بولا ۔
چھوڑ یار تیرے آفس میں اے سی پر بیٹھا ہوں ساری گرمی چلی گئی ویسے بھی ابھی کولڈڈرنک پی کر آیا ہوں ۔
چلو یار پانی کو چھوڑو لنچ کرنے جاتے ہیں ایک تو بج رہا ہے اس نے وال کلاک کو دیکھ کر کہا ۔ اچھا چلو پھر وہ سامنے ٹیبل سے گاڑی کی چابی اور سیل فون اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔
عمیر اور اسد دونوں کالج کے زمانے کے اچھے دوست ہیں پھر ایک ہی یونیورسٹی میں دونوں نے تعلیم مکمل کی اسد نے ایم بی اے کرنے کے بعد اپنے پاپا کا آفس سنبھال لیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں جی آپ یہ سلائی مشین کو چھوڑ کیوں نہیں دیتی ہیں میں بچپن سے آپ کو یہی کام کرتے دیکھتا آیا ہوں اب تو زنیب اور میں زیادہ نہیں تو اتنا تو کما لیتے ہیں گھر کا گزارا آرام سے ہو سکتا ہے ویسے بھی انشاءاللہ میری نوکری بہت جلدی لگ جائے گئی آج جس آفس میں انٹرویو دے کر آیا ہوں وہاں کے باس مجھے بہت اچھے انسان لگے ہیں کیا پتہ کچھ دنوں تک میری نوکری لگ جائے وہ شام کے اس وقت چارپائی پر لیٹا آسمان پر موجود کبوتروں کی اڑان کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔
بیٹا سارے گھر کے کام زنیب کرتی ہے اور سارا دن مجھے کوئی کام نہیں ہوتا بس اس مشین کی عادت سے ہو گئی ہے وقت بھی گزر جاتا ہے اور اب تو ویسے بھی تم دونوں کے کہنے پر پڑوسیوں کے کپڑے تو سیتی ہوں کون سا زیادہ کام کرتی ہوں وہ سلائی مشین چلاتی ہوئیں بولیں ۔
خالہ امی پوچھ رہی ہیں میرے کپڑے سل گئے ہیں تو دے دیں پڑوسیوں کا ایک بچہ لکڑی کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے بولا تھا ۔ بیٹھ جاؤ بیٹا تمہاری امی کے کپڑے سل گئے ہیں ابھی دیتی ہوں ماں جی اسے دیکھ کر پیار سے بولیں ۔
زنیب بیٹی یہ سامنے کمرے میں جو چارپائی پر شاپر میں کپڑے پڑے ہیں یہ تو اٹھا دؤ ماں جی نے زنیب کو آواز دے کر کہا ۔
جی ماں جی ابھی لے کر آئی ۔ زنیب کچن میں سالن بنانے میں مصروف تھی چولہے کی آنچ دھیمی کرتے ہوئے بولی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ سے ہماری بیٹی کی ایجوکیشن تو کمپلیٹ ہو گئی ہے میں اب اس کی شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔
“آپ کا کیا خیال ہے ؟”
زبیر نیازی چائے پیتے ہوئے زبیدہ بیگم سے مخاطب ہوئے ۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے بارش کے بعد بھی آسمان پر بادلوں کا راج تھا ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی وہ دونوں اس وقت لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔
زبیر نیازی کا اپنا بزنس ہے امیر طبقے سے ان کا تعلق ہے ان کی ایک اکلوتی بیٹی رمنا ہے جس کی شادی کے بارے میں وہ آج کل سوچ رہے تھے ۔
بات تو آپ کی ٹھیک ہے بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اچھی بات ہے لیکن لڑکا ہماری چاند سی بیٹی کے قابل ہونا چاہیے نہ ہی آپ کے خاندان میں رمنا کے قابل کوئی لڑکا موجود ہے نا میرے خاندان میں کہ جس سے رمنا بیٹی کی شادی کی جائے وہ فکر مندی سے بولیں ۔
بھئی زبیدہ بیگم اس کی فکر آپ چھوڑ دیں وہ چائے کا کپ رکھتے ہوئے اطمينان سے بولے ۔ ہماری بیٹی کے لیے جب اتنا اچھا رشتہ موجود ہے تو ہمیں تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
جی کون سا رشتہ میری نظر میں تو ایسا کوئی نہیں ہے وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتی ہوئیں بولیں ۔
بھئی میرے دوست ڈاکٹر خالد کا ماشاءاللہ سے شہروز بیٹا جو ہے ایک دو بار خالد نے مجھے سے بات بھی کی ہے کہ وہ رمنا کو اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں ۔ میں ہی آپ سے بات کرنا بھول جاتا ہوں ۔
ماشاءاللہ سے شہروز بیٹا تو بہت اچھا ہے میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیا زبیدہ بیگم بھی خوشی سے بولیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز نے ہر روز کی طرح کار آفس کی پارکنگ میں روکی تھی کار کا دروازہ کھول کر ساتھ والی سیٹ سے بیگ اٹھا کر وہ مضوبطی سے قدم اٹھاتے ہوئے آفس میں داخل ہوا تھا بلیو تھری پیس سوٹ میں ملبوس شہروز پھر پور اعتماد شخصیت کا مالک تھا ۔ ملازمین اس کو دیکھتے ہی ادب سے سلام کر رہے تھے وہ سر خم کر کے ان کو سلام کا جواب دیتا ہوا گلاس ڈور کھول کر اپنے کیبن میں داخل ہوا اور چئیر کو سنبھالتے ہوئے بیٹھا تھا ۔
کچھ دیر بعد ہی منیجر اجازت لیتے ہوئے داخل ہوا تھا ۔
“بیٹھ جائیں منیجر صاحب ۔ ”
شکریہ سر وہ اس کے سامنے چئیر پر بیٹھ گیا ۔ میٹنگ کے سلسلے میں وہ کچھ ڈسکس کرنے لگے اور سر اس فائل کو آپ ایک بار دیکھ کر سائن کر دیں منیجر نے فائل کھول کر اسے کے سامنے رکھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں جی …. ماں جی …. زنیب کہاں ہو ۔
اف بھائی کیوں شور مچا رکھا ہے زنیب کمرے سے باہر آ کر بولی ۔
وہ اس وقت کچے صحن میں کھڑا آوازیں دے رہا تھا ۔
زنیب آج میں بہت خوش ہوں پہلے یہ بتاؤ ماں جی کہاں ہے اس نے اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے خوشی سے بھرپور لہجے میں پوچھا ۔
وہ تو ساتھ والوں کے گھر گئی ہیں ۔ پہلے مجھے بتائیں بات کیا ہے اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
زنیب مجھے نوکری مل گئی ہے وہ بھی اظہر انڈسٹریز میں اس کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی ۔
بھائی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے وہ خوش ہوتے ہوئے بولی اور اب آپ اندر کمرے میں آجائیں باہر دھوپ پر کھڑے ہیں ۔
اب اس خوشی میں مٹھائی کب کھلا رہے ہیں وہ چارپائی پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔
بھئی یہ مٹھائی لے آؤں ناں تمہارے اور ماں جی کے لیے وہ چارپائی پر بیٹھتے ہوئے شاپر میں سے مٹھائی کا ڈبہ نکالتے ہوئے خوشی سے بولا تمہارے پسند کے گلاب جامن اور برفی لایا ہوں ۔
آج دو سال بعد آخر اسے نوکری مل گئی تھی آج اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔
بھائی آج میں بھی اسی خوشی میں آپ کی پسند کا کھانا بناؤں گئی وہ برفی کھاتے ہوئے پیار سے اپنے بھائی کو دیکھ کر بولی ۔
بھئی کیا باتیں ہو رہی ہیں بہن بھائی کی آپس میں ماں جی کمرے میں داخل ہوتیں ہوئیں بولیں ۔
ماں جی پہلے آپ میرے پاس بیٹھیں وہ ان کو نرمی سے کندھوں سے پکڑ کر اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے بولا ۔ یہ لو بس بیٹھ گئی اب بتاؤ ماں جی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔
یہ منہ میٹھا کریں وہ اپنے ہاتھ سے ان کو گلاب جامن کھلاتے ہوئے کہنے لگا ۔ زنیب کے چہرے پر بھی اس وقت مسکراہٹ تھی ۔
مٹھائی تو کھا لی لیکن یہ تو بتاؤ کسی خوشی میں کھلائی ہے وہ پیار سے اپنے بیٹے کو دیکھتی ہوئیں بولیں ۔
“ماں جی آپ بوجھیں آج ؟”
ہوں مجھے تو آج اپنے بیٹے کی خوشی دیکھ کر لگتا ہے کہ میرے پیارے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے ۔
بالکل ٹھیک اندازہ لگایا ماں جی اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
یااللہ تیرا لاکھ شکر ہے کہ میرے بیٹے کو نوکری مل گئی ہے پہلے میں شکرانے کے نفل ادا کرؤں گئی اور کل اس خوش میں پورے محلے میں چاولوں کی دیگ بانٹوں گئی وہ پیار سے اپنے بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہوئیں خوشی سے بولیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...